قربانی کی حقیقت اور حکمت:
ولی اللہ مجید قاسمی۔
کتنی عجیب تاریخ ہے کہ اسی(80) برس کے بعد جس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا تھا وہ بوڑھا باپ اسی لاڈلے بچے کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنے جارہا ہے اور اس کے پیروں میں لغزش نہیں ۔ دوسری طرف اس تیرہ سالہ معصوم بچے کی سعادت مندی دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی معلوم ہوجانے کے بعد ذبح ہونےکے لئے ہنسی خوشی دوڑتا جارہا ہے ۔باپ پوچھتا ہے : بیٹا ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمھیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ذبح کر رہا ہوں ۔ بیٹے نے برجستہ کہا : ابا جان ! جو بھی مالک کا حکم ہے جلدی سے اسے کر گزرۓ، میں ہر تکلیف برداشت کرلونگا ۔قرآن اس کے آگے کہتا ہے :
فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَتَلَّهٗ لِلۡجَبِيۡنِۚ. وَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ .قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ.(سورہ الصافات)
چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا۔اور ہم نے انہیں آواز دی : اے ابراہیم ! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔
یہ ہے قربانی کی ایسی تاریخ جس کی نظیر پوری تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی کہ اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر باپ بھی راضی اور بیٹا بھی راضی ۔ باپ بیٹے کی اطاعت شعاری، فداکاری ، خود سپردگی اور خلوص نے اس واقعہ کو ایک یادگار واقعہ بنا کر تاریخ اسلام کا ایک جز بنا دیا اور اس دن کو انسانیت کے علمبرداروں کے لئے عید کا دن قرار دیا ، اور حکم دیا گیا کہ اس روز ہر صاحب استطاعت پر جانور کی قربانی ضروری ہے ۔
قربانی کی حقیقت:
قربانی کی مشروعیت کا مقصد اس شعور کو بیدار کرنا اور یہ جذبہ پیدا کرنا ہے کہ دیکھنے میں تو وہ ایک جانور کے گلے پر چھری چلا رہا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اپنے مالک کی خوشنودی کےلئے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ رہا ہے اور اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر نامرضیات کی گردن پر چھری پھیر رہا ہے ۔
اگر قربانی سے یہ اسپرٹ پیدا نہ ہو تو وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی سنت نہیں بلکہ محض ایک رسم ہے جہاں بیش قیمت جانوروں کی فراوانی تو ہوگی لیکن تقوا کی وہ روح ناپید ہوگی جو قربانی کا مقصود و مطلوب ہے ۔ رب کائنات کا فرمان ہے :
لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (سورہ الحج: 37)
اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری سنا دو ۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جس چیز کی قدر ہے وہ پرہیزگار دل ہے نہ کہ کوئی چوپایہ ۔اس لئے کہ اسلام میں عبادت کے نام پر جو چیزیں مشروع کی گئیں ہیں ان تمام کا مقصد” تقوا” ہے یعنی ان عبادات کی وجہ سے اس کی روحانی حس اس قدر حساس ہو کہ جب وہ کچھ کہنے اور کرنے کا ارادہ کرے تو اندر سے آواز آئے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔
جانور کی قربانی اسی جذبہ دروں کا خارجی اظہار ہے اور اگر دل میں یہ جذبہ نہ ہو تو اس خارجی عمل کی اللہ عزوجل کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ہے ۔
قربانی کا ثبوت:
اسلامی عبادات میں قربانی کا ایک اہم مقام ہے ، قرآن حکیم کی متعدد آیتوں میں اس کی مشروعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہیں نماز کے ساتھ بیان کرکے اس کی اہمیت بتلائی گئی ہے ۔
فصل لربک و انحر ۔
اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔(1)
تو کہیں دینی شعائر کہہ کر اس کی حیثیت واضح کی گئی ہے ۔
وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ۔ (سورہ الحج : 36)
اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہوکر) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔ اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنا دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
اور کبھی یہ کہہ کر” ہم نے پچھلی تمام امتوں کے لئے قربانی مشروع کی ہے” امت محمدیہ کو تاریخی تسلسل کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے اس طرح سے قربانی کرنے والا کوئی نیا کام کرنے والا نہیں بلکہ وہ ایک پاکیزہ جماعت کے نقش قدم پر چلنے والا ہوتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ ۔ (سورہالحج : 34)
اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ لہذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرمانبرداری کرو، اور خوشخبردی سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
اورحدیث میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کوئی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے (الترغیب والترہیب للمنذری 155/2)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے :
اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قربانی کے دنوں میں کوئی عمل قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے (سنن الترمذي: 1493 • حسن غريب •)
اور اس کی مشروعیت اور اہمیت کے لئے یہی کیا کم ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے قربانی کی اور مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد ہمیشہ قربانی کرتے رہے اور کبھی ترک نہیں کیا. (مشکاۃ :129/1)
قرآن حکیم کی مذکورہ آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات اور امت مسلمہ کا چودہ سو سال سے ہر زمانہ اور ہر ملک میں قربانی کا اہتمام اس کے ثبوت کے ایسے واضح دلائل ہیں کہ کسی انصاف پسند کے لئے اس کا انکار ناممکن ہے ۔
البتہ عقل و خرد سے کورے اور کتاب و سنت سے ناواقف اور اللہ سے تعلق اور روحانی عظمت سے ناآشنا کے لئے اس کا انکار ممکن ہے چنانچہ اس طرح کے لوگ کہتے ہیں کہ قربانی ایک نامناسب عمل ہے ، نیز اس کی وجہ سے چند دنوں میں ایک خطیر رقم یونہی ضائع ہوجاتی ہے ، حالانکہ اس کو محتاجوں کے معاشی استحکام اور دین کی اشاعت و تبلیغ میں لگا کر ایک بڑا اہم اور مفید کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔
اس طرح کی سوچ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے قربانی کا مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ان دنوں میں جانور کو ذبح کرکے خود کھائیں اور رشتہ داروں میں بانٹ دیں ۔ شاید ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ قربانی اخلاص ، اطاعت اور جانثاری کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور اللہ تعالی سے ربط وتعلق کا ایک عنوان اور اس کے حکم کے سامنے خود سپردگی کی ایک علامت اور پہچان ہے ۔ اسے ختم کرنے یا محدود کرنے کا مطالبہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی ہندوستان کی آزادی کے دن کے موقع پر یہ مشورہ دینے لگے کہ وطن عزیز کے سیکڑوں فرزند دوگز کپڑے کو ترس رہے ہیں اس لئے خدارا ان جھنڈوں میں اپنے کپڑے ضائع مت کرو بلکہ اسے غریبوں میں تقسیم کردو ۔
ظاہر ہے کہ کوئی اسے معقول نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ یہ وطن کی آزادی میں قربانی کی عظیم تاریخ کو یاد رکھنے کا ذریعہ ہے ، اور اس مقصد کے لئے سر بکف پھرنے والے جوانوں کی داستان عزیمت کے سامنے ان چند گز کپڑوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
علاوہ ازیں سوچنے کا یہی انداز رہا تو پھر دین کا کونسا شعبہ محفوظ رہیگا ، آج قربانی کی باری ہے اور کل حج کے بارے میں کہا جائے گا کہ اتنی رقم خرچ کرکے مکہ جانے کی ضرورت کیا ہے کیوں نہ ان کے ذریعے غربت دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔
سوچنے کا یہ انداز وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو آخرت کے تقاضوں سے ، روحانیت کی حقیقت سے ، دین کی عظمت سے ، عبودیت کی لذت اور ایمان کی حلاوت و لطافت سے ناآشنا ہو ، عقل پرستی اور خواہشات نفس کی پیروی میں اندھا ہوگیا ہو اور مادہ پرستی کی بھول بھلیوں میں پھنس کر اپنی حقیقت کو فراموش کر بیٹھا ہو ۔
اللہ اسے ہدایت دے ، اس کی نگاہوں میں وسعت ، دلوں میں نور اور اللہ و رسول کی محبت پیدا کردے ۔
(1) اکثر مفسرین کے یہاں "نحر ” سے مراد قربانی ہے، حضرت مجاہد اور قتادہ وغیرہ کی یہی رائے ہے ۔ (تفسیر مظہری 253/10) امام ابو بکر رازی کہتے ہیں کہ ایک عرب کے ذہن میں لفظ” نحر” سے قربانی کے علاوہ کوئی اور مفہوم نہیں آسکتا ہے ( احکام القرآن 5/3)
(شائع شدہ : ترجمان دار العلوم دہلی ۔ اپریل ، مئی ۔ 1995ء)