بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(10)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
موجودہ دور کے بعض جائز کھیل:
شریعت نے ہر اس کھیل کی اجازت دی ہے جو کسرت اور ورزش کے دائرے میں آتی ہو ،جس سے بدن میں قوت و سرعت پیدا ہوتی ہو اور چستی اور پھرتی آتی ہو یا الجھن اور پریشانی کو دور کرتی ہو ،ذہنی بالیدگی یا تفریح طبع کا ذریعہ ہو۔ یا بوریت اور یکسانیت سے چھٹکارا حاصل کرنا مقصود ہو ۔کیونکہ صحت و تندرستی مطلوب ہے ،اسی طرح سے جسم کا مضبوط اور گٹھیلا ہونا بھی پسندیدہ ہے ، اور ڈھیلا ڈھالا اور کمزور جسم ناپسندیدہ ہے ۔سخت کوشی اور محنت و مشقت کا عادی ہونا مستحسن اور تن آسانی اور سہولیات کی عادت اور سستی و کاہلی مکروہ ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ ہر وہ کھیل جس کا مقصد جہاد کے لئے تیاری ہو وہ لائق اجر اور باعث ثواب ہے اور جس سے کوئی دینی و دنیاوی مقصد وابستہ ہو وہ جائز ہے بشرطیکہ وہ واجبات و فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے ۔اس میں جوا اور سٹہ بازی نہ ہو ، جسمانی اور مالی ضرر و نقصان کا اندیشہ نہ ہو ،اسراف اور فضول خرچی سے بچا جائے ،اسے صرف کھیل کی حثیت دی جائے اور اسے دوستی اور دشمنی کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور اس کے علاوہ شریعت کے خلاف کوئی دوسری چیز شامل نہ ہو۔
موجودہ دور میں بعض کھیل لوگوں کے سر پر سوار اور ان کے اعصاب پر مسلط ہیں، ان کا ایسا جنون طاری کردیا گیا ہے گویا وہ اسی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور وہی زندگی کا بنیادی مقصد ہے، اور عوامی رقم کا ایک بڑا حصہ ان پر صرف کیا جارہا ہے اور کھلاڑیوں کو قومی اور ملی ہیرو کا درجہ دیا جارہا اور ان کو اپنا آئیڈیل بنایا جارہا ۔میچ کے دوران ایسا لگتا ہے کہ دو ملکوں کے درمیان خونی جنگ لڑی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں کھیل دیکھنے والوں کے درمیان عداوت دشمنی جنم لیتی ہے اور قتل و غارتگری کی نوبت آجاتی ہے اور تعلیم دوسرے فرائض واجبات سے غفلت برتی جارہی ہے، میچ کے دوران نماز ضائع کرنا ایک عام بات ہے ۔
دفتروں میں کام ٹھپ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی اپنے فرض منصبی سے غافل ہوجاتے ہیں ۔تعلیم گاہیں ویران ہوجاتی ہیں غرضیکہ مذکورہ شرائط میں سے کوئی بھی شرط نہیں پائی جاتی ۔اس لئے اس کے ناجائز ہونے میں کیا کلام ؟
یہ درحقیقت صیہونی سازش کی کامیابی ہے ۔ یہودی علماء مفکروں اور دانشوروں نے پوری دنیا پر بالواسطہ یہودی حکومت قائم کرنے کے لیے پلاننگ کی، اس کے لیے باقاعدہ تجاویز اور قرار داد مرتب کئے ، جس میں کہا گیا کہ لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کرنے کے لیے اور انھیں غفلت اور مدہوشی کی نیند سلانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے درمیان اسپورٹ” اور "آرٹ” کے نام سے ایسی چیزیں رائج کی جائیں جو انھیں حقیقی مسائل سے غافل کر دیں جس کے نتیجے میں وہ ہمارے حقیقی مقاصد سے نا آشنا ہوں گے، اور ہر چیز میں ہماری ہمنوائی کریں گے۔ (بروتوكولات حكماء صهيون/ 167)
انسان کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا گیا ہے کہ وہ کھیل کود کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے اور اپنی پوری توانائی اس میں صرف کردے۔ارشاد باری ہے :
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ۔
بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمہیں یونہی بےمقصد پیدا کردیا ، اور تمہیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا ؟ (سورہ المؤمنون : 115)
تفسیر:
جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، ان کے موقف کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد پیدا کردی ہے۔ یہاں جس کے جو جی میں آئے کرتا رہے۔ اس کا کوئی بدلہ کسی اور زندگی میں ملنے والا نہیں ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی غلط بات منسوب کرے، لہذا آخرت پر ایمان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا منطقی تقاضا ہے۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
بلکہ وہ دنیا میں اللہ کی اطاعت و عبادت کے لئے بھیجا گیا ہے
ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ .
پھر ہم نے ان کے بعد زمین میں تم کو جانشین بنایا ہے تاکہ یہ دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ (سورہ یونس: 14)
لیکن ہم نے کھیل کود کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو فساد اور بگاڑ پیدا ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
1- کبڈی، ہاکی، فٹ بال، کرکٹ وغیرہ:
ہاکی، فٹ بال، والی وال، بیڈمنٹن ، کبڈی یہ سب ایسے کھیل ہیں جو صحت اور ورزش کے نقطہ نظر سے مفید ہیں ، لہٰذا نیک نیتی سے مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے کھیلا جائے تو مباح ہے۔
عورتوں کے لیے وہ تمام کھیل ناجائز ہیں جو مردانہ نوعیت کے ہیں مثلاً کبڈی، والی وال وغیرہ، البتہ بیڈمنٹن یا اس جیسے ہلکے پھلکے کھیل صحت اور ورزش کے نقطۂ نظر سے پردہ کی رعایت کرتے ہوئے کھیلیں تو جواز کی گنجائش ہے۔