(14)

حج بدل۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

حج ایک دینی فریضہ اور عبادت ہے اور عبادتیں تین طرح کی ہیں :
1۔خالص بدنی عبادت:
جیسے صوم وصلاۃ، اس میں کسی طرح کی نیابت درست نہیں ہے، لہٰذا کوئی کسی کی طرف سے نہ نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ روزہ رکھ سکتا ہے ۔
2۔خالص مالی عبادت:
جیسے زکاۃ، اس میں نیابت درست ہے، اس لیے کوئی بھی کسی کی طرف سے اس کی اجازت سے زکاۃ ادا کر سکتا ہے۔
3۔ مالی و بدنی کا مجموعہ:
جیسے حج اس میں بدنی حیثیت کو دیکھتے ہوئے عذر کے بغیر نیابت درست نہیں ہے اور مالی حیثیت کے پیش نظر مجبوری کی حالت میں نیابت درست ہے اور چونکہ یہ دوسرے کے بد لے میں ادا کیا جاتا ہے اس لیے اسے حج بدل کہا جاتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔ معذور کی طرف سے 2۔میت کی طرف سے
1-معذور کی طرف سے حج:
کسی پر حج فرض ہو گیا لیکن اس نے ادا نہیں کیا اور پھر کسی مرض یا بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے وہ سفر کے لائق نہیں رہا ،تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی طرف سے خرچہ دے کر کسی کو حج کے لیے بھیجے (معارف السنن:55/1_550)جیسا کہ حدیث میں ہے کہ نبیﷺ سے قبیلہ خشعم کی ایک خاتون نے عرض کیا کہ:
’’ ان فریضۃ اللّٰہ علیٰ عبادہ فی الحج ادرکت ابی شیخاً کبیراً لا یثبت علی الراحلۃ افاحج عنہ قال نعم رواہ الجماعۃ ‘‘(بخاری ومسلم وغیرہ ،نیل الاوطار:291/4)
’’حج کی ادائیگی کے حکم کے وقت میرے باپ بہت بوڑھے تھے، سواری پر بیٹھ نہیں سکتے تھے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں‘‘ ۔
امام احمد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ قبیلہ خشعم کے ایک شخص نے دریافت کیا کہ :
’’ ان ابی ادرکہ الاسلام وھو شیخ کبیر لا یستطیع رکوب الرحل والحج مکتوب علیہ افاحج عنہ قال انت اکبر ولدہ؟ قال نعم قال ارأیت لوکان علیٰ ابیک دین فقضیتہ عنہ اکان یجزی ذالک عنہ قال نعم، قال فاحجج عنہ‘‘(رواہ احمد والنسائی بمعناہ قال الحافظ اسنادہ صالح ،نیل الاوطار:291/4)
’’میرے باپ بڑھاپے کی حالت میں مسلمان ہوئے ،ان پر حج فرض ہے لیکن وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں ؟آپ نے فرمایا کہ کیا تم ان کے سب سے بڑے لڑکے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، آپ نے فرمایا: اگر تمہارے باپ پر کسی کا قرض ہو تا اور تم ادا کر دیتے تو ادا ہو جاتا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! آپ ؐ نے فرمایا تو ان کی طرف سے حج بھی کر لو‘‘۔
معذور کی طرف سے حج کے صحیح ہو نے کے لیےضروری ہے کہ جس پر حج فرض ہو وہ بیماری،بڑھاپا،یا کسی اور وجہ سے حج کرنے کے لائق نہ ہو اور مرتے دم تک اس میں حج کے لیے جانے کی طاقت نہ رہے اگر کوئی شخص حج بدل کرانے کے بعد تندرست ہو جائے یا اس کی مجبوری ختم ہو جائے تو دوبارہ اس کے لیے حج کرنا ضروری ہے، جمہور اسی کے قائل ہیں، اور ان کے دلائل یہ ہیں:
1۔ حج پوری زندگی میں ایک مر تبہ فرض ہے اور جس سال حج فرض ہوا ہے اسی سال اس کی ادائیگی ضروری ہے، اور اس سلسلہ میں کوتاہی باعث گناہ ہے، اور اس سال ادا نہ کر نے کی وجہ سے وہ اس کے ذمے قرض بن گیا، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں حج ادا کرے اگرچہ اس میں حج کی فرضیت کی شرطیں اب نہ پائی جا رہی ہوں ،اور اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں بذات خود حج کر نے کی طاقت نہ ہو تو اس کے لیے حج بدل کرانے کی رخصت دی گئی ہے لیکن اگر اس میں بذات خود حج کر نے کی قدرت کبھی بھی پیدا ہو جائے تو پھر رخصت کی وجہ باقی نہیں رہے گی اور اس کے لیے اپنے طور پر حج کر نا ضروری ہو گا۔( فتح القدیر:134/3)
2۔بذات خود حج سے مایوس ہو نے کی صورت میں حج بدل کی اجازت دی گئی ہے اور صحت مند ہو نے اور مجبوری کے ختم ہو جانے سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اس کی مایوسی غلط تھی، لہٰذ ا اصل حکم یعنی خود حج کرنا ضروری ہو گا۔
اس کے برخلاف امام احمد کے نزدیک اس حالت میں خود حج کرنا ضروری نہیں ، کیونکہ اس طرح سے اس پردو مرتبہ حج فرض کر نا لازم آئے گا جو صحیح نہیں ہے ۔(المغنی: 21/5 )
2-میت کی طرف سے حج:
حج فرض ہو نے کے بعد اس کی ادائیگی کا موقع ملا لیکن کسی وجہ سے اس سال وہ ادا نہ کرسکا اور دوسرے سال اس کی وفات ہو گئی تو اس کی طرف سے بھی حج کیا جاسکتا ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ قبیلہ جہنیہ کی ایک عورت نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ:
’’ ان امی نذرت ان تحج ولم تحج حتیٰ ماتت افاحج عنھا؟قال، نعم حجی عنھا ارأیت لوکان علیٰ امک دین اکنت قاضیتہ؟ اقضوا اللّٰہ فاللّٰہ احق بالوفاء‘‘۔(رواہ البخاری)
’’میری ماں نے حج کر نے کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ اس کی وفات ہو گئی کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟آپؐ نے فرمایا: ہاں اس کی طرف سے حج کرو، بتلاؤ کہ اگر تمہاری ماں پرکسی کا قرض ہو تا تو تم اسے ادا کر تی یا نہیں؟لوگو!اللہ کے قرض کو ادا کرو،اللہ کا قرض اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کیا جائے‘‘۔
میت کی طرف سے حج اسی وقت ضروری ہو گا جبکہ اس نے اس کی وصیت کی ہو، اور اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس کے تہائی حصہ سے حج کا خرچہ نکل آئے، کیوں کہ حج ایک عبادت ہے جس میں بدنی حیثیت غالب ہے، اس لیے اصلاً اس میں نیابت درست نہیں،اور وصیت نہ کر نے کی صورت میں وہ گنہ گار ہو گا اور وارثوں کے لیے اس کے مال سے یا اس کے ترکہ سے حج کرانا ضروری نہیں ہے، تاہم اگر وہ اپنے طور پر اس کی طرف سے حج کا نظم کردیں تو رحمت الٰہی سے امید ہے کہ اس پر سے حج کی فرضیت ساقط ہو جائے گی، امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالکؒ کی یہی رائے ہے،(رد المحتار:6/4،معارف السنن551/6،اوجز المسالک: 217/7)
امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ کے نزدیک خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو، بہر صورت اس کے پورے مال سے حج کرایا جائے گا، اس لیے کہ دیگر قرضوں کی طرح سے یہ بھی ایک قرض ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، اس لیے ہر حال میں اس کی ادائیگی ضروری ہے۔(المغنی:38/5)
حج بدل کر نے والے کے لیے حاجی ہو نا:
حج بدل کر نے والے کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ پہلے اس نے خود اپنا فرض حج ادا کیا ہو؟ اس سلسلہ میں دو نقطۂ نظر پائے جاتے ہیں: بعض لوگوں کے نزدیک اس کے لیے اپنا حج ادا کر نا ضروری ہے، اور اگر کوئی شخص اپنا حج کیے بغیر دوسرے کی طرف سے حج کے لیے چلا جائے تو یہ حج اسی کا مانا جائے گا اور اس نے دوسرے سے جو سفر خرچ لیا ہے اسے واپس کرنا ہوگا. امام شافعی ،امام احمد وغیرہ اسی کے قائل ہیں،(المغنی: 42/5)
اس لیے کہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے :
’’ ان رسول اللّٰہ ﷺ سمع رجلاً یقول لبیک عن شبرمۃ فقال احججت عن نفسک قال لا قال فحج عن نفسک ثم حج عن شبرمۃ‘‘۔(رواہ ابو داؤود وابن ماجہ)
’’رسول اللہ ﷺ نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ شبرمہ کی طرف سے لبیک، آنحضور ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اپنی طرف سے حج کیا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ ؐنے فرمایا کہ پہلے اپنی طرف سے حج کرو اوراس کے بعد شبرمہ کی طرف سے‘‘۔
امام ابو حنیفہ ،مالک اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل کے نزدیک حج بدل کر نے والے کے لیے اپنا حج کیے ہو ئے ہونا ضروری نہیں ہے،(حوالہ مذکورہ) اور اگر حج بدل کرنے والا ایسا شخص ہے جس پر خود حج فرض ہے تو اس کے لیے دوسرے کی طرف سے جانا مکروہ تحریمی ہے ،اور دوسرے کے لیے ایسے شخص کو بھیجنا مکروہ تنزیہی ہے اور اگر اس پر حج فرض نہیں ہے تو اس کے لیے دوسرے کی طرف سے جانااور دوسرے کے لیے اسے بھیجنا دونوں مکروہ تنزیہی ہے۔(ہندیہ:257،رد المحتار:21/4)
حنفیہ وغیرہ کی دلیل یہ ہے کہ قبیلہ خثعم سے متعلق شخص کے سوال کے جواب میں اللہ کے رسول ﷺ نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ تم نے خود اپنا حج کیا ہے یا نہیں ؟اور اس طرح کے مواقع میں بغیر کسی تفصیل و تفریق کے مسئلہ بیان کر نا اس کے عام ہو نے کی دلیل ہے یعنی ہر شخص کے لیے دوسرے کی طرف سے حج کی اجازت ہے خواہ اس نے اپنا حج کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔
دوسرے یہ کہ حدیث میں اسے قرض کہا گیا ہے اور کسی کی طرف سے وہ شخص بھی قرض ادا کر سکتا ہے جو خود بھی مقروض ہو ۔
اور ابن عباسؓ کی روایت کے مرفوع وموقوف ہو نے میں اختلاف ہے، امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف اس کی نسبت غلط ہے بلکہ وہ ابن عباسؓ کا اپنا قول ہے اور علامہ ابن منذر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی طرف اس کی نسبت ثابت نہیں ہے ۔
اور اگر نسبت صحیح بھی ہو تو اس سے مراد استحباب ہے وجوب نہیں یعنی ایسا کرنا بہتر ہے، لازم اور ضروری نہیں ہے۔(نیل الاوطار:293/4،اعلاء السنن:462،463/4)
کیا حج بدل کے لیے جانے والے پر حج فرض ہو جاتا ہے:
جس شخص پر حج فرض نہ ہو اگر وہ دوسرے کی طرف سے حج کر نے کے لیے جائے تو کیا مکہ پہنچ جانے کی وجہ سے خود اس پر حج فرض ہو جائے گا ؟ متقدمین حنفیہ کے یہاں اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے اور متأخرین کے درمیان اختلاف ہے ،بعض لوگوں کے نزدیک اس پر حج فرض ہو جائے گا کیوں کہ مکہ میں داخل ہو نے کی وجہ سے اس میں حج کی استطاعت پیدا ہو گئی جو حج کی فرضیت کے لیے شرط ہے اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے:
’’وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ‘‘(آل عمران:97)
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ، جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھے ‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی فقیر ونادار جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو لیکن کسی ذریعہ سے میقات تک پہنچ جائے تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ پیدل چل کر کعبہ تک پہنچنے کی طاقت رکھے اور اب اس کے لیے سفر خرچ اور سواری کی قدرت ہو نے کی شرط نہیں ہے۔
اس لیے حج بدل کر نے والے کے لیے اب دو شکل ہے ایک یہ کہ حج کر نے کے بعد سال بھر تک وہیں ٹھہرا رہے اور پھر دوسرے سال اپنا حج کر کے واپس آئے ،دوسرے یہ کہ حج بدل کر کے واپس آجائے اور پھر قرض لے کر یا کسی اور ذریعہ سے نظم کر کے حج کے لیے جائے ،کیوں کہ حج فرض ہو جانے کی وجہ سے اس کے ذمہ اس کی ادائیگی ضروری ہے۔
اور اکثر لوگوں کے نزدیک اس پر حج فرض نہیں ہوا ہے اور یہی صحیح ہے، کیوں کہ حج فرض ہو نے کے لیے استطاعت شرط ہے ۔اور کسی فقیر ونادار کے لیے سال بھر تک وہاں ٹھہرنے یا واپس جا کر دوبارہ آنے کی استطاعت نہیں ہے ،کیوں کہ وہ سال بھر کا خرچ کہاں سے لائے گا؟ اور اس دوران اس کے گھر والوں کا کفیل کون ہو گا؟ کیا انہیں اس طویل عرصہ تک بے سہارا چھوڑ دیا جائے گا؟ اور کیا اتنے دنوں تک وہاں کی حکومت کی طرف سے ٹھہرنے کی اجازت ہو گی؟۔
اور قرض وغیرہ کے ذریعہ دوبارہ جانے میں انسان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف بنانا اور دشواری میں مبتلا کر نا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
’’لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا ‘‘(سورہ البقرہ:286)
’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت کے بقدر ہی مکلف بناتے ہیں‘‘۔
اور حدیث میں ہے کہ ’’الدین یسر‘‘دین آسان ہے۔(صحیح بخاری :10/1)
اور ایسے شخص کو جس میں حج کر نے کی استطاعت نہیں ہے، حج کر نے کا پابند بنانا اس کو دشواری میں مبتلا کر نا ہے اور اس آسانی اور سہولت کی خلاف ورزی ہے جو اس دین کا امتیاز ہے اور ہر حکم میں جس کی رعایت رکھی گئی ہے ۔
شرائط واحکام:
حج بدل کے صحیح ہو نے کے لیے درج ذیل شرطیں ہیں
1۔جس کی طرف سے حج بدل کیا جارہا ہو اس نے اسے کر نے کا حکم دیا ہو، صرف ایک صورت اس سے الگ ہے وہ یہ کہ میت کی طرف سے حج بدل کیا جارہا ہو اور اس نے اس کا حکم نہ دیا ہو، لیکن وارث نے اس کی طرف سے حج بدل کر دیا ہو۔(البدائع:456/2، رد المحتار:16/4)
2۔احرام باندھتے ہوئے حج بدل کرانے والے کی طرف سے حج کی نیت کی جائے، بہتر ہے کہ تلبیہ کہتے ہوئے کہے کہ:’’ لبیک عن فلاں‘‘۔(الہندیہ:257/1،اوجز المسالک:216/7)
3۔سفر حج کے اخراجات حج کرانے والے کے ذمہ ہوں، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا مال خرچ کر کے کسی کی طرف سے حج کرے تو صحیح نہیں ہے اسی طرح سے کسی نے حج کی وصیت کی ہو تو بھی اس کے ترکہ سے حج کا خرچ لیا جائے گا، اگر اس کے مر نے کے بعد وارث نے اپنے مال سے حج کرایا تو صحیح نہیں ہے ۔
4۔ حج کے لیے آمد ورفت اور مکہ میں قیام کے دوران کے تمام اخراجات حج بدل کرانے والے کے ذمہ ہو ں گے، البتہ بلا ضرورت یا اپنی ذاتی ضرورت کی وجہ سے کہیں قیام کرنے کے اخراجات کا ذمہ دار خود حج کر نے والا ہو گا۔(الہندیہ:257/1،البدائع:456/2 )
5 ۔میت کی طرف سے حج کر نے کی صورت میں حج کے اخراجات اس کے چھوڑے ہو ئے مال کے ایک تہائی حصہ سے پورے کیے جائیں گے چاہے اس نے وصیت میں اس کی صراحت کی ہو یا نہ کی ہو اور اگر تہائی مال کے ذریعہ اس کے وطن سے مکہ پہنچنے کی گنجائش نہ ہو تو اس جگہ سے حج بدل کرایا جائے جہاں سے تہائی مال میں پہنچنا ممکن ہو۔ (الہندیہ:258/1)
6۔کوئی شخص حج فرض ہو نے سے پہلے ہی معذور ہے اور معذوری کی حالت میں وہ مالدار اور سفر حج کا خرچ برداشت کر نے کے لائق ہو ا تو ایسی حالت میں اس پر حج فرض ہو گا یا نہیں اس سلسلہ میں اختلاف ہے، بعض حنفی فقہاء کے نزدیک اس پر حج فرض ہو گیا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جگہ دوسرے کو حج کے لیے بھیجے ،اور بعض لوگوں کے نزدیک اس پر حج فرض نہیں ہے کیوں کہ اس کی فرضیت کے لیے استطاعت شرط ہے جو اس میں موجود نہیں ہے، یہی رائے زیادہ صحیح اور اسی کے مطابق عمل ہے۔(اوجز المسالک: 212/7 رد المحتار:15/4)
7 ۔نفل حج کر نے کے لیے ایسا شخص بھی اپنی جگہ دوسرے کو بھیج سکتا ہے جو خود حج کر نے کی قدرت رکھتا ہو ۔
8۔ حج بدل کے لیے ایسے شخص کو بھیجنا چاہیے جو مناسک حج سے خوب واقف ہو اور پہلے اپنی طرف سے حج کر چکا ہو۔(رد المحتار21/4،الہندیہ257/1 )
9۔مرد کی طرف سے حج بدل کر نے کے لیے کسی عورت کو بھی بھیجا جاسکتا ہے، اگر چہ بہتر نہیں ہے۔(اوجزالمسالک: 218/7،الہندیہ:257/1)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے