بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(10) دوا علاج سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

10-زخم‌ داغنا:

قدیم زمانے سے علاج کا ایک طریقہ داغنا بھی ہے جو عصر حاضر میں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔ چنانچہ آج بھی بعض اوقات سرجری کے بعد جسم کی شریانوں کو بجلی کے آلے سے جلا کر خون بہنے سے روکا جاتا ہے جسے طبی اصطلاح میں cauterization کہا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں مذکور احادیث میں بظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے :
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
” الشِّفَاءُ فِي ثَلَاثَةٍ : شَرْبَةِ عَسَلٍ، وَشَرْطَةِ مِحْجَمٍ ، وَكَيَّةِ نَارٍ، وَأَنْهَى أُمَّتِي عَنِ الْكَيِّ ".
شفاء تین چیزوں میں ہے : شہد پینے ،پچھنا لگوانے اور آگ سے داغنے میں ،اور میں اپنی امت کو داغنے کے ذریعے علاج کرنے سے منع کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاري: 5680)
اس سلسلے کی بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں:
وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَكْتَوِيَ ".
میں آگ سے داغنے کو پسند نہیں کرتا ۔(صحيح بخاري:5683)
علامہ سندھی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ آگ سے داغنے کے ذریعہ علاج بہت تکلیف دہ ہے اس لئے ضرورت کے وقت ہی اس کو رو بعمل لانا مناسب ہے اور اس سے متعلق ممانعت تنزیہی ہے ۔(شرح سندي على ابن ماجه.رقم الحدیث:3491)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ میرے سامنے تمام انبیاء کرام کی امتیوں کو لایا گیا ۔۔۔۔میرے سامنے سے ایک بہت بڑی تعداد گزری میں نے کہا : جبرئیل! کیا یہ میری امت ہے ؟ عرض کیا: نہیں ۔لیکن افق پر نظر ڈالئے میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جس نے افق کو ڈھانک لیا تھا ۔انھوں نے عرض کیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے آگے ستر ہزار لوگ ہیں جن سے کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا ۔میں نے پوچھا کیوں؟ انہوں نے کہا:
یہ لوگ داغنے کے ذریعے علاج نہیں کرتے اور نہ جھاڑ پھونک کرتے اور نہ بد‌فالی لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔(صحیح بخاري: 6541)
اس کے برخلاف صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب ،حضرت سعد بن معاذ اور اسعد بن زرارہ وغیرہ کے زخم کو آگ سے داغنے کا حکم دیا یا دست مبارک سے خود اس عمل کو انجام دیا.( دیکھئے : صحیح مسلم:2207. ابوداؤد : 3866.ترمذی: 2050)
دونوں طرح کی احادیث میں موافقت پیدا کرنے کے لئے کہا جائے گا کہ چونکہ اس طریقہ علاج میں شدید تکلیف ہوتی ہے اور جلانے کی وجہ سے جسم پر داغ پڑ جاتا ہے اس لئے اگر علاج کا دوسرا طریقہ موجود ہو تو اسے اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ایسی حالت میں اسے اپنانا غیر مناسب اور مکروہ تنزیہی ہے۔ اور اگر متبادل موجود نہ ہو اور ماہر حکیم کی نگاہ میں یہی طریقہ متعین ہو تو اسے اختیار کرنا بلا کراہت درست ہے ۔
نیز یہ کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ داغنے کو آخری اور یقینی ذریعے علاج سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر اس طریقے سے علاج نہ کیا جائے تو موت واقع ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ کہتے تھے کہ داغنا آخری علاج ہے. (آخر الدواء الکی)
ظاہر کوئی بھی دوا علاج خواہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا بلکہ وہ صرف ظاہری سبب کے درجے میں ہوتا ہے اور شفا یابی صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے اس سوچ کے تحت اسے اپنانے سے منع فرمایا اور کہا کہ یہ توکل کے خلاف ہے کیونکہ توکل کا تقاضا ہے کہ کسی بھی چیز کو بذات خود نفع یا ضرر رساں نہ سمجھا جائے، بلکہ سبب کے درجے میں اسے اختیار کیا جائے اور نفع و ضرر کی امید اللہ تعالیٰ سے رکھی جائے کہ وہی موثر حقیقی ہے ۔لھذا اللہ تعالیٰ سے شفایابی کی امید کرتے ہوئے بطور سبب آگ سے داغنے کو اختیار کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
( دیکھئے:مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الطب ، الفصل الاول ، جلد7، صفحہ2862، بیروت)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے