بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعلیم کے بنیادی مقاصد۔
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی۔
تاریکی اپنے ساتھ وحشت لے کے آتی ہے ۔سانپ اور بچھو کا ڈر ،چوری کا اندیشہ ،عزت و آبرو لٹ جانے کا خوف جنات و شیاطین اور بھوت ، پریت کی دہشت، ہزاروں وسوسے اور خطرے اور صبح کے آثار نظر آتے ہی تمام اندیشے بادل کی طرح چھٹ جاتے ہیں۔
جہالت بھی ایک طرح کی تاریکی ہے اور اپنے ساتھ ہزاروں خرابیاں لے کر آتی ہے۔ ہر ایک بُرائی سے نبردآزما ہونے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے۔ پھر بھی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے علم کی شمع جلائی جائے ،روشنی پھیلتے ہی جہالت کی تمام برائیاں خود بخود مٹ جائیں گی ۔
جب اسلام کا آفتاب عالم تاب طلوع ہوا تو وہ اپنے جلو میں علم و قلم کی نوید لے کر آیا۔ سب سے پہلی وحی پڑھنے اور لکھنے سے متعلق نازل ہوئی۔ حالانکہ اس وقت عربوں اور دیگر قوموں میں بہت سی ایسی بُرائیاں تھیں، جن پر ایک مصلح کی نگاہ جاکر ٹھہرسکتی تھی۔ شرک و بت پرستی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی، پوری قوم لامرکزیت اور اختلاف و انتشار کا شکار تھی، سیکڑوں دیوی اور دیوتاؤں کی طرح انسانی سماج بھی ان گنت حصوں میں بٹا ہوا تھا، ظلم و جور کی حکمرانی تھی، بے حیائی اور بے شرمی کا چلن تھا، انسانیت دم توڑ رہی تھی اور حیا ایک گوشے میں کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔
غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلی وحی میں ان برائیوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ لکھنے اور پڑھنے کا تذکرہ ہے ۔وجہ بالکل ظاہر ہے کہ جہالت ہی کی کوکھ سے تمام بُرائیاں جنم لیتی ہیں اور علم ہی وہ سرچشمہ ہے جہاں سے تمام اچھائیاں پھوٹتی ہیں۔اس لیے سب سے پہلے علم کی ضرورت ہے کہ کسی سماج میں جب علم کا سورج طلوع ہوگا تو وہ جہالت اور اس سے پیدا ہونے والی برائیوں کو جلا کر خاکستر کر دے گا۔
یہی وہ روشنی ہے جس کے ذریعے شرک و بت پرستی کی قباحت اور توحید کی حقیقت جانی جاسکتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
* شَہِدَ اللّہُ أَنَّہ‘‘ لآَ اِلَہَ اِلاَّ ہُوَ وَالْمَلآَئِکَۃُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ ﴿اٰلِ عمران:81﴾
’’اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور فرشتوں نے بھی اور علم والوں نے بھی۔‘‘
یہ اہل علم ہی ہیں جو اللہ کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے ذریعے زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں:
* وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا اِلَّا الْعَالِمُون﴿العنکبوت:43﴾
’’اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں، اور اہل علم ہی اس طرح کی چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
* وَلَوْ رَدُّوہُ اِلَی الرَّسُولِ وَاِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ ﴿النساء:83﴾
’’خوف و امن کی بات کو اگر یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے حاکموں کے حوالے کردیتے تو ان میں سے جو استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس کی حقیقت کو جان لیتے۔‘‘
تعلیم کی اثرانگیزی و ہمہ گیری:
کسی بھی سماج اور معاشرے کی تشکیل میں تعلیم اور مقصد تعلیم کا موثر ترین کردار ہوتاہے، انسانی زندگی پر تعلیم کا بڑا گہرا اثر ہوتاہے۔ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی لکھتے ہیں:
’’یوں تو باضابطہ تعلیم اگرچہ معاشرے کے ایک خاص طبقے کو دی جاتی ہے۔ یعنی کم عمر طبقے اور بچوں کو لیکن وہ نتیجۃً پورے معاشرے پر محیط ہوتی ہے۔ اس کی وضاحت اس طورپر کی جاسکتی ہے کہ ہم جس نسل کو تعلیم دیتے یا دلواتے ہیں یہ نسل زیادہ سے زیادہ بیس سال کی مدت میں معاشرے میں اپنی کم زور ترین اور بے اثر سطح سے نکل کر معاشرے کی موثر ترین سطح پر آجاتی ہے اور سماج کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے، یعنی جوان طبقہ جو سماج کی ہر قوت واہمیت کی ذمے داری کاحامل ہے۔
اکبر الٰہ آبادی نے اسی لحاظ سے تعلیم کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا:
وہ قتل سے بچوں کے یوں بدنام نہ ہوتا۔
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی۔
یعنی اگر وہ بنی اسرائیل کے شیر خوار بچوں کو قتل کرنے کی بجائے ان کی تعلیم کا بندوبست کردیتا جو قبطی اور فرعونی ذہن کے اساتذہ دیتے اور فرعونی دین کا نظام اور انتظام ہوتا اور مقاصد تعلیم بھی اسی ذہن کے مطابق ہوتے تو پھر وہ بچے بڑے ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے بجائے فرعون کے کام کے بن جاتے اور بغیر قتل کے نتیجۂ قتل حاصل ہوجاتا۔‘‘ ﴿سماج کی تعلیم و تربیت، ص:25﴾
تعلیم کا مقصد:
تعلیم کامقصد متعین کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس کائنات میں خود انسان کی کیا حیثیت ہے؟ اگر انسان مغرب کے نظریے کے مطابق ایک سماجی جانور ہے تو ظاہر ہے کہ جانور کی تعلیم کا مقصد پیٹ بھرنے اور جسمانی آسودگی کے سوا اور کیاہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کا جو بھی مقصد ہوگا، وہ ذیلی اور ضمنی ہوگا اور ہر ایک کی گردش اسی محور کے اردگرد ہوگی اور اگر اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق انسان کو اللہ کا بندہ اور خلیفہ قرار دیاجائے تو پھر اس کی تعلیم کامقصد ہوگا کہ وہ یہ جانے کہ رب کی بندگی کے تقاضے کیا ہیں؟ اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ اور وہ کیا چیزیں ہیں جو اسے خلافت ارضی کا اہل بناتی ہیں؟۔
تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو اسے علم وبصیرت کی دولت سے مالا مال کردے، زندگی کی ابدی اور روحانی حقیقتوں کا ادراک کراسکے، سائنس اور معاشرتی علوم کے بنیادی حقائق کو سمجھنے کے لائق بنا سکے۔فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھائے،طبعی رجحانات کو صحیح رخ پر ڈال سکے اور انفرادی، عائلی اور اجتماعی حیثیت سے جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں انھیں نبھا سکے۔ اسلام نے مقصد تعلیم کو جو وسعت اور ہمہ گیری عطا کی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ روحانی، ذہنی، جسمانی، انفرادی، عائلی، اجتماعی اور اخلاقی تعلیمات جیسے اعلیٰ اور پاکیزہ مقاصد کو صحیح مقام اور اہمیت دی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان بہترین سیرت وکردار کے حامل حکمراں، مدبر، مفکر اور سائنس داں پیداہوئے، جن کے عظیم کارناموں کے سامنے دنیا حیرت زدہ ہے۔
اسلامی مقصد تعلیم:
اسلامی مقصد تعلیم کی وسعت اور ہمہ گیری کو سمیٹا جائے تو وہ ایک لفظ سے عبارت ہے یعنی اللہ کا صالح بندہ بنانا ارشاد ربانی ہے:
ولكن كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب وبما كنتم تدرسون.
اس کے بجائے ( وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ پڑھتے رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہیے۔(سورہ آل عمران:79)
تعلیم کا یہ عمومی اور بنیادی مقصد ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھنا ہوگا:
1-عقیدۂ و ایمان کی جڑیں مضبوط کرنا:
ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ پچھلے جنم کے پاپ کا نتیجہ نہیں ہوتاہے، بلکہ وہ بالکل پاک و صاف پیدا ہوتا ہے اور اس میں فطری طورپر قبول حق کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔﴿عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَثَلِ الْبَهِيمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ ".صحیح بخاری:1385﴾
اور طفولیت عمر کا وہ حصہ ہے جس میں انسان کے مزاج اور بنیادی رجحانات کی تشکیل ہوتی ہے اورتعلیم و تربیت کا نتیجہ گہرا اور دور رس ہوتاہے۔( مَثَلُ الذي يتعلمُ العلمَ في صغرِه كالنقشِ على الحجرِ ومَثلُ الذي يتعلمُ العلمَ في كِبَرِه كالذي يكتبُ على الماءِ
الراوي: أبو الدرداء • السيوطي، الدرر المنتثرة (٩٩) • إسناده ضعيف • أخرجه الطبراني كما في ((مجمع الزوائد)) للهيثمي (١/١٣٠))
اس لیے حکم دیاگیاہے کہ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے قبول حق استعداد کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اس کے کان میں اذان و اقامت کے الفاظ کہنے چاہییں ﴿ابوداؤد:924.ترمذي:358﴾ جب بچہ بولنے کے لائق ہوتو سب سے پہلے اس کی زبان سے وحدانیت کاکلمہ نکلنا چاہیے ( – افتَحوا على صِبيانِكم أوَّلَ كَلِمَةٍ بِلا إلَه إلّا اللَّهُ .
الراوي: عبدالله بن عباس • أخرجه البيهقي في ((شعب الإيمان)) (٨٦٤٩) واللفظ له، والديلمي في ((الفردوس)) (٢٠٧)،
اور جب وہ شعور کی منزل سے قریب ہونے لگے تو عقیدہ و ایمان کی جڑوں میں آب یاری ہونی چاہیے، اس کے سامنے ایسے واقعات لائے جائیں جن سے وہ اللہ کی وحدانیت، اللہ اور اس کے رسول کی محبت، اسلامی تعلیمات کی اہمیت اور دولت اسلام کی قدر و قیمت سے آگاہ ہوسکے۔ اُسے اسلام کی تاریخ اور اسلاف کے قصے سنائے جائیں،تاکہ عقیدے سے جذباتی وابستگی پیدا ہو اور جرأت و شجاعت اور ہمت و بہادری جیسی صفات پروان چڑھیں۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو طفولیت کے دوران اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلمات سکھائے تھے اس سلسلے میں انھیں بنیادی پتھر سمجھنا چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
یا غلام انی اعلمک بکلمات احفظ اللہ یحفظک، احفظ اللہ تجدہ تجاہک، اذا سألت فاسال اللّٰہ واذا استعنت و فاستعن باللّٰہ و اعلم ان الامۃ لواجتمعت علی ان ینفعوک بشیٔ لم ینفعوک الا بشیٔ قد کتبہ اللّٰہ لک و ان اجتمعوا علی ان یضروک بشیٔ لم یضروک الا بشیٔ قد کتبہ اللّٰہ علیک رفعت الا قلام و جفت الصحف۔ ﴿سنن ترمذی:2516﴾
’’بچے! میں تمھیں چند کلمات بتا رہا ہوں، اللہ کو یاد رکھو، اللہ تمھیں یاد رکھے گا، اللہ کو یاد رکھو، اسے اپنے سامنے پاؤگے، جب کچھ مانگنا ہوتو اللہ سے مانگو، جب مدد لیناہوتو اللہ سے مدد لو، یاد رکھو! اگر تمام لوگ مل کر تمھیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہیں تو صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں جتنا پہلے سے اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر نقصان پہنچانا چاہیں تو اللہ کے لکھے ہوئے سے زیادہ وہ نقصان نہیں دے سکتے۔ قلم رکھ دیاگیاہے اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔‘‘
اسی مرحلے میں بچوں کو اسلام کی روشن تاریخ اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ اور عبادات کا عادی بنانا چاہیے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات سے باخبر کرنے کے لیے وہی اہتمام کرتے تھے جو قرآنی سورہ کے سکھانے کے لیے کرتے تھے۔ ﴿تربیت الاولاد فی الاسلام:119/1﴾
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ‘‘اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز چھوڑنے پر ان کی پٹائی کرو اور ان کے بستر الگ کردو۔‘‘ ﴿سنن ابوداؤد:90﴾
2-غیر اسلامی نظریہ و تہذیب سے حفاظت:
جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کے ذہن میں عقیدہ و ایمان کی اہمیت، حقانیت اور برتری کو پیوست کی جائے، اسلام کو ایک کامل اور کام یاب نظریۂ حیات کے طور پر پیش کیا جائے وہیں اس کی بھی شدید ترین ضرورت ہے کہ غیر اسلامی نظریات اور تہذیب کے زہریلے اثرات سے ان کے معصوم ذہنوں کی حفاظت کی جائے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جن باتوں کی نصیحت کی تھی ان میں سب سے اہم اور پہلی نصیحت یہ ہے:
یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴿لقمان:13﴾
’’بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
حضرت لقمان ؑ کی اس نصیحت میں تعلیم و تربیت کے بنیادی مقاصد کا خاکہ موجود ہے۔ اللہ کی وحدانیت اور شرک سے اجتناب، انفرادی اور عائلی ذمے داریاں، سماجی تعلقات اور سیرت و کردار سازی میں سے ہر ایک کی بنیادی چیزوں کا ذکر ہے۔
اس وقت تعلیم و تربیت کے حوالے سے مسلمانوں کو دو طرح کی یلغار کا سامنا ہے ذرا ابلاغ اور وسائل تعلیم کے ذریعے مغربی افکار و تہذیب کو__ جو عریانیت،فحاشی، تشکیک، لا مذہبیت اور مفاد پرستی سے عبارت ہے__ فروغ مل رہا ہے. اپنی روشن تاریخ اور بے مثال تہذیب سے ناواقفیت کی وجہ سے مسلمان بچے ان چیزوں سے مرعوب ہو رہے ہیں اور اپنے افکار و اقدار کے تعلق سے احساس کمتری مبتلا ہو رہے ہیں. ان میں بے حیائی اور بداخلاقی کو بڑھاوا مل رہا ہے.
دوسری طرف بھارتی حکومت ہندوانہ اور مشرکانہ رسوم و افکار کو مسلط کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ بچوں کو شرک اور مشرک شخصیات سے قریب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندو میتھالوجی اور رسوم و رواج اور کلچر کو برتر اور بہتر ذہن نشین کرایا جا رہا ہے۔ یوگا کو ایک ورزش کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے ۔تعلیم اور ذرائع ابلاغ جیسے ٹی وی وغیرہ کے ذریعے مشرکانہ تہذیب کو مسلم گھروں میں داخل کیا جا رہا ہے ۔
ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں بھی وہی کتابیں داخل نصاب ہیں جن میں ہندوانہ اور عیسائی اثرات نمایاں ہیں۔ اکبر مرحوم نے بڑے کرب اور حسرت کے ساتھ کہا تھا:
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم۔ کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد فی ساتھ ۔
لیکن اب تعلیم کے ساتھ الحاد کے آنے کی خبر عام ہو چکی ہے اس لیے ضرورت ہے کہ والدین بچوں کی دینی تعلیم پر پوری توجہ دیں اور اپنے گھروں میں مشرکانہ تہذیب کو داخل نہ ہونے دیں۔ اور درسگاہوں میں مغربی اور ہندوانہ تہذیب و تمدن اور رسوم و افکار کے مضر اثرات سے ہم آگاہی کا خاطر خواہ نظم ہونا چاہیے۔
3-سیرت وکردار سازی:
جس انسانی وجود کو دنیا میں قدم رکھتے ہی وحدانیت کا کلمہ سنایا گیا ہو۔ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ماں کے دودھ میں شامل ہو ۔اللہ کا خوف اور نگرانی کا احساس خون بن کر رگوں میں دوڑ رہا ہو۔اسی پر اعتماد اور بھروسہ، زندگی کے ہر قدم پر اس کی مدد اور دستگیری کا یقین اور ہر معاملے میں اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے پر جس کی پرورش ہوئی ہو یقینی طور پر وہ ہر اچھے کام اور اچھی عادت کی طرف لپک کر آئے گا کہ یہ چیزیں اس کی فطرت کی آواز اور عقل و خرد کی نگاہ میں مانوس اور پسندیدہ چیز ہوگی اور وہ برے اخلاق سے بدک کر بھاگے گا اس لیے کہ یہ اس کے لیے ایک اجنبی، غیر مانوس اور قبیح چیز ہوگی ۔بچے کے اندر موجود اس فطری صلاحیت کو تعلیم کے ذریعے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
سیرت و کردار سازی کے لیے قرآن میں ایک بڑا جامع لفظ ’’تزکیہ‘‘استعمال کیا گیا ہے۔تزکیہ کا مفہوم پاک و صاف کرنا ، نشوونما دینا اور سنوارنا۔اور اس میں زندگی کا ہر پل اور ہر مرحلہ شامل ہے خواہ اس کا تعلق نجی زندگی سے ہو یا اجتماعیت سے ،عبادت ہو یا معاشرت ،خیالات و افکار ہوں یا اخلاق و عادات، تہذیب و ثقافت ہو یا سیاست ۔ ہر چیز کو پاک کرنا اور سنوارنا اس میں شامل ہے۔
حدیث میں اس کے لیے احسان کا لفظ اختیار کیاگیاہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں ’’احسان‘‘ کو فرض قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ دشمن کو قتل کرنے میں بھی اس خوبی کی رعایت ضروری ہے اور چہرہ بگاڑنے، پیٹ چیر دینے یا اس کے علاوہ کوئی ایسی حرکت کرنے کی اجازت نہیں ہے جس سے انسانیت کی اہانت ہو۔(صحیح مسلم:1955)
انسان کے اندر خیر و شر دونوں طرح کی قوت موجود ہوتی ہے۔(فالهمها فجورها وتقواها قد افلح من زكاها وقد خاب من دساها).
تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ خیر کی قوت کو طاقت ور بنائے ’’تقویٰ‘‘ کے میلانات کو پروان چڑھائے اور شر کی قوت کو کم زور اور بُرائی کے رُجحانات کو بے اثر کردے۔ بچے کے لیے والدین اور اساتذہ کی طرف سے یہ ایک بہترین تحفہ ہے ۔
(ما نحل والد ولدا افضل من حسن ادب. ترمذي1952)
یہ ان کی ذمے داریوں میں شامل ہے کہ وہ بچے کو اچھے اخلاق سے آراستہ کریں اور برے کردار و عمل سے دور رکھیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
* اکرموا اولادکم واحسنوا ادبھم ﴿سنن ابن ماجہ: 3671﴾
’’اپنی اولاد کی عظمت کو پہچانو ،ان کا اکرام کرواور انھیں آداب سے آراستہ کرو۔‘‘
* من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ و یحسن اسمہ﴿السنن الکبری للبیہقی﴾
’’باپ پر بچے کا یہ حق ہے کہ وہ اسے اچھے آداب سکھائے اور اچھا نام رکھے۔‘‘
* علموا اولادکم واہلیکم الخیر وادبوھم ﴿رواہ عبدالرزاق وسعید بن منصور. تربية الاولاد114/1﴾
4-صلاحیتوں کی نشوونما :
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں اور خصوصیتوں سے نوازاہے۔ شکل و صورت کے اعتبار سے مخلوقات میں سب سے بہتر اور عقل و خرد کے اعتبار سے سب سے برتر،اور قدرت کی صناعی کا وہ بہترین شاہکار ہے جو ہر طرح کی خوبیوں سے مالا مال ہے۔خالق کائنات کا ارشاد ہے:
وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُون ﴿السجدہ:۹﴾
’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں کان، آنکھ اور دل عطا کیا لیکن تم میں شکرگزار بہت کم ہیں۔‘‘
کان، آنکھ اور دل تعلیم کے بنیادی ذرائع میں سے ہیں، لیکن جیسا کہ آیت کے آخر میں اشارہ کیاگیا ہے، عام طورپر انسانوں نے اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے ان انمول تحفوں کی قدر وقیمت نہیں پہچانی اور خالق و مالک کی شکرگزاری کی بجائے نافرمانی اور سرکشی پر آمادہ ہوئے۔ بیش بہا صلاحیتوں اور قوتوں کا غلط استعمال کیاگیا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں بخشی ہیں، تعلیم کے ذریعے انھیں پروان چڑھانے اور انھیں صحیح سمت دینے کی کوشش کی جائے۔ بے سمتی کی وجہ سے ان صلاحیتوں کے متعلق بازپرس ہوگی، ارشاد ربانی ہے:
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہٰ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولا
اور جس بات کا تمہیں یقین نہ ہو، (اسے سچ سمجھ کر) اس کے پیچھے مت پڑو۔ یقین رکھو کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں (تم سے) سوال ہوگا۔﴿بنی اسرائیل:36﴾
حصول علم کی صلاحیت ہو یا غور و فکر کی قوت، زبان و بیان کی خوبی ہو یا تحریر و خطابت کا ملکہ، ان تمام صفات سے بچوں کو آراستہ اور مسلح کرنے کی ضرورت ہے ۔ساتھ ہی جرات و شجاعت دوسروں کے ساتھ شفقت و محبت ایثار اور ہمدردی جیسی خوبیوں کو بڑھاوا دینے اور ڈر و خوف کی نفسیات، بزدلی احساس کمتری، غصہ اور حسد جیسی برائیوں سے بچانے اور شرم و حیاء کو باقی رکھنے اور جھجک کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
صحت و طاقت کی حفاظت:
ذہنی اور فکری صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کی بقا، ترقی اور حفاظت کی طرف توجہ بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے قران حکیم میں طالوت کے حکمرانی کا اہل ہونے کے سلسلے میں جن دو صفات کا تذکرہ کیا ہے ان میں ایک علمی صلاحیت ہے اور دوسری جسمانی قوت ہے. (وزاده بسطة في العلم والجسم.سوره البقره: 247)
اور حدیث میں کہا گیا ہے کہ طاقتور مومن اللہ کی نگاہ میں کمزور مومن سے زیادہ پسندیدہ اور بہتر ہے .(صحيح مسلم :2664)
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو تیرا کی تیر اندازی اور سواری کی تعلیم دو.( تربية الاولاد116/1)
6-سماجی ذمے داریاں:
فرد کی تربیت ایسے انداز سے ہونی چاہیے کہ وہ خود اپنی ذات کے لیے، اپنے سماج اور معاشرے کے لیے، قومی اور بین الاقوامی برادری کے لیے مفید اور نفع بخش ثابت ہو۔ اسے انفرادی اور اجتماعی ذمے داریوں کا احساس ہو، دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ بہتر اور حقوق ادا کرنے والا ہو اور آداب کا پابند ہو کیونکہ صالح معاشرہ اور بہترین سوسائٹی اسی وقت بن سکتی ہے جبکہ اچھے افراد تیار کیے جائیں جن میں اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچنے اور عمل کرنے کا جذبہ ہو۔ اور اجتماعی مفاد کے لیے اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے آمادہ ہو۔
اسلام ایک انسان کو جن چیزوں کا پابند بنانا چاہتاہے، ان میں سب سے اہم چیز ’’تقوی‘‘ ہے۔یعنی ایک حساس دل ،شفاف شعور اور خشیت الٰہی کے ساتھ اللہ کے تمام احکام کا پابند ہو، زندگی کی راہ کانٹوں بھری راہ ہے، اس میں ہرطرف شہوات ، لذات، حرص و طمع، جھوٹی امیدوں کے کانٹے بکھرے ہوئے ہیں، اس پُرخار راستے سے اس طرح سے گزرنا کہ دامن انسانیت داغدار نہ ہو تقویٰ کہلاتاہے۔ یہی وہ چیز ہے جو تمام خوبیوں کا سرچشمہ اور ہرطرح کی بُرائی کے لیے رکاوٹ ہے۔ اگر یہ نہ ہوتو پھر پولیس اور قانون کا خوف کسی کو جرم سے باز نہیں رکھ سکتاہے۔ قانون سے بچنے کے ہزاروں طریقے ہیں اور پولیس کی آنکھوں میں دھول ڈالی جاسکتی ہے اور اگر یہ صفت پیدا ہوجائے تو قانون اور پولیس کی پہنچ سے دور رہ کر بھی قانون شکنی کی ہمت نہیں ہوسکتی ہے۔
دوسری چیز جوایک صالح معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے وہ ہے شفقت و رحمت کاجذبہ جو انسان کے تمام جذبات پر حاوی اور غالب ہو۔ اسی سے اخوت ،بھائی چارہ اور ہر جاندار کے ساتھ ہمدردی اور ایثار کی صفت پیدا ہوتی ہے۔عفو و درگزر اور معاف کرنے کی خوبی کی نشوونما ہوتی ہےن
ایک اچھے سماج کی تشکیل کے لیے تیسری چیز باہمی حقوق کی ادائیگی ہے۔ اِس میں والدین، رشتے داروں، پڑوسیوں، اساتذہ، عمررسیدہ، کم زوروں، بوڑھوں اور دوستوں کے حقوق شامل ہیں۔ ان سب کے ساتھ سماجی اور اجتماعی آداب سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلاً سلام اور اجازت کا طریقہ،مجلس کے آداب، گفتگو اور مزاح کا سلیقہ، مبارک بادی اور مزاج پرسی اور مریض کی عیادت کے آداب و غیرہ جن کی تفصیلات کتاب وسنت میں موجود ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں سماجی آداب کی جو تفصیلات ملتی ہیں کسی اور مذہب اور قانون میں اس کی مثال نہیں ہے ۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دین اسلام محض شخصی اور انفرادی مذہب نہیں بلکہ اس کا تعلق پوری زندگی اور پورے سماج سے ہے۔
سماج کے تئیں ایک فرد کی یہ بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سماج پر ’’صالح تنقید‘‘ کو کبھی نہ بھولے اور اچھائیوں کا حکم دے، ان کے پھلنے اور پھولنے کے ذرائع پیدا کرے، اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے، بُرائیوں کے خلاف نبرد آزما رہے، انھیں روکے اور ٹوکے اور بُرے کاموں کی حوصلہ شکنی کرے ۔
اور بچوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ ان میں جرأت و شجاعت پیدا ہو۔ تاکہ حق بات کہنے میں وہ کوئی جھجک اور خوف محسوس نہ کریں۔
مقصد تعلیم غیر مسلم مفکرین کی نظر میں:
1-تعلیم برائے معاش:
مغرب اور جمہوریت کے علم برداروں کی نگاہ میں انسان ایک سماجی جانور ہے۔ اس کی حیثیت ایک معاشی اور عمرانی عامل کی سی ہے، جو معاشرے کی دولت مشترکہ میں اضافے کا باعث ہے۔اس لیے ان کے یہاں ’’تعلیم براے معاش‘‘ ہی بنیادی مقصد ہے۔ بچے کا شعور ابھی مکمل طورپر بیدار نہیں ہوتا کہ اسے موہوم خوف اور شوق میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ بچے کے سامنے بار بار یہ دُہرایا جاتا ہے کہ تعلیم حاصل کرو تاکہ دولت جمع کرکے معاشرے میں ایک نمایاں مقام حاصل کرو. ایک اچھا پروفیسر، ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنس داں، کاریگر اور بزنس مین بننے کی بھاگ دوڑ میں ایک اچھا انسان راستے میں کہیں گم ہو جاتا ہے اور اس کی گمشدگی کا احساس بھی نہیں رہ جاتا۔اکبرالہٰ آبادی نے اسی لئے کہاتھا :
یہ بات تو کھری ہے لیکن نہیں ہے کھوٹی.
عربی میں نظم ملت، بی اے میں صرف روٹی.
کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کرگئے۔
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مرگئے۔
تعلیم برائے معاش کو ضمنی مقصد کے طور پر ملحوظ رکھا جا سکتا ہے اور تعلیم کے بعض مراحل میں ایسی تربیت اور ہنر ملنا چاہیے جس سے انسان ایک باوقار زندگی گزار سکے اور اس کے لیے سب سے ضروری چیز ہے نظام تعلیم اور نظام حکومت کے درمیان مکمل ربط تاکہ ملکی ضرورت کے مطابق معاشی عاملین کو تیار کیا جا سکے لیکن معاشی عامل کو تعلیم کے بنیادی مقصد میں شامل کر لینے سے انسان ایک اچھا حیوان تو بن سکتا ہے لیکن ایک اچھا انسان بننے کی امید اس سے نہیں رکھنی چاہیے۔
2-تعلیم برائے معلومات:
یعنی حصول علم کو خود مقصد بنالینا اور جاننے کے لیے معلومات کو جمع کرنا، تاکہ بوقت ضرورت کام آئے یا مقابلہ جاتی امتحانات میں شریک ہوکر کوئی ملازمت حاصل کرسکے۔ آج عام طور پر اسکولوں اور کالجوں میں یہی مقصد کارفرما ہے۔ چنانچہ مشہور ماہر تعلیم مرحوم افضل حسین صاحب لکھتے ہیں:
’’اسی طرح سے بیش تر اساتذہ بھی تعلیم کا مقصد زبان سے خواہ کچھ بیان کریں مگر عملاً تعلیم برائے علمیت ہی کے قائل نظر آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ طلبہ اپنی ساری توجہ لکھنے، پڑھنے، اپنی علمی لیاقت بڑھانے اور اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرنے پر مرکوز رکھیں۔ شخصیت کے دیگر پہلو ﴿جسمانی ، عملی، اخلاقی وغیرہ﴾ ان کی نظروں سے عموماً اوجھل رہتے ہیں۔‘‘ ﴿فن تعلیم وتربیت،ص:29﴾
تعلیم برائے "علمیت” کا نتیجہ یہ نکلتا ہے اس مقصد سے جو نظام بنایا جاتا ہے اور جو تعلیم گاہ قائم کی جاتی ہے وہ کردار سازی اور انسان آفرینی کی درسگاہ نہیں ہوتی بلکہ ایک کارخانہ ہوتا ہے یہاں بے جان پرزے ڈھالے جاتے ہیں ۔اس نظام تعلیم میں ساری توجہ امتحانات، سرٹیفیکیٹ اور عمارت کی تزین و آرائش پر ہوتی ہے اور سایہ سرمایہ انہی چیزوں پر لگایا جاتا ہے اور بیچارہ استاد اور شاگرد جن کے نام پر یہ سارا ہنگامہ برپا ہے وہ اس شور و غوغا میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور پڑھے لکھے جاہلوں اور تعلیم یافتہ بے کردار افراد کی کھیپ تیار ہوتی ہے۔(دیکھیے: مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ./185 از پروفیسر سید محمد سلیم)
3-تعلیم برائے وقت گزاری:
تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ اس کے ذریعے فرصت کے اوقات کو اچھی طرح سے گزارا جاسکتا ہے۔ گویا ایسے علوم سیکھے جائیں، جن کے ذریعے فرصت کے اوقات کو مشغول کیاجاسکے۔ جیسے ادب، آرٹ وغیرہ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے متعلق منقول ہے کہ وہ لوگ بسا اوقات مسجد نبوی میں بیٹھ کر زمانۂ جاہلیت کے قصے بیان کرتے تھے اور دوران سفر شعرو شاعری سے شغف رکھا کرتے تھے، اس لیے ایسے علوم کو سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جس سے فرصت کے اوقات کو مفید اور صحیح طور سے مصروف رکھا جاسکے۔اس لیے کہ انسان ہر وقت عبادت و ریاضت اور کام میں مشغول نہیں رہ سکتا ہے اس تفریحی چیزوں کا جاننا بھی مقصود ہے لیکن تفریح کو بھی جائز حد میں رکھنا ضروری ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ہر کام میں ایک وقت تک نشاط اور چستی رہتی ہے اور پھر سستی آجاتی ہے اور جسے سستی سنت پر باقی رکھے وہ ہدایت یاب ہے اور جسے اس کے علاوہ تک پہنچا دے وہ ہلاک ہو گیا .(الترغیب87/1)
4-تعلیم برائے شہریت:
انسان کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ ریاست کے لیے فائدہ مند اور مملکت کے لیے اچھا شہری ثابت ہو۔ یہ بھی تعلیم کا ایک مقصد ہے، اس نقطۂ نظر کے مطابق انسان کی حیثیت یہ ہے کہ وہ ریاست اور معاشرے کا ایک جز ہے۔ اس کے انفرادی وجود کو فراموش کردیا جاتا ہے اور اسی حیثیت سے اسے تعلیم دی جاتی ہے اور اس سے اس بات کی امید رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو اجتماعیت میں گم کردے گا اور اپنی شخصیت کو اجتماعی مفاد پر قربان کردے گا۔ مملکت کے مفاد اور اخلاقی قدروں اور اصول کے درمیان ٹکراؤ ہونے کی صورت میں ان اصولوں کو خیرباد کہہ دے گا۔ اس مقصد کے تحت شہریوں میں وطن سے محبت اور اس کی خدمت کا جذبہ پیدا کیاجاتا ہے، بلکہ وطن پرستی کی ترغیب دی جاتی ہے۔
وطن سے محبت اور خدمت کاجذبہ ایک قابل قدر صفت ہے، لیکن دیکھا یہ جارہاہے کہ وطن سے محبت کی تعلیم تنگ نظر قومیت کے سانچے میں ڈھلتی جارہی ہے اور انسانیت سے محبت اور عالمی برادری سے اخوت اور بھائی چارہ کا جذبہ سرد پڑتا جا رہا ہے ۔مذہب، رنگ ونسل اور زبان کی بنیاد پر مختلف قومتیں وجود میں آرہی ہیں اور علاقائیت کو فروغ مل رہاہے اور جس کی وجہ سے آئے دن جنگ و جدال کی کیفیت رہتی ہے۔
5-سیرت و کردار سازی:
جمہوریت اور اشتراکیت کے علمبرداروں کی نگاہ میں سیرت و کردار سازی بھی تعلیم کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے ۔یہاں بعض غیر مسلم مفکرین کے اقوال نقل کیے جا رہے ہیں تاکہ اس کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے:
*استاد کا سب سے اہم کام نہ تو عضلات کو مضبوط بنانا ہے اور نہ جذبات کو شائستہ کرنا ہے بلکہ سیرت کو مضبوط بنانا ہے۔ (ریمانٹ)
*میں بچوں میں ہمت، طاقت، نیکی ،خود فراموشی پیدا کرنا چاہتا ہوں ۔میرا خیال ہے کہ اگر ہم بچے کی سیرت کی تشکیل میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سماج خود بخود سدھر جائے گا (گاندھی جی) (اصول تعلیم ڈاکٹر ضیاء الدین علوی/20)
*تعلیم کا مقصد مثالی انسان کی تکمیل ہے (پین).
*تعلیم سے مراد مکمل انسان کی تربیت . (کامینیس)
*تعلیم ایک ہنر ہے جس سے ماہران خصوصی نہیں بلکہ انسان بنائے جاتے ہیں ( مانٹین).
*تعلیم کا مقصد کھری ،پر خلوص، بے عیب اور پاک و صاف زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے .(فروبل)
*عام طور پر انسانیت کا اعلی ترین مقصد اخلاق تسلیم کیا جاتا ہے بنا بری تعلیم کا بھی ۔ (ہر بارٹ) (فن تعلیم و تربیت 32)
بلا شبہ سیرت کی تشکیل تعلیم کا سب سے اہم مقصد ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہی وہ خوبی ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان کے درمیان فرق کیا جا سکتا ہے تعلیم کا تصور ہی اخلاق سے عبارت ہے کسی تعلیم یافتہ مگر بد کردار شخص کو دیکھ کر لوگ حیرت اور تعجب سے سوال کرتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر بھی یہ شخص بداخلاقی کیوں کر رہا ہے؟
لیکن توجہ طلب یہ ہے کہ مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دینے اور اجتماعیت و ریاست سے بے دخل کر دینے کے بعد سیرت و کردار سازی مردم گری اور انسان آفرینی کی بنیاد کیا ہوگی ؟کون سا داعیہ اور جذبہ ہوگا جس کی بنیاد پہ کوئی شخص ناموافق ماحول میں بھی اچھے اخلاق و کردار اور اصول و اقدار کے دامن سے چمٹا رہے گا؟ معاشرے کا خوف؟ سماج کا ڈر؟ قانون کی گرفت میں آجانے کا اندیشہ ؟کیا ان میں سے کوئی اچھے اخلاق اور کردار کو اپنانے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے؟کیا جھوٹ کو سچ کے سانچے میں ڈھال کر مختلف جھوٹی مصلحتوں کا سہارا لے کر معاشرے کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا ہے ؟کیا مختلف تدبیروں کے ذریعے قانون سے بچا نہیں جا سکتا ہے ؟خصوصا جہاں نہ سماج کا ڈر ہو اور نہ پولیس کی پہنچ .کیا وہاں ملک سے وفاداری کا سودا نہیں کیا جا سکتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ ریاست سے مذہب کو نکال دینے کے بعد اخلاق و کردار اور اصول و اقدار کی حیثیت بے بنیاد عمارت اور بے مفہوم الفاظ کی رہ جاتی ہے خود مغربی مفکرین کو اس حقیقت کا احساس ہے چنانچہ مشہور فلسفی اور مفکر کانٹ کہتا ہے تین چیزوں پر اعتقاد کے بغیر اخلاق کا کوئی وجود نہیں، اللہ کا وجود ،روح کا باقی رہنا اور مرنے کے بعد حساب و کتاب۔
اور ایک جرمن فلسفی فیختہ لکھتا ہے کہ دین کے بغیر اخلاق ایک بیکار چیز ہے۔
برطانیہ میں ایک وزیر کو جنسی جرم کا مرتکب پایا گیا اس کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے جج نے بڑے کرب اور افسوس کے ساتھ کہا کہ دین کے بغیر اخلاق کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور اخلاق کے بغیر کوئی قانون نہیں چل سکتا۔(تربیت اولاد 136/1)
اور مولانا سید محمد رابع ندوی لکھتے ہیں:
’’اخلاقیات میں سے مذہب کی بے دخلی ایک خطرناک اقدام تھا جس کا آج کے نظام تعلیم کے نتائج میں تجربہ ہورہاہے۔ دراصل اخلاقیات انسانی زندگی میں صحیح رنگ اور نکھار پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں اور ان کا مذہب سے چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ اگر ان دونوں کے مابین تفریق کی جاتی ہے تو ایک تو اخلاقیات اپنی اصل اور مضبوط بنیاد سے محروم ہوجاتی ہیں، دوسرے انسانی زندگی میں ان کا اصل کردار ختم ہوجاتا ہے۔ اگر مذہب کی بنیاد ختم ہوجائے تو پھر آدمی سچ کیوں بولے، نازیبا حرکات سے کیوں باز رہے۔ ظلم و نفع اندوزی اور نفس پرستی سے کیوں گریز کرے، ان میں سے کسی بھی بُری بات سے گریز کا موثر محرک باقی نہیں رہتا۔ اگر کوئی محرک تلاش کیا جاسکتا ہے تو وہ صرف مادی نفع و ضرر ہے۔ اس لیے مذہب کو اخلاقیات سے بے دخل کرنے والے اخلاقیات کا رشتہ مادی مصالح سے جوڑتے ہیں۔ حالانکہ یہ تعلق بے جوڑ اور بے نتیجہ سا ہوجاتاہے۔ چنانچہ مغربی نظریات میں مزید یہ نظریہ پیدا ہوگیا کہ اخلاقیات سرے سے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی ہیں، یہ صرف مفروضات ہیں۔ جہاں جیسی مصلحت ہو وہاں ان کو ویسا ہی ڈھال لیا جانا چاہیے۔‘‘ ﴿سماج کی تعلیم و تربیت: 91/1﴾
صحت و طاقت کی حفاظت، انفرادیت کی نشو و نما، صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، خاندان اور سماج کی ذمہ داریوں کا اہل بنانا بھی غیر مسلم مفکرین کے ہاں مقاصد تعلیم میں شامل ہیں اور اسلامی مقاصد تعلیم کے ذیل میں ان پر لکھا جا چکا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اسلام کی نگاہ میں تعلیم کا مقصد ہے انسان کو اللہ کا نیک بندہ اور زمینی خلافت کا اہل بنانا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کے دوران درج ذیل امور کا لحاظ رکھنا ہوگا:
1-عقیدہ وایمان کی جڑوں کو مضبوط کرنا، اسلامی افکار ونظریات اور تعلیمات کی بہتری اور برتری کو پیوست کرنا، اسلام کو ایک مکمل دین، کامل نظریہ حیات اور ضابطہ زندگی کے طورپر پیش کرنا۔
2- حق و باطل اور اچھے اور بُرے میں فرق کرنے کی کسوٹی فراہم کرنا۔
3 ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی نشوونما اور انھیں صحیح رخ پر ڈالنا۔
4-ورزش اور کھیل کود کی حوصلہ افزائی اورصحت سے متعلق معلومات فراہم کرنا، صفائی، ستھرائی اور حفظان صحت کے اصولوں سے باخبر کرنا۔
5- خاندانی اور اجتماعی ذمے داریوں کا اہل بنانا۔
6-سیرت وکردار سازی پر توجہ دینا۔
واضح رہے کہ معاشی ذمے داریوں کا اہل بنانا، تعلیم کے مقاصد میں شامل نہیں ہے۔ تاہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے اس کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے اور تعلیم کے ذیلی مقاصد میں اسے شامل کیا جانا چاہیے۔
7- تعلیم برائے علم کی اسلام کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ہے۔
8- ایسی چیزوں کو جاننے کی اجازت ہے جن کے ذریعے فرصت کے اوقات کو مفید اور مثبت کام میں مشغول کیاجاسکے ۔
9- مملکت و ریاست کا اچھا شہری اور سماج کا بے لوث خادم بنانا بھی تعلیم کا ایک اہم مقصد ہے۔‘‘
شائع شدہ -ماہنامہ حیات نو۔ اعظم گڑھ ۔اپریل 2011ء