مزاح و تفریح

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

مزاح و تفریح اور ہنسی مذاق انسانی فطرت کا تقاضہ اور انسان کی خصوصیت ہے، دوسرے جاندار اس صفت سے خالی ہیں، بلکہ تھکن اور اکتاہٹ کے مرض کے لئے شفاء اور رنج و غم، پریشانی اور الجھن کو زائل کرنے کا ایک ذریعہ ہے ، جس سے انسان تازہ دم اور اس کے نتیجہ میں کام کرنے کی قوت و صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔لیکن دوسرے فطری جذبات کی طرح سے اس میں بھی اعتدال شرط ہے اور اسے دوا کی حد تک رکھنا ضروری ہے کہ اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہوتا ہے ۔

نبوی مزاح و تفریح کی بعض مثالیں:

1-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ازواج مطہرات سے کہانیاں سنا کرتے تھے اور ان سے مزاح بھی فرمایا کرتے تھے چنانچہ امام بخاری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ام زرع کی کہانی سنی ۔(صحیح بخاری: 5189صحیح مسلم: 2448)
2- آپ ﷺ نے دوران سفر حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا جس میں وہ جیت گئیں ۔ دوسری بار آپ ﷺ نے انہیں ہرا دیا اور (بطور مزاح) فرمایا یہ پہلے دن کا بدلہ ہے.( ابو داؤد:2578،ابن ماجہ:1979،مسند احمد:24118)
3- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بوڑھی خاتون حاضر ہوئیں اور آپ سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ مجھے جنت میں داخل کر دے آپ ﷺ نے فرمایا: جنت میں کوئی بوڑھی عورت داخل نہیں ہوگی ۔ وہ روتے ہوئے واپس جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سے کہو کہ وہ بڑھاپے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں ہوگی۔ کیا تم قران کی یہ آیت نہیں پڑھتی ہو؟
اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ اِنۡشَآءً .فَجَعَلۡنٰہُنَّ اَبۡکَارًا.
یقین جانو، ہم نے ان عورتوں کو نئی اٹھان دی ہے۔ چنانچہ انہیں کنواریاں بنایا ہے۔ ( سورہ الواقعۃ: 35.36)
عن الحسن قال أتتْ عجوزٌ النبيَّ ﷺ فقالت يا رسولَ اللهِ ادعُ لي أن يُدخِلَني اللهُ الجنةَ قال يا أمَّ فلانٍ إنّ الجنةَ لا يدخلُها عجوزٌ فولَّتْ العجوزُ تبكي فقال أخبِروها أنها لا تدخلُها وهي عجوزٌ فإنَّ اللهَ تعالى يقولُ إِنّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْكارًا.
( أخرجه الترمذي في الشمائل :246 والبيهقي في البعث والنشور:346 و الألباني فی السلسلة الصحيحة : 2987 )
4-حضرت انس سے مزاح کرتے ہوئے فرمایا:اے دو کان والے ؟
(عن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم قال له يا ذا الاذنين قال ابو اسامه يعني مازحه ۔الشمائل للترمذی:241.جامع ترمذی 1992.ابوداود 5002)
ہر انسان کے دو کان ہوتے ہیں لیکن اچانک کسی کو کہا جائے کہ اے دو کان والے! تو اسے لگے گا کہ صرف وہی دو کان والا ہے لیکن حقیقت جان کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا (دیکھئے لمعات التنقیح 184/8)
5-حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
ان كان النبي صلى الله عليه وسلم ليخالطنا حتى يقول لاخ لنا صغير يا ابا عمير ما فعل النغير.(صحيح بخاري : 6129)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گھلے ملے رہتے تھے یہاں تک کہ آپ ہمارے چھوٹے بھائی سے کہتے : ابو عمیر! نغیر چڑیا نے کیا کیا؟
امام ترمذی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مذاق کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ابو عمیر! چڑیا کیا ہوئی؟ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس کے پاس ایک چڑیا تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا، کچھ دنوں کے بعد وہ مر گئی وہ بچہ اس سے بہت زیادہ رنجیدہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مذاق میں اسے چھیڑا کرتے تھے۔(الشمائل /191)
6-ایک صحابی نے ایک اونٹ کی درخواست کی ۔آپ ﷺ نے فرمایا: ہم تمہیں اونٹنی کا بچہ دیں گے ۔وہ کہنے لگے کہ (مجھے تو سواری کے لیے جوان اونٹ کی ضرورت ہے)، میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے ۔
انا حاملوك على ولد الناقة فقال يا رسول الله وماذا اصنع بولد الناقة ؟ فقال وهل تلد الابل الا النوق .(ابو داوود :4998.ترمذي:1991. مسند احمد بن حنبل:13817)
7-ایک خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: میرے شوہر آپ کو دعوت دے رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا تمہارے شوہر کون ہیں؟ وہی جن کی آنکھ میں سفیدی ہے ؟وہ کہنے لگی کہ اللہ کی قسم ! میرے شوہر کی آنکھ میں سفیدی نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالکل ہے ۔انہوں نے دوبارہ قسم کھا کر اس سے انکار کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی انسان ایسا نہیں ہے اس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو۔
ان امراة يقال لها ام ايمن جاءت الى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت ان زوجي يدعوك قال ومن هو ؟ أ هو الذي بعينه بياض؟ قالت: والله !ما بعينه بياض .فقال: بلى ان بعينه بياضا .فقالت :لا والله . فقال: ما من احد الا بعينه بياض.(الراوي: زيد بن أسلم • محمد ابن يوسف الصالحي، سبل الهدى والرشاد 114/7 • مرسل. )
8-حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں موجود تھے زوجہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ بھی آگئیں ، میں نے خزیرہ(چربی اور آٹے کا سوپ) تیار کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور حضرت سودا سے بھی تناول کرنے کے لئے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے اچھا نہیں لگتا ہے، میں نے کہا : اللہ کی قسم! آپ کو کھانا پڑے گا ورنہ تو میں اسے آپ کے چہرے پر مل دوں گی. انہوں نے کہا کہ میں اسے چکھوں گی بھی نہیں. میں نے طشتری سے تھوڑا سا خزیرہ لے کر ان کے چہرے پر مل دیا . آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے، حضور ﷺ نے اپنی ران کو تھوڑا سا نیچے کر دیا اور حضرت سودہ سے کہا تم بھی اس کے چہرے پر مل دو۔چنانچہ انہوں نے بھی تھوڑا سا خزیرہ لیا اور میرے چہرے پر مل دیا ،یہ دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے۔
أتيتُ رسولَ اللهِ ﷺ بخَزِيرَةٍ طَبَخْتُها لهُ فقلتُ لسَوْدَةَ والنبيُّ ﷺ بيني وبينَها فقلتُ لها كُلِي فأَبَتْ فقلتُ لتأكلَنَّ أو لأًلَطِخَنَّ وجهَكَ فأَبَتْ فوضعتْ يدي في الخَزِيرَةِ فطليتُ بها وجهَها فضحكَ النبيُّ ﷺ فوضعَ فَخِذَهُ لها وقال لسَوْدَةَ الْطُخِي وجهَها فلَطَخَتْ وجهي فضحكَ النبيُّ ﷺ أيضًا فمرَّ عمرُ فنادى يا عبدَ اللهِ يا عبدَ اللهِ فظنَّ النبيُّ ﷺ أنهُ سيدخلُ فقال لهما قُوما فاغسلا وجوهَكما قالت عائشةُ فما زِلْتُ أهابُ عمرَ لهيبَةِ رسولِ اللهِ ﷺ إياهُ
الراوي: عائشة أم المؤمنين •أخرجه أبو يعلي: (4476 ۔ حسن •مجمع الزوائد414/4.)
9-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے یہاں تشریف فرما تھے ،عید کے موقع پر دو لڑکیاں کچھ گا رہی تھیں ،اتنے میں حضرت ابوبکر کو تشریف لائے اور ان دونوں کو ڈانٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں گانے دو ، یہ عید کے دن ہیں۔
(دعهما يا ابا بكر فانها ايام عيد .صحيح بخاري:949 صحيح مسلم:892)
غرضے کے خوشی کے موقع پر گانا اور کھیلنا کودنا بھی اظہار مسرت کا ایک طریقہ ہے۔
10-عید ہی موقع پر حبشہ کے لوگ کھیل تماشہ کر رہے اور ہتھیاروں کے کرتب دکھا رہے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے کہا کیا وہ کھیل کو دیکھنا چاہتی ہیں ؟چنانچہ آپ ﷺ انھیں دکھانے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے رہے یہاں تک کہ ان کا جی بھر گیا اور وہ وہاں سے ہٹ گئیں ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا دل بہلانے اور بچوں کی دلجوئی کے لیے تفریح کرانا اور تفریح کا مواقع کا فراہم کرنا اخلاق نبوی میں شامل ہے۔
11-حضرت عائشہ نے ایک انصاری بچی کی پرورش کی تھی اور جب انہوں نے ان کی شادی کی تو خاموشی کے ساتھ انہیں رخصت کر دیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے ساتھ کچھ کھیل تماشا بھی ہونا چاہئے تھا کہ انصار کو اس طرح کی چیزیں پسند ہیں۔(ما كان معها لهو فان الانصار يعجبهم اللہو. صحيح بخاري: 5162)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں دلہن کے ساتھ کسی خاتون کو بھیج دیتی؟ جو گاتے ہوئے یہ کہتی کہ ہم تمہارے پاس آئے ہم تمہارے پاس آئے، تم ہمیں زندگی کی دعا دو اور ہم تمہیں زندگی کی دعا دیتے رہیں۔
(هلا بعثتم معها من تغني وتقول اتيناكم اتيناكم فحيونا نحييكم. سن النسائي:5566 سنن ابن ماجه:1900 مسند احمد15209).

صحابہ کرام کے مزاح کی بعض مثالیں:

1-جس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے مزاح کیا کرتے تھے اسی طرح سے صحابہ کرام بھی آپ ﷺ سے مزاح کرلیا کرتے تھے چنانچہ حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،اس وقت آپ ﷺ چمڑے کے ایک چھوٹے سے خیمہ میں تشریف فرما تھے، میں نے سلام کیا، آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:اندر آجاؤ ، میں نے کہا: اللہ کے رسول !کیا پورا جسم اندر لے آؤں ۔آپ نے فرمایا: ہاں .
عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ : أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَسَلَّمْتُ، فَرَدَّ وَقَالَ : ” ادْخُلْ ". فَقُلْتُ : أَكُلِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” كُلُّكَ ". فَدَخَلْتُ.
امام ابو داؤد نے عثمان بن ابو عاتکہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عوف نے یہ جملہ کہ "اپنا پورا جسم داخل کرلوں؟” اس لئے کہا کہ خیمہ چھوٹا تھا۔( ابوداؤد: 5000)
اور محدث عبدالحق دہلوی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے اسی طرح سے وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے۔(لمعات التنقیح 187/8)
2-نیز وہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے مذاق کیا کرتے تھے حضرت قتادہ کہتے ہیں:
سئل ابن عمر هل كان اصحاب رسول الله يضحكون قال نعم والايمان في قلوبهم اعظم من الجبل.
3-مشہور تابعی ابن سیرین سے پوچھا گیا کہ کیا صحابہ کرام آپس میں ہنسی مذاق کیا کرتے تھے ؟انہوں نے جواب دیا وہ بھی عام انسانوں کی طرح سے تھے ،حضرت عبداللہ بن عمر کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ مذاق کیا کرتے تھے اور اشعار گنگناتے تھے۔
هل كانوا يتمازحون فقال ما كانوا الا كالناس كان ابن عمر يمزح وينشد الشعر. (حلية الاولياء275/2)
4-كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَادَحُونَ بِالْبِطِّيخِ، فَإِذَا كَانَتِ الْحَقَائِقُ كَانُوا هُمُ الرِّجَالَ».
’’صحابہ کرام بطور مزاح ایک دوسرے کی طرف تربوزے پھینکتے تھے لیکن جب حقائق (مثلاً غیرت و دفاع) کا معاملہ ہوتا تو وہ حقیقی مرد ہوتے۔‘‘ (الأدب المفرد للبخاري : 266)
4-اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
”دلوں کی راحت اور تفریح کا خیال رکھا کرو، اور ان کے لیے دانش و حکمت پر مبنی لطائف و ظرائف تلاش کرو، کیونکہ دل بھی اسی طرح یک رنگی سے اکتا جاتا ہے جیسے بدن اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
(روحوا عن القلوب وابتغوا لها طرائف الحكمه فانها تمل كما تمل الابدان. حلية الاولياء۔ ابو نعيم299/3.)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:
”اپنے دلوں کی تفریح کا بھی اہتمام کرو، کیونکہ دل کو اگر کسی کام پر مجبور کیا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔” ( بھجۃ المجالس لابن عبد البر /115)
اور حضرت ابو درداء کہتے ہیں:
میں کبھی ہنسی مذاق کے ذریعے نفس کو آرام دیتا ہوں تاکہ حق کی ادائیگی کے لئے پہلے سے زیادہ طاقتور ہوجائے ۔
اني لاستجم نفسي بالشيء من الباطل ليكون اقوى لها على الحق. (سير اعلام النبلاء421/5۔باطل سے مراد ہنسی مذاق اور کھیل تماشا ہے ۔چنانچہ ایک عرب شاعر کہتا ہے : اذا جد عند الجد ارضاك جده.
وذو باطل ان شئت الهاك باطله.چنانچہ حلیۃ الاولیاء میں من الباطل کی جگہ من اللھو ہے 109/1)

مزاح سے ممانعت کی روایات:

اس کے بر خلاف بعض روایات میں ہنسنے ہنسانے اور مذاق کرنے کی ممانعت آئی ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
لا تمار اخاك ولا تمازحه.
اپنے بھائی سے نہ بحث و مباحثہ کرو اور نہ مذاق ۔(ترمذی :1995)
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
…لا تكثر من الضحك فان كثرة الضحك تميت القلب.
بہت زیادہ مت ہنسا کرو ۔کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کردیتی ہے ۔ (ترمذي: 2305)
اس طرح کی احادیث کے بارے میں شارحین نے کہا ہے کہ:
ان المنهي عنه ما فيه افراط او مداومة عليه لما فيه من الشغل عن ذكر الله والتفكر في مهمات الدين ويئول كثيرا الى قسوة القلب والايذاء والحقد وسقوط المهابات والوقار والذي يسلم من ذلك فهو مباح.( فتح الباري 614/10).
ممانعت اس مزاح کی ہے جس میں افراط اور مداومت ہو اس لیے کہ اس طرح کی مشغولیت انسان کو اللہ کے ذکر سے اور دین کے اہم کاموں میں غور و فکر سے غافل کر دیتی ہے اور عام طور پر اس کا نتیجہ دل کی سختی ،کینہ،ایذا رسانی اور ہیبت وقار کے خاتمے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
یعنی اعتدال پر رہتے ہوئے ہنسی مذاق کی گنجائش ہے اور ظاہر ہے کہ جب کوئی چیز اعتدال سے خارج ہو جاتی ہے تو وہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
مزاح کے جواز کی شرطیں:
1-ہنسی مذاق میں بھی جھوٹی بات نہ کہی جائے ۔
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا:
انك تداعبنا قال اني لا اقول الا حقا.
آپ ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا :اس میں بھی صرف حق بات ہی کہتا ہوں۔ (ترمذي:1990 مسند احمد8723 )
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ويل للذي يحدث فيكذب ليضحك القوم ويل له ويل له.( ابو داوود باب في التشديد في الكذب 4338).
اس شخص کے لئے ہلاکت ہے تو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ۔اس کے لئے ہلاکت ہے ، اس کے لئے ہلاکت ہے
اور حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُهُ "(ابوداؤد: 4800)
میں جنت کے اطراف میں محل کا ضامن ہوں ایسے شخص کے لیے جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کردے۔ اور میں جنت کے درمیان میں محل کا ضامن ہوں ایسے شخص کے لیے جو مزاح کرتے ہوئے بھی جھوٹ نہ بولے۔ اور میں جنت کے بالائی حصے میں محل کا ضامن ہوں ایسے شخص کے لیے جو اپنا اخلاق اچھا بنا لے
2-ہنسی مذاق میں کسی کی تحقیر ،اہانت اور غیبت نہ کی جائے اور نہ کسی کے عیب کو مذاق کا موضوع بنایا جائے. چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ.
اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔ (سورہ الحجرات : 11)
اور حدیث میں ہے :
بحسب امرء من الشر ان يحقر اخاه المسلم۔
کسی انسان کے برا ہونے کے لیے یہ کافی ہے اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔(صحيح مسلم 1986).
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں:
ْ : قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : حَسْبُكَ مِنْ صَفِيَّةَ كَذَا وَكَذَا. قَالَ غَيْرُ مُسَدَّدٍ : تَعْنِي قَصِيرَةً. فَقَالَ : ” لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ ". قَالَتْ : وَحَكَيْتُ لَهُ إِنْسَانًا، فَقَالَ : ” مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ إِنْسَانًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا ".( ابوداؤد 4875ترمذی 2502)
نبی کریم ﷺ سے میں نے کہا کہ صفیہ کے عیب کے لئے اس کا پستہ قد ہونا ہی کافی ہے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہہ دی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں بھی ملا دیا جائے تو اسے بھی گندا کردے ۔
اور میں نے ایک مرتبہ کسی کی نقل اتار کر دکھائی تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ دولت کی بڑی سے بڑی مقدار کے بدلے بھی کسی کی نقل اتاروں ۔
3-ہنسی مذاق دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث
نہ ہو اور نہ اس کے ذریعے کسی کو ڈر اور خوف میں مبتلا کیا جائے۔اور نہ کسی کی دل آزاری کی جائے کہ درحقیقت مزاح نام ہی اس کا جس میں کسی کو پریشان نہ کیا جائے :
ثم المزاح انبساط مع الغیر من غیر ایذاءٍ فان بلغ الایذاء یکون سخریة.
پھر مزاح کسی کے ساتھ بغیر ایذاء پہنچائے خوش طبعی کرنا ہے اگر یہ ایذاء کی حد کو پہنچ جائے تو وہ مذاق اڑانا اور ٹھٹھا کرنا ہے(مرقات 617/8)
دل لگی اگر دل شکنی اور ایذا رسانی کا ذریعہ بن جائے تو وہ ناجائز ہے ۔فرمان باری ہے :
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَیۡرِ مَا اکۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا ۔
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، انہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے(سورہ الاحزاب: 58)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ْ ” الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ (صحیح بخاری: 10)
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالی کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔
اور عبدالرحمن ابن ابی لیلی کہتے ہیں کہ:
حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَهُ فَأَخَذَهُ، فَفَزِعَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا ". (ابوداؤد: 5004)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ہم سے بیان کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے کہ ان میں سے ایک آدمی سو گیا، ایک صاحب اس کے پاس گئے اور اس کی رسی اٹھا لی وہ آدمی گھبرا گیا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈر اور خوف میں مبتلا کرے.
اور ایک دوسری حدیث میں ہے :
لَا يَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا – وَقَالَ سُلَيْمَانُ : لَعِبًا وَلَا جِدًّا – وَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا ". (ابوداؤد:5003 ترمذي: 2160)
تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا سامان (بے اجازت )ہرگز نہ لے، نہ مذاق میں اور نہ سچ مچ.
4-اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام ،فرشتوں ،اسلامی شعائر ،اور مقدس مقامات و شخصیات کو مذاق کا موضوع نہ بنایا جائے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَ نَلۡعَبُ ؕ قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ۔(سورہ التوبہ :65)
اور اگر تم ان سے پوچھو تو یہ یقینا یوں کہیں گے کہ : ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہو کہ : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کر رہے تھے ؟
5-ہنسی مذاق میں اعتدال کو باقی رکھا جائے اس میں افراط و تفریط اور مداومت نہ ہو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا تكثر من الضحك فان كثره الضحك تميت القلب.
بہت زیادہ مت ہنسا کرو کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے(ترمذي2305)
حضرت سعید بن عاص نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:
إقتصد في مزاحك فالافراط فيه يذهب البهاء ويجرئ عليك السفهاء وتركه يقبض الموانسين ويوحش المخالطين.(فيض القدير 13/3)
مذاق میں میانہ روی اختیار کرو کیونکہ اس میں افراط کی وجہ سے چہرے کی رونق اور وقار ختم ہو جاتا ہے اور جاہل لوگ تم پر جری ہو جائیں گے۔اور مزاح کو بالکل ترک کر دینے کی وجہ سے تم سے انسیت رکھنے والے لوگ انقباض محسوس کریں گے اور تمہارے دوست اور احباب وحشت میں مبتلا ہو جائیں گے۔
علامہ نووی لکھتے ہیں:
اس مزاح کی ممانعت ہے جو حد سے زیادہ ہو اور ہمیشہ کیا جائے،جو ہنسنے کا سبب بنتا ہے اور اس کی وجہ سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور اللہ کے ذکر اور دین کی اہم چیزوں میں غور وفکر سے غافل کردیتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات ایذا رسانی اور کینہ کپٹ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور ہیبت و وقار ختم ہوجاتا ہے اور اگر کوئی ان چیزوں سے محفوظ رہے تو پھر مزاح جائز ہے جسے رسول اللہ ﷺ کبھی کبھار کیا کرتے تھے تاکہ مخاطب کو خوش اور مانوس کیا جاسکے اور یہ مستحب طریقہ ہے ۔(المرقاة617/8)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:
فان صادف مصلحة مثل تطييب نفس المخاطب وموانسته فهو مستحب۔
اگر مزاح کا مقصد مخاطب کو خوش اور مانوس کرنے جیسی مصلحت ہو تو وہ مستحب ہے ۔(فتح الباري 614/10)
لہذا مزاح کے لئے باضابطہ پروگرام منعقد کرنا یا اس کے لئے مجلس لگانا یا بار بار اس طرح کا پروگرام کرنا یا ایسے وقت میں محفل جمانا کہ اس کی وجہ سے نماز اور دوسرے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل ہوجائے جائز نہیں ہے۔
6-کھیل کود اور تفریح میں کسی جاندار کو تختۂ مشق نہ بنایا جائے ۔حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن من اتخذ شيئا فيه الروح غرضا (صحيح بخاري 5515)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے جو جاندار چیز کو تختہ مشق بنائے۔
7-ہنسی مذاق میں بھی حیا کے تقاضوں کا لحاظ رکھا جائے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الحیاء شعبۃ من الایمان ۔
حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۔
لہذا مذاق میں بھی بےحیائی اور بے شرمی کی بات کہنا جائز نہیں ہے ۔
8-اور یہ بات محتاج بیان نہیں کہ مذاق میں موقع اور محل کی رعایت ضروری ہے ۔لہذا نماز اور قبر کی زیارت کے وقت،میت کے پاس ۔قرآن کی تلاوت کے وقت ہنسی مذاق درست نہیں ہے ۔مشرکوں کا طریقہ تھا کہ وہ قرآن کی تلاوت کے وقت ہنسی مذاق کرنے لگتے تھے ،قرآن حکیم میں ان کی یہ قبیح حرکت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
اَفَمِنۡ ہٰذَا الۡحَدِیۡثِ تَعۡجَبُوۡنَ ۔وَ تَضۡحَکُوۡنَ وَ لَا تَبۡکُوۡنَ و اَنۡتُمۡ سٰمِدُوۡنَ ۔
تو کیا تم اسی بات پر حیرت کرتے ہو ؟اور (اس کا مذاق بنا کر) ہنستے ہو، اور روتے نہیں ہو۔جبکہ تم تکبر کے ساتھ کھیل کود میں پڑے ہوئے ہو۔(سورہ النجم :59-61)
غرضیکہ جس طرح سے دوسرے کاموں کے لئے موقع و محل کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح سے ہنسی مذاق میں بھی اس کی رعایت ضروری ہے ،سنجیدگی کے موقع پر مذاق بیوقوفی اور غم کے موقع پر ہنسنا سنگدلی ہے ۔

مزاحیہ پروگرام اور مشاعرے:

اچھے اور معیاری اشعار کے پڑھنے اور سننے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔خصوصا فرحت و مسرت کے مواقع پر اس کی اجازت ہے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے :
أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا يَوْمَ فِطْرٍ، أَوْ أَضْحًى، وَعِنْدَهَا قَيْنَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَعَازَفَتِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثٍ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ. مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ ؛ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وَإِنَّ عِيدَنَا هَذَا الْيَوْمُ ".(صحیح بخاري:3931)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں عید فطر یا عید قرباں کے موقع پر حضرت ابوبکر ان کے پاس آئے ،اس وقت دو بچیاں جنگ بعاث کے موقع پر ‌کہے گئے اشعار کو گا رہی تھی حضرت ابوبکر نے فرمایا :شیطان کی بانسری. یہ جملہ انہوں نے دو مرتبہ کہا. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! ان دونوں کو چھوڑ دو. ہر قوم کے لیے ایک عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارے عید کا دن ہے.
اور حضرت شرید کہتے ہیں:
: رَدِفْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ : ” هَلْ مَعَكَ مِنْ شِعْرِ أُمَيَّةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ شَيْءٌ ؟ ". قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ : ” هِيهِ ". فَأَنْشَدْتُهُ بَيْتًا، فَقَالَ : ” هِيهِ ". ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ بَيْتًا، فَقَالَ : ” هِيهِ ". حَتَّى أَنْشَدْتُهُ مِائَةَ بَيْتٍ. (صحیح مسلم:2255)
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر بیٹھا ہوا تھا آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس امیہ بن ابو صلت کہ اشعار میں سے کچھ ہے؟عرض کیا:ہاں ۔فرمایا:پڑھو۔ میں نے ایک شعر پڑھا۔ آپ نے فرمایا :اور پڑھو ۔پھر ایک شعر پڑھا۔ فرمایا :اور پڑھو. یہاں تک کہ میں نے سو اشعار پڑھے۔
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ففيه جواز إنشاد الشعر الذي لا فحش فيه وسماعه ، سواء شعر الجاهلية وغيرهم ، وأن المذموم من الشعر الذي لا فحش فيه إنما هو الإكثار منه ، وكونه غالبا على الإنسان ، فأما يسيره فلا بأس بإنشاده وسماعه وحفظه .
(‏المنہاج حدیث: 2255)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اشعار کو پڑھنا اور سننا جائز ہے جس میں فحش باتیں نہ ہوں اگرچہ وہ زمانہ جاہلیت کے اشعار ہوں اور جن اشعار میں فحش باتیں نہ ہوں ان کو بھی بہت زیادہ پڑھنا اور انسان پہ غالب آ جانا ممنوع ہے رہے چند اشعار تو اس کے پڑھنے سننے اور یاد رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔چنانچہ یہ حدیث اسی صورت پر محمول ہے :
ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا "(صحیح بخاري:5154)
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں کو پیپ سے بھر لے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اسے اشعار سے بھرے۔
مشہور ماہر لغت ابو عبيد اس حدیث کی تشریح میں کہتے ہیں:
، ولكن وجهه عندي أن يمتلئ قلبه من الشعر حتى يغلب عليه فيشغله عن القرآن وعن ذكر الله فيكون الغالب عليه، فأما إذا كان القرآن والعلم الغالبين عليه فليس جوفه ممتلئا من الشعر. (فتح الباري حدیث 5154)
لیکن میرے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ اپنے دل کو اشعار سے بھر لے یہاں تک کہ وہ اس پر غالب ہو جائے اور اسے قرآن اور اللہ کے ذکر سے روک دے یعنی اشعار اس پر غالب آجائیں لیکن اگر قرآن اور علم اس پر غالب ہو تو پھر اس کا پیٹ اشعار سے بھرا ہوا نہیں ہے۔
اور حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں:
جَالَسْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ مَرَّةٍ، فَكَانَ أَصْحَابُهُ يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ، وَيَتَذَاكَرُونَ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَهُوَ سَاكِتٌ، فَرُبَّمَا يَتَبَسَّمُ مَعَهُمْ. ترمذي 2850.
مجھے سو سے زیادہ مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا ہے تو صحابہ کرام اشعار پڑھتے اور جاہلیت کی چیزوں کا تذکرہ کرتے، اللہ کے رسول خاموش ہوتے اور بسا اوقات ان کے ساتھ مسکرا دیتے۔
حاصل یہ ہے کہ مذاق میں انہماک ، اور مبالغہ جائز نہیں ہے ۔اسے محض وقتی اور کچھ دیر کیلئے ہونا چاہئے نہ کہ اسے پیشہ بنا لیا جائے اور ایک طویل وقت تک اس میں مشغول رہا جائے۔ ایک مسلمان سے اصلا سنجیدگی مطلوب ہے ، ہنسی مذاق کی گنجائش محض وقتی ہے کہ کبھی کبھار موقع اور محل کی رعایت کرتے ہوئے مزاحیہ گفتگو اور تفریحی اشعار کہہ لئے جائیں۔مسقل طور پر اس کام کو انجام دینا دل کو مردہ کردیتا ہے ۔
لہذا ہنسنے ہنسانے کے لئے کئی گھنٹوں پر مشتمل باضابطہ پروگرام منعقد کرنا درست نہیں ہے کہ یہ بے فائدہ قصے اور کہانیوں میں شامل ہے جسے قرآن میں "لہو الحدیث” کہا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ .
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بےسمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔( سورہ لقمٰن : 6)
تفسیر:
نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پرواہ کرے، ناجائز ہے کھیل کود اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
‏نیز حدیث میں کثرت سے ہنسنے کو منع کیا گیا ہے کہ اس سے دل میں سختی اور غفلت پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کی محفلوں کا مقصد ہی ہنسی مذاق ہوتا ہے ۔لہذا ہنسی مذاق کے لئے بالقصد محفل سجانا جائز نہیں ہے ۔

مزاحیہ کہانی لکھنا اور پڑھنا:

تفریح طبع اور دل لگی اور عبرت و نصیحت کے لئے مزاحیہ کہانی اور لطیفہ کے لکھنے اور پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس کے ذریعے بے حیائی کی ترغیب نہ دی گئی ہو اور نہ بیہودہ قسم کے چٹکلوں پر مشتمل ہو اور نہ اس کے ذریعے کسی کی دل آزاری کی جائے . لہذا فحش یا عشقیہ ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے کہانیاں پڑھنا اور سننا ناجائز ہے اور "لہو الحدیث” میں شامل ہے۔چنانچہ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تحدثوا عن بني اسرائيل فانه كانت فيهم اعاجيب. (مصنف ابن ابي شيبه 27017)
بنی اسرائیل کی باتیں بیان کیا کرو کیونکہ ان میں عجیب وغریب واقعات ہوئے ہیں ۔
لہذا ایسے واقعات جن کے جھوٹ یا سچ ہونے کا یقین نہیں ہے بلکہ دونوں کا امکان ہے انھیں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ایسے ہی جن چیزوں کے بارے میں معلوم ہے کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے محض خیالی اور تصوراتی چیزیں ہیں ان کو بھی تفریح طبع اور تعلیم وتربیت کے لئے لکھنے اور بیان کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جیسے کہ بعض افسانوی واقعات پر مشتمل کتابیں دینی مدارس کے نصاب میں داخل ہیں جسے کہ مقامات بدیع اور مقامات حریری اور کلیلہ دمنہ۔ چنانچہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں:
و حديث حدثوا عن بني اسرائيل يفيد حل سماع الاعاجيب والغرائب من كل ما لا يتيقن كذبه. بقصد الفرجة لا لحجة بل وما يتيقن كذبه لكن بقصد ضرب الامثال والمواعيد والتعليم نحو الشجاعة على السنة الادميين او حيوانات.( الدر المختار 667/9)
حدیث میں ہے کہ بنی اسرائیل کے واقعات کو بیان کرو ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تفریح طبع کے لئے نہ کہ بطور دلیل ایسی عجیب و غریب باتوں کا سننا جائز ہے جن کا جھوٹ ہونا یقینی نہ ہو بلکہ جس چیز کا جھوٹ ہونا یقینی ہو اسے بھی سنا جا سکتا ہے لیکن بطور مثال اور تعلیم و تربیت کے نقطۂ نظر سے جیسے کہ بہادری کی تعلیم انسان یا دوسرے حیوانات کے فرضی کردار کی شکل میں دی جائے ۔
اور اس کے ذیل میں علامہ شامی لکھتے ہیں:
وذلك كمقامات الحريري فان الظاهر ان الحكايات التي فيها عن الحارث بن همام والسروجي لا اصل لها وانما أتى بها على هذا السياق العجيب لما لا يخفى على من يطالعها.
(رد المحتار 668/9)
البتہ اسے پیشہ اور کمائی کا ذریعہ بنا لینا یا حد درجہ انہماک جائز نہیں ہے ۔امام غزالی کہتے ہیں:
لہذا مناسب ہے کہ اسی طرح کا مزاح کیا جائے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے جس میں صرف حق بات کہی جائے اور کسی کے دل کو ٹھیس نہ لگے اور نہ حد سے تجاوز کیا جائے ،لہذا ان باتوں کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھار مذاق کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہوگی کہ کوئی انسان مزاح کو پیشہ بنا لے اور اسے پابندی سے کرے اور حد سے تجاوز کر جائے اور رسول اللہ ﷺ کے عمل کو بطور دلیل پیش کرے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی حبشیوں کے ناچ کو دیکھنے کی لئے ان کے ساتھ لگا رہے اور دلیل میں کہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کو حبشیوں کا کھیل دیکھنے کی اجازت دی تھی۔
وَحِينَئِذٍ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ مِنْ قَبِيلِ مُزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَلَا يَكُونُ إِلَّا حَقًّا وَلَا يُؤْذِي قَلْبًا وَلَا يُفَرِّطُ فِيهِ، فَإِنْ كُنْتَ أَيُّهَا السَّامِعُ تَقْتَصِرُ عَلَيْهِ أَحْيَانًا وَعَلَى النُّدُورِ، فَلَا حَرَجَ عَلَيْكَ، وَلَكِنْ مِنَ الْغَلَطِ الْعَظِيمِ أَنْ يَتَّخِذَ الْإِنْسَانُ الْمُزَاحَ حِرْفَةً، وَيُوَاظِبَ عَلَيْهِ، وَيُفَرِّطَ فِيهِ، ثُمَّ يَتَمَسَّكَ لِفِعْلِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَهُوَ كَمَنْ يَدُورُ مَعَ الزُّنُوجِ أَبَدًا لِيَنْظُرَ إِلَى رَقْصِهِمْ، وَيَتَمَسَّكَ بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِعَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا – فِي النَّظَرِ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَلْعَبُونَ .(مرقاة 3037/7)
——–
مزاحیہ ڈرامے:

ڈرامے یا تمثیلی مکالمات میں کچھ لوگ فرضی طور پر کسی کی شکل بنا کر آپس میں گفتگو کرتے ہیں اور ان کے کردار کو ادا کرتے ہیں ۔
تفریح طبع کے لئے اس طرح کا تمثیلی مزاح جائز ہے بشرطیکہ اس کے ذریعے کسی متعین شخص کا مذاق نہ اڑایا جائے اور نہ کسی ناجائز اور غیر اخلاقی واقعہ کو پیش کیا جائے اور مرد و عورت کے اختلاط سے پاک ہو، مفتی محمد تقی صاحب عثمانی لکھتے ہیں:
ترويح القلب وتفريجه وكذا تمرين البدن من الارتفاقات المباحة والمصالح البشرية التي لا تمنعها الشريعة السمحة براسها نعم تمنع الغلو والانهماك بحيث يضر المعاش والمعاد ۔
"دل کو راحت اور فرحت پہنچانا، اسی طرح ورزش کرنا، یہ سب جائز فائدے اور انسانی مصالح میں سے ہیں جنہیں آسان شریعت ایک سرے سے خارج نہیں کرتی۔ ہاں! شریعت اس میں غلو اور اس درجہ انہماک سے روکتی ہے جس سے دنیا اور آخرت دونوں کو نقصان پہنچے۔” (تکملہ فتح الملہم 4/434)
اور فقیہ ملت حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی لکھتے ہیں:
تفریح کے لیے ان امور کی رعایت کے ساتھ مزاحیہ ڈرامہ جائز ہے اور اگر اس کا مقصد کسی اچھے کام کی ترغیب یا کسی برائی سے روکنا تو یہ ایک مستحسن اور بہتر عمل ہے کیونکہ یہ نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنے کی ایک صورت ہے۔
چنانچہ فقہ اکیڈمی انڈیا نے اپنے بیسویں فقہی سیمینار میں درج ذیل فیصلہ کیا ہے:
اچھے کاموں کی ترغیب اور معاشرہ کے مفاسد پر تنقید کے لیے تمثیلی مکالمات اسٹیج کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ان میں موسیقی، کردار کشی، مرد و زن کا اختلاط یا انبیاء، ملائکہ اور صحابہ کی تمثیل نہ ہو نیز غیر شرعی اور غیر اخلاقی امور سے پاک ہوں۔(جدید فقہی مسائل 219/2)

نغمہ و موسیقی:

فرحت و سرور اور اثر پذیری کا ایک مؤثر ذریعہ شعر و شاعری بھی ہے جس میں کسی بات کو مرتب انداز میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ سننے والے کے دل پر نقش ہوجاتا ہے ۔
اس کے ذریعے حکمت و موعظت کی باتیں بھی بیان کی جاسکتی ہیں اور آخرت کی یاد بھی دلائی جاسکتی ہے اور اسلام کا دفاع بھی کیا جاسکتا ہے ۔چنانچہ حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً ".
بعض اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں ۔
(صحيح بخاري: 6145)
اس حدیث کی شرح میں علامہ سندھی لکھتے ہیں:
مراد یہ ہے کہ اشعار نہ تو خود اچھے ہوتے ہیں اور نہ برے بلکہ مدار معانی پر ہے نہ کہ کلام کے نثر یا نظم ہونے پر ؛ کیونکہ یہ دونوں معنی کی ادائیگی اور اس تک پہنچنے کی کیفیت کا نام ہیں ،لہذا اگر معنی اچھا اور حکمت پر مبنی ہے تو وہ شعر اچھا ہے اور اگر برا ہے تو وہ شعر برا ہے ،اور شرعا اشعار کی مذمت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس میں عام طور پر ایسے شخص کی تعریف کی جاتی ہے جو اس کا مستحق نہیں ہے اور اسی لئے جب اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا:
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ۔
رہے شاعر لوگ، تو ان کے پیچھے تو بےراہ لوگ چلتے ہیں۔(سورہ الشعراء: 224)
تو اس کے بعد ان الفاظ میں شاعروں کی تعریف فرمائی:
اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّ انۡتَصَرُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا ؕ وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ۔
ہاں مگر وہ لوگ مستثنی ہیں جو ایمان لائے، اور انہوں نے نیک عمل کیے، اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا، اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد اس کا بدلہ لیا۔ اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ وہ کس انجام کی طرف پلٹ رہے ہیں۔(1)( سورہ الشعراء: 227)
مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یہ استثناء ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ اگر شاعری میں یہ خرابیاں نہ ہوں اور ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شاعری کرے اور اپنے شاعرانہ تخیلات کو دین و مذہب کے خلاف استعمال نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ظلم کا بدلہ لینے کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں شاعری پروپیگنڈے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھی جاتی تھی، کوئی شاعر کسی کے خلاف کوئی شاندار ہجویہ قصیدہ کہہ دیتا تو وہ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتا تھا، چنانچہ بعض بد نہاد کافروں نے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی اس قسم کے اشعار کہہ کر مشہور کردئے تھے، بعض صحابہ مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے اس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں نعتیہ قصیدے کہے اور ان میں کفار کے اعتراضات کا جواب دیا ؛ بلکہ ان کی اپنی حقیقت واضح فرمائی، اس آیت میں ان حضرات کی شاعری کی تائید کی گئی ہے۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی رقم طراز ہیں:
آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ بعض اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سچے اور حق کے مطابق ہوتے ہیں ۔اور کہا گیا ہے کہ حکمت کے اصل معنی روکنے کے ہیں اس کے اعتبار سے مطلب یہ ہوگا کہ بعض اشعار میں مفید باتیں ہوتی ہیں جو حماقت سے روک دیتی ہیں ۔۔۔اور ابن ابی شیبہ نے حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام اپنے اوپر ہمیشہ سنجیدگی طاری نہیں کئے رہتے تھے اور نہ ہمیشہ موت کی فکر میں رہتے بلکہ وہ اپنی مجلسوں میں اشعار گنگناتے ،زمانہ جاہلیت کے تذکرے کرتے لیکن جب دین کا معاملہ آجاتا تو ان کی آنکھوں کے پپوٹے گردش کرنے لگتے ۔اور امام احمد اور ترمذی وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام اشعار اور جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کیا کرتے ۔رسول اللہ ﷺ اس سے منع نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات ان کی باتیں سن کر مسکرا دیتے ( 2)
اور آپ ﷺ کی موجودگی میں حضرت حسان بن ثابت مسجد نبوی میں آپ کے دفاع میں اشعار پڑھا کرتے تھے چنانچہ حضرت سعید بن مسیب نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر مسجد نبوی سے گزرے اور حضرت حسان اشعار پڑھ رہے تھے (حضرت عمر نے انھیں گھور کر دیکھا)تو انھوں نے کہا: میں یہاں آپ سے بہتر ہستی کی (آنحضرت ﷺ)موجودگی اشعار پڑھا کرتا تھا پھر وہ حضرت ابو ہریرہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: آپ کو میں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے میری طرف سے جواب دو اے اللہ! روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما ؟۔حضرت ابو ہریرہ نے کہا :ہاں سنا ہے ۔
(عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ : مَرَّ عُمَرُ فِي الْمَسْجِدِ وَحَسَّانُ يُنْشِدُ، فَقَالَ : كُنْتُ أُنْشِدُ فِيهِ، وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ. ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ : أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” أَجِبْ عَنِّي، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ” قَالَ : نَعَمْ.(بخاري:3212مسلم :2485)
اور حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اهْجُوا قُرَيْشًا ؛ فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ۔
قريش کے ہجو کا جواب دو کیونکہ کہ یہ جواب ان کے لئے تیر کی بوچھار سے زیادہ سخت ہے( مسلم: 2490)
اس لئے اچھے اشعار کو سادہ انداز میں یا نغمگی و ترنم کے ساتھ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ موسیقی کے آلات نہ ہوں۔
اچھے اور جائز اشعار کا مطلب یہ ہے کہ اس میں فحاشی ،کسی مسلمان کی برائی اور ہجو نہ ہو ۔اللہ اور اس کے رسول یا صحابہ کرام کی طرف غلط اور ،جھوٹ بات کی نسبت نہ کی گئی ہو ۔نہ اپنی ذات کا تزکیہ کیا گیا ہو یعنی خود کو پاکباز ظاہر نہ کیا گیا ہو۔جھوٹ اور مذموم فخر و مباہات سے خالی ہو ۔کسی کے نسب پر طعن نہ کیا گیا ہو اور نہ کسی متعین اور زندہ عورت اور امرد کے اوصاف بیان کئے گئے ہوں اس لئے کہ ان کے اوصاف کو لوگوں کے سامنے یا تنہائی میں بیان کرنا درست نہیں ہے ،ایسے ہی شراب و کباب کی خوبی بیان کرنا جس سے دل اس کی طرف راغب ہو جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا ہجو کرنا درست ہے گرچہ وہ "ذمی” ( مسلم مملکت کا غیر مسلم شہری ) ہو۔ (دیکھئے رد المحتار 576/9)
حاصل یہ ہے کہ وہ گانا یا نغمہ جو کفر و شرک ، بے حیائی ، فحاشی، بے ہودہ گوئی ، فسق وفجور اور گناہ کی باتوں اور شراب و شباب کے دلفریب اور ہیجان انگیز تذکرے پر مشتمل ہو اس کا گانا اور سننا حرام ہے ۔
اور کبھی اشعار تو اچھے ہوتے ہیں لیکن اس کے گانے کا انداز ہیجان انگیز ہوتا ہے مثلاً ہاتھ یا کمر کو شہوت انگیز انداز میں حرکت دینا ۔ظاہر ہے اس کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔
موجودہ دور میں عام طور پر جو گانے رائج ہیں ان میں شاذ و نادر ہی مذکورہ شرطوں کی رعایت ہو اور ان کے بنانے اور پڑھنے والے اسلامی زندگی سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔ ان میں شراب و شباب کا دلفریب انداز میں تذکرہ ہوتا ہے ۔ عشقیہ گیت اور ہیجان انگیز نظم ہوتے ہیں جن سے نفسانی خواہشات ابھرتی ہے اور گناہ کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اس لیے ان کا گانا اور سننا نہ عورتوں کے لیے جائز ہے اور نہ مردوں کے لیے، نہ مجلس میں اور نہ تنہائی میں.
غرضیکہ اچھے اشعار کو ترنم کے ساتھ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر اس کے ذریعے اسلام کی تبلیغ یا دفاع مقصود ہو تو باعث اجر ثواب ہے ۔لیکن اگر اس کے ساتھ موسیقی کے آلات ہوں تو اس کا پڑھنا اور سننا حرام ہے اور اگر برے اشعار کے ساتھ موسیقی بھی ہو تو اس کی قباحت دوچند ہوجائے گی ۔
واقعہ یہ ہے کہ ذہن و دماغ کو ماؤف کرنے، حقیقت سے آنکھ بند کر لینے، ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے، فحاشی پر ابھارنے ، بے حیائی کی طرف مائل کرنے اور سفلی جذبات کو برانگیختہ کرنے میں گانا اور موسیقی شراب کی طرح ہے، دونوں کی لت میں پڑ کر انسان، دین و ایمان اور تہذیب و اخلاق سے عاری اور لذت چشی و عیاشی کا عادی ہو جاتا ہے، اگر شراب ام الخبائث تو گانا اور موسیقی "ام الفواحش” ہے، اس لیے جس نے بھی کہا ہے سچ کہا ہے کہ گانا بد کاری کا منتر ہے۔ ( قال فضيل ابن عياض الغناء رقية الزنا۔ اغاثة اللہفان/ 315 ) اور یہی وجہ ہے کہ گانے کی شناعت کو زنا اور شراب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو مالک اشعری سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
*ليكونن من امتى يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف ۔
میری امت کے کچھ لوگ زنا ، ریشم ، شراب اور موسیقی کو حلال کرنے کی کوشش کریں گے۔( رواه البخاري في صحيحه وابو داود وابو بكر الاسماعيلي ۔اغاثة اللهفان /333)
*يشربن ناس من امتى الخمر يسمونها بغير اسمها يعزف على رؤسهم المعازف والمغنيات يخسف الله بهم الأرض ويجعل منهم القردۃ و الخنازير ( رواه ابن ماجة وقال ابن القيم اسناده صحیح ۔الاغاثة /333)
میری امت کے کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر اسے استعمال کریں گے۔ ان کے پاس موسیقی بجائی جائے گی، اور گانے والی عورتیں ہوں گی، اللہ انھیں زمین میں دھنسا دے گا۔ اور کچھ کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔”
کیا آج وہ دور نہیں ہے جہاں بدکاری کو باہمی رضا مندی کا سودا، شراب کو روحانی مشروب اور ناچ، گانے کو آرٹ اور ثقافت قرار دے کر رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا –
ان الله حرم الخمر والميسر والكوبة وكل مسكر حرام ( اخرجه ابوداؤد و ابو یعلی و ابن حیان واحمد في مسنده و قال احمد شاکر اسناده صحیح .حاشيه الاغاثة/ 335 نيز تحريم آلات الطرب /56)
اللہ تعالی نے شراب، جوا اور طبلہ کو حرام قرار دیا ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔”
ایک دوسری حدیث میں گانے کو فجور اور بے وقوفی کی آواز کہا گیا ہے، چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اني لم انه عن البكاء انما نهيت عن صوتين فاجرين احمقين صوت عند نعمة لهو ولعب ومزامير الشيطان وصوت عند مصيبة خمش وجوه وشق جيوب و رنة ( رواه ابن سعد 138/1 والبزار 380/1 البغوى 431/1 و حسنه نیز دیکھئے تحریم آلات الطرب /52 )
میں نے رونے سے منع نہیں کیا ہے، بلکہ میں نے فجور اور حماقت پر مبنى دو طرح کی آواز سے روکا ہے، ایک خوشی کے وقت لہو و لعب اور شیطان کی بانسری کی آواز سے اور دوسرے مصیبت کے وقت چہرہ نوچنے، گریبان چاک کرنے اور کیں کیں کرنے سے”۔
اور حضرت عمران بن حصین سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يكون في امتى قذف ومسخ وخسف فقال رجل من المسلمين متى ذلك يا رسول الله قال اذا اظهرت القيان والمعازف وشربت الخمور . ( رواه الترمذی وغیرہ، اس طرح کی روایت متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے اور مجموعی طور پر پی روایت "حسن”کے درجہ سے فروتر نہیں ہے۔ دیکھئے تحریم آلات الطرب /63)
میری امت کے کچھ لوگوں پر آسمان سے پتھر برسائے جائیں گے ، ان کی شکل بگاڑ دی جائے گی اور انھیں زمین میں دھنسا دیا جائے گا، ایک صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ایسا کب ہو گا ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کثرت سے گانے والیاں ہوں گی اور موسیقی سنی اور شراب پی جائے گی۔
گناہ کی وجہ سے انسان کی فطرت بدلتی جاتی ہے، اور وہ اس گناہ جیسی خصلت رکھنے والے جانور کی مشابہت اختیار کرتا جاتا ہے، جیسے کہ حرص اور لالچ میں مبتلا انسان کتنے کی مشابہت اختیار کر لیتا ہے، ابتدائی طور پر یہ مشابہت ہلکی ہوتی ہے، اور صرف باطن متاثر ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور چہرے کے خدو خال پر اس کے آثار نظر آتے ہیں اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اس جانور کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو ایمانی فراست سے نوازا ہے وہ دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی اس بھیڑ میں انسان کم اور بھیڑیے، کتے ، بندر اور خنزیر زیادہ ہیں ( دیکھئے اغاثة اللهفان/ 343) اور کبھی کبھار عبرت کے لیے اس کی صورت اس درجہ مسخ کر دی جاتی ہے کہ تمام لوگ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی چرواہے کو بانسری بجاتے ہوئے سنا تو اپنے کان میں انگلی ڈال لی، اور راستہ بدل دیا۔ (3) ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ گنھٹی شیطان کی بانسری ہے، نیز یہ کہ فرشتے ایسے قافلے کے ساتھ نہیں ہوتے جس میں کتا یا گھنٹی ہو۔ (15(14) رواه مسلم عن ابي هريرة 94/14
چرواہے کی معمولی بانسری کے سلسلہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل اور جانور کے گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹی کے سلسلہ میں آپ کا یہ ارشاد، جس میں موسیقی کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوتا ہے، تو پھر موسیقی کے ایسے آلات کے بارے میں کیا حکم ہوگا جس کے تھاپ پر انسان تھرکنے لگتا ہے اور جسم کا رواں رواں مدہوشی میں ڈوب جاتا ہے؟؟؟۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ گانے کی وجہ سے دل میں نفاق ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جیسے کہ پانی کی وجہ سے کھیتی اگ آتی ہے (4) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو بظاہر مسلمان تھے لیکن ان کا دل ایمان سے خالی تھا۔ ایسے لوگوں کو کو منافق کہا گیا ، عقیدے میں فساد کی وجہ سے عملی طور پر کجی کا پایا جانا ضروری ہے، چنانچہ یہ لوگ نماز میں سستی کیا کرتے تھے، کثرت سے جھوٹ بولا کرتے، وعدہ وعہد کا پاس و لحاظ نہیں کرتے ، ذرا سا اختلاف ہو جائے تو گالم گلوچ پر اتر آتے ، امانت میں خیانت کرتے وغیرہ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت میں کہا گیا ہے کہ گانا ایک ایسا گناہ ہے کہ اس کے ذریعہ منافق کی خصلت پیدا ہوتی ہے، عقیدہ اور عمل میں انحراف پایا جاتا ہے، کیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ گانے کا عادی شخص نماز کا پابند نہیں ہوتا ہے، وہ قرآن کی حلاوت سے محروم ہو جاتا ہے، اپنا وقار کھو دیتا ہے، جھوٹ اور لایعنی چیزوں کا خوگر ہوتا ہے، خواہش نفس اور شیطان کا غلام ہوتا ہے۔
یزید بن ولید کہتے ہیں:
اپنے آپ کو گانے سے بچاؤ کہ اس سے حیا کم اور شہوت زیادہ ہوتی ہے، وہ شراب کی جگہ لے لیتا ہے ، اور نشہ آور چیزوں کا کام کرتا ہے، عورتوں کو اس سے دور رکھو.اس لیے کہ گانا زنا کی دعوت دیتا ہے۔
اِیَّاکُمْ وَالْغَنَاء فَاِنَّه یَنْقُصُ الْحَیَاء، وَیَزِیْدُ فِي الشَّهوَة، وَإنَّه لَیَنُوْبُ عَنِ الْخَمْرِ، وَیَفْعَلُ مَا یَفْعَلُ السُّکْرُ، وَجَنِّبُوْه النِّسَاء؛ فَاِنَّ الْغَنَاء دَاعِیَة الزِّنَا”. (إغاثة اللهفان/ 315)
امام عمرو بن صلاح کہتے ہیں کہ جس گانے کے ساتھ آلات موسیقی ہوں اس کے حرام ہونے پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔ (الاغاثة /297)

(1)يريد أن الشعر لا دخل له في الحسن والقبح ولا يعتبر به حال المعاني في الحسن والقبح والمدار إنما هو على المعاني لا على كون الكلام نثرا أو نظما فإنهما كيفيتان لأداء المعنى وطريقان إليه ولكن المعنى إن كان حسنا وحكمة فذلك الشعر حكمة وإذا كان قبيحا فذلك الشعر كذلك وإنما يذم الشعر شرعا بناء على أنه غالبا يكون مدحا لمن لا يستحقه وغير ذلك ولذلك لما قال تعالى { والشعراء يتبعهم الغاوون } أثنى على ذلك بقوله { إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات } الآية . (حاشیہ سندي علی ابن ماجه:3755)
(2)قوله: ( إن من الشعر حكمة ) أي قولا صادقا مطابقا للحق. وقيل: أصل الحكمة المنع، فالمعنى إن من الشعر كلاما نافعا يمنع من السفه. ۔۔۔
وأخرج ابن أبي شيبة بسند حسن عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قال: ” لم يكن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم متحزقين ولا متماوتين، وكانوا يتناشدون الأشعار في مجالسهم ويذكرون أمر جاهليتهم، فإذا أريد أحدهم على شيء من دينه دارت حماليق عينيه ” ۔۔۔ ” وأخرج أحمد وابن أبي شيبة والترمذي وصححه من حديث جابر بن سمرة قال: ” كان أصحاب رسول صلى الله عليه وسلم يتذاكرون الشعر وحديث الجاهلية عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا ينهاهم. وربمايتبسم ".(فتح الباری رقم الحدیث :6145)
(3) نافع مولی ابن عمر ان ابن عمر سمع صوت زمارة راع فوضع اصبعيه في اذنيه وعدل راحلته عن الطريق وهو يقول يا نافع اتسمع فاقول نعم فيمضى حتى قلت لا فوضع يديه واعاد راحلته الى الطريق وقال رايت رسول الله وسمع صوت زمارة راع فصنع مثل هذا رواه احمد وقال احمد شاکر اسناده صحيح رقم الحديث: 4535، و ابو داؤد وقال العظيم آبادی اسناده قوی: عون المعبود 267/13، وفي الحديث دليل على ان المشروع لمن سمع الزمارة و لم يستطع ان ينكر على صاحبها لسطوته او بعده ان يسد اذنيه وانما لم يامر ابن عمر نافعا بسد اذنيه لانه كان اذ ذاك صغيرا دون التكليف عون (267/13)
(4) وهو صحيح عن ابن مسعود من قوله وقد روى عنه مرفوعا وهو ضعيف الاغاثة /319 لكنه في حكم المرفوع اذ مثله لا يقال من قبل الراى كما قال الألوسى فى روح المعانى 68/11 .(تحريم آلات الطرب /148)

تفریح کے لئے جانور اور پرندے پالنا:

جانوروں کی تخلیق کا ایک مقصد زینت بھی ہے چنانچہ قران حکیم میں ہے:
وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔
اور گھوڑے، خچر اور گدھے اسی نے پیدا کیے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو، اور وہ زینت کا سامان بنیں۔ اور وہ بہت سی ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں ہے۔(النحل: 8)
اس لیے خوش رنگ اور خوش الحان پرندوں کو پالنا درست ہے کہ ان سے نگاہ کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح سے شکار کے مقصد سے کتا یا چیتا وغیرہ رکھنا درست ہے(1) بشرطیکہ فخر اور بڑائی جتانا مقصود نہ ہو نیز انہیں اس طرف سے مانوس کر لیا جائے کہ وہ پنجرے کے بغیر رہ سکیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الخيل لرجل اجر و لرجل ستر وعلى رجل وزر…. .رجل ربطها فخرا ورياء ونواء لاهل الاسلام فهي على ذلك وزر(بخاري:2371)
گھوڑا کسی کے لئے باعث‌ اجر و ثواب،کسی کے لئے پردہ پوشی کا سبب اور کسی کے ذریعے عقاب ہے ۔۔۔جو شخص‌ ریا کاری ،فخر اور اہل اسلام سے دشمنی کے لئے گھوڑا رکھے تو وہ اس کے لئے ذریعے عقاب ہے ۔
اور حضرت انس کہتے ہیں :
ان كان النبي صلى الله عليه وسلم ليخالطنا حتى يقول: لاخ لي صغير يا ابا عمير! ما فعل النغير؟۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گھلے ملے رہتے تھے یہاں تک کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے پوچھتے کہ ابو عمیر ! نغیر(پرندہ) نے کیا کیا‌۔ (صحیح بخاري:6129)
اور انہیں پنجرے میں بند رکھنا مکروہ ہے کیونکہ محض زینت اور شوق کی تکمیل کے لیے کسی جانور کی آزادی کو چھین لینا اور اسے ستانا اور پریشان کرنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ بلبل کو پنجرے میں بند کر کے کھانا، پانی دینا ناجائز ہے۔ علامہ شامی نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پنجرے میں بند رکھنے کی کراہت کا سبب یہ ہے کہ ایسا کرنے میں جانور کو قید میں رکھنا اور ستانا ہے۔۔۔ اور یہ کہ جانور پر ظلم کرنا غیر مسلم پر ظلم کرنے سے زیادہ شدید ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا ان بے زبان جانوروں کی مدد کرنے والا نہیں ہے اور غیر مسلم پر ظلم کرنا مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ شدید ہے کیونکہ قیامت کے دن اس کا مطالبہ ہوگا کہ اس کے گناہ اس مسلمان پر ڈال دیے جائیں تاکہ وہ بھی اس کے ساتھ عذاب میں شریک رہے۔(ردالمحتار:576,575/9)
اور علامہ ابن مفلح مقدسی حنبلی نے لکھا ہے کہ گانے اور چہچانے والے پرندوں کو ان کی خوش الحانی کی وجہ سے پنجرے میں رکھنے کو ہمارے اصحاب نے مکروہ قرار دیا ہے اس لیے کہ اس کی کوئی ضرورت اور حاجت نہیں بلکہ فخر، اتراہٹ اور عیاشی کی دلیل ہے اور جانور کو پنجرے میں رکھنا اسے ستانا اور پریشان کرنا ہے۔( الاداب الشرعيه:/525/3)
اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی غذا اور سردی، گرمی اور بارش سے حفاظت کا مناسب بندوبست کیا جائے.ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا اور ان کی حق تلفی کرنا اور خوراک مہیا نہ کرنا پڑے عذاب کا سبب ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ ". (بخاري:3318مسلم:2242)
ایک عورت اس لیے جہنم میں داخل ہوگئی کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی، لیکن اسے نہ تو کھانا کھلایا اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑ دیا کہ کیڑے مکوڑے کھا کر پیٹ بھر لے۔
نیز کبوتر وغیرہ کو اڑانے کا مشغلہ بنالینا، اور ہر وقت اس کے ساتھ کھیلنا اور مصروف رہنا درست نہیں ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو کبوتر کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھ کر فرمایا : شیطان چڑیل کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔(ابوداؤد 675/2، ابن ماجہ /267)
علامہ شوکانی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ کبوتر سے کھیلنا مکروہ ہے ، اور ان کھیلوں میں سے ہے جس کی اجازت نہیں، علماء کی ایک جماعت نے اسے مکروہ کہاہے لیکن اگر حدیث کی صحت تسلیم ہے تو اس کا حرام ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس سے کھیلنے والے کو شیطان کہنا اس کی واضح دلیل ہے اور کبوتر کو چڑیل اس لیے کہا گیا کہ وہی اس کھیل کے لیے سبب بنتاہے یا اس وجہ سے کہ وہ شیطانوں جیسا کام کرتاہے کیونکہ انسان اس کی متابعت پر فریفتہ اور شیفتہ ہوتاہے اور اس کی خوبصورتی و نغمہ سنجی کی وجہ سے اس سے کھیلتارہتاہے۔(نیل الاوطار 94/8)
شوکانی کی اس تشریح سے معلوم ہوا کہ کبوتر بازی حرام ہے اور بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہے ، لیکن حرمت و کراہت کا اختلاف اسی وقت ہے جبکہ جوا نہ ہو اگر اس میں ہار جیت پر معاوضہ مقرر ہو تو بہ اتفاق حرام ہے بلکہ گناہ بالائے گناہ ہے ۔ البتہ صرف پالنے کی غرض سے اور دل بہلانے کے مقصد سے کبوتر رکھنا درست ہے ، بشرطیکہ اس میں ہمہ تن مصروف نہ ہوجائے ۔ مجمع الانہر میں ہے:
جوشخص پرندوں سے کھیلتا ہے، اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی ، اس لیے کہ وہ اس میں مدہوش رہتاہے اور ایک قسم کے ’’لہو‘‘ (کھیل) پر اصرار کرتاہے۔ اگر وہ کبوتر دل بہلانے کے لیے رکھتاہے ، اسے اڑاتا نہیں ہے تو اس کی عدالت ساقط نہیں ہوگی، اس لیے کہ کبوتر گھر میں رکھنا جائز اور مباح ہے۔(مجمع الانھر 198/2کتاب الشہادات)

(1)(قوله : وكذا الطيور ) أي الجوارح درر. (قوله : علمت أولا ) تصريح بما فهم من عبارة محمد في الأصل، وبه صرح في الهداية أيضاً، لكن في البحر عن المبسوط: أنه لا يجوز بيع الكلب العقور الذي لا يقبل التعليم في الصحيح من المذهب، وهكذا نقول في الأسد إن كان يقبل التعليم ويصطاد به: يجوز بيعه وإلا فلا. والفهد والبازي يقبلان التعليم، فيجوز بيعهما على كل حال ا هـ قال في الفتح: فعلى هذا لا يجوز بيع النمر بحال؛ لأنه لشراسته لايقبل التعليم. (رد المحتار 5/227)

جانوروں کو آپس میں لڑانا

بعض بد فطرت اور بے حس افراد جانوروں کی لڑائی کو دل بہلانے کا ذریعہ اور تسلی و تشفی کا سامان سمجھتے ہیں ،وہ جانوروں کو لہو لہان دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور تالی بجاتے ہیں، انھیں دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں حیوانیت و درندگی زیادہ ہے یا بے عقل جانوروں میں۔
مرغ و تیتر بازی وغیرہ ایک انتہائی بہیمانہ فعل ہے اور شقاوت و سنگ دلی کی انتہا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، یہ اس قوم کا طریقہ اور شیوہ ہے ، جس پر اللہ کا دردناک عذاب نازل ہوچکا ہے، میری مراد اس سے قوم لوط ہے ، یہ ایک بدترین قسم کی مقابلہ بازی ہے ، ہار جیت پر کوئی رقم مقرر ہو یا نہ ہو بہر حال حرام ہے۔(دیکھئے روضۃ الطالبین 351/10للنووی)، اللہ کے رسول ﷺ نے صراحتاً اس سے منع فرمایا ہے:
نھی النبی ﷺ عن التحریش بین البھائم ۔
نبی ﷺ نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع کیا ہے۔(ابوداؤد :2562.ترمذي :1708)
ایک جانور جس کے پاس زبان نہیں کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو الفاظ کی شکل دے سکے، اپنی فریاد کو پیش کرسکے وہ اپنی بے بس نگاہوں سے رحم کی دہائی دیتا ہے مگر انسان کی درندگی اور سنگ دلی دیکھئے کہ وہ اس منظر سے لطف اندوز ہوتاہے، اس کی ترحم آمیز نگاہوں کا جواب ظالمانہ مسکراہٹ سے دیتاہے، اے کاش یہ اس دن سے ڈرتا جس دن کہ یہ خود بے بس اور مجبور ہوگااور اللہ ان بے جان جانوروں کو قوت گویائی عطا کریں گے اور یہ اس کے تمام جرائم کا گن گن کر بدلہ لیں گے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے