فارغینِ مدارس کا مطلوبہ کردار- علامہ شبلی کے حوالے سے۔
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
پندرہویں صدی عیسوی سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک کا زمانہ زبردست تبدیلیوں اور نت نئے انقلابات کا دور ہے۔ اس عہد میں انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوتی ہے۔ لیکن مشرق و مغرب کے اعتبار سے اس میں بڑا فرق تھا۔مغرب روشنی اور ترقی کی طرف گامزن تھا، سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں ہر روز آگے بڑھتا جا رہا تھا، فنونِ حرب و ضرب میں نئے نئے تجربے کر رہا تھا۔ اس کے بر خلاف مشرق پستی اور تاریکی کی طرف رواں دواں تھا، اس کی ساری قوت و توانائی مسلکی جنگوں اور آپسی مناظروں میں صرف ہو رہی تھی۔ یا ان بکھیڑوں سے دور اور دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا، یا رقص و سرود اور موسیقی پر نئے نئے تجربے کرتا۔ غرضیکہ:
مولوی الجھا ہے قیل و قال میں.
مست بے چارہ ہے صوفی حال میں.
قوم و ملت کی خبر شاعر کو کیا.
یہ پھنسا ہے زلف، خد و خال میں.
اگر چہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے ذریعہ مسلمانوں کے دینی سرمایے کی حفاظت کا سامان پیدا ہو گیا تھا، اور وہاں سے ایسے علماء نکلے جو دینی جذبے سے لبریز اور اسلامی روح سے سرشار تھے، انہوں نے مسلمانوں میں دین کی محبت، شریعت کا احترام اور مغربی تہذیبی یلغار کے مقابلہ میں صلابت و استقامت کی روح پھونک دی۔ اور علی گڑھ کالج کے قیام کے ذریعہ مسلمانوں کو دنیاوی اعتبار سے اوپر اٹھانے کی بھرپور کوشش کی گئی، جس کے بڑے قابلِ قدر نتائج ظاہر ہوئے؛ لیکن ان دونوں طبقوں میں بڑی دوری اور اجنبیت پائی جاتی تھی، ضرورت اس بات کی تھی کہ مدرسوں اور کالجوں کی یہ بے گانگی دور ہو، تعلیم میں دوئی کے بجائے یکسانیت ہو، اور قصۂ جدید و قدیم ختم ہو، علامہ شبلی نعمانی کی پوری زندگی اسی تفریق کے مٹانے سے عبارت تھی۔
ماہر جدید و قدیم:
وہ چاہتے تھے کہ مدرسوں سے ایسے علماء پیدا ہوں جن کی حالات و زمانے پر گہری نظر ہو، ان کی نگاہ بلند، نظر وسیع اور دل میں فراخی و کشادگی ہو۔ اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ وہ قدیم و جدید دونوں کے شناور ہوں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’ہم نے یہ بار بارکہا اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لیے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کافی ہے، نہ قدیم عربی مدرسوں کی۔ ہمارے درد کا علاج ایک معجونِ مرکب ہے، جس کا ایک جز مشرقی ہے اور دوسرا مغربی ہے۔‘‘ (حیات شبلی/513)
ترکی اور مصر کے سفر سے پہلے ان کا خیال تھا کہ ان ملکوں میں مسلمانوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے شاید جدید و قدیم کی یہ تفریق نہ ہو، لیکن جب وہاں جانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں بھی جدید و قدیم کے درمیاں وہی حدِّ فاصل ہے تو ان کے دل کو بڑی ٹھیس لگی، چنانچہ سر سید کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’افسوس کی عربی تعلیم کا پیمانہ یہاں بہت ہی چھوٹا ہے، اور جو قدیم طریقۂ تعلیم ہے اس میں یورپ کا ذرا پَرتو نہیں ہے۔ جدید تعلیم وسعت کے ساتھ ہے، لیکن دونوں کے حدود جدا جدا رکھے گئے ہیں، اور جب تک یہ ڈانڈے نہیں ملیں گے اصلی ترقی نہیں ہو سکے گی۔ یہی کمی ہمارے ملک میں ہے، جس کا رونا ہے۔(حوالہ سابق/ 200)
نیز اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں:
’’پرانی تعلیم نہایت ابتر ہے، نئی تعلیم کے متعلق جو شکایت یہاں ہے، وہاں بھی ہے۔۔۔۔۔۔ پرانے خیال والے ابھی تک زمانے کی رفتار سے بے خبر ہیں۔ نئے مذاق کے لوگ جس قدر کہتے ہیں کرتے نہیں۔ ہمت، غیرت، جوش، عزم و استقلال کے بجائے کل قوم پر افسردگی سی چھائی ہوئی ہے۔‘‘ (حوالہ سابق /217)
نظام حیدر آباد نے عثمانیہ یونیوسٹی کے نصابِ تعلیم میں اصلاح کے لیے انہیں مدعو کیا تھا، اس موقع سے انہوں نے کہا :
’’میں مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا ہوں کہ نہ توجدید انگریزی نصابِ تعلیم اور نہ ہی ہمارے مدارس کا قدیم نصاب ہماری ضروریات و مقتضیات کے مطابق ہے۔ ہماری ضروریات کی تکمیل اور مسائل کے حل کے لیے دونوں نصاب ہائے تعلیم میں بہترین امتزاج کی ضرورت ہے۔‘‘ (دینی مدارس اور ان کے مسائل/145)
اس اختلاط وامتزاج کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ درس گاہ کا پورا ماحول اسلامی رنگ میں رنگا ہو۔ نیز اس کی کوشش ہونی چاہئے کہ عصری علوم میں جو فاسد مادے ہیں انہیں آپریشن کے ذریعہ نکال باہر کیا جائے، اور جس طرح سے مسلمانوں نے فارسی زبان و ادب کو اسلامی سانچے میں ڈھال دیااسی طرح سے عصری علوم کو بھی مسلمان بنا کر پڑھانا چاہئے۔ افسوس اس پر ہے کہ ایک طویل عرصے سے مسلمان عصری علوم حاصل کر رہے ہیں، لیکن اسے اسلامی رنگ میں رنگنے کی سمت میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ علامہ سید سلمان ندوی لکھتے ہیں:
’’ان کے نزدیک مسلمانوں کی ترقی کے لیے سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعلیم کا ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جس میں ایک طرف یورپ کے تمام جدید علوم وفنون کی تعلیم ہو، اور دوسری طرف خالص اسلامی علوم کی، اور درسگاہوں کا ماحول تمام تر مذہبی ہو۔‘‘(حیات شبلی/216)
نیز لکھتے ہیں :
’’مسلمانوں کی موجودہ بیماریوں کا علاج۔۔۔۔۔ مولانا شبلی کے نزدیک یہ تھا کہ صحیح اسلامی عقائد واخلاق کی حفاظت اور بقا کے ساتھ نئے زمانے کی صرف مفید باتوں کو قبول کیا جائے۔‘‘(حوالہ سابق /290)
جدید علم کے شناور:
دینی مدارس کے نصاب میں منطق و فلسفہ کی کتابوں کی ایک بڑی تعداد داخل تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ اس زمانے کی سائنس تھی جس کے ذریعہ اسلامی عقائد و تعلیمات پر حملہ کیا جا رہا تھا؛ اس لیے علمائے اسلام نے اسے سیکھا، اور اسے اسلامی سانچے میں ڈھالا،اور اس کے ذریعہ پھیلائے گئے اعتراضات کی بنیادوں کو منہدم کر دیا۔ لیکن نہ اب وہ علوم رہے، اور نہ ان کے دلائل و مسائل کی صحت پر عقل کے مدعیوں کا یقین رہا۔ اب اس کی جگہ جدید سائنس اور نئے علوم ہیں، جس کے ذریعہ اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور عصری علوم سے واقف طبقہ کے ذہنوں میں اس کی وجہ سے شبہات پیدا رہو رہے ہیں، اور ان کی ایک بڑی تعداد فکری طور پر الحاد کے کگار پر ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ علماء ان علوم سے واقف ہو کر ان کے اعتراضات کا تحقیقی اور تسلی بخش جواب دیں۔ علامہ شبلی کو اس ضرورت کا شدید احساس تھا، انہوں نے مختلف مواقع اور متعدد اسلوب میں اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، چنانچہ ندوۃ العلماء کے نویں اجلاس منعقدہ امرتسر میں انہوں نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’اسی بنا پر آج بھی فلسفۂ جدیدہ کی تعلیم نے ہزاروں آدمیوں کو مذہب کی طرف سے بددل کر دیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ فلسفۂ جدیدہ کے مقابلے میں ایک نیا علم ایجاد کیا جائے، نہ صرف اسی قدر بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ جس طرح ہمارے قدماء نے یونان، مصر، ایران اور ہندوستان کے علوم و فنون کو اپنی زبان میں منتقل کیے تھے اسی طرح یورپ میں جو نئے علوم وفنون ایجاد ہوئے ہیں ہماری زبان میں منتقل کیے جائیں۔‘‘(تاریخ ندوۃ العلماء302/1)
نیز وہ فرماتے ہیں:
’’جب تک ہماری قوم کے علماء جدید فلسفہ اور جدید علوم کو بذاتِ خود حاصل نہ کریں ناممکن ہے کہ وہ ان اعتراضات کا جواب دے سکیں جو یورپ کے ملاحدہ اسلام پر کرتے ہیں، اور جن کا اثر ہماری قوم کے جدیدتعلیم یافتہ لوگوں پر پڑتا ہے۔‘‘ (خطبات شبلی/90)
علماء کے لیے جس نئے علمِ کلام کی وہ ضرورت محسوس کر رہے تھے اس کا پورا خاکہ ان کے ذہن میں تھا، جسے وہ بتدریج دارالعلوم ندوۃ العلماء میں نافذ کرنا چاہتے تھے، اور اس طرز پر بعض کتابیں بھی مرتب کر رہے تھے؛ لیکن مخالفت کی وجہ سے وہ اسے وہاں نافذ نہ کر سکے،جس کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے الگ ایک مجلسِ علمِ کلام قائم کرنا چاہا۔ بقول سید سلیمان ندوی:
’’جس کے ذریعے سے یورپ کے فاسد خیالات و اعتراضات کا استیصال مقصود تھا۔ ان کے خیال میں اس مشکل کا اصل حل قدیم و جدید تعلیم کا امتزاج تھا، جس کے لیے وہ ہر طرح کوشش کر رہے تھے۔ لیکن جب تک اس امتزاج کا سامان نہ ہو اور اس کا نتیجہ پیدا نہ ہو ان مشکلات سے اعراض نہیں کیا جا سکتا ہے جو جدید تعلیم کی بدولت مسلمانوں کو پیش آرہی تھیں۔ اس بنا پر ان کو خیال ہوا کہ ملک میں اس وقت نئے تعلیم یافتوں میں سے ایسے لوگ جو فلسفہ کا ذوق اور اسلام کا درد رکھتے ہوں ایک طرف سے لیا جائے، اور دوسری طرف سے ایسے علماء کو لیا جائے جو قدیم فلسفہ کے ماہر ہوں، جدید تعلیم سے مانوس اور فلسفۂ جدیدہ کے نئے اعتراضات کی تردید و تنقید کی قوت رکھتے ہوں، اور ان دونو ں کو ملا کر ایک مجلسِ علمِ کلام کی بنیاد ڈالی جائے۔(حیات شبلی/585)
لیکن یہ رائے بھی تجویز کی حد سے آگے نہ بڑھ سکی اور ان کا وقت ِ موعود آپہنچا۔
دین کا داعی:
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، اور پوری نسلِ انسانی اس کا مخاطب ہے۔ اس کی دعوت سب کے لیے عام اور ہر طرح کی حدبندیوں سے آزاد ہے، اور پوری دنیا میں اس کی دعوت کو پھیلانا ہر مسلمان کا فرضِ منصبی ہے. اور علماء و فارغینِ مدارس کی یہ مخصوص ذمہ داری ہے کہ وہ ملت کودعوتی رخ دیں،اوراس فریضہ کی ادائیگی کے لیے انہیں فکری اور علمی طور پر آمادہ کریں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عام طور پر اس فریضہ سے غفلت اور بے توجہی برتی گئی ہے،جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ تاہم اس دور میں اس سلسلے میں کچھ بیداری آئی ہے۔ لیکن علامہ شبلی جس دور میں زندگی گزار رہے تھے اس میں اس طرح کی بات ایک اجنبی اور نامانوس آواز تھی۔ اس لیے موجودہ بیداری میں ان کی کوششوں کا کچھ دخل ضرور ہے۔ چنانچہ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے قیام کے مقاصد کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’علماء میں ایثارِ نفس پیدا کرنا، انگریزی داں علماء پیدا کرنا، مذاقِ حال کے مطابق علماء کے گروہ میں مقررین اور اربابِ قلم کا پیدا کرنا، ایسے علماء پیدا کرنا جو غیر اسلامی ممالک میں اسلام کی اشاعت کر سکیں۔‘‘ (تاریخ ندوۃ العلماء90/1)
در اصل یہی آخری چیز مقصود ہے، اور بقیہ چیزیں اس کے حصول کا ذریعہ؛ جیسا کہ ان کی دوسری تحریروں سے معلوم ہوتا ہے۔
1882ء میں مصر و شام کی سیاحت کے دوران وہاں کے نصابِ تعلیم اور طریقۂ تربیت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ نظامِ تعلیم ایسے علماء پیدا نہیں کرسکتاہے جو موجودہ زمانے کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں، اور اسلام کے ابدی اور فطری دعوت کو عام کر سکیں۔‘‘(حوالہ سابق 91/1)
اس مقصد کے لیے وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں انگریزی زبان سیکھنے کے لیے ایک شعبہ کھولنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ عربی تعلیم سے فراغت کے بعد دوسال تک صرف انگریزی زبان کی تعلیم ان میں ایسی لیاقت پید اکر دے گی کہ وہ اس زبان میں اسلام کی تبلیغ کر سکیں گے۔ (حیات شبلی/420)
اور 1908ء میں انہوں نے دارلعلوم ندوۃ العلماء میں ہندی اور سنسکرت کا درجہ قائم کیا، تاکہ اس کے ذریعہ آریہ سماج کے مبلغوں کا مقابلہ کیا جا سکے، جن کا اس زمانہ میں بڑا زور تھا،اور مسلمانوں میں بے اطمینانی اور ارتداد پھیلانے کے لیے کوشاں تھے۔ (حوالہ سابق /421)
اس دور میں ارتداد کی لہر نے انہیں سیماب صفت بنا دیا تھا، کسی کروٹ چین نہیں تھااور شدید بے قراری کی حالت میں اسے روکنے کی ہر ممکن تدبیرکرتے۔ ان کی کوششوں سے ندوۃ العلماء میں اشاعت اسلام کا ایک شعبہ قائم ہوا،جس کے ذمہ داروں کی بے توجہی کی وجہ سے اس کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ اس لیے 1912ء میں ندوہ کے دائرے سے ہٹ کر ’’مجلسِ اشاعت ِ اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی اور مولانا سید سلمان ندوی کو اس کا ناظم مقرر کیا۔اسی سال ندوہ کے لکھنؤ کے اجلاس میں اس مسئلے پر انہوں نے تفصیلی تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں پر ہر طرف سے جو تباہی آرہی ہے، تاتاری فتنے سے اس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہ تباہی صرف ایک طرفہ تھی یعنی صرف جان و مال کا نقصان ہوا، مگر آج جو تباہی ہے وہ ہمارے مذہب پر ہے، اخلاق پر ہے، تمدن پر ہے۔ اور آخر میں صحابہ کرام وغیرہ کی تبلیغی کوششوں کا ذکر کر کے کہا کہ:
’’ہم میں پھر اخلاص و ایثار کا وہی جذبہ پیدا ہو کہ ہم کفن پہن کر صحرا بصحرا اسلام کاپیغام لے کر پھیلیں اور لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھلائیں۔ ایسے علماء پیدا کریں جو انگریزی ، بھاکا اور علومِ جدیدہ سے واقف ہوں، اور پھر اس زمانے کی دہریت اور الحاد کا توڑ کریں۔‘‘ (حیات شبلی/570)
وہ کہتے تھے کہ آریوں کی کامیابی کے اسباب دو ہیں:
1-’’ ایثارِ نفس: ان کے واعظ نہایت ایثار نفسی، نہایت جانثاری، نہایت جفاکشی کے ساتھ اس کام میں مصروف ہیں۔ ان کا واعظ جو اچھے سے اچھا تعلیم یافتہ ہوتا ہے نہایت فقیرانہ زندگی کے ساتھ ایک ایک گاؤں میں پھرتا ہے، چنے چبا کر بسر کرلیتا ہے، راتوں کودرخت کے نیچے سو رہتا ہے، لو کی لپٹ میں سفر کرتا ہے۔
2-دیہات اور قصبات میں پیہم اور لگاتار کوشش جاری رکھنا:اس کے مقابلے میں ہمارے علماء صرف شہروں پر اکتفاء کرتے ہیں۔ لہٰذا ان سے مقابلے کے لیے ایسے لوگوں کا ہونا ضروری ہے جن میں ایثار نفسی، سادگی، جفا کشی اور جانثاری کے اوصاف ہوں۔ اور عربی پڑھنے والوں کو سنسکرت اور انگریزی کی اعلیٰ درجے تک تعلیم دی جائے۔‘‘ (حوالہ سابق/562)
اس لیے وہ فارغینِ مدارس کی ایک ایسی جماعت تیار کرنا چاہتے تھے جو سادہ مذہبی زندگی بسر کرے، اس میں ایثار و قناعت اور جفا کشی کا مادہ ہو کہ اس کے بغیر آریوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت آریہ مبلغوں کا بڑا مرکز گروکل تھا جس کے حالات کو پڑھ کر وہ بہت بے تاب رہتے تھے۔ اسی زمانے میں سرائے میر میں ایک نیا مدرسہ قائم ہوا تھا، چونکہ یہ مدرسہ ان کے زیر اثر تھا اور اس میں زیادہ تر دیہات کے بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے، اس لیے انہوں نے اسے گروکل کی طرح تبلیغِ اسلام کا مرکز بنانا چاہاکہ دیہاتی بچوں میں نہایت آسانی سے یہ تمام اوصاف پیدا کیے جا سکتے ہیں؛ چنانچہ مولانا حمید الدین فراہی کے نام خط میں وہ لکھتے ہیں:
’’اس کو گروکل کے طرز پر خالص مذہبی مدرسہ بنانا چاہئے، یعنی سادہ زندگی اور قناعت، اور مذہبی خدمت مطمحِ زندگی ہو۔‘‘ (حیات شبلی -576-76)
’’نیز اس کام کے لیے انہوں نے ’’خُدّام الدین‘‘کے نام سے ندوہ کے طلبہ کی ایک جماعت تیار کی۔ ان کے لیے سادہ کھانا، سادہ پہننا، سادہ رہنا، زمین پر سونا، احکامِ اسلام کی پوری پابندی اور تقویٰ اور قناعت ان کی زندگی کا اصول بنایاگیا۔ اس زمانے میں خود مولانا پر بھی یہی اثر تھا، اور یہ اخیر زندگی تک رہا۔‘‘(حیات شبلی/576)
گرم دمِ جستجو:
دینی مدارس کے فارغین دقیق، پُرپیچ اور پہیلی جیسی کتابوں کو حل کرنے اور طلبہ کے سامنے بے مقصد طولانی تقریرکرنے کو علم کا معراج خیال کیا کرتے تھے۔ ان کی نگاہ درسی کتابوں اور ان کے شروح و حواشی تک محدود تھی، اور پوری توانائی اس کے اردگرد گھومنے میں صرف ہو رہی تھی۔ زیر درس کتابوں کے علاوہ کسی اور کتاب سے استفادہ، قلمی کتابوں کی تلاش، مخطوطات کی تحقیق اور نوادر کتب کے مطالعہ کا شوق عموماً ناپید تھا،اورجدید علوم کی حیثیت اچھوت کی سی تھی۔علامہ شبلی نعمانی چاہتے تھے کہ علماء میں ان چیزوں کا ذوق پیدا ہواور وہ خود ساختہ جزیرہ سے باہر نکلنے کی کوشش کریں، اور حالات و زمانے سے باخبری حاصل کریں۔ ندوۃ العلماء کے ایک جلسہ میں علماء کے فرائض کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے خاص طور سے اس جانب توجہ دلائی، اور بقول مولانا سید سلمان ندوی:
’’ان کو یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی تھی کہ یورپ کے متشرقین جن کو اسلام سے کوئی واسطہ نہ تھا وہ تو مسلمانوں کے علوم و فنون کی نادر کتابوں کی فراہمی، تصحیح، تحشیہ اور اشاعت میں ایسی جانفشانی دکھا رہے ہیں۔ اور مسلمان جو ان علوم کے اصل وارث تھے ان کو اپنے ان خزانوں کی خبر نہیں ہے، چہ جائیکہ ان کی تلاش و تصحیح و مطالعہ واشاعت کی زحمت اٹھائیں۔‘‘ (حیات شبلی/37)
چنانچہ خود علامہ شبلی رقم طراز ہیں:
’’یہ امر مسلم ہے کہ مسلمانوں نے کسی زمانے میں تمام علوم و فنون کو نہایت ترقی دی تھی اور ہر فن میں اپنے خاص اجتہاد اور تحقیقات کے نتائج قلم بند کیے تھے.لیکن رفتہ رفتہ علمی مذاق کو اس قدر تنزل ہوتا گیا کہ آج جو تالیفات و تصنیفات عام طور سے رائج ہیں اکثر وہ ہیں جن میں ایجاد و جدّت کی جھلک نہیں پائی جاتی۔‘‘ (حوالہ سابق/267)
قسطنطنیہ کے سفر میں انہوں نے دیکھا کہ لوگ معمولی درجے کی کتابوں کے مطالعے میں مشغول ہیں، تو انہیں بڑی حیرت ہوئی، اور بڑے کرب اور افسوس کے ساتھ اپنے سفر نامہ میں اس پر تبصرہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کتب خانوں میں جب لوگوں کو کتابوں کے مطالعے میں مشغول دیکھتا تھا تو ہمیشہ دریافت کرنا چاہتا تھاکہ کس قسم کی کتابیں ان کے پیشِ نظر ہیں، لیکن میں نے کسی کے سامنے مختصر المعانی، ایسا غوجی، شرح وقایہ اور جلالین وغیرہ کے سوا کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ کل دنیائے اسلامی میں تعلیم کا طریقہ ایسا ابتر اور ذلیل ہو گیا ہے کہ جن درسی کتابوں کے سوا لوگوں کو کسی قسم کی جدید معلومات کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی، جس کا یہ نتیجہ ہے کہ جدّت اور ایجاد کا مادہ قوم سے مسلوب ہوتا جاتا ہے۔‘‘(سفر نامہ/ 97)
جریدۃ الندوۃ کے ذریعہ انہوں نے اس معاملہ میں قوم کو بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی، جس کا مقصد اس کے سر ورق پر یہ لکھا ہوتا تھا کہ:
’’علومِ اسلامیہ کا احیاء، تطبیقِ معقول ومنقول اور علومِ قدیمہ و جدیدہ کا موازنہ۔‘‘
اس جریدہ کے اثرات اور نتائج کے سلسلہ میں علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
’’اس رسالے نے شاید سیکڑوں برس کے بعد علماء کی سطحِ جامد میں حرکت پیدا کی تھی۔ اب تک علماء کے تحقیقاتی مسائل منطق، عقائد اور فقہ کے چند ایسے مسائل قرار پائے ہوئے تھے جن پر گو بہت کچھ لکھا جا چکا تھا پھر بھی جو آتا وہ انہی کو دہرا دہرا کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتا تھا۔ منطق و فلسفہ کی بعض درسی کتابوں کی شرحیں لکھنا، حاشیے لکھنا، تعلیقات لکھنا، غیر مفید مناظرانہ رسائل تالیف کرنا یہ علماء کے مشاغل تھے، حالانکہ زمانے کا رخ ادھر سے ادھر پھر چکا تھا اور حالات نے اسلام اور علومِ اسلامیہ کی خدمت کے کچھ اور ہی ضروریات پیدا کر دیے تھے۔ الندوہ کا بڑا فیض یہ تھا کہ اس نے علمائے کرام کے خیالات میں انقلاب پیدا کیا۔‘‘ (حیات شبلی /441)
اسی مقصد کے حصول کے لیے دارالمصنّفین کا خاکہ ان کے ذہن میں آیا جو ان کی زندگی کا آخری شاہ کار ہے۔
علماء میں باہم رشتۂ اتحاد:
اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت سے ہر شخص آگاہ و واقف ہے، اور علمائے کرام کو اسے بتانا اور سمجھانا سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طبقۂ علماء میں یہی جوہر سب سے زیادہ کم یاب ہے۔ علامہ شبلی کے دور میں ہندوستان بلکہ پورا عالمِ اسلام مسلکی جھگڑوں کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا، مقلدین اور غیر مقلدین کی آویزش شعلۂ جوالہ بنی ہوئی تھی، سنت و بدعت کی لڑائی زوروں پر تھی، جس کی وجہ سے نہ کسی کی عزت و آبرومحفوظ تھی اور نہ جان و مال۔
اس صورت حال کو دیکھ کر حساس اور درمند دل رکھنے والے کچھ لوگ اٹھے اور تحریک ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد تھااصلاحِ نصاب اور رفعِ نزاعِ باہمی۔ ان لوگوں میں علامہ شبلی کا نام سرفہرست ہے۔ انہوں نے علماء کے باہمی اتحاد کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی۔ وہ چاہتے تھے کہ علماء میں رشتۂ اتحاد مضبوط سے مضبوط تر ہو، اور کسی طرح کی سازش، ریشہ دوانی اور مخالفت کا طوفان اسے کمزور نہ کرنے پائے، تاکہ ان کا علمی اور مذہبی وقار برقرار رہے، اور ان کے باہمی اختلاف سے جو جگ ہنسائی ہورہی ہے اور اسلام کا دفاعی نظام کمزور ہوتا جارہا ہے وہ ختم ہوجائے۔ چنانچہ علماء کے فرائض کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اس امر سے انکار نہیں ہوسکتا کہ علماء کو قوم پر اب بھی نہایت وسیع اختیارات حاصل ہوسکتے ہیں، ان اختیارات کے حاصل ہونے کی شاید علماء کو ضرورت نہ ہو لیکن قوم کو اس کی ضرورت اور سخت ضرورت ہے، کیونکہ علماء جب تک قوم کے اخلاق، قوم کے خیالات، قوم کے دل ودماغ، قوم کی معاشرت، قوم کا تمدن، غرض قومی زندگی کے تمام بڑے بڑے حصوں کو اپنے قبضۂ اختیار میں نہ لیں گے قوم کی ہرگز ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ قوم کو بزور پابند بنا سکتے ہیں، لیکن یہ زور تلوار کا نہیں ہوگا، بلکہ اتباعِ سنت اور اتفاقِ باہمی کا ہوگا۔
۔۔۔۔۔حضرات! آپ کو معلوم ہے کہ ندوۃالعلماء جس میں اس وقت آپ تشریف فرما ہیں، اگر اتحاد واتفاق کے ٹھیک اصول پر قائم ہوجائے تو وہ کتنی عظیم الشان طاقت بن سکتا ہے۔‘‘(خطبات شبلی/33۔موج کوثر/233)
خودداری، بلند ہمتی، عالی ظرفی:
مذکورہ صفات انسانیت کے لوازم میں سے ہیں، اور ایک عالمِ دین کے لیے ان صفات سے آراستہ ہونا اور بھی ضروری ہے۔ ان صفات کے ذریعے اختلاف کی خلیج کم سے کم ہوگی، اور ناگزیر اختلاف کی صورت میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ علامہ شبلی نعمانی کے دور میں عالمِ اسلام میں جو دینی درس گاہیں تھیں ان سے وابستہ لوگوں میں یہ صفات بہت کمیاب تھیں، اور اِس وقت بھی صورت حال بہت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اپنے سفر نامہ میں جامعہ ازہر کے تربیتی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تربیت ومعاشرت کا جو طریقہ ہے اور جس کا ذکر میں ابھی کرچکا ہوں اس سے حوصلہ مندی، بلند نظری، جوش، ہمت، غرض تمام شریفانہ اوصاف کا استیصال ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ طالب علموں کی دنائت اور پست حوصلگی کا یہ حال ہے کہ بازار میں ایک پیسے کی ترکاری خریدتے ہیں تو کنجڑے کو قسم دلاتے ہیں کہ تجھ کو امام حسینؓ کے سر کی قسم! واجبی قیمت بتانا۔ کیا اس قسم کے تربیت یافتہ لوگوں سے یہ امید ہوسکتی ہے کہ وہ اسلام کی عظمت وشان بڑھائیں گے؟‘‘(حیات شبلی /214)
دارالعلوم ندوۃالعلماء کے قیام میں وہ پیش پیش تھے، اور ایک عرصے تک اس کے معتمدِ تعلیم رہے۔ اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد طلبہ میں اعلیٰ ظرفی وفراخ حوصلگی پیدا کرنا بھی تھا۔(مدارس اسلامیہ کی دینی و دعوتی خدمات/61)
طلبہ میں ان اوصاف کو پروان چڑھانے کے لیے وہ چاہتے تھے کہ درسگاہیں عالی شان، رہنے کے کمرے صاف ستھرے، اور تربیت ایسی ہو کہ ان میں اولوالعزمی، حوصلہ مندی، بلند نظری اور خودداری پیدا ہو۔ (حیات شبلی /557)
ایک مرتبہ مولانا ابراہیم آروی صاحب نے انہیں اپنا مدرسہ اور خاص طور سے بورڈنگ دیکھنے کی دعوت دی، انہوں نے اسے دیکھ کر کہا:
’’آپ کبھی علی گڑھ آئیے اور کالج اور اس کا بورڈنگ دیکھیے، تاکہ خیال کی بلندی اور صفائی ستھرائی معلوم ہو۔‘‘ (موج کوثر/22 2)
قسطنطنیہ کے کالجوں میں مخصوص لباس اور یونیفارم دیکھ کر انہیں بڑا اچھا لگا۔ ان کے خیال میں یونیفارم اور بورڈنگ میں فرقِ مراتب نہ ہونے سے طلبہ میں حوصلہ مندی اور بلند نظری پیدا ہوتی ہے، چنانچہ وہ اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں:
’’ہر کالج میں غریب طالب علموں کی معتدبہ تعداد ہے، اور دولت مند ترکوں کی طرف سے ان کو اس قدر امداد دی جاتی ہے کہ وہ کالج کے تمام مصارف ادا کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ اثر ہے کہ کالج کے احاطے میں جاکر کوئی شخص کسی طرح تمیز نہیں کرسکتا کہ فلاں طالب علم غریب اور کم مقدور ہے۔ طالب علموں کی یکساں حالت ان میں اتحاد اور قومیت کا نہایت قوی خیال پیدا کرتی ہے۔ اور غربا کو اعلیٰ درجے کی معاشرت کا حاصل ہونا ان میں حوصلہ مندی اور بلند نظری کا مادہ پیدا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ بورڈنگ کا یہ طریقہ دیکھ کر مجھے اپنا مدرسۃالعلوم (علی گڑھ کالج) یاد آتا تھا اور میں اس کے بورڈنگ کے اختلافِ مراتب پر افسوس کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ میں علانیہ کہتا ہوں کہ ہمارے قومی کالج میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری اور نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تمام طالب علموں کا لباس، وضع، خوراک، مکان، فرنیچر کلیۃً ایک کردیا جائے۔‘‘(حیات شبلی /201)
اخلاص وللہیت:
اخلاص ایک بنیادی اور جوہری صفت ہے، اور کسی بھی عمل کے مقبول ہونے کے لیے شرطِ اول ہے۔ اور اسی کے ساتھ تعلیم وتعلّم کا اہم مقصد ہے اللہ کی معرفت اور اس کی بندگی، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
{وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۷۹ۙ } (آل عمران:79)
’’اور لیکن تم لوگ اللہ والے بن جاؤ، اس لیے کہ تم کتابِ الٰہی کو پڑھتے اور سکھاتے ہو۔‘‘
انسانیت کی فلاح وصلاح اس میں ہے کہ وہ خود کو اللہ کے رسولﷺ کے لائے ہوئے طریقے سے وابستہ کرلے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کہا کرتے تھے کہ:
"لن تصلح هذه الأمة إلا بما صلح أولها”.
’’اس امت کی صلاح وفلاح صحابہ کرام کے طریقے کی پیروی ہی میں ہے۔‘‘
اور اسی کو علامہ شبلی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’دوسری قوموں کی ترقی یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے جائیں، آگے بڑھتے جائیں؛ لیکن مسلمانوں کی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے جائیں، پیچھے ہٹتے جائیں، یہاں تک کہ صحابہ کی صف سے جاکر مل جائیں۔‘‘( حیات شبلی/ 290)
حاصل یہ ہے کہ علامہ شبلی کی نگاہ میں علماء کے فرائض وکردار بڑے وسیع تھے، اور وہ خود اس وسعت پر عامل اور دوسروں کو بھی اسی وسعت کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ علماء میں وہ پہلے شخص تھے جس نے وقت کی سیاسی باتوں میں دلچسپی لی۔ وہ ہندوستان میں عالمگیر اتحاد کے داعی اول تھے، اور ہندو مسلم سیاسی مصالحت کے لیے کوشاں۔ آجکل علما میں جو سیاسی سرگرمی ہے اور مسلمانوں کو سیاسی حقوق کی حفاظت کا خیال ہے، اور مختلف سیاسی گروہوں میں منقسم ہوکر بھی بہرحال سیاسی مسائل سے جو وابستگی ہے وہ شاید انہیں کی پکار کا نتیجہ ہے۔( حیات شبلی/ 40)
دین کی دعوت اور اس کے دفاع کی ہلکی پھلکی کوشش، نصابِ تعلیم میں تبدیلی اور عصری علوم کی شمولیت، علما میں روشن خیالی اور حالات وزمانے سے باخبری، تحقیق وجستجو میں جاں سوزی، تصنیف وتالیف کا نیا انداز، انہیں کے خوابوں کی تعبیر اور انہیں کے آرزؤں کی تکمیل ہے۔
شائع شده: مجلہ "عصر حاضر میں علامہ شبلی نعمانی کے تعلیمی افکار کی معنویت” سمینار کے مقالات کا مجموعہ. منعقدہ 24 -25 اکتوبر 2014 ء زیر اہتمام جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ۔