(8)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سونے چاندی کو ملا کر نصاب کی تکمیل ۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

 

سونا اور چاندی کی حیثیت رائج کرنسی کی ہے، ان کے ذریعے استعمالی چیزوں کا لین دین ہوتا ہے؛ نیز یہ دونوں ان کی قدر و قیمت اور ویلو کے جاننے کا ذریعہ بھی ہیں اور دیگر استعمالی اشیاء کی بہ نسبت ان کی قیمت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے؛ اس لیے لوگ اپنے سرمایہ کو اس کے ذریعے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے تھے؛ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ .

اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو، جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی ( اور کہا جائے گا کہ ) یہ وہ خزانہ ہے، جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، اب چکھو اس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے (سورۃ التوبہ : 34-35)

اور حدیث پاک میں ہے :

ما مِن صاحب ذَهب، ولا فِضَّة، لا يُؤَدِّي منها حقَّها إلا إذا كان يوم القيامة صُفِّحَتْ له صَفَائِحُ من نار، فَأُحْمِيَ عليها في نار جهنَّم، فيُكْوى بها جَنبُه، وجَبينُه، وظهرُه .

سونے چاندی کا مالک اگر اس کا حق ادا نہیں کرتا ہے، تو اس کا پترا بنا کر اسے جہنم میں تپایا جائے گا اور اس کے ذریعہ اس کے پہلو ، اس کی پیشانی اور اس کی پشت داغی جائےگی ۔(صحیح مسلم : 987)

اور ایک دوسری روایت میں ہے :

يَكونُ كَنْزُ أحَدِكُمْ يَومَ القِيامَةِ شُجاعًا أقْرَعَ، يَفِرُّ منه صاحِبُهُ، فَيَطْلُبُهُ ويقولُ: أنا كَنْزُكَ، واللَّهِ لَنْ يَزالَ يَطْلُبُهُ، حتَّى يَبْسُطَ يَدَهُ فيُلْقِمَها فاهُ .

قیامت کے دن تمہارا خزانہ گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا، جس کو دیکھ کر خزانے کا مالک بھاگنے لگے گا اور وہ اس کا پیچھا کرتا رہےگا اور کہےگا کہ میں تمہارا چھپایا ہوا خزانہ ہوں، اللہ کی قسم وہ مسلسل اس کے پیچھے لگا رہےگا یہاں تک کہ خزانے کا مالک اپنا ہاتھ پھیلادےگا جسے سانپ اپنے جبڑے میں دبا کر نگل جائے گا ۔ (صحیح بخاری:6957)

مذکورہ آیت و روایت کی بنیاد پر سونے چاندی میں زکوٰۃ فرض ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے ۔

 

چاندی کا نصاب :

 

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وليس فيما دون خمس اواق من الورق صدقة .

پانچ اوقیہ (دوسو درہم) سے کم میں صدقہ نہیں ہے ۔ (بخاری : 1459,مسلم 979)

یہ روایت اور اس طرح کی دوسری روایات کی وجہ سے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ چاندی کا نصاب دوسو درہم (612گرام) ہے ۔

ان نصاب الفضۃ مائتا درھم لا خلاف فی ذلک بین علماء الاسلام ۔ (المغنی 209/4. ط : دار عالم الکتب ،ریاض – 1997ء )

 

سونے کا نصاب :

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چاندی کے سکوں کا چلن زیادہ تھا، عام طور پر خرید و فروخت اور دوسرے معاملے اسی کے ذریعے طے کیے جاتے تھے؛ اس لیے اس کے نصاب اور اس میں مقدار زکوۃ کے سلسلے میں زیادہ واضح انداز میں نبوی ہدایات ملتے ہیں اور اسی لیے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اس کے برخلاف سونے کے نصاب کے بارے میں اس طرح کی صحیح احادیث نہیں ملتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کے سلسلے میں اختلاف پیدا ہوا. چنانچہ کچھ لوگ قائل ہیں کہ سونے کا بذات خود کوئی نصاب نہیں ہے، بلکہ چاندی کی قیمت کے لحاظ سے اس کا نصاب مقرر کیا جائے گا اور اس کی جو مقدار بھی دوسو درہم کے برابر ہو جائے اس میں زکوۃ واجب ہوگی۔ حضرت عطا، طاؤس، زہری، سلمان بن حرب اور ایوب سختیانی کی یہی رائے ہے ۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں متعین نصاب کا ثبوت نہیں ہے؛ لہذا اس کے نصاب کو چاندی پر قیاس کیا جائے گا

( المغنی 213/4، قال ابن عبد البر : لم یثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی زکاۃ الذھب شئی من جھۃ نقل الآحاد العدول الثقات . الاستذکار 34/9.و قال النووی: و لم یات فی الصحیح بیان نصاب الذھب و قد جاءت فیہ احادیث بتحدید نصابہ بعشرین مثقالا و ھی ضعاف المنھاج 53/7) .

اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں :

و الذھب محمول علی الفضۃ و کان فی ذلک الزمان صرف دینار بعشر دراھم فصار نصابہ عشرین مثقالا .

سونے کو چاندی پر قیاس کر لیا گیا ہے، اس لیے کہ اس زمانے میں ایک دینار دس درہم کے برابر ہوتا تھا لہذا سونے کا نصاب بیس دینار ہو گیا (حجۃ اللہ البالغہ 154/2،ط مکتبہ حجاز دیوبند ۔2010 ء)

اس کے بر خلاف جمہور کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سونے کا بذات خود ایک مقرر نصاب ہے اور اس سلسلے کی احادیث میں اگرچہ انفرادی حیثیت سے کچھ کمزوری ہے، لیکن مجموعی اعتبار سے ان میں قوت آجاتی ہے اور وہ استدلال کے لائق بن جاتی ہیں، چنانچہ حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاخذ من کل عشرین دینارا فصاعدا نصف دینار و من الاربعین دینارا دینارا .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیس دینار میں سے آدھا دینار اور چالیس دینار میں سے ایک دینار لیا کرتے تھے (سنن ابن ماجہ : 1791، سنن دار قطنی : 1896)

علامہ بوصیری نے اس کے ایک راوی ابراہیم بن اسماعیل کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا ہے (مصباح الزجاجۃ 316/1 ۔ط دائرۃ الجنان)

اور علامہ زیلعی کہتے ہیں کہ اس کے متعلق ابن معین کہتے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے، (لا شیئ )اور ابوحاتم کہتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھی جا سکتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ وہم کا شکار تھا (نصب الرایۃ : 369/2،ط مؤسسہ الریان بیروت 2003 ء)

اور عمر و بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لیس فی اقل من عشرین مثقالا من الذھب و لا فی اقل من مائتی درھم صدقۃ.

سونے کے بیس دینار سے کم میں اور دو سو درہم سے کم میں صدقہ نہیں ہے (سنن دار قطنی:1902)

مذکورہ حدیث کی سند کو حافظ ابن الملقن اور حافظ ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے (البدر المنیر 555/5، تلخیص الجیر336/2)

حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اذا كانت لك مائتا درهم، وحال عليها الحول، ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء یعنی فی الذھب حتى يكون لك عشرون دينارا، فاذا کان لک عشروں دینارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار.

جب تمہارے پاس دوسو درہم ہوں اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں پانچ درہم ہے اور سونے میں تمہارے ذمے کچھ بھی نہیں ہے یہاں تک کہ تمہارے پاس بیس دینار ہو جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار ہے (سنن ابو داؤد :1573)

اس حدیث کے راوی حارث اعور اور عاصم بن ضمرہ پر کلام کیا گیا ہے، لیکن عاصم کو ابن مدہنی، ابن معین اور نسائی وغیرہ نے قابل اعتماد قرار دیا ہے، اس بنیاد پر حدیث حسن ہے (نصب الرایۃ 328/2)

محمد بن عبدالرحٰمن تابعی کہتے ہیں کہ زکوۃ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر کے نوشتہ میں لکھا ہوا تھا :

ان الذھب لا یوخذ منہ شیئ حتی یبلغ عشرین دینارا فاذا بلغ عشرین دینارا ففیہ نصف دینار .

سونے سے کچھ نہیں لیا جائے گا؛ یہاں تک کہ اس کی مقدار بیس دینار ہو جائے اور جب بیس دینار ہو جائے تو اس میں آدھا دینار ہے (رواہ ابو عبید :1106 و صحح اسنادہ الارناؤط۔ فقہ الزکاۃ :258.ط وزراۃ الاقاف ،قطر 2020ء)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں :

و لانی عمر علی الصدقات فامرنی ان اٰخذ من کل عشرین دینارا نصف دینار.

حضرت عمر نے مجھے صدقہ وصولنے کے لیے بھیجا اور فرمایا کہ میں بیس دینار میں سے آدھا دینار وصول کروں (المحلی لابن الحزم 69/6)

اور زریق بن حیان کہتے ہیں :

ان عمر بن عبد العزیز کتب الیہ خذ ممن مر بک من تجار المسلمین من کل اربعین دینارا دینارا فما نقص فبحساب مانقص حتی یبلغ عشرین .

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان کے پاس خط لکھا کہ تمہارے پاس سے جو مسلمان تاجر گزرے، تو اس کے ہر چالیس دینار میں سے ایک دینار لے لینا اور اگر اس سے کم ہو تو اسی حساب سے کم کر لینا؛ یہاں تک کہ بیس دینار تک پہنچ جائے (رواہ ابن شیبہ فقہ السنۃ 411/1 ط، وزارۃالاوقاف ،قطر )

تابعین میں سے امام شعبی، ابن سیرین، ابراہیم نخعی، حسن بصری، حکم بن عتیبہ وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے، بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد سے اس میں کوئی قابل ذکر اختلاف نہیں ملتا ہے، گویا کہ اب اس سلسلے میں ایک طرح کا اتفاق پایا جاتا ہے؛ چناں چہ امام مالک لکھتے ہیں :

ان السنۃ التی لا اختلاف فیھا عندنا ان الزکاۃ تجب فی عشرین دیناراً کما تجب فی مائتی درھم.

ہمارے یہاں اس سنت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بیس دینار سونے میں زکوۃ واجب ہے جیسے کہ دو سو درہم میں واجب ہے (المؤطا 246/1، فقہ الزکاۃ 260/1)

اور امام شافعی کہتے ہیں :

لا اعلم اختلافا فی ان لیس فی الذھب صدقۃ حتی تبلغ عشرین فاذا بلغت عشرین مثقالا ففیھا الزکاۃ.

میرے علم میں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سونا جب تک مثقال کو نہ پہنچ جائے، اس میں زکوۃ نہیں ہے اور بیس مثقال تک پہنچ جائے تو اس میں زکوۃ ہے۔ (کتاب الام 34/2، فقہ الزکاۃ 260/1)

اور قاضی عیاض کہتے ہیں :

المعول فی نصاب الذھب علی الاجماع و قد حکی فیہ خلاف شاذ.

سونے کے نصاب کے معاملے میں اجماع پر اعتماد کیا گیا ہے اور بعض لوگوں نے شاذ اختلاف نقل کیا ہے (المرعاۃ علی المشکوۃ 43/3، فقہ الزکاۃ 260/1)

حقیقت یہ ہے کہ سونے میں زکوۃ کا وجوب قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت ہے؛ چناں چہ گزر چکا ہے کہ قران و حدیث میں سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھنے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور حدیث میں اس کی بھی وضاحت ہے کہ یہ وعید اسی وقت ہے، جب اس کی زکوۃ ادا نہ کی جائے؛ چناں چہ حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں:

کنت البس اوضاحا من ذھب فقلت یا رسول اللہ الکنز ھو ؟ فقال ما بلغ ان تودی زکاتہ فزکی فلیس بکنز.

میں سونے کا پازیب پہنتی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا یہ کنز ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر وہ زکوۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور زکوۃ ادا کر دی جائے، تو وہ کنز نہیں ہے(ابو داؤد: 1564)

اور حضرت عبداللہ بن عمر سے ” کنز "کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا :

ھو المال الذی لا تودی منہ الزکاۃ .

کنز وہ مال ہے جس کی زکوۃ ادا نہ کی جائے (المؤطاء : 695)

اور حضرت ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت ما علیک.

جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کردی تو تم نے اس کا حق ادا کردیا (جامع ترمذی : 618)

اور یہ بھی ثابت ہے کہ اس زمانے میں ایک دینار دس درہم کے برابر ہوا کرتا تھا (دیکھیے کتاب الاموال /419، فقہ الزکاۃ 258/1) لہذا دینار کا نصاب خود بخود معلوم ہو جاتا ہے، اس لیے وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس کے باوجود احادیث میں اس کا تذکرہ ہے، جن میں گرچہ انفرادی حیثیت سے کچھ کمزوری ہے، لیکن مجموعی اعتبار سے لائق استدلال ہے؛ نیز حضرت عمر اور حضرت علی اور بعض دوسرے صحابۂ کرام کے عمل اور فتوے سے بھی یہ نصاب ثابت ہے اور تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی کی قائل ہے، بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد اس پر اتفاق پیدا ہو گیا، اور اسی بنیاد پر متعدد ائمہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے،جیسے کہ امام ابو عبید، علامہ باجی، امام نووی، ابن منذر، ابن عبد البر اور ابن قدامہ وغیرہ (دیکھیے کتاب الاموال /409، المنتقی 95/2، المنہاج 53/7، الاجماع /53 الاستذکار 15/9، المغنی 215/4)

اور صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں کسی حدیث کو قبول عام حاصل ہو جائے، تو اس کی وجہ سے ضعیف حدیث بھی قوی حدیث کے درجے میں آ جاتی ہے دیکھیے (الاجوبۃ الفاضلہ /51) اس لیے صحیح یہ ہے کہ سونے کا نصاب مستقل حیثیت سے ثابت ہے اور وہ اس میں چاندی کے تابع نہیں ہے ۔

 

سونے اور چاندی کے نصاب کو باہم ملانا:

 

سونے اور چاندی میں سے اگر ہر ایک کا نصاب ناقص ہو یا ایک مکمل اور دوسرا نامکمل ہو تو کیا ان دونوں کو آپس میں ملا کر نصاب کو مکمل یا اس پر اضافہ کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، حضرت حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ اور بکیر بن عبداللہ الاشج دونوں کو ملا کر نصاب کو مکمل کرنے کے قائل ہیں (دیکھیے احکام القرآن للجصاص 139/3، المغنی 211/4) حنفیہ اور مالکیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ اور امام احمد بن حنبل، ثوری اور اوزاعی کا بھی یہی مسلک ہے۔ اس کے برخلاف شافعیہ کے نزدیک دونوں میں زکوۃ اسی وقت واجب ہوگی، جب ہر ایک کا مکمل نصاب ہو، امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے اور ابو عبید، ابن ابی لیلی اور ابوثور سے بھی ایک رائے اسی کے مطابق منقول ہے (دیکھئے:الموسوعۃ الفقہیہ 267/23 ،المدونہ 302/1,بدایۃ المجتھد19/2,الفروع لابن مفلح 136/4, الاقناع للحجاوی272/2,الاشراف لابن المنذر 43/3)

 

سبب اختلاف :

 

اس مسئلے میں اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ کیا ان دونوں میں زکوۃ بذات خود واجب ہے یا کسی ایسے سبب سے واجب ہے جو دونوں کو شامل ہے؟ یعنی اس وجہ سے زکوۃ واجب ہے کہ وہ دونوں استعمالی چیزوں کے تبادلے اور لین دین نیز ان کی قدر و قیمت اور ویلو کے جاننے کا ذریعہ ہیں، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں بذات خود زکوۃ ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ جنس ہیں؛ لہذا ایک کو دوسرے کے ساتھ ملایا نہیں جائے گا جیسے کہ زکوۃ کے وجوب میں بکری اور گائے کو ملایا نہیں جاتا ہے اور جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اصل اعتبار دونوں کے لین دین کا ذریعہ ہونے کا ہے اور اس حیثیت سے دونوں ایک جنس ہیں؛ لہذا ان کے نزدیک زکوۃ کے وجوب کے لیے ایک کو دوسرے کے ساتھ ملا دیا جائے گا (بدایۃ المجتھد19/2.تحقیق عبد المجید طعمہ الحلبی۔ط المکتبۃ المدنیہ دیوبند ۔2005)

قائلین کے دلائل :

لوگ نصاب کی تکمیل یا اس پر اضافے کے سلسلے میں ایک دوسرے کو ملانے کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں :

1- والذین یکنزون الذھب و الفضۃ و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم .

اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو (سورۃ التوبہ: 34)

طریقۂ استدلال یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں سونے اور چاندی کو ذکر کرنے کے بعد ان دونوں کے لیے واحد کی ضمیر لائی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کے معاملے میں دونوں ایک ہیں؛ کیونکہ اگر الگ ہوتے تو پھر تثنیہ کی ضمیر لائی جاتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ زکوۃ کے سلسلے میں دونوں کا حکم ایک ہے۔

اور امام قدوری کہتے ہیں کہ جو لوگ دونوں کو ملانے کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آیت میں فرض زکوۃ ادا کرنے کا حکم بیان کیا گیا ہے اور دونوں کو ملا کر نصاب مکمل کر کے زکوۃ فرض ہونے کے ہم قائل نہیں ہیں، پھر اس سے استدلال کرنا کیسے درست ہے؟ ہم ان کے جواب میں کہیں گے کہ مذکورہ آیت دونوں کو ملا کر بھی زکوۃ کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس کا تقاضا ہے کہ ہر حال میں زکوۃ ادا نہ کرنے والا مذکورہ وعید کا مستحق ہوگا اور اس کی تائید حضرت عمرو بن حزم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کتب لہ : اذا بلغ الذھب قیمۃ مائتی درھم ففی کل اربعین درھما درھم.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے جو تحریر لکھوائی تھی ،اس میں مذکور تھا کہ جب سونے کی قیمت دوسو درہم کو پہنچ جائے تو ہر چالیس درہم میں ایک درہم ہے۔

اور اس پر اجماع ہے کہ صرف سونا موجود ہونے کی حالت میں چاندی کے ذریعے اس کی قیمت نہیں لگائی جائے گی، لہذا ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ جب دونوں موجود ہوں تو قیمت کا لحاظ کیا جائے گا ۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ اجتہادی مسائل میں اس کے برخلاف رائے رکھنے والا کسی وعید کا مستحق نہیں ہوتا ہے، حالانکہ مذکورہ آیت میں زکوۃ ادا نہ کرنے والے کو سخت وعید کا مستحق قرار دیا گیا ہے، تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ وعید کا مستحق وہ ہے جسے مذکورہ حکم معلوم ہو اور اس کے پاس اس کے مقابلے میں کوئی دوسری دلیل نہ ہو، تو وہ ہمارے نزدیک وعید کا مستحق ہوگا، جو ائمہ اس کے قائل نہیں ہیں، ان کے پاس اپنے نظریہ پر دوسری دلیل موجود ہے، اس لیے وہ اس کے مصداق نہیں ہوں گے ۔

(فان قیل : الوعید لا یستحق فیما یسوغ الاجتہاد فی ترکہ ۔ قلنا الآیۃ تفید من بلغہ حکمہا و لم یقابلہ دلیل آخر و ھذا یستحق الوعید عندنا ۔۔۔۔ قالوا المراد بالایۃ منع الزکاۃ الواجبۃ و نحن لا نسلم الوجوب فی موضع الخلاف قلنا الآیۃ دلت علی الوجوب لانھا تقتضی الوعید بترک اخراج الزکاۃ فی جمیع الاحوال و یدل علیہ حدیث عبد اللہ بن محمد بن عمرو بن حزم عنہ ابیہ عن جدہ ان النبی کتب لعمروبن حزم ۔۔۔و قد اجمعنا ان الذھب بانفرادہ لم یعتبر قیمتہ فلم یبق الا ان یکون المراد حال الاجتماع ذکر ھذا الخبر ابو الحسن فی الجامع باسنادہ۔ التجرید للقدوری 1312/3, ط دار السلام القاہرۃ 2004ء )

اور امام جصاص رازی لکھتے ہیں کہ آیت کا تقاضہ ہے کہ جب سونا چاندی دونوں جمع ہو جائیں تو زکوۃ واجب ہے؛ کیونکہ حرف "واؤ” جمع کے لیے آتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

لیس فیما دون خمس اواق صدقۃ .

دو سو درہم سے کم میں صدقہ نہیں ہے ۔

یہ حدیث اجتماعی اور انفرادی دونوں صورتوں کو عام ہے، یعنی صرف سونا یا چاندی ہو، یا دونوں ہوں، بہر صورت چاندی میں زکوۃ اسی وقت ہے جب وہ دوسو درہم کی مقدار کو پہنچ جائے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو چاندی کے علاوہ کسی چیز کا مالک نہ ہو اس لیے کہ حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے زکوۃ کے لیے انہیں جو تحریر دی تھی، اس میں لکھا ہوا تھا کہ:

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فی الرقۃ ربع العشر فاذا لم یکن مال الرجل الاتسعین و مائۃ فلیس فیھا صدقۃ .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاندی میں چالیسواں ہیں اور اگر کسی کے پاس مال کی شکل میں ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں صدقہ نہیں ہے (شرح مختصر الطحاوی للجصاص 310/2،ط دار البشائر، بیروت 2010 ء)

اور وہ اپنی مایہ ناز کتاب احکام القرآن میں لکھتے ہیں :

و الدلیل علی وجوب الزکاۃ فیھا مجموعین قولہ تعالیٰ و الذین یکنزون الذھب و الفضۃ فاوجب اللہ تعالیٰ فیھا الزکاۃ مجموعین لان قولہ و لا ینفقونھا قد اراد بہ انفاقھا جمیعا .

مجموعی طور پر دونوں میں زکوۃ کی فرضیت کی دلیل قران کی یہ آیت ہے والذین یکنزون الخ اس میں اللہ تعالی نے مجموعی طور پر دونوں کی زکوۃ کو ضروری قرار دیا، اس لیے کہ "ولا ینفقونھا "سے مراد دونوں کو اکٹھے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے ۔

(احکام القرآن 139/3،ط مکتبہ شیخ الہند دیوبند 2006ء)

اور فقہاء مالکیہ کہتے ہیں کہ آیت میں انفاق سے مراد زکوۃ ہے اور ہر وہ شخص مذکورہ وعید کا مستحق ہے، جس کے پاس دونوں جمع ہو جائیں اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرے آیت میں اس حکم کو کسی ایک حالت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے۔(دیکھئے شرح الرسالہ للقاضی عبد الوہاب 370/1)

جو لوگ دونوں کو ملانے کے قائل نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ آیت مجمل ہے اور حدیث میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جس میں ہر ایک کے نصاب اور اس میں واجب ہونے والی زکوۃ کے مقدار کی وضاحت کی گئی ہے، اس لیے نصاب سے کم میں زکوۃ واجب نہیں ہے ۔

اور حضرت عبد اللہ بن عمر سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :

من کنزھا فلم یود زکاتھا فویل لہ انما کان قبل ان تنزل الزکاۃ فلما انزلت جعلھا اللہ طھرا للاموال. (صحیح بخاری : 1404)

جو خزانہ بنا کر رکھے اور اس کی زکوۃ ادا نہ کرے تو اس کے لیے تباہی ہے، یہ حکم نزول زکوۃ سے پہلے تھا اور جب زکوۃ کا حکم نازل ہوا تو اللہ تعالی نے اسے مال کی طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ بنا دیا ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت کا زکوۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔بلکہ زکات کی فرضیت سے پہلے وہ نازل ہوئی ہے ۔

2-۔ بکیر بن عبداللہ بن اشج کہتے ہیں :

من السنۃ ان یضم الذھب الی الفضۃ لایجاب الزکاۃ .

سنت یہ ہے کہ زکوٰۃ کے وجوب کے لیے سونے کو چاندی کے ساتھ ملا دیا جائے ۔

اس روایت کو علامہ کاسانی اور ابن ہمام نے نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے (البدائع 106/2فتح القدیر 229/2) .

یہ روایت اپنے موضوع پر ایک واضح دلیل ہوتی مگر مشکل یہ ہے کہ اس کی سند کا کچھ اتاپتا نہیں ہے۔اور نہ ہی حدیث کی کسی کتاب میں مذکور ہے اور یہی وجہ ہے کہ امام جصاص اور قدوری وغیرہ نے استدلال میں اس روایت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے ۔

دوسرے یہ کہ بکیر بن عبداللہ صغار تابعین میں سے ہیں اور یہ ضابطہ صحابی کے بارے میں ہے کہ وہ سنت کا لفظ استعمال کرے تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے، اس لئے اسے مرفوع حدیث کےحکم میں رکھنا اور اس سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔

3- سونا اور چاندی کی تخلیق کا مقصد ایک ہے، یعنی دونوں کی خلقت کا تقاضہ ہے کہ وہ لین دین اور خرید و فروخت کا اصل ذریعہ بنیں اور انہیں کے ذریعے استعمالی چیزوں کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جائے، غرضیکہ مقصد کے اعتبار سے دونوں ایک جنس ہیں، یعنی دونوں گرچہ صورت کے اعتبار سے الگ الگ ہیں، لیکن حقیقت اور مقصد کے لحاظ سے ایک ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں کی مقدار زکوۃ ایک ہے، یعنی دونوں کا چالیسواں حصہ بطور زکوۃ ادا کرنا ہوتا ہے، بلکہ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دونوں کا نصاب بھی ایک ہے؛ چنانچہ امام قدوری لکھتے ہیں :

قالوا مالان نصبھا مختلفۃ فلم یضم احدھما الی الآخر کالغنم و الابل قلنا نصابھا متفق فی المعنی و ان اختلفت الصورۃ لان کل دینار مقوم فی الشرع بعشرۃ فنصاب احدھما کنصاب الآخر و اتفاق النصب فی المعنی موجب للضم بدلالۃ العرض (التجرید13/5/3)

وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو طرح کے مال ہیں جن کا نصاب الگ الگ ہے، لہذا ایک کو دوسرے کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا جیسے کہ بکری اور اونٹ کو نہیں ملایا جاتا ہے ہم کہیں گے کہ حقیقت کے لحاظ سے دونوں کا نصاب ایک ہے، گرچہ صورت الگ الگ ہے، اس لیے کہ شریعت کی نگاہ میں ہر دینار کی قیمت دس درہم کے برابر ہے، لہذا ایک کا نصاب دوسرے کے نصاب کی طرح ہے اور حقیقت کے اعتبار سے نصاب کا ایک ہونا دونوں کو ملانے کا تقاضہ کرتا ہے، جیسے کہ تجارتی سامان کی جنس الگ ہونے کے باوجود ان کو آپس میں ملادیا جاتا ہے ۔

اور امام جصاص رازی رقم طراز ہیں :

و یدل علی وجوب الضم انھما متفقان فی وجوب الحق فیھما و ھو ربع العشر فکانا بمنزلۃ العروض المختلفۃ اذا کانت للتجارۃ لما کان الواجب فیھا ربع العشر ضم بعضھما الی بعض مع اختلاف اجناسھما ۔

سونے چاندی کو باہم ملانے کے وجوب کی دلیل یہ ہے کہ ان دونوں میں ایک ہی حق واجب ہے اور وہ ہے چالیسواں، لہذا یہ دونوں تجارت کے مختلف سامانوں کی طرح ہیں کہ جب ان میں چالیسواں واجب ہے، تو جنس کے اختلاف کے باوجود ان سامانوں کو ایک شمار کیا جاتا ہے ۔(احکام القرآن 138/3)

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:

لان احدھما یضم الی ما یضم الیہ الآخر فیضم الی الآخر کانواع الجنس.

اس لیے کہ جس طرح سے ان میں سے ایک کے ساتھ سامان تجارت کو ضم کیا جاتا ہے، اسی طرح سے دوسرے کے ساتھ ضم کیا جاتا ہے، لہذا ایک جنس کی مختلف قسموں کی طرح ان کو بھی آپس میں ملا دیا جائے گا۔ (المغنی 211/4)

یعنی سونا چاندی نصاب سے کم ہوں اور اس کے پاس سامان تجارت ہو، تو اس کے ذریعے ان کے نصاب کو مکمل کر دیا جائے گا، اس کے برخلاف اگر کسی کے پاس زکوۃ کے جانور نصاب سے کم ہوں اور اس کے پاس سامان تجارت بھی نصاب سے کم ہو، تو اسے جانوروں کے ساتھ ملا کر نصاب مکمل نہیں کیا جائے گا ۔

4-۔ سونے اور چاندی میں سے ہر ایک کو سامان تجارت کے ساتھ ضم کیا جا سکتا ہے، سامان تجارت کے ساتھ دونوں کے ملانے کے برابر ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کے وجوب کے سلسلے میں بھی دونوں برابر ہیں اور دونوں ایسے ہی ہیں جیسے کہ ایک جنس کی دو الگ الگ کوالٹی۔

 

 

 

 

5 ۔ علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں :

انما کانا نصاب الزکاۃ بسبب وصف الثمنیۃ لانہ المفید لحصیل الاغراص وسد الحاجات لا لخصوص اللون و الجوہر و ھذا لان ثبوت الغناء و ھو السبب فی الحقیقۃ انما ھو بذالک لا بغیرہ و قد اتحدا فیہ فکانا جنسا واحدا .

وصف ثمنیت کے سبب یہ دونوں زکاۃ کا نصاب بنائے گئے ہیں ؛ اس لئے کہ مقصد کے حصول اور ضرورت کی تکمیل کے لئے یہی مفید ہے کسی خاص رنگ اور جوہر کی وجہ سے نصاب نہیں بنایا گیا ہے ؛کیونکہ ثبوت غنا وہی درحقیقت وجوب زکاۃ کا سبب ہے اور وہ وصف ثمنیت کے پائے جانے سے ہے نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور چیز سے اور اس معاملے میں دونوں متحد ہیں ؛لہذا دونوں ایک جنس ہوۓ۔(فتح القدیر 229/2)

حاصل یہ ہے کہ نصاب کسی کے مالدار ہونے کے لیے ایک معیار ہے اور مالداری ہی کی وجہ سے زکوۃ واجب ہوتی ہے؛ چناں چہ حدیث میں ہے :

لا صدقۃ الا عن ظہر غنی (مسند احمد 7155)

صدقہ مالدار ہونے کی حالت میں ہے ۔

اور کسی کے پاس سونا چاندی نصاب سے کم ہو، لیکن دونوں کے ملانے سے نصاب مکمل ہو جاتا ہو، تو اسے مالدار سمجھا جائے گا، لہذا اس اعتبار سے دونوں ایک جنس ہیں ۔

ان دلائل کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ سونا اور چاندی دونوں الگ الگ جنس ہیں اور الگ ہونے ہی کی بنیاد پر ان کو باہم کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے، جیسے کہ گیہوں اور جو کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا درست ہے، حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہے، دونوں غذا کے کام آتے ہیں اور دونوں میں عشر کی مقدار ایک ہے، اسی طرح سے بکری کو گائے کے ساتھ ملایا نہیں جاتا، حالانکہ دونوں کا مقصد دودھ کا حصول اور افزائش نسل ہے ۔

اور سامان تجارت کو سونے یا چاندی کے ساتھ ان کے جنس کے اختلاف کے باوجود اس لیے ملایا جاتا ہے کہ اس کے نصاب میں قیمت کا اعتبار کیا جاتا ہے اور قیمت کے اعتبار سے سونا یا چاندی اور سامان تجارت دونوں ایک ہیں، اس کے برخلاف سونے یا چاندی میں بذات خود زکوۃ واجب ہے نہ کہ قیمت کے اعتبار سے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر صرف سونا یا چاندی ہو، تو قیمت کا لحاظ کر کے زکوۃ واجب نہیں ہوتی ہے، بلکہ مقدار کا اعتبار کیا جاتا ہے، خواہ قیمت کم ہو یا زیادہ ۔

 

مانعین کے دلائل :

جو لوگ سونے اور چاندی کو باہم ملانے کے قائل نہیں ہیں، ان کے دلائل یہ ہیں:

1 ۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لیس فیما دون خمس اواق صدقۃ

دو سو درہم سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے (بخاری :1362،مسلم:980)

حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس چاندی کا نصاب مکمل نہ ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے،گرچہ اس کے پاس سونا موجود ہو، جس کے ذریعے چاندی کے نصاب کو مکمل کیا جا سکتا ہے اور نصاب کو مکمل کرنے کے لیے سونے چاندی کو جمع کرنے کا مطلب ہوگا کہ دو سو درہم سے کم میں زکوۃ کو واجب قرار دیا جائے اور یہ حدیث کی صراحت کے خلاف ہے ۔

2 ۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لیس علیک شئی یعنی فی الذھب حتی تکون لک عشرون دینارا و حال علیہ الحول ففیھا نصف دینار فماذا و فبحساب ذالک .

سونا میں تمہارے ذمہ کچھ نہیں ہے، یہاں تک کہ تمہارے پاس بھی بیس دینار آ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار ہے اور اگر بیس دینار سے زیادہ ہو جائے تو، اسی حساب سے زکوۃ ہے ۔(ابو داؤ:1575)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس بیس دینار سے کم سونا ہے، تو اس پر زکوۃ نہیں ہے، خواہ اس کے پاس اس کے نصاب کی تکمیل کے لیے چاندی موجود ہو یا نہ ہو ۔

قائلین کی طرف سے ان دونوں احادیث کی توجیہ اور تاویل میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ صورت ہے جبکہ کسی کے پاس صرف سونا یا صرف چاندی ہو اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کے پاس سامان تجارت ہو، تو سب کے نزدیک اس کے ذریعے سونے یا چاندی کے ناقص نصاب کو مکمل کر دیا جائے گا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث عام نہیں ہے، بلکہ اس سے ایک خاص شکل مراد ہے چنانچہ امام جصاص رازی لکھتے ہیں :

ھذا فیمن لایملک غیرہ لان فی حدیث انس فی کتاب ابی بکر الصدیق ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : فی الرقۃ ربع العشر فاذا لم یکن مال الرجل الاتسعین و مائۃ فلیس فیھا صدقۃ.

یہ روایت اس شخص سے متعلق ہے، جو چاندی کے علاوہ کسی چیز کا مالک نہ ہو، اس لیے کہ حضرت ابوبکر نے زکوۃ کے لیے حضرت انس کو جو تحریر بھیجی تھی، اس میں لکھا ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاندی میں چالیسواں ہے اور اگر کسی کا مال صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں صدقہ نہیں ہے۔ . (شرح مختصر الطحاوی 310/2)

قیل لہ کما لم یمنع قولہ لیس فیما دون خمس اوسق صدقۃ وجوب ضم المائۃ الی العروض و کان معناہ عندک اذا لم یکن معہ غیرہ من العروض کذالک نقول نحن فی ضمہ الی الذھب.

اس حدیث سے استدلال کرنے والوں سے کہا جائیگا مذکورہ روایت کے باوجود سو درہم کے ساتھ سامان تجارت کو ملا کر نصاب کو مکمل کرنا واجب ہے ۔اور اس حالت میں آپ کے نزدیک حدیث کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دو سو درہم سے کم میں اس وقت زکوۃ نہیں ہوگی جب کہ اس کے ساتھ سامان تجارت نہ ہو تو یہی مطلب ہم سونے کو ملانے کے معاملے میں بھی لیں گے ۔

(احکام القرآن 140/3، و قال ابن قدامہ الحنبلی:

و الحدیث مخصوص بعرض التجارۃ فنقیس علیہ. المغنی 211/4.)

 

3 ۔ عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الذھب با لذھب و الفضۃ بالفضۃ البر بالبر و الشعیر بالشعیر مثلا بمثل یدا بید فاذا اختلفت ھذہ الاصناف فبیعوا کیف شئتم اذا کان یدا بید .

سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے اور جو جو کے بدلے برابر برابر دست بدست ہونا چاہیے اور جب یہ اصناف الگ الگ ہوں، تو جیسے چاہے بیچو مگر اب بھی دست بدست ہونا چاہیے۔ (صحیح مسلم1587)

اس حدیث میں سونا اور چاندی کو دو الگ الگ جنس شمار کیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر دونوں کے باہم تبادلے کی صورت میں کمی بیشی جائز ہے اور جب حدیث میں انہیں دو جنس قرار دیا گیا ہے تو زکوۃ کے معاملے میں کیسے انہیں ایک جنس کہا جا سکتا ہے۔

4 ۔ دونوں کی جنس الگ الگ ہے اور شریعت نے ان میں سے ہر ایک میں بذات خود زکوۃ واجب کی ہے، لہذا ایک کو دوسرے کے ساتھ ضم نہیں کیا جائے گا اور اگر ایسا کرنا ہوتا تو شریعت اسے ضرور بیان کرتی، کیونکہ شریعت جن چیزوں کا انسان کو پابند بناتی ہے، ان کی مکمل وضاحت کرتی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں کوئی خاص حکم ہوتا، تو اس سے خاموشی اختیار نہ کی جاتی۔(دیکھئے بدایۃ المجتہد20/2)

مذکورہ دلائل کے جواب میں کہا گیا ہے کہ گرچہ خرید و فروخت کے معاملے میں دونوں مختلف جنس ہیں، مگر زکوۃ کے معاملے میں ایک شمار ہوں گے، کیونکہ زکوۃ کی بنیاد مالداری پر ہے اور دونوں کے مجموعے سے بھی مالداری ثابت ہو جاتی ہے؛ نیز ثمنیت کے اعتبار سے بھی دونوں یکساں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خرید و فروخت میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کے باوجود مجلس میں مبیع اور ثمن دونوں پر قبضہ ضروری ہے، امام قدوری کہتے ہیں :

قالوا عينان يجرى فيها الربا فلا یضم احدهما الى الآخر كالتمر والزبيب قلنا اباحة التفاضل فيه‍ا ان امتنع الضم فيجب أن يكون تحريم النساء فىه‍ا يوجب الضم ويجعلها كالجنس الواحد

وہ لوگ کہتے ہیں کہ سونا چاندی ایسی چیز ہیں، جن میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ جائز ہے لہذا جس طرح سے کھجور اور کشمش کو باہم ملایا نہیں جاتا ہے، اسی طرح سے ان کو بھی نہیں ملایا جائے گا، ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ کمی بیشی کے ساتھ تبادلے کا جواز گرچہ باہم ملانے کی ممانعت کا تقاضہ کرتا ہے، لیکن مجلس میں قبضہ کی شرط اور ادھار کی حرمت باہم ملانے کو ثابت کرتا ہے اور ان دونوں کو ایک جنس کی طرح بنا دیتا ہے ۔. (التجريد 1316/3)

اور اس بات پر تقریبا تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ تجارتی اشیاء کو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ضم کیا جا سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ ان کو سونے کے سکے کے عوض خریدا گیا ہے یا چاندی کے سکے کے بدلے میں

( أما العروض فتضم قيمته‍ا إلى الذه‍ب أو الفضة ويكمل به‍ا نصاب كل منه‍ا قال ابن قدامه لا نعلم فيه اختلافا ۔الموسوعة 228/23)

اس کا بھی تقاضہ ہے کہ زکوۃ کے معاملے میں دونوں کو ایک شمار کیا جائے، لیکن اس بات کا لحاظ رکھنا ہوگا کہ اموال تجارت کی ہر حال میں قیمت لگائی جاتی ہے، خواہ صرف مال تجارت ہو یا اس کے ساتھ سونا چاندی ہو، دوسرے الفاظ میں اجتماعی اور انفرادی دونوں حالتوں میں سامان تجارت کی سونے چاندی کے اعتبار سے قیمت لگائی جاتی ہے، اس کے برخلاف سونے چاندی میں صرف مجموعے کی حالت میں قیمت لگائی جاتی ہے، انفرادی صورت میں نہیں، چنانچہ اگر کسی کے پاس صرف دس دینار ہوں، جس کی قیمت دوسو درہم کے برابر ہو تو کوئی بھی اس میں زکوۃ کا قائل نہیں ہے، حالانکہ قیمت کے اعتبار سے وہ چاندی کے نصاب کو پہنچ رہا ہے اور اس حیثیت سے اس کی مالداری بھی ثابت ہے؛ نیز اگر کسی کے پاس مختلف جنس کے مویشی ہوں، تو جیسے انفرادی حالت میں ان کی قیمت نہیں لگائی جاتی ہے، ایسے ہی اجتماعی حالت میں بھی نہیں لگائی جاتی ہے، حالانکہ مجموعی اعتبار سے بھی اس حالت میں بھی مالداری ثابت ہو سکتی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ سونے چاندی کو باہم ملا کر نصاب مکمل کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور کسی کے پاس اس سلسلے میں کتاب و سنت کی صراحت موجود نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی سے کوئی قول منقول ہے، البتہ تابعین میں سے متعدد لوگ ضم نصاب کے قائل ہیں اور کسی دوسرے تابعی سے ان کی مخالفت منقول نہیں (دیکھیے مصننف ابن ابی شیبہ 393تحقیق ابو عوامہ) اور چار اماموں میں سے تین اماموں کا یہی مسلک ہے اور اس طرح کے مسئلے میں کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اور دونوں طرح کے نقطہ نظر کا احترام کیا جانا چاہیے اور جارحانہ رویہ اپنانا نہایت غیر معقول بات ہوگی، اس لیے ابن رشد کی یہ عبارت ناقابل توجہ ہے :

ولعل من رام ضم احدهما إلى الآخر فقد احدث حكما في الشرع حيث لا حكم لانه قد قال بنصاب ليس ه‍و بنصاب ذه‍ب ولا فضة۔

اور شاید جن لوگوں نے ایک دوسرے کو ملانا چاہا ہے، انہوں نے ایسی جگہ ایک حکم کو ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے جہاں کوئی حکم موجود نہیں ہے اس لیے کہ وہ ایک ایسے نصاب کے قائل ہیں جو نہ سونے کا نصاب ہے اور نہ چاندی کا ۔(بدایۃ المجتھد 20/2)

دونوں کے ملانے کا طریقہ :

جو لوگ سونے چاندی کو باہم ملا کر نصاب مکمل کرنے کے قائل ہیں، ان میں ملانے کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے، امام ابو یوسف، محمد اور اوزاعی کے نزدیک اجزاء کے اعتبار سے ملایا جائے گا مالکیہ اور حنابلہ کا بھی یہی مسلک ہے (دیکھیے المبسوط 193/2، التاج و الاکلیل 138/3، المغنی 211/4، الفروع 137/4) اور امام ابو حنیفہ سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے (التجرید 1311/3) اور ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ قیمت کے اعتبار سے ضم کیا جائے گا، امام احمد بن حنبل اور حضرت سفیان ثوری سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے ( البدائع 107/2، الانصاف21/7، الاستذکار 41/9)

اجزاء کے اعتبار سے ضم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک دینار کو دس درہم کے برابر سمجھا جائے گا، لہذا اگر کسی کے پاس ایک سو نوے درہم اور ایک دینار ہے تو دونوں کو ملا کر دو سو درہم چاندی کا نصاب مکمل ہو جائے گا اور اس پر زکوۃ واجب ہوگی اور اگر ایک سو اسی درہم اور ایک دینار ہے جس کی قیمت بیس درہم کے برابر ہے تو زکوۃ واجب نہیں ہوگی.

(اشار بقولہ الجزء الی أنه يجعل كل دينار في مقابلة عشرة فله‍ذا يجب عليه الزكاة إذا كان معه مائة دراه‍م و عشرة دنانير ۔ الدرر فی شرح المختصر ۴۹۲/۱) ۔

اور قیمت کے اعتبار سے ملانے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک کی قیمت لگائی جائے گی اور اسی اعتبار سے نصاب کو مکمل کیا جائے گا، جیسے کہ کسی کے پاس سو درہم اور ایک دینار ہے جس کی قیمت سو درہم کے برابر ہے، تو چاندی کا نصاب مکمل مان لیا جائے گا ۔

 

اجزاء کے ذریعے نصاب کو مکمل کرنے کو ترجیح ہونی چاہیے، کیونکہ سونا چاندی دوسری چیزوں کی قیمت کے جاننے کا ذریعہ ہیں، اس لیے قیمت کے ذریعے ان کی حیثیت کو متعین کرنا خلاف وضع ہے، لہذا اصل خلقت کے اعتبار سے ان میں وزن کا لحاظ کرنا چاہیے، جیسے کہ انفرادی طور پر سونے یا چاندی کی زکوۃ کی ادائیگی میں قیمت نہیں دیکھی جاتی ہے۔

( أما عند انفراد احدهما فلا تعتبر القيمه اجماعا لان المعتبر وزنه اداء ووجوبا . رد المحتار 302/2۔ط ۔سعید کراچی)

مثلا کسی کے پاس چاندی کا منقش لوٹا ہو، جس کا وزن ایک سو پچاس درہم کے برابر لیکن قیمت دو سو درہم یا اس سے زیادہ ہو، تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی ہے ۔

دوسرے یہ کہ عہد نبوی اور اس کے بعد کے زمانے میں ایک دینار دس درہم کے برابر یا اس کے آس پاس ہوا کرتا تھا، اس لیے قیمت کے ذریعے ضم کرنے میں بہت زیادہ فرق واقع نہیں ہوتا تھا اور بعض حالات میں فقیروں کا فائدہ ہو جایا کرتا تھا، لیکن موجودہ دور میں چاندی کی قیمت بہت کم ہو گئی ہے، لہذا اس وقت قیمت کا لحاظ کر کے نصاب مکمل کیا جائے، تو فقیروں کو فائدے کے بجائے نقصان ہو جائے گا کہ ان کی اکثریت مالداروں کی صف میں آ جائے گی اور نہ صرف زکوۃ لینے سے محروم ہوں گے، بلکہ ان پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہو جائے گا ۔

حاصل یہ ہے کہ فقراء کے نفع کے پیش نظر سونے چاندی کو باہم ملا کر نصاب کو مکمل کرنا زیادہ مناسب ہے، سعودی عرب کی فتوی کمیٹی نے اسی کو اختیار کیا ہے (دیکھیے فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث و الافتاء، المجموعۃ الثانیۃ 324/8فتوی نمبر 17943) اور زکوۃ سے متعلق کویت میں منعقد ایک سیمینار میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نصاب کی تکمیل کے لیے سونے اور چاندی کو ضم کیا جائے گا (دیکھیے احکام و فتاوی الزکاۃ و الصدقات /31 مکتب الشئون الشرعیۃ الکویت2009) البتہ دونوں کو ضم کرنے میں اجزاء کا لحاظ رکھا جائے گا نہ کی قیمت کا ۔

 

سامان تجارت اور کرنسی کے لیے معیار

 

سامان تجارت کے سلسلے میں فقہائے متقدمین کی عمومی رائے یہ ہے کہ اس کے نصاب کو سونا یا چاندی میں سے کسی کے ذریعے بھی مقرر کیا جا سکتا ہے، البتہ اس بات کا لحاظ رکھنا ہوگا کہ ان میں سے کس کے ذریعے نصاب متعین کرنے میں فقیروں کا زیادہ فائدہ ہے؟ جس کے ذریعے بھی ان کا زیادہ فائدہ ہو قیمت لگانے میں اسی کو ترجیح دی جائے گی (دیکھیے الاختیار 362/1.ط دار الرسالہ العالمیۃ ۔ 2010)

اور موجودہ دور کے علماء میں سامان تجارت اور کرنسی کے لیے ان میں سے کسی ایک کو معیار قرار دینے کے سلسلے میں اختلاف ہے عام طور پر متحدہ ہندوستان کے علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کے لیے چاندی کو معیار بنایا جائے گا، فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی اور سعودیہ کی فتوی کمیٹی نے اسی کو اختیار کیا ہے، کیونکہ چاندی کا نصاب حدیث اور اجماع کے ذریعے ثابت ہے اور سونے کے نصاب سے متعلق احادیث ضعیف ہیں اور اگر ان کو لائق استدلال مان بھی لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ چاندی کی قیمت کا لحاظ کر کے اس کا نصاب بیس دینار مقرر کیا گیا ہے گویا کہ اصل چاندی کا نصاب ہے۔

دوسرے یہ کہ چاندی کو معیار بنانے میں فقیروں اور مسکینوں کا زیادہ فائدہ ہے کہ اس کی وجہ سے دولت مندوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور زیادہ سے زیادہ زکوۃ حاصل ہوگی اور زکوۃ کے معاملے میں ترجیح اسی کو دی جاتی ہے، جس میں فقیروں کا زیادہ فائدہ ہو ۔

 

اس کے برخلاف بعض عرب اور کچھ ہندوستانی علماء کے نزدیک ان کے نصاب کے لیے سونے کو معیار بنایا جائے گا، کیونکہ چاندی کے ذریعے نصاب مقرر کرنے میں بہت معمولی مقدار کی کرنسی اور سامان تجارت میں زکوۃ واجب ہو جائے گی، جیسے کہ موجودہ دور میں اگر کسی کے پاس سال بھر تک تقریبا چالیس ہزار روپیہ محفوظ رہا یا وہ ٹھیلے یا فٹ پاتھ پر اتنے روپے کا سامان لے کر بیچنے لگے تو اس پر زکوۃ واجب ہو جائے گی، حالانکہ اس مقدار کی رقم اور سامان تجارت کی وجہ سے کوئی بھی عرف اور سماج میں مالدار نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی اتنے روپیے کی تجارت سے ایک چھوٹے سے پریوار کا خرچ نکالنا آسان ہوگا، حالانکہ اموال زکوۃ کے لیے نصاب مقرر کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زکوۃ کے وجوب کے لیے بڑی مقدار میں اموال زکوۃ کا مالک ہونا چاہیے؛ چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کہتے ہیں : کہ چاندی کا نصاب دو سو درہم اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ ایک چھوٹے خاندان کی پورے سال کی ضرورت کے لیے یہ مقدار کافی ہے (حجۃ اللہ البالغہ 128/2) اور موجودہ دور میں چالیس ہزار کے ذریعے ایک چھوٹے خاندان کی پورے سال کی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی ہے ۔

اور استاذ محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی رقم طراز ہیں :

سونے اور چاندی کی حیثیت چونکہ کرنسی کی تھی اور اس کی وجہ سے اس کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، اس لیے لوگ عام طور پر سونے اور چاندی کی شکل میں اپنے سرمایہ کو محفوظ کرتے تھے، یہ ایک عملی حقیقت ہے اور خود قران مجید میں بھی "والذين يكننزون الذه‍ب و الفضة” کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اب غور کریں تو موجودہ دور میں لوگ اپنے سرمایہ کو چاندی کی شکل میں محفوظ نہیں کرتے، سونے کی شکل میں محفوظ کرتے ہیں، اسی لیے سونے کے سکے اور سونے کے بسکٹ بھی بینک کی طرف سے فروخت کیے جاتے ہیں اور اسی لیے سونے کی قیمت میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔ ان وجوہ کی بنیاد پر اس حقیر کی رائے میں ثمنیات کا پہلو سونے میں بہ مقابلہ چاندی کے زیادہ ہے؛ نیز لوگوں کے تعامل اور قیمت کے استحکام کے اعتبار سے سونے کا چلن بھی زیادہ ہے اور اس کی قدر سے شریعت کا یہ منشا پورا ہوتا ہے کہ فقراء پر زکوۃ واجب نہ ہو، اغنیا پر واجب ہو اور فقراء زکوۃ سے محروم نہ ہوں ، اغنیا محروم ہوں، اس لیے اس کو مال تجارت اور کرنسی کے لیے معیار ہونا چاہیے (جدید فقہی مسائل247/3 ۔ط کتب خانہ نعیمیہ دیوبند.2020ء)

اور اگر چاندی کو معیار بنایا جاتا ہے، تو ضروری ہے کہ ایک اور دس کے تناسب کو برقرار رکھا جائے، یعنی چاندی کی قیمت طے کرنے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس کا دس درہم ایک دینار کے برابر ہو جیسا کہ عہد نبوی وغیرہ میں تھا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے