بین مذہبی مذاکرات ۔ اصول وآداب
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسانوں کو مختلف گروہوں، طبقوں اور ملتوں میں تقسیم کر رکھا ہے، جو اس کی حکمت ومشیت کا ایک حصہ ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے :
’’وَلَوْ شَائَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّامَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَالِکَ خَلَقَھُمْ، وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَ مْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘۔
’’اور بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بناسکتا تھا، اور وہ برابر اختلاف کرتے رہیں گے، اور اس سے صرف وہی لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے، اور اسی (آزادی انتخاب و اختیار اور آزمائش) کے لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا ہے، اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی کہ میں جنہم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوںگا‘‘۔(سورہ ہود:119)
اس لیے اسلام کا یہ ماننا ہے کہ عقیدے کے اختلاف کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی تمام لوگوں کو کسی ایک دین پر جمع کیا جاسکتا ہے، اور جبر و دباؤ کے ذریعہ کسی مذہب کو ختم کرنا اور مٹانا صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’وَلَوْشَائَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِیْ الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا، اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتیٰ یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ‘‘۔
’’اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین کے تمام لوگ ایمان لے آئے ہوتے،تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے ، یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں؟‘‘۔(سورہ یونس:99)
اور ایک دوسری آیت میں ہے :
’’فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرْ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ‘‘۔
’’اے نبی تم نصیحت کیا کرو، تمہارا کام صرف نصیحت کرنا ہے، تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔(سورہ الغاشیہ:22)
علامہ طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ لست علیھم بمسلط ولا جبار تحملھم علی ماترید‘‘۔
’’تمہیں ان پر مسلط نہیں کیا گیا ہے، اور نہ ہی تم انہیں مجبور کرنے والے ہو کہ اپنی مرضی چلانے کے لیے ان پر جبر کرو‘‘۔(جامع البیان:166/30)
نیز کہا گیا ہے :
’’ لَآ اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَّـبَـیَّنَ الرُّشُدُ مِنَ الْغَیِّ‘‘۔
’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے، کیونکہ ہدایت اور ضلالت دونوں واضح ہوچکے ہیں‘‘۔(سورۃ البقرۃ: 256)
اس لیے نبیوں اور داعیوں کی یہ ذمہ داری بتلائی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش ضرور کریں، لیکن کسی کے اعراض اور سرکشی سے دل گرفتہ اور ناراض نہ ہوں:
’’ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ الْمُبِیْنَ‘‘۔
’’اب اگر یہ لوگ اعراض کرتے ہیں تو اے نبی تم پر پیغام حق صاف صاف پہنچانے کے علاوہ کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے‘‘۔(سورہ النحل:82)
نیز اعراض اور قبول حق سے انکار کے باوجود بحیثیت انسان ہر شخص لائق احترام ہے، کیونکہ سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں، چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
’’یٰٓاَ ایُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآئً‘‘ ۔
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلادئے‘‘۔(سورۃ النساء:1)
’’ یٰٓاَ ایُّھَا النَّاسُ اِنَّآ خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا‘‘۔
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ‘‘۔(سورۃ الحجرات:13)
چونکہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے،اس لیے بحیثیت انسان ہر ایک لائق احترام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
’’ وَلَقَدْ کَرَّ مْنَا بَنِیْ آدَمَ‘‘۔
’’اور ہم نے انسانوں کو بڑی عزت دی ہے‘‘۔(سورۃ الاسراء:70)
اس لیے تمام لوگ بشر ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں، اگر ان میں کوئی فرق و امتیاز ہے تووہ صرف دینداری اور تقویٰ کے اعتبار سے ہے ۔
’’ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ‘‘۔
’’بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے‘‘۔(سورۃ ا لحجرات :13)
اورانسانوں کے درمیان باہمی تعارف اور خوشگوار تعلقات کے لیے باہمی مکالمہ اور گفتگو ضروری ہے اور مختلف ملتوں کے درمیان آویزش اور کشمکش اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اور اسلام کی روح کے خلاف ہے جو کہ صلح وآشتی اور امن وسلامتی سے عبارت ہے، اسلام کا مزاج یہ ہے کہ جنگ سے ممکن حد تک بچا جائے، اور دل میں جنگ کی خواہش کو پنپنے نہ دیا جائے اور نہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو مذہبی آویزش کی طرف گامزن ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ لا تتمنوالِقاء العدو واسئلواللہ العافیۃ، فاذا لقیتم فاثبتوا‘‘۔
’’دشمن سے مڈبھیڑ کی خواہش مت کرو، اور اللہ سے عافیت کی دعا مانگا کرو، لیکن اگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو پھر ثابت قدم رہو‘‘۔(صحیح بخاری: 2966،صحیح مسلم:1741)
غرضیکہ اسلام کی نگاہ میں، انفرادی، اجتماعی، ریاستی، ملکی، عالمی، مذہبی اور سیاسی ہر طرح کی کشمکش اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مذاکرہ اور گفتگو ایک بہترین راستہ ہے، چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کے تمام نبیوں نے اپنی قوم کی رہنمائی کے لیے مذاکرہ کے طریقے کو اپنایا، اور اس راہ میں انہوں نے ہر طرح کی مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں، اور گرچہ بعض نبیوں کے لیے اس کی خاطر جنگ لڑنے کی نوبت بھی پیش آئی، لیکن جنگ اصل مقصد نہیں تھا بلکہ مقصود اصلی مذہبی جبر کا خاتمہ اور بات چیت کیلیے فضا کو ساز گار بناناتھا۔
بین مذہبی مذاکرہ کے پیچھے تین طرح کے مقاصد ہوسکتے ہیں:
1۔دعوتی مذاکرہ:
تمام انبیاء کرام نے ’’ د ین‘‘ کی دعوت کے لیے مذاکرہ کے طریقہ کو اپنایا، جن کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے، جن میں سے حضرت نوح، حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کا مذاکرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہے، اوراپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِی ھِیَ اَحْسَنُ، اِنَّ رَبَّکَ ھُوَاَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ‘‘.
’’اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں سے ایسے طریقے سے گفتگو کرو جو سب سے بہتر ہو، تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے‘‘۔(سورۃ النحل:125)
اور حدیث میں ہے :
’’جاہدوا المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم۔
’’مشرکوں سے اپنے مال، اپنی جان، اور اپنی زبان کے ذریعہ جہاد کرو‘‘۔‘‘(ابوداؤد:2504 نسائی:3096،احمد:118370)
مذکورہ آیت و روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوتی گفتگو ایک دینی فریضہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اہل علم اور اہل بصیرت پر فرض قرار دیا ہے، علامہ ابن حزم مذکورہ حدیث کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ درجے کی صحیح روایت ہے، جس میں مباحثہ اور مذاکرہ کا حکم دیا گیا ہے اور یہ اسی طرح سے فرض ہے جس طرح سے کہ جسمانی جہاد ۔(الاحکام: 27/1)
لہٰذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوتی مذاکرے کے لیے پہل کریں اور اس کے لیے فضا کو ساز گار بنانے کی کوشش کریں، اور اس سلسلے میں غیر مسلموں کی طرف سے آنے والے حالات کا صبر اور اعراض کے ذریعہ مقابلہ کریں۔
دعوتی مذاکرے میں درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
1۔دعوتی اسلوب، نہایت سنجیدہ، پرکشش، حکمت آمیز، اور محبت ریز ہو، لب و لہجہ ناصحانہ اور انداز گفتگو محبت و الفت اور شفقت سے لبریز ہو، چنانچہ قرآن میں عام طور پر یہود نصاریٰ کو ’’ یا اہل الکتاب‘‘ جیسے معزز اور شفقت آمیز لقب سے خطاب کیا گیا ہے، اور حضرت موسیٰ و ہارون کو فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے حکم دیا گیا :
’’ فَقُوْلاَ لَہُ قَوْلاً لَّیِّنًاء‘‘۔
’’اس سے نرمی سے بات کرنا‘‘۔(سورہ طہ:44)
اس لیے داعی کے ذہن میں یہ رہنا چاہئے کہ وہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہ السلام سے افضل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مخاطب فرعون سے زیادہ بدتر ہے، اس سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی خطوط کا مطالعہ کرنا چاہئے جو آپؐ نے متعدد بادشاہوں کی نام لکھے ہیں، اور جو دعوتی اسلوب کا بہترین نمونہ ہیں۔
2۔داعی اور مخاطلب، دونوں کے سامنے مذاکرے کا مقصد واضح ہونا چاہیے کہ اس مذاکرے کا حاصل اسلام کا تعارف، اس کی دعوت وتبلیغ، اور غلط فہمیوں کا ازالہ اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ہے۔
3۔ مخاطب کے احساسات و جذبات اور مذہبی نظریات کا پاس و لحاظ رکھاجائے، اور ایسا کوئی رویہ اختیار نہ کیا جائے جس سے باہمی کشمکش اور نفرت پیدا ہو، اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے :
’’وَلَا تَسُبُّواالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوااللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍ،کَذَالِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍعَمَلَھُمْ، ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ مَّرْجِعُھُمْ فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘۔
’’اور ان لوگوں کو گالی مت دو جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جہالت کی بنا پر دشمنی میں اللہ کی شان میں گستاخی کرنے لگیں، اور ہم نے اسی طرح سے ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوش نما بنادیا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اس وقت وہ انہیں بتادے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں‘‘۔(سورہ الا نعام:108)
علامہ قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اس آیت میں ان تمام چیزوں کو برابھلا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے جسے دوسرے مذہب کے لوگ مقدس اور قابل احترام سمجھتے ہوں، اور امت مسلمہ کے لیے یہ حکم ہر حال میں باقی ہے، اور ایسا کرنا بطورتعظیم کے نہیں ہے بلکہ حکمت عملی اور دل جوئی اور غیر مسلموں کو قریب کرنے کا ایک ذریعہ ہے… لہٰذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ عیسائیوں کے صلیب، ان کے مذہب اور ان کے عبادت خانوں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرے، بلکہ ان چیزوں تک پہچانے والا بھی کوئی کام نہ کرے، اس لیے کہ ایسا کرنے میں دوسرے کو معصیت کے لیے اکسانا ہے… اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق پر قائم رہنے والے کے لیے بھی کبھی حق کہنے سے بچنا چاہئے جبکہ اس کی وجہ سے کوئی دینی ضرر لاحق ہو۔ (الجامع لاحکام القرآن:61/7)
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کو دعوتی مقصد سے یمن روانہ کرتے ہوئے فرمایا :
’’بشروا ولا تنفروا، یسروا ولا تعسرو‘‘۔
’’خوش کن بات کہو، نفرت انگیز لہجہ اور طریقہ اختیار مت کرو، آسانی پیدا کرو، اور لوگوں کو دشواری میں مت ڈالو‘‘۔(صحیح بخاری: 69، مسلم: 1732)
اور فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
’’ لوقال لیھودی او مجوسی یاکافر یاثم ان شق علیہ‘‘۔
’’اگر کسی یہودی اور مجوسی کو کافر کہہ کر مخاطب کرے تو اگر یہ جملہ اسے ناگوار گزرے تو کہنے والا گنہ گار ہوگا‘‘۔(الہندیۃ: 348/5)
اس مسئلے سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں کی دلجوئی اور ان کے خلاف نفرت انگیز اور ناگوار بات کہنے کے سلسلے میں ہمارے فقہاء کس درجہ حساس ہیں؟ اگر مسلمانوں میں یہ حساسیت پیدا ہوجائے تو ہمارے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں۔
4۔ مسلمانوں خصوصا داعیوں اور مذہبی مذاکرہ کرنے والوں کو رد عمل کی نفسیات سے بچنا چاہئے، غیر مسلموں کی طرف سے کوئی دل آزار بات کہی جائے تو اس کا جواب صبر و اعراض اور حسن عمل کے ذریعہ دیناچاہیے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السِّیِّئَۃَ نَحْنُ اَعْلَمُ بَمَا یَصِفُوْنَ‘‘ ۔
’’برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو، اور جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں ہم اس سے بخوبی واقف ہیں‘‘۔(المؤمنون :96)
اور ایک دوسری آیت میں ہے :
’’وَلَاتَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیْئَۃُ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ، وَمَا یُلَقّٰھَا اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَا اِلَّا ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ‘‘۔
’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی ہے، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان شدید دشمنی ہے وہ جگری دوست بن جائے گا، اور یہ صفت صرف انہیں لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام انہیں لوگوں کو حاصل ہونا چاہے جو بڑے نصیبے والے ہیں‘‘۔(سورہ حم السجدہ : 35،34)
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو یہ اطلاع دی ہے :
’’لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْ تُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْراً، وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذَالِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ‘‘۔
’’مسلمانو! تم اپنے مال اور جان کے سلسلے میں ضرور آزمائے جاؤگے، اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے، اگر ان حالات میں تم صبر اور پرہیزگاری کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے‘‘۔(سورہ آل عمران:186)
اور قرآنی آیت ’’ولا تجادلوا اہل الکتب الا بالتی ھی احسن‘‘ (العنکبوت:46) کی تفسیر میں امام طبری لکھتے ہیں کہ اگر وہ لوگ بری بات کہیں اور بدتمیزی کریں تو تم ان کے جواب میں اچھی بات کہو۔(جامع البیان: 21/1)
غرضیکہ دوسرے مذاہب پر تنقید یا جواب میں ایسا اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے جو دل آزاری کا سبب بنے بلکہ مسلمانوں کو ہر حال میں صبر و اعراض، اور تقویٰ کی روش پر قائم رہنا چاہئے اور معروضی، سنجیدہ، حکمت آمیز اور محبت ریز اسلوب اختیار کرنا چاہئے جیسے کہ قرآن میں ایک موقع پر کہاگیا ہے :
’’ وَاِنَّآ اَوْ اِیَّا کُمْ لَعَلٰی ھُدًی اَوْفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘۔
’’اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے‘‘۔(سبا: 24)
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ آنحضوؐر کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ وہ راہ راست پر اور مشرکین گمراہ ہیں لیکن خطاب میں نرمی پیدا کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا۔(الجامع لاحکام القرآن:14/2)
اپنے نظریات کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے بعد دوسرے کو اپنی بات کے کہنے کا موقع دیا جائے، اور کہا جائے کہ میں تو حق کا پیروکار ہوں اگر تمہارے پاس بھی مل جائے تو میں قبول کرنے کے لیے تیار ہوں:
’’ قُلْ فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ ہُوَ اَھْدیٰ مِنْھُمَآ اَتَّبِعْہُ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ‘‘.
’’اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو اگر تم سچے ہو میں اسی کی پیروی اختیارکروں گا‘‘۔(سورۃ القصص:49)
’’ قُلْ اِنْ کَانَ لِلْرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ‘‘۔
’’ان سے کہو اگر واقعی رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا‘‘۔(سورہ زخرف :81)
امام طبری کہتے ہیں کہ یہ جملہ شک کے طور پر نہیں ہے بلکہ گفتگو میں نرمی کے لیے یہ انداز اپنایا گیا ہے۔(جامع البیان: 103/25) اوراگر اس طرز عمل کے باوجود بھی دوسری طرف سے ہٹ دھرمی اور ضد کا مظاہرہ کیا جائے تو خوبصورت انداز میں گفتگو کو ختم کردینا چاہئے:
’’وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُونَ مِمَّٓا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ‘‘۔
’’اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دو کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہار ے لیے، جو کچھ میں کرتاہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں‘‘۔(سورہ یونس:41)
5۔مشترکہ اقدار یااسلامی تعلیمات کے ثبوت کے لیے دوسرے مذاہب کی کتابوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، خود قرآن میں جگہ جگہ بشارت نبویہ سے متعلق توریت اور انجیل کا حوالہ موجود ہے، اورحدیث میں ہے کہ حضرت عدی بن حاتم سے گفتگو کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یاعدی اسلم تسلم فقلت انی علی دین، قال انا اعلم بدینک منک الم تکن رکوسیا قلت بلیٰ، قال اولم تسیر فی قومک بالمرباع قلت بلی، قال فانی ذالک لم یکن یحل لک فی دینک، قلت اجل‘‘۔
’’عدی! اسلام قبول کرلو، محفوظ ہوجاؤ گے، انہوں نے کہا کہ میں ایک دین کا پیروکار ہوں، آنحضور نے فرمایا : میں تمہارے دین کے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، آپ نے فرمایا :کیا تمہارا تعلق رکوسی فرقے سے نہیں ہے؟ (شامی عیسائیوں کا ایک گروہ جسکے عقائد فرقہ صائبہ سے ملتے جلتے ہیں) میں نے کہا کہ ہاں، میرا تعلق اسی جماعت سے ہے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنی قوم سے چوتھائی مال وصول نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ،آپ ﷺ نے فرمایا حالانکہ یہ تمہارے دین میں حلال نہیں ہے. انہوں نے کہا کہ آپؐ نے صحیح فرمایا‘‘۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام: 580/4)
اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کے ثبوت کے لیے توریت کی طرف رجوع کیا، جو ایک مشہور ومعروف واقعہ ہے، اور فتاوی ہندیہ میں ہے :
’’ولاینبغی للرجل ان یسأل الیھودی والنصرانی عن التوراۃ والانجیل والزبور ولا یکتبہ ولا یتعلمہ ولا یستدل لاثبات المطالب بما ذکر فی تلک الکتب واما استدلال العلماء فی اثبات رسالۃ سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم بالمذکور فی اسفار التوراۃ وصحف الانجیل فذالک للالزام علیھم بما عندھم‘‘۔
’’ کسی کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ یہودی یا نصرانی سے توریت ، انجیل یا زبور کی باتوں کو معلوم کرے اور نہ اسے لکھے اور نہ سیکھے، اور کسی چیز کے ثبوت کے لیے ان سے استدلال نہ کرے اور علماء نے نبی ﷺ کی رسالت کے ثبوت میں ان کی کتابوں سے جو استدلال کیاہے و ہ بطور الزام ہے‘‘۔(الھندیۃ: 48/5)
اور شیخ ابن السعدی لکھتے ہیں:
’’اگر غیر مسلم اپنے کو حق پر سمجھتا ہے یا وہ باطل کی طرف دعوت دینے والا ہے تو اس سے گفتگو کے لیے بہتر سے بہتر طریقے سے انتخاب کرے… مثلا اس کے سامنے ایسی دلیلیں پیش کرے جس کا وہ قائل ہے، کیونکہ یہ مقصد کے حصول میں زیادہ معاون ہے‘‘۔(تفسیر تیسیر الکریم الرحمن: 93/3)
2۔ سماجی اور سیاسی مذاکرہ:
مختلف مذاہب کے وجود کوختم نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لیے اس اختلاف کے باوجود بقاء باہم کا کیاطریقہ ہوگا؟ کیسے ایک دوسرے کے ساتھ امن و سکون کی زندگی گزاری جاسکتی ہے؟ کیسے ایک دوسرے کے ساتھ انسانی تعلقات استوار کئے جائیں؟ اس پر بھی مذاکرہ مطلوب ہے، اور اس طرح کے مذاکرات کے لیے ’’ میثاق مدینہ‘‘ ایک بہترین نمونہ ہے، جس میں نسل و مذہب کے اختلاف کے باوجود سب کو ایک لڑی میں پرونے کے کوشش کی گئی تھی، جس میں آنحضورؐ نے یہ فرمایا تھا کہ یہود اور مسلمان، دونوں ایک امت اورجماعت ہوں گے، اورجو کوئی اس معاہدہ میں شامل لوگوں سے جنگ کرے تو سب لوگ مل کر اس سے مقابلہ کریں گے، اور یہ معاہدہ نیکی اور باہمی خیر خواہی کے کاموں میں ہوگا نہ کہ کسی گناہ کے کام میں، اور مظلوم کی مدد کی جائے گی، اور اس معاہدہ میں شامل لوگوں کے لیے آپس میں جنگ وجدال کرنا حرام ہوگا۔(الوثائق السیاسیہ لعھد النبوی والخلافۃ الراشدہ:64،57)
اور اسی طرح سے بعثت سے پہلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف الفضول نامی معاہدے میں شرکت فرمائی جس میں اس پر اتفاق کیاگیا تھا کہ ظالم کے ظلم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت کے بعد اس معاہدہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے :
’’ لودعیت الیوم فی الاسلام لاجبت‘‘۔
’’اگر آج بھی مجھے اس طرح کے معاہدے کے لیے بلایاجائے تو میں ضرور جاؤں گا ‘‘۔(مسند احمد: 1658 الادب المفرد: 570)
اسلام، پر امن بقاء باہم کا قائل ہے وہ دوسرے مذاہب کو مٹانے کا نہیں بلکہ انہیں گوارا کرنے اور ان کے ساتھ عدل وانصاف کا رویہ اختیار کرنے اورحسن سلوک کا حکم دیتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم وغیر مسلم کے فرق کے بغیر تمام پڑوسیوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے اوران کے ساتھ داد و دہش کا معاملہ روا رکھنے کاحکم دیا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہر گز مومن نہیں ہے جس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ رہیں، نیز غیر مسلم والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم خود قرآن میں موجود ہے،اور دوسرے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ کا پاس و لحاظ رکھنے اور صلہ رحمی کی تاکید متعدد حدیثوں میں مذکور ہے، اور فقہ وفتاویٰ کی مشہور کتاب فتاوی الہندیہ میں ہے :
’’ولاباس بمصافحۃ المسلم جارہ النصرانی اذا رجع بعد الغیبۃ ویتاذی بترک المصافحۃ‘‘۔
’’اگر کسی مسلمان کا نصرانی پڑوسی سفر سے واپس آئے تو مسلمان اس سے مصافحہ کرسکتا ہے جبکہ مصافحہ نہ کرنے کی وجہ سے اسے تکلیف اور رنج ہو‘‘۔(الہندیۃ: 348/5)
اس طرح کے مذاکرات میں چند چیزوں کا لحاظ رکھنا ہوگا:
1۔ دوسرے مذاہب کے وجود اور بقا کا اعتراف، اور کسی کے لیے کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کا حق اور آزادی کا اقرار۔
2۔ اعتقادی مسائل میں بحث ومباحثہ سے بچنا، اور اس سے اعراض کرنا۔
3۔گفتگو کے ماحول کو پراگندہ کرنے والی چیزوں سے دور رہنا، مثلاکسی کو کافر کہہ کر مخاطب کرنا یا ان کے مذہبی نظریات اور مقدسات پر حملہ کرنا۔
4۔ مشترکہ، اتفاقی اور اخلاقی اقدار کو نمایاں کرنا۔
5۔ مذہبی اور سماجی مذاکرے کے لیے غیر مسلموں کو مسجدوں میں آنے یا ان کے عبادت خانوں میں جانے میں کوئی قباحت نہیں ہے سیرت کی کتابوں میں غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اوران کے ساتھ پرامن بقاء باہم کا یہ غیر معمولی واقعہ مذکور ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ کئی روز تک گفتگو فرمائی اور انہیں اپنے طریقے پر مسجد نبوی میں صلاۃ ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (السیرۃ النبویہ: 511/1) اس واقعہ کے ذیل میں علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب مسجدوں میں آسکتے ہیں نیز مسلمانوں کی موجودگی میں وہ مسجد کے اندر اپنے طور پر صلاۃ ادا کرسکتے ہیں، لیکن ایسا کرنا عارضی اور وقتی ہوناچاہئے، اس کی عادت بنالینے کی اجازت نہیں ہوگی‘‘۔ (زادالمعاد: 638/3)
اسی طرح سے حدیثوں میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم دعوت و تبلیغ کے لیے غیر مسلموں کے مذہبی مقامات پر جایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں کہ:
’’ انطلق النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوما وانا معہ حتی دخلنا کنیسۃ الیھود یوم عید لھم‘‘۔
’’ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے، میں بھی آپ کے ساتھ تھا، یہاں تک کہ ہم یہودیوں کے عبادت خانے میں داخل ہوگئے، وہ ان کے تہوار کا دن تھا۔‘‘(مسند احمد:23464)
اسی موقع پر حضرت عبداللہ بن سلام مشرف بہ اسلام ہوئے۔
6۔اسی طرح سے باہمی مذاکرات اور خوشگوار تعلقات کے لیے غیر مسلموں کے میلوں وغیرہ میں شرکت کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ اس عمل کی وجہ سے کسی بت وغیرہ کی تعظیم نہ ہوتی ہو، اور نہ ہی وہاں مشرکانہ کام انجام دیئے جارہے ہوں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت و تبلیغ کے لیے کفار مکہ کے میلوں میں تشریف لے جایا کرتے تھے، اور اگر یہ شرط نہ پائی جائی تو شرکت درست نہیں ہے۔ اللہ عزو جل کا ارشاد ہے :
’’ وَاِذَا رَأَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ آیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَاِمَّایُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْریٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ‘‘۔
’’جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں عیب جوئی کر رہے ہیں توان سے کنارہ کش ہوجاؤ، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں، اگر شیطان تمہیں یہ بات بھلادے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو‘‘۔ (سورہ الانعام:68)
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یجلس علی مائدۃ یدار علیھا الخمر‘‘۔
’’جوکوئی اللہ اور آخرت پرایمان رکھتا ہووہ کسی ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چل رہا ہو ‘‘(ترمذی:2801،مسند احمد:125)
واضح رہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی رسوم واعمال عام طور پر شرکیہ تصورات سے آلودہ ہوتے ہیں اس لیے انسانی خدمت اور بھائی چارہ کے پہلو سے بھی ان میں شرکت درست نہیں ہے، الا یہ کہ ان کی غلط باتوں پر تنقید اور کلمہ حق کو بلند کرنا مقصود ہو تو شرکت کی اجازت ہے۔ چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے :
’’ اگر مجوسی کھانے کے دوران کفریہ کلمات نہ گنگناتا ہو تو اس کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر گنگناتا رہتا ہو تو درست نہیں ہے، کیونکہ وہ کفر و شرک کا اظہار کررہا ہے اور اس حالت میں اس کے ساتھ کھانا درست نہیں ہے‘‘۔(الہندیۃ :347/5)
7۔ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے اور فتنہ وفساد سے بچنے کی غرض سے بعض ایسے اعمال بھی ترک کئے جاسکتے ہیں جو شرعا واجب نہیں، یا جن کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی متوارث، تہذیب وثقافت سے ہو، چنانچہ امام بخاری نے یہ عنوان قائم کیا ہے:
’’باب من ترک بعض الا ختیار مخافۃ ان یقصر فھم بعض الناس عنہ فیقعوا فی اشد منہ‘‘
اور اس عنوان کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے:
’’ قال النبی ﷺ وسلم یا عائشہ لو لا قومک حدیث عھدھم بکفرھم لنقضت الکعبۃ فجعلت لھا بابین، بابا یدخل الناس، وبابا یخرجون‘‘۔
’’اے عائشہ! اگر تمہاری قوم کے لوگ نئے نئے مسلمان نہ ہوتے تو میں کعبہ کو گرا کر اسے پھر سے بناتا اور اس میں دو دروازہ کھول دیتا جس میں سے ایک سے لوگ اندر جاتے اور دوسرے سے باہر آتے ‘‘۔(صحیح بخاری: 126)
علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مفسدہ اور برائی سے بچنے کے لیے کسی مصلحت اور اچھائی کو ترک کیا جاسکتا ہے نیز کسی برائی پر نکیر نہ کرنا درست ہے جبکہ اس کی وجہ سے اس سے بڑی برائی میں مبتلا ہونے کاخدشہ ہو،(فتح الباری:225/1) اور علامہ عینی نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ کبھی امر بالمعروف کو ترک کردیا جاتا ہے جبکہ اس کی وجہ سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو۔(عمدۃالقاری:204/2)
3۔بین مذہبی مذاکروں اور مکالموں کاایک مقصد وحدت ادیان بھی ہے جس میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام مذاہب کے عقیدہ اور نظریہ کو صحیح سمجھا جائے، اور عبادات کی تمام شکلوں کودرست قرار دیا جائے، مختلف مذاہب کے مذہبی اعمال و رسوم کسی ایک ہی عبادت خانے میں انجام دیے جائیں، مختلف اور متضاد نظریات کو باہم جمع کیاجائے، اختلاف ونزاع کوختم کرنے کے لیے دوسرے مذاہب کی کچھ باتوں کوقبول کرلیاجائے، اس کے لیے بعض اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیاجائے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کی کسی چیز پر گفتگو دوسروں کے لیے تو ممکن ہے لیکن امت مسلمہ کے لیے محال ہے، اس لیے کہ دین اسلام کسی فرد کی خواہش اور کوشش کا نتیجہ نہیں ہے کہ کسی کو خوش کرنے اور راضی رکھنے کے لیے کوئی تبدیلی کرسکے، بلکہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین قابل قبول نہیں ہے، بلکہ کسی دین کی طرف معمولی رجحان بھی لائق گرفت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ومالکم من دون اللہ من اولیاء ثم لا تنصرون‘‘۔
’’اور ان ظالموں کی طرف ذرابھی نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپٹ میں آجاؤ گے، اور تمہیں کوئی ایسا مدد گار نہ ملے گا جو تمہیں اللہ سے بچا سکے، اور کہیں سے بھی تم کو کوئی مدد نہیں ملے گی‘‘۔(سورۃ ھود:113)
غرض کہ کسی بھی طرح کی گفتگو میں روا داری اور دوسرے مذاہب کے پیروں کاروں کے ساتھ حسن سلوک، احترام انسانیت، مشترکہ اخلاقی اقدار، سماجی مسائل، پرامن اور بقاء باہم پر بات کی جاسکتی ہے، لیکن کسی دینی معاملہ پر سمجھوتا، کسی اصول کا سودا کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہوگی۔ اس سلسلہ میں ہمارے لیے حبشہ ہجرت کرنے والے صحابہ کرام کا طرز عمل بہترین اسوہ ہے کہ جب وہ پوچھ گچھ کے لیے نجاشی کے دربار میں حاضر کیے گئے تو انہوں نے آپس میں یہ طے کرلیا تھاکہ ہم وہی بات کہیں گے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلائی ہے، خواہ ہمیں یہاں رہنے دیا جائے یا باہر کردیاجائے، چنانچہ انہوں نے کسی رو رعایت کے بغیر اسلامی تعلیمات کو برملا بیان کیا جس سے شاہِ حبشہ مطمئن ہوگیا اور انہیں قریش کے قاصدوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ، قاصدوں کے سربراہ حضرت عمرو بن عاص نے کہا کہ کل میں نجاشی کے پاس جاکر ایسی بات کہو ں گا جس کی وجہ سے ان کی جڑکٹ جائے گی اور تمام بولتی بند ہوجائے گی، چنانچہ انہوں نے نجاشی سے کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، اس لیے انہیں دوبارہ بلا کر باز پرس کیجئے۔یہ بڑا نازک مرحلہ تھا، سچ بات کہیں تو نجاشی کی ناراضگی کاخطرہ تھا، لیکن انہوں نے طے کرلیا کہ جو ہونا ہے ہوگا ہم تو حق بات ہی کہیں گے اور اس سلسلے میں کوئی نرمی اور لچک گوارا نہیں کریں گے، غور کا مقام ہے کہ جلا وطنی کی حالت میں جہاں انکا کوئی مدد گار نہ تھا انہوں نے حق کے معاملے میں کسی مداہنت کو نہیں اپنایا اور صاف صاف بے کم وکاست اسلامی عقید اور نظریہ کو بیان کردیا۔
*************
شائع شدہ:فقہ اکیڈمی کا مجلہ بعنوان بین مذہبی مذاکرات ۔اصول و آداب 2017ء