لباس اور زینت سے متعلق چند اصول و ضوابط:

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

 

ظاہر باطن کا ائینہ ہے بلکہ ظاہر باطن کی اصلاح اور درستگی کا ذریعہ ہے غور کیجئے کہ نماز، روزہ، زکاۃ اور حج کے تمام ارکان ظاہر سے متعلق ہیں اور یہی افعال دل کے بنانے اور سنوارنے کا ذریعہ بھی ہیں ۔اسی طرح سے لباس و پوشاک اور ظاہری تراش و خراش بھی باطن کی زیبائش کا سبب ہے اس لیے اسلامی شریعت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی ہے

1۔ ضروری لباس:

مرد کے لیے ناف سے نیچے سے لے کر گھٹنے تک اور عورت کے لیے ہاتھ منہ اور پاؤں کے علاوہ پورے جسم کو نماز میں اور عام لوگوں کی نگاہوں سے چھپانا ضروری ہے اور فتنے کے اندیشہ کی وجہ سے عورت کے لیے اجنبی اور غیر محرم مردوں سے چہرہ اور ہاتھ وغیرہ کا پردہ بھی لازم ہے (دیکھئے الدرالمختار مع الرد610/9)

لباس کا مقصد ستر پوشی ہے لہذا جس لباس سے یہ مقصد پورا نہ ہو وہ برہنگی کے حکم میں ہے اس لیے مرد و عورت میں سے ہر ایک کو ایسا لباس پہننا درست نہیں ہے جس سے جسم جھلکنے لگے اور اسی طرح سے بہت چست کپڑا پہننا بھی جائز نہیں ہے جس سے جسم کے نشیب و فراز نمایاں ہوں.

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا ؛ قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مُمِيلَاتٌ،مائلات ۔

جہنم میں جانے والے دو طرح کے لوگوں کو میں نے نہیں دیکھا ہے ۔ایک وہ قوم ہوگی جس کے ساتھ بیل کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جس سے وہ لوگوں کو ماریں گے ۔دوسری وہ عورتیں ہیں جو کپڑا پہننے کے باوجود ننگی ہونگی۔مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہونگی ۔(صحیح مسلم:2128 . وشرح النووی 168/6۔المنتقی 499/2)

2۔ ریشم اور سونا چاندی:

مرد کے لیے خالص ریشم کا لباس حرام ہے اور عورت کے لیے اس کی اجازت ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَحَلَّ لِإِنَاثِ أُمَّتِي الْحَرِيرَ وَالذَّهَبَ، وَحَرَّمَهُ عَلَى ذُكُورِهَا ".

اللہ تعالی نے میری امت کی عورتوں کے لئے ریشم اور سونا حلال قرار دیا ہے اور مردوں کے لئے حرام کیا ہے ۔

( سنن نسائی: 5265،جامع ترمذی: 1720.)

اور مردوں کی طرح سے چھوٹے بچوں کے لیے بھی خالص ریشم کا لباس ناجائز ہے (دیکھئے المغنی:ج1/ص344، اعلاءالسنن:ج17/ص352)

مردوں کے لیے سونے کا زیور بالکل حرام ہے اور چاندی میں انگوٹھی کی حد تک اجازت ہے بشرطے کی اس کا وزن ایک مثقال سے کم ہو ( سنن ابوداؤد:4223)

3۔ غیروں سے مشابہت:

مشابہت کا اثر محض ظاہر تک محدود نہیں رہتا بلکہ باطن تک سرایت کر جاتا ہے اور رگ و ریشے میں پیوست ہو جاتا ہے نیز یہ دوسروں کی تہذیب و تمدن سے مرعوبیت کی علامت ہے اس لیے حدیث میں سختی کے ساتھ غیر قوموں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.

جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے .(سنن ابوداؤد:4031)

” لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ، وَلَا بِالنَّصَارَى.

جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے اس لیے یہود و نصاری کی مشابہت اختیار نہ کرو (جامع ترمذی:2695 )

ممنوع مشابہت کی عمومی طور پر چار صورتیں ہو سکتی ہیں:

1۔مذہبی تشبہ:

کسی قوم کے مذہبی شعار کو اختیار کرنا جیسے زنار پہننا، صلیب لٹکانا، قشقہ لگانا وغیرہ۔ تشبہ کی یہ قسم ناجائز اور حرام ہے اور فقہاء نے اس طرح کی مشابہت اختیار کرنے والے پر کفر کا حکم لگایا ہے(دیکھئے الہندیۃ:2/276)

2۔صنفی تشبہ:

مرد کے لیے عورت کی مشابہت اور عورت کے لیے مرد کی مشاورت اختیار کرنا ناجائز ہے حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر بھی لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں(صحیح بخاری:2/874)

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل یلبس لبسۃ المراۃ والمرأۃ تلبس لبسة الرجل۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد پر لعنت کی ہے جو زنانہ لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی جو مردانہ لباس پہنتی ہے۔ (ابو داود :4098 احمد:8309)

3۔قومی تشبہ:

ان چیزوں کو اختیار کرنا بھی ممنوع ہے جو غیر قوم کے ساتھ خاص ہوں اور اس سے قومی شناخت وابستہ ہو جیسے کہ دھوتی ہندوؤں کا مخصوص لباس ہے اور کوٹ پتلون کسی زمانے میں انگریزوں کا قومی لباس تھا۔

لیکن یہ ممانعت اسی وقت تک ہے جب تک کہ خصوصیت باقی رہے لہذا کسی قوم کا لباس عام ہو جائے اور اس سے قومی امتیاز اور شناخت باقی نہ رہے تو پھر اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ سطر پوشی کے تقاضے پورے ہو رہے ہوں (دیکھئے امداد الفتاوی:4/264)

4۔فاسقوں کی مشابہت:

فاسق و فاجر اور بد کردار لوگوں کے لباس کو اپنانا بھی کراہت سے خالی نہیں ہے لیکن یہ حکم بھی اسی وقت تک ہے جب تک وہ ان کے ساتھ خاص ہو کہ دیکھنے والا پس و پیش میں پڑ جائے کہ کیا یہ شخص بھی غلط کاروں کے گروہ کا ایک فرد ہے؟

4۔ کپڑے کا رنگ:

لباس کے معاملے میں کسی خاص رنگ کی پابندی نہیں ہے بلکہ ہر رنگ کے کپڑے پہننے کی اجازت ہے مردوں کے لیے دو طرح کے رنگ کے کپڑوں کی ممانعت ہے ایک زعفران سے رنگا ہوا دوسرا عصفر (زرد رنگ کی بوٹی) سے رنگا ہوا اور ان دونوں سے ممانعت کی وجہ خود رنگ نہیں ہے بلکہ خارجی اسباب ہیں جیسے کہ عورتوں اور غیر مسلموں سے مشابہت چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کا لباس عصفر سے رنگا ہوا دیکھا تو فرمایا:

ان هذا من ثياب الكفار فلا تلبسها(صحيح مسلم:2/193)

یہ کافروں کا لباس ہے اس لیے اسے مت پہنو۔

اور ایک صاحب کو زعفرانی کپڑا پہنے ہوئے دیکھ کر فرمایا:

اانك امرأة؟

کیا تو عورت ہے؟(اعلاءالسنن:17/365)

اور مردوں کے لیے خالص سرخ رنگ کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے امام مالک، شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے اور بعض حنفی فقہاء اور حنابلہ کے نزدیک ناجائز ہے علامہ ابن عابدین شامی کہتے ہیں کہ بعض حنفیہ کے نزدیک بھی کراہت اس وقت ہے جبکہ عورتوں یا عجمیوں سے مشابہت یا تکبر مقصود ہو (ردالمحتار:5/228)

حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالص سرخ رنگ کے کپڑے کا استعمال ثابت ہے اس سے ممانعت کی کوئی حدیث نہ تو صریح ہے اور نہ صحیح (دیکھئے اعلاءالسنن:17/359- 361)

تاہم دلائل سے قطع نظر موجودہ زمانے میں مکمل سرخ رنگ کے کپڑے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے امام طبری کی یہ بات قابل لحاظ ہے کہ

"میں ہر رنگ کے کپڑے کو جائز سمجھتا ہوں البتہ مکمل سرخ رنگ کے کپڑے کو ناپسند کرتا ہوں کیونکہ یہ ہمارے زمانے میں اہل وقار کا لباس نہیں ہے اور جب تک کہ گناہ کے دائرے میں نہ آتا ہو صاحب وقار لوگوں کے لباس اور ہیئت کو اختیار کرنا چاہیے”(فتح البارى:10/142)

5۔ لباس تکبر

لباس کی ساخت اور ہیئت ایسی ہونی چاہیے کہ اس سے گھمنڈ اور غرور کا اظہار نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

* ” كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، غَيْرَ مَخِيلَةٍ ، وَلَا سَرَفٍ ". وَقَالَ يَزِيدُ مَرَّةً : ” فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ، وَلَا مَخِيلَةٍ ".

کھاؤ پیو صدقہ و خیرات کرو اور کپڑے پہنو لیکن شرط یہ ہے کہ فضول خرچی اور تکبر نہ ہو(احمد :6695. نسائی:2559.ابن ماجہ :3605)

*مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .

جو اپنے کپڑے کو گھمنڈ سے گھسیٹتے ہوئے چلے تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھیں گے.(صحیح بخاری:3665)

*کپڑے کی آخری حد ٹخنوں تک ہے اور جو اس سے زیادہ ہو وہ جہنم میں ہے

” إِزْرَةُ الْمُسْلِمِ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ، مَا أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ فَفِي النَّارِ، مَا أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ فَفِي النَّارِ(الموطا:2657.صحيح بخاري:5787)

علامہ طبری اس طرح کی حدیثوں کی شرح میں کہتے ہیں:

کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کپڑے کو ٹخنے سے نیچے لٹکائے اور کہے کہ میں تکبر کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہا ہوں اس لیے کہ ممانعت کے الفاظ اس صورت کو بھی شامل ہیں اور یہ کہنا کہ مجھ میں تکبر نہیں ہے نا قابل تسلیم ہے کیونکہ کپڑے کو ٹخنے سے طویل رکھنا ہی تکبر پر دلالت کرتا ہے(فتح الباری:10/264)

اس تشریح کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کپڑے ٹخنے سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ ایسا کرنا تکبر کی وجہ سے ہے.

، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ ؛ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ.(ابو داؤد 4084۔نیز دیکھئے:فتح الباری:10/259)

6۔ لباس شہرت:

لباس شہرت سے مراد وہ کپڑا ہے جو نمائش اور لوگوں کے درمیان مشہور ہونے کی نیت سے پہنا جائے اور اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کپڑا بہت عمدہ اور قیمتی ہو بلکہ پھٹا،پرانا یا گدڑی بھی اس نیت سے پہنی جائے تو وہ لباس شہرت کا مصداق اور ممنوع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا ".

جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنتا ہے اللہ تعالی اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے اور پھر اس میں آگ بھڑکائی جائے گی. (ابو داؤد ،نسائ،ابن ماجہ نیل الاوطار:6/136

 

7-محض خوبصورتی اور نمائش کے لیے جسم میں کانٹ چھانٹ جائز نہیں ہے کہ ایسا کرنا اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کے حکم میں اور شیطانی بہکاوے کا نتیجہ ہے چنانچہ اس نے کہا تھا :

ولاضلنہم ولامنينهم ولامرنهم فليبتكن اذان الانعام ولامرنهم فليغيرن خلق الله (سورةالنساء:119)

میں انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا کر رہوں گا اور انہیں خوب آرزوئیں دلاؤں گا اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ چوپایوں کے کان چیر ڈالیں اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کریں۔

تخلیق کی دو قسمیں ہیں تخلیق تکوینی اور تخلیق تشریعی اور دونوں طرح کی تخلیق میں تبدیلی آیت کے مفہوم میں داخل ہے۔ تحقیق تکوینی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جس ساخت پر انسان یا حیوان کو پیدا کیا ہے اس کو بدلنے کی کوشش کی جائے جیسے کہ انسانوں کو خصی کرنا یا آپریشن کے ذریعے جنس تبدیل کرنا یا جسم پر ٹیٹو بنانا چنانچہ ایک حدیث میں ہے :

لعن الله الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله(صحيح بخاري:2/879)

اللہ تعالی کی لعنت ہو گوندنے والیوں اور گوندوانے والیوں پر ۔بھؤں کے بال کو نوچنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فصل پیدا کرنے والیوں پر جو اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں تبدیلی پیدا کرنے والیاں ہیں۔

اور تخلیق تشریعی سے مراد یہ ہے کہ دین اور اس کے احکام میں تحریف اور تبدیلی کی جائے۔

اور جسمانی ساخت کا مفہوم یہ ہے کہ جس صورت اور شکل کے ساتھ عام طور پر انسان یا حیوان پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا کسی کی انفرادی ساخت اس میں شامل نہیں ہے اس لیے اگر کسی کو پانچ کی جگہ چھ انگلیاں نکل آئیں یا بھؤں کے بال حد اعتدال سے اس قدر بڑھ جائیں کہ عیب معلوم ہوں تو آپریشن کے ذریعے زائد انگلی کو الگ کرنے یا بھؤں کے زائد بال کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ محدث سہارن پوری لکھتے ہیں:

بظاہر اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عادت کے مطابق جاندار کو جس شکل پر پیدا کیا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی لہذا اگر خلاف عادت کوئی چیز ظاہر ہو جائے جیسے کہ عورتوں کو داڑھی نکل آنا یا عضو زائد تو اسے ختم کرنا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے(بذل المجہود:5/72)

نیز علاج یا کسی دوسری ضرورت و حاجت کے لیے جسم میں تراش خراش بھی اللہ کی ساخت کی میں تبدیلی کے حکم میں داخل نہیں ہے خواہ کسی ظاہری بیماری کا علاج مقصود ہو یا نفسیاتی بیماری کا؛ کیونکہ نفسیاتی بیماری کا انجام بسا اوقات جسمانی بیماری سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے تین لوگوں کو آزمانا چاہا جس میں سے ایک گنجا، دوسرا مبروص اور تیسرا اندھا تھا، فرشتہ انسانی شکل میں ان سے ہر ایک کے پاس آیا اور ان کی خواہش پوچھی. انہوں نے کہا ہم جس مصیبت میں گرفتار ہیں اس سے نجات چاہتے ہیں. گنجے اور مبروص نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ لوگ اس کی وجہ سے ہمیں کمتر سمجھتے ہیں چنانچہ وہ تینوں بھلے چنگے ہو گئے(صحیح بخاری:3464 صحیح مسلم:2964)

ظاہر ہے کہ ان کو کسی طرح کی جسمانی پریشانی لاحق نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے وہ درد اور ٹیس محسوس نہیں کرتے تھے لیکن لوگوں کے برتاؤ کی وجہ سے وہ احساس کمتری میں مبتلا تھے. غرضیکہ جسمانی عیب کی وجہ سے احساس کمتری پیدا ہو یا وہ بدنما معلوم ہو تو وہ بیماری میں شامل ہے اور اسے ختم کرنے کی تدبیر کرنا علاج کے دائرے میں داخل ہے۔

اور اس مقصد کے حصول کے لیے بسا اوقات حرام چیزوں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عرفجہ کی ناک جنگ کے دوران کٹ گئی تھی جس کی جگہ انہوں نے چاندی کی ناک لگائی تھی مگر اس میں بدبو پیدا ہو جایا کرتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا(جامع ترمذی:1770)

اور یہ معلوم ہے کہ مردوں کے لیے سونے اور چاندی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور چاندی میں صرف انگوٹھی کی حد تک اجازت ہے لیکن بدنمائی کو دور کرنے کے لیے چاندی اور اس کے بعد سونے کی مصنوعی ناک کی اجازت دی گئی.

اور ایک حدیث میں ہے :

اللہ کی لعنت ہو گوندنے والیوں اور گوندوانے والیوں پر بھؤں کے بال کو اکھاڑنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں پر جو اللہ کی ساخت میں تبدیلی پیدا کرنے والی ہیں(صحیح بخاری:2/879وغیرہ)

اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی لکھتے ہیں:

حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ محض خوبصورتی کے لیے ایسا کرنا حرام ہے لیکن اگر علاج یادانت میں عیب کی وجہ سے اس کی ضرورت پڑ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے (المنہاج)

 

8۔ دھوکہ دہی اور جعل سازی:

 

دھوکہ دھڑی اور فریب کاری سخت ناپسندیدہ حرکت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من غشنا فليس منا (صحيح مسلم:101)

جس نے ہمارے ساتھ فریب کاری کی وہ ہم میں سے نہیں ہے.

لہذا زینت و آرائش کے لیے ایسے اسباب کو اختیار کرنا درست نہیں ہے جس میں جعل سازی اور تصنع ہو اور اسی بنیاد پر حدیث میں نقلی بال لگانے کی ممانعت کی گئی ہے چنانچہ حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں:

قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا فَخَطَبَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعَرٍ قَالَ:‏‏‏‏ مَا كُنْتُ أَرَى أَحَدًا يَفْعَلُ هَذَا غَيْر الْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُ الزُّورَ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي الْوَاصِلَةَ فِي الشَّعَرِ. (صح بخاری:5938/ صحیح مسلم:2127)

حضرت معاویہ جب اخری مرتبہ مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے ہمارے سامنے تقریر فرمائی اور بالوں کا ایک گچھا نکال کر کہا کہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے علاوہ کوئی اور یہ کام کرتا ہوگا. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے کو جھوٹ اور فریب قرار دیا ہے

اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا:

اين علماءكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذا ويقول انما هلكت بني اسرائيل حين اتخذ هذه نسائهم (صحيح بخاري:5932، صحيح مسلم:2127)

تمہارے علماء کہاں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب اسے اختیار کیا تو وہ ہلاک کر دیے گئے.

اور دانتوں کو گھس کر چھوٹا کرنا اور ان کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی ممانعت کی ایک وجہ دھوکہ دہی بھی ہے کہ اس طرح سے کم سنی ظاہر کی جاتی ہے چنانچہ علامہ نووی لکھتے ہیں

لان هذه الفرجۃ اللطيفۃ بين الاسنان تكون للبنات الصغار فاذا عجزت المراة و كبرت سنها وتوحشت فتبردها بالمبرد تصير لطيفة سنة المنظر وتوهم كونها صغيرة (المنهاج)

اس لیے کہ دانتوں کے درمیان باریک دراز چھوٹی بچیوں میں ہوتی ہے اور جب عورت کی عمر ڈھل جاتی ہے اور اس کے دانت بڑے ہوجاتے ہیں اور بدنما معلوم ہوتے ہیں تو وہ اوزار کے ذریعے اسے گھس کر چھوٹا کر دیتی ہے تاکہ بھلا معلوم ہو اور اس کی عمر کم محسوس ہو۔

اسی طرح سے سیاہ خضاب سے ممانعت کی وجہ بھی دھوکہ دہی اور جعل سازی ہے چنانچہ علامہ عبدالرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں:

سیاہ خضاب سے ممانعت اس وقت ہے جبکہ اس کے ذریعے دھوکہ دینا ہو جیسے کوئی عمر دراز عورت اور باندی سیاہ خضاب لگا کر شوہر یا آقا کو دھوکہ دے. یا بڑی عمر کا آدمی سیاہ خضاب لگا کر کسی عورت کو دھوکہ دے ؛ اس لیے کہ یہ فریب اور جعل سازی ہے اور اگر اس میں دھوکہ اور فریب نہ ہو تو سیاہ خضاب لگانا درست ہے چنانچہ حضرت حسن و حسین کے متعلق صحیح سند سے ثابت ہے کہ وہ دونوں کالا خضاب لگایا کرتے تھے (تحفۃالاحوذی:5/ 361)

حضرت عائشہ کے فتوے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ وہ کہتی ہیں:

اذا خطب احدكم المراۃ وهو يخضب بالسواد فليعلمها انه يخضب (تحفة الاحوذى: 5/ 358)

اگر کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے اور وہ کالا خضاب لگاتا ہو تو اسے اس کی اطلاع کر دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے