فرض نماز کے بعد دعا ۔

ولی ﷲ مجید قاسمی ۔

بے بس اور لاچار بچے کی طرح انسان اپنے پالنہار کے سامنے عجز و بے چارگی ، نیاز مندی اور خود سپردگی کا مجسم اقرار اور بے کسی ، محتاجی اور مسکینی کا پیکر بن جائے ، ہمہ وقت ہرچیز کے لیے اسی کی طرف نگاہ لگی رہے، اس کی دستگیری اور مدد کا طلب گار ہو تو اسی کانام دعا ہے اور دوسرے الفاظ میں یہی عبادت ہے ’’الدعاء ھوالعبادۃ‘‘۔
رسول ﷲ ﷺ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد بطور دلیل درج ذیل آیت پڑھی :
وَ قَالَ رَبُّکُمُ  ادۡعُوۡنِیۡۤ   اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ  الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ (المؤمن:60)
اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا بیشک جو لوگ تکبر کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے.
(جامع ترمذی:157/2،وقال حسن صحیح، سنن ابوداؤد:208/1)
بندہ کے لیے اپنی طاقت و قوت پر غرور ، اسباب و وسائل پر بھروسہ ، اپنی ہستی کا پندار ، پروردگار سے بے نیازی کااظہار ، اس کے سامنے دست طلب دراز کرنے سے انکار درحقیقت بندگی سے سرتابی اور عبادت سے روگردانی ، بالفاظ دیگر کفر ہے ،بندہ کی یہ روش رب کائنات کی شدید نفرت اور ناراضگی کا سبب ہے،چنانچہ حدیث میں ہے:
من لم یسأل اللّٰہ یغضب علیہ۔
جو اللہ تعالیٰ سے مانگتا نہیں ہے تو وہ اس پر ناراض ہوتے ہیں ۔(جامع ترمذی:173/2)اس لیے ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم کے سوا اور کیاہوگا ؟
جب کہ اس کی پہلی ادا اسے حد درجہ پسند اور اس کی بے انتہا خوشی کا سبب ہے ، اس کی نگاہ میں اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے ، ’’لیس شییٔ اکرم علی اللّٰہ من الدعاء‘‘۔(حوالہ مذکور اور سنن ابن ماجہ:271۔)
دعا کے سلسلہ میں موقع و محل کی رعایت خصوصی اہمیت رکھتی ہے ، اسی لیے احادیث میں آداب دعا کے ساتھ مختلف اوقات و مقامات کا بھی تذکرہ ہے کہ ان مواقع پر بندوں کی طرف اللہ کی خصوصی توجہ  ہوتی ہے جس کی وجہ سے قبولیت دعا کی امید بڑھ جاتی ہے ، صحابہ کرام ان مواقع کی تلاش اور جستجو میں رہا کرتے تھے اور اللہ کے رسول ﷺ سے اس  متعلق دریافت کرتے تھے ، چنانچہ حضرت ابو امامہ روایت کرتے ہیں  :
1۔قیل یا رسول اللّٰہ أی الدعاء اسمع، قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلاۃ المکتوبات۔
’’اللہ کے رسولؐ سے دریافت کیاگیا کہ کس وقت دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ فرمایا : رات کے آخری پہر اور فرض نمازوں کے بعد ‘‘۔(جامع ترمذی:188/2،وقال حسن)
حضرت معاذ بن جبلؓ کو آنحضور ﷺ نے ہر نماز کے بعد ایک مخصوص دعا پڑھنے کی تاکید کی (1)اور خود آپؐ کا معمول بھی یہی تھا کہ ہر نماز کے بعد دعا مانگا کرتے تھے ، 2-حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں :
ان رسول اللّٰہﷺ کان یتعوذ دبر الصلاۃ اللّٰہم انی اعوذ بک من الجبن واعوذ بک من ان ارد الی ارذل العمر و اعوذ بک من فتنۃ الدنیا واعوذ بک من عذاب القبر۔
’’اللہ کے رسول ﷺ ہر نماز کے بعد ان الفاظ میں اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے :   اے اللہ! میں بزدلی ، ناکارہ عمر کی طرف لوٹ جانے ، دنیاوی فتنے اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ‘‘۔ (صحیح بخاری:396/1)
اس روایت میں مطلق نماز کا تذکرہ ہے جس میں فرض بھی شامل ہے ، اس لیے اسے نوافل کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے ، بلکہ بعض قرائن سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ ﷺ مذکورہ دعا فرض کے بعد مانگا کرتے تھے ۔
3-حضرت ابوبکرہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے.( ’’کان یدعو بھن دبرکل صلاۃ ‘‘)
اللّٰہم انی اعوذ بک من الکفر والفقر وعذاب القبر۔(2)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتاہوں کفر، فقر اور عذاب قبر سے ‘‘۔
4-حضرت ابوامامہؓ کا بیان ہے کہ :
مادنوت من رسول اللّٰہﷺ فی دبرکل صلاۃ مکتوبۃ ولا تطوع الا سمعتہ یقول اللّٰہم اغفرلی ذنوبی وخطایای کلھا اللّٰہم انعشنی واجبرنی واھدنی لصالح الاعمال والاخلاق انہ لا یھدی لصالحھا ولایصرف سیئھا الا انت۔(3)
’’فرض اور نفل نماز میں جب بھی مجھے آنحضرت ﷺ کے قریب رہنے کا موقع ملا تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا : الٰہی ! میری تمام خطاؤں اور گناہوں کو بخش د ے ، اے اللہ ! میرا درجہ بلند اور میری کوتاہیوں کی تلافی کردے ، مجھے اچھے اعمال اور اخلاق حسنہ کا راستہ دکھا کہ تیرے سوا کوئی اس کا راستہ نہیں دکھا سکتا ہے اور نہ ہی برے اخلاق اور اعمال سے روک سکتا ہے ۔
مذکورہ روایتوں میں ’’نماز کے بعد ‘‘ کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ’’دبر الصلوٰۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیا ہے ۔’’دبر‘‘ کسی چیز کے پچھلے اور آخری حصے کو کہا جاتا ہے ، اس اعتبار سے حدیث کا مطلب ہو گا کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز کے آخری حصے میں سلام پھیرنے سے پہلے مذکورہ دعائیں پڑھتے تھے اور اسی وقت دعا کی ترغیب دیتے تھے لیکن یہ مفہوم متعین نہیں ہے ، کیونکہ ’’دبر‘‘ کے اصل معنی "بعد”کے  ہیں ، (4)آخر اور پچھلا کے معنی میں مجازاً استعمال ہوتا ہے کہ کسی چیز کے آخری حصے کو ’’دبر‘‘ اس لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ اگلے حصہ کے بعد ہوتا ہے ، چنانچہ متعدد احادیث میں یہ لفظ ’’بعد ‘‘ ہی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے ، فرض نماز کے بعد’’ سبحان اللّٰہ ، الحمد للّٰہ، اللّٰہ اکبر، لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شییٔ قدیر ‘‘(صحیح مسلم:219/1، کتاب المساجد)اور معوذتین و آیۃ الکرسی پڑھنے کی حدیث میں بہت فضیلت بیان کی گی ہے ( دیکھیے: الاذکار للنووی:111،الترغیب للمنذری:453/2) اور اس طرح کی تمام روایتوں میں’’نماز کے بعد ‘‘ کے لیے’’دبر الصلوٰۃ‘‘ کا لفظ مستعمل ہے اور بلا اختلاف ان احادیث میں ’’دبر‘‘ بعد ہی کے مفہوم میں ہے ،چنانچہ حافظ حدیث علامہ ابن حجرعسقلانی لکھتے ہیں :
’’ فان قیل دبرکل صلاۃ قرب آخرھا وھو التشھد قلنا ورد الامر بالذکر دبر کل صلاۃ والمراد بہ بعد السلام اجماعا فکذا ھذا حتی یثبت مما یخالفہ‘‘ .
’’ اگر کوئی کہے کہ ہرنماز کا دبر اس کے آخر سے قریبی حصہ ہے اور آخر سے قریب تر حصہ تشہد ہے ، لہٰذا یہ دعائیں تشہد کے بعد مانگی جائیں گی ، اس کے جواب میں ہم کہیں گے احادیث میں اذکار و اوراد کو ’’دبرکل صلوٰۃ‘‘ پڑھنے کا حکم آیا ہے اور یہاں بالاجماع سلام کے بعد مراد ہے ، اسی طرح سے مذکورہ دعاؤں کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ سلام کے بعد پڑھی جائیں گی جب تک کہ اس کے برخلاف ثابت نہ ہوجائے ‘‘۔(فتح الباری:160/11)
علاوہ ازیں خود متعدد احادیث میں ’’دبر الصلوٰۃ‘‘ کی تشریح ’’نماز کے بعد ‘‘ سے کی گئی ہے ، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ :
5۔ان رسول اللّٰہﷺ کان یقول فی دبر صلوٰتہ اذا سلم لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد وھوعلی کل شییٔ قدیر، اللّٰھم لا مانع لما اعطیت ولامعطی لما منعت ولاینفع ذا الجد منک الجد۔ (5)
’’اللہ کے رسول ﷺ نماز کے بعد جب سلام پھیر لیتے تو یہ کہتے : اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ، وہ اکیلا ہے ، کوئی اس کا شریک نہیں ،اسی کے لیے سلطنت ہے اور سب تعریف اسی کے لیے ہے اور و ہ ہرچیز پر قادر ہے ، اے اللہ! جو تو عطا کرنے والا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور جسے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ہے اور نہ ہی دولت مند کو ا س کی دولت نفع پہنچا سکتی ہے ‘‘۔
اور مشہور صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زبیر کا طرز عمل یہ بیان کیا گیا ہے :
6۔انہ کان یقول فی دبر کل صلاۃ حین یسلم لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھوعلی کل شییٔ قدیر لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم لانعبد الا ایاہ، لہ النعمۃ ولہ الفضل ولہ الثناء الحسن لاالہ الااللّٰہ مخلصین لہ الدین ولوکرہ الکافرون۔
’’وہ ہر نماز کے بعد سلام پھیر کر یہ دعا پڑھتے تھے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے ، کوئی اس کا ساجھی نہیں ، سلطنت اسی کی ہے ، اسی کے لیے سب تعریف ہے ،وہ ہرچیز پر قادر ہے ، طاقت و قوت اللہ ہی کی مدد سے ہے جو بلند مرتبہ اور عظمت والا ہے ، ہم صرف اسی کی بندگی کرتے ہیں ، نعمت و فضل اسی کے لیے ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، ہم خالص اسی کے دین کو مانتے ہیں گرچہ کافر اسے ناپسند کریں ‘‘۔
حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مذکورہ دعا ہر نماز کے بعد پڑھتے تھے  ’’یھلل بھن دبرکل صلاۃ‘‘۔(6)
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تشہد اور درود کے بعد نماز کے آخر میں بھی دعا کرنا منقول ہے اور نماز کے بعد بھی آپؐ سے دعا کرنا ثابت ہے اور بظاہر اس کی حکمت
یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز کے اندر انسان بہت سی چیزوں کا پابند ہوتا ہے ، امام کے لیے مقتدیوں کی رعایت بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے طویل دعا کی گنجائش نہیں رہتی نیز ہر ایک کی ضرورت الگ الگ ہوتی ہے ، خصوصاً امام کے لیے بڑی دقت یہ ہے کہ اسے نماز کے اندر اپنے لیے مخصوص دعا مانگنے سے منع کیاگیا ہے ،(7)اور نماز کے اندر عربی زبان کی رعایت بھی کرنی ہوگی اور ہرایک کو عربی زبان سیکھنے کا پابند بنانا دشواری اور تنگی کا باعث ہوگا اور آسان دین ان کے لیے مشکلات کا سبب ہوجائے گا ، سلام کے بعد نماز ختم ہوجاتی ہے ، اب کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے ، اس لیے قبولیت دعا کا ایک ایسا موقع بھی دیا گیا جس سے کسی فرق اور دشواری کے بغیر ہرشخص فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
دیکھیے ان روایتوں میں کس قدر صراحت کے ساتھ نماز کے بعد دعا مانگنے کا تذکرہ ہے ۔
7۔عن البراء بن عازب قال کنا اذا صلینا خلف رسول اللّٰہ ﷺ احبنا ان نکون عن یمینہ یقبل علینا بوجھہ قال فسمعتہ یقول رب قنی عذابک یوم تبعث عبادک۔(8)
’’براء بن عازب کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو داہنی طرف رہنے کو پسند کرتے تاکہ آپؐ سلام پھیر کر ہماری طرف رخ کریں تو میں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا ، میرے رب ! جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا مجھے اس دن کے عذاب سے بچا ‘‘۔
8۔عن علی قال کان رسول اللّٰہﷺ اذا سلم من الصلاۃ قال اللّٰہم اغفرلی ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منی انت المقدم انت المؤخرلا الٰہ الا انت۔
’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز سے سلام پھیر کر کہتے، اے اللہ ! میرے اگلے ، پچھلے ، ظاہر اور پوشیدہ گناہ اور حد سے تجاوز کو معاف کردے اور ان کوتاہیوں کو بھی معاف کر دے جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، توہی جسے چاہتا ہے آگے بڑھاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، پیچھے کرتا ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘۔(سنن ابو داؤد:212/1،قال الالبانی صحیح ،صحیح ابن حبان:372/5،جامع ترمذی وقال حسن صحیح، (نیل الاوطار:311/2)
بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ مذکورہ دعا فرض نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے ،(9)
9-حضرت ابو ابوب انصاریؓ سے مروی ہے :
ماصلیت خلف نبیکم الا سمعتہ حین ینصرف اللّٰہم اغفرلی خطایای……(رواہ الطبری وقال الھیثمی سندہ جید، مجمع الزوائد:111/10)
’’ نبی ﷺ کے پیچھے میں نے جب بھی نماز پڑھی ہے تو سلام پھیرنے کے بعد یہ کہتے سنا: اے اللہ میری تمام خطائوں کو معاف کر دے …(مکمل دعا حضرت ابوامامہ کے حوالے سے حدیث :4 پرگزر چکی ہے )
10۔عن صھیب رفعہ کان یقول اذا انصرف من الصلاۃ اللّٰہم اصلح لی دینی الذی جعلتہ عصمۃ امری واصلح لی دنیای التی جعلت فیھا معاشی اللّٰہم انی اعوذ برضاک من سخطک واعوذ بعفوک من نقمتک واعوذ بک منک، لامانع لما اعطیت ولامعطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد۔
’’حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو یہ دعا پڑھتے : اے اللہ ! میرے دین کو درست رکھ جو میرے حق میں بچاؤ کا ذریعہ ہے اور دنیا کو ٹھیک کر دے ، جس سے میری معیشت وابستہ ہے ، اے اللہ! میں تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں ، تیرے غضب سے اور تیری پکڑ سے ، تیری معافی کی پناہ اور تجھ سے تیری پناہ چاہتاہوں ، جو چیز تو دینے پر تیار ہوجائے اسے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور جسے روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا ہے اور مالدار کو اس کا مال نفع نہیں پہنچا سکتا ہے ‘‘۔( سنن نسائی: 197/1وصححہ ابن حبان(صحیح ابن حبان:373/5)۔
11۔عن ابن عباس عن النبی ﷺ ان اللّٰہ تعالیٰ قال: یا محمد! اذا صلیت فقل: اللّٰہم انی اسئلک فعل الخیرات وترک المنکرات و حب المساکین وان تغفرلی وترحمنی واذا اردت بعبادک فتنۃ فاقبضہ الیک غیرمفتون اللّٰہم انی اسئلک حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الی حبک۔(10)
"حضرت ابن عباسؓ سے حدیث قدسی منقول ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی  ﷺ سے فرمایا کہ جب تم نماز پڑھ لو تو کہو ، اے اللہ! میں تجھ سے اچھا ئیوں کو روبہ عمل لانے ، برائیوں کو چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کی توفیق مانگتا ہوں ، میری مغفرت اور مجھ پر رحم فرما اور جب تو اپنے بندوں کو کسی فتنہ میں ڈالنا چاہے تو مجھے اس فتنہ سے پہلے ہی اٹھالے ، اے اللہ! میں تیری محبت ، تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت اور ایسے عمل کی محبوبیت کا سائل ہوں جو تیری محبت سے قریب کر دے ‘‘۔
12۔عن مسلم بن حارث قال رسول اللّٰہ ﷺ :اذا صلیت الصبح فقل قبل ان تکلم احدا من الناس: اللّٰہم اجرنی سبع مرات فانک ان مت من یومک ذلک کتب اللّٰہ عزوجل جوار من النار واذا صلیت المغرب فقل قبل ان تکلم احدا من الناس،اللّٰہم انی اسئلک الجنۃ اللّٰہ اجرنی من النار سبع مرات فانک ان مت لیلک تلک، کتب اللّٰہ عزوجل لک جوار من النار۔(11)
’’مسلم بن حارث کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ جب تم صبح کی نماز پڑھ لو تو کسی سے گفتگو کیے بغیر سات مرتبہ کہو ، اے اللہ! مجھے جہنم کی آگ سے نجات دے ، کہ اگر اسی دن تمہاری وفات ہوجائے تو اللہ تعالیٰ تمہیں آگ سے محفوظ رکھیں گے اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد کسی سے گفتگو کرنے سے پہلے سات مر تبہ کہو، اے اللہ ! میں جنت کا سوالی ہوں اور جہنم سے نجات کا خواستگار ، اگر اس رات تمہارا انتقال ہوجائے تو اللہ تعالیٰ تمہیں آگ سے محفوظ رکھیں گے‘‘۔
13-حضرت جعفر صادق فرض نماز کے بعد دعا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’الدعاء بعد المکتوبۃ افضل من الدعاء بعد النافلۃ کفضل المکتوبۃ علی النافلۃ‘‘.
’’فرض نماز کے بعد دعاء نفل نماز کے بعد کی دعا کے مقابلہ میں ایسے ہی افضل ہے جیسے کہ فرض نماز کو نفل نماز پر فضیلت حاصل ہے ‘‘۔(تحفۃ الاحوذی:159/2،فتح الباری:156/11)
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرائض کے بعد دعا کی رغبت دلائی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی ہے ، نیز آپؐ کا معمول مبارک بھی یہی تھا ۔
اور کیا ایسا ممکن ہے کہ قولی اور عملی ترغیب کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ تو دعا میں مشغول ہوں اور آپؐ کی سنت پر مرمٹنے والے صحابہ کرام گھروں کی راہ لیتے ہوں ، اس لیے ان روایتوں سے اجتماعی طور پرنہ سہی انفرادی طور پر فرض نماز کے بعد دعا ضرور ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنی دعا میں مشغول ہوں اور صحابہ کرام اپنی دعا میں، اور یہ انفرادی دعا بہ شکل اجتماعی انجام دی جارہی ہو ، البتہ خصوصی طور پر کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ امام بہ آواز بلند دعا کرے اور مقتدی آمین کہیں لیکن اس عمل کو بھی ناجائز اور بدعت نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ عمومی طور پر اجتماعی دعا کی فضیلت ثابت ہے ، جیسے حضرت حبیب بن سلمہ کی یہ روایت :
14۔لایجتمع قوم مسلمون یدعو بعضھم ویومن بعضھم الا استجاب اللّٰہ دعاء ھم۔
’’جب کچھ مسلمان باہم مل کر دعا کرتے ہیں ، ایک دعا کرتا ہے اور دوسرے لوگ آمین کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرلیتے ہیں ‘‘۔(12)
اور اصولی طور پر یہ مسلم ہے کہ کوئی آیت یا حدیث عام ہو تو اس کے تمام افراد اس حکم میں شامل ہوں گے ، الا یہ کہ بعض افراد کے لیے کوئی خصوصی حکم ہو ، ہر مسئلہ کے لیے خصوصی دلیل کا مطالبہ ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کتاب و سنت کے عمومات  بے مقصد ہوجائیں گے اور اسلامی شریعت کا نامکمل اور ناقص ہونا لازم آئے گا ، کیونکہ بہت سے احکام کے متعلق کوئی خصوصی دلیل موجود نہیں ہے ۔
رہی حضرت عائشہؓ سے منقول یہ روایت :
15۔کان النبیﷺ اذا سلم لم یقعد الا مقدارما یقول اللّٰہم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والاکرام۔(13)
’’نبی ﷺ جب سلام پھیر لیتے توصرف یہ دعا پڑھنے کے بقدر بیٹھتے ’’اللّٰہم انت السلام و منک السلام تبارک یا ذالجلال والاکرام ‘‘۔
تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کی ہیئت پر قبلہ رخ بس اسی کے بقدر بیٹھتے تھے اور اس کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کرلیتے ، چنانچہ حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ :
16۔کان النبی ﷺ اذا صلی اقبل علینا بوجھہ.
’’نبی ﷺ نماز کے بعد ہماری طرف رخ کرلیتے ‘‘۔( صحیح بخاری: 117/1، کتاب الاذان)
یا یہ کہ آنحضرت ﷺ کبھی کبھار صرف مذکورہ دعا پڑھنے کے بقدر بیٹھا کرتے تھے ،(14)تاکہ نماز کے بعد کی دعا کو نماز کا ایک حصہ اور ضروری خیال نہ کرلیاجائے ، حدیث کی یہ توجیہ ضروری ہے تاکہ یہ ان روایتوں کے برخلاف نہ ہو جس میں اس سے طویل ذکر اور دعا کا تذکرہ ہے ، نیز نماز کے بعد جائے نماز پر طویل گفتگو اور خواب وغیرہ بیان کرنے کا ذکر ہے اور جسے امام بخاری وغیرہ نے نقل کیا ہے ۔

دعا میں ہاتھ اٹھانا:

اللہ سے مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ خشیت و ندامت کا پیکر بن جائے اور جسم کا ہر حصہ بیچارگی اور عاجزی کی تصویر نظر آئے ،دل میں کسک اور تڑپ کے ساتھ آنکھوں سے اشک ندامت رواں ہوں، ایک بے نوا بھکاری کی طرح ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ دل اور زبان کے ساتھ جب ظاہری صورت بھی ایک سوالی اور فقیر کی بن جائے تو رب کریم اسے خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا اور اس کے دامن کو گوہر مراد سے بھر دیتا ہے ، حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت ہے :
17۔ قال رسول اللّٰہﷺ ان اللّٰہ حی کریم یستحیی اذا رفع الرجل الیہ یدیہ ان یردھما صفرا خائبین۔(15)
’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ باحیا اور انتہائی سخی ہے اس لیے جب کوئی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا تا ہے تو نامراد اور خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے اسے حیاء آتی ہے ‘‘۔
حضرت سلمان فارسیؓ سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
18۔ما رفع قوم اکفھم الی اللّٰہ یسألونہ شیئا الا کان حقا علی اللّٰہ ان یضع فی ایدیھم الذی سألوا۔(16)
’’جو قوم بھی اپنی ہتھیلیوں کو اٹھاکر اللہ سے کچھ مانگتی ہے تو اللہ انہیں ضرور نوازتا ہے اور خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا ‘‘۔
19-حضرت مالک بن یسار نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
اذا سألتم اللّٰہ فاسئلوہ ببطون اکفکم ولا تسألوہ بظورھا۔
’’جب تم اللہ سے مانگو تو ہتھیلی کی طرف سے مانگو اور ہاتھ کی پشت کی طرف سے نہ مانگو ‘‘۔( سنن ابوداؤد: 109/1،  حدیث صحیح ہے.(البانی)
20-اور حضرت عبداللہ بن عباس اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ان لفظوں میں نقل کرتے ہیں :
المسألۃ ان ترفع یدیک حذو منکبیک او نحوھا والاستغفار ان تشیر باصبع واحدۃ والابتھال ان تمد یدیک جمیعا۔(17)
’’اللہ سے مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم دونوں ہاتھوں کو مونڈھے تک اٹھاؤ اور طلب مغفرت کاطریقہ یہ ہے کہ تم ایک انگلی سے اشارہ کرو اور تضرع یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دو ‘‘۔
ان دونوں روایتوں میں اللہ سے مانگنے کا طریقہ اور ادب بتلایا گیاہے اور یہ کہ اللہ سے جب بھی مانگنا ہو تو یہی طریقہ اختیار کیاجائے کہ اس طرح دعا کرنے سے قبولیت کی امید ہے ۔
دعا سے متعلق یہ احادیث بالکل عام ہیں اور ہر موقع پر دعا میں ہاتھ اٹھانے کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں ، لہٰذا انہیں کسی خاص حالت کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں ہے۔
ان عمومی روایتوں کے علاوہ نماز کے بعد دعا میں بھی ہاتھ اٹھانے سے متعلق خصوصی روایتیں بھی ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ :
21۔ ان رسول اللّٰہﷺ رفع یدیہ بعد ما سلم وھو مستقبل القبلۃ فقال اللّٰہم خلص الولید بن الولید وعیاش بن ربیعہ وسلمۃ بن ہشام وضعفۃ المسلمین الذین لا یہتدون حیلۃ ولا یھتدون سبیلا من ایدی الکفار۔(18)
’’ اللہ کے رسول ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ ہوکر دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا اور بارگاہ خداوندی میں عرض کیا : اے اللہ ! ولید بن ولید ، عیاش بن ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور کمزور مسلمانوں کو کافروں کے ہاتھ سے نجات دے ، جو کسی تدبیر اور رہنمائی کی قدر ت نہیں رکھتے ‘‘۔
22۔ عن فضل بن عباس قال قال رسول اللّٰہﷺ الصلاۃ مثنی مثنی تشھد رکعتین وتخشع وتضرع وتمسکن وتقنع یدیک ترفعھا الی ربک مستقبل ببطونھماوجھک وتقول یا رب یا رب ومن لم یفعل فھو کذا۔(19)
’’فضل بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : نماز ، دو دو رکعت ہے ، ہر دو رکعت پر تشہد پڑھے اور خشوع و خضوع اور اظہار فقر و مسکینی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائے کہ ہتھیلی چہرے کی طرف ہو اور کہے ،اے پروردگار! اے پروردگار! اور جو کوئی ایسا نہ کرے تو وہ ایسا ویسا ہے ‘‘۔
اس حدیث میں نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے ، کیونکہ محدثین نے تصریح کر دی ہے کہ نماز کے اندر تشہد کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے بلکہ صحابہ کواس وقت ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے سے منع کیاکرتے تھے ،(20)لہٰذا یہ روایت نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے پر دلالت کرتی ہے ،(21)اور جب نفل کے بعد دعا کی اس قدر اہمیت ہے تو فرائض کے بعد بدرجہ اولیٰ اس کی اہمیت ہوگی ۔
نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے کے سلسلہ میں ہرشخص واقف اور آگاہ تھا ، صحابہ کرام نے اللہ کے رسولؐ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور تابعین عظام کے سامنے رسول اللہؐ کے جاں نثاروں کا طرز عمل تھا اور ایک تسلسل کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا ، یہ خود ایک قوی سلسلہ اسناد ہے ، اس کے سامنے راویوں کا زنجیری طرز ہیچ ہے ، اس لیے سندی تسلسل کے ساتھ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی ، چنانچہ مشہور اہل حدیث عالم دین علامہ نواب صدیق حسن قنوجی لکھتے ہیں :
’’حاصل یہ ہے کہ ہر دعا میں خواہ وہ کسی وقت کی جارہی ہو ، پنج وقتہ نماز کے بعد ہو یا اس کے علاوہ کسی اور موقع پر ہاتھ اٹھانا بہترین آداب میں سے ہے ، عمومی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں ، اس لیے نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق خصوصی حدیث کا نہ ہونا اس کے لیے مضر نہیں ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیز سب کو معلوم تھی ، علامہ ابن قیم کا نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھانے سے انکار کرنا وہم پر مبنی ہے ، ہم نے اس مسئلہ کو اپنی کتابوں میں تحقیقی انداز میں پیش کرکے واضح کر دیا ہے ‘‘۔( نزل الابرار:36)
حقیقت یہی ہے کہ دعا کی اصل یہی ہے کہ ہاتھ اٹھاکر مانگی جائے ، یہی اس کا طریقہ  اور ادب ہے ، اس لیے ہرحال اور ہر وقت دعا میں ہاتھ اٹھانا مسنون اور مستحب ہے بشرطیکہ طلب حاجت کی نیت سے دعا کی جائے ،ورد اور ذکر کے طریقہ پر پڑھنا مقصود نہ ہو جیسے کہ صبح و شام وغیرہ کی دعائیں کہ ان میں ہاتھ اٹھانا غیر مسنون ہے۔               رہی وہ روایت جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے ،(22)تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ استسقاء کی دعا میں بہت اوپر تک اٹھایا کرتے تھے اور اس حد تک اٹھاتے کہ بغل کی سفیدی نظر آنے لگتی اور عام دعاؤں میں اس قدر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے۔
اور یہ بھی ان کے علم کے مطابق، ورنہ تو استسقاء  کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی اس قدر ہاتھ اٹھانا ثابت ہے ،( دیکھیے: فتح الباری:517/2، ارشاد الساری:251/2)
اور حدیث کی یہ تاویل اور توجیہ ضروری ہے ،ورنہ تو یہ روایت ان صریح ،صحیح اور متواتر روایت کے خلاف ہوگی جن میں استسقاء کے علاوہ بھی ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے ، چنانچہ علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ استسقاء کے علاوہ دیگر دعاؤں میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق روایتیں تواتر کی حدتک پہنچی ہوئی ہیں اور اس سلسلہ میں تقریباً سو حدیثیں وارد ہیں ،( تدریب الراوی شرح تقریب النووی:180/2)اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ سے استسقاء کے علاوہ دیگر مواقع پر دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلق اتنی روایتیں ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے ، اس موضوع پر انہوں نے بخاری و مسلم سے تقریباً تیس حدیثیں جمع کی ہیں ۔(شرح نووی علی الصحیح للمسلم: 293/1، کتاب صلاۃ الاستسقاء)
حاصل یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا اور اس میں ہاتھ اٹھانا صحیح احادیث سے ثابت ہے اور امت کے فقہاء اور محدثین کا ہمیشہ سے اس پر عمل رہا ہے ، امام بخاری ، ابو داؤد اور نسائی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں نماز کے بعد دعا کے متعلق عناوین اور احادیث ذکر کرکے اس عمل کی تائید کی ہے ،(23)امام نووی،(24)علامہ ابن حجر عسقلانی ،(25)اور سیوطی(26) نے اسے مستحب قرار دیا ہے ،ائمہ اربعہ کے پیروکاروں کا عمل بھی اسی کے مطابق ہے ،(27) اور علماء اہل حدیث میں سے مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ،علامہ سید نذیر حسین دہلوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری (28) وغیرہ اسی کے قائل تھے۔
جب کہ اس کی ممانعت کے سلسلہ میں صحیح حدیث تو دور کی بات ہے ، ضعیف اور من گھڑت روایت کا بھی وجود نہیں ہے ۔ البتہ یہ خیال رہے کہ سلام پر نماز ختم ہوگئی ، اس لیے اسے نماز کا ایک حصہ اور ضروری سمجھ لینا غلط ہے اور جولوگ اس پر عمل نہ کریں ان پر نکیر ناروا اور نادرست ہے ،(فیض الباری:417/4)کیونکہ مستحبات پر اصرار اور اس کے ترک پر نکیر صحیح نہیں ہے ۔

(1)سنن ابوداؤد:203/1،باب الاستغفار،قال النووی : اسنادہ صحیح۔ (اعلاء السنن:161/3) رواہ الحاکم وقال: صحیح علی شرط الشیخین۔(المستدرک: 273/1) ،حدیث کے الفاظ یہ ہیں: یامعاذ واللّٰہ انی لاحبک فلا تدع دبر کل صلاۃ ان تقول اللّٰہم اعنی علی ذکرک و شکرک وحسن عبادتک۔
عام طورپر یہ روایت ’’دبر کل صلاۃ‘‘ کے الفاظ سے منقول ہے لیکن سنن نسائی میں ہے کہ فلاتدع ان تقول فی کل صلاۃ،( سنن النسائی:146)
(2) مسند احمد:39/5،سنن نسائی: 198/1،سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے : فما صلی بعد یومئذ صلاۃ الا قال فی دبر الصلاۃ رب جبرئیل و میکائیل و اسرافیل اعذنی من حر النار و عذاب القبر.(197/1)
(3)عمل االیوم واللیلۃ لابن السنی:104، امام طبرانی نے بھی اسے نقل کیا ہے اور ہیثمی کہتے ہیں کہ اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں سوائے زبیر بن خریق کے ، لیکن وہ بھی قابل اعتماد ہیں ، (مجمع الزوائد:112/1) حضرت زید بن ارقمؓ کے حوالے سے بھی ہر نماز کے بعد (دبرکل صلاۃ)ایک طویل دعا پڑھنے کے متعلق اللہ کے رسولؐ کا طرز عمل منقو ل ہے جسے امام ابوداؤد اور نسائی وغیرہ نے نقل کیا ہے ، لیکن حدیث کے بعض راویوں پر کلام کیاگیاہے ، تاہم ابن حجر عسقلانی نے شواہد کی وجہ سے اسے حسن قرار دیا ہے ، (دیکھیے: سنن ابو دائود :211/1،عمل الیوم واللیلۃ النسائی:183)
(4)الدبر خلاف القبل من کل شییٔ…ومنہ دبر الرجل تدبیرا اذا اعتقہ بعد موتہ (مصباح المنیر: 72) یقال فلان یاتی الصلاۃ دبارا بالکسر ای بعد ما ذہب الوقت، مختارالصحاح:… لان دبر الصلاۃ بعدھا علی الاقرب، (نیل الاوطار:297/2)
۔(5)صحیح بخاری:۲/۹۳۷، کتاب الدعوات، صحیح بخاری کتاب الاعتصام:1083/2میں ہے کان یقول ھذہ الکلمات دبرکل صلاۃ اور کتاب الصلاۃ: 117/1 میں ہے دبرکل صلاۃ مکتوبۃ اورصحیح مسلم :218/1میں ہے: کان اذا فرغ من الصلاۃ وسلم، امام احمد، نسائی اور ابن خزیمہ نے نقل کیاہے کہ آنحضورؐ مذکورہ دعائیں تین مرتبہ پڑھتے تھے ، (نیل الاوطار :۲/ 307/2) ۔
(6)امام مسلم نے اسے نقل کیا ہے اور بعض سندوں کے الفاظ یہ ہیں:سمعت عبد اللّٰہ بن زبیر یقول کان النبیﷺ اذا انصرف من الصلاۃ یقول، (صحیح مسلم:218/1نیز سنن ابوداؤد:211/1)
(7) لایؤم عبد قوما فیخص نفسہ بدعوۃ دونھم فان فعل فقد خانھم ،,(مسند احمد: 280/5، جامع ترمذی:357)
۔(8)صحیح مسلم:247/1کتاب المسافرین، علامہ شوکانی نے صحیح مسلم کے حوالے سے حدیث کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں کان یقول بعد الصلاۃ رب قنی…(نیل الاوطار: 311/2 )
(9)عن علی عن رسول اللّٰہ انہ کان اذا قام الی الصلاۃ المکتوبۃ…وقال الالبانی حسن صحیح، سنن ابوداؤد: 122، جامع ترمذی:179/2، قال حسن صحیح،علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ حضرت علی کی یہ روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے لیکن یہ دو طرح سے منقول ہے احدھما ان النبی کان یقول بین التشھد والتسلیم وھذا ھو الصواب والثانی کان یقولہ بعد السلام ولعلہ کان یقولہ فی الموضعین( زاد المعاد:/297،ط-مؤسسۃ الرسالۃ 1985ء) علامہ ابن حجر کہتے ہیںکہ صحیح ابن حبان میں  صراحت ہے : کان اذا فرغ من الصلاۃ وسلم، لہٰذا دونوں میں موافقت پیدا کرنے کے لیے کہا جائیگا کہ نماز کے اندر پڑھا کرتے تھے اور کبھی نماز کے بعد بھی، (فتح الباری:230/11، ط- دارالحدیث قاہرہ)
(10) رواہ الترمذی وقال حسن، عبدالرحمٰن بن عائش، مذکورہ روایت کو بعض اصحاب نبی سے نقل کرتے ہیں اور جس کی تخریج امام احمد نے کی ہے اور محدث ہیثمی نے اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے ،( مجمع الزوائد:176/7، کتاب التعبیر باب فیما راہ النبیؐ)
(11)امام احمد نے روایت کی ہے اور محدث احمد البناء نے سند کو عمدہ قرار دیا ہے،الفتح الربانی:56/4، نیز الاذکار:114، اسنادہ صحیح(اعلاء السنن:16/3)بعض روایتوں میں ام سلمہؓ کے حوالے سے بعد نماز فجر یہ دعا مذکور ہے:
ان النبی کان یقول اذا صلی الصبح حین یسلم اللّٰہم انی اسئلک علما نافعا و رزقا طیبا وعملا متقبلا، رواہ احمد وابن ماجہ وقال الشوکانی رجالہ ثقات لولا جھالۃ مولی ام سلمۃ، (نیل الاوطار:310/2) بعض احادیث میں اللہ کے رسولؐ سے نفل نماز کے بعد دعا مانگنا مذکور ہے اور حضرت فضل بن عباس کے حوالے سے اللہ کے رسول کا ارشاد نقل کیا گیا ہے، جوکوئی نفل نماز میں خشوع، خضوع اختیار نہ کرے اور نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا نہ کرے تو وہ نماز ناقص ہے ، (دیکھیے: سنن ابوداؤد:183، جامع ترمذی:87/1، اعلاء السنن:165/3) ظاہر ہے کہ خشوع وخضوع نوافل کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ فرائض میں اس سے زیادہ مطلوب ہے اور جب خشوع و خضو ع ہرنماز میں مطلوب ہے تو ہرنماز کے بعد دعا بھی مرغوب ہوگی۔
(12) رواہ الحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم، (تحفۃالذاکرین:39) وقال الھیثمی رواہ الطبرانی و رجالہ رجال صحیح غیر ابن لھیعہ وھو حسن الحدیث.(مجمع الزوائد:170/10)
(13) رواہ احمد و مسلم و الترمذی وابن ماجہ، (نیل الاوطار:311/2)،اس حدیث کے ایک راوی سلیمان بن حیان کے متعلق ابن معین کہتے ہیں صدوق لیس بحجۃ، ابوبکر البزار کہتے ہیں: اتفق اھل العلم بالنقل ان ابا خالدا لم یکن حافظاً وانہ قد روی عن الاعمش وغیرہ احادیث لم یتابع علیھا، اسی طرح سے دوسرے اور تیسرے راوی پر بھی سخت کلام کیاگیا ہے،( دیکھئے:تہذیب التہذیب: 181/4، 137/9-139. 43/5) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ صلیت خلف النبی وکان اذا سلم یقوم وصلیت خلف ابی بکر فکان اذا سلم وثب کانہ علی رضفۃ (رواہ عبدالرزاق، نیل الاوطار: 312/2 ) لیکن یہ روایت بھی حد درجہ ضعیف ہے، اس کے ایک راوی عبد اللہ بن فروخ مصری کے متعلق ابراہیم الجوزجانی کہتے ہیں:احادیثہ مناکیر، امام بخاری کہتے ہیںیہ معروف،منکر ہرطرح کی روایت نقل کرتا ہے ، خطیب کا بیان ہے فی حدیثہ نکرۃ (دیکھیے تہذیب التہذیب: 356/5)
(14)قال النووی: المختار الذی علیہ الاکثرون والمحققون من الاصولیین ان لفظۃ ’’کان‘‘ لایلزمھا الدوام ولا التکرار و انما ہی فعل ماض تدل علی وقوعہ مرۃ (نیل الاوطار:312/2)
(15) جامع ترمذی کتاب الدعوات وقال حسن، وقال الالبانی: صحیح، (سنن ابوداؤد:230) ، وقال الحاکم صحیح علی شرط الشیخین، و ایدہ الذھبی،( المستدرک:535/1) وقال العسقلانی: سندہ جید،(فتح الباری:147/11، نیز دیکھیے سنن ابن ماجہ:127/2 اور صحیح ابن حبان:596)
(16)امام طبرانی نے اسے نقل کیا ہے اور محدث ہیثمی کہتے ہیں کہ رجالہ رجال صحیح، مجمع الزوائد: 169/10، اس طرح کی روایت حضرت انسؓ ، حضرت علیؓ، حضرت ابن عمرؓ اور حضرت جابرؓ سے بھی منقول ہے ،( دیکھیے المستدرک:497/1،مصنف عبدالرزاق:251/2، کنزالعمال: 87/2، مجمع الزوائد:159/10، فض الوعاء:69)
(17)سنن ابوداؤد:109/1، امام منذری نے لکھا ہے کہ حدیث حسن ہے، مختصر السنن للمنذری: 144/2،البانی نے کہا ہے کہ حدیث صحیح ہے ، بعض راویوں نے اسے حضرت ابن عباسؓ کے قول کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ، دیکھیے سنن ابو داؤد وغیرہ ۔
(18) تفسیر ابن کثیر:823/1، سورۃ النساء:100، یہ روایت اسنادی حیثیت سے بے غبار ہے ، صرف ایک راوی علی بن زید پر حافظہ کے اعتبار سے معمولی کلام ہے ، امام بخاری نے الادب المفرد میں اور امام مسلم ، ترمذی،نسائی،ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اپنی کتابوں میں ان کی روایت کو نقل کیا ہے ، ان کے متعلق یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں :ثقۃ صالح الحدیث اور محدث عجلی کا خیال ہے یکتب حدیثہ، ابن عدی کہتے ہیں لعلی بن زید احادیث صالحۃ ولم ار احدًا من البصریین وغیرھم امتنع الروایۃ عنہ، (دیکھیے الکامل لابن عدی:40/5، تہذیب التھذیب:323/7)
(19)امام ترمذی،ابوداؤد وغیرہ نے اسے نقل کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں، صرف ایک راوی عبداللہ بن نافع پر کچھ کلام ہے ، تاہم ابن حبان نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور امام نسائی نے کہا ہے کہ ’’لیس بہ باس‘‘ اور کبھی ثقہ کا لفظ استعمال کیاہے ، عبداللہ سے نقل کرنے والے دو افراد ہیں ، اس لیے ان کی مجہولیت بھی ختم ہوجاتی ہے ، کیونکہ محدثین کے یہاں جس راوی سے نقل کرنے والے دو افراد ہوں اس کی مجہولیت ختم ہوجاتی ہے ، اس لیے روایت درجہ حسن سے فروتر نہیں ہیں ، اس لیے امام ابو داؤد نے سکوت اختیار کیاہے جو ان کی نگاہ میں حسن ہونے کی دلیل ہے اور بغوی نے اسے ’’فصل حسان‘‘ میں نقل کیا ہے اور منذری نے اس روایت کی ابتداء ” عن ” سے کی ہے ، جو ان کے نزدیک مقبول ہونے کی علامت ہے ، (دیکھیے تہذیب التہذیب :50/6، میزان الاعتدال:513/2، اعلاء السنن:166/3، مصابیح السنۃ:315/1، الترغیب: 348/1)۔
(20) حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ایک شخص کو نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگتے ہوئے دیکھ کر کہا : ان رسول اللّٰہ لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ قال الھیثمی رجالہ ثقات، (مجمع الزوائد:159/1 )، یہ روایت بھی نماز کے بعد دعا اور اس میں ہاتھ اٹھانے کی دلیل ہے ۔
(21) رفع الیدین فی التشھد قبل التسلیم لیس من سنۃ الصلاۃ وھذا دال علی انہ امرہ برفع الیدین والدعاء والمسألۃ بعد التسلیم قالہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ:221/2،اس طرح کی وضاحت ابن عربی  اور علامہ سندھی سے بھی منقول ہے، (اعلاء السنن: 165/3)۔
(22)کان رسول اللّٰہ لا یرفع یدیہ فی شییٔ من دعائہ الا فی الاستسقاء فانہ یرفع حتی یری بیاض ابطہ، (صحیح بخاری:140/1، صحیح مسلم:239/1)
(23)دیکھیے صحیح بخاری مع الفتح:111/1،سنن ابوداؤد باب مایقول الرجل اذا سلم ،سنن نسائی:151/1، نوع آخرالذکر والدعاء بعد التسیلیم.
(24)امام نووی کہتے ہیں کہ نماز کے بعد دعا اور ذکر ،اما م مقتدی ،منفرد سب کے لیے مستحب ہے ، (الفتح الربانی:63/4)۔
(25)دیکھیے فتح الباری، جس میں انہوں نے منکرین دعا خصوصاً علامہ ابن قیم کی پرزور تردید کی ہے۔
(26)علامہ سیوطی نے اس موضوع پر ’’فض الوعا فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء‘‘کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھاہے ۔
(27)امام مالک سے نماز کے بعد دعا کے سلسلہ میں دریافت کیا گیا کہ کیا آپ اس سلسلہ میں کچھ حرج سمجھتے ہیں تو فرمایا کہ نہیں ، (حاشیۃ الرھونی409/1)
(28)دیکھیے تحفۃ الاحوذی کتاب الصلاۃ باب ما یقول اذا سلم، فتاوی نذیریہ:265/2، فتاوی ثنائیہ:328/2.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے