مولانا افضال الحق جوہر قاسمی۔
سوانحی خاکہ:
نام ونسب : محمد افضال الحق ابن امین الحق ابن شاہ عبد الرحیم فضلی۔
تخلص :جوہر
سن پیدائش: 1923ء
وطن:رگھولی۔گھوسی ۔مئو۔ یوپی ۔
تعلیم : فاضل دارالعلوم دیوبند۔ 1941ء
وفات:30نومبر ۔2012ء
تدفین ۔رگھولی۔
وہ مرد قلندر
مولانا افضال الحق جوہرؔ قاسمی کا نانیہال اور سسرال دونوں ہمارے گائوں فتح پور تال نرجا میں ہے۔وہ ہمارے یہاں بکثرت آیا کرتے تھے اور اہل فتح پور کے لیے ان شخصیت غیر معروف نہیں تھی،بلکہ بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔یادادشت کو کریدنے کے باوجود مجھے یہ یاد نہیں آرہا ہے کہ کب انہیں سب سے پہلے دیکھاہے،بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ کب سے انہیں نہیں دیکھا۔یہ اس وقت کی بات جب کہ میرے قدم شعورکی سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہے تھے اور وہ شہرت کی بلندیوں کو چھورہے تھے۔
میری ابتدائی عربی تعلیم ریاض العلوم گورینی میں ہوئی ہے اور میرا خیال ہے کہ مدرسہ کا وہ دور اس کے شباب کا زمانہ تھا۔ایسا لگتا تھا کہ آسمان سے آفتاب وماہتاب اور کہکشائیں زمین پر اتر آئی ہیں۔اساتذہ میں علم وتحقیق کے شہسوار بھی تھے اور عبادت وریاضت کے تاجدار بھی۔ان کا دن طلبہ کی تعلیم وتربیت میں گزرتا اور رات تحقیق وجستجو اور رب کے حضور راز ونیاز میں بسر ہوتی۔وہ خلوص وللہیت کے پیکر تھے اور محبت وشفقت کے ایک تناور درخت کے مانند تھے جس کی گھنیری چھائوں میں اجنبیت اور غربت کا احساس نہیں ہوتا۔وہ اس بات کے لیے کوشاں رہتے کہ اپنی صلاحیت ، صالحیت اور سوز دروں کو طلبہ میں منتقل کردیں۔ان کی محبت وشفقت اور لگن اور تڑپ آج بھی یاد آتی رہتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ کاش زندگی کا پہیہ پیچھے کی طرف گھوم جائے اور دوبارہ اسی ماحول میں پہونچ جائوں۔
’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو!‘‘
ماہر تعلیم و تدریس:
یہاں جوہر قاسمی میرے مربی وسرپرست تھے مگر ان شخصیت اس درجہ پر رعب تھی کہ ان سے ملنے کے لیے جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔تعلیم کے ابتدائی دوسالوں میں ان کے یہاں بہت کم جانا رہا ۔کبھی والد صاحب تشریف لے آتے تو ان کے ساتھ میں بھی حاضر ہوجاتا۔عربی دوم میں پہلی مرتبہ ان سے منطق پڑھنے کا شرف حاصل ہوا،جس کے بارے میں یہ چرچا رہتا تھا کہ بہت مشکل اور بے مصرف فن ہے۔لیکن پہلے ہی دن یہ معلوم ہوا کہ یہ تو بہت آسان علم ہے اور ہر شخص اسے استعمال کرتا ہے اور روز مرہ کی بول چال میں شامل ہے۔انہوں نے اس موقع پر جو مثال دی تھی وہ ان کی کتاب ’’یسری‘‘میں موجود ہے،جسے انہیں کے الفاظ میں نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے:
’’ خیالات دماغ میں اس طرح آتے جاتے ہیں جیسے سڑک پر سواریوں کی دوطرفہ بھیڑ۔ ارسطو نے اس بھیڑ میں گھس کر ایک ایک تصور،ایک ایک ادراک اور ایک ایک فیصلہ کا جائزہ لیا ۔ ان کے الگ الگ نام رکھے ،ان میں آپس کا خط امیتاز کھینچا،ان کا تعارف کرایا اور پھر ان میں جہاں کہیں تصادم ہوسکتاہے ،ان کی نشان دہی کی اور تصفیہ وفیصلہ کے گر بتائے۔حتی کہ ظن ویقین کی بنیادیں ابھاردیں۔ارسطو کی اس ذہانت اور محنت کا نام ’’منطق‘‘ پڑ گیا۔یہ محنت اتنی کارآمد ایسی فطری اور اس قدر زوردار تھی کہ ہوا اور پانی کی طرح ہزاروں برس میں بھی اس کی تازگی ، توانائی اور ضرورت میں فرق نہیں آیا۔
چنانچہ کوئی بچہ بازار سے ٹماٹر لارہا ہے ،آپ اس سے پوچھئے تمہارے تھیلے میں کیا ہے؟ وہ کہہ دے گا کہ ٹماٹر ہے۔لیکن اگر اس کے ساتھ آلو بھی ہے، گوبھی بھی ہے تو جواب دے گا کہ سبزی ہے یا ترکاری ہے۔اسی طرح کسی کے تھیلے میں سبزی بھی ہے مصالحہ بھی ہے تو اس کا جواب ہوگا سامان ہے۔آخر ٹماٹر کی نوع چھوڑ کر ترکاری کی جنس کیوں لایا؟یا اسے چھوڑ کر سامان کی جنس بعید کیوں استعمال کی گئی؟اسی وجہ سے تو کہ ہر ایک کانام لینا دشوار تھا ۔اس وجہ سے جزئیات سے کلیات تک اس کو آنا پڑا ۔اسی کا نام منطق ہے اور یہی استقراء ہے اور غور وفکر کی یہی راہ ہے۔
معلوم ہوا کہ منطق ضروریات زندگی میں سے ہے اور اسے بچے بوڑھے جوان سب بے تکلف استعمال کرتے ہیں اگرچہ علمی زبان میں اس کے اصطلاحی نام،اس کی تعریف اور اس کے مسائل کا ایک حرف بھی نہ جانتے ہوں۔ایسے میں ہمارا کام ہے کہ ہم ان کے استعمال کی مدد لے کر اپنی اصطلاحیں سمجھادیں تاکہ روز مرہ کی زندگی میں شامل ہوجائیں اور باتوں کی گہرائی تک اترنا آسان ہوجائے۔البتہ یہ فرق ضروری ہے کہ ارسطو کے مخاطب حکماء یونان تھے،فارابی اور ابن سینا کے مخاطب بھی علما اور حکما تھے۔کیوںکہ انہوں نے اسے ایجاد کیا تھا اور اس ایجاد کو جن کے سامنے پیش کرنا تھا وہ اہل علم تھے۔اس لیے انہوں نے اپنا مفہوم ادا کرنے کے لیے اپنے مخاطب کی بلند پروازی کی سطح سے گفتگو کی تھی۔ مگر ہمارے مخاطب بچے ہیں اور بچہ ہمیشہ مادری زبان بولتا اور سمجھتا ہے ،اس کو مخاطب کرنے کے لیے اس کی بولی بولیے تو وہ باغ باغ ہوجائے گا اور آپ کی بات براہ راست اس کے دماغ کو چھیڑے گی۔خصوصاً جب ایسی مثالیں بھی دیجیے جو بچوں کے ذہن کے قریب ہوں ،سہل ہوں ،دل چسپ ہوں تو اس کا دماغ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ ہوجاوے گا اور وہ مسکرادے گا۔اب جو بیج ڈالنا ہو ڈال دیجیے،وہ جم جاوے گا اور اس بچے کی جتنی بڑی شخصیت ہوگی اتنا ہی بڑا وہ درخت ہوجاوے گا۔لیکن اگر آپ بچے کو علمی زبان میں مخاطب کریں گے تو وہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوگی اور وہ مجبور کیا جاوے گا تو اپنی مادری زبان میں ترجمہ کرے گا اور پھر اسی صحیح یا غلط ترجمے کی مدد سے اس کو طوطے کی طرح رٹ لے گا۔
اگر غور کیجیے تو بچہ کی ساری ذہانت ترجمہ میں کھوجاتی ہے اور ذہین سے ذہین بچے اس طریق تعلیم سے غبی نظر آنے لگتے ہیں ۔کیونکہ ان کا دماغ ایک غیر دلچسپ مشغلے میں چلنے سے گھبراتا ہے تو وہ بھاگتا ہے اور آپ بھاگنے نہیں دیتے۔اس کشمکش میں بچے کی شخصیت دب جاتی ہے،اس کا نشوونما رک جاتا ہے ۔سوچئے اس میں قصوروار کون ہے؟۔‘‘
یہ اقتباس قدرے طویل ہے مگر جوہرؔ کی تعلیمی جد وجہد اور نقطہ نظر کو جاننے کے لیے ضروری ہے۔اور ان سے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ اس بھاری بھرکم جسم میں ایک دردمند اور بے ضرر دل موجود ہے ،اس لیے ان سے خوف کھانا بے جا ہے ،اس لیے ان سے قربت بڑھتی گئی اور ہر صبح وشام ان کی خدمت میں حاضری ہونے لگی۔اور ہماری خوش قسمتی تھی کہ دوسرے سال ان سے ’’مختصر القدوری‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔عبادات کی عملی شکل کسی نہ کسی حد تک ہماری زندگیوں میں موجود ہے۔اس لیے ان سے متعلق مسائل کوسمجھنے میں دقت نہیں ہوتی ہے۔لیکن معاملات خصوصاً خرید وفروخت کے مسائل سے سابقہ نہیں پڑتا،اس لیے سمجھنے میں پریشانی اور دقت محسوس ہوتی ہے،اور پڑھنے میں دل چسپی پیدا نہیں ہوتی۔لیکن جوہرؔکا یہ امتیاز تھا کہ وہ اس طرح کے مسائل کو بھی روز مرہ کی مثالوں کے ذریعہ طلبہ کے ذہن سے اس درجہ قریب کردیتے کہ وہ زندگی سے بھر پور،دلکش اور ایک چلتی پھرتی تصویر نظر آتی جو اس قدر خوشنما ہوتی کہ ہر شخص توجہ دینے اور دل چسپی لینے میں خود کو مجبور پاتا۔ان سے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ مجھے اس فن سے مناسبت ہے اور پھر اس میں میری دل چسپی برھتی گئی۔
منطق پڑھانے کے دوران وہ جمعرات کے دن مضمون نگاری سکھایا کرتے تھے جس کا طریقہ یہ ہوتا کہ وہ شروع میں کوئی محاورہ دیتے اور کہتے کہ اسے بول چال میں استعمال کرو،جیسے ’’میری بلی مجھ ہی سے میائوں‘‘،’’بیٹھوں تیری گود میں اور نوچوں تیری داڑھی‘‘۔ان کی طرف سے دئیے گئے اس جیسے بہت سے محاورے آج بھی یاد ہیں۔اس مرحلہ سے گزرنے کے بعد کہتے کہ اپنے گاؤں شہر یا مدرسہ کے تعلق سے مضمون لکھو۔پھر دیکھ کر دوچار جگہ اصلاح کرتے اور خوب حوصلہ بڑھاتے بلکہ انعام بھی دیتے اور مزید لکھنے کے لیے ابھارتے۔یہ اس دور کا قصہ ہے جب کہ ہم ابتدائی جماعت میں تھے ۔اور جب دیوبند سے فضیلت اور حیدرآباد سے تخصص فی الفقہ کے بعد گورکھ پور میں ان کی خدمت میں چار ماہ رہنے کا موقع ملا تو رنگ بالکل بدلا ہوا تھا۔معمولی معمولی غلطیوں پر سخت ناراض ہوتے ۔کبھی پورے مضمون پر صرف ایک نظر ڈال کر واپس کردیتے کہ دوبارہ لکھ کر لاؤ،اور کبھی خوب کانٹ چھانٹ کرتے جسے دوبارہ لکھتے ہوئے بڑا غصہ آتا لیکن اس طرز اصلاح سے مجھے بڑا فائدہ ہوا اور آج اس کی افادیت سمجھ میں آرہی ہے۔
دیوبند سے فضیلت کے بعد تکمیل ادب کے لیے دوبارہ میں دیوبند پہونچا لیکن مقصد یہ تھاکہ اس درجہ میں داخلہ لے کر باہر ٹائپ رائٹنگ سیکھونگا،اور اس کے ذریعہ کسی خلیجی ملک میں جانے کی کوشش کرونگا۔لیکن حسن اتفاق اور خوبیٔ قسمت کہ انہیں دنوں مولانا دیوبند تشریف لائے۔ملاقات کے لیے مہمان خانے پہونچا ،اسی دوران کوپا گنج کے رہنے والے مولانا نورالعین قاسمی صاحب بھی ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔اور دیوبند آنے کا مقصد بیان کیا کہ ہم یہاں تخصص فی الفقہ کے خواہش مند طلبہ کو حیدرآباد لے جاتے ہیں ۔مولانا نے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ اسے بھی لے جائیے،اسے فقہ میں نے پڑھایا ہے ،اس کو اس علم سے مناسبت ہے۔ یہ مغرب بعد کی گفتگو ہے اور پھر اسی شب عشا کے بعد ان کے ہمراہ دلی اور پھر وہاں سے حیدرآباد پہونچ گیا اور مولانا کی بروقت رہنمائی اور دستگیری سے ’’ٹائپ رائٹر‘‘بننے سے محفوظ رہا۔
سادگی اور بے نفسی:
گورینی کی تعلیم اور گورکھ پور کی تدریس کے دوران مولانا کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس سے ان کی تواضع ،سادگی اور بے نفسی ،خودداری ،بے باکی اور حق پسندی ،مال ودولت سے بے نیازی اور عالمانہ وقار کے بہت سے واقعات سامنے آئے۔
گورکھ پور میں قیام کے دوران ان کی عمر ساٹھ سال سے متجاوز ہوچکی تھی اور مال ودولت کی فراوانی تھی۔سیم وزر ان کے قدموں کو چوم رہے تھے لیکن سادگی اور بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ اس عمر میں بھی بے تکلف سائیکل پر سوار ہوکر آیا جایا کرتے تھے۔کبھی میں نے دبے لفظوں میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو فرمانے لگے کہ’’سائیکل پر سوار ہونے سے پہلے بھی افضال تھا اور اب بھی افضال ہوں،دیکھو اس کی وجہ سے میرے اندر کوئی کمی تو نہیں آئی۔‘‘یہ کہتے ہوئے اپنے جسم کی طرف اشارہ کرتے۔مولانا کی اس کیفیت کو یاد کرکے وہ حدیث نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے جس کو بجا طور پر محدثین نے رسول اللہﷺ کی تواضع کے باب میں رکھا ہے کہ آں حضورﷺبے تکلف گدھے پر سواری کیا کرتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ بعض چیزوں کو عالمانہ شان کے خلاف سمجھتے ہیں ،حالانکہ وہ تواضع کے خلاف اور اندر چھپی ہوئی کبر کے اظہار کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
حق گوئی و بیباکی:
مولانا کا جودوسرا نمایاں وصف تھا وہ حق گوئی اور بے باکی ہے۔وہ خود اپنے متعلق لکھتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ہم دارالعلوم سے نکلے تو بے لاگ قلم،بے باک زبان اور بے پناہ جد و جہد کا شوق لے کر نکلے۔۔۔۔۔۔ہم نے ہر بات سمجھنے کی کوشش کی اور ہر غلط بات کی تردید کی ضرورت پر کمر بستہ رہے اور بحمدللہ اپنی کوئی پرواہ نہیں کی۔‘‘(ترجمان دارالعلوم دہلی ،جون 2002ء)
وہ کہا کرتے تھے کہ میں غلط بات کو غلط کہونگا اور اس راہ میں مجھے اپنی ملازمت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔وہ اپنے کمرے میں موجود بیگ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ’’میرا یہاں کیا ہے،جو کپڑے وغیرہ ہیں اسے بیگ میں رکھوں گا اور چلتا نظر آئوں گا۔‘‘واقعہ یہ ہے کہ ان کی اس صفت نے انہیں بہت نقصان پہونچایااور وہ بالکل یکہ وتنہا ہوکر رہ گئے تھے۔نہ ان کا کوئی رفیق رہا،نہ دم ساز اور غم گسار اور کوئی ہم نوا۔لیکن جس ہستی کی رضا جوئی کے لیے انہوں نے یہ سب کچھ گوارا کیا یقینی طور پر وہ اب اس کی خوشنودی سے شاد کام ہورہے ہونگے اور انہیں حق پرستوں کے زمرہ میں شامل کرلیا گیا ہوگا اور رب کریم کی طرف سے یہ صدا آئی ہوگی:
یا ایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی
اے نفس مطمئن!چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے نیک انجام ) سے خوش(اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔
جسمانی خدمت:
مدارس میں عام طور سے اساتذہ طلبہ سے جسمانی خدمت لیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مفاسد سامنے آتے رہتے ہیں۔اس لیے مولانا اس کے سخت خلاف تھے ۔ایک مرتبہ پھسل کر گرجانے کی وجہ سے پیر میں چوٹ لگ گئی تھی ،میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے تیل مالش کررہے ہیں ۔عرض کیا کہ مجھے دیجیے،مالش کردوں۔یہ سن کر خشمگیں نگاہوں سے مجھے دیکھا اور کہا کہ’’ اللہ نے مجھے دودو ہاتھ دیے ہیں،یہ کس کام کے لیے ہیں۔‘‘مولانا کی اس صفت نے مجھے بہت متاثر کیا اور اپنے لیے بھی میں اسی کو پسند کرتا ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ انسان خود پسند واقع ہوا ہے اس لیے دوسرے کی وہی چیز پسند آتی ہے جو خود اس کو پسند ہو۔
بے نیازی و خودداری:
بے نیازی اور خود داری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔وہ شاگردوں کی خدمت سے بے نیاز تھے ،کسی کی طرف سے مدحت اور مذمت سے بے نیاز تھے،مالداروں کے آستانوں پر جبہ سائی سے بے نیاز تھے یہاں تک کہ صاحبزادوں کی دولت وثروت سے بھی بے نیاز تھے کہ:
نہ لالچ دے سکیں ہرگز تجھے سکوں کی جھنکاریں*
تیرے دست توکل میں تھیں استغنا کی تلواریں۔
تواضع و خاکساری:
بایں ہمہ شان بے نیازی وہ ہر ایک سے بہت پرتپاک انداز میں ملتے،سلام کرنے میں پہل کرتے،رحم وکرم کے پیکر تھے۔چھوٹوں کے ساتھ شفقت ومحبت سے پیش آتے اور بڑوں کے احترام میں کوئی کمی نہ آنے دیتے۔وہ ایک زمیندار گھرانے کے چشم وچراغ تھے ،ان کے یہاں دولت کی فراوانی تھی مگر کبھی بھی ان کے لباس وپوشاک ،رفتار وگفتار اور اخلاق وکردار سے بڑائی ،اتراہٹ، خودرائی اور خود نمائی کا اظہار نہ ہوتا۔منہ پر بات کہہ دینے کے عادی تھے مگر دل کے بہت صاف اور کینہ وکپٹ سے بہت دور بلکہ نفور تھے،اور شاعر کے الفاظ میں:
وہ واقف اسرار محبت تھا سدا سے*
غیروں سے تھی الفت اسے اپنوں سے محبت.
دشمن کو بھی سینے سے لگا لیتا تھا بڑھ کر*
اپنوں سے بھی رکھی نہ کبھی اس نے عداوت.
وہ بڑے متحمل مزاج تھے اور دشمنوں کو بھی معاف کردینے کے ہنر سے واقف تھے ۔دعا و تعویذ کے لیے اہل حاجت کا تانتا بندھا رہتا تھا مگر کسی کے ساتھ ترش روئی سے پیش آنے یا انکار کردینے سے واقف ہی نہیں تھے۔اس کی وجہ سے انہیں بڑا علمی خسارہ برداشت کرنا پڑا لیکن یہ گوارہ تھا اور کسی کے دل کو توڑدینا گوارا نہیں تھا۔ان کے اس مومنانہ کردار نے بہت سے غیر مسلموں کو اسلام سے قریب کردیا اور ان میں سے بعض اس دولت سے سرفراز ہوگئے۔
وہ مرد قلندر:
’’رہ قلندر‘‘ایک خاص اصطلاح ہے۔’’قلندریہ‘‘ایک طبقہ اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جو ایک خاص مذاق اور ایک مخصوص رنگ نسبت سے مشرف ہوتاہے۔جن اولیا ء اللہ کو ہر وقت حق تعالی کے ساتھ ایک خاص کیفیت استحضاری نصیب ہوجاتی ہے اور ان کے سر پر ہر وقت نسبت کا گویا ایک پہاڑ رکھا ہوتا ہے،ایسے حضرات اگر چہ تکثیر نوافل اور تکثیر وظائف میں مشغول نظر نہیں آتے لیکن ان کے باطن پر کسی وقت غفلت اور ذہول نہیں طاری ہوتا۔یہ حضرات تکثیر اوراد وظائف سے زیادہ اس امر کا اہتمام رکھتے ہیں کہ قلب ایک لمحہ کو بھی حق تعالی شانہ سے غافل نہ ہو۔ اسی مذاق کا نام’’مذاق قلندری‘‘ہے۔‘‘(معرفت الہیہ:ص/165؍سراپا اعجاز:ص/38)
ان حروف کا لکھنے والا تصوف کے کوچہ سے ناآشنا ہے اس لیے اس معاملہ میں جوہرؔ کے مزاج ومقام کو بیان کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔تاہم ان کے خصوصی شاگرد،ان کے مزاج شناس ، راہ تصوف سے ہم آشنا بلکہ اس سمندر کا ایک ماہر شناور حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی نوراللہ مرقدہ کا بیان ہے:
’’مولانا اصطلاحی اعتبار سے بظاہر صوفیہ اور مشائخ کے زمرے میں نہ تھے ،ایک عالمانہ وقار تھا،ایک بے تکلف سادگی تھی ،نہ تواضع کا مظاہرہ تھا ،نہ کبر و غرور کا شائبہ تھا،وظائف کی کثرت نہ تھی،اورادو اشغال کا مشغلہ نہ تھا،نفلی عبادات کا زور نہ تھا،مگر ان کے پاس بیٹھ کر،ان سے بات کر کے ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ اللہ کی ذات پر بغایت یقین،اللہ کی حکمتوں پر انتہائی بصیرت،رسول اکرمﷺ کی ذات اقدس سے آخری حد تک شیفتگی ،شریعت کی نہایت عظمت،اور صحابہ و ائمہ کرام کے حق میں کمال ادب کا جذبہ قلب کی گہرائیوں میں ہے ،اتنا کہ خود اپنا قلب بھی اس سے متأثر ہوتا تھا۔‘‘(سراپا اعجاز:ص /464)
وہ مرد قلندر ابھی تک یاد ہے مجھ کو*
تھی جس کی اذانوں میں فقط حق کی حمایت۔
مومن کی صدا تھا ، وہ مجاہد کی اذاں تھا*
تھی شب کے اسیروں کو بہت اس سے شکایت۔
شاعری اور مضمون نگاری:
جوہرؔ کو سب سے زیادہ دل چسپی پڑھنے لکھنے سے تھی اور حقیقتاً وہ اسی میدان کے آدمی تھے۔وہ خود کہا کرتے تھے کہ’’ اللہ تعالی نے میرے ایک بھائی کوتقریر کی صلاحیت دی تھی اور مجھے تحریر کی صلاحیت بخشی ہے۔‘‘انہوں نے خوب لکھا اور بہت لکھا لیکن اس کا بہت کم حصہ منظر عام پر آسکا۔ اور جو شائع ہوا وہ بھی اب ہفت روزہ ’’الجمعیۃ‘‘ اور ماہنامہ’’ ریاض الجنۃ‘‘ اور’’ دانشور‘‘ وغیرہ کی فائلوں میں مدفون ہے۔کاش کہ کوئی ہمت کرتا اور ان دفینوں کو سفینوں میں منتقل کردیتا۔
بہترین نثر نگار کے ساتھ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ۔ان کی شاعری کے متعدد مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوگئے تھی ۔وہ کہا کرتے تھے کہ شاعری بالکل آنکھ کی طرح سے ہے جو ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کرسکتا اسی طرح سے شاعری میں معمولی جھول بھی گوارہ نہیں ۔فورا کمی کا احساس ہوجاتا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ جوہر ایک ہمہ جہت شخصیت اور گوناگوں صفات کے حامل تھے۔انہوں نے بہت ہی سادہ ،بے تکلف،صاف ستھری ،پاکیزہ اور پرکیف لیکن بہت ہی جفا کش اور محنت و مشقت کی عادی زندگی گزاری ہے۔وہ ایک دل دردمند، فکر ارجمند اور زبان ہوشمند کے مالک تھے۔ مزاج میں شگفتگی تھی ،وہ ان لوگوں میں سے تھے جن سے کسی کو ضرر اور خطرہ نہیں تھا۔وہ حق گو اور حق شناس اور صبر ورضا کے پیکر تھے۔وہ اپنوں کے لیے انتہائی رحیم وشفیق اور غیروں کے لیے سراپا لطف و کرم تھے۔وہ غیرت حق سے سرشار اور کمزوروں اور مظلوموں کاجاں نثار اور انسانیت کا غم خوار تھے۔ وہ ایک سایہ دار درخت اور بہتے ہوئے دریا کی طرح تھے ۔انہوں نے ایک کامیاب اور بامقصد زندگی گزاری،جسے قرآن میں حیات طیبہ کہا گیا ہے۔
من عمل صالحاً من ذکر او انثی وہو مومن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ ولنجزینہم باحسن ماکانوا یعملون۔(النحل؍۹۷)
جس نے کیا نیک کام، مرد ہو یا عورت ہو،اور ایمان پر ہے تو ہم اس کو زندگی دیں گے ایک اچھی زندگی۔اور بدلے میں دیں گے ا
ن کو حق ان کا بہترین کاموں پر جو کرتے تھے۔(ترجمہ شیخ الہند