اہل کتاب عورتوں سے نکاح۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
دن اور رات کی طرح توحید اور شرک بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں ، دونوں کی راہیں الگ الگ ہیں ، ایک کامیابی و کامرانی کی شاہراہ ہے جو جنت تک پہنچاتی ہے ، دوسرا تباہی و بربادی کا راستہ ہے جو جہنم پر جاکر ختم ہوتا ہے ، ظاہر ہے کہ جو لوگ ان متضاد نظریات کے حامل ہوں گے ان میں دلی وابستگی نہیں ہوسکتی ہے ، اس لیے مومن و مشرک کے درمیان ازدواجی تعلقات سے منع کیا گیا ہے کہ نکاح کا مقصد باہمی الفت و محبت اور سکون و اطمینان کا حصول ہے، جس کا اس طرح کے مردوعورت میں پایا جانا ناممکن ہے ، گرچہ مشرکوں کے ساتھ رواداری ، حسن سلوک اور سماجی و معاشی تعلقات کی اجازت ہے جس کی بنیاد انسانیت اور پرامن بقاء باہم پر ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
وَلَاتَنْکِحُواالْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃ’‘ مُّؤْمِنَۃ’‘ خَیْر’‘ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ،وَ لَعَبْد’‘ مُّؤْمِن’‘خَیْر’‘ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ، اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ (سورۃ البقرۃ:221)
’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور ایک مومن باندی، مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے گرچہ وہ تمہیں بہت اچھی لگے، اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ، ایک مومن غلام، آزاد مشرک سے بہتر ہے گر چہ وہ تمہیں پسند ہو ، یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم کے ذریعہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتے ہیں ‘‘۔
اورایک دوسری آیت میں ہے :
فَاِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ لَا ھُنَّ حِلّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّ وَاٰتُوْھُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ(سورۃ الممتحنہ:10)
’’اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ ہجرت کرکے آنے والی عورتیں صاحب ایمان ہیں تو انہیں کافروں کی طرف واپس مت کرو ، نہ وہ کافروں کے لیے حلال ہیں اور نہ کافر ان کے لیے حلال، اور ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیے ہیں وہ انہیں واپس کر دو ،اوراب ان عورتوں سے نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ تم ان کے مہر ادا کردو اور تم خود بھی اپنے نکاح میں کافر عورتوں کو نہ رکھو ۔‘‘
علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس آیت کے ذریعہ مسلمان عورتوں کے لیے مشرک مردوں سے نکاح کوحرام قرار دیاگیا جوکہ اسلام کے شروعاتی دور میں جائز تھا (تفسیر ابن کثیر65/8)
اورامام مجاہد کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ صحابہ کرام کو حکم دیا گیاہے کہ وہ اپنی ان کافر عورتوں کو طلاق دے دیں جو مکہ میں کافروں کے ساتھ رہ گئی ہیں ۔(روح المعانی:76/28)
مشرک عورتوں سے نکاح کے جائز نہ ہونے پر تمام علماء کا اتفاق اور اجماع ہے اور یہی حکم ان لوگوں کا بھی ہے جو الحاد کے قائل ہیں ، یعنی الوہیت ، نبوت اور آخرت وغیرہ پر ان کا ایمان نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے لوگ مشرکوں سے بھی بدتر ہیں ، اس لیے کہ مشرک کم از کم اللہ کے وجود کا قائل ہوتا ہے اور یہ اس کے بھی منکر ہوتے ہیں ، جیسے کہ کمیونزم کے پیروکار اور دہریہ ، یہی حکم دین اسلام سے پھر جانے والوں کا بھی ہے ، خواہ وہ دین اسلام سے نکل کر کسی دوسرے دین جیسے یہودیت اور نصرانیت میں داخل ہوں یا نہ ہوں ۔
اور یہی حال بہائی مرد وعورت سے نکاح کرنے کا بھی ہے کیونکہ اس نے یا تو اس مذہب کو اسلام ترک کرکے اختیارکیا ہے ، ایسی صورت میں وہ مرتد شمار ہوگا اور مرتد مرد و عورت سے نکاح جائز نہیں ہے یااس نے نصرانیت ، یہودیت یا بت پرستی وغیرہ کو چھوڑ کر کے بہائی مذہب کو قبول کیا ہے تووہ شرک کرنے والوں میں شامل مانا جائے گا اور کافر سمجھاجائے گا ، اس لیے کہ آنحضور ﷺ کے بعد کسی بھی دین کو اور قرآن کے بعد کسی بھی مذہبی کتاب کو کسی بھی درجے میں لائق اعتنا نہیں سمجھاجائے گا ۔
اسی زمرے میں قادیانی بھی شامل ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ،خواہ وہ نسلی قادیانی ہو یا دین اسلام سے مرتد ہوکر یا کسی دوسرے دھرم کو چھوڑ کرکے قادیانی بنا ہو ۔
کتابیات سے نکاح:
یہود ونصاریٰ گرچہ مشرک ہیں لیکن دوسرے مشرکوں کے بالمقابل وہ حق سے زیادہ قریب ہیں اس لیے قرآن حکیم میں انہیں عام مشرکوں سے الگ رکھا گیا ہے اور ان کے لیے ’’اہل کتاب ‘‘کالفظ استعمال کیا ہے ،چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کاارشاد ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصَّابِئِیْنَ وَالنَّصٰرٰی وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْد’‘ (سورۃ الحج:17)
’’جولوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی ، نصرانی اور مجوسی اور جن لوگوں نے شرک کیا ، ان سب کے درمیان اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فیصلہ کردے گا ، بلاشبہ ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے ‘‘۔
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْ تِیَھُمْ الْبَیِّنَۃُ۔(سورۃ البینۃ:1)
’’اہل کتاب اور مشرکوں میں سے جوکافر تھے وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس روشن دلیل نہ آجائے ‘‘۔
یہ آیتیں دلیل فراہم کرتی ہیں کہ اہل کتاب کو عام مشرکوں کے زمرے میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ بعض پہلؤں سے ان کے ساتھ الگ معاملہ کیاجائے گا اور اسی بنیاد پر ان کے ذبیحے کو حلال اور ان کی عورتوں سے نکاح کو درست کہا گیا ہے ،چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ:
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ حِلّ’‘ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلّ’‘ لَّھُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ (سورۃ المائدہ:5)
’’آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اوراہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے ان کی پاک دامن عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں ، جب کہ تم ان کا مہر ادا کرکے باقاعدہ ان سے نکاح کرو ، یہ نہیں کہ ان سے آزاد شہوت رانی کرو یا چوری چھپے آشنائی کرو ‘‘۔
اور حدیث میں ہے کہ :
’’نتزوج نساء اھل الکتاب ولا یتزوجون نساء نا‘‘(ابن کثیر:583/1ت،سلامہ)
’’ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں لیکن وہ ہماری عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے ‘‘۔
اور صحابہ کرام اور تابعین عظام اسی کے قائل ہیں اور اہل علم کے درمیان اس کے جواز پر تقریباً اجماع اور اتفاق ہے ،(المغنی545/9) اورعملی طور پر حضرت عثمانؓ، طلحہؓ بن عبیداللہ اور حضرت حذیفہؓ سے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا ثابت ہے (احکام القراٰن للجصاص: 403/1)صحابہ میں سے صرف ابن عمرؓ کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ اسے جائز نہیں سمجھتے تھے اور جب ان سے اس کے متعلق پوچھاجاتا تو کہتے :
ان اللّٰہ حرم المشرکات علی المومنین ولا اعلم من الاشراک شیئا اکبر من ان تقول المرءۃ ربھا عیسی وھو عبد من عباد اللّٰہ (صحیح بخاری5285)
’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے مشرک عورتوں سے نکاح کرنے کو حرام کہا ہے اور اس سے بڑھ کر شرک اور کیاہوگا کہ کوئی عورت کہے کہ اس کے رب حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) ہیں ،حالانکہ وہ اللہ کے بندے ہیں‘‘۔
اور تابعین میں سے محمد بن حنفیہ اور فرقہ زیدیہ کے امام ہادی اور شیعیہ امامیہ کے نزدیک اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح درست نہیں ہے ، یہ لوگ بطوردلیل سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت کو پیش کرتے ہیں جس میں مشرک عورتوں سے نکاح سے منع کیاگیاہے ۔(احکام القراٰن:403/1،روح المعانی:1882، مفاتیح الغیب:50/3)
جہاں تک حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی رائے ہے تو ان سے ایک روایت اس کے برخلاف بھی منقول ہے کہ وہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو صرف ناپسند کرتے تھے ، ناجائز
نہیں کہتے تھے (احکام القراٰن: 402/1)جیسا کہ حضرت عمرؓ اسی کے قائل تھے ، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ :
المسلم یتزوج النصرانیۃ ولا یتزوج النصرانی المسلمۃ (تفسیر طبری:366/4)
’’مسلم مرد کسی نصرانی عورت سے نکاح کرسکتا ہے لیکن نصرانی کسی مسلمان عورت سے نکاح نہیں کرسکتا ‘‘۔
لیکن وہ اس طرح کے نکاح کو سخت ناپسند کرتے تھے ،چنانچہ جب انہیں اطلاع ملی کہ حضرت حذیفہؓ نے ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا ہے تو انہیں کہلا بھیجا کہ اسے طلاق دے دو ، حضرت حذیفہؓ نے جواب میں لکھا کہ اگر آپ اسے حرام سمجھتے ہیں تو باخبر کریں اور میں اسے چھوڑ دوں ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں اسے حرام نہیں سمجھتا لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اس کی چھوٹ دے دی جائے توتم ان کی بدکار عورتوں سے بھی نکاح کرلوگے ۔(حوالہ مذکور)
حضرت عمرؓ سے منقول بعض روایتوں میں ہے کہ وہ ان سے نکاح کو سرے سے جائز ہی نہیں سمجھتے تھے اور ابن عباسؓ بھی اسی کے قائل تھے لیکن اس طرح کی روایتیں صحیح نہیں، صحیح روایتوں میں ان دونوں سے نکاح کا جواز منقول ہے ۔
رہی وہ آیت جس میں مشرک مرد و عورت سے نکاح سے منع کیاگیا ہے تو اس سلسلے میں جمہور کہتے ہیں کہ اگر اس کے عموم میں اہل کتاب بھی شامل ہوں تو سورۂ مائدہ کی گزشتہ آیت جس میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کا جواز مذکور ہے اس کے لیے ناسخ ہے کیونکہ سورۂ بقرہ پہلے نازل ہوئی ہے اور سورۂ مائدہ بعد میں ، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ پہلے سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت کے ذریعہ مشرک مرد و عورت سے نکاح سے منع کیاگیا تھا اور پھر سورۂ مائدہ کے ذریعہ اہل کتاب کی عورتوں کا حکم ا س سے مستثنیٰ کرلیاگیا ، یہی بات حضرت عکرمہؓ، حسن بصریؒ اور مجاہد سے بھی منقول ہے اورحضرت سعید بن جبیر اور قتادہ کہتے ہیںکہ سورۂ بقرہ کے مذکورہ آیت کے عموم میں اہل کتاب داخل نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد بت پرست ہیں ، اسی طرح سورۂ ممتحنہ میں’’کوافر‘‘(کافر عورتوں) سے مراد بت پرست عورتیں ہیں ، اس لیے کہ یہ آیت مکہ کے مشرک عورتوں کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔(حوالۂ مذکور)
اہل کتاب سے مراد:
جمہور علماء کے نزدیک اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، ان کے علاوہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کا شمار اہل کتاب میں نہیں ہوگا ،گرچہ وہ اپنے پاس کسی آسمانی کتاب کے ہونے کے دعویدار ہوں ، چنانچہ خود قرآن میں ہے :
اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلیٰ طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ (سورۃ الانعام:156)
’’(ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ ) کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ کتاب تو صرف ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی ہے اورہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بے خبر تھے ‘‘۔
مذکورہ آیت میں دونوں فرقوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب صرف دو جماعتوں پر نازل ہوئی ، اس کے علاوہ دیگر قوموں کو جو کتاب دی گئی وہ وعظ ونصیحت اور مثال وغیرہ پر مشتمل تھی ، ان میں احکام نہیں تھے (دیکھیے المغنی546/9، الملل الشہرستانی: 260/1)
علاوہ ازیں قرآن حکیم میں اکتیس جگہوں پر اہل کتاب کو مخاطب کیا گیا ہے اور چار طرح کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں :’’اوتواالکتاب‘‘،’’اٰتیناھم الکتب‘‘، ’’اورثواالکتاب‘‘، ’’یااھل الکتاب‘‘اور ان تمام الفاظ کے ذریعہ صرف یہودو نصاریٰ کو مراد لیاگیا ہے ، یہی حال حدیثوں کا بھی ہے کہ ان میں ’’اہل کتاب‘‘ کے لفظ سے صرف یہودو نصاریٰ کومراد لیاگیا ہے ۔(دیکھیے صحیح البخاری49/3، صحیح مسلم:125)
حنفیہ کے نزدیک ہر وہ قوم اہل کتاب ہے جوکسی نبی پر ایمان اور ان پر نازل ہونے والی کتاب پر یقین رکھتی ہو ،جیسے کہ حضرت داؤدؑ، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت شیثؑ وغیرہ پر نازل شدہ صحیفے ۔(ردالمحتار135/4، الھندیۃ:281/1)
اہل کتاب سے نکاح کی شرطیں:
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ مسلم مرد کے لیے یہودی و نصرانی عورت سے نکاح کرنا جائز ہے تاکہ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان بیگانگی اور دوری ختم ہو ، ایک دوسرے سے میل جول کے مواقع پیدا ہوں جس کی وجہ سے ان کے لیے اسلامی تعلیمات کو سمجھنا اوراس کی خوبیوں سے آگاہ ہونا ممکن ہوگا ، نیز عورت کو اسلام کی طرف راغب کیاجاسکے گا ،لیکن اس کے لیے چند شرطوں کی رعایت ضروری ہے :
1۔ یہودی اور نصرانی ہونے کے لیے محض کسی اہل کتاب کے گھر میں پیدا ہونا یا ان جیسے نام کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہودیت اور نصرانیت کے عقائد کاحامل ہونا لازمی ہے یعنی ملحد اور مرتد نہ ہو یا کسی ایسے مذہب کا پیروکار نہ ہو جس کاشمار اہل کتاب میں نہ ہوتا ہو ، جیسے کہ بہائیت وغیرہ۔
2۔ وہ عورت پاک دامن ہو ، اس لیے کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں ، علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ آیت میں مذکور ’’المحصنات‘‘سے مراد وہ عورتیں ہے جو پاک دامن ہوں ، جیسا کہ قرآن حکیم کی دوسری آیت میں ہے کہ’’مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ‘‘ (وہ پاک دامن ہوں نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والیاں )۔
اور بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہ کوکتابی عورت سے نکاح سے روکنے کی یہ وجہ بیان کی :
’’ولکن خشیت ان تعاطوا المومسات منھن‘‘
’’مجھے ڈر ہے کہ تم ان کی بدکار عورتوں سے نکاح کرنے لگوگے ‘‘۔(تفسیر ابن کثیر257/1)
جمہور علماء اسی کے قائل ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک ’’محصنات ‘‘ سے مراد آزاد عورت ہے ۔
درحقیقت ’’حصن‘‘ کے معنی قلعہ کے ہیں اور ’’محصن‘‘ وہ شخص ہے جو قلعہ میں پناہ لے لے اور محفوظ ہوجائے ، اس حقیقت کے پیش نظر یہ لفظ قرآن مجید میں تین مفہوم میں استعمال ہوا ہے :
1۔شادی شدہ عورت کے لیے (سورۃ النساء:24)
کہ شادی کے بعد ان کی عصمت وعفت محفوظ ہوجاتی ہے ۔
2۔ آزاد عورت کے لیے (حوالۂ مذکور)کہ وہ اپنی شرافت کی وجہ سے بدکاری سے محفوظ رہے گی ۔
3۔ پاک دامن عورت کے لیے۔(سورۃ النور:5)
لیکن ان تینوں میں جو قدر مشترک ہے وہ عصمت و عفت کی حفاظت جو اسلام کی نگاہ میں بہت اہم ہے اور آج کے مغربی معاشرہ میں یہی صفت ناپیدہے ، اس لیے اس سے اجتناب بہتر ہے تاکہ مسلم معاشرہ اخلاقی گراوٹ سے محفوظ رہے ، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے کسی نے دریافت کیاکہ وہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے ؟ مسلم عورتیں کافی ہیں اور اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو کسی پاک دامن اور عزت دار عورت سے نکاح کرو ۔(روح المعانی :384/4)
3۔ عورت کا تعلق دارالحرب سے نہ ہو ۔
تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ دارالحرب میں رہتے ہوئے اگر زنا کا اندیشہ ہو تو کسی کتابی عورت سے نکاح جائز ہے (البدائع 271/2، المغنی:549/9)
اس لیے کہ زنا سے اجتناب فرض ہے ، جس سے نکاح کے بغیر بچنا مشکل ہے ، اسی طرح سے تمام لوگوں کا اس پراجماع ہے کہ نکاح کے لیے مسلمان عورت لائق ترجیح ہے اور عام حالات میں کتابی عورت سے نکاح کرنا پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ نکاح کے لیے دیندار عورتوں کا انتخاب کرو ، فاظفربذات الدین (صحیح البخاری:5090)
البتہ اس میں اختلاف ہے کہ کتابی عورت سے نکاح کے لیے اس کا مسلم مملکت کا شہری ہونا ضروری ہے یا حربی عورتوں سے بھی نکاح درست ہے ، شافعیہ کے نزدیک حربی عورتوں سے نکاح کراہت کے ساتھ جائز ہے ، حنفیہ میں سے امام سرخسی بھی اسی کے قائل ہیں اور مالکی علما ء کی بھی یہی رائے ہے (المبسوط:50/5،حاشیۃ الخرشی:243/4)
اس لیے کہ قرآن میں عمومی طور پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو حلال کیاگیا ہے ، خواہ وہ اسلامی ملک میں رہتی ہوں یا کسی حربی ملک میں رہنے والی ہوں ، اس کے برخلاف دوسرے علماء کے نزدیک کتابی عورت سے نکاح کے لیے شرط ہے کہ وہ حربی نہ ہو اور امام احمد بن حنبل حربی عورت سے نکاح کو حرام قرار دیتے ہیں، اور بعض حنفی علماء نے اسے مکروہ تحریمی کہا ہے (الفتاوی الکبریٰ: 460/5، رد المحتار:134/4) اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کی بعض عورتیں ہمارے لیے حلال ہیں اور بعض حرام ، اور پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ(سورۃ التوبۃ:29)
’’ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حرام کیے ہوئے کو حرام نہیں سمجھتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور ماتحت بن کر رہیں ‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ جولوگ جزیہ دیں گے ان کی عورتیں حلال ہیں اور جو جزیہ نہیں دیتے ان کی عورتیں حلال نہیں ، حضرت علیؓ بھی اسی کے قائل ہیں اور قتادہ وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے (تفسیر طبری788/9
اور علامہ ابوبکر جصاص رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں مومنین کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتے اور نکاح کا رشتہ محبت کا ذریعہ ہے ، اس کی وجہ سے نہ صرف عورت سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس کے خاندان والوں سے بھی لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (سورۃ الروم21)
’’اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان ہمدردی اور محبت قائم کردی ، یقینا غور وفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ‘‘۔
اور ظاہر ہے کہ حربی عورت کو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہے جس سے الفت ومحبت ممنوع ہے، لہٰذا اس سے نکاح ممنوع ہونا چاہیے ۔(احکام القراٰن:403/2)
یہ رائے اس اعتبار سے بھی بہتر ہے کہ مسلم ملک میں رہنے کی وجہ سے عورت اپنے شوہر کے تابع ہوگی نیز اسلامی ماحول اور معاشرہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے اسلام کی طرف مائل ہونے کے مواقع ہوں گے ، اس کے برخلاف دارالحرب کے ماحول میں خود شوہر کے لیے اندیشہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے سماج میں گم ہوجائے اور محبت میں پھنس کر کسی آزمائش میں مبتلا ہوجائے نیز اولاد کی تربیت پر بھی خراب اثر مرتب ہوگا کہ وہ ماں کے طور طریقے اختیار کر سکتی ہے ، کیونکہ بچے اپنی ماں کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور ماحول و معاشرہ بھی اس کے موافق ہوگا (دیکھیے فتح القدیر:229/3)علامہ ابن جریر طبری جو حربی عورتوں سے نکاح کو جائز کہتے ہیں وہ بھی لکھتے ہیںکہ جس عورت سے نکاح کیاجائے اسے ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں اس کا اندیشہ نہ ہو کہ اس کی اولاد کفر پر مجبور کی جائے گی ۔(جامع البیان:586/9)
4۔ کتابیہ عورت سے نکاح کے جواز کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ اس کی وجہ سے کسی ضرر اور فتنہ کااندیشہ نہ ہو ، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ لاضرر ولاضرار ۔
اگر اس نکاح کی وجہ سے مرد کی دینداری یا اس کی اولاد کے اخلاق وکردار کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتو پھر نکاح درست نہیں ہے جیساکہ آج کل امریکہ یا یورپ وغیرہ میں اس طرح کے نکاح کے برے نتائج سامنے آرہے ہیں اور خود مسلم ممالک میں سربراہانِ سلطنت ، وزراء اور سرمایہ داروں کے محلات کی زینت یہودی اور نصرانی عورتیں ہیں جس کی وجہ سے پورا عالم اسلام شدید سیاسی نقصان سے دوچار اور کس مپرسی کا شکار ہے اور آج مسلمانوں کی حیثیت ایک مفتوح اور مغلوب قوم کی سی ہے جس کی نگاہیں مغرب کی طرف سے آنے والی ہرچیز پر ٹکی رہتی ہیں اور ان کی پیروی فیشن اور ترقی کی علامت مانی جاتی ہے ، وہ موثر ہونے کے بجائے متاثر ہونے کا زیادہ شوق رکھتا ہے ، اس لیے ان کی عورتوں سے نکاح کراہت سے خالی نہیں ہے ۔
٭٭٭