شیخ عبد الحق اعظمی ۔

سوانحی خاکہ:

نام ونسب:شیخ عبد الحق بن محمد عمر بن کریم بخش ۔

سن پیدائش:17دسمبر ۔1928ء

وطن:جگدیش پور۔پھولپور۔اعظم گڑھ۔یوپی۔

تعلیم: فاضل دارالعلوم دیوبند ۔1374ھ۔

وفات:30 دسمبر 2016ء

تدفین: مزار قاسمی دیوبند۔

 

حق کو جب ٹھیس لگے گی تو میں یاد آؤں گا۔

 

 

دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ ان میں سب سے بہتر کون ہے؛کیونکہ دارالعلوم ستاروں کی ایک انجمن کا نام ہے ،جس میں ہر تارہ آفتاب عالم تاب ہے، وہ حسین اور خوشبودار پھولوں کا ایک گلدستہ ہے، جس میں ہر پھول رنگ وخوشبو کے اعتبار سے جداگانہ اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے، جس میں سے ایک نمایاں نام شیخ عبد الحق محدث اعظمیؒ کا ہے۔

وہ سات دہائیوں تک حدیث کی تدریس سے متعلق رہے اور مسلسل 66؍سال تک صحیح بخاری کا درس دیا، یہ ایک ایسا شرف ہے جس میں بہت کم لوگ ان کے ساتھ شریک ہوں گے، اور حدیث اور اس کی تاویل وتشریح کے معاملے میں اللہ تعالی نے انہیں حیرت انگیز صلاحیت اور قوت حفظ سے نوازا تھا، ان کی تاریخ پیدائش 1928ء ہے،اور دیوبند میں مجھے 1992ء میں ان سے بخاری جلد ثانی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، یعنی وہ اس وقت اپنی عمر کی چھٹی دہائی میں تھے ،لیکن اس وقت بھی ان کی یادداشت قابل رشک تھی، کسی حدیث سے متعلق شارحین کی متعدد توجیہات نوک زبان پر رہتی تھیں، اور بعض حدیثوں کی دس پندرہ توجیہات تسلسل کے ساتھ بیان کردیتے تھے، اور ترتیب میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔

ان کا ایک نمایاں وصف یہ تھا کہ وہ بے لاگ اور لپٹ منہ پر بات کہہ دینے کے عادی تھے، انہوں نے اپنے دل میں کسی کے تعلق سے کینہ اور کھوٹ نہیں رکھا، بلکہ مخاطب کی رعایت کرتے ہوئے سلیقے کے ساتھ حق بات کہہ دیتے، اور اس کا بوجھ اپنے دل میں لیے نہیں پھرتے، وہ یقینی طور پر اس حدیث پر عمل پیرا تھے، جس میں ہے کہ:

عن أنس بن مالک قال لي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یا بني إن قدرتَ علی أن تُصبح وتُمسي ولیس في قلبک غِش لأحدٍ فافعل۔( الترغیب 12/2)۔

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:بیٹے! اگر تم سے ہو سکے تو ایساضرور کرو کہ صبح وشام کسی بھی وقت تمہارے دل میں کسی کے تعلق سے کینہ اور کھوٹ نہ ہو۔

اورایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک صحابی کو اسی وصف کی بنیاد پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔(الترغیب 13/2)۔

ہمیں امید ہے کہ حضرت شیخ بھی اپنی اس خوبی کی وجہ سے جنت کے باغات میں ٹہل رہے ہونگے، اور دنیا میں رہنے والوں کے لئے اس معاملے میں مشعل راہ ثابت ہوں گے کہ ؎

حق کو جب ٹھیس لگے گی تو میں یاد آؤں گا*

سونی محفل کی اداسی کو بھی گرماؤں گا.

ان کی زندگی میں تکلفات اور ہٹو بچو کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، مزاج اور لباس وپوشاک ہر ایک میں سادگی نمایاں تھی، اور بقول کسے ؎

نہ کروفر نہ کوئی تام جھام رکھتے ہیں *

ہم اہل دل ہیں میاں! دل سے کام رکھتے ہیں

انہوں نے دنیااور اس کی آرائش وزیبائش سے جو کچھ لیا وہ دل کی تعمیر وترقی میں خرچ ہوا، انہوں نے پوری توجہ دل کو بنانے ،حاصل کرنے اور اسے سنوارنے پر مبذول رکھی،اور نگاہ ہمیشہ خالق ومالک پر ٹکی رہی، کہا جاتا ہے کہ ایک متقی شخص کو بادشاہت مل گئی، ایک صاحب کو بڑی حیرت ہوئی ہے کہ بادشاہت کے ساتھ بزرگی کیسے رہ سکتی ہے؟ چنانچہ وہ ان سے ملنے گئے اور اپنی حیرت کا اظہار کیا، اس نے کہا کہ یہ سب چھوڑیئے، یہ بتلائیے کہ آپ نے ہماری سلطنت دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں شہر گھما کر لے آؤ اور ان کے ہاتھ میں ایک پیالہ پانی دیدیا اور کہا کہ شہر کی خوبصورتی اور رونق کو دیکھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ پیالے کا پانی گرنے نہ پائے ورنہ آپ کی گردن اڑادی جائے گی، یہ صاحب گھوم پھر کے شام کو واپس آئے، بادشاہ نے پوچھا کیا سیر و تفریح میں مزہ آیا اورشہر کی دلفریبیوں سے لطف اندوز ہوئے، انہوں نے کہا کیا خاک سیر وتفریح کرتا، مجھے تو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہا کہ کہیں پانی گر نہ جائے، یہ سن کر بادشاہ نے کہا کہ ہمارا بھی یہی حال ہے ہم اپنے دل میں ایمان سے بھرا ہوا ایک پیالہ رکھتے ہیں اور ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ پیالہ کہیں گر نہ جائے۔ غرضیکہ اللہ کے نیک بندوں کی یہی خصلت ہوتی ہے اور سمندر میں رہتے ہوئے بھی ان کا دامن تر نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے نیک عمل کی کشتی میں محفوظ رہتے ہیں کہ ؎

دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں*

بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں.

اور اخلاص وتقوی،سادگی اور دنیا سے بے رغبتی ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا والوں کی نگاہوں میں بھی محبوب بن جاتا ہے، لوگوں کی نگاہوں میں محبوبیت ایک پسندیدہ اور مطلوب صفت ہے، یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں، اور لوگوں کی طرف سے بغض ونفرت بدبختی کی علامت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آبادی اور بستی جاتے تو یہ دعا کرتے:

وحببناإلی أہلہا وحبب صالح أہلہا إلینا۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عمر)۔

اے اللہ!اس بستی والوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈال دیجئے، اور ان میں جو نیک ہیں ان کی محبت میرے دل میں پیدا کردیجئے۔

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:

أتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجل، فقال: یا رسول اللہ! دُلنی علی عمل إذا أنا عملتہ أحبنی اللہ وأحبنی الناس، فقال: ازہد فی الدنیا یحبک اللہ، وازہد فیما فی أیدی الناس یحبک الناس۔(ابن ماجہ 4101)۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے کہ جس کے کرنے پر اللہ اور انسان سب مجھ سے محبت کرنے لگیں، فرمایا :دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور لوگوں کے پاس جو کچھ موجود ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤ تو لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے۔

شیخ کی پوری زندگی مذکورہ حدیث پر عمل سے عبارت ہے، انہوں نے دنیا کو اسی طرح سے برتا جسے کہ اللہ تعالی نے برتنے کا حکم دیا تھا، اور انہوں نے لوگوں سے کچھ لینے کی کوشش نہیں کی، یہانتک کہ ان سے انہوں نے اپنی عزت کی بھی خواہش نہیں رکھی، نہ انہوں نے کبھی جاہ ومنصف کو چاہا اور نہ مال ودولت جمع کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انہیں محبوب خلائق بنادیا، وہ علماء میں محبوب تھے اور عوام میں بھی، بلکہ عوام سے زیادہ علماء نے ان پر اپنی عقیدت ومحبت نچھاور کی، اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آخرت میں بھی وہ محبوبیت اور مقبولیت کے

مقام پر فائز ہونگے۔

٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے