نکاح بہ نیت طلاق:

بہت سے لوگ حصول علم یا تجارت وغیرہ کے مقصد سے مغربی ملکوں میں جاتے ہیں اور طویل عرصے تک وہاں قیام کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہاں کا سماج ایک حیا باختہ سماج ہے جس کی وجہ سے جوان شخص کے لیے بیوی کے بغیر زندگی گذارنا دشوار ہوتا ہے، ان حالات میں وہ وہاں نکاح کر لیتے ہیں جو ان کے لیے پاکدامنی کا ذریعہ ہوتا ہے اور خاندانی زندگی کی سہولتیں بھی حاصل ہو جاتی ہیں، اور عام طور پر ان کے ذہن میں رہتا ہے کہ جب تک یہاں رہیں گے اس رشتے کو باقی رکھیں گے اور جب مستقل طور پر وطن واپس آنے کا ارادہ ہوگا تو طلاق دے کر رشتے کو ختم کریں گے تاکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لئے دوسرے نکاح میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ کیا اس طرح نے نکاح کو نکاح متعہ یا نکاح موقت میں شامل مانا جائےگا یا نہیں؟

اس کے جواب سے پہلے ضروری ہے کہ نکاح متعہ یا نکاح موقت کی حقیقت بیان کردی جائے۔

نکاح متعہ:

کسی عورت سے متعین رقم کے عوض ایک مدت تک کے لیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے، اس نکاح میں گواہ کی موجودگی شرط نہیں ہے، اور نہ طلاق ہوتی ہے بلکہ مقررہ مدت کے بعد طلاق کے بغیر علاحدگی ہو جاتی ہے نیز نکاح کے دوسرے حقوق اور ذمہ داریاں بھی کسی پر عائد نہیں ہوتی ہیں، مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے کہے کہ میں تم سے ایک دن ،ایک ماہ یا ایک سال کے لیے متعہ کرتا ہوں یا میں تمھیں اتنی رقم دوں گا اس شرط کے ساتھ کہ جب تک اس شہر میں میرا قیام رہے گا میں تم سے فائدہ حاصل کرتا رہوں گا ۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:

نکاح المتعۃ باطل و ھو ان یقول للمرأۃ اتمتع بک کذا مدۃ بکذا من المال[الہدایۃ 38/3]

نکاح متعہ باطل ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی عورت سے کہے کہ میں اتنی مدت کے لیے اتنے مال کے عوض تم سے متعہ کر رہا ہوں۔

نکاح موقت:

نکاح موقت کی تعریف کرتے ہوئے علامہ مرغینانی لکھتے ہیں

نکاح الموقت باطل مثل ان یتزوج بامرأۃبشہادۃ شاہدین الی عشرۃ ایام[الہدایہ 38/3]

نکاح موقت باطل ہے ، جیسے کہ کوئی دو گواہوں کی موجودگی میں کسی عورت سے دس دن کے لیے نکاح کرے۔

نکاح متعہ اور موقت کے درمیان فرق:

علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ متعہ اور موقت میں دو حیثیت سے فرق ہے ایک کہ متعہ میں م ت ع کا مادہ استعمال کیاجاتا ہے اور موقت میں نکاح یا زواج کا لفظ استعمال ہوتا ہے دوسرے یہ کہ متعہ میں نہ گواہوں کی موجودگی کی شرط ہوتی ہے اورنہ مدت متعین ہوتی ہے ، اس کے برخلاف نکاح موقت میں گواہوں کی موجودگی شرط ہے اور مدت کی تعیین ضروری ہے[رد المحتار148/4]

نکاح متعہ اور موقت کا حکم :

چاروں اماموں کے نزدیک حکم کے اعتبار سے نکاح متعہ اور موقت میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح سے نکاح متعہ باطل ہے اسی طرح سے نکاح موقت بھی باطل ہے، اور باطل ہونے کی وجہ مدت کا ذکر کرنا ہے کیونکہ نکاح میں دوام اور ہمیشگی مطلوب ہے اور ایک مدت کے لیے نکاح کرنے میں اس کی خلاف ورزی ہے، اور متعہ کی حرمت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اور موقت بھی متعہ کی ایک شکل ہے [فیکون من افراد المتعۃوان عقد بلفظالتزویج و احضرالشھود، البحرالرائق 190/3] صرف امام زفر اس بات کے قائل ہیں کہ نکاح موقت صحیح ہے اور مدت کی تعیین باطل ہے، علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:

وقال زفرھو صحیح لازم لان النکاح لا یبطل بالشروط الفاسدۃولناانہ اتی معنی المتعۃوالعبرۃ فی العقود للمعانی[الھدایۃ 38/3]

امام زفر کہتے ہیں کہ نکاح مؤقت صحیح اور لازم ہے اس لئے کہ فاسد شرطوں کی وجہ سے نکاح باطل نہیں ہوتا ہے ۔ہماری دلیل یہ ہے کہ نکاح مؤقت کا مقصود وہی ہے جو متعہ کا ہے اور معاملات میں مقصود کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ الفاظ کا۔

اور محیط نامی کتاب میں ہے:

کل نکاح موقت متعۃ و قال زفر لا تکون المتعۃالابلفظھا.

نکاح مؤقت کی ہر قسم متعہ ہے اور امام زفر کہتے ہیں کہ متعہ اس وقت ہوگا جب کہ وہ متعہ کا لفظ استعمال کرے ۔ [الموسوعہ 344/41]

مدت کی نیت:

حنفیہ ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ میں سے ابن قدامہ اس بات کے قائل ہیں کہ نکاح متعہ یا موقت اسی وقت ہوگا جب کہ لفظوں میں مدت کا تذکرہ کیا جائے اس لیے اگر کوئی عمومی الفاظ میں نکاح کرے البتہ اس کے دل میں ہے کہ چند دنوں یا ایک ماہ یا ایک سال کے بعد طلاق دے دوں گا تو نکاح صحیح ہے خواہ عورت یا اس کے سرپرست کو اس کی نیت کے بارے میں معلوم ہو یا نہ ہو ،اور صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عقد میں نکاح کو فاسد کرنے والی کوئی شرط موجود نہیں ہے اور محض نیت کی وجہ سے عقد فاسد نہیں ہوگا اس لئے کہ انسان کبھی ارادہ کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اور کبھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کا ارادہ نہیں ہوتا اور اس لیے بھی کہ مدت کے پائے جانے کے لیے لفظ کا ہونا ضروری ہے۔

اور حنابلہ کے نزدیک صحیح اور راجح یہ ہے کہ نکاح باطل ہے، کیونکہ یہ بھی متعہ کی ایک شکل ہے ، امام اوزاعی بھی اسی کے قائل ہیں اور بہرام مالکی کا بھی یہی نقطہ نظر بشرطیکہ عورت مرد کے مقصد کو سمجھ جائے[الموسوعۃالفقہیۃ 344/41]

اور امام مالک جواز کے قول کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں:

لیس ھذا من اخلاق الناس۔

انسانی اخلاق کے اعتبار سے گری ہوئی بات ہے۔ [المنہاج 302/5]

اسی طرح سے شافعیہ نے بھی اسے مکروہ کہا ہے، کیونکہ بعض لوگوں نے اسے باطل قرار دیا ہے اور اختلاف سے بچنے کیلیے اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے، نیز جن چیزوں کی صراحت کی وجہ سے عقد باطل ہو جاتا ہے اگر انہیں دل میں پوشیدہ رکھا جائے تو اس کی وجہ سےعقد مکروہ ہوتا ہے[الموسوعۃالفقہیۃ 344/41]

اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ نکاح مسیار کی دوسری شکل نکاح موقت کے حکم میں داخل نہیں ہے اور بظاہر اس میں نکاح کی تمام شرطیں موجود ہیں اس لیے وہ صحیح ہے البتہ چونکہ رشتہ نکاح میں دوام اور ہمیشگی مطلوب ہے اور اس میں ایک طرح سے اس کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے اس لیے کراہت سے خالی نہیں ہے، چنانچہ مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں :

عقد کرنے والوں میں سے دونوں یا ان میں کوئی ایک یہ ارادہ رکھے کہ ایک مدت کے بعد اس رشتہ کو ختم کر دے گا تو اس سے نکاح کی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا، البتہ شریعت کی نگاہ میں نکاح ایک دائمی عقد ہے ، اس لیے میاں بیوی سے مطلوب ہے کہ وہ اس رشتے کو برقرار رکھیں اور شدید مجبوری ہی میں اسے ختم کریں اور نکاح کے شروع ہی میں دل میں علاحدگی کا ارادہ رکھنا اس مقصد کے خلاف ہے، لہذا دیانتاً یہ کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لیے اس طرح کے نکاح کو اسی وقت اختیار کیا جائے جب کہ شہوت کا غلبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو[بحوث فی قضایا فقہیۃ 328/1]

البتہ نکاح مسیار کی اس صورت کے بارے میں اس پر غور کرنا چاہیے کہ وقتی ازدواجی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعلیم و تربیت کیسے ہوگی اور وہ کس کے زیر سایہ نشو و نما پائیں گے ، نیز وراثت سے متعلق مسائل کیسے حل ہوں گے؟ کیونکہ شوہر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس چلا جائے گا اور وہاں خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرے گا۔

نیز یہ اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا ذریعہ ہے اس لئے فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی نے اس نکاح کو ممنوع قرار دیا ہے ۔(1)

 

(1)الزواج بنية الطلاق وهو زواج توافرت فيه أركان النكاح وشروطه وأضمر الزوج في نفسه طلاق المرأة بعد مدة معلومة كعشرة أيام ، أو مجهولة، كتعليق الزواج على إتمام دراسته أو تحقيق الغرض الذي قدم من أجله.

وهذا النوع من النكاح على الرغم من أن جماعة من العلماء أجازوه إلا أن المجمع يرى منعه لاشتماله على الغش والتدليس، إذ لو علمت المرأة أو وليها بذلك لم يقبلا هذا العقد.

ولأنه يؤدي إلى مفاسد عظيمة وأضرار جسيمة تسيء إلى سمعة المسلمين.(فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی ۔اٹھارہواں سیمینار 10-4-2006ء)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے