بسم الله الرحمن الرحيم.
سلسله(1)
طلاق و تفریق سے متعلق نئے مسائل:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
1-فرضی طلاق:
بہت سے ملکوں میں ایک سے زائد شادی ممنوع ہے اور اس قانونی پابندی سے بچنے کے لیے بعض لوگ اپنی ایک بیوی کو ظاہری طور پر طلاق دے دیتے ہیں اور حقیقتاً طلاق دینے کا قصد و ارادہ نہیں ہوتا ہے اس طرح کی طلاق کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
1-شوہر یا اس کا وکیل زبان سے طلاق کے الفاظ کہے۔ اس صورت میں بہ اتفاق طلاق واقع ہو جائے گی؛ کیونکہ طلاق کے صریح الفاظ کے لئے نیت اور قصد و ارادے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ اس طرح کی طلاق قصد و ارادے کے بغیر بھی واقع ہو جاتی ہے چنانچہ حدیث میں ہے:
ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النكاح والطلاق والرجعة۔
تین چیزوں کی حقیقت تو حقیقت ہے ہی مذاق بھی حقیقت ہے : نکاح ،طلاق اور رجعت۔ (ترمذی: 1184)
2-شوہر یا اس کا نائب طلاق لکھ کر دے اور زبان سے طلاق کے الفاظ نہ کہے لیکن دل میں ارادہ ہے کہ وہ صرف صورتا طلاق لکھ کے دے رہا ہے حقیقتاً طلاق دینا مقصود نہیں ہے۔
ایسی حالت میں نیت کے بغیر قضاء طلاق واقع ہو جائے گی بشرطیکہ اسے طلاق نامہ کی شکل میں لکھا جائے الا یہ کہ وہ اس پر دو گواہ بنا لے کہ وہ صرف صورتا طلاق نامہ لکھ رہا ہے تو قضاء بھی طلاق واقع نہیں ہوگی. اور اگر گواہ نہ بنائے تو دیانتا طلاق واقع نہیں ہوگی۔(1)
امام مالک، شافعی اور احمد کے نزدیک بلا قصد و ارادہ طلاق لکھنے کی صورت میں کسی تفصیل کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوگی۔(المغنی 504/10)
(1) ولا يحتاج الى النية في المستبين المرسوم ولا يصدق في القضاء انه عنى تجربة الخط "بحر” ومفهومه انه يصدق ديانة في المرسوم (ردالمحتار 442/4)