بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(19) دوا علاج سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
19- بھانگ وغیرہ سے علاج:
عربی زبان میں نشہ کے لئے "سکر” کا لفظ استعمال ہوتا ہے ،جس میں زوال عقل کے ساتھ سرور اور مستی کی شدت پائی جاتی ہے ۔
اور اسی کے قریب ایک دوسرا لفظ "تخدیر” ہے جس میں عقل تو زائل ہوجاتی مگر اس میں مستی نہیں ہوتی ہے بلکہ غنودگی ،بے حسی اور بے شعوری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر علم طب میں "تخدیر” (anesthesia) کا لفظ اس موقع کے لئے استعمال ہوتا ہےجب دواء وغیرہ کی مدد سے کسی کو بے ہوش کردیا جائے تاکہ آپریشن کی اذیت اور کرب سے مریض کو محفوظ رکھا جائے اور اطمینان کے ساتھ اس عمل کو انجام دیا جاسکے ۔
اور ایک تیسرا لفظ "تفتیر” ہے جس میں اعضاء ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور آدمی سست پڑ جاتا ہے ۔(دیکھئے الموسوعہ الفقہیہ 258/4.رد المحتار 47/10)
"تخدیر” اور "تفتیر” میں نشہ کی کیفیت نہیں ہوتی ہے اس لئے "تخدیر” اور "تفتیر” پیدا کرنے والی چیزوں پر نشہ پیدا کرنے والی چیزوں کے احکام جاری نہیں ہوں گے بلکہ اس طرح کی چیزیں اصلا جائز اور پاک ہوتی ہیں لیکن جسم و عقل کے لئے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے ان کا استعمال حرام ہے کہ شریعت کے پانچ بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد عقل کی حفاظت ہے کہ یہی وہ بیش بہا دولت ہے جس کی وجہ سے انسان شرعی احکام کا مخاطب بننے کا شرف حاصل کرتا ہے اور شراب کی حرمت کی وجہ یہی عقل کا زوال ہے لہذا بعض چیزوں میں گرچہ سرور و مستی کی کیفیت نہیں ہوتی ہے مگر عقل زائل کرنے میں شراب کی طرح ہیں اس لئے حرام ہیں۔چنانچہ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں:
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ وَمُفْتِرٍ.
رسول اللہ ﷺ نے ہر مسکر اور مفتر سے منع فرمایا ہے.(ابوداؤد:3686)
علامہ طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے بھانگ وغیرہ کی حرمت پر استدلال کیا جاسکتا ہے جس سے سستی پیدا ہوتی ہے اور عقل زائل ہوجاتی ہے ،اس لئے کی شراب کی حرمت کی علت عقل کا زوال ہے اور وہ اس میں موجود ہے ۔(عون المعبود ۔رقم الحدیث: 3686)
البتہ بطور علاج اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے(1) کیونکہ بھانگ ،افیون اور حشیش وغیرہ جامد چیزیں تخدیر اور تفتیر پیدا کرتی ہیں ۔لہذا ان پر نشہ کے تمام احکام نافذ نہیں ہونگے بلکہ بہت سے مسائل میں دونوں کے درمیان فرق کا لحاظ رکھا جائے گا جس کی دلیل خود حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسکر اور مفتر کو حرف عطف کے ذریعے الگ الگ بیان فرمایا ہے اور عطف مغایرت کا تقاضا کرتا ہے یعنی سکر اور تفتیر کی حقیقت میں فرق ہے چنانچہ علامہ ابن رسلان کہتے ہیں کہ مفتر اور مسکر کو حرف عطف کے ذریعے بیان کرنا دونوں کے درمیان مغایرت پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ عطف دو چیزوں کے درمیان غیریت کا تقاضا کرتا ہے لہذا کہا جائے گا کہ مسکر سے مراد وہ ہے جس میں مستی اور سرور ہو اور وہ حرام ہے اور اس میں حد واجب ہے اور مفتر سے مراد حشیش جیسے نباتات ہیں جنھیں گھٹیا لوگ استعمال کرتے ہیں اور اس میں حد نہیں ہے ۔اور رافعی کہتے ہیں کہ وہ نباتات جس سے عقل زائل ہوجاتی ہے لیکن مستی کی شدت نہیں ہوتی ہے ان کا کھانا حرام ہے لیکن اس میں حد نہیں ہے۔
اور علامہ عظیم آبادی کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ کے ذریعے تفتیر پیدا ہوتی ہے بعض لوگوں کے خیال کے مطابق اور کچھ نقصاندہ ہیں بعض لوگوں کی رائے کے مطابق لہذا قلیل مقدار میں تناول کرنا حرام نہیں ہے خواہ صرف اسی کو کھایا جائے یا اسے کھانا یا دوا میں ملا کر استعمال کیا جائے البتہ اتنی مقدار میں کھانا کہ تفتیر پیدا ہوجائے جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ہر مفتر سے منع فرمایا ہے لیکن آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا ہے کہ جس کی کثیر مقدار سے تفتیر پیدا ہوجائے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے ۔تو ہم صرف وہی کہیں گے جو حدیث سے ثابت ہے اور اپنی طرف سے کوئی بات نہیں گھڑیں گے تو حرمت کی وجہ تفتیر ہے نہ کہ بذات خود تفتیر پیدا کرنے والی چیز۔ لہذا قلیل مقدار جو تفتیر پیدا نہ کرے جائز ہے۔۔۔
اور علامہ زرکشی کہتے ہیں کہ یہ چیزیں صرف اس لئے حرام ہیں کہ ان سے عقل کو ضرر پہونچتا ہے اور یہ مفتر میں داخل ہیں جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔۔۔
اور ابو نعیم کی ایک روایت میں انس بن حذیفہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو ! ہر مسکر حرام ہے اور ہر مخدر حرام ہے اور جس کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے اور جو عقل کو ڈھانک دے وہ حرام ہے۔
علامہ عظیم آبادی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ انصاف کی نگاہ سے دیکھو کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مسکر حرام ہے اور ہر مفتر حرام ہے اور ہر مخدر حرام ہے اور جس کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو تو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے پہلے مسکر و مفتر اور مخدر کو حرام قرار دیا تو اس کے بعد فرمایا کہ جس کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ جس کی زیادہ مقدار مفتر ہو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے اور جس کی زیادہ مقدار مخدر ہو تو اس کی کم مقدار بھی حرام ہے اور وضاحت کی ضرورت کے وقت اس سے خاموشی جائز نہیں ہے ۔اور نبی کریم ﷺ تینوں چیزوں کی حرمت ایک ساتھ ذکر کی ہے اور اس کی بعد نشہ آور کی کم مقدار کی حرمت بیان کی ۔اور اس موقع پر کم مقدار میں مفتر اور مخدر کی حرمت کو ذکر نہ کرنا واضح اور صریح دلیل ہے کہ کہ قلیل مقدار میں مفتر اور مخدر کا حکم قلیل مسکر سے الگ ہے کہ قلیل مسکر حرام ہے لیکن قلیل مفتر اور مخدر حرام نہیں ہے ۔(عون المعبود ۔رقم الحدیث: 3686)
(1)لان حرمتها ليست لعينها بل لضررها. رد المحتار 47/10۔وفي النهر: التحقيق ما في العنايه ان البنج مباح لانه حشيش واما السكر منه فحرام. الدر المختار 67/6. كتاب الحدود) ۔وان كان للتداوي فلا لعدمها. رد المحتار 47/10)