سوال:
عموماً پرچون وغیرہ کی دوکانوں میں ہول سیلر ہزاروں کا اپنا سامان بغیر ثمن کے ادھار دے جاتے ہیں ، سامان فروخت ہوجانے کے بعد قیمت ادا کرنی ہوتی ہے ، کیا دوکان میں موجود اس طرح کے ادھار سامان پر زکات ہوگی جس پر قبضہ پرچون فروش کا ہے اور ملکیت ہول سیلر کی ۔
البتہ سامان چوری ہوجانے یا کسی آفت سے برباد ہونے کی صورت میں اپنا نقصان ہے ، ہول سیلر کو قیمت دینی ہی ہے ۔
امیر اللہ احمد پور اسنا گھوسی۔
جواب :
یہ درحقیقت ادھار خریداری کا معاملہ ہے اس لئے اس کی زکاۃ دکاندار کو ادا کرنا ہے اور اس کا ثمن اس کے ذمے دین شمار ہوگا اور زکاۃ کی ادائیگی کے وقت سامان تجارت اور کرنسی وغیرہ سے اس سال ادا طلب دین کو منہا کر دیا جائے گا اور اسے الگ کرنے کے بعد نصاب کے بقدر مال موجود ہے تو بقیہ میں سے زکاۃ ادا کی جائے گی ورنہ زکاۃ واجب نہیں ہوگی ۔
(ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا – رحمهم الله تعالى -: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن البيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة، وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد، وهو حال أو مؤجل أو لله – تعالى – كدين الزكاة فإن كانزكاة سائمة يمنع وجوب الزكاة بلا خلاف بين أصحابنا – رحمهم الله تعالى – سواء كان ذلك في العين بأن كان العين قائما أو في الذمة باستهلاك النصاب، وإن كان زكاة الأثمان وزكاة عروض التجارة ففيها خلاف بين أصحابنا فعند أبي حنيفة ومحمد – رحمهما الله تعالى – الجواب فيه كالجواب في السوائم.”
(الهندية 172/1)
ولی اللہ مجید قاسمی ۔