(5)

                      *زیورات کی زکاۃ*

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔

سونا اور چاندی دونوں سامان کے تبادلے اور ان کی قدر وقیمت اور ویلو کو جاننے کا ذریعہ ہیں دوسرے الفاظ میں ان کو کرنسی بنانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، اور کرنسی کے لئے ضروری ہے کہ وہ گردش میں رہے، کیونکہ مالیات کا سارا نظام اسی پر قائم ہے ، اس لئے ان دونوں میں بہر صورت زکاۃ ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی ہو ۔

1___اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :

والَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۔ یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُون۔(سورہ التوبہ:34,35)

اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کر کے رکھتے ہیں، اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔ جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹیں اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور کہا جائے گا کہ) یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، اب چکھو اس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے۔

2___اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ” مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ، وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا ؛ إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ، وَجَبِينُهُ، وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ ؛ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ ". (صحیح مسلم 987)

سونے اور چاندی کا مالک اگر اس کا حق ادا نہیں کرتا ہےتو قیامت کےدن اس سے آگ کے پترے بنائے جائیں گے اور ان کو جہنم کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا اور ان سے ان کی پیشانی، پہلو، اور پشت کو داغا جائے گا اور جب وہ ٹھنڈے ہوجائیں گے تو انھیں دوبارہ گرم کیا جائے گا ، اور ایسا اس کے ساتھ اس دن مسلسل کیا جاتا رہےگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے پھروہ جنت یا جہنم کی طرف اپنا راستہ دیکھ لیگا۔

مذکورہ آیت و روایت عام ہے اور ہر طرح کے سونے اور چاندی کو شامل ہے ، خواہ وہ زیورات کی شکل میں ہو یا درھم و دینار یا بسکٹ کی صورت میں، کسی بھی حالت میں اگر وہ نصاب کو پہونچ جائے اور اس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے تو وہ” کنز ” ہے اور اس کا مالک دردناک عذاب کا مستحق ہوگا، اور اس عمومی آیت و روایت کے حکم سے زیورات کو خارج کرنے کے لئے خصوصی آیت ، روایت یا اجماع کی ضرورت ہے جو موجود نہیں ہے ، اور محض چند عقلی احتمالات کی بنیاد پر زیورات کو اس عمومی حکم سے الگ کرلینا درست نہیں ہے۔

زیورات میں زکاۃ کے ثبوت کے لئے مذکورہ آیت و روایت کافی ہے اور کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔  مگر صورت حال یہ ہے کہ اس معاملے میں خصوصی حدیثیں بھی کثرت سے منقول ہیں جو صحیح بھی ہیں اور صریح بھی .

3___ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَى فِي يَدَيَّ فَتَخَاتٍ مِنْ وَرِقٍ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ ". فَقُلْتُ : صَنَعْتُهُنَّ أَتَزَيَّنُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” أَتُؤَدِّينَ زَكَاتَهُنَّ ؟ ". قُلْتُ : لَا، أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَ : ” هُوَ حَسْبُكِ مِنَ النَّارِ ".

( سنن ابوداؤد:1565،سنن دارقطنی 105/2سنن کبری239/4صحیح ابوداؤد للالبانی:1384)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور دیکھا کہ میرے دونوں ہاتھوں میں چاندی کی بڑی بڑی انگوٹھیاں ہیں فرمایا: عائشہ! یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : آپ کے لئے زیب و زینت کی خاطر پہنا ہے۔ فرمایا: کیا تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو ؟ عرض کیا : نہیں۔

اس حدیث کے متعلق امام حاکم کہتے ہیں یہ روایت امام بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق ہے اور علامہ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے، (المستدرک 389/1) اور مشہور محدث ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ،(عون المعبود 300/4) اور حافظ ابن حجر عسقلانی کی تحقیق یہ ہےکہ اس کی سند صحیح ہے ( التلخیص الحبیر 390/2)

اور علامہ البانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی محمد ابن عطاء سے مراد محمد بن عمر بن عطاء ہیں جو ثقہ ہیں اور صحیح بخاری و مسلم میں ان کے حوالے سے حدیثیں موجود ہیں اور محدث ابن جوزی نے انھیں کوئی دوسرا شخص سمجھ کر مجہول قرار دیا ہے اور اس کی بنیاد پر حدیث کو ضعیف کہا ہے اس لئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، اور یہ حدیث زیورات میں زکاۃ کے مسئلے میں بالکل واضح ہے ، اور ان لوگوں کی دلیل ہے جو زیورات میں زکاۃ واجب قرار دیتے ہیں (آداب الزفاف :264)

واضح رہے کہ حضرت عائشہ طاہرہ کا فتوا بھی یہی ہے، چنانچہ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر زیورات کی زکاۃ ادا کردی جائے تو انھیں پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(لاباس بلبس الحلی اذا اعطی زکاتہ ۔ السنن الکبریٰ للبیہقی 234/4, المحلی لابن حزم 185/4) البتہ ان کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ ان کی سرپرستی میں جو لڑکیاں رہتی تھیں وہ ان کے زیورات کی زکاۃ نہیں دیتی تھیں ( كَانَتْ تَلِي بَنَاتِ أَخِيهَا يَتَامَى فِي حَجْرِهَا لَهُنَّ الْحَلْيُ ؛ فَلَا تُخْرِجُ مِنْ حُلِيِّهِنَّ الزَّكَاةَ.  المؤطا :673) لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک مخصوص واقعہ ہے جس میں بہت سے احتمالات ہیں اور عمومی آیت و روایت اور خصوصی احادیث اور خود ان کے عمومی فتوے کی وجہ سے ان کے عمل کی کوئی توجیہ کی جائے گی اور یہ طریقہ بڑا غلط ہوگا کہ ان کے عمل کی بنیاد پر آیت و روایت اور ان کے فتوے میں تاویل کی راہ اختیار کی جائے ۔

4___حضرت عمرو بن شعیب کی سند سے منقول ہے :

أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا، وَفِي يَدِ ابْنَتِهَامَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا : ” أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا ؟ ". قَالَتْ : لَا. قَالَ : ” أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ ؟ ". قَالَ : فَخَلَعَتْهُمَا فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَتْ : هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ.(سنن ابوداؤد:1563)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خاتون حاضر ہوئیں اور ان کے ساتھ ان کی ایک لڑکی تھی جس کے ہاتھ سونے کے دو موٹے کنگن  تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو ؟ انھوں نے کہا: نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائیں ، یہ سن کر انھوں نے دونوں کنگن اتار کر آپ کے حوالے کردیا اور کہا : یہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول کے لئے ہیں ۔

ابن قطان کہتے ہیں کہ حدیث کی سند صحیح ہے اور امام منذری کہتے ہیں کہ حدیث کی سند میں کوئی کلام نہیں ہے کیونکہ امام ابو داؤد نے اسے ابوکامل جحدری اور حمید بن مسعدہ سے نقل کیا ہے اور دونوں ثقہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک سے امام مسلم نے روایت کی ہے اور ان دونوں کے استاذ خالد بن حارث امام و فقیہ ہیں جن سے امام بخاری و مسلم نے حدیث نقل کی ہے اور ان کے استاذ حسین بن ذکوان کے حوالے سے صحیح بخاری و مسلم میں روایت موجود ہے اور ان کے شیخ عمرو بن شعیب کے بارے میں سب کو معلوم ہے۔( عون المعبود 298/4)

اور علامہ البانی لکھتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے اور ابن ملقن نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ابن جوزی کا اسے ضعیف کہنا ناقابل توجہ اور لائق رد ہے ۔ ( آداب الزفاف :256)

امام ترمذی کو یہ روایت ابن لھیعہ اور مثنی بن صباح کے ذریعے پہونچی تھی اور وہ دونوں ضعیف ہیں اور حسین بن ذکوان کے واسطے سے ان کو روایت نہیں ملی اس لئے انھوں نے کہہ دیا کہ اس باب میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے (1)

5___اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :

كُنْتُ أَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَنْزٌ هُوَ ؟ فَقَالَ : ” مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ ".( سنن ابوداؤد :1564)

میں سونے کا پازیب پہنا کرتی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : کیا یہ بھی "کنز "ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ زکاۃ کے نصاب کو پہونچ جائے اور اس کی زکاۃ ادا کردی جائے تو وہ” کنز "نہیں ہے ۔

امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور امام ذھبی نے ان کی تائید کی ہے ( المستدرک 390/1). اور امام بیہقی کہتے ہیں کہ ثابت بن عجلان اس حدیث کو نقل کرنے میں متفرد ہیں لیکن صاحب تنقیح کا کہنا ہے کہ اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے، کیونکہ ثابت سے امام بخاری نے روایت لی ہے اور ابن معین اور نسائی نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور محدث عبد الحق کا یہ قول ناقابل توجہ ہے کہ ثابت کی روایت دلیل میں پیش کرنے کے لائق نہیں ہے ، کیونکہ اس طرح کی بات ان کے سوا کسی اور نے نہیں کہی ہےاور محدث ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ ثابت کے بارے میں عقیلی کا یہ کہنا کہ لا یتابع علی حدیثہ زبردستی کی بات ہے ( عون المعبود 299/4) اور علامہ البانی نے لکھا ہے کہ حدیث حسن ہے (صحیح سنن ابوداؤد 429/1) 

6___حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :

اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بطوق فيه سبعون مثقالا من ذهب فقلت يا رسول الله خذ منه الفريضة فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم مثقالا و ثلاثة ارباع مثقال ( رواه ابو الشيخ في جزءه . سلسلة الصحيحة :2978)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خدمت میں وہ گلے کی ہنسلی لیکر حاضر ہوئیں جس میں ستر مثقال سونا تھا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس میں سے زکاۃ لے

 لیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک مثقال اور مثقال کا تین چوتھائی بطور زکاۃ لے لیا ۔

علامہ البانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زیورات کی زکاۃ کا معاملہ معروف مشہور تھا اور اسی لئے فاطمہ بنت قیس گلے کی ہنسلی کی زکاۃ دینے کے لئے آپ کے پاس آئیں ۔

7___علقمہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ نے ان سے زیورات کی زکاۃ کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا : اگر دوسو درہم کے بقدر ہو تو اس میں زکاۃ ہے ( السنن الکبریٰ 234/4.مصنف عبدالرزاق 83/4.قال ابن حزم : وھو عنہ فی غایۃ الصحۃ۔ المحلی 184/4)

8___حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے خزانچی سے کہہ رکھا تھا کہ وہ ان کی بیٹیوں کے زیورات کی زکاۃ ہر سال نکال دیا کرے ( السنن الکبریٰ 234/4)

9___اور حضرت بن عمر و ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے کہ وہ زیورات کی زکاۃ نکالنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ 382/2.المحلی 185/4. التلخیص الحبیر 389/2)مگر ان دونوں حضرات سے اس کے برخلاف عمل بھی منقول ہے ۔ ( المؤطا :674. السنن الکبریٰ 234/4)

10___شعیب بن یسار نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ اپنے یہاں کی مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ زیورات کی زکاۃ ادا کریں ، مگر یہ روایت منقطع ہے کیونکہ شعیب بن یسار نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے ( السنن الکبریٰ 234/4) ۔

11___حضرت عطاء، زھری اور مکحول رحمہمُ اللہ کہتے ہیں کہ سنت یہی جاری ہے  کہ سونے اور چاندی کے زیورات میں زکاۃ نکالی جائے گی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 383/2) 

مذکورہ آیت و احادیث  اور صحابہ کرام کے فتوے اور عمل کی بنیاد پر حضرت سعید بن جبیر ، سعید بن مسیب ، ابراہیم نخعی ، ابن سیرین ، طاؤس ، مجاہد ، عطاء ،زھری ثوری و اوزاعی رحمہمُ اللہ کہتے ہیں کہ زیورات میں زکاۃ فرض ہے ۔ اور امام ابو حنیفہ ، ابویوسف و محمد رحمہمُ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔

اس کے برخلاف حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے نزدیک زیورات میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور امام شعبی ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہمُ اللہ کا یہی مسلک ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے اور یہی شافعیہ کے یہاں راجح ہے ۔ اور ان دونوں حضرات سے ایک قول اس کے برعکس بھی منقول ہے ۔( دیکھئے : مصنف عبدالرزاق 84/4. مصنف ابن ابی شیبہ 382/2.المحلی 185/4. الموسوعہ الفقہیہ 144/18)

ان حضرات کے دلائل یہ ہیں:

1___حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ليس في الحلي زكاة .

زیورات میں زکاۃ نہیں ہے۔

لیکن یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا فتوا ہے ، حدیث نہیں۔(2)

2___اصل یہ ہے کہ کسی کے ذمے کوئی چیز واجب نہیں ہے الا یہ کسی شرعی دلیل سے وجوب ثابت ہوجائے اور زیورات میں زکاۃ سے متعلق کوئی واضح آیت یا صحیح و صریح روایت یا قیاس صحیح موجود نہیں ہے۔

3___ زکاۃ ایسے مال میں واجب ہے جو نمو پذیر ہو  اور زیور کا شمار نمو پذیر مال میں نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ سونے اور چاندی کو زیور کی شکل میں ڈھال دینے کی وجہ سے اس میں نمو اور بڑھوتری کی صلاحیت نہیں رہی بلکہ اب وہ استعمالی چیزوں کے دائرے میں آگیا اور  استعمال میں آنے والے سامان میں زکاۃ نہیں ہے لہذا یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کھیتی باری کے کام آنے والے اونٹ اور گائے جس میں بہ اتفاق زکاۃ نہیں ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ زیورات میں زکاۃ کے قائل نہیں ہیں ان کے پاس بعض صحابہ کرام کی اجتہادی رائیں اور عمل کے سوا کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ علامہ خطابی کے  الفاظ میں :

کتاب وسنت کے ظاہر سے ان لوگوں کی تائید ہوتی ہے جو زیورات میں زکاۃ کے قائل ہیں اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس عقلی دلیل اور کچھ روایات ہیں اور احتیاط ادائیگی میں ہے (معالم السنن 17/2)

 اور امام فخرالدین رازی شافعی کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ زیورات میں زکاۃ فرض ہے۔ ( تفسیر رازی 46/16) اور علامہ صنعانی کہتے ہیں کہ دلیل کے اعتبار سے زیادہ ظاہر زیورات میں زکاۃ کا وجوب ہے کیونکہ اس متعلق احادیث قوی اور صحیح ہیں ۔( سبل السلام 51/4)

یہ اختلاف اس وقت ہے جب کہ عورت معمول کےمطابق زیورات رکھے اور اگر وہ معمول و رواج سے زیادہ ہوں اور مقصد زیورات کی شکل میں دولت کو محفوظ کرنا ہو یا اس کا استعمال ممنوع ہو جیسے کہ سونے چاندی کے برتن یا مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی یا کڑا تو تمام فقہاء کے نزدیک اس میں زکاۃ فرض ہے ( الموسوعہ الفقہیہ 113/18)

حواشی:

(1) چنانچہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

اخرجه ابوداؤد من حديث حسين المعلم وهو ثقة عن عمرو، و فيه رد على الترمذي حيث جزم بانه لا يعرف الا من حديث ابن لهيعة والمثنى بن الصباح عن عمرو، وقد تابعهم حجاج بن ارطاة أيضًا ( التلخيص الحبير385/2)

(2) حدیث کے ایک راوی عافیہ کو مجہول قرار دیاگیا ہے البتہ ابن ابی حاتم نے ابو زرعہ کے حوالے سے انھیں ثقہ کہا ہے ۔ نیز اس کے ایک راوی ابراہیم بن ایوب حورانی کو بھی ضعیف کہا گیا ہے ۔(ارواء الغلیل 295/3)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے