*حرمت مصاہرت*
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی.
انتہائی پاکیزہ ،نہایت حساس اور بے حد نازک اور بہت ہی لائق احترام رشتے کا نام نکاح ہے جس کے لئے قرآن حکیم میں ایک جامع لفظ” لباس ” استعمال کیا گیا ہے۔
اس کی پاکیزگی ،حساسیت اور حرمت و عظمت کا تقاضا ہے کہ جو مرد و عورت ایک دوسرے سے وابستہ یا بے حجاب ہوچکے ہوں تو ان کے قریب ترین رشتے ایک دوسرے کے لئے حرام ہوجائیں اور اگر ایسا نہ ہو تو رشتوں کا تقدس اور احترام تار تار ہو جائے گا ۔
اس لئے کتاب و سنت میں ان لوگوں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے ، جن سے نکاح کرنا حرام ہے ، جس میں سے ایک سسرالی رشتہ بھی ہے۔ اور واقعیت پسندی کا تقاضا ہے کہ مرد و عورت کی قربت چاہے باضابطہ ہو یا بے ضابطہ ، دونوں حالتوں میں قریب ترین رشتے ایک دوسرے کے لئے حرام ہوجائیں تاکہ ان کے درمیان بےلباس ہونے کی نوبت نہ آئے ۔
فکر و نظر کو وسعت دینے پر یہ حقیقت بھری دوپہر کی طرح عیاں ہوجائیگی کہ نسب ، رضاعت اور صہریت کی وجہ سے جن رشتوں کو ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے ان میں بنیادی سبب ’’ جزئیت ‘‘ ہے ، یعنی اس تعلق کی وجہ سے مرد و عورت ایک دوسرے کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں ، اس لئے ایک دوسرے کے رشتہ دار ان کے اپنے رشتہ دار کی طرح ہوجاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ جزئیت جس طرح سے جائز تعلق سے ثابت ہوتی ہے ، اسی طرح سے ناجائز تعلق سے بھی ثابت ہوجاتی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا ۔ (سورۃ الفرقان:54)
وہ ذات جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کردیا ، بلا شبہ تیرا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے ۔
اس آیت میں شادی کے ذریعہ وجود میں آنے والے رشتہ کے لئے ’’ صہر ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اسی سے ’’ مصاہرت ‘‘ کا لفظ بنایا گیا ہے ، جس کے معنی قریب کرنے یا پگھلانے کے ہیں ، یعنی اس کی وجہ سے دو مختلف خاندان ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں ، اور ایک دوسرے کا حصہ اور جزء بن جاتے ہیں ، اور مرد و عورت ایک دوسرے میں ضم ہوکر اور ڈھل کر ایک نئے خاندان کو جنم دیتے ہیں ، عورت کے والدین مرد کے والدین کی طرح ہوجاتے ہیں اور مرد کے والدین عورت کے لئے اس کے والدین کی طرح ہوجاتے ہیں اور ان دونوں کی اولاد حقیقی اولاد کی طرح ہوجاتی ہے ، اسی حقیقت کو اہل لغت نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
والصھر ما کان من خلطۃ تشبہ القرابۃ یحدثھا التزوج ۔
"صہر "وہ ہے جو ایسے اختلاط اور شرکت سے ہو جو نسبی رشتہ کی طرح ہوتا ہے اور اس کا وجود زواج کے ذریعے ہوتا ہے ۔(لسان العرب 473/4)
حرمت مصاہرت کے ثبوت کے مختلف طریقے:
قرابت و تعلق کے احترام و عظمت کی وجہ سے رشتہ نکاح کے حرام ہونے کے مختلف طریقے اور متعدد صورتیں ہیں ، جن میں سے بیشتر کے بارے میں فقہاء کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے اور بعض کے متعلق قدرے اختلاف ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے :
1-نکاح صحیح ، جائز تعلق یا مقدمات جماع:
کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا تو محض عقد کی وجہ سے اس کے بیٹے کے لئے وہ عورت حرام ہوجائیگی ، اس لئے یکجائی کی نوبت آنے سے پہلے ہی اسے طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کے بیٹے کے لئے اس سے نکاح کرنا حرام ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُ كُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا وَ سَآءَ سَبِیْلًا ۔ ( النساء : 22)
اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہے ، مگر جو گذر چکا ہے ، یہ بے حیائی کا کام ہے اور نفرت کا سبب ہے اور نہایت بُرا طریقہ ہے ۔
اور حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میرے ماموں جھنڈا اُٹھائے چلے آرہے ہیں ، میں نے دریافت کیا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ کہا :
بعثنی رسول اللّٰه صلی اللّٰه الی رجل تزوج امرأۃ ابیہ من بعدہ ان اضرب عنقہ و آخذ مالہ ۔ (ابوداؤد:4457.ترمذی: 1362.نسائی: 3331)
رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کی بیوی اور اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیا ہے ، آپ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس کا سر دھڑ سے الگ کردوں اور اس کے مال و اسباب کو ضبط کرلوں ۔
اس واقعہ سے اس رشتے کے تقدس و عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سوتیلی ماں سے محض نکاح کی وجہ سے روئے زمین پر اس کے وجود کو گوارا نہیں کیا گیا اور توبہ و معافی کا موقع دیئے بغیر اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا اور اس کے مال و جائیداد کو ضبط کرلیا گیا ، اسی طرح سے کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا ہے تو اس کی منکوحہ اس کے باپ کے لئے حرام ہوجائے گی اور خلوت و صحبت سے پہلے ہی اس کو طلاق دے دے یا اس کی وفات ہوجائے تو اس کے باپ کے لئے اس سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ حَلَآىِٕلُ اَبْنَآىِٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ ۔ (النساء : 23)
اور تمہارے سگے بیٹوں کی بیویاں تمہارے لئے حرام ہیں ۔
تمام فقہاء کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ بہو اور سوتیلی ماں محض عقد کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہے ، (1) اسی طرح سے اس پر بھی تقریباً اتفاق ہے کہ ساس بھی محض نکاح کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہے ، خواہ اس کی بیٹی سے یکجائی کی نوبت آئی ہو یا نہ آئی ہو ؛ (2) کیونکہ قرآن میں ہے کہ :
’’ وَاُمَّهٰتُ نِسَآىِٕكُمْ‘‘ (النساء : 23)
اور تمہاری عورتوں کی مائیں بھی تمہارے لئے حرام ہیں ۔
اس آیت میں کسی تفصیل اور شرط کے بغیر ساس کو حرام قرار دیا گیا ہے ، اس لئے اس کی عمومیت کا تقاضا ہے کہ کسی عورت سے نکاح کے بعد اس کی ماں سے نکاح کرنا حرام ہو ، خواہ نکاح کے بعد خلوت کی نوبت آئی ہو یا نہ آئی ہو ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ سے یہی تفسیر منقول ہے اور یہی صحیح ہے اور اس کے برخلاف رائے کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے ، (تفسیر قرطبی 175/6) اور ایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، حضرت عمروبن شعیبؓ کی سند سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
اذا نکح الرجل المرءۃ فلا یحل لہ ان یتزوج امھا دخل البنت او لم یدخل ۔ (تفسیر طبری 146/8)
جب کوئی کسی عورت سے نکاح کرے تو اس کے لئے اس کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے ، چاہے اس نے اس کے ساتھ صحبت کی ہو یا نہ کی ہو ۔
اور اس پر بھی تمام فقہاءکا اتفاق ہے کہ کسی عورت سے محض نکاح کرلینے سے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا حرام نہیں ہوگا ؛ بلکہ اس کی حرمت کے لئے صحبت و خلوت شرط ہے ؛ کیونکہ قرآن حکیم میں ہے :
وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ ۔ (النساء : 23)
اور تمہارے لئے حرام ہیں وہ لڑکیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں ، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو اور اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔
لیکن کیا اس معاملے میں مقدمات جماع یعنی بوس و کنار کرنا ، شہوت کی وجہ سے چھونا وغیرہ بھی جماع کے حکم میں شامل ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ، امام ابوحنیفہؒ ، مالکؒ ، ثوریؒ، اوزاعی ؒاور لیث بن سعد ؒکے نزدیک مقدمات جماع کا بھی وہی حکم ہے جو جماع کا ہے ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ سے بھی ایک قول اس کے مطابق منقول ہے ، اس کے برخلاف امام شافعیؒ اور احمدؒ کی دوسری رائے یہ ہے کہ اس کے ذریعہ حرمت ثابت نہیں ہوگی ، شوافع اورحنابلہ کے یہاں یہی قول راجح ہے . (بدایۃ المجتہد 33/2.المغنی580/6.فتح الباری 158/9) علامہ ابن رشدؒ کہتے ہیں کہ اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ آیت میں مذکور لفظ ’’ دخول‘‘ سے وطی مراد ہے یا لطف اندوزی اور لذت چشی ، اگر وطی مراد ہے تو پھر حرمت کے لئے صحبت ضروری ہے اور اگر لطف اندوزی مراد ہے تو اس کے لئے بوس و کنار وغیرہ کافی ہے ۔ (بدایۃ المجتہد 33/2)
2- مملوکہ باندی سے جماع یا مقدمات جماع:
مملوکہ باندی سے صحبت کرلی گئی تو اس کے قریب ترین رشتہ دار مرد کے لئے اور مرد کے قریب ترین رشتے دار اس کے لئے حرام ہوجائیں گے ، اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے ، اگر مملوکہ باندی کے ساتھ محض بوس و کنار وغیرہ کیا گیا ہے تو اس کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں ؟ اس میں قدرے اختلاف ہے ، قاسم بن محمدؒ ، حسن بصریؒ ، مکحول شامیؒ ، نخعیؒ ، شعبیؒ ، اوزاعیؒ ، مالک ؒ ، ابوحنیفہؒ کے نزدیک مقدمات جماع سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول یہی ہے ، صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اورعبد اللہ بن عمروؓ وغیرہ سے یہی منقول ہے اور ان دونوں اماموں کی دوسری رائے یہ ہے کہ مقدمات جماع کی وجہ سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ، (المغنی 580/6.المجموع230/16) جو لوگ حرمت کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں :
1- ابن عباسؓ سے مرسلا ً منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
من نظر الی فرج امرءۃ لم تحل لہ امھا ولابنتھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 480/3)
جو کوئی کسی عورت کی شرمگاہ کو دیکھ لے تو اس کے لئے اس کی ماں اور بیٹی حلال نہیں ہے ۔
2- عمرو بن شعیبؒ کی سند سے منقول ہے کہ عبد اللہ بن عمروؓ نے اپنی ایک باندی کو بے لباس کیا اور پھر اس سے الگ ہوگئے ، ان کے لڑکوں میں سے کسی نے کہا کہ اسے تحفہ کے طورپر دے دیں تو انھوں نے کہا کہ وہ تمہارے لئے حلال نہیں ہے ۔
انہ جرد جاریة لہ ثم سالھا ایاہ بعض ولدہ فقال : انھا لا تحل لک ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 481/3)
3- حضرت مکحولؒ نقل کرتے ہیں :
ان عمر جرد جاریتہ فسالہ ایاھا بعض ولدہ فقال انھا لا تحل لک ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 480/3)
حضرت عمرؓنے اپنی باندی کو بے لباس کیا (لیکن پھر کسی وجہ سے ضرورت پوری کئے بغیر اس سے الگ ہوگئے ) ان کے کسی لڑکے نے خواہش کی کہ وہ باندی انھیں دے دی جائے تو انھوں نے کہا کہ وہ تمہارے لئے حلال نہیں ہے ۔
حضرت عمرؓ کے واقعہ کو امام مالکؒ نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے :
ان عمر بن الخطاب وھب لابنہ جاریۃ فقال لا تمسھا فانی قد کشفتھا ۔ (الموطا/287)
حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو ایک باندی تحفے میں دی اور کہا اس سے صحبت مت کرنا ؛ کیونکہ میں اس کا کپڑا اُتار چکا ہوں ۔
4- حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ :
ایما رجل جرد جاریتہ فنظر منھا الی ذالک الامر فانھا لا تحل لابنہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ479/3)
جو کوئی اپنی باندی کو بے لباس کرکے اس کی شرمگاہ کو دیکھ لے تو وہ اس کے بیٹے کے لئے حلال نہیں ہے ۔
5- جماع کی طرح سے مقدمات جماع سے بھی لذت حاصل کی جاتی ہے ؛ اس لئے ثبوت حرمت کے معاملے میں وہ جماع کے درجے میں ہوگا ۔ (المغني580/6)
جو لوگ مقدمات جماع کی وجہ سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کے قائل نہیں ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ شہوت کے ساتھ چھونے وغیرہ سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے حرمت بھی ثابت نہیں ہوگی ، جیسے کہ شہوت کے بغیر چھونے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے ، اور اس لئے بھی کہ ثبوت حرمت کے لئے کوئی آیت یا روایت ہونی چاہئے یا ان پر قیاس ، اور اس معاملے میں نہ تو شریعت میں کوئی صراحت ہے اور نہ قیاس ، اور نہ ہی اس پر تمام لوگوں کا اجماع ہے نیز صحبت سے بہت سے احکام متعلق ہوتے ہیں ، جیسے کہ مہر واجب ہونا ، غسل فرض ہونا ، عدت گذارنا اور احرام و صیام کا فاسد ہوجانا اور شہوت کے ساتھ چھونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوتا ہے ۔ (المغني580/6)
رہی مذکورہ حدیث تو وہ ضعیف ہے اور اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو صریح نہیں ؛ کیونکہ احتمال ہے کہ شرمگاہ دیکھنے سے مراد صحبت ہو ، اسی طرح سے صحابہ کرام سے منقول اقوال میں بھی صحبت مراد لینے کی گنجائش ہے ؛ کیونکہ عام طورپر جماع کے لئے کنائی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور کپڑا اُتارنا اور بے لباس کرنا جماع کے لئے بطور کنایہ استعمال ہوتا ہے ؛ البتہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا فتویٰ بالکل واضح ہے ، اسی طرح سے ان کے بیٹے سالم کا طرز عمل اور فتویٰ اس سے بھی زیادہ صریح ہے جس میں جماع مراد لینے کی گنجائش نہیں ہے ۔(3)
یہی حال حضرت مسروق کے فتوے کا بھی ہے ، (4) اور ظاہر ہے کہ ان کا فتویٰ صحابہ کرام کے ارشاد و عمل سے ماخوذ ہے ۔
3- نکاح و ملکیت کے شبہ کی وجہ سے جماع یا مقدمات جماع:
نکاح و ملکیت میں شبہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی عورت کو اپنی بیوی یا باندی سمجھ کر اس سے جماع کرلے ، جیسے کہ شادی کی پہلی رات میں دُلہن بدل جائے اور وہ اسے اپنی بیوی سمجھ کر صحبت کرلے یا نکاح فاسد وغیرہ کے بعد صحبت کر گزرے تو ایسی حالت میں بہ اتفاق حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی (5)
اور اگر کسی کو اپنی بیوی یا باندی سمجھ کر یا نکاح فاسد کے بعد مقدمات جماع کا ارتکاب کرلے تو کیا حرمت مصاہرت ثابت ہوگی ؟ سابقہ مسائل کی طرح سے اس مسئلہ میں بھی دو طرح کی رائیں ہیں ، امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک اس صورت میں بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ، جمہور مالکیہ اسی کے قائل ہیں۔ البتہ سحنون کے نزدیک حرمت ثابت نہیں ہوگی ، بعض مالکی علماء نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔ (الدرر فی شرح المختصر 920/2)امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا ایک قول یہی ہے اور ان دونوں اماموں کا دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت ثابت نہیں ہوگی .(6)
4-زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت
حضرت عمر ؓ، عبد اللہ بن مسعود ؓ، عمران بن حصینؓ اور زیادہ صحیح قول کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت ابو هريرة اور جمہور تابعین جیسے حضرت حسن بصریؒ ، شعبی ؒ ، نخعی ؒ ،اوزاعیؒ ، طاؤس ؒ ، مجاہد ؒ ، سعید بن مسیبؒ اور سلیمان بن یسارؒ کے نزدیک زنا سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ، اور فقہ و حدیث کے اماموں میں سے امام ابوحنیفہؒ ، سفیان ثوریؒ ، اسحاق بن راہویہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ بھی اس کے قائل ہیں ، (دیکھئے:صحيح بخاري مع الفتح154/9 . فتح القدیر 219/3.رد المحتار 107/4.المغنی576/6) اورامام مالکؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض مالکی علماء نے اسے راجح قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن ابی حبیب نے نقل کیا ہے کہ امام مالکؒ نے مؤطا میں مذکور رائے سے رُجوع کرلیا تھا اور زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت کے قائل ہوگئے تھے اور یہی ان کی آخری رائے تھی ۔ (شرح جامع الامہات 78/7.المناهل الزلالة 1446/3)
اس کے برخلاف حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے دوسرا قول یہ منقول ہے کہ زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی ، حضرت سعید بن مسیبؒ ، یحییٰ بن یعمرؓ ، عروہ ؒ اور زہریؒ اسی کے قائل ہیں اور امام شافعیؒ کا یہی مسلک ہے ، (المغني5766)
واضح رہے کہ حضرت سعید بن مسیب ؒاور عروہ بن زبیر ؒسے صحیح سند کے ساتھ حرمت کا قول بھی منقول ہے ، (دیکھئے : المحلی : 148/9 ، الجوہر النقی : 169/7) ، اسی طرح سے امام زہریؒ سے بھی ایک قول حرمت کا منقول ہے ، دیکھئے : مصنف ابن ابی شیبہ : 179/3
اور امام مالک کی دوسری رائے یہ ہے کہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، عام طورپر مالکی علماء نے اسی کو راجح قرار دیا ہے (الدرر فی شرح المختصر 920/2) چنانچہ وہ مؤطا میں رقم طراز ہیں :
فاما الزنا فانہ لا یحرّم شیئا من ذالک ؛ لأن اللّٰه تبارک و تعالٰی قال : وامھات نساءکم فإنما حرّم ماکان تزویجاً ولم یذکر تحریم الزنا … فھذا الذی سمعت ، والذی علیہ أمر الناس عندنا ۔ (المؤطا/284)
زنا کی وجہ سے کوئی حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے ؛اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری عورتوں کی مائیں حرام ہیں۔اس میں اللہ تعالیٰ نے ان رشتوں کو حرام قرار دیا ہے جو نکاح کے ذریعے وجود میں آئیں اور زنا کی وجہ سے حرمت کو ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔۔۔اس معاملے میں میں نے یہی سنا ہے اور ہمارے اعتبار سے عام لوگ اسی کے قائل ہیں۔
منکرین کے دلائل:
جو لوگ زنا کے ذریعہ حرمت مصاہرت کے قائل نہیں ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
1-وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ۔ ( النساء : 24)
اور ان کے سوا تمام عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں ۔
جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کی تفصیل بیان کرنے کے بعد کہا گیا ہے کہ ان کے علاوہ تمام عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں اور ظاہر ہے کہ محرمات میں زنا کردہ عورت کے رشتہ داروں کو شمار نہیں کیا گیا ہے ، اس لئے اس کے اُصول و فروع بھی حلال عورتوں میں شامل ہوں گی ، یہ آیت عام ہے اور اس کے برخلاف جو دلائل ذکر کئے جاتے ہیں ان میں اتنی قوت و صلاحیت نہیں ہے کہ ان کے ذریعہ اس میں تخصیص کی جاسکے
2-فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۔(النساء : 3 )
تو جو عورتیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو : دو دو ، تین تین ، چار چار ۔
اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصلاً ہر عورت سے نکاح کرنا حلال ہے الا یہ کہ حرمت کے لئے کوئی دلیل موجود ہو ، غرضیکہ حلال ہونا اصل ہے اور اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں اور حرام ہونا خلاف اصل ہے ، اس لئے اس کے ثبوت کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔
3-وَهُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا ۔ ( الفرقان : 54)
وہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کو نسب اور سسرالی رشتہ عطا کیا ۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نسبی اور سسرالی رشتہ کو بطور انعام و احسان ذکر کیا ہے اور جس طرح سے نسبی رشتہ زنا کے ذریعہ ثابت نہیں ہوتا ہے ، اسی طرح سے سسرالی رشتہ بھی زنا کے ذریعہ ثابت نہیں ہوسکتا ہے اور اس لئے بھی کہ مصاہرت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو جائز طریقے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے ۔ (کتاب الام26/5)
4- حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں :
سئل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن الرجل یتبع المرءۃ حراما أ ینکح ابنتھا أو یتبع الإبنۃ حراما أ ینکح أمھا ؟ قالت : قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : لا یحرّم الحرام الحلال إنما یحرّم ما کان بنکاح حلال ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 169/7)
اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے حرام کا ارتکاب کرلے تو کیا وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے ؟ یا بیٹی سے حرام کا ارتکاب کرلے تو اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے ؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا : حلال کو حرام کاری حرام نہیں کرسکتی ہے اور صرف حلال نکاح کے ذریعہ ہی حرمت ثابت ہوسکتی ہے ۔
یہ روایت حد درجہ ضعیف بلکہ قریب بہ موضوع ہے ، اس کے ایک راوی عثمان بن عبد الرحمٰن کے بارے میں ابن حبانؒ کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ لوگوں کی طرف نسبت کرکے موضوع روایتیں نقل کیا کرتا تھا اور یحییٰ بن معینؒ نے اسے جھوٹا اور دوسرے ناقدین حدیث نے اسے متروک قرار دیا ہے اور اس سے نقل کرنے والا شخص مغیرہ بن اسماعیل مجہول ہے ، (الضعیفہ للالبانی:388)
اور معمر بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہری سے پوچھا کیا آپ "لا یحرم الحرام الحلال” والی روایت آنحضرت ﷺ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں تو انھوں نے شدت کے ساتھ اس سے انکار کیا اور کہا میں نے صرف اسے عام لوگوں سے سنا ہے : ’’ فانکران یکون حدثہ عن النبی ولکن سمعہ من أناس من الناس‘‘ (مصنف عبد الرزاق : 199/7).
اس لئے اس سے استدلال درست نہیں ہے اور اگر صحیح مان لیا جائے تو حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کسی عورت کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اسے دیکھتا اور پھسلاتا ہے تو اس حرام کام کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ اور سوال کا منشاء یہ ہے کہ احادیث میں دیکھنے وغیرہ کو زنا کہا گیا ہے ، اس لئے خیال پیدا ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیکھنے اور پھسلانے کی وجہ سے زنا کا حکم نافذ ہوجائے اور حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے ، آنحضور ﷺ نے اسی وہم کی تردید فرمائی ۔ (احکام القرآن 55/3)
5- حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
لا یحرم الحرام الحلال ۔ (سنن ابن ماجہ:2015)
حرام کاری کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتی ہے ۔
یہ حدیث بھی ضعیف اور ناقابل استدلال ہے ، اس کے ایک راوی اسحاق بن محمد کو امام نسائی نے متروک اورامام ابوداؤدنے بہت زیادہ کمزور قرار دیا ہے ، بعض محدثین نے ان کے معاملے میں کچھ نرم رویہ اختیار کیا ہے ؛ لیکن ان کے نزدیک بھی یہ بہت زیادہ لائق اعتماد نہیں ہیں اور اس کے شیخ عبد اللہ بن عمر عمری کے متعلق امام بخاری کہتے ہیں کہ بالکل گیا گزرا ہے میں اس سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا’’ ذاھب لا اروی منہ شیئا‘‘ اور امام نسائی کہتے ہیں کہ ضعیف الحدیث ہے اور حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ ضعیف عابد ، گرچہ بعض لوگوں نے انھیں معمولی درجے میں ثقہ قرار دیا ہے ۔ (دیکھئے:الکاشف238/1.میزان الاعتدال 198/1.تہذیب التہذیب 127/1-388/2.وغیرہ)
سندی حیثیت سے کسی درجے میں لائق استدلال مان بھی لیا جائے تو معنوی اعتبار سے اس کی عمومیت کو برقرار رکھنا مشکل ہے کہ کوئی حرام چیز کسی حلال کو حرام نہیں کرتی ؛ کیونکہ بہت سی حرام چیزیں حلال کو حرام کردیتی ہیں ، جیسے کہ پاک پانی میں شراب یا ناپاک چیز ڈال دی جائے تو وہ حرام اور ناپاک ہوجائے گا ، نیز مشرکہ یا مشترکہ باندی سے یا حیض کی حالت میں عورت سے جماع کرنا حرام ہے ؛ لیکن اس کے باوجود حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ، اس لئے حدیث کو عام نہیں رکھا جاسکتا ہے ؛ بلکہ خاص شکل مراد ہے جو حضرت عائشہ ؓسے منقول حدیث میں مذکور ہے ، یعنی محض دیکھنے یا پھسلانے یا پیچھے پڑنے کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی ۔
6- ابن شہاب زہریؒ نقل کرتے ہیں :
وسئل عن رجل وطی ام امرأتہ قال قال علی بن ابی طالب ؛ لا یحرم الحرام الحلال ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 168/7.صحیح بخاری مع الفتح154/9)
حضرت علی ؓ سے دریافت کیا گیا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کی ماں سے صحبت کرلے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا کہ حرام کاری کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتی ہے ۔
7- حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے بھی اس طرح کا مسئلہ دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : ’’ لا تحرم علیہ امرأتہ ‘‘ ((السنن الکبریٰ للبیہقی 168/7) اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے بقول اس کی سند صحیح ہے ؛ (فتح الباری 156/9) لیکن ان سے منقول دوسرا فتویٰ اس کے برخلاف ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں :
أن رجلا قال : أنہ اصاب ام امرأتہ فقال لہ ابن عباس : حرمت عليك امرأتك و ذلك بعد أن ولدت منه سبعة اولادكلهم بلغ مبلغ الرجال(فتح الباري156/9.تغليق التعليق405/4.
ایک شخص نے پوچھا کہ اس نے اپنی بیوی کی ماں سے بدکاری کرلی ہے تو ابن عباسؓ نے کہا تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی ، یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب کہ اس عورت سے اس کے سات بچے پیدا ہوچکے تھے اور سب بڑے اوربالغ ہوچکے تھے ۔
امام بخاری کا کہنا ہے کہ اس کی سند منقطع ہے کیونکہ اس کے راوی ابو نصر کا سماع ابن عباس سے ثابت نہیں ہے اس لئے اس سے استدلال درست نہیں۔ (صحیح البخاری مع الفتح 165/9)
لیکن امام ابن جریر طبریؒ نے صحیح سند کے ساتھ لکھا ہے کہ ابو نصر نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے "والفجر ولیال عشر” کا معنی پوچھا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن عباسؓ سے ان کا روایت سننا ثابت ہے ، اس لئے امام بخاری کے عدم علم کا اعتبار نہیں ہے ، (دیکھئے : تفسیر طبری : 210/15)
8- نکاح صحیح اور ملکیت یا نکاح فاسد میں صحبت کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان اُمور کی وجہ سے عورت کا "فراش "ہونا مان لیا جاتا ہے اور زنا کی وجہ سے "فراش” ہونا نہیں مانا جاتا ہے ، اس لئے اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ، اور اس بات کہ دلیل کی حرمت مصاہرت کی علت فراش اور ثبوت نسب ہے یہ آیت ہے :
وَهُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا ۔ (الفرقان :54)
اور اللہ ہی نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر نسبی اور سسرالی رشتہ عطا کیا ۔
اس آیت میں نسب اور سسرالی رشتہ کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دونوں کی تحقیق میں اصل کردار پانی کا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سسرالی رشتہ بھی اسی صورت میں ثابت ہوگا جس سے کہ نسب ثابت ہوتا ہے اور جس شکل میں نسب ثابت نہیں ہوگا اس میں سسرالی رشتہ بھی ثابت نہیں ہوگا ۔ (المجموع 221/16)
قائلین کے دلائل:
جو لوگ زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُ كُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا وَ سَآءَ سَبِیْلًا۔ (النساء : 22)
اور جن عورتوں کو تمہارے باپ نکاح میں لاچکے ہیں تم ان کو نکاح میں نہ لاؤ ، مگر جو کچھ ہوچکا وہ ہوچکا ، بے شک یہ بے حیائی اور نہایت قابل نفرت بات تھی اور بہت ہی بُرا طریقہ تھا ۔
عربی زبان میں ’’ نکح ‘‘ کے اصل معنی دو چیزوں کو ملانے اور جمع کرنے کے ہیں ، اس اعتبار سے صحبت و جماع کرنا نکاح کا حقیقی مفہوم ہوگا ؛ کیونکہ اسی حالت میں مرد و عورت باہم مل جاتے ہیں اور عقد نکاح اس کا مجازی معنی ہوگا ؛ کیونکہ یہ جمع ہونے کا سبب ہے اور مذکورہ آیت میں حقیقی معنی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے جنسی تعلق قائم کرلے تو اس کے بیٹے کے لئے اس سے نکاح کرنا حرام ہے اور چاہے یہ تعلق جائز ہو یاناجائز بہر صورت حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ؛ کیونکہ آیت بالکل عام ہےاور حلال و حرام ہر طرح کے جماع کو شامل ہے رہا محض عقد کی وجہ سے حرمت کا ثبوت تو وہ اس آیت سے نہیں بلکہ اجماع سے ثابت ہے ۔
اور اگر عقد کا معنی مراد ہو تو بھی لفظ عام ہے اور ہر طرح کے نکاح کو شامل ہے ، خواہ نکاح جائز ہو یا ناجائز اوراس کے نزول کے وقت نکاح کی بہت سی ایسی صورتیں رائج تھیں جو محض زنا تھیں ، حضرت عائشہؓ سے منقول ایک روایت میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے جن میں سے تین زنا تھے ۔(صحیح بخاری :5127) اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جن عورتوں سے تمہارے باپ نے کسی بھی طرح کا نکاح کیا ہو ، تم اس سے نکاح نہ کرو چاہے وہ نکاح زنا ہی کیوں نہ ہو ۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نکاح کا اصل معنی جماع کے ہیں اور یہ لفظ اس معنی میں قرآن میں استعمال ہوا ہے اور اسی طرح سے اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کتاب و سنت اور شریعت میں یہ لفظ زیادہ تر عقد کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور یہی مفہوم زیادہ رائج اور مشہور ہے ؛ لیکن کیا مذکورہ آیت میں حقیقی معنی مراد ہے یا رائج اور مشہور معنی ؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
علامہ خلیل احمد سہارنپوری مشہور ماہر لغت ابن الفارس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ قرآن حکیم میں جہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے وہاں عقد مراد ہے ، سوائے اس آیت کے :
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ ۔ (النساء : 6)
اور یتیموں کو آزماتے رہو ، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ۔
کہ اس میں نکاح سے مراد بالغ ہونا ہے ، (بذل المجہود 4/10)
اور علامہ زمخشریؒ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم میں لفظ نکاح صحبت کے معنی میں صرف اس ایک آیت میں استعمال ہوا ہے ۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ 6515/9)
حَتّٰی تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ ۔
یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے صحبت کرلے.
(البقرۃ : 230)
اور علامہ ابن عابدین شامی زمخشریؒ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’لان الزمخشری من مشائخ المذہب وہو حجۃ فی النقل‘‘
علامہ زمخشری مذہب حنفی کے مشائخ میں سے ہیں اور نقل مذہب کے سلسلے میں وہ حجت ہیں۔(ردالمحتار : 105/4 )
اور مشہور محقق علامہ ابن نجیم مصریؒ کہتے ہیں :
ولم یستدل بقولہ تعالٰی ولا تنحکوا مانکح أباءکم کما فعل الشارحون لما قدّمنا أنہ لا یصلح الإستدلال بہ ۔ (البحر 174/3)
صاحب کتاب نے اللہ تعالیٰ کے قول : ’’ وَ لَا تَنْكِحُوْا ‘‘سے استدلال نہیں کیا ہے ، جیساکہ عام طورپر شرح کرنے والوں نے ایسا کیا ہے ؛ کیونکہ ہم اس سے پہلے واضح کرچکے ہیں کہ اس سے استدلال کرنا درست نہیں ہے ۔
نیز وہ لکھتے ہیں :
فالحاصل أن الأولی أن النکاح فی الایۃ العقد کما ھو مجمع علیہ ویستدل لثبوت حرمۃ المصاھرۃ بالوطی الحرام بدلیل آخر ۔ (البحر 167/3)
حاصل یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں لفظ نکاح کو عقد کے معنی میں لیا جائے ، جیساکہ اس پر اجماع ہے اور زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے دوسری دلیل سے استدلال کیا جائے ۔
حاصل یہ ہے کہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلے تو محض عقد کی وجہ سے وہ عورت اس کے بیٹے کے لئے حرام ہوجاتی ہے اور اس اجماع کی بنیاد مذکورہ آیت ہے تو محضعقد کی وجہ سے حرمت مصاہرت کے ثبوت پر اتفاق ہونا اور زنا کے ذریعہ اس کے ثبوت میں اختلاف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ آیت پہلے مسئلہ کے لئے بالکل واضح ہے ، اس لئے اس میں کوئی اختلاف نہیں اور دوسرے مسئلے کے لئے واضح نہیں ہے ، اس وجہ سے اس میں اختلاف ہے ، علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
ولیس لک ان تقول ثبتت حرمۃ الموطؤۃ بالأیۃ والمعقود علیھا بلا وطی بالإجماع لأنہ إذا کان الحکم الحرمۃ بمجرد اللفظ ولفظ الدلیل صالح لہ کان مرادا منہ بلا شبھۃ فان الأجماع تابع للنص والقیاس ۔ (فتح القدیر 211/3)
عقد مراد لینے کے لئے دوسرا واضح قرینہ یہ ہے کہ لفظ ’’ لَا تَنْكِحُوْا‘‘ سے بہ اتفاق عقد مراد ہے تو ’’ مَا نَكَحَ اٰبَآؤُ كُمْ‘‘ سے بھی یہی مراد ہونا چاہئے ، نیز اس کے علاوہ بھی بعض صورتوں میں محض نکاح کی وجہ سے اور بعض میں نکاح کے بعد صحبت کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے اور اس کے لئے قرآن حکیم میں تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں :
1- ’’اُمَّھَاتُ نِسَاءَكُمْ‘‘ ( تمہاری عورتوں کی مائیں یعنی ساس ) ۔
2- ’’وَ حَلَآىِٕلُ اَبْنَآىِٕكُمْ‘‘ ( تمہارے بیٹیوں کی بیویاں یعنی بہو ) ۔
3- ’’وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ‘‘ ( وہ لڑکیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں ) ۔
اور لغت اور عرف و استعمال کے اعتبار سے زانیہ کے لئے ’’ نساء ‘‘ یا ’’ حلیلہ ‘‘ اور اس کی لڑکی کو ’’ ربیبہ ‘‘ نہیں کہا جاتا ہے ؛ بلکہ یہ الفاظ انھیں عورتوں کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ، جن سے نکاح ہوا ہو ، تو جس طرح سے مذکورہ الفاظ سے نکاحی عورتیں مراد ہیں ، اسی طرح سے لفظ ’’ نکاح ‘‘ سے بھی عقد نکاح مراد ہے ۔
2-ابوھانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من نظر الی فرج امرءۃ لم تحل لہ امھا ولابنتھا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ 480/3)
جو شخص کسی عورت کی شرمگاہ کو دیکھ لے تو اس کے لئے اس کی ماں اور بیٹی حلال نہیں ہے ۔
یہ حدیث ابو ہانی تابعی سے صحابی کے واسطہ کے بغیر منقول ہے ، اس لئے مرسل روایت ہے ، اور اس طرح کی حدیث حنفیہ مالکیہ اور دوسرے بہت سے فقہاء و محدثین کے نزدیک لائق استدلال ہے ؛ البتہ اس کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ پر کلام کیا گیا ہے لیکن بعض لوگوں نے انھیں ثقہ کہا ہے ، اس اعتبار سے ان کی حدیث درجہ حسن سے کمتر نہیں ؛ لیکن ان کے ساتھ ایک مصیبت یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ غلطی کیا کرتے تھے ، نیز تدلیس کے بھی عادی تھے ، یعنی ضعیف راویوں کو درمیان سے اس طرح سے حذف کردیتے کہ پتہ نہیں چلتا چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کہتے ہیں :
احد الفقہاء صدوق ، کثیر الخطاء والتدلیس ، وکان یدلّس عن الضعفاء ۔ (تہذیب التہذیب172/2)
اور تدلیس کرنے والے راوی کی مرسل روایت یا ایسی حدیث جسے عن فلان عن فلان کے ذریعہ بیان کیا گیا ہو ، لائق قبول نہیں ہے ، اس لئے روایت ضعیف ہے ، جیساکہ حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ کا کہنا ہے ۔ (فتح الباری 199/9)
دوسرے یہ کہ حدیث اپنے موضوع پر صریح بھی نہیں ہے ؛ کیونکہ احتمال ہے کہ شرمگاہ دیکھنے سے مراد حلال صحبت ہو ؛ کیونکہ جماع کے لئے عام طورپر کنائی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور عورت سے مراد بیوی ہو اور مطلب یہ ہو کہ جس نے اپنی بیوی سے جماع کرلیا تو اس کی وجہ سے اس کی ماں اور بیٹی دونوں حرام ہوجاتی ہیں ، جب کہ نکاح کی وجہ سے صرف ماں حرام ہوتی ہے ، بیٹی نہیں ، تو نکاح کی وجہ سے جو حرمت صرف ایک طرف تھی ، وہ جماع کی وجہ سے دونوں طرف ہوجاتی ہے ۔
3- ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
قال رجل : یا رسول اللّٰه ، إنی زینت إمرءۃ فی الجاھلیۃ أفانکح ابنتھا قال : لا أری ذالک ولا یصلح ان تنکح امرأۃ تطلع من ابنتھا علی ما تطلع علیہ منھا ۔ (فتح القدیر 211/3)
رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں ، کیا اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ، میں اسے صحیح نہیں سمجھتا اور تمہارے لئے یہ بھی درست نہیں ہے کہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرو جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو دیکھ چکے ہو جو بیوی کے جسم سے دیکھا جاتا ہے ۔
یہ حدیث اپنے موضوع پر بالکل صریح اور واضح ہے ، کاش کہ صحیح بھی ہوتی تو پھر اس کے علاوہ کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہ ہوتی ؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ بے سر پیر کی روایت ہے ، منقطع بھی ہے اور اس کے راوی پر سخت کلام بھی کیا گیا ہے ۔
4- حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت سعد بن وقاصؓ اور عبد بن زمعہؓ کے درمیان ایک بچے کے بارے میں اختلاف ہوا ، حضرت سعد ؓنے کہا : اللہ کے رسول ! یہ میرے بھائی عتبہ کا لڑکا ہے ، انھوں نے مجھ سے تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ یہ ان کا بیٹا ہے ، ذرا ان کے ساتھ اس کی مشابہت تو دیکھئے اور حضرت عبد بن زمعہؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ میرا بھائی ہے ، میرے باپ کی باندی سے ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے دیکھا کہ اس بچے میں عتبہ کے ساتھ واضح مشابہت پائی جارہی ہے ، پھر آپ نے فرمایا :
ھو لک یا عبد بن زمعۃ ، الولد للفراش وللعاھر الحجر واحتجبی منہ یا سودۃ ۔ (صحیح بخاری: 2421, صحیح مسلم:1457)
عبد بن زمعہ ! یہ بچہ تمہارے لئے ہے ، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اورزنا کرنے والے کے لئے پتھر ہے اور سودہ ! تم اس سے پردہ کرو ۔
اس بچے میں آنحضرت ﷺ نے عتبہ کے ساتھ مشابہت دیکھ کر یقین کرلیا کہ یہ عتبہ کا ہے اور اسی بنیاد پر حضرت سودہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا ، غرضیکہ زنا کی وجہ سے نسب تو ثابت نہیں ہوا ؛ البتہ پردہ کے معاملے میں ثبوت نسب جیسا معاملہ کیا گیا اور اس سلسلے میں اسے عبد کا بھائی نہیں بلکہ عتبہ کا بیٹا قرار دیا گیا ۔ (الجوہر النقی 170/7)
یہ حدیث صحیح ہے ؛ لیکن موضوع سے غیر متعلق ہے ؛ کیونکہ اس میں زمعہ سے نسب کو ثابت نہیں کیا گیا ہے ؛ اس لئے کہ زمعہ نے اس کا دعویٰ نہیں کیا تھا ؛ بلکہ زمعہ کے بیٹے نے اسے اپنا بھائی قرار دینے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کے مطابق اسے اس کا بھائی اور ترکہ میں سے اس کے حصے میں اسے شریک قرار دیا گیا ، اس طرح کے مسئلہ میں حنفیہ کا یہی موقف ہے کہ اگر کوئی شخص باپ کی وفات کے بعد کسی بارے میں اعتراف کرے کہ وہ اس کا بھائی ہے تو اس کے باپ سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا البتہ ترکہ میں سے اس کے حصہ میں وہ شریک سمجھا جائے گا ۔
اس اعتبار سے وہ عبد کا بھائی مان لیا گیا ؛ لیکن اسے زمعہ کا بیٹا اور حضرت عبد بن زمعہ کا بھائی نہیں تسلیم کیا گیا ، اس لئے اس سے پردہ کا حکم دیا گیا ؛ کیونکہ ان کے حق میں وہ ایک اجنبی کی طرح ہے ؛ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ :
ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال لسودۃ : أما المیراث فلہ وأما أنت فاحتجبی منہ فانہ لیس لک باخ ۔(شرح معانی الآثار 66/2۔سنن نسائی :3485)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہؓ سے کہا وارثت میں سے اس کو حصہ ملے گا ؛ لیکن تم اس سے پردہ کرو ؛ کیونکہ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے ۔
امام طحاویؒ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
اگر رسول اللہ ﷺ اسے زمعہ کا بیٹا قرار دیتے تو پھر حضرت سودہ کو ان سے پردہ کرنے کے لئے نہ کہتے ؛ کیونکہ آنحضرت ﷺ رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیتے تھے اور توڑنے سے منع کیا کرتے تھے ، اور رشتہ جوڑنے میں یہ بات بھی شامل ہے ، رشتہ داروں سے ملاقات کی جائے ، تو اگر رسول اللہ ﷺ اسے بھائی قرار دیتے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اس سے پردہ کا حکم دیتے ، آنحضور ﷺ کے بارے میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ؛ حالانکہ آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کو حکم دیتے ہیں کہ رضاعی چچا کو اپنے پاس آنے دیا کریں اور سودہ کو حکم دیں کہ وہ اپنے بھائی اور اپنے باپ کے بیٹے سے پردہ کریں ، یہ کیسے ممکن ہے ۔ (شرح معانی الآثار 66/2)
بعض لوگوں نے یہ تاویل کی ہے کہ پردہ کا حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں ، اور اگر وجوبی بھی تسلیم کرلیا جائے تو یہ اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی ہے کہ زنا کی وجہ سے کسی بھی درجے میں نسب کے احکام ثابت ہوسکتے ہیں ؛ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت سودہؓ کے لئے اجنبی تھا ؛ مگر عتبہ سے کسی بھی طورپر نسب ثابت نہیں ہوتا ہے ؛ کیونکہ ایسا کرنا للعاھر الحجر (زناکار کے لئے سنگساری ہے ) کے خلاف ہے ۔
5- حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اپنی ساس سے جماع کرلے تو اس کی بیوی اس کے لئے حرام ہوجائے گی ، (صحیح البخاری مع الفتح 200/9) اسی طرح کا فتویٰ مشہور صحابی حضرت عمران بن حصین ؓسے بھی منقول ہے ، (رواہ عبدالرزاق۔ ولا باس باسنادہ۔فتح الباری 199/9) اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ :
لا ینظر اللّٰه الی رجل نظر الی فرج امرأۃ وبنتھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 480/3)
اللہ تعالیٰ اس شخص کو رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے جو کسی عورت اور اس کی بیٹی کی شرمگاہ کو دیکھے ۔
حضرت ابوہریرہؓ اور عمران بن حصین کا فتویٰ سند کے اعتبار سے صحیح اور موضوع کے اعتبار سے بالکل بےغبار ہے ، اسی طرح سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول بھی سند کی حیثیت سے صحیح ہے ، بعض لوگوں نے لیث بن ابی سلیم اور حماد بن ابی سلیمان کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے جو غلط ہے ؛ کیونکہ ان کو ضعیف قرار دینے میں ناقدین حدیث کے درمیان اختلاف ہے ؛ اس لئے ان کی روایت دوسرے درجے سے کمتر نہیں ہے ؛ البتہ موضوع کے اعتبار سے صریح نہیں ہے ؛ کیونکہ ممکن ہے کہ عورت کی شرمگاہ کو دیکھنے سے مراد نکاح کے ذریعہ دیکھنا ہو ، یعنی نکاح کرکے اسے بے لباس کردے اور پھر طلاق کے بعد اس کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہے تو درست نہیں ہے ، دوسرے یہ کہ کسی کی طرف نظر رحمت نہ کرنے سے اس کے عمل کا گناہ ہونا ثابت ہوتا ہے ؛ لیکن اس کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے ، جیسے کہ ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ :
لا ینظر اللّٰه إلی رجل أتی رجلاً أو امرأۃ فی الدبر ۔ (ترمذی:1165)
اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کریں گے جو کسی مرد یا عورت کے پیچھے کے مقام میں بدفعلی کرے ۔
یعنی ایسا کرنا حرام ہے ؛ لیکن اس کی وجہ سے عورت اس کے لئے حرام نہیں ہوگی اور ابن عباس ؓکی طرف عدم حرمت کی نسبت بہت زیادہ صحیح نہیں ہے بلکہ حرمت کا قول ہی راجح ہے ، وجہ یہ ہے کہ ان کے مشہور شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ زنا کی وجہ سےحرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ، جیسے کہ حضرت عطا اور طاؤس وغیرہ کی رائے ذکر کی جاچکی ہے اور حضرت عطا ؒان کے اس قول کی تاویل کیا کرتے تھے : ’’ لایحرّم حرام حلالاً ‘‘ (حرام کاری کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتی ) ۔
کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی کسی عورت سے زنا کرلے تو وہ اس کے لئے حرام نہیں ہوجائے گی ؛ بلکہ اس سے نکاح کرنا درست ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عکرمہ ؓنے ان سے عدم حرمت کا جو قول نقل کیا ہے ، وہ حضرت عطا کے نزدیک ثابت نہیں ہے ؛ کیونکہ اگر وہ صحیح ہوتا تو پھر ان کے مذکورہ قول کی تاویل نہیں ہوسکتی ہے ، (احکام القرآن للجصاص :52/3) مصنف عبد الرزاق میں ان سے منقول الفاظ یہ ہیں :
’’ سئل عطاء عن رجل کان یصیب امرأۃ سفاحاً أینکح ابنتھا ؟ قال : ’’لا، وقد اطلع علی فرج امھا ‘‘ فقال إنسان ألم یقال : لا یحرم حرام حلالا؟ قال : ذالک فی الامۃ کان یبغی بھا ، ثم یبتاعھا ، او یبغی بالحرۃ ، ثم ینکحھا فلا یحرم حینئذ ماکان صنع من ذالک ‘‘ (مصنف عبد الرزاق : 197/7 ، سند صحیح ہے) ۔اور خود حضرت عکرمہؓ کا فتویٰ بھی اس کے برخلاف ہے ؛ چنانچہ ان سے دریافت کیا گیا :
رجل فجر بامرءۃ أیصلح لہ ان یتزوج جاریۃ ارضعتھا ھی بعد ذالک ، قال : لا ۔ (المحلی 148/9)
کسی نے ایک عورت سے بدکاری کی اور پھر ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے جسے اس عورت نے دودھ پلایا ہے تو کیا یہ درست ہے ، حضرت عکرمہ نے کہا نہیں ۔
اور ان کے مشہور شاگرد حضرت مجاہدؒ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ :
إذا قبلھا أو لا مسھا أو نظر الی فرجھا من شھوۃ حرّمت علیہ امھا وابنتھا ۔ (المحلی 148/9)
اگر کوئی عورت کو شہوت سے بوسہ دے دے ، ہاتھ لگادے یا اس کی شرمگاہ کو دیکھ لے تو اس پر اس کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائے گی ۔
غرضیکہ متعدد صحابہ کرام سے زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کا فتویٰ منقول ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی سے اختلاف مذکور نہیں ہے اور ان سے بھی دو طرح کا قول نقل کیا جاتا ہے ؛ مگر ثبوت حرمت کا قول اس اعتبار سے راجح معلوم ہوتا ہے کہ وہی ان کے نمایاں شاگردوں کی رائے ہے ، اور تابعین میں سے اکثر لوگ حرمت کے قائل ہیں ، حضرت سعید بن مسیبؒ اور عروہ بن زبیرؓ سے عدم حرمت کا فتویٰ نقل کیا جاتا ہے ؛ لیکن ان سے بھی حرمت کا فتویٰ ثابت ہے ، (دیکھئے: المحلی 148/9.تغلیق التعلیق 405/4الجوہر النقی 169/7) اس لئے اگر کسی نے یہ کہا ہے تو غلط نہیں کہا ہے کہ :
وبھذا قال جمھور الصحابۃ والتابعین ۔ (فتح الملک المعبود 281/4)
6- حرمت مصاہرت کی حقیقی علت اور وجہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل اور بنیادی وجہ جماع ہے ، خواہ اس کی نوعیت درست ہو یا نہ ہو ، عقد نکاح یا حلال جماع کو اصل علت قرار نہیں دے سکتے ؛ کیونکہ کسی عورت سے محض عقد کی وجہ سے اس کی بیٹی حرام نہیں ہوتی ، اگر عقد سبب ہوتا تو سوتیلی بیٹی محض نکاح کی وجہ سے حرام ہوجاتی ؛ البتہ اگر ماں سے صحبت کرلی جائے تو پھر سوتیلی بیٹی حرام ہوجاتی ہے ، معلوم ہوا کہ نکاح کے بجائے حرمت کا سبب جنسی تعلق ہے اور اس تعلق کا جائز ہونا ضروری نہیں ہے ؛ بلکہ حرام طریقے پر بھی تعلق قائم کرلیا گیا تو اس سے حرمت ثابت ہوجائے گی ، جیسے کہ مشرکہ یا مشترکہ باندی سے جنسی تعلق قائم کرنا حرام ہے ، صیام ، احرام اور حیض و نفاس کی حالت میں بھی جماع حرام ہے ؛ لیکن ان صورتوں میں جماع کرلینے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ، معلوم ہوا کہ حرمت کی بنیادی علت جنسی تعلق ہے ، خواہ جائز ہو یا ناجائز اور زنا میں ناجائز طریقہ پر تعلق قائم کرنا پایا گیا ؛ لہٰذا اس کی وجہ سے حرمت ثابت ہوجائے گی ۔ (احکام القرآن للجصاص 53/3)
7- جنسی تعلق کی وجہ سے بچے کے واسطے سے مرد و عورت ایک دوسرے کاجز اور جسم کا حصہ بن جاتے ہیں ؛ کیونکہ وہ دونوں کے نطفے سے پیدا ہوتا ہے ، اس طرح سے وہ دونوں کے جسم کا حصہ ہے اور ضابطہ ہے کہ جزء کا جزء ، کل کا جزء ہوتا ہے ، جیسے کہ ہاتھ جسم کا ایک حصہ ہے اور اس کا ایک حصہ انگلی ہے تو انگلی جسم کا حصہ ہوئی اور ایسے ہی بچہ باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوا اور اس کے جسم کا حصہ اس کی ماں ہے تو ماں اس کےباپ کے جسم کا حصہ ہوگئی اور پھر اس کے واسطے سے اس کی ماں یعنی ساس باپ کے جسم کا حصہ ہوگئی اور اس لئے اس سے رشتہ قائم کرنا حرام ہوتا ہے اورنسب کے ذریعہ حرمت میں بھی یہی جزئیت کار فرما ہے اور اس اُصول کی بنیاد پر بچے کی پیدائش کے بعد خود بیوی سے انتفاع حرام ہونا چاہئے ؛ کیونکہ بچے کے واسطے سے وہ اس کے جسم کا حصہ بن چکی ہے اور اپنے جزء سے انتفاع حرام ہے لیکن نسل انسانی کی بقاء کے لئے بربناء ضرورت اس کی اجازت دی گئی ہے ۔
چونکہ جزئیت ایک پوشیدہ چیز ہے جس کے بارے میں پتہ لگانا دشوار ہے ، اس لئے حکم کا مدار ایک ظاہری چیز یعنی جماع پر رکھا گیا اور جماع بھی دو لوگوں کا ایک نجی معاملہ ہے ، اس لئے اس کا قائم مقام نکاح کو بنادیا گیا ؛ لیکن اگر کسی جگہ حقیقی وجہ پائی جائے یعنی نکاح کے بغیر زنا کے ذریعہ بچہ پیدا ہوجائے یا اس کا قریبی سبب جماع پایا جائے تو اس سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی ۔ (دیکھئے تبیین الحقائق108/2۔ فتح القدیر220/3۔المبسوط)
لیکن اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اگر جماع کی وجہ سے بچے کے واسطے سے مرد و عورت ایک دوسرے کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں تو زانی کے لئے زانیہ سے نکاح حرام ہونا چاہئے ؛ کیونکہ وہ اس کے جسم کا حصہ بن چکی ہے اور اس سے نکاح کرنے کی کوئی ضرورت اور مجبوری بھی نہیں ہے ۔
8- زنا کے معاملے میں شریعت میں بڑی سختی اور شدت برتی گئی ہے چنانچہ بعض صورتوں میں اس کے مرتکب کو پتھر مار مار کر ختم کردینے اور بعض میں سو کوڑے مارنے کا حکم ہے اور جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے اور اس کے وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کا نسب ثابت نہیں مانا گیا ہے ، اس قدر سخت احکام اسی لئے دیئے گئے ہیں تاکہ لوگ زنا سے دُور رہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ اس کے ذریعہ حرمت مصاہرت بھی ثابت کردی جائے ؛ تاکہ اس سختی کودیکھ کر اس کے قریب جانے سے لوگ بچپن ، غرضیکہ زنا سے روکنے اور رشتوں کے تقدس کو برقرار رکھنے میں حرمت مصاہرت ثابت کرنے سے مدد ملتی ہے ۔ (احکام القرآن 53/3)
حاصل کلام:
حرمت مصاہرت کا معاملہ بڑا ہی پر خطر ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ زنا کی وجہ سے ثبوت حرمت یاعدم حرمت کے معاملے میں کوئی ’’ صریح ‘‘ آیت یا واضح اور صحیح روایت موجود نہیں ہے اور صحابہ کرام و تابعین عظام کے اقوال دونوں طرح سے منقول ہیں ، اسی طرح سے قیاس کی بنیادوں اور فکر و نظر کی جہتوں میں بھی اختلاف ہے ؛ چنانچہ علامہ مناوی کہتے ہیں کہ :
وھی مسئلۃ عظیمۃ فی الخلاف لیس فھا خبر صحیح من جانبنا ولا من جانبھم ۔ (فیض القدیر،حدیث :9957 کی شرح)
یہ ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس معاملے میں نہ تو ہمارے پاس کوئی صحیح حدیث ہے اورنہ ان کے پاس ۔
لیکن حرمت کا پہلو اس اعتبار سے راجح معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی معاملے میں حلت و حرمت کی دلیلوں میں تعارض ہو تو احتیاط پر عمل کرتے ہوئے حرمت کی جانب کو ترجیح دی جاتی ہے ۔
غرضیکہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے ، اور کسی ایک رائے کو یقینی طورپر صحیح اوراس کے برخلاف رائے کو غلط نہیں کیا جاسکتا ہے ؛ چنانچہ فقہ و فتاویٰ کی مشہور کتاب المحیط البرہانی میں ہے کہ :
فاذا زنی رجل بأم امراتہ ولم یدخل بھا فجلدہ القاضی ورأی أن لا یحرمھا علیہ فأقرھا معہ وقضی بذالک نفذ قضاءہ لأنہ قضی فی فصل مجتہد فیہ فإن بین الصحابۃ إختلاف فی ھذہ الصورۃ ۔ (المحیط البرھانی 71/8،کتاب القضاء)
اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت سے پہلے اس کی ماں سے زنا کرے اور قاضی نے ثبوت جرم کے بعد اسے کوڑے لگا دیا ؛ لیکن اس کی بیوی کو اس کے لئے حرام قرار نہیں دیا اور اسے اس کے ساتھ رہنے دینے کا فیصلہ کیا تو اس کا فیصلہ نافذ ہوگا ، اس لئے کہ اس نے ایک اجتہادی مسئلے میں فیصلہ کیا ہے کیونکہ صحابہ کرام کے درمیان اس صورت میں اختلاف ہے ۔
اس لئے شدید مجبوری اور مخصوص حالات میں صاحب بصیرت اور دیدہ ور مفتی کے لئے امام شافعی وغیرہ کی رائے پر فتویٰ دینے کی اجازت ہوگی ۔
مقدمات زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت:
حنفیہ کے نزدیک شہوت کی وجہ سے بوسہ لینے ، ہاتھ لگانے یا شرمگاہ کو دیکھنے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ، امام احمد بن حنبلؒ سے بھی ایک رائے اس کے مطابق منقول ہے اور ان کی دوسری رائے یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے اور حنابلہ کے نزدیک یہی راجح ہے اور امام مالک و شافعی کا بھی یہی مسلک ہے ۔
قائلین حرمت کے دلائل یہ ہیں:
1- ابوہانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من نظر إلی فرج امرأۃ لم یحل لہ أمھا ولابنتھا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ 480/3)
جو کسی عورت کی شرمگاہ کو دیکھ لے تو اس کے لئے اس کی بیٹی اور ماں حلال نہیں ہے ۔
یہ حدیث گذر چکی ہے اور واضح کیا جاچکا ہے کہ اسنادی حیثیت سے بہت کمزور ہے ، نیز اپنے موضوع پر صریح بھی نہیں ہے ؛کیوںکہ امکان ہے کہ نظر سے مراد جماع اور عورت سے مراد اس کی بیوی ہو ؛ کیونکہ عام طورسے جماع کے لئے کنائی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ۔
2- ابن جریج نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا :
جو کسی عورت سے نکاح کرے اور اسے دبالے اور اس کے علاوہ کچھ نہ کرے تو وہ اس کی بیٹی سے نکاح نہیں کرسکتا ہے ۔
الذی یتزوج المرءۃ فیغمزھا ولا یزید علی ذالک لا یتزوج ابنتھا ۔( المدونۃ : 201/2 ، اعلاء السنن : 33/11)
ابن جریج تبع تابعی ہیں اور تابعی و صحابی کے واسطے کے بغیر حدیث نقل کررہے ہیں ، اس لئے حدیث منقطع اور مرسل ہے اور ناقابل استدلال ہے ، نیز نکاحی عورت سے متعلق ہے اس لئے مقدمات زنا کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
3- حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ :
اذا قبّل لھا فلا تحل لہ الابنۃ أبداً ۔ (المدونۃ : 201/2 ، اعلاء السنن : 33/11)
جب عورت کو بوسہ دے دے تو اس کی بیٹی اس کے لئے حلال نہیں ہے ۔
4- اس طرح کے فتوے بعض دوسرے صحابہ ؓسے بھی منقول ہیں جس میں دیکھنے یا ہاتھ لگانے سے حرمت مذکور ہے لیکن ان کا تعلق باندی سے ہے اور جنھیں ماقبل میں ذکر کیا جاچکا ہے ۔
5- مشہور تابعی حضرت مسروق ؒ، حسن بصریؒ ، قاسم بن محمد ؒ ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے مشہور شاگرد ، حضرت مجاہدؒ ، حضرت انسؓ کے جلیل القدر شاگرد حضرت قتادہ و حاتم اور حضرت ابراہیم نخعی وغیرہ مقدمات زنا کی وجہ سے حرمت مصاہرت کے قائل ہیں ، (دیکھئے : المحلی : 148/9 ، اعلاء السنن :33/1 ، احکام القرآن : 66/3۔) حضرت ابراہیم نخعیؒ سے منقول الفاظ یہ ہیں :
کانوا یقولون إذا اطلع الرجل علی مالا تحل لہ أو لمسھا لشھوۃ فقد حرّمتا علیہ جمیعا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ : 481/3)
نیز وہ کہتے ہیں :
إذا غمز الرجل الجاریۃ بشھوۃٍ لم یتزوج أمھا ولا ابنتھا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ : 481/3)
6- بعض حالات میں محض نکاح کی وجہ سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ؛ کیونکہ وہ جماع کا سبب ہے ، اسی طرح سے مقدمات زنا سے حرمت ثابت ہوجائے گی ؛ کیونکہ وہ زنا کا سبب اور ذریعہ ہے اور جو حکم اصل چیز کا ہوتا ہے ، وہی حکم اس تک پہنچانے والے ذریعہ کا بھی ہوتا ہے ؛ چنانچہ مباح کا ذریعہ مباح اور حرام کا ذریعہ حرام ہوتا ہے ۔
شافعیہ وغیرہ کی دلیل اس مسئلہ میں بھی وہی ہے جو زنا سے متعلق ہے ؛ کیونکہ ان کے یہاں جب زنا سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے تو مقدمات زنا سے بدرجہ اولیٰ ثابت نہیں ہوگی ؛ البتہ حنابلہ نے دونوں میں فرق کیا ہے کہ ان کے یہاں زنا سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے مگر مقدمات زنا سے نہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ثبوت حرمت کے لئے آیت وروایت یا قیاس کی ضرورت ہے جو اس معاملے میں موجود نہیں ہے اور شہوت کے ساتھ بوس و کنار کرنے اور ہاتھ لگانے وغیرہ کو جماع پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ؛ کیونکہ جماع سے غسل ، عدت کا وجوب اور احرام و صیام کا فساد لازم آتا ہے لیکن دیکھنے اور چھونے سے یہ احکام ثابت نہیں ہوتے ہیں ۔
نیز اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے کہ :
وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ ۔ (النساء : 24 )
اس کے علاوہ عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ وغیرہ لگانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ؛ کیونکہ اس سلسلے میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ، جس کے ذریعہ مذکورہ آیت میں تخصیص کردی جائے ۔
نکاح کے بعد مقدمات جماع کے پائے جانے کی وجہ سے سوتیلی بیٹی حرام ہوجاتی ہے ، اسی طرح سے باندی کے ساتھ مقدمات جماع کے پائے جانے کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ، صحابہ کرام ؓکی اکثریت اور زیادہ تر فقہاء اسی کے قائل ہیں ، نکاح یا ملکیت کے شبہ کی وجہ سے مقدمات جماع کے پائے جانے کی وجہ سے بیشتر فقہاء حرمت کے قائل ہیں جس کی تفصیل گذرچکی ہے ، قیاس کا تقاضا ہے کہ ان صورتوں میں مقدمات جماع کا جو حکم ہے وہی حکم مقدمات زنا کا بھی ہونا چاہئے ؛ تاکہ رشتوں کی عظمت و تقدس برقرار رہے اور بے حیائی وبدکاری کو پھیلنے سے روکا جائے ، اللہ کا ارشاد ہے :
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ وَسَآءَ سَبِیْلًا ۔ (الاسراء : 32 )
اور زنا کے پاس نہ جاؤ یقیناً وہ بے حیائی اور بدکاری ہے ۔
یعنی زنا کے ساتھ زنا تک پہنچانے والے راستوں سے بھی بچو ؛ کیونکہ یہ تمہیں زنا سے قریب کردیں گے ، غرضیکہ اس آیت کے ذریعہ زنا کے ساتھ مقدمات زنا سے بھی بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس بنیاد پر احادیث میں بدنظری اور ہاتھ لگانے کو زنا کہا گیا ہے کہ یہ چیزیں زنا تک پہنچانے والی ہیں ۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس مسئلہ میں بھی حنفیہ کی رائے مضبوط بنیادوں پر قائم ہے البتہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس میں بھی صحابہ کرام ؓکے درمیان اختلاف رہا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اس بات کے قائل تھے کہ نکاح کے بعد مقدمات جماع کی وجہ سے سوتیلی بیٹی حرام نہیں ہوگی ، (المغنی 569/6) اور حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ کسی عورت سے حرمت مصاہرت اس وقت ثابت ہوگی جب کہ اسے زمین سے لگادے یعنی جماع کرلے ۔ (صحیح بخاری 5105)
غرضیکہ یہ مسئلہ بھی اجتہادی ہے اور احتیاط پر مبنی ہے چنانچہ فتح القدیر میں ہے :
حرمۃ الدواعی فی ھذا الباب مجتہد فیہ ولم یقل بھا الشافعی واکثر الفقہاء ۔ (فتح القدیر 45/10کتاب الکراہیہ ۔فصل فی الاستبراء)
مقدمات جماع کی وجہ سے حرمت کا حکم اجتہادی ہے اور امام شافعیؒ اور اکثر فقہاء اس کے قائل نہیں ہیں ۔
اور علامہ سرخسیؒ کہتے ہیں کہ :
کثیر من الفقہاء لا یرون اللمس والتقبل موجباً للحرمۃ ولیس فی اثبات الحرمۃ نص ظاھر بل نوع احتیاط اخذنا بہ من حیث اقامۃ السبب الداعی الی الوطی مقام الوطی ۔(المبسوط 117/9.کتاب الحدود،باب الاقرار بالزنا)
بہت سے فقہاء ہاتھ لگانے اور بوسہ لینے کو حرمت کا سبب نہیں سمجھتے ہیں ۔اور ثبوت حرمت کے سلسلے میں کوئی واضح آیت و روایت نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا احتیاط ہے جسے ہم نے اپنایا ہے یعنی جماع کی طرف بلانے والے سبب کو جماع کے قائم مقام قرار دیا ہے ۔
(1) اتفق المسلمون علی تحریم الاثنین بنفس العقد وہو تحریم زوجات الأباء والابناء .(بدایۃ المجتہد : 32/2)
(2) فان جمہور السلف ذہبوا الی ان الام تحرم بالعقد علی الابنة والأم لا تحرم الابنة الا بالدخول بالأم وبہذا قال جمیع ائمۃ الفتویٰ بالامصار(تفسير قرطبي174/6)
(3) روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’ وھب سالم بن عبد اللہ لابنہ جاریۃ فقال لا تقربھا فانی قد اردتھا فلم انشط الیھا ‘‘ المؤطا : /287، ان ابا نھشل بن الأسود قال للقاسم بن محمد انی رأیت جاریۃ لی منکشفا عنھا وھی فی القمر فجلست منھا مجلس الرجل من امراتہ فقالت انی حائض فقمت فلم اقربھا بعد أفاھبھا لابنی یطوءھا ؟ فنھاہ القاسم عن ذالک ، المؤطا /287۔
(4) کتب مسروق الی اھلہ انظروا جاریتی فلانہ فبیعوھا فانی لم اصب منھا الا ماحرمھا علی ولدی من اللمس والنظر، (احکام القرآن للجصاص : 62/3)
(5) الوطء بالشبھۃ وھو الوطء فی نکاح فاسد أو شراء فاسد ووطء امرأۃ ظنھا امرأتہ أو امتہ أو وطء الأمۃ المشترکۃ بینہ وبین غیرہ وأشباہ ھذا ، یتعلق بہ التحریم کتعلقہ بالوطء المباح اجماعاً ، قال ابن المنذر أجمع کل من نحفظ منہ من علماء الأمصار علی أن الرجل إذا وطء إمرأۃ بنکاح فاسد أو بشراء فاسد أنھا تحرم علی ابیہ وابنہ ۔ (المغنی 577/6)
(6)و إن باشر إمرأۃ دون الفرج بشھوۃ فی ملک أو شبھۃ بأن قبلھا أو لمس شیئا من بدنھا فھل یتعلق بذالک تحریم المصاھرۃ وتحرم علیہ الربیبۃ علی التابید ؟ فیہ قولان : أحدھما یتعلق بہ التحریم وبہ قال ابوحنیفۃ ومالک ، وقالا : انہ روی عن عمر بن الخطاب ؓ ولیس لہ مخالف من الصحابۃ ولأنہ تلذذ بمباشرۃ فتعلق بہ تحریم المصاھرۃ و الربيبة کالوطی ، والثانی ، لا یتعلق بہ تحریم المصاھرۃ ولا الربیبۃ ، وبہ قال احمد بن حنبل لقولہ تعالٰی : وربائبکم التی فی حجورکم من نساءکم التی دخلتم بھن ، وھذا لیس بدخول ، ولأنہ لمس لا یجب الغسل فلم یتعلق بہ تحریم ۔(المجموع230/16)