بسم الله الرحمن الرحيم.
سلسله(3)
عدت سے متعلق نئے مسائل:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
3-عدت میں موبائل کے ذریعے گفتگو ۔
عدت کے دوران بات چیت کے معاملے میں کوئی اضافی شرط عائد نہیں کی گئی ہے بلکہ عام حالات میں جن شرطوں کے ساتھ غیر محرم مردوں سے گفتگو کی جاسکتی ہے عدت کے دوران بھی ان کا لحاظ رکھتے ہوئے گفتگو کرنا جائز ہے ۔
یعنی بوقت ضرورت صرف ضرورت کے بقدر گفتگو کرنا ،شیریں اور لوچدار گفتگو سے بچنا اور سپاٹ لہجے اور سادہ انداز میں بات کرنا ،ہنسی ،مذاق اور بے تکلفی سے احتراز کرنا وغیرہ نیز بات کرنے میں کسی فتنے کے اندیشے کا نہ ہونا(1) ۔چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا .
اے نبی کی بیویو ! اگر تم تقوی اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو۔ ( سورہ الاحزاب : 32)
تفسیر:
اس آیت نے خواتین کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اس میں جان بوجھ کر نزاکت اور کشش پیدا نہیں کرنی چاہیے، البتہ اپنی بات کسی بد اخلاقی کے بغیر پھیکے انداز میں کہہ دینی چاہیے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عام گفتگو میں بھی خواتین کو یہ ہدایت کی گئی ہے تو غیر مردوں کے سامنے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھنا یا گنگنانا کتنا برا ہوگا۔
( آسان ترجمۂ قرآن۔از مفتی محمد تقی عثمانی۔)
(1)فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اه.(البحر الرائق: (285/1، ط: دار الكتاب الإسلامي.رد المحتار ،کتاب الصلاۃ ،باب شروط الصلاۃ406/1)
وَفِيهِ جَوَازُ سَمَاعِ كَلَامِ الْأَجْنَبِيَّةِ وَمُرَاجَعَتِهَا الْكَلَامَ لِلْحَاجَةِ.
(شرح النووي على مسلم: (212/13، ط: المطبعة المصریة بالازھر)
حكم صوت المرأة :وقع الخلاف في صوت المرأة ،أنه من العورة فلا يجوز أن تتكلم بحيث يسمعها الأجانب ،أو ليس بعورة فيرخص لها في التكلم ،والحق الحقيق عند أرباب التحقيق ، وهو أن صوت المرأة ليس بعورةفي نفسه إلا أنه قد يكون سببا للفتنة ،فكان من القسم الثاني من سد الذرائع ،فدار حكمه على الفتنة وعدمها فحيث خيفت الفتنة حرام إبدائه وحيث لا ،فلا ،كيف وقد حرم الله سبحانه و تعالى إظهار صوت الخلخال وأمثاله فقال:ولا يضربن بأرجلهن ،لمظنةالفتنة فكيف يجوز إظهار صوت نفسها مطلقا.(احكام القران للجصاص: 482/3)