دعوت دین اور تعلیم کے لیے انٹرنیٹ سے استفادہ
ولی ﷲ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو ۔
وہ صرف اللہ ہی ہے جو کسی چیز کو وجود میں لانے کے لئے سابق نمونے کے بغیر اس کی منصوبہ سازی کرتاہے ، خاکہ و نقشہ بناتاہے اور پھر اس کے مطابق اس کا ڈھانچہ تیار کرتاہے اور اس کے بعد صورت گری کرتا اور آخری رنگ و روپ دیتا ہے اور وہ بھی اس طرح سے کہ ہر جنس ہر نوع اور ہر فرد عادات وصفات اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے ممتاز ہے ،اربوں کھربوں مخلوقات میں کسی کی شکل دوسرے سے ہوبہو نہیں ملتی ہے ۔اور کیس چیز کا میٹیریل بھی خود اسی کا پیدا کردہ ہے جس کے ذریعے کسی چیز کو عدم سے وجود بخشتا ہے ۔
اس کے برخلاف انسان کا کوئی بھی منصوبہ ایسا نہیں جو سابق نمونے سے اخذ نہ کیا گیا ہووہ خود کوئی مادہ ایجاد نہیں کرتا ہے بلکہ اللہ کے پیدا کردہ میٹیریل کو استعمال کرتا ہے اور کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا ہے بلکہ جو کچھ موجود ہے اسی کو جوڑ جاڑ کے ایک شکل بناتا ہے اور صورت گری میں بھی اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کی نقل کرتا ہے ۔ارشاد ربانی ہے:
ھو اللہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی۔(سورہ الحشر :24)
وہ اللہ ہی ہے نقشہ بنانے والا،وجود میں لانے والا،صورت گری کرنے والا،اس کے لئے ساری اچھی صفتیں ہیں۔
جمادات و نباتات کی تصویر:
اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ جمادات و نباتات کی تصویر بنانا اور اسے دیکھنا اور گھروں میں رکھنا جائز ہے جیسے کہ پہاڑ، سمندر، آسمان ،سورج ،چاند اور درختوں وغیرہ کی تصویر کشی، ایسے ہی انسانوں کی بنائی ہوئی عمارتوں، گاڑیوں یا کشتیوں وغیرہ کی تصویر سازی جائز ہے صرف امام مجاہد سے پھلدار درخت کی تصویر کی حرمت منقول ہے اور حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ شاید ان کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی یہ حدیث ہے:
” سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله عز وجل ومن اظلم ممن ذهب يخلق كخلقي فليخلقوا ذرة أو ليخلقوا حبة أو شعيرة(صحيح بخاري: ٧٥٥٩،صحيح مسلم: ٢١١١)
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اللّٰہ عزوجل فرماتے ہیں کہ اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری طرح تخلیق کرنے چلے، یہ لوگ ایک چیونٹی، دانہ یا جَو پیدا کر کے دکھائیں۔
اس حدیث میں ذرۃ(چیونٹی) جاندار اور جو اور گیہوں کے دانے سے کھائی جانے والی چیزوں کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ انسانوں میں جمادات و نباتات پیدا کرنے کی طاقت بھی نہیں ہے، جاندار کو پیدا کرنا تو بہت دور کی بات ہے اور غیر جاندار اور غیر پھل دار کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے لہذا ان دو کے علاوہ چیزیں حرمت سے خارج ہونگی(دیکھیے: الموسوعة الفقهية الكويتية ٩٨/١٢ ط: وزارة الاوقاف الكويت ٢٠١٢ء)لیکن ظاہر ہے کہ حدیث میں انہیں پیدا کرنا مقصود ہے نہ کہ ان کی تصویر بنانا(١) ایسے ہی حنابلہ کے یہاں ایک قول یہ ہے کہ نبات و اشجار کی تصویر مکروہ ہے لیکن ان کے یہاں اس پر فتوی نہیں دیا جاتا. (الآداب الشرعية 158/4.ط۔الرسالہ ،بیروت،لبنان،2015ء)
جمہور کی دلیل یہ احادیث ہیں:
١_حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے سنا ہے
” من صور صورة في الدنيا كلف يوم القيامه أن ينفخ فيه الروح وليس بنافخ (صحيح بخاري: ٥٩٦٣)
جو شخص دنیا میں تصویر بنائے گا اسے آخرت میں اس کے اندر روح ڈالنے کا پابند بنایا جائے گا حالانکہ وہ ایسا نہیں کر پائے گا۔
٢_حضرت سعید بن ابی حسن کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں ان کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہا کہ میری روزی روٹی میرے ہاتھ کی کاری گری سے متعلق ہے، میں تصویریں بناتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا :میں تم سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی بات بیان کروں گا. میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
” من صور صورة فإن الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح وليس بنافخ أبداً “
جو شخص کوئی تصویر بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس عذاب میں مبتلا کریں گے یہاں تک کہ وہ اس میں روح پھونک دے اور وہ کبھی بھی ایسا نہیں کر پائیگا۔
یہ سن کر اس شخص کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور چہرے کا رنگ پیلا ہو گیا حضرت ابن عباس نے فرمایا اگر تم تصویر بنانا ہی چاہتے ہو تو درخت اور ایسی چیز کی تصویر بناؤ جس میں روح نہ ہو(صحيح بخاري: ٢٢٢٥)۔
٣_ حضرت ابو ہریرہ سے منقول روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین نے کہا:
” فمُر برأس التمثال الذي في البيت يقطع فيصير كهيئة الشجرة“ (أبوداؤد: ٤١٥٨،ترمذي: ٢٨٠٦)
گھر میں موجود تصویر کے سر کو کاٹنے کا حکم دیجیے تاکہ وہ درخت کی طرح ہو جائے۔ مذکور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر جاندار جمادات و نباتات وغیرہ کی تصویر میں کوئی قباحت نہیں ہے.
جاندار کا مجسمہ:
اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ بت بنانا حرام ہے اور اس پر بھی تقریبا تمام فقہاء متفق ہیں کہ انسان و حیوان کا مجسمہ حرام ہے کہ یہ شرک و بت پرستی کے در آنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، گذشتہ قوموں میں اسی راستے سے بت پرستی داخل ہوئی تھی۔ صرف بچوں کے لیے بے وقعت کھلونوں کی بعض فقہاء کے یہاں اجازت ہے اس کے برخلاف بعض نامعلوم لوگوں کا خیال ہے کہ ( یعنی اس کے قائلین کا کچھ اتا پتا نہیں ہے)صرف بت سازی حرام ہے بتوں کے علاوہ دوسرے مجسمے جائز ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
١_اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الفاظ میں بت پرستی کی قباحت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا
” قال اتعبدون ما تنحتون والله خلقكم وما تعملون (سورةالصافات: ٩٥-٩٦)
حضرت ابراہیم نے کہا: کیا تم ان بتوں کو پوجتے ہو جنہیں تم خود تراشتے ہو؟ حالانکہ اللّٰہ نے تمہیں بھی پیدا کیا اور جو کچھ تم بناتے ہو اس کو بھی۔
٢_اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
” ان إلله ورسوله حرم بيع الخمر والميته والخنزير والأصنام(صحيح بخاري:٢٢٣٦،صحيح مسلم:١٥٨١)
اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کے بیچنے کو حرام قرار دیا ہے
٣_اور قران حکیم سے بتوں کے علاوہ دوسرے مجسموں کی اجازت معلوم ہوتی ہے چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے میں ہے:
”يعملون له ما يشاء من محاریب وتماثيل وجفان كالجواب وقدور راسيٰت“ (سورة سباء: ١٣)
وہ جنات سلیمان علیہ السلام کے لیے جو چاہتے بنا دیا کرتے تھے، اونچی اونچی عمارتیں، مجسمے، حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور زمین میں جمی ہوئی دیگیں۔
اور گذشتہ انبیاء کی شریعت ہمارے لیے بھی دلیل وحجت ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده۔
یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اللہ نے ہدایت سے نوازا تھا، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔(سورةالانعام: ٩٠)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ان سے تانبے کے مجسمے بنوایا کرتے تھے اور زجاج کا کہنا ہے کہ وہ مجسمے لکڑی اور شیشے کے ہوا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب تصویر والے گھروں میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ہیں تو پھر وہ مجسمے کیوں بنوایا کرتے تھے؟ جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا ان کی شریعت میں جائز تھا. وہ لوگ انبیاء اور نیک لوگوں کے عبادت کی ہیئت پر مجسمے بنایا کرتے تھے تاکہ انہی کی طرح سے وہ بھی عبادت کر سکیں اور ابو العالیہ کہتے ہیں کہ ان کی شریعت میں مجسمہ بنانا حرام نہیں تھا اور ہماری شریعت میں اس سے منع کر دیا گیا ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ غیر جاندار کے مجسمے ہوا کرتے تھے اور جب لفظ میں ایک دوسرے معنی کا احتمال ہے تو اس معنی کو مراد لینا متعین نہیں جو باعث اشکال ہے . اور امام بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ کے حوالے سے ملک حبشہ کے چرچ اور اس میں موجود تصویروں کے واقعے میں لکھا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا:
”كانوا إذا مات فيهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصورة أولئك شِرار الخلق عند الله۔
جب ان میں کا کوئی نیک آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنایا بنا دیتے اور اس میں ان کی تصویر بنا دیتے یہ اللہ کی نگاہ میں بدترین لوگ ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان کی شریعت میں جاندار کی تصویر جائز ہوتی تو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ تصویر بنانے والے کو بدترین انسان نہیں کہتے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جاندار کی تصویر ایک نئی چیز ہے جسے تصویر کی پوجا کرنے والوں نے ایجاد کیا ہے(فتح الباري ٤٦٨/١٠،حديث٥٩٤٩۔ط: مکتبہ اشرفية ديوبند)
اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھا ہے ظاہر ہے کہ تصویریں بے جان چیزوں کی ہوتی تھیں جیسے درختوں اور عمارتوں وغیرہ کی اس لیے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ جاندار کی تصویریں بنانا حضرت سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں بھی جائز نہیں تھا (آسان ترجمہ قرآن).
جاندار کی تصویر :
کاغذ کپڑے یا دیوار وغیرہ پر بنائی جانے والی تصویریں اگر معبودان باطلہ کی ہوں تو ان کی حرمت پر بھی اتفاق ہے اور اسی طرح کی تصویروں کے بنانے والوں کے بارے میں حدیث میں کہا گیا ہے
” إن اشد الناس عذابا عند الله يوم القيامه المصورون (صحيح بخاري٥٩٥٠) اللہ کے یہاں قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو دیاجائے گا۔
علامہ طبری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ایسی چیزوں کی تصویریں بناتا ہے جن کی پرستش کی جاتی ہے اور وہ اس سے واقف بھی ہو اور دانستہ طور پر اسی مقصد کے لیے تصویریں بناتا ہے تو ایسے شخص کی تکفیر کی جائے گی اور ایسے شخص کے لیے کوئی بعید نہیں ہے کہ اسے آل فرعون کی طرح شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے۔ رہا وہ جو اس مقصد سے تصویریں نہیں بناتا ہے تو وہ صرف گنہگار ہوگا (فتح الباری ٤٦٩/١٠،حديث٥٩٥١) اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ جاندار کی تصویر بنانا زیادہ سے زیادہ گناہ کبیرہ ہے لیکن شرک، قتل ناحق اور زنا سے بڑھ کر نہیں ہے پھر اس کا مرتکب سب سے زیادہ عذاب کا مستحق کیوں کر ہوگا؟
نیز اگر کوئی شخص عام تصویریں اللہ کی صفت تخلیق کی نقالی کے مقصد سے بناتا ہو اور صفت تخلیق میں اللہ کی کاریگری کو چیلنج کرتا ہو اور اس خام خیالی میں مبتلا ہو کہ وہ بھی اللہ کی طرح سے تخلیق کرتا ہے یعنی اس بات کا وہ مدعی ہو کہ وہ بھی خالق کی طرح سے تخلیق و ایجاد کا کام کرتا ہے تو ایسا شخص بھی اپنے فاسد قصد و ارادے کی وجہ سے دین سے خارج ہو جاتا ہے اور وہ بھی شدید ترین عذاب کا مستحق ہوگا(٢) چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں:
” قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم من سفر وقد سترت بقرام لي على سهوة فيها تماثيل فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أشد الناس عذابا يوم القيامه الذين يضاهون بخلق الله(صحيح بخاري:٦١٠٩) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے اور میں نے گھر کے ایک طاق پر تصویردار پردہ ڈال رکھا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو پھاڑ دیا اور فرمایا قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقالی کرتے ہیں۔
اور حضرت ابو ہریرہ سے منقول روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” ومن اظلم ممن ذهب يخلق كخلقي فليخلقوا حبة وليخلقوا ذرة(صحيح بخاري:٥٩٥٣)
اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری طرح تخلیق کرنے چلے، اسے ایک دانہ یا ایک چیونٹی پیدا کر کے دکھانا چاہیے۔
ان احادیث کے ظاہر کا تقاضہ ہے کہ غیر جاندار جیسے سورج،چاند،درخت اور پہاڑ وغیرہ کی تصویریں بھی ممنوع ہوں کیونکہ یہ سب اللہ کی تخلیقات ہیں اور ان کی تصویر بنانے والا اللہ تعالی کی صفت تخلیق کی مشابہت اختیار کرتا ہے نیز لڑکیوں کے لیے گڑیا اور جسم کا کٹا ہوا حصہ بھی حرام ہونا چاہیے حالانکہ نباتات و جمادات وغیرہ کی تصویر بالاتفاق حرمت کے دائرے سے خارج ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ محض ظاہری مشابہت مراد نہیں ہے بلکہ مراد وہ شخص ہے جو تخلیق و ایجاد میں ہمسری کا دعوی کرے اور اسی بنیاد پر انہیں چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ ایک چیونٹی اور ایک دانہ پیدا کر کے دکھائیں۔ نیز قیامت کے دن ان سے اس میں روح پھونکنے کے لیے کہا جائےگا علامہ نووی لکھتے ہیں:
شدید ترین عذاب والی روایت اس صورت پر محمول ہے کہ جبکہ پرستش کے مقصد سے تصویر بنائی جائے اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کی تخلیق کے ساتھ مشابہت کا ارادہ رکھے اور اس کا عقیدہ رکھے کہ وہ اللہ تعالی جیسی تخلیق کر سکتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے اور کافروں جیسے سخت ترین عذاب کا حقدار ہوگا بلکہ کفر میں اضافہ کی وجہ سے اس کے عذاب میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا (الموسوعة الفقهية ١٠٥/١٢)
اس تاویل کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس طرح کا جملہ ان لوگوں کے لیے استعمال کیا ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالی کی طرح سے وحی نازل کر سکتے ہیں فرمان باری تعالی ہے:
” ومن اظلم ممن افترى على الله كذبا أو قال أوحي الي ولم يوح اليه شيء ومن قال ساُنزل مثل ما انزل الله (سورةالانعام_٩٣)
اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہیں کی گئی ہے اور اسی طرح سے وہ جو یہ کہتے ہیں کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کروں گا جیسا اللہ نے نازل کیا ہے۔
یعنی یہ سخت وعید اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے امر و وحی میں مساوات کا دعوی کرے اور یہی بات حدیث میں اس شخص کے لیے کہی گئی ہے جو صفت تخلیق میں ہمسری کا مدعی ہو اور دونوں ہی سخت ترین عذاب کے مستحق ہوں گے کیونکہ امرو وحی اور تخلیق و ایجاد الوہیت کی خصوصیات ہیں۔ (الموسوعة الفقهية: ١٠٥/١٢)
اور ان لوگوں کی تصویر کی حرمت پر بھی اتفاق ہے جنہیں مذہبی یا دنیاوی لحاظ سے مقدس و محترم اور قابلِ تعظیم سمجھا جاتا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور بعد کے زمانے میں زیادہ تر تصویریں عیسائیوں اور مجوسیوں کی بنائی ہوئی ہوتی تھیں جنہیں عقیدت و تقدس کے جذبے سے بنایا جاتا تھا ابوالضحی کہتے ہیں کہ میں مسروق کے ساتھ ایک گھر میں تھا جس میں تصویریں تھیں مسروق نے مجھ سے کہا :کیا یہ کسری کی تصویر ہے ؟میں نے کہا :نہیں . یہ حضرت مریم کی تصویر ہے اور یہ سن کر مسروق نے کہا میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”إن اشد الناس عذابا يوم القيامه المصورون“ اللہ تعالی کے یہاں قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا(صحيح بخاري:٥٩٥٩،صحيح مسلم:٢٠١٩واللفظ له)
اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں گویا کہ حضرت مسروق نے خیال کیا کہ وہ تصویر کسی مجوسی کی بنائی ہوئی ہے اور وہ لوگ اپنے بادشاہوں کی تصویریں بنایا کرتے تھے یہاں تک کہ برتنوں پر بھی۔ مگر معلوم ہوا کہ وہ تصویر کسی نصرانی کی بنائی ہوئی ہے اس لیے کہ وہ لوگ حضرت مریم اور حضرت عیسی علیہما السلام وغیرہ کی تصویریں بنایا کرتے اور ان کی تصویروں کی پرستش کرتے تھے(فتح الباري ٤٦٨/١٠)
غرضیکہ تصویر سازی غیر اللہ کی تعظیم میں غلو کا وسیلہ اور ذریعہ ہے یہاں تک کہ اس راستے سے معبودان باطلہ کی پرستش ہونے لگتی ہے خود عربوں میں اس کا رواج تھا چنانچہ علامہ ابن عربی لکھتے ہیں:
ہماری شریعت میں تصویر کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ عربوں میں بت پرستی کا رواج تھا اور وہ لوگ تصویر بنا کر اس کی پوجا کیا کرتے تھے اللہ تعالی نے بت پرستی کے اس ذریعے کو کاٹ دیا اور شرک کے داخل ہونے کے دروازے کو بند کر دیا۔(احكام القرآن ١٥٨٨/٤،الموسوعة الفقهية ١٠٥/١٢)
اس کی تائید صحیح بخاری میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ ود ،سواع، یغوث، یعوق، نسر یہ سب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کا نام ہے جب ان کی وفات ہوگئی تو شیطان نے ان کی قوم کے لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ جن مجلسوں اور محفلوں میں یہ لوگ بیٹھتے تھے وہاں ان کے مجسمے نصب کردو تاکہ ان کی یاد باقی رہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی اور جب ایک نسل ختم ہو گئی اور علم مٹ گیا تو ان کی عبادت کی جانے لگی(صحیح بخاري: ٤٩٢٠)
ایسی تصویریں جو غیر مجسم اور غیر سایہ دار ہوں لیکن وہ اللہ کی صفت تخلیق کے ساتھ ہمسری کے مقصد سے نہ بنائی جائیں اور نہ اس سے عقیدت اور تقدیس و تعظیم کے جذبات وابستہ ہوں تو ان کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ جاندار کی تصویر بہر صورت ممنوع ہے خواہ مجسم اور سایہ دار ہو اور غیر سایہ دار، کپڑے یا کاغذ وغیرہ پر بنائے جائیں یا دیوار اور مکان پر بےحیثیت اور بے وقعت ہو یا قابل احترام اور باعظمت۔
حنفیہ شافعیہ اور ایک روایت کے مطابق حنابلہ اسی کے قائل ہیں بلکہ امام نووی نے اس پر اجماع کا دعوی کیا ہے اور اس کے برخلاف نقطہ نظر کو باطل قرار دیا ہے لیکن حنفیہ میں سے علامہ ابن نجیم نے اس دعوے پر شک کا اظہار کیا ہے (الموسوعۃ الفقہیۃ: ١٠٢/١٢) اور حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اسے باطل کہنا محل نظر ہے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اس کے قائل قاسم بن محمد ہیں جو مدینہ کے نمایاں فقہاء میں سے ایک اور اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں میں سے تھے اور خود انہوں نے حضرت عائشہ سے ممانعت کی حدیث نقل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تاویل کیا کرتے تھے (فتح الباری ٤٧٥/١٠ حدیث ٥٩٥٤)
واضح ہے کہ قاسم بن محمد حضرت عائشہ کے پروردہ اور ان کے علوم کے امین تھے ۔
نیز کہتے ہیں اجماع کا دعوی بھی قابل گرفت ہے کیونکہ حنابلہ اس کے قائل ہیں کہ ایسی تصویر جائز ہے جو کپڑے پر ہو اور اسے پردہ کے طور پر لٹکایا جائے گا اور اگر اس سے دیوار ڈھانک دی جائے تو ممنوع ہے (فتح الباری ٤٧٥/١٠)
اور موسوعہ فقہیہ کہ مرتب نے لکھا ہے کہ مالکیہ کے یہاں جاندار کی غیر سایہ دار تصویر حرام نہیں ہے اور مذہب مالکی میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے(الموسوعة الفقهية ١٠٢/١٢)
جمہور کے دلائل:
١_حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سفر وقد سترت بقرام لي على سهوه فيها تماثيل فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم هتكه وفي رواية دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وفي البيت قرام فيه صور فتلون وجهه ثم تناول الستر فهتكه وقال إن شد الناس عذابا يوم القيامه الذين يضاهون بخلق قالت فجعلته وسادة او وسادتين (صحيح البخاري:٥٩٥٤،٦١٠٩_مسلم:٢٠١٧)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے اور میں نے الماری پر تصویر دار پردہ ڈال رکھا تھا آپ نے جب اسے دیکھا تو اسے پھاڑ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور گھر میں ایک پردہ تھا جس میں تصویریں تھیں جسے دیکھ کر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور اسے لے کر پھاڑ دیا اور فرمایا : قیامت میں سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقالی کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے ایک یا دو تکیہ بنا لیا۔
یہی روایت مسند احمد میں ان الفاظ کے ساتھ ہے :
” قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم من سفر وقد اشتريت نمطا فيه صورة فسترته على سهوة بيتي فلما دخل كره ما صنعت وقال أتسترين الجدر يا عائشة ؟! فطرحته فقطعته مرفقتين فقد رايته متكأ على احداهما وفيها صورة ( مسند احمد: ٢٦١٠٣)
رسول ﷲ ﷺ ایک سفر سے واپس آئے ،میں نے ایک تصویر دار پردہ خرید رکھا تھا جس سے میں نے اپنے گھر کی الماری کو ڈھانک دیا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو میں نے جو کچھ کیا تھا اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا۔ آپ نے فرمایا: عائشہ! کیا تم دیواروں کو ڈھانکتی ہو ؟میں نے اسے وہاں سے ہٹا دیا اور اس سے دو تکئے بنا لیے۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے ایک پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جبکہ اس میں تصویر موجود تھی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ حدیث کسی واقعہ کے بیان کے بغیر ان الفاظ میں منقول ہے :
”إن اشد الناس عذابا عند الله يوم القيامه المصورون“ (صحيح بخاري ٥٩٥٠)
٢_ حضرت عائشہ سے ایک روایت اس طرح مروی ہے:
قدم النبي صلى الله عليه وسلم من سفر وعلقت دُرنُوكًا فيه تماثيل فامرني ان انزعه فنزعته۔(بخاري ٥٩٥٥)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے اور میں نے تصویر دار پردہ لٹکا رکھا تھا آپ نے مجھے اس کے ہٹانے کا حکم دیا اور میں نے اسے ہٹا دیا ۔
وفي رواية مسلم وقد سترت بابي دُرنُوكًا فيه الخيل ذوات الأجنحة فامرني فنزعته…(مسلم ٢١٠٧)
میں نے اپنے دروازے پر پردہ لٹکا رکھا تھا جس میں پردار گھوڑے کی تصویر تھی۔ بظاہر محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں احادیث میں ایک ہی واقعہ کو بیان کیا گیا ہے
٣_نیز وہ کہتی ہیں :
”اشتریت نمرقة فيها تصاوير فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخله فعرفت في وجهه الكراهية فقلت يا رسول الله اتوب الى الله والى رسوله صلى الله عليه وسلم ماذا أذنبت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بال هذه النمرقة فقلت اشتريتها لتقعد عليها وتوسدها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن اصحاب هذه الصور يوم القيامة يعذبون فيقال لهم أحيوا ماخلقتم(صحيح بخاري ٢١٠٥)
میں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصویریں تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے میں نے آپ کے چہرے سے ناگواری کے آثار محسوس کر لیے۔ عرض کیا :اللہ کے رسول! میں اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کر رہی ہوں ،میری غلطی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ تکیہ کیوں لیا ہے؟ عرض کیا اس لیے تاکہ آپ اس پر بیٹھے ہیں اور ٹیک لگائیں.فرمایا :ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ تم نے جو بنایا ہے اس میں جان ڈالو ۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ حدیث اس وقت سے متعلق ہے جبکہ اس معاملے میں زیادہ سختی بڑھتی گئی اور پامال تصویر پر بھی ناگواری ظاہر کی گئی۔
کسی واقعے کو ذکر کیے بغیر حدیث کا آخری حصہ حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی منقول ہے (صحیح بخاري:٧٥٥٨)
٤_حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: ”وعد النبي صلى الله عليه وسلم جبريل فراث عليه حتى اشتد على النبي صلى الله عليه وسلم فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فشكا إليه ما وجد فقال انا لا ندخل بيتا فيه صورة ولا كلب (صحيح بخاري ٥٩٦٠)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن کافی تاخیر ہو گئی اور وہ نہیں آئے آپ کے لیے انتظار بہت شاق ہوا اور آپ باہر تشریف لائے تو ان سے ملاقات ہوگئی ۔تاخیر کی وجہ سے جو تکلیف ہوئی تھی اس کی شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جس میں تصویر یا کتا ہو۔
یہی واقعہ حضرت ابوہریرہ سے ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:
اتاني جبريل فقال إني كنت اتيتك البارحة فلم يمنعني ان اكون دخلت عليك البيت الذي كنت فيه الا انه كان في باب البيت تمثال الرجال وكان في البيت قرام ستر فيه تماثيل وكان في البيت كلب فمر برأس التمثال الذي بالباب فليقطع فليصير كهيئه الشجرة ومر بالستر فليقطع ويجعل منه وسادتين منتبذتين يوطان ومر بالكلب فيخرج(ترمذي ٢٨٠٦،أبوداؤد ٤١٥٨) جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا کل گزشتہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا مگر آپ کے کمرے میں اس لیے داخل نہیں ہوا کہ دروازے پر مردوں کی تصویریں تھیں اور گھر میں تصویر دار پردہ اور کتا تھا دروازے کی تصویر کے بارے میں حکم دیجیے کہ اس کے سر کو کاٹ دیا جائے تاکہ وہ درخت کی طرح ہو جائے اور پردے کو پھاڑ کر اس سے دو تکیے بنا لیے جائیں جو زمین پر پڑے ہوں اور لوگ اسے روندیں اور کتے کو باہر نکال دیا جائے ۔
اس طرح کی روایت حضرت عائشہ حضرت میمونہ حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ سے بھی مروی ہے
٥_ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ام حبیبہ اور ام سلمہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حبشہ کے ایک چرچ کا تذکرہ کیا جسے انہوں نے دیکھا تھا اور اس میں تصویریں تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”إن أولئك اذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور اولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة“(صحيح بخاري ٣٨٧٣،صحيح مسلم ٥٢٨)
ان میں کا جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس میں ان کی تصویریں بنا دیتے قیامت کے دن اللہ کے یہاں یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے.
٦_حضرت ابو جحیفہ کہتے ہیں:
”أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم نهى عن ثمن الدم وثمن الكلب وكسب البغي ولعن أكل الربا ومؤكله والواشمة والمستوشمة والمصور (صحيح بخاري ٥٩٦٢)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خون، کتے کی قیمت اور زنا کی کمائی سے منع فرمایا ہے اور سود کھانے اور کھلانے ،گودنے اور گودوانے والی پر اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
٧_ حضرت ابوزرعہ کہتے ہیں کہ وہ حضرت ابوہریرہ کے ہمراہ مدینہ کے ایک گھر میں داخل ہوئے انہوں نے دیکھا کہ گھر کے اوپری حصے میں ایک مصور تصویر بنا رہا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
”ومن اظلم ممن ذهب يخلق كخلقي فليخلقوا حبه وليخلقوا ذره (٥٩٥٣)
اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی طرح بنانے چلے اسے ایک دانہ اور ایک چیونٹی بنا کر دکھانا چاہیے
٨_حضرت سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس ایک شخص آیا اور کہا میں تصویریں بنایا کرتا ہوں اس کے بارے میں فتوی دیجئے انہوں نے کہا کہ مجھ سے قریب ہو جاؤ وہ کچھ قریب ہوا کہا: اور قریب آجاؤ! وہ قریب آگیا یہاں تک کہ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے :
”كل مصور في النار يجعل له بكل صورة صورها نفسا فتعذبه في جهنم۔
ہر تصویر بنانے والا جہنم میں ہوگا اور اس کی ہر تصویر کے بدلے ایک جاندار کو پیدا کر دیا جائے گا جو اسے جہنم میں عذاب دیتا رہے گا اگر تمہارے لیے اس کام کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو درخت اور ایسی چیزوں کی تصویر بناؤ جس میں جان نہ ہو(صحيح مسلم ٢١١٠)
یہ احادیث بے سایہ دار اور غیر مجسم تصویر کی ممانعت کے سلسلے میں بالکل واضح ہیں ان میں سے بیشتر میں اس کی صراحت ہے کہ تصویریں چادر یا دیوار وغیرہ پر تھیں اور بعض روایتوں میں وضاحت ہے کہ بے وقعت اور بے حیثیت تصویر تھی جیسے کہ حضرت عائشہ کی روایت میں ہے کہ اس میں پردار گھوڑے کی تصویر تھی اور بعض روایتیں بالکل عام ہیں جو ہر طرح کی تصویر کو شامل ہے خواہ وہ مجسمے کی شکل میں ہو یا کاغذ اور دیوار وغیرہ پر بنائی گئی ہو اور خود صحابہ کرام نے بھی اس سے یہی سمجھا چنانچہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث
میں صراحت ہے انہوں نے دیوار پر تصویر بناتے ہوئے دیکھ کر ممانعت سے متعلق حدیث بیان کی اور کسی بھی روایت میں مجسمہ اور غیر مجسمہ میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے ۔اگر کوئی فرق بیان کیا گیا ہے تو وہ جاندار اور بے جان جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث میں ہے اور جاندار کی صرف اس تصویر کے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے جو بستر وغیرہ پر ہو اور جس پر بیٹھا جائے اور پیروں وغیرہ سے روندا جائے.
جواز کے قائلین اور ان کے دلائل :
بعض سلف اور مالکیہ کہتے ہیں کہ جاندار کا صرف مجسمہ حرام ہے غیر مجسمہ یعنی کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی تصویر حرام نہیں ہے بلکہ صرف مکروہ تنزیہی اور خلاف اولی ہے (٣)حنابلہ میں سے ابن حمدان بھی اسی کے قائل ہیں۔ ( الموسوعة ١٠١/١٢)
ان حضرات کے دلائل یہ ہیں :
١_ بسر بن سعید نقل کرتے ہیں زید بن خالد سے اور وہ صحابی رسول حضرت ابو طلحہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”إن الملائكه لا تدخل بيتا فيه صورة “
فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جہاں تصویر ہوتی ہے۔
بسر کہتے ہیں کہ اس کے بعد زید بیمار ہو گئے ہم ان کے عیادت کے لیے گئے دیکھا کہ ان کے دروازے پر تصویر دار پردہ پڑا ہوا ہے، ام المومنین حضرت میمونہ کے پروردہ عبید اللہ خولانی سے میں نے کہا کیا زید نے ہمیں پہلے دن تصویر کے بارے میں حدیث نہیں سنائی تھی عبید اللہ نے کہا کیا تم نے حدیث کا یہ ٹکڑا نہیں سنا تھا ”الا رقما في الثوب“ (مگر یہ کہ وہ کپڑے پر بنی ہوئی ہو) ( صحيح بخاري ٥٩٥٨)
امام نووی وغیرہ نے کپڑے پر موجود تصویر کی ممانعت والی حدیث اور اس حدیث میں موافقت پیدا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد جاندار کی تصویر نہیں ہے بلکہ غیر جاندار جیسے درخت وغیرہ کی تصویر اور نقش ونگار ہے اور حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بھی امکان ہے یہ حدیث ممانعت سے پہلے سے متعلق ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے معلوم ہو رہا ہے( دیکھیے دلیل نمبر٤(فتح الباري ١٠/٤٧٨)
نیز وہ لکھتے ہیں قرطبی نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ کے حوالے سے منقول زید بن خالد کی حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر تصویر کپڑے پر بنی ہوئی ہو تو فرشتوں کے داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں ہے اور حضرت عائشہ کی حدیث کا ظاہر ہے کہ ہر طرح کی تصویر ان کے داخل ہونے میں مانع ہے دونوں کے درمیان موافقت کی شکل یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی حدیث کو کراہت پر محمول کیا جائے اور حضرت ابو طلحہ کی حدیث کو مطلق جواز پر اور وہ کراہت کے منافی نہیں ہے۔حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھی تطبیق ہے لیکن حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے جو موافقت معلوم ہو رہی ہے وہ زیادہ بہتر ہے ( فتح الباري٤٨٠/١٠)
٢_ عبید اللہ کہتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت ابو طلحہ انصاری کی عیادت کے لیے وہ ان کے یہاں گئے وہاں سہل بن حنیف پہلے سے موجود تھے حضرت ابو طلحہ نے کسی کو بلایا تاکہ ان کے بستر پر بچھی ہوئی چادر کو ہٹا دے حضرت سہل نے کہا اسے کیوں ہٹا رہے ہیں؟ کہا کہ اس لیے کہ اس میں تصویریں ہیں اور ان کے بارے میں نبی عليہ السلام نے جو کچھ فرمایا ہے آپ کو معلوم ہے حضرت سہل نے کہا لیکن آپﷺ نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ کپڑے کی تصویر اس سے مستثنی ہے حضرت ابو طلحہ نے کہا بالکل فرمایا ہے لیکن میرے لیے ہٹا دینا ہی زیادہ خوشگوار ہے (ترمذي :١٧٥ وقال حسن صحيح، المؤطا: ٢٧٧٢)
٣_حضرت ابوہریرہ سے منقول حدیث قدسی میں ہے :
”ومن اظلم ممن ذهب يخلق خلقا كخلقي فليخلقوا ذرة وليخلقوا حبة“ (صحیح بخاری) اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری طرح تخلیق کرنے چلے اسے تو چیونٹی یا ایک دانہ پیدا کر کے دکھانا چاہیے
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سخت وعید کا حقدار وہ شخص ہے جو مجسمہ بناتا ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ وہ میری تخلیق کی طرح بناتا ہے اور اللہ کی تخلیق دیوار کی تصویر کی طرح نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ ایک مکمل وجود ہوتا ہے (٤) اور ایک مکمل مجسمہ ہی اس لائق ہے کہ اس میں روح پھونکنے کے لیے کہا جائے اور ایک مجسمہ ساز کے بارے میں ہی اس باطل گمان میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کی خلقت جیسی ایک مخلوق تیار کر دی ہے بس روح ڈالنے کی دیر ہے کہ مجسمہ بول پڑے گا۔ اور اس لیے ایسے لوگوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر تمہاری یہ حیثیت ہے تو ایک دانہ بنا کر دکھاؤ۔اس کے برخلاف تصویر بنانے والا اللہ کی مخلوق کی طرح کوئی مخلوق نہیں بناتا ہے بلکہ وہ محض ایک خاکہ تیار کرتا ہے اس میں سرے سے جسم ہی موجود نہیں ہوتا ہے جس میں روح پھونکے کے لیے کہا جائے۔
٤_حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ :
” كان لنا ستر فيه تمثال طائر و کان الداخل اذا دخل استقبله فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم حولي هذا فاني كلما دخلت فرايته ذكرت الدنيا (صحيح مسلم ٢١٠٧)
ہمارے پاس ایک چادر تھی جس میں پرندے کی تصویر تھی اور گھر میں آنے والا جب داخل ہوتا تو وہ اس کے بالکل سامنے ہوتی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے یہاں سے ہٹا دو کیونکہ جب میں داخل ہوتا ہوں تو اسے دیکھ کر دنیا یاد آجاتی ہے
٥_حضرت انس بیان کرتے ہیں:
” كان قرام لعائشة سترت به جانب بيتها فقال النبي صلى الله عليه وسلم أميطي عنا قرامك هذا فانه لا تزال تصاويره تعرض فی صلاتي“ (صحيح بخاري ٣٧٤،٥٩٥٩)
حضرت عائشہ کے پاس ایک پردہ تھا جس سے انہوں نے گھر کے ایک حصے کو ڈھانک رکھا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پردے کو ہٹا دو کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں میرے سامنے ہوتی ہیں
٦_حضرت عائشہ کہتی ہیں:
” رايته خرج من غزواته فاخذت نمطا فسترته على الباب فلما قدم فرأى النمط عرفت الكراهية في وجهه فجذبه حتى هتكه أو قطعه وقال ان الله لم يأمرنا أن نكسو الحجارة والطين(صحيح مسلم: ٢١٠٦)
میں نے دیکھا کہ آپ کسی جنگ میں تشریف لے گئے میں نے ایک چادر لے کر اسے دروازے پر لٹکا دیا جب آپ واپس آئے اور اسے دیکھا تو میں نے آپ کے چہرے سے ناگواری محسوس کر لی آپ نے اسے کھینچ کر پھاڑ دیا اور فرمایا :اللہ تعالی نے ہمیں پتھر اور مٹی کو کپڑا پہنانے کا حکم نہیں دیا ہے ۔ علامہ نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ حدیث میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں ہے جو حرمت کا تقاضا کرے کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس کا حکم نہیں دیا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ یہ نہ واجب ہے اور نہ مستحب ہے اور حرمت کا متقاضی نہیں (المنهاج للنووي ٢١٤/٧۔ ط: دار إحياء التراث العربي ٢٠٠٠م)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ایسی کسی چیز کے وجود کو پسند نہیں کرتے تھے جس سے دنیا کی یاد آجائے یا اس سے نماز کا خشوع وخضوع متاثر ہو یا عیش پسندی کو ثابت کرے چنانچہ بعض روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر آئے اور اندر داخل ہوئے بغیر واپس ہو گئے حضرت علی آئے تو انہوں نے صورتحال بیان کی وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا:
” إني رايت على بابها سترا موشياً فقال مالي وللدنيا فاتاها عليٌ فذكر ذلك لها فقالت يامرني فيه بما شاء قال ترسل به الى فلان اهل البيت بهم حاجة(صحیح بخاری: ٢٦١٣)
میں نے ان کے دروازے پر نقش و نگار والا پردہ دیکھا مجھے اور دنیا سے کیا سروکار؟ حضرت علی ان کے پاس آئے اور آنحضرت کے واپسی کی وجہ بیان کی. حضرت فاطمہ نے کہا وہ اس کے متعلق جو چاہے حکم دیں میں اس پر عمل کروں گی .نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے فلاں گھر والوں کو دے دو جو ضرورت مند ہیں
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کی زیب و زینت کی چیزوں کو اپنے گھر والوں کے لیے پسند نہیں کرتے تھے بلکہ چاہتے تھے وہ سادگی اور دنیاوی آرائش سے کنارہ کشی کا نمونہ بن زندگی گزاریں ۔اگر یہ چیز ناجائز ہوتی تو کسی دوسرے کو دینے کے لیے نہ فرماتے کہ وہ ان کے لیے بھی درست نہ ہوتی ۔
تصویر سے متعلق دو طرح کی روایتیں ذکر کی جا چکی ہیں بعض احادیث میں اس کے متعلق بہت سخت وعید بیان کی گئی ہے اور اس کے برعکس بعض میں نرم انداز اپنایا گیا ہے ان میں مطابقت اور موافقت کی دو شکلیں ہیں یا تو یہ کہا جائے کہ پہلے نرم رویہ اختیار کیا گیا اور اسے نظر انداز کیا گیا جیسے کہ یہی طریقہ پردہ کی فرضیت اور شراب کی حرمت کے سلسلے میں اپنایا گیا اور آخر میں واضح الفاظ کے ذریعے فرضیت اور حرمت بیان کر دی گئی یا یہ کہا جائے کہ توحید اور شرک کے معاملے میں اول دن سے سخت رویہ اپنایا گیا اور ان روزنوں کو بھی بند کر دیا گیا جو شرک و بت پرستی کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ شرک و بت پرستی کے زمانے سے قریب ہونے کی وجہ سے یہی راستہ اختیار کرنا ضروری تھا جیسے کہ پہلے قبروں کی زیارت کی ممانعت کی گئی اور جب توحید کی حقیقت نکھر کر سامنے آگئی اور دلوں میں پیوست ہوگئی اور شرک و بت پرستی سے نفرت پیدا ہو گئی تو پھر اس کی اجازت دی گئی۔
تصویر کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں جب کہ تصویر کو لائق پرستش، قابل تعظیم اور باعث برکت سمجھنے کا زمانہ گزرے ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا تو اس معاملے میں سختی برتی گئی اور جب ان کی پرستش کا اندیشہ نہ رہا تو کپڑے یا کاغذ وغیرہ پر بنی ہوئی بے وقعت تصویر کی اجازت دی گئی چنانچہ حافظ عسقلانی نے چرچ میں تصویر والی حدیث کی تشریح میں لکھا ہے:
” وحمل بعضهم الوعيد على من كان في ذلك الزمان لقرب العهد بعبادة الاوثان واما الآن فلا (فتح الباري حديث: ٤٢٧)
لیکن ظاہر ہے کہ مختلف احادیث میں اس طرح سے موافقت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ واضح انداز میں معلوم ہو کہ کس حدیث کا تعلق پہلے دور سے ہے اور کس کا تعلق بعد کے زمانے سے؟ اور تصویر کے مسئلے میں اس طرح کے کوئی صراحت نہیں ہے البتہ چرچ میں تصویر والی حدیث کا تعلق آپ ﷺ کی زندگی کے بالکل آخری مرحلے سے ہے چنانچہ صحیح بخاری کی بعض روایتوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں یہ حدیث بیان فرمائی جس میں آپ کی وفات ہو گئی تھی اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ علیہ السلام کی وفات سے پانچ روز پہلے کا واقعہ ہے(فتح الباري حدیث :٤٢٧) یہ روایت اس معاملے میں بالکل واضح ہے لیکن تصویر کے حرمت سے متعلق صریح نہیں ہے کیونکہ زیادہ ظاہر یہ ہے کہ انہیں بدترین مخلوق اس لیے کہا گیا ہے کہ انہوں نے قبروں پر مسجدیں بنالی تھیں اور ان مسجدوں میں ان کی تصویریں بنائیں محض تصویر کی وجہ سے انہیں بدترین مخلوق نہیں کہا گیا (الموسوعة الفقهية ١٠٠/١٢)
٧_ابن عون کہتے ہیں کہ میں قاسم بن محمد کے پاس گیا اور وہ اس وقت مکہ کے بالائی حصے میں اپنے گھر میں موجود تھے میں نے ان کے گھر میں ایک چھپرکھٹ دیکھا جس میں قندس (ایک آبی جانور) اور عنقاء پرندے کی تصویریں تھیں (مصنف ابن ابي شيبه ٥٠٩/٨ ط: الهند)
قاسم بن محمد مدینہ کے ساتھ مشہور فقہاء میں سے ایک حضرت عائشہ کے پروردہ اور ان کے علوم کے امین اور اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں میں سے تھے اور حضرت عائشہ کی تصویر دار پردے کے راوی یہی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردے کو پھاڑ دیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ان کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ممکن ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں (إلا رقما في الثوب) والی حدیث سے استدلال کیا ہو کیونکہ حدیث عام ہے کہ وہ تصویر فرش پر وہ یا اسے لٹکایا گیا ہو اور گویا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نکیر کو اس بات پر محمول کیا ہو کہ حضرت عائشہ کا پردہ تصویر دار بھی تھا اور اس سے دیوار کو ڈھانکا گیا تھا اور اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ہمیں پتھر اور مٹی کو پوشاک پہنانے کا حکم نہیں دیا ہے اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دیوار کو تصویر دار پردے سے ڈھانکنا مکروہ ہے لہذا اس کے برابر وہ پامال کپڑا نہیں اگرچہ اس میں تصویر ہو، اسی طرح سے وہ کپڑا بھی اس کے برابر نہیں ہے جس سے دیوار کو نہ ڈھانکنا جائے، قاسم بن محمد مدینہ کے مشہور فقہا میں سے ایک اور اپنے زمانے کے افضل ترین لوگوں میں سے تھے اور انہوں نے ہی حضرت عائشہ کی پردہ والی حدیث نقل کی ہے اگر وہ چھپرکھٹ جیسی چیزوں میں رخصت نہ سمجھتے تو اس کے استعمال کی اجازت نہ دیتے لیکن اس سلسلے میں مذکورہ احادیث کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مرجوح مسلک ہے۔(فتح الباري ٤٧٥/١٠)
حاصل یہ کہ جاندار کی کاغذی تصویر کی حرمت کا مسئلہ ایک اجتہاد اور اختلافی مسئلہ ہے اگرچہ راجح یہی ہے کہ یہ بھی مکروہ تحریمی ہے الا یہ کہ وہ بستر وغیرہ پر ہو جسے روندا جائے یا بہت زیادہ چھوٹی ہو کہ زمین پر رکھ کر کھڑے ہو کر دیکھنے سے اس کے اعضاء ظاہر نہ ہوں۔یا اس کے سرکو یا اس کے جسم کے اس حصے کو کاٹ دیا جائے جس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ۔
فوٹوگرافی کی تصویر:
پہلے تصویریں ہاتھ سے بنائی جاتی تھی اب اس کی جگہ مشینوں نے لے لی ،کیمرے کی تصویریں جب رائج ہوئیں تو علماء کے درمیان اختلاف ہوا ،ہندو پاک کے علماء عام طور پر اس بات کے قائل تھے کہ ہاتھ سے بنائی گئی اور فوٹو گرافی کی تصویر میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آلہ کے بدل جانے سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے لیکن عرب علماء کی ایک بڑی تعداد فوٹوگرافی کی تصویر کو جائز سمجھتی ہے، ان میں سے چند نمایاں نام یہ ہیں: شیخ محمد بن صالح عثیمین ،شیخ احمد خطیب،شیخ الازہر شیخ محمد خضر حسین ،مفتی مصر شیخ حسنین مخلوف محمد نجیب مطیعی ،محمد متولی شعراوی، سید سابق اور شیخ یوسف قرضاوی وغیرہ۔ شیخ محمد بخیت مفتی مصر نے اس موضوع پر الجواب الشافی في اباحة التصوير الفوتوغرافي کے نام سے باضابطہ ایک کتاب لکھی ہے،(دیکھئے :حاشیہ فتاویٰ عثمانی 364/4۔ ط: نعيمية ديوبند۔ ٢٠١٠)اور اس طرح سے یہ مسئلہ بھی اجتہادی اور اختلافی ہوگیا چنانچہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں:
بعد میں کیمرے کی تصویر کا مسئلہ پیدا ہوا جس زمانے میں تصویر کے بارے میں فقہاء کے درمیان بحثیں چلی تھیں اس زمانے میں اکثر فقہاء تو یہ کہتے رہے کہ آلے کے بدل جانے سے حکم نہیں بدلتا ،ایک چیز پہلے ہاتھ سے بنائی جاتی تھی اب مشین سے بننے لگی تو چاہے ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرے سے بنائی گئی ہو دونوں ناجائز ہوں گی۔
البتہ مصر کے ایک مفتی علامہ شیخ محمد بخیت رحمت اللہ علیہ گزرے ہیں جو عرصہ دراز تک مصر کے مفتی رہے ہیں جو بڑے اور متقی عالم تھے، محض ہوا پرست نہیں تھے انہوں نے ایک رسالہ الجواب الشافی۔۔۔ کے نام سے لکھا ہے اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ کیمرے کے ذریعے لی جانے والی تصویر جائز ہے اور دلیل میں فرمایا کہ حدیث میں تصویر کی جو ممانعت کی علت بیان فرمائی ہے وہ ہے مشابہت بخلق اللہ اور اللہ کی تخلیق سے مشابہت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کوئی شخص اپنے تصور اور تخیل سے اور اپنے ذہن سے اپنے ہاتھ کے ذریعے کوئی صورت بنائے اور کیمرے کی تصویر میں اپنے تخیل کو کوئی دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ کیمرے کی تصویر میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی پیدا کوئی ایک مخلوق پہلے سے موجود ہے اس مخلوق کا عکس لے کر اس کو محفوظ کر لیا لہذا مشابہت بخلق اللہ نہیں پائی گئی بلکہ یہ حبس الظل ہے جو کہ ناجائز نہیں ،یہ ان کا موقف تھا اور مصر اور بلاد عرب کے بہت سے علماء نے اس بارے میں ان کی تائید بھی کی۔
لیکن علماء کی اکثریت نے اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی خاص طور پر ہند و پاک کے علماء نے ان کی استدلال کو قبول نہیں کیا اور یہ کہا کہ مشابہت بخلق اللہ ہر صورت میں متحقق ہو جاتی ہے چاہے آدمی ایسی چیز کی تصویر بنائے جو پہلے سے موجود ہو اور چاہے ایسی چیز کی تصویر بنائے جو پہلے سے موجود نہ ہو اور وہ اپنے تخیل سے وہ صورت بنا رہا ہو ۔۔۔۔۔ اس لیے جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ کیمرے کی تصویر کا حکم بھی وہی ہے جو ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر کا ہے لہذا اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے البتہ اس اختلاف سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ اس کا جواز اور عدم جواز دو وجہ سے مجتہد فیہ معاملہ بن گیا ہے ایک یہ کہ اس بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اختلاف ہے دوسرے یہ کی کیمرے کی تصویر کے بارے میں علامہ بخیت رحمت اللہ علیہ کا فتوی موجود ہے۔ اگرچہ وہ فتوی ہمارے نزدیک درست نہیں لیکن بہرحال ایک جدید شے کے بارے میں ایک متورع عالم کا قول موجود ہے اس لیے یہ مسئلہ مجتہد فیہ بن گیا اور مجتہد فیہ مسئلے میں حاجت عامہ کے وقت گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔(درس ترمذی 244/5۔ ط۔نعيمية ديوبند ٢٠١٨)
ڈیجیٹل تصویر:
جو لوگ کاغذی تصویر کو ناجائز کہتے ہیں ان کے درمیان ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں اختلاف ہے کہ اسے کاغذی تصویر کے حکم میں رکھا جائے گا یا اسے عکس کہا جائے گا علماء کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ وہ تصویر کے حکم میں نہیں ہے بلکہ وہ عکس اور سایہ کے حکم میں ہے اور جائز ہے چنانچہ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ٹیلی ویژن یا ڈیجیٹل کیمروں کے ذریعے جو شکلیں نظر آتی ہیں وہ شرعا تصویر کے حکم میں ہیں یا نہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ان کی شکلوں کا پرنٹ لے لیا جائے یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش کر لیا جائے تو ان پر شرعا تصویر کے احکام جاری ہوں گے۔
البتہ جب تک ان کا پرنٹ نہ لیا گیا ہو یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش نہ کیا گیا ہو تو ان کے بارے میں علمائے عصر کی آراء مختلف ہیں:
(١) بعض علماء انہیں بھی تصویر کے حکم میں قرار دیتے ہیں.
(٢) بعض علماء کے نزدیک ان پر تصویر کے احکام کا اطلاق نہیں ہوتا.
(٣) بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ ان کی رائے میں تصویر تو ہیں لیکن چونکہ ان کے بحکم تصویر ہونے یا نہ ہونے میں ایک سے زائد فقہی آراء موجود ہیں اس لیے مجتہد فیہ ہونے کی بنا پر بوقت حاجت شرعی مثلا جہاد وغیرہ کے موقع پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے.
ہمارے نزدیک اگرچہ دوسری رائے راجح ہے کہ جب تک وہ پائیدار طور پر کسی چیز پر نقش نہ ہو ان پر تصویر کے احکام کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن ایک لحاظ سے احتیاط پہلی رائے میں ہے جیسا کہ ظاہر ہے اور دوسرے لحاظ سے ہمیں احتیاط دوسری اور تیسری رائے میں معلوم ہوتی ہے کیونکہ دین اسلام پر دشمنان اسلام کی جو یلغار الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے منظم طریقے سے ہو رہی ہے اس سے دفاع کرنا بھی امت کی ذمہ داری ہے جس سے حتی الامکان عہدہ برآ ہونے کے لیے الیکٹرانک میڈیا/ ٹیلی ویژن کے ایسے استعمال کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جو فواحش و منکرات سے پاک ہو لہذا جو حضرات علماء کرام مذکورہ بالا تین آراء میں سے کسی سے متفق ہوں اور اس پر عمل کریں وہ سب قابل احترام ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہمارے نزدیک مستحق ملامت نہیں ہے۔(فتاوی عثمانی ٣٦٠/٤)
فتاویٰ عثمانی کے مرتب نے اس سے متعلق بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے جس کا حاصل یہ ہے :
ہمارے اکابر فوٹو گرافی کی تصویر کو بھی حقیقی تصویر قرار دیتے ہیں کیونکہ تصویر حقیقت میں کسی چیز کا پائیدار اور قائم نقش ہوتا ہے یعنی وہ کسی چیز پر اس طرح پائیدار اور قائم ہوتی ہے کہ وہاں اسے قرار و ثبات حاصل ہوتا ہے یہی پائیداری یا قیام ایک حقیقی تصویر کی بنیادی خصوصیت اور تصویر و عدم تصویر کے درمیان حد فاصل ہے یعنی تصویر کی یہی خصوصیت حقیقی تصویر اور مجازی تصویر مثلا عکس ،سایہ یا خیالی تصویر میں نشان امتیاز ہے کہ اگر جاندار کی شکل و صورت کسی چیز پر پائیدار و قائم ہو گئی ہو تو حقیقی تصویر ہے اور حرام تصویر کے حکم میں ہے لیکن اگر اس کی شکل و صورت وہاں قائم و پائیدار نہیں ہوئی تو شرعی نقطہ نگاہ سے وہ حقیقی تصویر یا حرام تصویر کے حکم میں نہیں ہے کیونکہ تصویر کی بنیادی شرط قیام و استقرار اس میں مفقود ہے ہاں اگر کوئی مجازا اس پر تصویر کا اطلاق کرے اس کی وجہ سے اس کو حرام تصویر میں داخل نہیں کیا جائے گا جیسا کہ عکس یا خیالی تصویر وغیرہ پر مجازا تصویر کا اطلاق کر لیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود شرعا ان پر حرام تصویر کا حکم نہیں لگایا جاتا۔
فوٹوگرافی کی تصویر میں چونکہ حقیقی تصویر کی بنیادی خصوصیت یعنی کسی سطح پر قائم و پائدار ہونا موجود ہوتی ہے اس لیے سادہ کیمرہ سے جاندار کی جو تصاویر بنائی جاتی ہیں وہ حرام تصویر کے حکم ہیں کیونکہ سادہ کیمرے سے بنائی جانے والی تصاویر خواہ نگیٹو میں ہوں یا کسی کاغذ وغیرہ پر بہر صورت وہ ان جاندار کی شکل و صورت میں وہاں برقرار اور قائم ہوتی ہیں اس کے برخلاف ڈیجیٹل کیمرے سے حاصل شدہ منظر جب تک کاغذ وغیرہ پر اس کا پرنٹ نہ لیا جائے تو اسکرین کی حد تک وہ کہیں بھی تصویر کی شکل میں منقش اور قائم نہیں ہوتی کیونکہ ڈیجیٹل مناظر جب سی ڈی یا چپ میں محفوظ ہوتے ہیں تو چند شعاعی اعداد و شمار کی شکل میں اس طرح محفوظ ہوتے ہیں کہ نہ کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی خوردبین وغیرہ کے ذریعے ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ تصویر کی شکل میں وہاں موجود ہی نہیں ہوتے پھر جب سی ڈی وغیرہ سے انہیں اسکرین پر یا پردہ پر ظاہر کیا جاتا ہے تو وہ بھی روشنی کے ناپائیدار شعاعی ذرات نا پائیدار شکل میں اسکرین پر ظاہر ہو کر فورا ہی فنا ہو جاتے ہیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ ذرات اسکرین وغیرہ پر قائم و ثابت نہیں ہوتے اس لیے تصویر کی بنیادی شرط استقرار اور قیام یہاں مفقود ہے لہذا سادہ کیمرے کی تصویر بلا شبہ حرام تصویر کے حکم ہے اور ڈیجیٹل کیمرے کا منظر حرام تصویر کے حکم میں نہیں ہے ڈیجیٹل نظام کے ذریعے اسکرین پر نمودار ہونے والی شکل و صورت اور سادہ کیمرے کے ذریعے ریل میں حاصل شدہ فلم یا کاغذ وغیرہ پر پرنٹ شد تصویر کے درمیان پائے جانے والے اس فرق کو ماہرین فن نے بھی اپنی اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔(حاشیہ فتاوی عثمانی 366/4)
ڈیجیٹل مناظر کی اسی حقیقت کے پیش نظر دور حاضر کے مسائل و وسائل پر گہری نظر رکھنے والے بہت سے محقق علمائے کرام ڈیجیٹل مناظر کو تصویر کی بجائے عکس میں داخل کرتے ہیں یعنی ڈیجیٹل نظام میں اسکرین پر نمودار ہونے والے یا ٹیلی ویژن میں نشر ہونے والے مناظر ان کے نزدیک اشبہ بالعکس (عکس کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھنے والے) یا زیادہ سے زیادہ عکس ہیں نہ کی تصاویر۔(حاشیہ فتاویٰ عثمانی 376/4)
جامعہ الرشید کراچی کا فتوا ہے :
لہذا یہ عام اجتہادی مسائل کے طرح ایک اجتہادی مسئلہ ہی ہے،اس کو قطعی قرار دینا اس کی شرعی حیثیت بدلنے کے مترادف ہے اور مجتہد فیہ مسائل میں کسی ایک جانب کو برحق اور دوسری رائے کو باطل قرار دینا اور فریق مخالف کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شرعا اور اخلاقا درست نہیں۔
اس کے بعد ہاتھ کی تصویر کے علاوہ کیمرہ سے بنائی گئی تصویر میں ایک دوسرا علمی اختلاف موجود ہے کہ یہ شکل کی ایجاد ہے،یا پہلے سے موجود شعاعوں کو مرتکز کرکے یکجا جمع کرنے کی صورت ہے،پھر اس کے بعد ڈیجیٹل تصویر میں ایک اور جہت سے بھی علمی اختلاف ہے کہ چونکہ اس کو کسی مادی چیز پر استقرار)ٹک جانے کی کیفیت(حاصل نہیں ہے تو یہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر کے حکم میں ہوگی یا شیشے کے عکس کے حکم میں؟
لہذا جب ڈیجیٹل تصویر کے حوالے سے تین درجات میں علمی و فقہی اختلاف موجود ہے،اس کے بعد اس کو قطعی حرام تصویر میں شامل کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔
نیز ڈیجیٹل تصویر کو جائز قرار دینے میں اگرچہ کچھ مفاسد نے جنم لیا ہے،لیکن موجودہ دور میں اس کے استعمال کو ترک کرنے میں بھی دینی اور دنیوی حرج لازم آتا ہے،کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب نہ صرف عالمی،بلکہ ملکی ذرائع ابلاغ بھی مساجد و مدارس،دین اور اہل دین کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،یورپ کی الحاد و تحریف سے بھرپور منڈیوں سے درآمد شدہ تجدد پسند اسکالرز اور ان کے ہمنوا ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جس طرح اپنے زہریلے افکار و نظریات کا پرچار کر رہے ہیں اور دینی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں،ایسے حالات میں ان باطل پرستوں کے پروپیگنڈوں اور ان کی ریشہ دوانیوں کی بیخ کنی کے لیے وہی ہتھیار اور وسائل زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں جنہیں مخالفین کی جانب سے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس تمہید کے بعد اب آپ اپنے اصل سوالات کے جوابات ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں:
۔ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں علمائے کرام کی تین آراء ہیں:
۱۔یہ ناجائز تصویر کے حکم میں داخل نہیں ،بلکہ پانی یا آئینہ میں دکھائی دینے والے عکس کی مانند ہے،لہذا جس چیز کا عکس دیکھنا جائز ہے اس کی ویڈیو یا تصویر بنانا اور دیکھنا بھی جائز ہےاور جس چیز کا عکس دیکھنا جائز نہیں اس کی ویڈیو یا تصویر بنانا اور دیکھنا بھی جائز نہیں۔
۲۔اس کا بھی وہی حکم ہے جو عام پرنٹ شدہ تصویر کا ہے ،لہذا صرف ضرورت کے وقت جائز ہے ۔
۳۔ ڈیجیٹل تصویر بھی اگرچہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے تصویر ہی ہے،البتہ اس کے تصویر ہونے یا نہ ہونے میں چونکہ ایک سے زیادہ فقہی آراء موجود ہیں،اس لیے صرف شرعی ضرورت جیساکہ جہاد اور دین کے خلاف پروپیگنڈوں سے دفاع اور صحیح دینی معلومات کی فراہمی کی خاطر یا اس کے علاوہ کسی واقعی اور معتبر دینی یا دنیوی مصلحت کی خاطر ایسی چیزوں اور مناظر کی تصویر اور ویڈیو بنانے کی گنجائش ہےجن میں تصویر ہونے کے علاوہ کوئی اور حرام پہلو مثلا عریانیت،موسیقی یا غیر محرم کی تصاویر وغیرہ نہ ہوں۔
ایسی صورت حال میں عوام کے لئے یہ حکم ہےکہ عام مسائل میں جن مفتیان کرام کے علم وتقوی پر اعتماد کرتے ہیں اس مسئلے میں بھی انہی کی رائے پر عمل کریں اور اس طرح کے مختلف فیہ مسائل کو آپس میں اختلاف و انتشار کی بنیاد بنانے سے گریز کریں،البتہ احتیاط بہر حال دوسری رائے پر عمل کرنے میں ہے،جبکہ ہمارے نزدیک تیسری رائے راجح ہے۔۔۔۔
مجيب
محمد طارق صاحب
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :61465
تاریخ اجراء :2018-01-3
ویڈیو گرافی:
مولانا مفتی محمّد تقی عثمانی کہتے ہیں:
تیسری قسم وہ ہے جو ویڈیو کیسٹ کے ذریعے دکھائی جاتی ہے یعنی تقریر اور اس کی تصاویر کے ذرات کو لے کر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لیا اور پھر ان ذرات کو اسی ترتیب سے چھوڑا تو پھر وہی منظر اور تصویر آنے لگی میرے نزدیک اس کو بھی تصویر کہنا مشکل ہے اس لیے کہ جو چیز ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہوتی ہے وہ صورت نہیں ہوتی بلکہ وہ برقی ذرات ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر ویڈیو کیسٹ کی ریل کو خوردبین لگا کر بھی دیکھا جائے تو اس میں تصویر نظر نہیں آئے گی اس لیے میرا رجحان اس طرف ہے کہ یہ دوسری( براہ راست ٹیلی کاسٹ )اور تیسری قسم تصویر کے حکم میں نہیں آتی لہذا اگر کوئی ایسا صحیح پروگرام پیش کیا جا رہا ہو اور جو فی نفسہ جائز ہو اور ان دو ذریعوں میں سے کسی ایک ذریعے سے پیش کیا جا رہا ہو تو اس کو دیکھنا فی نفسہ ہی جائز ہوگا۔
نیز وہ کہتے ہیں:
جہاں تک ٹی وی اور ویڈیو کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں یہ دونوں آلات جن بے شمار منکرات مثلا بے حیائی فحاشی،عورتوں کا زیب و زینت کے ساتھ یا نیم برہانہ حالت میں سامنے آنا اور اس کے علاوہ فسق و فجور کے دوسرے اسباب پر مشتمل ہیں ان پر نظر کرتے ہوئے ان آلات کا استعمال حرام ہے۔لیکن یہ دونوں آلات مندرجہ بالا تمام منکرات سے بالکل خالی ہوں تو کیا ان پر نظر آنے والی تصویر پر تصویر ہونے کا حکم لگا کر یہ کہا جائے گا کہ تصویر ہونے کی بنیاد پر ان کو دیکھنا حرام ہے۔
احقر کو اس بارے میں تامل ہے اس لیے کہ وہ تصویر حرام ہے جو اس طرح منقش ہو یا اس طرح تراشی گئی ہو کہ وہ تصویر کسی چیز پر ثابت اور مستقر ہو جائے اور کفار عبادت کے لیے اس طرح کی تصاویر استعمال کیا کرتے تھے، لیکن وہ تصویر جس کو قرار اور ثبات حاصل نہیں اور وہ تصویر جو کسی چیز پر مستقل طور پر منقش نہیں ایسی تصویر تصویر کے بجائے سائے سے زیادہ مشابہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹی وی اور ویڈیو پر آنے والی تصاویر کسی بھی مرحلے پر دائم اور مستقل نہیں ہوتیں ، صرف فلم کی شکل میں موجود رہتی ہیں کیونکہ جس صورت میں اسکرین پر براہ راست انسانی تصاویر دکھائی جا رہی ہوں اور وہ انسان دوسری طرف کیمرہ کے سامنے موجود ہو اس صورت میں تو اس انسان کی تصویر نہ تو کیمرے میں ثابت رہتی ہے اور نہ ہی اسکرین پر ثابت اور مستقر رہتی ہے لیکن درحقیقت وہ بجلی کے ذرات ہوتے ہیں جو کیمرہ سے اسکرین کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور پھر اسی اصلی ترتیب سے اسکرین پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور پھر وہ ذرات زائل اور فنا ہو جاتے ہیں اور جس صورت میں تصاویر کو ویڈیو کیسٹ میں محفوظ کر لیا جاتا ہے اس صورت میں بھی اس کیسٹ کے فیتے پر تصویر منقش نہیں ہوتی بلکہ وہ بجلی کے ذرات ہوتے ہیں جن میں کوئی تصویر نہیں ہوتی البتہ جب وہ اسکرین پر ظاہر ہوتے ہیں تو دوبارہ اپنی اصلی ترتیب سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن اسکرین پر ان کو ثبات اور استقرار حاصل نہیں ہوتا بلکہ ایک مرتبہ ظاہر ہونے کے بعد فنا ہو جاتے ہیں لہذا کسی بھی مرحلے پر یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ تصویر کسی چیز پر دائمی طور پر ثابت ہو کر منقش ہو گئی ہو بہرحال اس تصویر پر ثابت اور مستقر تصویر کا حکم لگانا مشکل ہے۔(فقہی مقالات 133/4.١٣. ط: زمزم بک ڈپو دیوبند ٢٠٠٤)
اور موسوعہ فقہیہ میں ہے:
ومن الصّور غیرالدائمة ظل الشيء إذا قابل أحد مصادر الضوء ۔۔۔ ومن الصور غیر الدائمة الصور التلیفزیونیة فإنھا تدوم ما دام الشریط متحرکًا فإذا وقف انتھت الصورة”
”غیردائمی تصاویر میں سے شے کا سایہ بھی ہے جب اس کو روشنی کے مرکز کے سامنے رکھا جاتا ہے… ایسے ہی غیردائمی تصاویر میں ٹی وی کی تصاویر بھی شامل ہیں کیونکہ یہ اسی وقت تک ہی باقی رہتی ہیں ، جب تک کیسٹ چلتی رہتی ہے، جب کیسٹ رک جاتی ہے، تصویر بھی رک جاتی ہے۔”
(الموسوعہ الفقہیہ 93/12)
انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم اور تقریر
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ، فَيَلْعَبْنَ مَعِي.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی میری کچھ سہلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں لیکن جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آتے وہ چھپ جاتی تھیں۔ اللہ کے رسول انہیں میرے پاس بھیجتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتی تھیں
(صحيح بخاري:6130،صحیح مسلم 2440)
قاضی عیاض اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے اور جن حدیثوں میں تصویروں کی ممانعت ہے گڑیوں کو اس سے خاص کر لیا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کو بچپنے ہی میں اپنی ذات کے سلسلے میں اور خانہ داری اور اولاد کی پرورش اور تربیت کے تعلق سے مشق ہو جائے گی. جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں بچیوں کے لیے گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے ۔
(المنہاج حدیث: 2440)
حنفیہ بھی اسی کے قائل ہیں چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:
عن ابي يوسف يجوز بيع اللعبة وان يلعب بها الصبيان… نسبته الى ابي يوسف لا تدل على ان الامام يخالفه لاحتمال ان لا يكون في المسالة قول.(الدرمع الرد٥٠٥/٧. ط: الأشرفية ديوبند )
اور حضرت عائشہ سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے:
قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ – أَوْ خَيْبَرَ – وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ، فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ ؛ لُعَبٍ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ ؟ ". قَالَتْ : بَنَاتِي. وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ ؟ ". قَالَتْ : فَرَسٌ. قَالَ : ” وَمَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ ؟ ". قَالَتْ : جَنَاحَانِ. قَالَ : ” فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ ؟ ". قَالَتْ : أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ ؟ قَالَتْ : فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ .( أبو داؤد4932)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس آئے تو میرے طاق پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہوا چلی جس نے پردے کا ایک حصہ کھول دیا۔ جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیا سامنے آگئی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: میری گڑیا ہیں. اور آپ نے ان کے بیچ میں گھوڑا دیکھا جس کے اوپر کاغذ کے دو پر لگے ہوئے تھے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: گھوڑا ہے. پھر آپ نے فرمایا اس گھوڑے کے اوپر یہ کیا لگے ہوئے ہیں؟ میں نے عرض کیا دو پر ہیں . آپ نے فرمایا :گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا :کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر لگے تھے. وہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ دندان مبارک نمایاں ہوگئے ۔
جب امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش کی تربیت کی خاطر بچیوں کے لیے کاغذی تصویر بلکہ مجسمہ کی اجازت ہے تو ڈیجیٹل تصویر کی تو بدرجہ اولی اجازت ہے جس کے تصویر ہونے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔(دیکھئے الموسوعہ 113/12)
لہذا ویڈیو کیسٹ اور انٹرنیٹ کے ذریعے دینی ،اور تعلیمی پروگرام کو دیکھنا اور سننا جائز ہے گرچہ اس میں تصویریں ہوں اس لئے کہ صرف ریکارڈر کردہ پروگرام کے سننے سے نہ تو یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی خطیب یا استاذ کو دیکھنے سے جو اثر ہوتا ہے وہ پیدا ہوتا ہے نیز اس کے اشارات اور چہرے کے نقوش کو دیکھ کر بھی بہت کچھ سیکھا جاتا ہے بلکہ بعض چیزوں کو دیکھے بغیر سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
نیز باطل مذاھب اور تحریکات سے وابستہ افراد ان وسائل کو بروئے کار لاکر اپنے فاسد نظریات سے ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کر رہی ہیں اور آج مسلمانوں کا بھی ایک بہت بڑا طبقہ ان آلات کے ذریعے علم و آگاہی حاصل کرنے کا عادی ہوچکا ہے اور جب اس کو ان ذرائع سے صحیح علم میسر نہیں ہوتا تو اسلام کے نام پر جو غلط خیالات و نظریات اسے ملتے ہیں وہ ان کو دیکھتا اور ان سے متاثر ہوتا ہے ۔
ایک طرف تصویر کی حرمت کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف در اختلاف اور دوسری طرف دعوت و تبلیغ کی خصوصی اہمیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ اس اختلاف کی بنیاد پر اس میں وسعت برتی جائے ،چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ۔
(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(سورة آل عمران: ١١٠)
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔(سورة آل عمران:١٠٤)
اور حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
” مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ ". (صحیح مسلم:٤٩)
تم میں سے جو کوئی کسی منکر چیز کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے کہہ کر بدلنے کی کوشش کرے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمترین درجہ ہے۔
اور حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ، وَالْوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا، وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا : لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا، وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِيعًا ". (صحیح بخاری :٢٤٩٣)
اللہ کے حدود کو قائم رکھنے والا اور اس کو توڑنے والا اس قوم کی طرح سے ہے جنہوں نے کسی کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے قرع اندازی کی۔ جس کے نتیجے میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر جگہ ملی اور بعض لوگوں کو نیچے۔ جو لوگ کشتی کے نیچے تھے جب انہیں پانی کی ضرورت پڑتی تھی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تھے۔ انہوں نے کہا اگر ہم اپنے حصے میں سوراخ کر لیں اور اوپر کے لوگوں کو تکلیف نہ دیں تو بہتر ہے۔ لیکن اگر اوپر کے لوگ ان کو ان کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے چھوڑ دیں تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیں تو خود بھی نجات پائیں گے اور دوسرے لوگ بھی۔
اور حضرت ابو بکر صدیق کہتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ } . وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ ". (ترمذی :٢١٦٨)
اے لوگو!تم یہ آیت پڑھتے ہو:اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.
حالانکہ رسول ﷲ ﷺ سے میں نے سنا ہے اگر لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑا کر اس کو ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو عذاب میں مبتلا کردے ۔
آپ ﷺ نے اس کے لئے اس زمانے میں موجود ذرائع ابلاغ کو اختیار فرمایا چنانچہ کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کے لوگوں کو آواز دی نیز عکاظ وغیرہ کے میلے میں تشریف لے جاتے جہاں عام حالات میں جانا آپ کو گوارہ نہیں ہوتا ۔
انٹرنیٹ پر ممنوع اشتہارات:
اور انٹرنیٹ معلومات کی ترسیل اور تعلیم کا ایک ذریعے ہے ،وہ صرف ایک آلہ ہے جس کا صحیح اور غلط دونوں طرح سے استعمال کیا جاسکتا ہے اس لئے بحیثیت آلہ اسے غلط نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
البتہ دو وجہوں سے اس کے سلسلے میں شبہ ہوسکتا ہے ایک تصویر اور دوسری وجہ اشتہارات وغیرہ میں آنے والے فحش مناظر۔
پہلی وجہ کے بارے میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے کہ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک اس پر تصویر کا اطلاق نہیں ہوگا ۔
اور اگر اسے تصویر کہا بھی جائے تو تصویر کو ناجائز کہنے والوں کے یہاں بھی بوقت حاجت اس کی اجازت ہے اور جب دنیاوی ضرورت و حاجت کی بنیاد پر اس کی گنجائش ہوسکتی ہے تو حفاظت دین کی ضرورت اور تعلیم و تعلم کے لئے اس کی اجازت بدرجہ اولی ہوگی۔
دوسری مشتبہ چیز اشتہارات وغیرہ میں فحش مناظر کا آنا جس میں ویڈیو بنانے والے کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ ناشر کی طرف سے وہ اشتہارات ڈالے جاتے ہیں ۔
لہذا جہاں تک ہوسکے اس سے بچنے کی کوشش کرے اور اگر وہ اختیار سے باہر ہے تو پھر استعمال کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے ،چنانچہ مفتی محمّد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
ذی روح کی تصویر بنانا مطلقا ناجائز ہے خواہ قلم سے ہو یا یا آلات فوٹو پریس وغیرہ سے، لیکن ان آلات جدیدہ کے بارے میں اس جگہ ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ ذی روح کی تصویر بنانا کبھی تو بالقصد و بالاختیار ہوتا ہے اور کبھی بلا قصد یا تبعا بھی ان آلات میں ذی روح کی تصویر آجاتی ہے مثلا کسی مکان یا باغ یا بازار یا محاذ جنگ وغیرہ کا فوٹو لینا ہے اور وہاں بکثرت آمد و رفت کی بنا پر تمام انسانوں اور جانوروں کو علیحدہ کرنا اختیار میں نہیں ہوتا ہے۔ مکان یا بازار کی تصویر کے ذیل میں تبعا کچھ انسانوں اور جانوروں کی تصویر بھی آجاتی ہے یا کسی نے احتیاط بھی کی اور سب کو علیحدہ بھی کر دیا ایسے وقت فوٹو لیا جب کوئی ذی روح سامنے نہ تھا لیکن عین فوٹو لیتے وقت انسان یا جانور آگیا تو ان صورتوں میں ذی روح کی تصویر بلا قصد ارادہ تبعا چھپ جاتی ہے تو کیا یہ بھی ناجائز ہوگا کتب حنفیہ میں باوجود پوری تلاش و تفتیش کے خاص اس بارے میں کوئی جزئیہ نہیں ملا لیکن قواعد کلیہ سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے ( جواہر الفقہ250/7.١٥. ط: سلمان عثمان اينڈ کمپنی ديوبند ٢٠١٢)
جن تصاویرکا بنانا اور گھر میں رکھنا ناجائز ہے، ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔ البتہ تبعًا بلا قصد نظر پڑجائے تو مضائقہ نہیں جیسے کوئی اخبار یا کتاب مصور ہے تو مقصود اس کتاب و اخبار کو دیکھنا ہے۔ اگر بلا ارادہ تصویر بھی سامنے آجاتی ہے تو اس کا مضائقہ نہیں ۔( جواہر الفقہ264/7)
غرضیکہ جائز پروگراموں کے دوران غیر اختیاری طور پر آنے والے دینی اور تہذیبی اعتبار سے آنے والے ناقابل قبول اشتہارات کی حیثیت ایک مسافر کی راہ میں آنے والے ناشائستہ مناظر کی طرح ہے جس کی وجہ سے سفر کو ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اس لئے ممکن حد تک اس سے بچنے کی کوشش ہونی چاہئے اور بلا قصد غیر اختیاری طور پر ان اشتھارات پر نظر پر جائے تو وہ معاف ہے اور اس کی وجہ سے کسی جائز پروگرام سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
ایل سی ڈی کے ذریعے تقریر سننا:
مقرر کے چہرے کے نقوش اور اس کے اشارات و حرکات کو دیکھ کر جو اثر ہوتا ہے وہ محض اس کی آواز کے سننے سے نہیں ہوتا ہےاور اس طرح سے سامعین کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور وہ توجہ سے پروگرام کو سنتے ہیں ۔ اس لئے اسٹیج پر موجود مقرر کو دیکھنے کے لئے ٹی وی اسکرین لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اور ویڈیو گرافی کے بغیر براہ راست نشر ہونے والے پروگرام کے بارے میں بہت سے علماء کا خیال ہے ہے کہ وہ تصویر کے حکم میں داخل نہیں ہے ۔چنانچہ مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
وجہ اس کی یہ ہے کہ تصویر وہ ہوتی ہے جس کو کسی چیز پر علی صفت الدوام ثابت اور مستقر کر دیا جائے لہذا اگر وہ تصویر علی صفت الدوام کسی چیز پر ثابت اور مستقر نہیں ہے تو پھر وہ تصویر نہیں ہے بلکہ وہ عکس ہے لہذا براہ راست دکھائے جانے والی تصویر عکس ہے تصویر نہیں، مثلا کوئی شخص یہاں سے دو میل دور ہے اور اس کے پاس ایک شیشہ ہے اس شیشہ کے ذریعے وہ یہاں کا منظر دیکھ رہا ہے اس لیے کہ یہ عکس کسی جگہ پر ثابت اور مستقر علی صفت الدوام نہیں ہے بالکل اسی طرح براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کی صورت میں برقی ذرات کے ذریعے انسان کی صورت کے ذرات منتقل کیے جاتے ہیں اور پھر ان کو اسکرین کے ذریعے دکھا دیا جاتا ہے لہذا یہ تصویر عکس سے زیادہ قریب ہے تصویر کے مقابلے میں۔(درس ترمذی646/5)
اور فقیہ عصر مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
اسکرین کی جو تصویر آتی ہے اس میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ متحرک شکل میں ہوتی ہے ،جیسے ہی مقرر کیمرے کے سامنے سے ہٹتا ہے اس کی صورت نظر نہیں اتی؛ اس لیے یہ ایک جائز صورت ہے.(جدید فقہی مسائل 455/2،ط۔نعیمیہ دیوبند2020ء)
خواتین کے اجتماع گاہ میں ایل سی ڈی:
-مسلمان مرد و عورت ہر ایک کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہ کو پست رکھیں۔ارشاد ربانی ہے :
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ .وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا( سورہ النور 30-31)
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہوجائے۔
اس لئے بالقصد مردوں کا عورتوں کو اور عورتوں کا مردوں دیکھنا ممنوع ہے البتہ مردوں کے دیکھنے کے مقابلے میں عورتوں کا مردوں کو دیکھنے میں ہلکے درجے کی کراہت ہے کہ اس میں فتنہ کا امکان کم ہے اور اسی وجہ سے عورتوں کو پردے کا مکلف بنایا گیا ہے نہ کہ مردوں کو ۔
اور اگر یہ دیکھنا بالقصد نہ ہو بلکہ کسی پروگرام وغیرہ کے ضمن میں ہو تو اس میں کوئی کراہت بھی نہیں ہوگی ۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے منقول ایک حدیث میں ہے :
لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي، وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، أَنْظُرُ إِلَى لَعِبِهِمْ.
رسول اللہ ﷺ میرے کمرے کے دروازے پر قیام فرما تھے اور حبشہ کے لوگ مسجد میں کھیل رہے تھے میں بھی ان کے کھیل کود کو دیکھ رہی تھی اور آنحضرت ﷺ اپنی چادر سے مجھے چھپائے ہوئے تھے ۔
(بخاري :454)
حافظ ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
قوله: ( يسترني بردائه ) يدل على أن ذلك كان بعد نزول الحجاب، ويدل على جواز نظر المرأة إلى الرجل.
"مجھے اپنی چادر سے چھپائے ہوئے تھے "اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پردے کے حکم کے نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے ۔اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا مرد کی طرف دیکھنا جائز ہے ۔(فتح الباری ۔حدیث :454)
لہذا جلسہ گاہ کے اس حصے میں ٹی وی اسکرین لگانا جائز ہے جہاں خواتین کی نشست ہوتی ہے ۔
تصویر دار اشیاء کی خرید وفروخت:
کاغذ اور کپڑے وغیرہ کی تصویر کی ممانعت میں اختلاف ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے البتہ ہند و پاک کے علماء اس کی ممانعت پر متفق ہیں لیکن اگر یہ تصویر مقصود نہ ہو اور تابع کی حیثیت رکھتی ہو جیسے کہ تصویر دار کتاب اور کاپی وغیرہ
تو مقصد کا لحاظ کرتے ہوئے ایسی مصور چیزوں کی خریدوفروخت درست ہوگی ۔چنانچہ مفتی محمّد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
بیع و شراء میں اگر تصاویر خود مقصود نہ ہوں بلکہ دوسری چیزوں کے تابع ہو کر آجائیں جیسے اکثر کپڑوں میں مورتیں لگی ہوتی ہیں یا برتنوں اور دوسری مصنوعات جدیدہ میں اس کا رواج عام ہے تو اس کی خرید و فروخت تبعا جائز ہے۔۔۔۔۔لیکن جب خود تصاویر ہی کی بیع و شراء مقصود ہو تو خریدنا اور فروخت کرنا دونوں ناجائز ہیں اور اگر تصویر مٹی کی بنی ہوئی ہو تو شرعا اس کی کچھ قیمت کسی کے ذمہ واجب نہیں ہوتی البتہ اگر کسی دھات یا لکڑی وغیرہ کی ہو تو اتنی قیمت واجب ہوتی ہے جس قدر اس لکڑی یا دھات کی قیمت تصویر سے قطع نظر کر کے ہو سکتی ہے۔(جواہر الفقہ263/7)
حواشی:
١-بان المراد إيجاد حبة على الحقيقة لا تصويرها ، فتح الباري ٤٧٢/١٠ ط: مکتبہ اشرفية ديوبند
٢-ورخص بعضهم الوعيد الشديد بمن صور قاصداً أن يضاهي فانه يصير بذلك القصد كافرا _(فتح الباري٤٧٠/١٠)
٣-"والمحرم من ذلك بإجماع ماله ظل قائم على صفة ما يحيى من الحيوان وما سوى ذلك من الرسوم في الحيطان والرقوم في الستور التي تنشر أو البسط التي تفرش أو الوسائد التي يرتفق بها مكروهة وليس بحرام في صحيح الأقوال لتعارض الآثار والتعارض شبهة”.(الذخيرة للقرافي "(٢٨٥/١٣):
وکان أبوھریرة یکرہ التصاویر ما نُصب منها وما بُسط وکذلك مالك إلا أنه کان یکرھها تنزُّھا،ولایراھا محرمة۔ (المغنی لابن قدامہ١٩٩/١٠، مسألة: فإن لم يحب أن يطعم دعا و انصرف ط: دار عالم الكتب رياض ١٩٩٨.فقہ حنبلی میں پردے پر بنی تصویر کے جائز اور ناجائز ہونے کی دو روایتیں ہیں ۔اور ابن قدامہ حنبلی نے لکھا ہے کہ حنابلہ کے ہاں کپڑے پر بنی ہوئی تصویر حرام نہیں ہے۔ مرداوی اور ابن عقیل کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نزدیک دیوار اور پردے پر بنی ہوئی تصویر حرام نہیں ہے۔ دیکھئے: المغنی ٢١٥/٧.٢٠١/١٠-کشاف القناع للبھوتی ١١٩/٥)
٤-ويحتمل أن يقصر على ماله ظل من جهه قوله ”كخلقي“ فان خلقه الذي اخترعه ليس صورة في حائط بل هو خلق تام_ فتح الباري ٤٧٢/١٠).