بسم الله الرحمن الرحيم.
سلسله(5)
لباس اور زینت سے متعلق نئے مسائل:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
9-بالوں کے مختلف اسٹائل:
بالوں کے سلسلے میں شریعت نے کسی خاص انداز کا پابند نہیں بنایا ہے بلکہ اسے انسان کی مرضی اور پسند پر چھوڑ دیا ہے البتہ اس بات کا لحاظ ضرور رکھا ہے کہ اس میں غیروں کے ساتھ مشابہت نہ ہونے پائے چنانچہ حدیث میں ہے :
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْدِلُ شَعَرَهُ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ ، و كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ رُءُوسَهُمْ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءٍ ، ثُمَّ فَرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْد(صحيح بخاري:3556 وغيره)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو مانگ نکالے بغیر لٹکتا ہوا چھوڑ دیتے تھے اور اس وقت مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے اور اہل کتاب مانگ نہیں نکالتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نہیں آیا ہوتا وہ اس میں اہل کتاب کی موافقت کو پسند کیا کرتے تھے اور پھر اس کے بعد آپ مانگ نکالنے لگے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس وقت مشرکوں کی کثرت تھی اور اہل کتاب کے بارے میں یہ امید کی جا سکتی تھی کہ ان کا عمل گزشتہ نبیوں کے طریقے سے ماخوذ ہوگا اس لیے
بت پرستوں کی بہ نسبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ موافقت کو پسند کیا کرتے تھے اور جب زیادہ تر مشرکین نے اسلام قبول کر لیا تو پھر یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے آپ نے مانگ نکالنا شروع کر دیا (فتح الباری)
اور معمر سے منقول روایت میں ہے :
ثم امر بالفرق ففرق وكان الفرق آخر الامرين( عون المعبود)
پھر اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو مانگ نکالنے کا حکم دیا گیا اور اپ مانگ نکالنے لگے اور یہی آپ کا آخری عمل تھا
لہذا بالوں کو گھنگریالا بنانا اور اس میں شکن پیدا کرنا ممنوع ہے کیونکہ اس میں غیروں کے ساتھ مشابہت ہے نیز اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی اور زینت میں غلو ہے جس سے منع کیا گیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے :
من عقد لحيته… فان محمدا صلى الله عليه وسلم منه بري( سنن ابوداؤد:36، سنن نسائی:5067)
جو کوئی اپنے داڑھی کے بال کو باندھے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔
علامہ سندھی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد داڑھی کو گول اور گھنگریالا بنانا ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد داڑھی کو باندھنا ہے (حاشیہ سندھی علی النسائی)