بسم اللہ الرحمان الرحیم
دور حاضر میں رؤیت ہلال پر ایک جائزہ
صہیب منظور قاسمی بھیروی
متعلم ۔ شعبہ افتاء جامعہ عربیہ انوارالعلوم فتح پور نرجا تال مئو
اللہ رب العزت نے اس دار فانی میں کسی چیز کو بیکار نہیں پیدا کیا،ارشاد ربانی ہے :
” وما خلقنا السماء والارض وما بينهما باطلا ” آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں جبکہ روز بروز نت نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں، جن کی وجہ سے اس آیت کا مفہوم دو دو چار کی طرح بالکل واضح ہے، اس کے باوجود اگر کوئی اس آیت کا منکر ہے تو اس کا انکار بے جا ہٹ دھرمی پر محمول ہے
چاند بھی ایک مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی ہے، جس کے مقاصد کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا :
قل هى مواقيت للناس والحج.
یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے مقررہ اوقات ہیں.
اس سے مراد لوگوں کے معاملات، طلاق، خلع، رجعت، عدت، ایلاء اور ظہار وغیرہ، نیز عبادات میں حج، زکوٰۃ، عیدین اور روزہ کے اوقات اس پر موقوف ہیں، تاکہ ان کی ادائیگی میں لوگوں کے لئے آسانی ہو، کیونکہ "إن الدين يسر” ( بخاری 1/26/حدیث 39 ) اسلام نے عبادات اور احکام میں بھی جن کا تعلق عوام و خواص ہر دو طبقے سے ہے، انسان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں بنایا جس پر عمل دشوار ہو اور جس کا حصول ہر شخص کے لئے مشکل ہو، ما يريد الله ليجعل عليكم من حرج (المائدة آيت نمبر 6) وما جعل عليكم في الدين من حرج (الحج آيت نمبر 78)جس کو بڑے فلاسفہ، حکماء، دانشوران ہی سمجھ سکیں اور عام لوگوں کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہو یا ممکن ہی نا ہو، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں كه اسلام میں ایک گونہ وحدت، یکسانیت اور اجتماعیت بھی مطلوب ہے اور وہ چاہتا ہے کہ حتی الوسع اسلامی عبادات، مسلمانوں کی وحدت اور اجتماعیت کا مظہر ہوں ۔
ایک طرف تو اسلام کا مزاج یہ ہے اور دوسری طرف آئے دن دنیا کی بڑھتی ترقی، جدید ترین آلات اور اس کی ایجادات و مخترعات سے انکشاف ہلال کے اعتبار اور عدم اعتبار پر ایک نیا مسئلہ وجود میں آتا ہے، بریں بنا امت اختلاف و انتشار کا شکار ہوتی ہے، اور اختلاف مطالع اور ان کے لئے بلاد قریبہ اور بعیدہ کا معیار کیا ہوگا؟ اس سے امت کی ایک بڑی تعداد ناواقف ہے، جو باعث خلفشار ہے، اور یہ اسلام کے مزاج کے خلاف ہے، پس اسلام کے اس بنیادی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے اب ایک نظر رؤیت ہلال کے ثبوت کے بابت فقہ کے بنیادی اصول پہ ڈال لیجئے .
رؤیت ہلال کے اصول:
اول یہ کہ اگر مطلع (چاند نکلنے کی جگہ) صاف ہو تو رمضان اور عیدین کے لئے فقہاء حنفیہ خبر مستفیض کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ خبر مستفیض کہتے ہیں کہ کسی بات کی خبر لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دے کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا ممکن نہ ہو – بعض فقہاء اس تعداد کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے ، کسی نے پچاس کسی نے سو، اور کسی نے پانچ سو تک شمار کیے ہیں، لیکن معتدل بات یہ ہے کہ جس جماعت کو دیکھ کر احساس ہو کہ یہ جماعت کذب پر جمع نہیں ہو سکتی تو اس جماعت کی خبر "خبر مستفیض” ہے ۔
دوم :- یہ کی اگر مطلع ابرآلود ہو تو رمضان کے لیے ایک آدمی کی خبر کافی ہے، جس نے بچشم خود چاند دیکھا ہو، اور اس کے لیے دیندار ہونا ضروری ہے، البتہ اگر کسی فاسق کی خبر کے بارے میں قاضی کاغالب گمان ہو جائے كه وہ اس خبر میں سچا ہے تو اس کی خبر معتبر ہوگی، "فان تحرى القاضى الصدق في شهادته تقبل والا فلا”( رد المحتار 4/516) ” واذا غلب على الظن صدق الفاسق قبلت شهادته وحكم بها” ( فتاوی ہندیہ 1/101 )
سوم :- یہ کی مطلع ابرآلود ہونے کی صورت میں عیدین کے لیے دو آدمیوں کی گواہی شرط ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ مطلع ابر آلود نہ ہونے کی صورت میں رمضان اور غیر رمضان کے لیے خبر مستفیض شرط ہے، اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو رمضان کے لیے ایک آدمی کی خبر ہی کافی ہے جبکہ عیدین کے لیے دو آدمیوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عیدین سے لوگوں کے منافع وابستہ ہیں جس کی حرص میں کوئی بھی جھوٹی خبر پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
خبر اور شہادت کے درمیان فرق:
کوئی ثقہ آدمی کسی معاملے میں خبر دے، یا ٹیلی فون پر بتلائے، یا خط لکھے جبکہ اس کی آواز پہچان لی جائے اور تحریر سے مخبر کی شخصیت کا یقین کامل ہو جائے، مزید برآں یہ کی مخبر اپنی خبر کو کسی پر لازم نہیں کر سکتا؛ برخلاف شہادت کے کہ شاہد کی گواہی ٹیلی فون اور اس طرح کے جتنے وسائل اور جدید آلات ہیں ان سے دی گئی گواہی معتبر نہیں ہوگی، حتی کہ اس میں خط و کتابت کا بھی اعتبار نہیں ہوگا اگرچہ ذات شاہد میں کوئی شبہ نہ ہو، بلکہ شاہد کا رویت ہلال کمیٹی میں حاضر ہونا لازم ہے، یا کمیٹی کے کسی فقیہ ممبر کا شاہد کے پاس پہنچ کر متعلقہ خبر سے واقف ہونا لازم ہے جس کو رویت ہلال کے تمام فقہی جزئیات پر دسترس ہو اور شاہد مع شرائط اپنی خبر کو لازم کرنے والا ہوگا.
ٹیلی فون اور دیگر جدید آلات کے اجمالا بیان سے یہ معلوم ہو گیا کہ خبر اور شہادت میں ان کی کیا حیثیت ہے ؟ کہ رمضان کی رویت کی تصدیق کے لیے بذریعہ آلات خبر معتبر ہے جبکہ مخبر کی آواز یا تحریر پہچان لی جائے، الغرض: مخبر کی آواز یا خط کی تحریر کا متعارف ہونا اعتبار خبر کے لیے ناگزیر ہے، لہذا وہ تمام میسجز جو بذریعہ واٹساپ،ٹیوٹر، فیس بک ،ٹیلی گرام جیسے تمام ایپس جن کی آئڈیز ہیک ہوتی ہیں شائع ہوتے ہیں، اعتماد کے لائق نہیں ہیں، کیونکہ یہ بات شاہد ہے کی ان ایپس کی آئیڈیز کو کسی نے ہیک کیا اور لاکھوں روپے کا غبن ہوا، جب بذریعہ کالنگ تفتیش ہوئی تو اس کے اصل متعلق کو کچھ پتہ ہی نہیں، تو ان ہیکروں كى نظر میں کسی خبر کو غلط شائع کرنا کوئی مشکل نہیں ہے ، وہ بھی ایسے دور میں جب کہ اسلام اور مسلمانوں سے عداوت بام عروج پہ ہو.
اختلاف مطالع: رویت ہلال کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ مختلف بلاد کے اعتبار سے مطالع کی کیا حیثیت ہوگی؟ آیا تمام بلاد (شہروں) کے مطالع ایک ہوں گے یا الگ الگ؟
یہ بات تو بالکل عیاں ہے کہ سورج اور چاند کا وجود ہمہ وقت ہوتا ہے لیکن کہیں غروب تو کہیں طلوع کہیں زوال پذیر ہوتا ہے تو کہیں وجود پذیر، کہیں 29 کا چاند نمودار ہوا تو کہیں اس وقت ظہر کا وقت ہے، تو کیا جہاں ظہر کا وقت ہے وہاں بھی اس چاند کا اعتبار ہوگا یا نہیں. اس سلسلے میں فقہاء، مجتہدین، صحابہ و تابعین کے مابین تین مسلک ہو گئے
(۱) اختلاف مطالعہ کا ہر جگہ ہر حال میں اعتبار کیا جائےگا .
(۲)کسی جگہ کسی حال میں اعتبار نہیں کیا جائے گا.
(۳) بلاد بعیدہ میں اعتبار کیا جائے گا بلاد قریبہ میں نہیں.
جو حضرات مطلقا اختلاف مطالع کے اعتبار کے قائل ہیں، ان کے بقول: مختلف مقامات میں مختلف اوقات صلاۃ ہیں، کسی جگہ کا وقت کسی جگہ کے لیے لازم نہیں ہے، اسی طرح چاند کا مطلع بھی اپنے اپنے شہر کے اعتبار سے ہوگا، کہیں کا مطلع کہیں کے لیے لازم نہیں ہوگا.
اور جو مطلق اختلاف مطالع کے اعتبار کے قائل نہیں ہیں، ان کے پیش نظر وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو” ظاہر ہے کہ سارے لوگ چاند دیکھ نہیں سکتے لہذا جو شخص بچشم خود چاند دیکھ کر گواہی دے تو سب پر اور سب جگہ والوں پر یہ حکم لازم ہوگا مشرق و مغرب شمال و جنوب اور قرب و بعد سب یکساں ہوں گے.
بعض فقہا بلاد بعیدہ اور قریبہ میں فرق کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: بلاد بعیدہ میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے، اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا، اور قریبہ میں مسافت کم ہوتی ہے اس لیے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اور یہی آخری قول قیاس کے زیادہ قریب بھی ہے، اس لیے کہ اگر کسی جگہ 28 رمضان ہو اور بلاد بعیدہ سے 29کے چاند کی گواہی موصول ہو تو ظاہر ہے اس کے تابع ہو کر 28کے بعد عید نہیں منائی جا سکتی، اسی طرح اگر کسی جگہ 30 روزہ رکھنے کے بعد بلاد بعیدہ سے 29کے چاند کی کوئی خبر نہ ہو تو 30 روزہ رکھنے کے بعد انہیں مزید روزہ رکھنے کا جواز نہیں ہوگا، ورنہ تو نص قطعی کے خلاف ہونا لازم ائے گا.
بلاد بعیدہ اور قریبہ کی حد: بلاد قریبہ کی حد یہ ہے کہ اس جگہ کی معتبر خبر کو مان لینے سے اپنے یہاں کا مہینہ ٢٩ دن سے کم یا 30 دن سے زیادہ لازم نہ آتا ہو برخلاف بعیدہ کے اس کی خبر تسلیم کر لینے سے اپنے یہاں کا مہینہ ٢٩ دن سے کم یا 30 دن سے زیادہ ہونا لازم آئے، لہذا ایسی جگہوں کی خبریں تسلیم نہیں کی جائیں گی چاہے جتنے وثوق کے ساتھ موصول ہوں.
رویت ہلال میں جہاز اور خورد بین جیسے آلات کا حکم:
فقہاء کے ذکر کردہ اصولوں سے معلوم ہوا کہ مطلع ابر آلود نہ ہو تو خبر مستفیض ضروری ہے، جہاز اور خوردبین سے چاند دیکھے جانے کا اعتبار نہیں ہوگا، مطلع اگر ابرآلود ہو تو ان آلات سے دیکھا جا سکتا ہے مگر اتنی بلندی پر بھی نہ جائیں کی مطلع بدل جائے، ہاں! اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان جدید آلات کے ذریعہ رویت کی حیثیت محض کشف کی ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو چیز وجود میں نہ ہو تو خواہ مخواہ نظر آنے لگے، بلکہ وہ ایک موجود شیئ کو جسے ہم دوری، غبار یا بصارت کی کمی کی وجہ سے دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں، ہمارے لیے قابل دید بنا دیتی ہیں اس کی نظیر فقہاء متقدمین کے یہاں ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص بلند مقامات سے چاند دیکھے جبکہ نیچے سے چاند نظر نہ آیا ہو تو اس کی اطلاع معتبر ہوگی غالباً متاخرین نے جہاز اور خوردبین کی رویت کو اسی پر قیاس کیا ہے.
مسئلہ چاند کے وجود کا نہیں بلکہ رویت و شہود کا ہے: اصل مسئلہ یہ ہے کہ شریعت نے جن معاملات اور عبادات کو چاند پر موقوف کیا ہے، آیا یہ کہ اس چاند کا فوق الافق ہونا کافی ہے یا رویت ضروری ہے، یہ تو ہر پڑھا لکھا انسان جانتا ہے کہ چاند تو فوق الافق ہمیشہ ہوتا ہے، اور اپنے محور میں گردش کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں کسی جگہ غروب ہوتا ہے تو عین اسی وقت کسی جگہ طلوع ہوتا ہے، اب اگر محض ان آلات پر تکیہ کر لیا جائے اور اسی کے مطابق حکم عائد ہو تو 30/29 تاریخ میں کوئی فرق ہی نہیں ہوگا، لہذا اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو دیکھا جائے گا کہ ان کے قول سے کیا ثابت ہے؟ چاند کے وجود کا اعتبار ہوگا یا چاند کی رویت کا؟ لہذا حدیث کی سب سے مستند کتاب بخاری شریف میں ہے "لا تصوموا حتى تروه ولا تفطروا حتى تروه فإن غم عليكم فاقدروا له ” روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور افطار بھی چاند دیکھنے کے بعد کرو اگر بدلی ہو جائے تو پھر اندازہ کرو مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ رویت ضروری ہے اور شریعت کے احکام میں چاند کا وجود بے معنی ہے گویا کہ یہ حدیث قران کی آیت "قل هي مواقيت للناس والحج” کی تفسیر ہے کہ : چاند لوگوں کے لیے اور حج کے لیے اوقات ہیں جب رویت حاصل ہو جائے ۔ واللہ اعلم بالصواب