غیرمسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
غیرمسلموں کے درمیان رہائش پذیر ہونا:
جب دو مختلف تہذیبوں کا اجتماع اور اختلاط ہوتاہے تو اثر اندازی اور اثر پذیری کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے، جس میں غالب تہذیب کا اثر نمایاں ہوتاہے، ہندوستانی مسلمانوں میں جو طرح طرح کے رسوم و رواج اور بدعات و خرافات پائے جاتے ہیں وہ سب ہندو تہذیب و ثقافت سے اثر پذیری کا نتیجہ ہیں۔ حالانکہ اسلام اس کے سلسلہ میں بڑا حساس ہے اور تہذیبی اختلاط اور غیروں کے طور طریقوں کی مشابہت کسی بھی درجے میں اسے گوارا نہیں ہے کہ درحقیقت یہ صرف ظاہری مشابہت نہیں ہے بلکہ باطنی مرعوبیت کی علامت ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے میرے جسم پر زعفرانی کپڑا دیکھ کر فرمایا:
ان ھذہ من ثیاب الکفار فلا تلبسھما
یہ کافروں کا لباس ہے ، اسے مت پہنو۔( صحیح مسلم /804)
حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
ان الیھود والنصاری لایصبغون فخالفوھم
یہودونصاری خضاب نہیں لگاتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو اور خضاب لگاؤ۔(صحیح بخاری /1261)
مشرکین مکہ بھی پگڑی باندھتے تھے اور مسلمان بھی، دونوں کے درمیان فرق کی صورت کیا ہو، اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا کہ تم پگڑی کے نیچے ٹوپی پہنا کرو۔(فرق ما بیننا و بین المشرکین العمائم علی القلانس۔ سنن ابوداود/609)
اسی طرح سے بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھانے سے منع فرمایاہے کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے۔(لاتقطعوا اللحم بالسکین فانہ من صنیع الاعاجم وانھسوا نھسا ۔سنن ابو داؤد/۵۷۰)
ایک صحابی کے ہاتھ میں فارسی کمان دیکھ کر فرمایا کہ اسے پھینک دو اور عربی کمان استعمال کرو۔(سنن ابن ماجہ/939. سندہ ضعیف)
اس طرح کی روایتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تہذیبی اور ثقافتی مشابہت کو اسلام میں کس درجہ ناپسند کیا گیاہے اور غیروں کے ساتھ رہنے میں اس سے بچنا بہت مشکل ہے ، اس لیے احادیث میں مسلمانوں کے لیے ایسی جگہ رہنے کو پسند کیاگیا ہے جہاں ان پر غیراسلامی تہذیب کی چھاپ نہ پڑے بلکہ ایسی جگہ جہاں فکر و عقیدہ کی آزادی حاصل نہ ہو، عبادات اور اسلامی شعائر پر پابندی ہو،وہاں سے نقل مکانی ضروری اور فرض قرار دیاگیاہے، ایسی حالت میں استطاعت کے باوجود غیرمسلموں کے درمیان رہنا سخت وعید کا باعث ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے۔
لایقبل اللہ عز و جل من مشرک بعد ما اسلم عملا أو یفارق المشرکین الی المسلمین۔
کوئی مشرک اسلام قبول کرلے تو اللہ کے یہاں اس وقت تک اس کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہ ہوگا جب تک کہ وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں سے نہ آملے۔( حوالہ سابق /848وسندہ حسن، نیز دیکھئے مسند احمدبن حنبل 5/5-4)
حضرت سمرہ بن جندب سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
من جامع المشرکین و سکن معہ فھو مثلہ
جوشخص مشرکوں کے ساتھ جمع ہو اور ان کے ساتھ رہے وہ انھیں جیسا ہے ۔۔( ابوداؤد/425)
علامہ خلیل احمد سہارنپوری حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں مشرکین کے ساتھ جمع ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ رسوم و رواج ، عرف و عادت، ہیئت اور لباس میں ان جیسا بن جائے اور ان کے ساتھ رہنا ان جیسا بن جانے کی وجہ اور سبب ہے ، ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا حکم کافروں جیسا ہی ہوگا اور ’’فتح الودود‘‘ میں اللہ کے رسول ﷺ کے قول فانہ مثلہ(وہ انھیں جیسا ہے) کی شرح میں لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ انھیں جیسا ہوجائے کیونکہ پڑوس اور صحبت کا اثر یقینی ہے۔(والاحسن ان یقال اجتمع معہ ای اشترک فی الرسوم والعادۃ والھیئۃ والزی واما قولہ ’’سکن معہ‘‘ علۃ لہ ای سکناہ معہ صار علۃ لتوافقہ فی الھیئۃ والزی والخصال ’’فانہ مثلہ‘‘ وعن فتح الودود فانہ مثلہ ای یقارب ان یصیر مثلاً لتاثیر الجواد والصحبۃ۔ بذل المجھود 426/12 )
علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ بظاہر ان کے ساتھ سکونت پذیر ہونا ان کے اخلاق اور اعمال بد کے ساتھ مشابہت کا سبب ہے بلکہ عقیدہ و فکر بھی متاثر ہوسکتاہے، لہٰذا کافر کے ساتھ رہنے والا انھیں کی طرح ہوجائے گا۔(فمساکنتھم فی الظاھر سبب و مظنہ لمشابھتھم فی الاخلاق والافعال المذمومۃ بل فی نفس الاعتقادات فیصیر ساکن الکافر مثلہ ۔ عون المعبود479/7)
حضرت جریر بن عبداللہ سے منقول ایک روایت میں ہے :
بعث رسول اللہ ﷺ سریۃ الی خثعم فاعتصم ناس منھم بالسجود فاسرع فیھم القتل فبلغ ذلک النبی ﷺ فامر لھم بنصف العقل و قال انا بری من کل مسلم مقیم بین اظھر المشرکین قالوا یا رسول اللہ لم ؟قال: لاتترای ناراھما.
اللہ کے رسول ﷺ نے قبیلہ خثعم سے جنگ کے لیے ایک دستہ روانہ فرمایا، مسلم فوجیوں کو دیکھ کر کچھ لوگ قتل سے بچنے کے لیے ایمان کے اظہار کے طور پر سجدہ میں چلے گئے لیکن یہ لوگ قتل کردئے گئے، اللہ کے رسول ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے آدھی دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان قیام پذیر ہو، لوگوں نے دریافت کیاکہ اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا کہ تاکہ وہ ایک دوسرے کی آگ کو نہ دیکھ سکیں۔(ابوداؤد/400 الجامع للترمذی 193/1)
حدیث کی وضاحت میں علامہ خطابی نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ عربی زبان میں "نار” کا اطلاق سیرت اور اخلاق پر بھی ہوتا ہے اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے کافروں کے ساتھ رہنے سے اس لیے منع فرمایا تاکہ مسلمان ان کی سیرت اور عادات و اطوار سے متاثر نہ ہوں۔(معالم السنن 272/2۔ قال بعضھم ان اللہ قد فرق بین داری الاسلام والکفر فلا یجوز لمسلم ان یساکن الکفار فی بلادھم حوالہ مذکور ، قال فی النھایۃ ای یلزم المسلم و یجب علیہ ان یتباعد منزلہ عن منزل المشرک ۔شرح السیوطی علی النسائی 36/8)
مولانا بدر عالم میرٹھی نے اپنے مخصوص انداز میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کفار سے دور رہنے کا جو حکم یہاں دیا گیا ہے وہ صرف اسی لیے ہے کہ اسلامی معاشرہ کفر کے اثرات سے متاثر نہ ہو، یہ خطرہ وہیں پیدا ہوسکتاہے جہاں اسلام کو اقتدار و طاقت حاصل نہ ہو، جہاں اسلام کو شوکت وطاقت حاصل ہو وہاں عقلی اور نفسیاتی اعتبار سے تاثر کا سوال ہی نہیں ہوتا ہے، حدیث مذکور میں ’’لاتترای نارھما‘‘ کا فقرہ ایسے ہی ماحول میں ارشاد فرمایا گیا ہے،جہاں مسلمان مقہوری کی زندگی بسر کر رہے تھے ، پس معاشرتی اور معاشی بعد(دوری) کا حکم اسی جگہ ہے جہاں کفر کا اقتدار ہو ، کوئی شبہ نہیں کہ ایسی فضامیں گھس رہنا اسلامی اسپرٹ کو فنا کردینے کے مترادف ہے ، اس لیے اگر علاحدہ ہونے کی طاقت نہ ہوتو کم از کم اس زندگی کی کراہت سے کسی وقت قلب خالی نہ رہنا چاہیے اور صرف کراہت ہی نہیں بلکہ عملاً اس سے نجات کا راستہ تلاش کرنابھی زندگی کا نصب العین بنانا چاہیے۔( ترجمان السنۃ152/2)
حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی نظری اور استدلالی مسئلہ نہیں کہ اس کے لیے دلیل اور غور و فکر کی ضرورت ہے بلکہ یہ تو مشاہداتی اور تسلیم شدہ معاملہ ہے کہ جہاں دوسری تہذیب کو غلبہ اور اقتدار حاصل ہو اور مسلمان کمزوری اور مجبوری کی زندگی بسر کر رہے ہوں وہاں اس غالب تہذیب کا اثر قبول کرنا یقینی ہے بلکہ اس کے لیے اقتدار بھی ضروری نہیں ہے بلکہ تعداد میں اکثریت کافی ہے، اسی بنیاد پر فقہاء نے لکھاہے کہ دارالاسلام کے کسی شہر میں غیرمسلموں کو اتنی تعدادمیں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی کہ اس کی وجہ سے مسلمان اقلیت میں آجائیں کیونکہ اقلیت پر اکثریت کا اثر پڑنا لازمی ہے۔(فان مصر الامام فی اراضیھم للمسلمین ، فاشتری بھا اہل الذمۃ دوراً وسکنوا مع المسلمین لم یمنعوا من ذالک فانا قبلنا منھم عقدا لذمۃ لیقفوا علی محاسن الدین فعسی ان یومنوا واختلاطھم مع المسلمین والسکن معھم یحقق ھذا المعنی وکان الحلوانی یقول ھذا اذا قلوا وکان بحیث لاتتعطل جماعات المسلمین ولا تقلل الجماعۃ بسکناھم ھذہ الصفۃ فاذا کثروا علی وجہ یودی الی تعطیل بعض الجماعات او تقلیلھا منعوا من ذالک… ان الذی یجب ان یعول علیہ التفصیل فلا نقول بالمنع مطلقاً ولا بعدمہ مطلقاً بل یدور الحکم علی القلۃ والکثرۃ والضرر والمنفعۃ ھذا ھو الموافق للقواعد الفقھیۃ ۔رد المحتار338/6، زکریابکڈپوپو دیوبند)
لہٰذا عام حالات میں غیرمسلم اکثریتی علاقے میں مسلمانون کا سکونت پذیر ہونا جائز نہیں ہے بلکہ وہاں سے نقل مکانی کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اور اس کی نسل غیر اسلامی تہذیب و تمدن کے اثرات بد سے محفوظ رہے۔ خصوصاً ہندوستان کے فسادات کے پس منظر میں مخلوط آبادی میں قیام کرنا حفاظتی نقطہ نظر سے بھی غلط ہے۔
لیکن اگر کسی کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ غیروں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ان سے متاثر نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے اخلاق و کردار سے اسلام کا مبلغ ثابت ہوگا تو ایسے شخص کا ان کے درمیان رہنا ہی باعث ثواب ہے، اس لیے کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام اور بزرگان دین نے مختلف شہروں اور ملکوں میں اقامت اختیار کی جبکہ وہاں ان کے سوا کوئی دوسرا اللہ کا نام لیوا نہ تھا،یہ انھیں کی کوششوں اور دعاؤں کا اثرہے کہ دنیاکے ہر حصے میں اسلام کے علمبردار موجود ہیں۔ تاہم یہ ایک مخصوص معاملہ ہے ، موجودہ حالات میں مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جس میں متاثر کرنے کی صلاحیت کم ہے اور متاثر ہونے کاجذبہ زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں ساتھ رہنے کی وجہ سے جو شکایتیں پیداہوتی ہیں غیرمسلم انھیں اسلام کے خانے میں ڈال دیتے ہیں جوان کے لیے اسلام سے دوری اور دشمنی کا بڑا سبب ہے، لیکن اس سے یہ سمجھنا غلط ہوگاکہ اسلام انفرادیت اور علاحدگی کے جذبات پیدا کرتا ہے اور دوسروں کے ساتھ ربط و ضبط اور تعلق کا روادار نہیں ہے ، کیونکہ وہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور محبت کا درس دیتاہے، البتہ تہذیبی اختلاط اور کسی دوسرے مذہب میں ضم ہونا اسے گوارا نہیں اور اسلامی شناخت کی حفاظت کے لیے گھر سے بے گھر ہونے کی صرف ترغیب ہی نہیں بلکہ حکم دیتاہے۔
غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت اور مبارکبادی:
قرآن حکیم میں رحمان کے بندوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے۔
والذین لایشھدون الزور واذا مروا باللغو مروا کراما(سورۃ الفرقان:72)
جولوگ جھوٹے کاموں میں شامل نہیں ہوتے ہیں اور کھیل کی جگہوں سے گذرتے ہیں تو شرافت کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔
اس آیت میں لفظ’’زور‘ ‘سے متعدد چیزیں مراد ہیں، جن میں مشرکوں کاتہوار بھی ہے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ ’’زور‘‘ مشرکوں کا تہوار ہے۔ (الزور عید المشرکین. احکام اھل الذمۃ 722/2) اسی طرح کی تفسیر امام مجاہد، ابن سیرین اور ضحاک سے بھی منقول ہے۔( مختصر اقتضاء صراط المستقیم /178 )
حضرت انس ؓ سے منقول ایک روایت میں ہے :
قدم رسول اللہ ﷺ المدینۃ ولھم یومان یلعبون فیھما فقال ما ھذان الیومان قالوا کنا نلعب فیھما فی الجاھلیۃ فقال رسول اللہ ﷺ ان اللّٰہ قد ابد لکم بھما خیرا منھما یوم الاضحی ویوم الفطر۔(ابوداؤد/177 ورواہ احمد و النسائی وقال ابن تیمیہ ھذا اسناد علی شرط مسلم۔ مختصر اقتضاء صراط المستقیم/183)
اللہ کے رسول ﷺ مدینہ تشریف لائے دیکھاکہ وہاں کے لوگ سال کے دو مخصوص دنوں میں کھیلا کودا کرتے تھے ، ان سے پوچھا کہ یہ کیسے دو دن ہیں؟ کہاگیا جاہلیت میں ہم ان دنوں کھیل کود کیاکرتے تھے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر دن عنایت کی ہے ، عیدالاضحی اور عید الفطر کا دن۔
اللہ کے رسول ﷺ نے جاہلیت کے تہوار کو ختم کردیا اور ان دنوں میں انھیں کھیل کود کرنے کی اجازت نہیں دی اور فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تمہیں دوسرے دو دن عنایت کیے ہیں اور تبدیل کا مفہوم ہے کہ جس کے بدلے میں یہ دن ملے ہیں وہ ترک کردینے چاہیے، لہٰذا تبدیلی کے باوجود ان کے تہواروں میں شرکت معصیت ہوگی بلکہ غیرمسلموں کے موجودہ تہواروں میں شرکت،جاہلیت کے تہواروں سے زیادہ قبیح اور خطرناک ہے؛ کیونکہ امت مسلمہ کو یہود و نصاریٰ کی مشابہت سے منع کیاگیاہے اور ان میں شرکت ان کے ساتھ مشابہت ہے۔(دیکھئے مختصر اقتضاء صراط المستقیم /185/183)
ایک دوسری حدیث میں ہے :
نذر رجل علی عہد رسول اللہ ﷺ ان ینحر ابلا ببوانۃ فقال النبی ﷺ :ھل کان فیھا وثن من اوثان الجاھلیۃ یعبد؟ قالوا: لا. قال: فھل کان فیھا عید من اعیادھم ؟قالوا: لا .قال رسول اللہ ﷺ :اوف بنذرک(السنن لابی داؤد/65 )
اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں ایک شخص نے ’’بوانہ‘‘ نامی جگہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، اللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت ہے جس کی پرستش کی جاتی ہو؟
لوگوں نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیا وہاں جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار منایا جاتاہے ؟ کہاگیا:نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :جاؤ اپنی نذر پوری کرو۔
جب ان کے تہوار کی جگہ پر نذر کا جانور ذبح کرنا ممنوع ہے ، حالانکہ اس وقت وہاں تہوار منایا نہیں جاتا تھا تو ان کے تہواروں میں شرکت ضرور ممنوع ہوگی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کو ولیمہ کی دعوت ملی، موقع پر حاضر ہوئے، وہاں خرافات دیکھ کر واپس آگئے اور فرمایاکہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا ہے :
من کثر سواد قوم فھو منھم ومن رضی عمل قوم کان شریک من عمل بہ۔(نصب الرایۃ 346/4-347 )
جوکسی قوم کی تعدادمیں اضافہ کرے تو اس کا شمار انھیں میں ہوگا۔ جو کسی قوم کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس عمل میں ان کا شریک ہوگا۔
اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے
لاتدخلوا علی المشرکین فی کنائسھم یوم عیدھم فان السخطۃ تنزل علیھم۔( احکام اھل الذمۃ 723/2)
مشرکوں کے تہواروں کے موقع پر ان کی عبادت گاہوں میں مت جاؤ کیونکہ وہاں اللہ کی ناراضگی برستی رہتی ہے۔
نیز وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کے دشمنوں سے ان کے تہواروں کے موقع پر اجتناب کرو۔ (اجتنبوا اعداء اللہ فی عیدھم. مختصر اقتضاء صراط المستقیم /198)
علامہ ابن القیم نے لکھا ہے کہ اہل علم کا اتفاق ہے کہ مشرکوں کے تہوار کے موقع پر وہاں حاضری اور تعاون مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے اور ائمہ اربعہ کے تابع فقہاء نے بھی صراحتاً اسے ناجائز قرار دیاہے۔(فلایجوز للمسلمین ممالاتھم علیہ ولا مساعدتھم ولا الحضور معھم باتفاق اھل العلم الذین ھم اھلہ وقد صرح الفقھاء من اتباع الائمۃ الاربعۃ فی کتبھم ۔احکام اھل الذمۃ 722/2)
مولانا رشید احمد گنگوہی سے دریافت کیاگیا:
کفار کے میلوں میں مثل گنگا و ہری دوار وغیرہ میں جاکر مال فروخت کرنا درست ہے یا نہیں، اگر قرض دار ہو اور امید فروختگی مال کی ہوکہ قرض ادا ہوجائے گا تو کیا کرے۔
انھوں نے جواب دیا:
ہر گز جانا درست نہیں ہے ، اگرچہ قرض دار ہو اور امید فروخت مال اور نفع کثیر کی ہو، مطلقاً شرکت ایسے مواقع کی گناہ اور حرام ہے۔( فتاویٰ رشیدیہ 1/60)
ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کے مذہبی اجتماعات اور میلوں وغیرہ میں شرکت نادرست ہے کہ ان تہواروں کا ایک مشرکانہ پس منظر ہے ، ان سے مذہبی عقیدتیں وابستہ ہیں، اسی طرح سے انھیں ان تہواروں کے موقع پر مبارکباد دینا بھی ناجائز ہے۔(اما التھنئۃ بشعائر الکفر المختصۃ بہ فحرام بالاتفاق مثل ان یھنئھم باعیادھم وصومھم فیقول ’’عید مبارک علیک‘‘ او تھنأ بھذا العید ونحوہ فھذا ان سلم قائلہ من الکفر فھو من المحرمات وھو بمنزلۃ ان یھنئہ بسجودہ للصلیب بل ذلک اعظم اثما عند اللہ واشد مقتا من التھنئۃ بشرب الخمر وقتل النفس وارتکاب الفرج الحرام۔ (احکام اھل الذمۃ 206/1)
البتہ غیر مذہبی اجتماعات وغیرہ میں شرکت درست ہے ، اسی طرح سے دعوت و تبلیغ کے مقصد سے مذہبی اجتماعات اور تہواروں میں بھی شرکت جائز ہے ۔ عکاظ وغیرہ کے میلوں میں اللہ کے رسول ﷺ کی شرکت ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے۔
تہواروں میں مسلم قصاب کا گوشت فروخت کرنا:
کفار کے میلوں میں مسلمان قصاب کے لیے برائے فروخت جانور ذبح کرنا بھی ممنوع ہے کیونکہ مطلقاً ان کے تہواروں میں شرکت نادرست ہے اور یہ ایک طرح سے معصیت کے لیے تعاون ہے ، علامہ ابن القیم لکھتے ہیں:
لایحل للمسلمین ان یبیعوا من النصاری شیئا من مصلحۃ عیدھم لا لحما ولا ادما ولا ثوبا ولا یعارون دابۃ ولا یعاونون علی شیء من عیدھم لان ذلک من تعظیم شرکھم وعونھم علی الکفر وھو قول مالک وغیرہ لم اعلمہ اختلف فیہ۔(احکام اھل الذمۃ 725/2)
مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ نصاری کو ایسی چیز فروخت کریں جوان کے عید میں کام آسکے، نہ گوشت، نہ شوربا، نہ کپڑا اور نہ ہی عاریت پر انھیں سواری دی جائے، ان کے عید سے متعلق کسی بھی چیز میں ان کا تعاون نہ کیاجائے، اس لیے کہ اس میں شرک کی تعظیم اور کفر پر مدد ہے۔ یہی امام مالک کا قول ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف ہے۔
غیرمسلموں کے تحفے اور پرشاد:
غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے معاملات اور خوشگوار تعلقات کی ممانعت نہیں ، ہدیہ اور تحفہ کا تبادلہ تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ، اس لیے غیرمسلموں کا تحفہ قبول کرنے اور انھیں تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، خود اللہ کے رسول ﷺ نے غیرمسلموں کے تحائف قبول کیے ہیں اور انھیں ہدیہ دیا بھی ہے ۔(عن انس ان اکیدر دومۃ اھدی الی النبی ﷺ الصحیح للبخاری 356/1 ، باب ھدیۃ المشرکین۔ اھداھن الی عظیم فدک فاقبضھن رواہ ابوداؤد وقال الشوکانی رجال اسنادہ ثقات ۔نیل الاوطار 6/2) وقال الالبانی صحیح الاسناد ۔السنن لابی داؤد/467۔ اھدی فروہ الجذامی الی رسول اللہ ﷺ بغلۃ بیضاء رکبھا یوم حنین ۔صحیح مسلم،نیل الاوطار 6/3، ان امیر القبط اھدی الی رسول اللہ ﷺ جاریتین وبغلۃ ، رواہ ابن خزیمۃ وغیرہ ان یھودیۃ اتت النبی بشاۃ مسمومۃ فاکل منھا رواہ البخاری وغیرہ،نیل الاوطار 6/3)
اور صحابہ کرام کے لیے بھی اس کی اجازت تھی۔ حضرت عامر بن عبداللہ سے منقول ہے :
قدمت قتیلہ بنت عبدالعزی علی ابنتھا اسماء بھدایا ضباب واقط وسمن وھی مشترکۃ فابت اسماء ان تقبل ھدیتھا وتدخلھا بیتھا فسالت عائشۃ النبی ﷺ فانزل اللہ تعالیٰ ’’لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین الی آخرالآیۃ‘‘ فامرھا ان تدخل بیتھا وان تقبل ھدیتھا.رواہ احمد والطبرانی مرسلاً وفی اسنادھما مصعب بن ثابت ضعفہ احمدوغیرہ ووثقہ ابن حبان وقد اخرجہ ابن سعد وابوداؤد الطیالسی والحاکم من حدیث عبداللہ بن الزبیر متصلا.نیل الاوطار 6/3)
قتیلہ بنت عبدالعزی اپنی بیٹی حضرت اسماء کے پاس کھجور کا مالیدہ ، پنیر اور گھی بطور تحفہ لے کر مدینہ آئیں، وہ شرک پر قائم تھیں، اس لیے حضرت اسماء نے ان کا تحفہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھیں اپنے گھر آنے کی اجازت نہیں دی، حضرت عائشہؓ نے اس سلسلہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا کہ اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتاہے جنھوں نے دین کے سلسلہ مین تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالنے میں کوئی کردار ادا کیا، اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں حکم دیاکہ ان کے ہدیہ کو قبول کرلیں اورانھیں گھر آنے دیں۔
صحیح بخاری وغیرہ میں یہ واقعہ ان الفاظ میں مذکور ہے:
اتتنی امی راغبۃ فی عھد قریش وھی مشرکۃ فسالت النبی ﷺ اصلھا قال نعم، قال ابن عیینۃ فانزل اللہ فیھا لاینھاکم اللہ …(النیل 6/3)
بعض روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے غیرمسلموں کے تحائف قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایاکہ مجھے مشرکین کے ہدیہ سے منع کیاگیا ہے۔( انی نھیت عن زبد المشرکین.رواہ احمد و ابوداؤد والترمذی وصححہ ۔نیل الاوطار 6/4)
ان مختلف روایات میں موافقت پیداکرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان مشرکوں کا ہدیہ قبول کیا ہے جن کے متعلق امید تھی کہ اس کی وجہ سے ان کا دل اسلام کی طرف مائل ہوگا اور جن کے متعلق اس طرح کی امید نہ تھی ان کے ہدیہ کو رد کردیا۔( فتح الباری 231/5)
دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ جس کے متعلق احساس ہوا کہ وہ اپنے تحفہ کے ذریعہ احسان جتلائے گا اس کو رد کردیا اور جس کے ہدیہ میں خلوص محسوس ہوا اسے قبول کرلیا۔
لہٰذا خوشگوار تعلقات ، دلجوئی اور اسلام سے قریب کرنے کے مقصد سے غیرمسلموں کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کیا جاسکتاہے اور شادی بیاہ ، بچے کی پیدائش کے مواقع پر ان کے تحفے قبول کیے جاسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مذہبی تقریبات اور تہوار کے تحائف میں بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اسے بتوں پر نہ چڑھایا گیا ہو، چنانچہ حضرت علیؓ ، عائشہؓ اور ابو برزہؓ سے منقول ہے کہ انھوں نے مجوس کے عید کے تحائف کے قبول کرنے کو جائز قرار دیاہے۔(ان امرأۃ سألت قال ان لنا اظارا من المجوس وانہ یکون لھم العید فیھدون لنا قالت اما ما ذبح لذلک الیوم فلا تاکلوا ولکن کلوا من اشجارھم)
اس طرح کے آثار کو نقل کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فھذا کلہ تدل علی انہ لاتاثیر للعید فی المنع من قبول ھدیتھم بل حکمھا فی العید وغیرہ سواء لانہ لیس فی ذلک اعانۃ لھم علی شعائر کفرھم (مختصراقتضاء صراط المستقیم/241/240)
البتہ مذہبی تقریبات اور تہوار کے موقع پر انھیں تحفہ دینا درست نہیں ہے کہ یہ ایک طرح سے اس میں تعاون ہے اور ان کے اس عمل سے راضی ہونے کی علامت ہے۔(وکرہ ابن القاسم لمسلم یھدی للنصاری شیئا فی عیدھم مکافاۃ لھم وراہ من تعظیم عیدھم وعونا لھم علی مصلحۃ کفرھم .مختصرالاقتضاء/234) اور ذخیرہ میں ہے :
لاینبغی للمومن ان یقبل ھدیۃ الکافر فی یوم عیدھم ولو قبل لایعطیھم ولایرسل الیھم۔
مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ کافروں کے تہوار کے موقع پر ان کے تحفے کو قبول کرے اور اگر قبول کر لے تو پھر انہیں اس کے بدلے میں کوئی تحفہ نہ دے۔(فتاویٰ عبدالحئی /403)
مولانا گنگوہی نے بھی دیوالی اور ہولی وغیرہ کے تحفہ کو جائز قرار دیا ہے . (فتاویٰ رشیدیہ 123/2)
پوجا اور چڑھاوے کی مٹھائی جسے پرشاد کہا جاتا ہے اسے قبول کرنا اور کھانا جائز نہیں ہے، قرآن حکیم میں ہے :
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیراللہ۔ (سورۃ البقرہ/173)
اللہ نے تمہارے لیے حرام قرار دیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور اس جانور کو جسے اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نامزد کر دیا گیا ہو۔
غیراللہ کے لیے متعین کردہ جانور کا گوشت حرام ہے ، گرچہ بوقت ذبح اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، کیونکہ اس میں غیر اللہ کی عظمت اور قربت کا پہلو پایا جاتا ہے اور ان کی خوشنودی اور رضا جوئی کی خاطر خون بہایا جاتاہے اور اسلام کی نگاہ میں یہ شرک ہے، حرمت کی یہ وجہ جانور کے علاوہ دیگر چڑھاوے اور پرشاد میں بھی ہے ، اس لیے وہ بھی حرام ہے، چنانچہ مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھتے ہیں:
غلہ و شیرینی وغیرہ جو عوام شوالوں اور تعزیوں اور قبروں پر چڑھاتے ہیں، مقصود ان کی نذر لغیراللہ ہوتی ہے اور فقہاء نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ نذر لغیر اللہ حرام ہے اور اس چیز کا کھانا بھی حرام ہے۔(فتاویٰ عبدالحئی/408)
انھوں نے البحرالرائق کی طویل عبارت بطور دلیل نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’للاجماع علی حرمۃ النذر للمخلوق…وانہ حرام بل سحت…فاذا علمت ھذا فما یوخذ من الدراھم والزیت والشمع وغیرھا وتنقل الی ضرائح الاولیاء تقربا الیھم فحرام باجماع المسلمین.
حضرت تھانوی ؒ اور مفتی شفیعؒ سے بھی اس طرح کے فتاوے منقول ہیں ( معارف القرآن 368/1، امداد الفتاویٰ 97/4)
غیرمسلموں کے جلوس جنازہ میں شرکت:
غیرمسلم کی عیادت اور مزاج پرسی جائز اور درست ہے کہ یہ انسانیت کا تقاضا ہے اور سماجی تعلقات کو خوشگوار بنانے کا بہترین ذریعہ ہے ، اس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے دوری ختم ہوگی، خود اللہ کے رسول ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے جیساکہ حضرت انسؓ سے منقول ہے:
کان غلام یھودی یخدم رسول اللہ ﷺ فمرض فاتاہ النبی ﷺ یعودہ فقعد عند راسہ قال لہ اسلم فنظر الی ابیہ فقال لہ اطع ابا القاسم فاسلم فخرج النبی ﷺ وھو یقول الحمدللہ الذی انقذہ بی من النار(رواہ احمدوالبخاری وابوداؤد۔نیل الاوطار 68/8)
ایک یہودی لڑکا اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا،جب وہ بیمار ہوا تو اللہ کے رسول ﷺ عیادت کے لیے اس کے پاس حاضر ہوئے اور سرہانے بیٹھ کر فرمایا اسلام قبول کرلو، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، ادھر سے جواب ملا کہ ابوالقاسم ؐ کی بات مان لو، یہ سن کر وہ مسلمان ہوگیا ، اللہ کے رسول ﷺ اس کے پاس سے یہ کہتے ہوئے باہر آئے کہ تمام تعریف اللہ کے لیے جس نے میرے ذریعہ اسے آگ سے نجات دی۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب رد المحتار میں ہے:
(جازعیادتہ) ای عیادۃ مسلم ذمیا نصرانیا أو یہودیا لانہ نوع بر فی حقھم وما نھینا عن ذلک وصح ان النبی ﷺ عاد یھودیا مرض بجوارہ ۔
کسی مسلمان کے لیے ذمی یعنی نصرانی یا یہودی کی عیادت کرنا جائز ہے اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی نیکی ہے اور ہمیں اس سے منع نہیں کیا گیا ہے اور صحیح روایت یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کی عیادت کی تھی جو آپ کے پڑوس میں بیمار پڑ گیا تھا
( رد المحتار556/9 ۔احکام اھل الذمۃ 200-201-202)
اسی طرح سے غیرمسلموں کی تعزیت بھی جائز ہے کہ اس کے عزیز اور رشتہ دار کی وفات کے موقع پر جاکر تسلی آمیز الفاظ کہے جائیں اور ہمدردی کا اظہار کیاجائے، جس کا طریقہ فقہاء نے یہ لکھا ہے کہ اس کے کسی بچے کی وفات پر کہا جائے کہ اللہ تجھے اچھا جانشین عطا فرمائے اور تمہیں اچھی طرح سے رکھے۔(اخلفک الہ علیک خیرا منہ واصلحک)اور ذہن میں یہ مفہوم رہے کہ اللہ تجھے اسلام کی توفیق دے جس کے ذریعہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ اچھی طرح سے رہو اور تمہیں مسلم اولاد عطا کرے۔( رد المحتار 557/9)
علامہ ابن القیم نے بعض حضرات سے تعزیت کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
علیک بتقوی والصبر، اکثر اللہ مالک و ولدک واطال حیاتک لایصیبک الاخیرا.( احکام اھل الذمۃ 204/1-205 )
امام ابویوسف کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے دریافت کیاکہ کسی یہودی یا نصرانی کے بچے یا رشتہ دار کی وفات ہوجائے تو اسکی تعزیت کس طرح سے کی جائے؟ فرمایا کہ یہ کہو کہ اللہ نے ہر ایک کے لیے موت لکھ دی ہے ، اس سے کسی کو چھٹکارا نہیں، تمہیں اللہ اس سے بہتر چیز عطا کرے ، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مصیبت پر صبر کرو۔(ابویوسف، کتاب الخراج /216، ط دارالمعرفہ بیروت ، لبنان 1979ء)
تعزیت کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتاہے کہ اس موقع پر بھی کوئی ایسا لفظ کہنے کی اجازت نہیں ہے جو اسلامی عقید ے اور نظریے کے خلاف ہو۔
کسی مشرک کا جنازہ گذر رہا ہوتو احترام انسانیت کے پیش نظر کھڑا ہوجانا بھی جائز اور درست ہے ، حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت سہل بن حنیف اور قیس بن سعید قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی غیرمسلم کا جنازہ گذرا جسے دیکھ کریہ دونوں حضرات کھڑے ہوگئے ، ان سے کہا گیا کہ یہ تو غیرمسلم کا جنازہ تھا، انھوں نے جواب دیا:
ان النبی ﷺ مرت بہ جنازۃ فقام فقیلہ لہ انھا جنازۃ یھودی فقال الیست نفسا(الصحیح للبخاری مع فتح الباری 179/3)
نبی ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گذرا آپ کھڑے ہوگئے، کہاگیا یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ ارشاد فرمایا: کیا یہ نفس(جان ) نہیں ہے ۔
اسی طرح سے کسی غیر مسلم کے قبر پر جانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، حدیث میں ہے :
ان النبی ﷺ زار قبر امہ فبکی وابکی من حولہ فقال ﷺ استاذنت لربی فی ان استغفر لھا فلم یوذن لی واستاذنتہ فی ان ازور قبرھا فاذن لی فزوروا القبور فانھا تذکرکم الموت (الصحیح للمسلم/342/1)
نبی ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر گئے، خود رونے لگے اور دوسرے لوگ بھی رو پڑے، پھر کہا میں نے اپنے رب سے ان کے استغفار کی اجازت مانگی لیکن اجازت نہیں ملی، میں نے قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مل گئی، تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو اس سے موت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
امام نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
فیہ جواز زیارۃ المشرکین فی الحیاۃ وقبورھم بعد الوفاۃ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں مشرکوں کے یہاں جانا اور وفات کے بعد ان کی قبروں کی زیارت کرنا جائز ہے۔
(شرح النووی علی الصحیح 314/1)
لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ غیرمسلم کے قبر پر پھول وغیرہ چڑھانے کی اجازت نہیں ہے جیسا بعض مسلم حکمراں ہندوستان آکر گاندھی وغیرہ کی سمادھی پر پھول چڑھاتے
ہیں اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، یہ قطعاً درست نہیں ہے ۔
غیرمسلم کے جلوس جنازہ میں شرکت ناروا ہے الا یہ کہ کوئی رشتہ دار ہو تو جلوس جنازہ سے دور رہ کر اور آخری رسوم جہاں انجام دئے جاتے ہوں وہاں سے ہٹ کر شرکت کی جاسکتی ہے ۔ جیساکہ احادیث میں ہے کہ ابوطالب کی وفات کے بعد حضرت علیؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:
ان عمک الشیخ الضال قد مات فمن یواریہ قال اذھب فوار اباک ولا تحدثن حدثا حتی تاتینی فواریتہ ثم جئت فامرنی فاغتسلت ودعا لی(النسائی، احمدبن شعیب ت 303، السنن 79/3، ط المطبعۃ المصریہ بالازھر، السنن لابی داؤد/492 قال الالبانی صحیح )
آپ کے بوڑھے اور بے راہ چچا کی وفات ہوچکی ہے ، انھیں دفن کون کرے گا؟ فرمایا: جاؤ اپنے والد کو دفن کردو اور دوسراکوئی کام کیے بغیر میرے پاس آؤ، میں دفن کرحاضر ہوا تو آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور میرے لیے دعا فرمائی۔
بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے دور سے ابوطالب کے جنازہ میں شرکت کی تھی. (دیکھئے البدایہ والنھایہ 123/2، مصنف عبدالرزاق 38/6)
اگرکوئی اپنے عزیز کے جنازہ کے ساتھ جانا ہی چاہتا ہے تو اس کے جذبے پر بندش نہیں لگائی جائے گی ، حضرت قیس بن شماس اللہ کے رسول کی خدمت میں آتے ہیں اور عرض کرتے ہیں:
ان امہ توفیت وھی نصرانیۃ وھو یحب ان یحضرھا فقال لہ النبی ﷺ ارکب دابتک وسر امامھا فاذا رکبت وکنت امامھا فلست معھا۔(ابن القیم، احکام اھل الذمۃ203/1 ضعفہ الزیلعی ،نصب الرایۃ 281/2)
میری ماں کی وفات ہوچکی ہے ، وہ نصرانیہ تھی، میری خواہش ہے کہ اس کے جنازہ میں شریک رہوں، نبی ﷺ نے فرمایا: اپنی سواری پر سوار ہوجاؤ ،جنازہ سے آگے رہو، جب تم سوار ہوگے اور جنازہ سے آگے رہوگے تو تم ان کے ساتھ نہیں سمجھے جاؤگے۔
ساتھ چلنے کے باوجود یہ طریقہ اس لیے اپنایا گیا تاکہ محبت اور تعلق کا اظہار بھی ہوجائے اور مسلمان کی انفرادیت بھی برقرار رہے کہ وہ اس تعلق کے باوجود اس کے دین سے بیزار اور حق کا پیروکار ہے۔
اور حضرت ابووائل کہتے ہیں:
ماتت امی نصرانیۃ فاتیت عمر فسالتہ فقال ارکب فی جنازتھا وسر امامھا۔
میری نصرانی ماں کی وفات ہوگئی ، میں حضرت عمر کے پاس آیا اور مسئلہ دریافت کیا تو فرمایا: اپنی سواری پر رہو اور آگے آگے چلو۔(ابن القیم، احکام اھل الذمۃ 203/1)
(وقال ابن الھمام محمدبن عبدالواحد ت 681ھ ثم جواب المسئلۃ مقید اذا لم یکن قریب کافر فان کان خلی بینہ و بینھم ویتبع الجنازۃ من بعید ، فتح القدیر94/2، داراحیاء التراث العربی ، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی نے خزانۃ الروایات کے حوالے سے لکھا ہے : فی متفرقات دستور القضاء عن الینابیع لابأس بعیادۃ اھل الذمۃ وحضور جنائزھم واکل طعامھم ،فتاویٰ عبدالحئی/405)
جلوس جنازہ کے ساتھ چلنا اور دفن کی جگہ موجود رہنا جائز اور درست نہیں ہے، چاہے کسی رشتہ دار ہی کا جنازہ کیوں نہ ہو، فرمان باری ہے:
ولا تصل علی احد منھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ(سورۃ التوبہ/82)
ان منافقین میں سے کسی کی وفات ہوجائے تو ہر گز ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی ان کے قبر پر کھڑے ہوں۔
اور حضرت سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
رب جنازۃ ملعونۃ ملعون من شھدھا۔
بہت سے جنازے لعنت زدہ ہوتے ہیں اور جو وہاں حاضر ہوتے ہیں ان پر بھی لعنت پڑتی ہے ۔
حضرت سعید کہتے ہیں یہ کافروں کا جنازہ ہے ۔(فھذہ جنائز أھل الزمۃ ابن القیم، احکام اھل الذمۃ 726/2)
بعض کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ابوطالب کے جنازہ کے ساتھ گئے لیکن قبر کے پاس کھڑے نہیں ہوئے ’’ولم یقم علی قبرہ‘‘ اور واپس آگئے (دیکھئے البدایہ والنھایہ 123/2))
عبداللہ بن ربیعہ نے ابن عمر سے دریافت کیا:
ان امی ماتت وقد علمت الذی کانت علیہ من النصرانیۃ قال احسن ولایتھا وکفنھا ولا تقم علی قبرھا(ابن القیم ، احکام اھل الذمۃ 203/1)
میری ماں انتقال کرگئی اور آپ کو معلوم ہے کہ وہ نصرانیہ تھی،انھوں نے کہا جاؤ ، اچھی طرح سے کفن دفن کا انتظام کرو، لیکن اس کی قبر کے پاس کھڑے مت ہو۔
امام احمدبن حنبل سے دریافت کیاگیا کہ مشرک کے جنازہ میں شرکت کی جاسکتی ہے ، جواب دیاکہ ہاں، جیساکہ حارث بن ابی ربیعہ نے کیا ، وہ اپنی ماں کے جنازہ میں حاضر ہوئے، ایک کنارے کھڑا رہے، وہاں حاضر نہ ہوئے کیونکہ وہ ملعون کا جنازہ ہے (کان یقوم ناحیۃ ولا یحضر لانہ ملعون حوالہ مذکور 202/1)
معلوم ہوا کہ غیرمسلم کے جنازہ پر اللہ کی لعنت برستی رہتی ہے اس لیے جنازہ کے ساتھ چلنا اور دفن کے وقت قریب میں موجود رہنا خود کو اس پر نازل ہونے والے عذاب میں شریک کرنا ہے اور اللہ کے غضب کو بھڑکانا ہے ، علاوہ ازیں جلوس جنازہ اور آخری رسوم میں شرکیہ افعال اور کافرانہ رسوم انجام دئے جاتے ہیں، اس لیے ان مواقع پر وہاں رہنا خود کو ان افعال میں شریک کرنا ہے ، لہٰذا ان میں شرکت ناجائز ہے۔ البتہ اگرکسی مسلمان کے کافر رشتہ دار کی وفات ہوجائے اور اس کے ہم مذہبوں میں سے کوئی کفن دفن کا انتظام نہ کرے تو مسلمان کے لیے اس کا نظم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جیساکہ ابوطالب کی وفات کے بعد حضرت علیؓ نے کفن دفن کا نظم کیا، اسی طرح سے کسی کافر کی وفات ہوجائے اور آخری رسوم انجام دینے کے لیے کوئی دوسرا کافر نہ ہو اور نہ ہی مسلمانوں میں کوئی اس کا رشتہ دار ہو تو عمومی طور پر ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسے ٹھکانے لگانے کا انتظام کرے اور اسے یونہی چیل اور کووں کی غذا کے لیے نہ چھوڑدے، جیساکہ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے کافروں کی نعشوں کو دفن کرنے کا نظم فرمایا(دیکھئے صحیح بخاری /416، ط دارالسلام الریاض 1997ء العربی بیروت)، لیکن اس صورت میں کافروں کے طریقہ کو نہیں اپنایا جائے گا اور نہ ہی غسل، کفن اور دفن میں مسنون طریقے کی رعایت کی جائے گی بلکہ کسی طرح اس کے جسم پر پانی بہا دیاجائے اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر اور گڈھا کھود کر اس میں دفن کردیاجائے۔(المرغینانی ابوالحسن علی بن ابوبکر ، ت 593ھ ، الھدایۃ 91/1، ط داراحیاء التراث)
غیرمسلم کے لیے ایصال ثواب:
غیرمسلم کے لیے وفات کے بعد مغفرت کی دعاکرنا حرام ہے ، گرچہ وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ، اللہ کے رسول ﷺ نے ابوطالب کے لیے مغفرت کی دعا کرنی چاہی تو قرآن نے صراحتاً اس سے منع کردیا۔(فقال النبی ﷺ لااستغفرنک مالم انہ عنک فنزلت ما کان للنبی الخ ۔صحیح بخاری /973، حدیث: 4675)
ما کان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی من بعد ما تبین لھم انھم اصحاب الجحیم(سورۃ التوبہ/113)
نبی اور مسلمانوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعاکریں اگرچہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے واضح ہوچکا ہے کہ یہ لوگ جہنمی ہیں۔
غیرمسلموں کے لیے دعائے مغفرت سے ممانعت کی وجہ خود قرآن میں بیان کردی گئی ہے کہ ان کے دعائے مغفرت لاحاصل اور بے فائدہ کام ہے کہ جب ان کا جہنمی ہونا یقینی ہے تو پھر دعا مغفرت سے کیا فائدہ ؟ ایک دوسری آیت میں کہاگیاہے:
ولا تصل علی احد منھم ما ت ابدا ولا تقم علی قبرہ انھم کفروا باللہ ورسولہ وماتوا وھم فاسقون(سورۃ التوبہ/84)
ان میں سے کوئی مرجائے تو ہرگز ان کی نماز نہ پڑھو اور نہ ان کی قبر پر کھڑا ہو، ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیااور نافرمان ہوکر مرے۔
جولوگ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں، اس کے لائے ہوئے دین سے بیزار ہیں، ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرنا ایک باغی کے لیے معافی کی درخواست کے مترادف ہے جو کسی بھی حال میں گوارا نہیں۔ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ماں کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کی لیکن بارگاہِ الٰہی میں یہ درخواست قبول نہیں ہوئی۔
ان آیات اور حدیث کی روشنی میں علماء لکھتے ہیں کہ کافر کے لیے مغفرت کی دعا اور نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے۔(الصلاۃ علی الکافر والدعاء لہ بالمغفرۃ حرام بنص القرآن والاجماع۔ المجموع 144/5)
اور قرآن پڑھ کر ایصال ثواب کرنا بھی ایک طرح سے مغفرت کی دعا ہے ، اس لیے یہ بھی ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں اس کے ذریعہ غلط فہمی پیداہوتی ہے کہ اسلام قبول کیے بغیر نجات ممکن ہے ، اسی لیے تو مسلمان اس کے لیے قرآن پڑھ کر دعا کر رہے ہیں۔
مسجد کے لیے غیرمسلموں کا تعاون اور چندہ:
حصول ثواب کی نیت سے کوئی غیرمسلم مسجد کی تعمیر میں تعاون کرے اور چندہ دے تو اسے قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ احسان جتلانے یا بدلے میں مندر کی تعمیر میں چندہ مانگنے کا اندیشہ نہ ہو، البتہ ان سے چندہ مانگنا غلط ہے کہ بڑی بے غیرتی کی بات ہے کہ مسلمان اپنی مسجد اور عبادت خانے کی تعمیر کے لیے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔
مسجدمیں غیر مسلموں کے تعاون کے جواز کی دلیل یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے بنانے والے مشرک تھے اور اللہ کے رسول ﷺ فتح مکہ کے بعد بھی وہاں نماز پڑھی اور آپ کے بعد خلفاء راشدین وہاں نماز پڑھتے رہے لیکن محض اس وجہ سے کہ یہ مشرکوں کی تعمیر کردہ ہے کسی نے بھی اسے گرا کر نئی عمارت بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس کے لیے خواہش کا اظہار فرمایا اور فقہاء نے لکھا ہے کہ کافر کا مسجد قدس کے لیے کوئی چیز وقف کرنا درست ہے۔ (ان شرط وقف الذمی ان یکون قربۃ عندنا وعندھم کالوقف علی الفقراء وعلی المسجد القدس۔ رد المحتار 526/6۔ وتجوز عمارۃ کل مسجد وکسوتہ واشعالہ بمال کافر وان یبنیہ بیدہ۔ الاداب الشرعیۃ 416/3 )۔
عام طور پر فقہاء کرام اسی کے قائل ہیں البتہ بعض فقہاء اس آیت کے پیش نظر مسجد میں غیرمسلم کے چندہ کو ناجائز کہتے ہیں:
ماکان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ شاھدین علی انفسھم بالکفر اولٰئک حبطت اعمالھم وفی النار ھم خالدون(سورۃ التوبہ/17)
مسجدوں کو آباد کرنا مشرکوں کا کام نہیں ہے جو خود اپنے کفر کی گواہی دے رہے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
مسجد کو آباد کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس میں داخل ہو، بیٹھے اور عبادت کرکے اسے آباد رکھے اور دوسرا مفہوم ہے مسجد بنانا اور مرمت کرنا، آیت کا تقاضا ہے کہ یہ دونوں چیزیں کافروں کے لیے درست نہ ہوں۔ جولوگ جواز کے قائل ہیں ان کے یہاں صرف ذکر و عبادت کے ذریعہ آباد رکھنا اور اس کا نظم و نسق چلانا مراد ہے۔ جیساکہ اس حدیث میں ہے:
عن ابی سعید الخدری قال رسول اللہ ﷺ اذا رأیتم الرجل یعتاد المسجد فاشھد وا لہ بالایمان قال اللہ تعالیٰ انما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الآخر۔(رواہ الترمذی وابن مردویہ والحاکم ۔تفسیر ابن کثیر )
حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی شخص کو مسجد کا عادی دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مسجد کو وہی شخص آباد رکھتا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لاتا ہے۔
مندر اور پوجا کے لیے چند ہ اور تعاون:
قرآن وحدیث میں نہ صرف معصیت اور گناہ کے کاموں سے اجتناب کا حکم دیاگیاہے بلکہ معصیت میں تعاون اور مدد سے بھی روکاگیاہے : ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان(گناہ اور سرکشی کے لیے اعانت نہ کرو)
غیراللہ کی عبادت اور پرستش شدید ترین معصیت ہے ، یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ کا باغی قرار پاتاہے اور ایک مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتاہے، غیراللہ کی پرستش کے مراکز روئے زمین کی بدترین جگہ ہیں ، ایسے مراکز کی تعمیر کے لیے اعانت ،کفر و شرک میں تعاون ہے ، مذہبی جلوس، پوجا پاٹ اور میلے وغیرہ کے لیے چندہ دینے کا بھی یہی حکم ہے۔( ولا یصح وقف مسلم او ذمی علی بیعۃ او حربی قیل او مجوسی رد المحتار 526/6کتاب الوقف۔ اما الوقف علی کنائسھم وبیعھم ومواضع کفرھم التی یقیمون فیھا شعار الکفر فلایصح من مسلم ولاکافر فان ذلک اعظم الاعانۃ لھم علی الکفر والمساعدۃ والتقویۃ علیہ وذلک مناف لدین اللہ ۔ احکام اھل الذمۃ 303/1)
البتہ چندہ دئے بغیر چھٹکارا نہ ہو تو مانگنے والوں کو مالک بنا دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ تمہاری مرضی تم جہاں چاہو خرچ کرو۔(فتاویٰ محمودیہ 482/17)
مندر کی تعمیر میں مسلمان کاریگروں اور انجینئروں کی خدمات:
کسی مسلمان کے لیے غیرمسلم کی مزدوری جائز ہے ، متعدد صحابہ کرام سے مکہ میں قیام کے دوران اور مدینہ ہجرت کے بعد غیر مسلموں کے یہاں مزدوری کرنا ثابت ہے۔(دیکھئے صحیح بخاری 304/1، کتاب الاجارۃ باب ھل یواجر المسلم نفسہ من مشرک فی ارض الحرب ، نیز احکام اھل الذمۃ 277/1)، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی نے اس مسئلے میں یہ تفصیل لکھی ہے ۔
کفار کی ملازمت کی تین قسم ہے:
1-جائز ہے بلا کراہت مثلاً حقوق ثابت کرنے، شر و فساد کو دفع کرنے، چور اور ڈاکوؤں سے حفاظت کرنے، پل اور مہمان سرائے اور دیگر مفید عمارتوں کے بنانے کے لیے ملازمت کی جائے جیساکہ یوسف علیہ السلام نے بادشاہ وقت سے جو کافر تھا خزائن مصر کا داروغہ بننے کی درخواست کی تھی تاکہ عدل و انصاف قائم کرسکیں اور موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے حضرت موسیٰؑ کو دودھ پلانے کے لیے فرعون کی ملازمت کی تھی۔
2- جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ مثلاً ایسی نوکری کرنا جس میں کفار کے سامنے کھڑا رہنا اور تعظیم کرنا لازمی و ضروری ہو جس سے مسلمان کی بے عزتی اور ہتک شان مقصود ہوتی ہے جیسے سر رشتہ داری وغیرہ
3-حرام ہے مثلاً معاصی، منہیات و ممنوعات شرعیہ پر ملازمت کرنا جیسا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں جانے والی فوج اور پولیس میں ملازمت کرنا۔(اس طرح کی بعض تفصیلات علامہ ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے بھی لکھی ہے، چنانچہ وہ ابن منیر کے حوالہ سے کہتے ہیں :استقرت المذاھب علی ان الصناع فی حوانیتھم یجوز لھم العمل لاھل الذمۃ ولابعد ذلک من الذلۃ بخلاف ان یخدمہ فی منزلہ وبطریق التبعیۃ، اور ابن مھلب سے نقل کرتے ہیں کہ : کرہ اھل العلم ذلک الا لضرورۃ بشرطین احدھما ان یکون عملہ فیما یحل للمسلم فعلہ والآخر ان لایعینہ علی ما یعود ضررہ علی المسلمین ۔فتح الباری 452/4)
مندر کی تعمیر میں اعانت معصیت ہے ، اس لیے کسی مسلمان مزدور اور معمار کا اس کی تعمیر میں حصہ لینا صحیح نہیں ہے ، امام مالک،امام شافعی اور احمدبن حنبل کا یہی نقطۂ نظر ہے(دیکھئے احکام اھل الذمۃ 275/1-277)اور فقہ حنفی میں مذکور مسائل کی روشنی میں امام ابویوسف اور امام محمد کا یہی مسلک ہوناچاہیے اور اس طرح کے مسائل میں عام طور پر فتویٰ بھی انھیں کے قول پر ہے،البتہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ( : وجاز تعمیر کنیسۃ قال فی الخانیۃ ولو آجرنفسہ لیعمل فی الکنیسۃ ویعمرھا لاباس بہ لانہ لامعصیۃ فی عین العمل ۔ردالمحتار 562/9، کتاب الحظرولاباحۃ، نیز دیکھئے البحر الرائق 372/8)
مسلمان انجینئر کے نقشہ سازی کا بھی یہی حکم ہے۔
عدل و انصاف اور امن و سلامتی کے لیے غیرمسلموں کے ساتھ کام کرنا:
اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت سے پہلے بعض ظالمانہ و اقعات سے متاثر ہوکر قریش کے کچھ لوگوں نے باہم یہ معاہدہ کیا کہ وہ ظلم کے مٹانے اور مظلوم کی مدد کے لیے ہمہ وقت آمادہ اور کوشاں رہیں گے، چونکہ اس معاہدہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ کوئی کسی کا مال (فضل) چھین لے تو اس سے واپس لیاجائے گا، اس لیے اس کو ’’حلف الفضول‘‘ کہاجاتاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ بھی اس معاہدہ میں شریک تھے اور اس کے متعلق کہا کرتے تھے :
لقد شھدت فی دار عبد اللہ بن جدعان حلفا لو دعیت بہ فی الاسلام لاجبت( البدایہ والنھایہ 291/2)
عبداللہ بن جدعان کے گھر ایک ایسے معاہدہ میں شریک تھا کہ اسلام کی آمد کے بعد بھی ایسے معاہدہ کے لیے کوئی بلائے تو لبیک کہوں گا۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے بعدبھی غیرمسلموں سے اس طرح کے معاہدے کیے جاسکتے ہیں، رہی یہ حدیث:
لاحلف فی الاسلام۔
تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام کے آنے کے بعد مسلمانوں کے لیے باہم اس طرح کے معاہدہ کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ اسلام معاہدہ کے بغیر ہی ان چیزوں کو وہی اہمیت دیتاہے جو حیثیت معاہدہ کے بعد ہوتی ہے، چنانچہ حدیث کے مکمل الفاظ یہ ہیں:
لاحلف فی الاسلام وایما حلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام الا شدۃ(صحیح مسلم/955، کتاب فضائل الصحابۃ، باب مواخاۃ النبی ﷺ)
اسلام میں کوئی معاہدہ نہیں ہے اور جو معاہدے جاہلیت میں تھے اسلام اس کی شدت اور اہمیت میں اضافہ ہی کرتا ہے۔
بعض شارحین نے حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قتل و غارت گری کے لیے لوگ آپس میں معاہدہ کرتے تھے، حدیث کے ابتدائی فقرہ میں اسی سے منع کیا گیا ہے، رہے جاہلیت کے وہ معاہدے جو مظلوم کی مدد اور رشتہ کے پاس و لحاظ اور اچھے کاموں کے لیے کیے جاتے ہیں اسلام اس کی تائید کرتا ہے، حدیث کے آخری ٹکڑے سے اسی طرح کا معاہدہ مراد ہے ۔( عون المعبود 143/8)
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں عدل و انصاف اور امن و سلامتی کی فضا قائم کرنے کے لیے غیرمسلموں کا تعاون لیا جاسکتا ہے اور ایسے ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں جن میں مسلمان غیرمسلموں کے ساتھ مل کر ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
مظلوم طبقات کا تعاون:
نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے جن طبقات کو ظلم و ستم اور درندگی و سفاکی کا نشانہ بنایا جاتا تھا ، ان میں غلام، عورتیں اور یتیم بچے سرفہرست ہیں۔ ان میں غلاموں کی حالت سب سے بدتر تھی، ان کی حیثیت جانور کی تھی ، وہ مکمل طور پر آقا کے رحم و کرم پر تھے کہ وہ انھیں ظلم و جور کی چکی میں پیستا رہے اور اگر چاہے تو ان کے جسم کو سر کے بوجھ سے ہلکا کردے، آقا کے خلاف حرف شکایت سب سے بڑا جرم تھا ، جس کی سزا عدالت نے قتل مقرر کر رکھی تھی۔آزادی ملنی مشکل تھی اور اگر خوش قسمتی سے کسی کو آزادی مل جاتی تو وہ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی بلکہ آقا جب چاہے دوبارہ اسے غلام بنا سکتا تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی پوری زندگی ان زیر دستوں، کمزوروں اور مظلوموں کی اعانت اور حمایت سے عبارت تھی، ان طبقات کو اوپر اٹھانے اور ان کے حقوق دلانے کے لیے آپ نے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی۔انسانیت نوازی ، مخلوق خدا کی خبرگیری، یتیموں اور بیواؤں کی غم گساری اور حاجت روائی، ستم رسیدوں کی داد رسی ، محنت کشوں اور غلاموں کے ساتھ ہمدردی آپ کی نمایاں خصوصیت ہے ، بعثت سے پہلے ہی آپ ان خصلتوں میں ممتاز اور منفرد تھے، آپ کے سرپرست حضرت ابوطالب ان نمایاں خصوصیات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
وابیض یستقی الغمام بوجھہ ثمال الیتامی عصفۃ للارامل (صحیح بخاری/199، رقم الحدیث 1008)
وہ گورے چہرے والا جس کے رخ زیبا کے وسیلے سے بارش کے لیے دعا کی جاتی ہے ، وہ یتیموں کا سہارا، بیواؤں اور مسکینوں کا سرپرست ہے۔
غار حراء میں جب پہلی وحی نازل ہوتی ہے اور آپ ﷺ وہاں سے لرزہ براندام گھر واپس ہوتے ہیں تو زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں:
کلا واللہ ما یحزنک اللہ ابدا انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق(حوالہ مذکور /2 رقم الحدیث 3)
ہرگز اللہ آپ کو غم زدہ نہیں کرے گا کیونکہ آپ رشتہ داری کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں اور جولوگ معاشرہ کے لیے بوجھ سمجھے جاتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں، دن بھر آپ کی کمائی یہی ہوتی ہے کہ کوئی نادار مل جائے تو اس کی مدد کریں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن و حدیث میں یتیموں، بیواؤں اور غلاموں کی مدد اور آزادی کی جو حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور ان کی دل آزاری کی جو شدید وعید بیان کی گئی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ چیزیں محض کہنے اور قانون سازی تک محدود نہیں
تھیں بلکہ مسلم معاشرے اس کے بڑے خوش کن اثرات مرتب ہوئے، چنانچہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا یہ محسوس کرتاہے کہ چند ہی سالوں میں غلاموں کی حالت میں ایسی تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ جن کی زندگی جانور سے بدتر تھی وہ امامت اور سیادت کے مقام پر فائز ہوجاتے ہیں، مسلم معاشرہ میں انھیں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور شہزادے ان کی شاگردی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
لہٰذا آج مسلمانوں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم طبقات کی مدد کے لیے آگے آئیں، اس تفریق کے بغیر کہ وہ غیرمسلم ہوں یا مسلمان، خصوصاً ہندوستان کے پس منظر میں دلتوں کو ان کے حقوق دلانے اور انھیں اوپر اٹھانے اور اونچی ذات کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے پوری کوشش کریں۔
قدرتی آفات کے موقع پر غیرمسلموں کا تعاون اور خدمت خلق کے ادارے سے غیرمسلموں کی مدد:
کتاب و سنت میں غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، غم گساری اور مالی تعاون کی ممانعت نہیں ہے بلکہ انسانیت کے رشتے سے ان چیزوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ، چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ کے نیک بندوں کی بعض صفات یہ بیان کی گئی ہیں:
ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما و اسیرا انما نطعمکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزاء ولاشکورا(سورۃ الدھر/908)
وہ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں، حالانکہ خود انھیں اس کی رغبت اور خواہش ہوتی ہے (اپنے دل میں کہتے ہیں کہ)ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کھلا رہے ہیں ، تم سے کسی بدلہ اور شکریہ کے طلبگار نہیں ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور قتادہؓ، سعید بن جبیر اور دیگر مفسرین سے منقول ہے کہ مذکور آیت میں قیدی سے مراد مشرک قیدی ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے قید میں یہی لوگ آیا کرتے تھے۔(جامع البیان 209/29)
مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :
قیدی عام ہے مسلم ہو یا کافر، حدیث میں ہے کہ بدر کے قیدیوں کے متعلق حضور ﷺ نے حکم دیاتھا کہ جس مسلمان کے پاس کوئی قیدی ہے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں صحابہ قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے، حالانکہ وہ قیدی مسلمان نہ تھے مسلمان بھائی کا حق تو اس سے بھی زیادہ ہے اور اگر لفظ اسیر میں ذرا توسع کرلیا جائے تب تو یہ آیت غلام اور مدیون کو بھی شامل ہوسکتی ہے کہ وہ بھی ایک طرح سے قید میں ہیں۔(تفسیر شیخ الھند /769)
غور کا مقام ہے کہ جنگی قیدیوں کے سلسلہ میں عام طور پر ہمدردی کے جذبات نہیں پائے جاتے بلکہ انھیں سخت سے سخت سزادی جاتی ہے ، انھیں ہمدردی کا حقدار نہیں سمجھا جاتا ہے، لیکن اسلام نے انسانیت کے ناطے ان کے لیے بھی ہمدردی کے جذبات کو ابھارا ہے اور انھیں بھی حسن سلوک کا مستحق قرار دیاہے اور ان کا کھلانا کار ثواب ہے تو اس کافر کے متعلق کیا حکم ہوگا جو مصائب و آلام میں مبتلا ہے اور وہ جنگی مجرم بھی نہیں۔
ایک دوسری آیت میں ہے:
لیس علیک ھداھم ولکن اللہ یھدی من یشاء وما تنفقوا من خیر فلانفسکم وما تنفقون الا ابتغاء وجہ اللہ وما تنفقوا من خیر یوف الیکم وانتم لاتظلمون۔(سورۃ البقرہ/272)
ان کو ہدایت دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ، البتہ اللہ جسے چاہتاہے ہدایت دیتاہے، تم جو مال بھی خرچ کروگے اس کا فائدہ تمہیں کو ہوگااور تم لوگ تو اللہ کی خوشنودی ہی کے لیے خرچ کرتے ہو اور تم لوگ جوبھی خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں مل جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔
اس آیت سے پہلے مسلمانوں کو خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے بعد بھی انفاق اور خیرات کے بعض مصارف کا تذکرہ ہے اور درمیان میں مذکورہ آیت ہے کہ کافروں کی ہدایت آپ کے ذمے نہیں ہے ، اس آیت کا پہلے اور بعد کی آیتوں سے کیا ربط اور تعلق ہے؟ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام مشرکین کو صدقہ و خیرات دینے سے احتراز کیا کرتے تھے اور صرف مسلمانوں پر خرچ کیاکرتے تھے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی(جامع البیان 93/3-95)
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مسلمان پہلے کافروں پر خرچ کیاکرتے تھے لیکن جب مسلم ضرورت مندوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیاکہ اپنے ہم مذہب ہی کو صدقہ و خیرات دیا کرو، اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی اور غیروں پر بھی خرچ کرنے کی اجازت دی گئی۔(القرطبی ، الجامع لاحکام القرآن 337/3)
اس آیت میں اس بات کی تلقین کی گئی کہ صدقہ و خیرات کا اصل معیار حاجت اور ضرورت ہے ، فقیر اور بے نوا اس کا اصل حقدار ہے ، خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو اور اس سلسلہ میں مذہب کو آڑ نہ بننے دینا چاہیے، واضح رہے کہ زکات کی رقم اتفاقی طور پر مسلمانوں ہی پر خرچ کی جائے گی اور صدقات نافلہ غیرمسلموں کو بھی دیا جاسکتا ہے،
صدقات واجبہ کے سلسلہ میں اختلاف ہے، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صدقات واجبہ جیسے صدقۃ الفطر کی رقم غیرمسلموں کو دی جاسکتی ہے ، دیگر ائمہ کے یہاں صدقات واجبہ بھی زکات ہی کے حکم میں ہیں۔
سورہ ممتحنہ میں مزید اس کی تفصیل کی گئی ہے :
لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین(سورۃ الممتحنہ/8 )
جن لوگوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا نہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے اللہ منع نہیں کرتاہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔
اس کے بعد والی آیت میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ دین کے معاملہ میں مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں ان سے دوستی مت رکھو، جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جو مشرک قومیں مسلمانوں سے برسر جنگ ہوں ان سے دوستی کی ممانعت ہے لیکن انصاف اور عام انسانی رویہ کی ممانعت نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ مکہ کے مشرکین نے جو طرزعمل اپنایا وہ کسی پر مخفی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو آخری نبی ﷺ ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے سونا روانہ کرتے ہیں اور سردار مکہ جناب ابوسفیان کو کہلا بھیجتے ہیں کہ اسے اپنی قوم کے درمیان تقسیم کردیں۔(ابن ابی الدنیا ، مکارم الاخلاق /258)
امام محمد نے السیر الکبیر میں لکھا ہے:
لاباس للمسلم ان یعطی کافراً حربیا او ذمیا
کوئی مسلمان کسی کافر کو کچھ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،چاہے وہ کافر حربی ہو یا ذمی۔
اس پر علامہ شامی لکھتے ہیں:
ولان صلۃ الرحم محمودۃ فی کل دین والاھداء الی الغیر من مکارم الاخلاق.
اس لئے کہ ہر مذھب میں صلہ رحمی پسندیدہ ہے ۔اور کسی غیر کو تحفہ دینا اچھے اخلاق میں شمار ہوتا ہے ۔(رد المحتار 353/2)
اللہ کے رسول ﷺ نے عمومی انداز میں ہرانسان کے ساتھ محبت، اعانت اور ان کے دکھ درد میں شرکت کی ہدایت کی ہے جیسے یہ احادیث:
• الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ(رواہ البیہقی فی شعب الایمان ، المشکاۃ /425 )
تمام مخلوقات اللہ کے عیال ہیں، اس لیے اللہ کی نگاہ میں وہ سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کے عیال کے ساتھ احسان کرے۔
• اطعموا الجائع وعودوا المریض وفکوا العانی۔(البخاری ، الجامع الصحیح 843/2)
بھوکے کو کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو اور قیدیوں کو نجات دلاؤ ۔
• خیر الناس من ینفع الناس۔(الجامع الصغیر للسیوطی 2/9)
لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچائے۔
لہٰذا قدرتی آفات جیسے زلزلہ وغیرہ کے موقع پر مسلم اور غیرمسلم کی تفریق کے بغیر بلاامتیاز ہر مصیبت زدہ انسان کی مدد کرنی چاہیے اور دوسروں کے دیکھا دیکھی اور بدلے میں غیرمسلموں کے ساتھ سوتیلے رویہ کا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے ، نیز مسلمان کی طرف سے چلائے جانے والے خدمت خلق کے اداروں سے بلاتفریق ہر انسان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہونی چاہیے، اس میں بھی امتیازی سلوک ناروا ہے۔
شائع شدہ: تحقیقات اسلامی علی گڑھ۔ ۔2005ء