(13)
محرم کے بغیر سفرحج۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔
انسان کا ایک امتیازی جوہر اور مخصوص وصف عصمت و عفت ہے اور اسلامی شریعت میں اس آبگینے کی حفاظت کا خصوصی نظم کیاگیا ہے اور ہر اس راستے پر پابندی لگائی گئی ہے جس کے ذریعے پاک دامنی پر دھبہ لگنے کا خطرہ ہو ، اس لیے مرد و عورت میں سے ہر ایک کو ایسی جگہوں سے دور رہنے کا حکم دیاگیا ہے جہاں فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو ۔
چونکہ عورتیں جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں اس لیے مردوں کی بہ نسبت ان کے تحفظ کازیادہ خیال رکھا گیاہے اور انہیں محرم یا شوہر کے بغیر لمبا سفر کرنے سے منع کیاگیاہے تاکہ جوہر انسانیت اور زیور عز ت و کرامت پر کوئی آنچ نہ آئے ، کیونکہ ہر عقل مند شخص بخوبی جانتا ہے کہ سفر میں اکیلی عورت کی عزت کس قدر خطرے کی زد میں ہوتی ہے : لان المقصود من المحرم الحفظ والصیانۃ۔ (البحر 315/2)
سفر کی مسافت :
کوئی عورت محرم کے بغیر کتنی دور کا سفر کر سکتی ہے ؟ اس میں فقہا ء کے درمیان اختلاف ہے ، امام نخعی ، شعبی ، طاؤس اور ظاہریہ کے نزدیک قریب یا دور کی تفصیل کے بغیر ہر طرح کاسفر محرم کے بغیر ممنوع ہے ،(نخبالافکار 10/9) کیونکہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ لاتسافرالمرأۃ إلا مع ذی محرم ‘‘(صحیح بخاری: 1862)
کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ۔
اس طرح کی حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے بھی منقول ہے. (شرح معانی الآثار معالنخب 10/9)
اور ان احادیث میں کسی تفصیل کے بغیر عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع کیاگیاہے ۔
امام مالک، اوزاعی ، لیث اور شافعی کے نزدیک ایک دن سے کم کا سفر محرم کے بغیر جائزہے اورایک دن یا اس سے زیادہ کاسفر جائزنہیں ہے ،(نخب الافکار 13/9) اس لیے کہ حضرت ابوہریرہؓ سے منقول حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’لایحل لامرأۃ تؤمن باللہ والیوم الآخر أن تسافر مسیرۃ یوم و لیلۃ لیس معھا حرمۃ‘‘(صحیح بخاری: 1088)
اللہ اور آخرت پرایمان رکھنے والی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن اور ایک رات کا سفر کر ے ۔واضح رہے کہ امام مالک ،بخاری ، مسلم اور ابو داؤد نے رات اوردن دونوں کاذکر کیاہے ، اس کے برخلاف امام مسلم وغیرہ کی بعض سندوں میں صرف رات کاذکر ہے اور بعض میں صرف دن کاذکر ہے ۔
امام ابو حنیفہ ، سفیان ثوری ، سلیمان بن مہران اور ابو یوسف ومحمد کے نزدیک تین دن سے کم کاسفر محرم کے بغیر جائز اور تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر محرم کے بغیر حرام ہے ،(نخب الافکار 18/9)ان کے دلائل یہ ہیں :
1۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
’’لا تسافرالمرأۃ ثلاثۃ ایام الا مع ذی محرم‘‘ (بخاری:1086۔مسلم:1338)
کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کرے ۔
2۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’لا تسافر المرأۃ ثلاثا الا مع ذی محرم‘‘۔(مسلم,:827)
کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کر ے ۔
3۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’لا یحل لامرأۃ ان تسافر ثلاثا الا ومعھا ذو محرم منھا‘‘ (مسلم :1339)
کسی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن کا سفر محرم کے بغیر طے کرے ۔
محرم کے بغیر سفر کی ممانعت کی روایات کے الفاظ میں اختلاف ہے ، کسی میں ’’برید‘‘ (12؍میل)، کسی میں ایک دن اور کسی میں دو دن اورکسی میں تین دن کا ذکر ہے ،جس میں سے تین دن والی روایت پر اتفاق ہے، یعنی جن راویوں نے تین دن سے کم والی روایت نقل کی ہے انہوں نے تین دن والی حدیث بھی ذکر کی ہے ، اس طرح سے تین دن والی روایت یقینی ہے اور اس سے کم میں شک ہے ، لہٰذا اسی کو ترجیح ہوگی ، چنانچہ امام طحاوی کہتے ہیں :
’’فقد اتفقت ھذہ الآثار کلھا عن النبیﷺ فی تحریم السفر ثلاثۃ ایام علی المرأۃ بغیر محرم واختلفت فیما دون الثلاث‘‘(شرح معانی الآثار385/1)
ان تمام احادیث میں اس پراتفاق ہے کہ عورت کے لیے محرم کے بغیر تین دن کا سفر کرنا درست نہیں ہے اور تین دن سے کم کی روایات میں اختلاف ہے ۔
اور علامہ بیہقی وغیرہ کہتے ہیں کہ سوالات کے مختلف ہونے کی وجہ سے جواب میں اختلاف ہوا ہے ، کسی نے ایک دن کے سفر کے بارے میں پوچھا تو اس کے جواب میں ایک دن کاحکم ذکر کر دیاگیا ، اسی طرح سے کسی نے دو دن اور کسی نے تین دن کے متعلق دریافت کیا تو آنحضرت ﷺ نے ہر ایک کے سوال کے مطابق جواب دیے دیا ، غرضیکہ ان روایتوں میں مسافت سفر کی مقدار بیان نہیں کی گئی ہے اس لیے ہر وہ مسافت جسے طے کرنے کو سفر کہا جائے عورت کو اس سفر میں محرم کے بغیر جانے سے روکا جائے گا۔(المنہاج للنووی 432/1)
اور علامہ ظفر احمد عثمانی کہتے ہیں ابتدا میں اسلامی حکومت کا دائرہ بہت محدود تھا ، مسلمان کمزور تھے اور خوف کا غلبہ تھا ، ایسے حالات میں صرف ایک برید (بارہ میل)سے کم کی اجازت دی گئی اور پھر جیسے جیسے اسلامی حکومت کا دائرہ بڑھتا رہا اور مسلمانوں کو قوت وشوکت حاصل ہوتی گئی اور فتنہ کا اندیشہ کم ہوتا گیا تو مسافت سفر کا دائرہ بھی ایک دن ، دودن اور تین دن سے کم تک کی وسعت اختیار کر تا گیا ،(اعلاء السنن 13/10) .
گویا کہ اس معاملے میں آخری چھوٹ تین دن سے کم کی دی گئی اورتین دن یا اس سے زیادہ کی نہیں ۔
واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف سے ایک قول یہ منقول ہے کہ عورت کے لیے محرم کے بغیر ایک دن کا سفر بھی ممنوع ہے اور علامہ شامی کہتے ہیںکہ فساد زمانہ کی وجہ سے اسی کے مطابق فتویٰ دینا چاہیے ’’وینبغی ان یکون علیہ الفتوی لفساد الزمان‘‘۔(رد المحتار 465/3)
مسافت سفر یا مدت سفر :
پہلے زمانہ میں مسافت سفر اور مدت سفر میں کوئی فرق نہیں تھا اور سفر شرعی (48میل )کی مسافت عام طور پر تین دن میں طے کی جاتی تھی ، موجود ہ دور میں فاصلے سمٹ چکے ہیں اوراب مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کر لی جاتی ہے ، اس لیے سوال پیداہوتا ہے کہ احکام سفر کی بنیاد مسافت سفر پر ہے یا مدت سفر پر ؟
مسافر کے لیے نماز قصر کرنے کے مسئلے میں فقہا نے صراحت کردی ہے کہ اس کی بنیاد مدت سفر پر نہیں ہے بلکہ مسافت سفر پر ہے ، اس لیے اگر کوئی شخص تین دن کی مسافت دو یا ایک دن میں طے کر لیتا ہے تو وہ مسافر سمجھاجائے گا اور وہ نماز میں قصر کر ے گا ۔(رد المحتار 603/2.الہندیہ 139/1)
اسی طرح سے فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ عورت کے لیے سفر سے ممانعت کا تعلق بھی مسافت سے ہے مدت سے نہیں ، لہٰذا عورت کے لیے 48میل یا اس سے زائد کاسفر محر م کے بغیر ممنوع ہے ، گرچہ یہ مسافت چند گھنٹوں میں طے ہوجائے ، اس لیے یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ کوئی عورت اپنے محرم یا شوہر کے ساتھ مقامی ائیر پورٹ تک جائے اور پھر دوسری جگہ ایئر پورٹ پر اس کا محرم موجود ہواور درمیانی سفر ہوائی جہاز کے ذریعہ بغیر محرم کے طے ہو ۔
سفر حج میں محرم کی شرط :
تمام فقہاء کا اس بات پراتفاق ہے کہ نفلی حج اور دوسرے اسفار کے لیے محرم کے بغیر سفر کرنا ممنوع ہے ،(المجموع 87/7.فتح الباری64/4)البتہ اس میں اختلاف ہے کہ کسی خاتون پر حج فرض ہوجائے تو وہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے محرم کے بغیر سفر کر سکتی ہے یا نہیں ؟ حضرت حسن بصری ، امام نخعی ، ابوحنیفہ ، احمد بن حنبل ، اسحاق راہویہ اورابن منذر کے نزدیک فریضہ حج کی ادائیگی کے سفر میں بھی محرم شرط ہے اوراس کے بغیر تین دن یا اس سے زائد کی مسافت طے کرنا درست نہیں ہے ۔ (المغنی 30/5.الموسوعہ الفقہیہ 35/17)
مشہور تابعی محمد بن سیرین ،امام مالک ، اوزاعی اور امام شافعی کے نزدیک فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے عورت کے ساتھ محرم کی موجودگی شرط نہیں ہے ،امام احمد سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے لیکن حنابلہ کے نزدیک فتویٰ اورعمل پہلے قول پر ہے ۔(المغنی 30/5)
امام مالک اور شافعی وغیرہ کے نزدیک محرم کے بغیر حج کے لیے عورت اسی وقت جاسکتی ہے جب کہ اس کے ساتھ بھروسہ مند عورتوں کی ایک جماعت ہو اور اگر ساتھ میں صرف ایک لائق اعتماد عورت ہو تواس صورت میں امام شافعی کے نزدیک اس پر حج فرض نہیں ہے ، البتہ اس کے ساتھ حج کا سفر کرنا درست ہوگا اورامام مالک کے نزدیک نہ تو حج فرض ہے اورنہ اس کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے ،(المجموع343/8۔ الموسوعۃ الفقہیہ36/17)
امام شافعی کا ایک قول یہ ہے کہ اگر یہ راستہ مامون و محفوظ ہو اورعورت کو کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو وہ تنہا سفر حج کے لیے جاسکتی ہے ، مشہور شافعی فقیہ ابو اسحاق شیرازی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے ۔(المہذب 669/2)
مالکیہ وغیرہ کے دلائل:
امام مالک اور امام شافعی کے دلائل یہ ہیں:
1۔ حج فرض ہونے کے لیے صرف استطاعت شرط ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ولِلّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ‘‘(سورہ آل عمران: 97)
اور جو لوگ اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے واسطے اس کا حج فرض ہے ۔
اوراستطاعت کی وضاحت ایک روایت میں ان الفاظ سے کی گئی ہے :
’’عن أنس قیل یا رسول اللہ ما السبیل قال الزاد والراحلۃ‘‘(رواہ الدارقطنی وصححہ الحاکم والراجح ارسالہ واخرجہ الترمذی من حدیث ابن عمر وفی اسنادہ ضعف (بلوغ المرام:/150) ۔
حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ بیت اللہ تک جانے کی استطاعت سے کیا مراد ہے ؟ آنحضور ﷺنے فرمایا کہ توشہ اور سواری کا نظم۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی تفریق کے بغیر مردو عورت دونوں پر حج فرض ہونے کے لیے صرف توشہ اور سواری کی استطاعت شرط ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز شرط نہیں ہے ۔
اس سلسلے کی کوئی بھی حدیث سندی اعتبار سے صحیح نہیں ہے لیکن متعدد سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے ان میں قوت آ جاتی ہے اور استدلال کے لائق ہوجاتی ہے ، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی روایتیں جو حسن ، مرسل اور موقوف طریقوں سے منقول ہیں دلالت کرتی ہیں کہ :
’’ان مناط الوجوب الزاد والراحلۃ ‘‘۔(سبل السلام 251/2)
کہ حج فرض ہونے کا مدار توشہ اور سواری پر ہے ۔
اور علامہ شوکانی لکھتے ہیںکہ :
’’ولایخفی أن ھذہ الطرق یقوی بعضھا بعضا فتصلح للاحتجاج بھا‘‘(نیل الاوطار288/4)
یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ سندیں ایک دوسرے کو قوت پہنچاتی ہیں جس کی وجہ سے حدیث استدلال کے لائق ہوجاتی ہے ۔
اورمولانا محمد تقی عثمانی بھی اس سے متفق ہیں کہ متعدد طریقوں اور امت کی طرف سے قبولیت کی وجہ سے حدیث میں قوت آجاتی ہے اور اسی کا لحاظ کرتے ہوئے امام ترمذی نے حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔(درس ترمذی 54/3)
2۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم سے کہا :
’’یوشک ان تخرج الظعینۃ من الحیرۃ توم البیت لاجوار معھا لا تخاف الا اللہ‘‘۔(دیکھئے صحیح بخاری :3595)
جلد ہی ایسا وقت آنے والا ہے جب ایک عورت تن تنہا ہودج میں سوار ہوکر’’ حیرہ‘‘شہر سے بیت اللہ آئے گی ، وہ کسی کی ذمہ داری اور پناہ میں نہیں ہوگی لیکن اس کے باوجود اسے اللہ کے سوا کسی اور کا خوف نہیں ہوگا ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے لیے کوئی عورت تنہا سفر کرسکتی ہے ، امام نووی کہتے ہیں اگر اس پر یہ اعتراض کیاجائے کہ اس سے محرم کے بغیر عورت کے لیے سفر حج کا جواز معلوم نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے امن و سلامتی کی عمومی حالت کو بیان کرنے کے لیے اس طرح کے واقعے کی پیش گوئی فرمائی ہے قطع نظر اس سے کہ ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جیسے کہ بعض حدیثوں میں کہا گیا ہے کہ میرے بعد بہت سے جھوٹے اور فریبی پیدا ہوں گے اور نبوت کا دعویٰ کر یں گے لیکن اس سے اس عمل کا جواز ثابت نہیں ہوتا ہے ، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ حدیث مذمت کے طور پر لائی گئی ہے اور حضرت عدی کی حدیث تعریف اور فضیلت کے لیے بیان کی گئی ہے جس میں اسلام کی بلندی اور رفعت وعظمت کی پیش گوئی کی گئی ہے ، لہٰذا اس عمل کو عد م جواز پر محمول نہیں کیاجاسکتا ہے ،(المجموع 346/8)تعجب خیز بات یہ ہے کہ خود امام نووی نے ایک موقع پر لکھاہے کہ:
’’لانہ لیس فی کل شییٔ اخبر النبیؐ بانہ سیقع یکون محرما ولاجائزا‘‘
جس چیز کے واقع ہونے کی خبر نبیؐ نے دی ہے اس کا حرام یا جائز ہونا لازم نہیں آتا۔(فتح الباری 76/4)
علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ متعدد احادیث میں عورت کو محرم کے بغیر سفر حج سے منع کیاگیاہے ، اس لیے صریح احادیث کی روشنی میں اس کی تاویل ضروری ہے تاکہ تضاد لازم نہ آئے اور کہا جائے گا کہ حضرت عدی بن حاتم کی حدیث میں محض ایک واقعہ کے وجود کی خبر دی گئی ہے اور اس سے اس کا جواز معلو م نہیں ہوتا ہے ،(نیل الاوطار 288/4)اور علامہ شبیراحمد عثمانی کے الفاظ میں : مذکورہ روایت میں عورت کے تن تنہا سفر کر نے کی تعریف نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اس زمانے کی تعریف مقصود ہے ، اس سے قطع نظر کہ ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟(فتح الملہم 376/3) اور اسی بنیاد پر فریضہ حج کے علاوہ دوسرے سفر کے لیے کسی کے یہاں بھی محرم کے بغیر اجازت نہیں ہے ۔
3۔ ’’اذن عمرلازواج النبیﷺ فی آخر حجۃ حجھا فبعث معھن عثمان بن عفان وعبدالرحمٰن بن عوف‘‘۔(صحیح بخاری: 1860)
حضرت عمرؓ نے اپنے آخری حج میں ازواج مطہرات کو حج کرنے کی اجازت دی اورحضرت عثمانؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ کوان کے ساتھ بھیجا۔
ظاہرہے کہ ازواج مطہرات کا سفر حج محرم کے بغیر ہوا تھا اورخود حضرت عائشہؓ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ محرم کے بغیر عورت سفر حج کے لیے جاسکتی ہے ،چنانچہ ان سے کہاگیا کہ فلاں صحابی کہتے ہیں کہ عورت محرم کے بغیر حج کے لیے نہیں جاسکتی ہے تو انہوں نے فرمایا ہر عورت کا محرم موجود نہیں ہوتا، ’’لیس کل النساء تجد محرما‘‘(المحلی 46/7)یعنی کیا کسی عورت کا محرم موجود نہ ہوتو اس پر حج فرض نہیں ہوگا؟
4 ۔ حضرت عائشہؓ، عبداللہ بن عمرؓ اورعروہ بن زبیرؓ سے منقول ہے کہ سفر حج میں عورت محرم کے بغیر جاسکتی ہے ۔(المحلی 46/7)
5۔ غیرمسلموں کے قید سے کوئی مسلمان عورت آزاد ہوجائے یاکوئی عورت دارالحرب میں اسلام قبول کرلے تواس کے لیے محرم کے بغیر سفر کرنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ ان کے لیے وہاں سے اسلامی مملکت کی طرف کوچ کرنا ضروری ہے ، اس لیے بہ اتفاق اس سفر کے لیے محرم شرط نہیں ہے ، اسی طرح سے مالی وسعت کے بعد سفرحج لازم ہوگیا ہے لہٰذ ا اس کے لیے بھی محرم شرط نہیں ہے ۔(معالم السنن144/2)
6 ۔ سفر میں محرم کی شرط کا مقصد عصمت و عفت کا تحفظ ہے ،(البحر 315/2)اس لیے محرم ہونے کے باوجود بسااوقات اس مقصد کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے سفر سے منع کیاگیا ہے ، جیسے کہ محرم فاسق او ر ناقابل اعتبار ہو تواس کے ساتھ سفر کی اجازت نہیں دی جائے گی ،(البحر 315/2)اوربعض حنفی فقہا ء کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں غلبہ فساد کی وجہ سے دودھ شریک بھائی کے ساتھ سفر جائز نہیں ہے حالانکہ وہ محرم ہے (رد المحتار 464/3) اور امام مالک کہتے ہیں کہ کسی عورت کے لیے سابق شوہر کے بیٹے کے ساتھ سفر درست نہیں کیونکہ لوگوں میں بگاڑ آگیا ہے ۔(عمدۃ القاری 558/7)
اوراس کے برعکس فتنہ کا اندیشہ نہ ہونے کی وجہ سے بوڑھی عورت کے لیے نامحرم مردوں کے ساتھ سفر کی اجازت دی گئی ہے ،(رد المحتار 529/9)اس لیے اصل اعتبار اس کا ہے کہ محرم کے ساتھ یااس کے بغیر عورت کا سفر محفوظ ہے یا محفوظ نہیں ہے ، اگر عورت کی عصمت و عفت کو خطرہ نہیں ہے تو محرم کے بغیر سفر کی اجازت دی جائے گی اوراگر اندیشہ ہے تو محرم کے ساتھ ہونے کے باوجود سفر کرنادرست نہیں ہے ، چنانچہ علامہ کشمیری کہتے ہیں کہ :
’’والمحقق فیھا ان یدار الامر علی الفتنۃ وعدمھا ویحول الامر الی رای من ابتلی بہ ولا یکون فیہ تحدید الایام و ھذا ما تحقق لی من المذھب وان لم یصرح بہ احد‘‘۔(العرف الشذی مع الترمذی: 221/1)
تحقیقی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کا مدار فتنہ کے ہونے یانہ ہونے پر رکھاجائے اور اسے اس کی صواب دید پر چھوڑ دیاجائے جسے سفر درپیش ہے اوراس میں دن کی مقدار کی حد بندی نہ ہو، فقہ حنفی کی تحقیق سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے ،گرچہ کسی نے اس کی صراحت نہیں کی ہے ۔
نیز وہ لکھتے ہیں کہ :
’’ویجوز عندی مع غیر محرم ایضاً بشرط الاعتماد والامن عن الفتنۃ‘‘۔(فیض الباری:397/2)
میرے نزدیک محرم کے بغیر بھی سفر جائز ہے بشرطیکہ فتنہ میں مبتلا ہونے سے مامون اور بے خوف ہو ۔
7۔ محرم کے بغیر سفر کی ممانعت سے متعلق احادیث کا فریضہ حج سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان سے مراد عام اسفار یا سفر حج نفلی ہے ۔
حنفیہ وغیرہ کے دلائل:
1۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
’’وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘۔(سورہ آل عمران: 97)
اوراللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے حج فرض قر ار دیا ہے جو بیت اللہ تک آنے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔
حج کی فرضیت کے لیے جس طرح سے زادراہ، سواری ، صحت مند ، تندرست اور راستے کا مامون ہونا شرط ہے ، اسی طرح سے عورت کے لیے محرم کا ہونا ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس کی عصمت و عفت کے لیے اندیشہ اور فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہے ، لہٰذا اس کے لیے استطاعت میں یہ بات داخل ہے کہ سفر حج میں اس کے ساتھ محرم ہو ، چنانچہ اما م نخعی کہتے ہیں کہ ’’ان ھذا من السبیل الذی قال اللہ ولیس لک محرم فلا تحجی الا مع بعل او محرم ‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ 385/3)
2۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران خطبہ فرمایا :
’’لا یخلون رجل بامرأۃ الا ومعھا ذو محرم ولا تسافر المرأۃ الا مع ذی محرم فقال رجل یارسول اللہ ان امرأتی خرجت حاجۃ وانی اکتتبت فی غزوۃ کذا فقال انطلق فحج مع امرأتک (صحیح مسلم:1341.صحیح بخاری: 3006) وفی روایۃ انی ارید ان اخرج فی جیش کذا و کذا وامرأتی ترید الحج فقال اخرج معھا‘‘۔(صحیح بخاری :1862)
کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے اِلاّ یہ کہ اس عورت کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ، ایک صاحب نے عرض کیا : اللہ کے رسولؐ! میری بیوی حج کے لیے جارہی ہے اور میں نے فلاں جنگ میں جانے کے لیے نام لکھا لیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کر و اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ میر ی بیوی حج کا ارادہ رکھتی ہے اور میں فلاں لشکر کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم اپنی بیوی کے ساتھ جاؤ۔
اللہ کے رسولﷺ کے اس بیان سے کہ ’’کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ‘‘صحابی نے یہی سمجھا کہ اس میں سفر حج بھی شامل ہے اور آپ ﷺ نے ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ،اگر سفر حج آپ کی مراد نہ ہوتی تو ان کے اس مفہوم کی تردید کر تے ،بجائے اس کے کہ بہ صراحت آپ نے ان کی تائید کی اور فرمایا کہ جاؤ اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کر و ، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے میدان جنگ سے جہاں ایک ایک فرد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ،ان کی غیر حاضری کو گوارا کرلیا لیکن اسے برداشت نہیں کیاکہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر حج کو بھی جائے ، اگر محرم کے بغیر عورت کے لیے سفر جائز ہوتا تو جہاد جیسے اہم کام سے انہیں نہ روکتے ۔(احکام القرآن للجصاص 309/2)
علامہ ابن حزم کہتے ہیں مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر جائز ہے ، کیونکہ نبی ﷺ نے صحابی کی اس پر کوئی گرفت نہیں فرمائی کہ تم نے کیوں اسے محرم کے بغیر سفر پرجانے دیا ، اس کے جواب میں علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ اگر محرم کا ہونا شرط نہ ہوتا تو رسول اکرم ﷺ اسے جہاد سے روک کر اس کے ساتھ جانے کا حکم نہ دیتے ۔(نیل الاوطار288/4)
اور علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اگر عورت کے سفر میں محرم کا ساتھ ہونا ضروری نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ انہیں اپنی اہلیہ کے ساتھ جانے اور ترک جہاد کا حکم نہ دیتے جس میں نام لکھا دینے کی وجہ سے ان کا جانا متعین اور ضروری ہوچکا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے یہ دریافت کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اس کے ساتھ بھروسہ مند عورتیں یا لائق اعتماد مرد ہیں یا نہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سفر سے ممانعت کی حدیثوں سے سفرحج کو خاص کر لیاجائے ، حالانکہ عورتوں کو عام طور پراسی سفرکی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ وہ نہ تو جہاد میں شریک ہوتی ہیں اورنہ ہی عام طور پر تجارت کے لیے سفر کرتی ہیں، وہ تو صرف حج کے لیے سفر کرتی ہیں اور اسی لیے نبی ﷺ نے حج کو ان کے لیے جہاد قرار دیا ہے ۔(شرح العمدہ لابن تیمیہ 77/4)
3۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے منقول ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
’’قال رسول اللہ ﷺ لا تحجن امرأۃ الا ومعھا ذو محرم‘‘۔(سنن دارقطنی 322/2)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت محرم کے بغیر ہرگز سفر حج کے لیے نہ جائے ۔
محدث ابوعوانہ اورحافظ ابن حجرعسقلانی نے حدیث کی سند کوصحیح قر ار دیا ہے(فتح الباری 76/4.الدرایۃ مع الہدایہ 234/1) اور اسی کے ساتھ یہ حدیث اس بات کے لیے بالکل صریح ہے کہ محرم کے بغیر سفر حج میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے ، اس طرح کی ایک روایت حضرت ابوامامہؓ سے بھی منقول ہے جس میں کہاگیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر کے بغیر تین دن کا سفر نہ کر ے اور نہ ہی حج کے لیے جائے ’’لاتسافرالمرأۃ سفر ثلاثۃ ایام اوتحج الا ومعھا زوجھا‘‘مگر حدیث کے ایک راوی جابرجعفی پرسخت جرح کی گئی ہے لیکن علامہ ظفر احمد عثمانی کی رائے ہے کہ متعد د سندوں سے منقول ہونے اور مذکورہ دو صحیح حدیثوں سے تائید ہوجانے کی وجہ سے اس کے ضعف کی تلافی ہوجائے گی۔(اعلاء السنن 13/10)
4۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
’’لاتسافر المرء ۃ ثلاثا الا مع ذی محرم‘‘۔(بخاری:1087مسلم:1338)
کوئی عورت محرم کے بغیر تین دن کا سفر نہ کرے ۔
اس طرح کی روایت حضرت ابوہریرہؓ اورحضرت ابو سعید خدریؓ سے بھی منقول ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے اور یہ احادیث بالکل عام ہیں جس میں ہر طرح کاسفر شامل ہے خواہ سفر حج ہویا کوئی دوسرا سفر ، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں :
’’فھذہ نصوص من النبیﷺ فی سفر المرأۃ بغیر محرم ولم یخصص سفراً من سفر مع ان سفر الحج من اشھرھا واکثرھا‘‘۔(شرح العمدہ 77/4)
عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر کرنے کے معاملے میں نبی ﷺ کے یہ واضح اور صاف ارشادات ہیں، جس میں کسی سفر کی تخصیص نہیں کی گئی ہے حالانکہ سفر حج زیادہ مشہور ہے اور زیادہ پیش آنے والا ہے (یعنی اگر اس کے لیے الگ سے کوئی حکم ہوتو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے ۔)
نیز وہ کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کااس پراتفاق اور اجماع ہے کہ عورت کے لیے سفر جائز نہیں ہے مگراس طرح کہ فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو اور اس کے لیے لوگوں نے طرح طرح کی شرطیں لگائی ہیں جیسے کہ اس کے ساتھ بھروسہ مند عورتیں یا قابل اعتبار مرد ہوں اور اس کے بغیر اس کے لیے سفر کو ممنوع قراردیا ہے لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے جو شرط لگائی ہے (یعنی محرم یا شوہرکا ہونا )وہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس پرعمل کیاجائے اور وہ زیادہ لائق اطمینان ہے ۔(شرح العمدہ 78/4)
دلائل پرایک نظر :
حنفیہ وغیرہ کی طرف سے پیش کر دہ زیادہ تر حدیثوں کے صحیح ہونے پر کوئی کلام نہیں ہے اور معنی و مفہوم کے اعتبار سے وہ دو طرح کی ہیں ، کچھ عام ہیں اور ہر طرح کے سفر سے متعلق ہیں جس میں سفر حج بھی شامل ہے،البتہ ان میں تخصیص کی گنجائش ہے اوربعض احادیث سفر حج کے ساتھ خاص اور بالکل واضح ہیں ۔
اس کے برعکس مالکیہ وغیرہ کی طرف سے پیش کردہ دلائل غیرواضح اور موضوع سے غیر متعلق ہیں ، چنانچہ پہلی حدیث میں عمومی طور پر حج کی بعض شرطوں کا ذکر ہے جس کا تعلق مرد اور عورت دونوں سے ہے اور اس میں عورت کے لئے مخصوص شرط کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کا تذکرہ دوسری حدیثوں میں ہے اور بہت سی صریح احادیث کی وجہ سے عورت کے لیے اس میں ایک شرط کاا ضافہ کر لیا جائے گا جیسا کہ خود مالکیہ وغیر ہ نے عورت کے لیے بعض شرطوں کا لحاظ رکھا ہے اور مرد کی طرح سے مطلقاً اس کو سفر کی اجازت نہیں دی ہے اوراپنی طرف سے شرط عائد کرنے سے بہتر ہے کہ احادیث میں جو شرط لگائی گئی ہے اس کا لحاظ رکھا جائے ۔یا یہ کہ اس میں حج کی شرطوں کا ذکر ہے اور محرم کا تعلق سفر سے ہے جو ہر طرح کے سفر کے لئے شرط ہے ۔
حضرت عدی بن حاتم کی روایت بھی موضوع سے غیر متعلق ہے کیونکہ اس میں محض ایک واقعہ کے ہونے کی خبر دی گئی ہے ، قطع نظر اس سے کہ ایسا کرنا درست ہے یانہیں ، نیز اگر عورت کے لیے تنہا لمبا سفر کر نا جائز ہوتو فریضۂ حج کے علاوہ دوسرے سفروں میں بھی اس کی اجازت ہونی چاہیے جب کہ عورت کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو ، علاوہ ازیں حدیث میں عورت کے تنہا سفر کرنے کا ذکر ہے ، جب کہ مجوزین اس کے لیے عورتوں کی جماعت یاکم سے کم ایک عورت کی رفاقت کی شرط لگاتے ہیں ، علامہ نووی ا س اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’اگر کہا جائے کہ حدیث کا ظاہر بہ اتفاق متروک ہے ، کیونکہ اس میں کہاگیا ہے کہ عورت تنہا سفر کر ے گی اورا س میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورت تنہا سفر حج نہیں کر سکتی ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے اس کے لیے تنہا سفر کو جائز قرار دیا ہے اور امام شافعی کے قول کے مطابق بھی حدیث کا ظاہر متروک نہیں ہے کیونکہ حدیث کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ عورت کے ساتھ کوئی نہ ہو اورساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بالکل قریب ہو اور ہم بالکل قریب ہونے کی شرط نہیں لگاتے بلکہ اگر کوئی عورت قافلہ سے آگے یا اس سے بہت پیچھے ہو جب بھی اس کے لیے سفر جائز ہے ‘‘۔ (المجموع 346/8)
اس جواب میں جو تکلف ہے اسے ہرشخص محسوس کر سکتا ہے اس لیے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، تیسری روایت کے متعلق امام ابوحنیفہ کہتے ہیں :
’’کان الناس لعائشۃ محرما فمع ایھم سافرت فقد سافرت بمحرم‘‘۔(شرح معانی الآثار مع النخب 30/9)
تمام لوگ حضرت عائشہؓ کے لیے محرم تھے تو وہ جس کے ساتھ بھی سفر کریں وہ محرم کے ساتھ سفر کرنا ہوگا ۔
وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کو قرآن حکیم نے تمام مومنوں کی ماں قرار دیا ہے جس کی بنیاد پر کسی کے لیے بھی ان سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے اور محرم کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اس سے نکاح کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہو ۔
اور علامہ ظفر احمد عثمانی کہتے ہیں کہ ازواج مطہرات کو پر دہ کاحکم اس لیے دیا گیا تاکہ کسی کے دل میں ان کے تعلق سے نامناسب وسوسہ پیدا نہ ہو ، نیز اس میں ان کی عظمت و رفعت بھی پیش نظر ہے ۔(اعلاء السنن 14/10)
رہا حضرت عائشہؓ کا فتویٰ کہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفرحج کرسکتی ہے تووہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیںہے کیونکہ اس کے راوی امام زہری نے حضرت عائشہؓ سے کوئی روایت نہیں سنی ہے ۔
اور پانچویں دلیل کے متعلق علامہ ابن ہمام کہتے ہیں کہ مسلم خاتون کا دارالحرب یا غیر مسلم کی قید سے نکل بھاگنا سفر شمار نہیں ہوگا کیونکہ کوئی متعین منزل پیش نظر نہیں ہوتی ہے بلکہ اصل مقصد کافروں کی چنگل سے نجات ہے ، اس لیے اگر اسے وہاں سے نکلنے کے بعد کوئی پناہ گاہ مل جائے جیسے کہ قریب ہی مسلمانوں کی کوئی فوجی چھائونی ہے یا کوئی لشکر خیمہ زن ہے تو اس کے لیے وہاں سے محرم کے بغیر سفر کرنا درست نہ ہوگا اور اگر اسے سفر مان بھی لیاجائے تو یہ ایک مجبوری کا سفر ہے کیونکہ دوران سفر جس فتنہ کا اندیشہ ہے اس سے زیادہ خطرہ دارالحرب میں رکے رہنے میں ہے لہٰذا دو خرابیوں میں سے ہلکے درجے کی خرابی کو گوارا کر لیاجائے گا ۔(فتح القدیر331/2)
اور علامہ ابن قدامہ کہتے ہیں کہ دارالحرب میں قیام کاضرر یقینی ہے اور وہاں سے سفرکا ضرر موہوم ہے ،اس لیے موہوم خطرہ کے مقابلے میں یقینی ضرر کو ترجیح دی جائے گی اور عورت کے لیے وہاں سے سفر کی اجازت ہوگی، اس کے برخلاف حج کاسفر نہ کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے اس لیے اس کی گنجائش نہیں ۔(المغنی 32/5)
اور چھٹی دلیل کے متعلق عرض یہ ہے کہ فتنہ کا اندیشہ محرم کے بغیر سفر کی ممانعت کی مصلحت او ر حکمت تو ہے مگر علت اور بنیاد نہیں اور یہ معلوم ہے کہ حکم کا دارو مدار علت پر ہوا کرتا ہے ، حکمت و مصلحت پر نہیں ، اس لیے فتنہ کا اندیشہ نہ ہونے کی وجہ سے عورت کو تنہا سفر کی اجازت دینا اور فتنہ کا خطرہ ہونے یا نہ ہونے کو عورت کی صواب دید پر چھوڑ دینا درست نہیں ہے کیونکہ ذکر کر دہ احادیث بالکل واضح ہیں اور انہیں سفر حج نفلی اور دوسرے اسفار کے ساتھ خاص کرنا غلط ہے اور کسی مقصد یا حکمت کو بنیاد بناکر انہیں ترک کردینا صحیح نہیں ہے ، علامہ ابن منذر کے الفاظ میں :
’’ترکوا القول بظاہر الحدیث واشترط کل واحد منھم شرطا لا حجۃ معہ علیہ‘‘۔(المغنی 31/5)
حدیث کے ظاہر سے جو معلوم ہو رہا ہے وہ لوگ اس شرط کے قائل نہیں ہیں البتہ ان میں سے ہر ایک ایسی شرط لگارہا ہے جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔
حنفیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی عورت محرم کے بغیر سفر حج کے لیے چلی جائے اور حج مکمل کرلے تو فریضہ حج ادا ہوجائے گا اور اس کے ذمے سے فرض ساقط ہوجائے گا ، گرچہ ایسا کرنے کی وجہ سے وہ سخت گنہ گار ہوگی۔(رد المحتار 465/3.شرح العمدہ 82/4)
جوان اور بوڑھی عورت میں فرق :
عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر کی ممانعت سے متعلق احادیث بالکل عام ہیں اور جوان او ر عمر دراز ہر طرح کی عورتیں اس کے عموم میں شامل ہیں ،اس لیے فقہ حنفی اور حنبلی میں اس بات کی صراحت ہے کہ اس معاملے میں بوڑ ھی یا جوان میں کوئی فرق نہیں ، لہٰذا بوڑھی عورت کے لیے بھی محرم کے بغیر سفر حج میں جانا جائز نہیں (رد المحتار 465/3.کشاف القناع394/2) لیکن امام احمد سے دوسرا قول یہ منقول ہے کہ بہت زیادہ بوڑھی عورت جس کے بارے میں فتنہ کا اندیشہ نہیں ہے اس کے لیے محرم شرط نہیں ہے ، اسی طرح سے فقہ حنفی میں بھی ایک قول یہ ہے کہ بوڑھی عورت جو ناقابل شہوت ہواور اس کے تعلق سے کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو توا س کے لیے محرم کے بغیر سفر جائز ہے (رد المحتار 529/9)اورحضرت تھانویؒ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ’’بہرحال گنجائش ضرور ہے ‘‘۔(امداد الفتاوی 201/4)
شرط وجوب یا شرط ادا:
عورت کے ساتھ سفر حج میں محرم کا ہونا شرط وجوب ہے یا شرط ادا؟ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، امام مالکؒ اور امام شافعی کے نزدیک شرط وجوب ہے اور حنابلہ کے یہاں یہی نقطہ نظر راجح ہے اورامام ابو حنیفہ سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے ، البتہ مالکیہ اور شافعیہ کے نزدیک محرم کی غیر موجودگی میں بھروسہمند عورتوں کی رفاقت اس کے قائم مقام ہوجاتی ہے ۔(الموسوعۃ الفقہیہ 36/17)
امام ابو حنیفہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ محرم کی رفاقت شرط ادا ہے اورعلماء احناف میں سے زیادہ تر لوگوں نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ۔(رد المحتار 465/3.الموسوعہ الفقہیہ 36/17)
شرط وجوب کامطلب یہ ہے کہ حج کی فرضیت اس پر موقوف ہے اوراس کے بغیر عورت پر حج فر ض نہیں ہوگا ، کیونکہ حج فرض ہونے کے لیے استطاعت شرط ہے اور محرم کے بغیر عورت غیرمستطیع سمجھی جائے گی اور شرط ادا کا مفہوم یہ ہے کہ عورت پر حج فرض ہوچکا ہے لیکن اس کی ادائیگی اسی وقت لازم ہوگی جب کہ محرم ساتھ ہو،ایسی صورت میں اس کے لیے ضروری ہوگا کہ محرم کا انتظار کر ے اور جب محرم کے ملنے یا شوہر کے ہونے کی امید ختم ہوجائے تو حج بد ل کے لیے وصیت کر دے کیونکہ زادراہ اور سواری وغیرہ کا نظم ہوجانے کی وجہ سے اس پر حج فرض ہوچکا ہے لیکن وہ اس کی ادائیگی سے معذور ہے ، اس لیے حج بدل کرانا ضروری ہے ۔
٭٭٭