مولانا امان اللہ صاحب ۔
حسن اخلاق کا پیکر
دوپہر میں کھانے کے بعد آرام کرنے کے ارادے سے جیسے ہی بستر پر پہنچا کہ مولانا ابو المکارم صاحب معروفی کا فون آگیا اورانھوں نے اطلاع دی کہ مولانا امان اللہ صاحب اس دنیا میں نہیں رہے، اور ہمیشگی کے گھر کی طرف کوچ کرگئے۔
یہ خبر ایسی ناگہانی اور ہوش ربا تھی کہ کچھ دیر تک سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوگیا، اس نے بجلی کی طرح آرام و راحت کے خیال کو جلا کر خاکستر کردیا اورآنسوؤں کی جھڑی نے نیند کے خمار کو زائل کردیا اور مولانا کا سراپا،میرے ساتھ ان کی کرم فرمائیاں اور نوازشیں ذہن کے اسکرین پر گردش کرنے لگیں، شاید اسی طرح کے مواقع کے لیے شاعر نے کہا تھا ؎
اشکوں کے مسافر صف باندھے خاموش گزرنے لگتے ہیں*
پھر نیند کہاں ان آنکھوں میں جب ان کا خیال آجاتا ہے.
مولانا امان اللہ صاحب ضلع جونپور کے ایک گاؤں چوکیہ میں 2؍ جنوری 1957ء کو پیدا ہوئے، جسے شیخ الحدیث مولانا محمد یونسؒ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے اور اسی گاؤں سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر ضیاء العلوم کے نام سے ایک مدرسہ ہے، جس میں ان کی پوری تعلیمی زندگی بسر ہوئی، اور وہاں سے فراغت کے بعد فضیلت کے لیے مظاہر علوم سہارنپور پہنچے اور 1978ء میں فارغ ہوئے، اور وہاں کے اساتذہ سے کسب فیض کے بعداُسی سال بحیثیت مدرس ریاض العلوم سے متعلق ہوگئے اور یہیں کا ہوکر رہ گئے، کسی دوسری جگہ جانے کا کبھی خیال نہیں آیا، وہ خود اس شعر کو بکثرت پڑھا کرتے تھے
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے۔
ان کی صلاحیت و صالحیت کو دیکھ کر مرشد امت نور اللہ مرقدہ نے انہیں اپنا نسبتی بیٹا بنا لیا تھا، اورکچھ عرصہ پہلے مدرسے کے بغل میں انھوں نے مکان بنا لیا تھا اور یہیں ان کی مستقل رہائش تھی۔
ظاہری اورباطنی صفات:
ان کی شخصیت نہایت جاذب نظر اوردلکش تھی، بلند قامت، موٹاپے سے محفوظ جسم ان کی دل آویزی ، بلند ہمتی اور عزم و ارادے کی پختگی کا غماز تھا، مسکراتا ہوا چہرہ اور زیر لب تبسم ان کے اخلاق کریمانہ کی گواہی دیتا تھا ، روشن و کشادہ پیشانی، پر نور اور چمکتی آنکھیں ان کی ذہانت و فطانت اوردل و نگاہ کی وسعت کا پتہ دیتی تھی۔
وہ نہایت نفاست و لطافت پسند تھے، صاف ستھرا اور اجلا لباس ان کی شرافت و نفاست کا گواہ تھا، ان کے تمام معمولات میں وضع داری کی شان پائی جاتی تھی، رفتار و گفتار، نشست و برخواست ہر چیز میں ان کی یہ خصوصیت نمایاں تھی، وہ بڑے زندہ دل، خوش مزاج، خندہ جبیں، اور بذلہ سنج تھے، ان کی گفتگو شگفتہ، شیریں اور دلکش ہوا کرتی اور لطائف سے معمور رہتی تھی، اس لیے جس مجلس میں ہوتے وہاں شمع محفل معلوم ہوتے۔
ان کا سینہ بے کینہ اور دل ایسا شفاف تھا کہ اس میں دشمن کے لیے بھی نفرت، کدورت، حسد اور چھل کپٹ کے گرد کی گنجائش نہ تھی اور اخلاص و صداقت ، بے باکی و جرأت کی ایسی منزل میں تھے، جہاں ریا، نفاق اور مصلحت اندیشی کا گذارا نہیں تھا، اورنام و نمود اورشہرت سے بہت دور بلکہ نفور تھے۔
وہ سرا پا خلق و مروت، مجسم مہر ومحبت، اور ایثار و قربانی اور عفو درگذر کی زندہ تصویر تھے، فارسی ادب کے بڑے ذوق شناس اور نکتہ سنج تھے، ان کا ادبی ذوق بڑا صاف ستھرا اورپاکیزہ تھا، وہ دنیاوی حیثیت سے بہت اونچی شخصیت کے مالک نہیں تھے اور نہ علمی اعتبار سے بہت زیادہ نمایاں ،لیکن اگر بڑائی نام ہے اخلاق و شرافت اورسیرت و کردار کی بلندی کاتو یقینا وہ ایک بہت بڑے آدمی تھے۔
فیاضی و سخاوت:
رحم و کرم اور ایثار و فیاضی ان کی فطرت تھی ، جس کی وجہ سے کسی ضرورت مند کا ان کے پاس سے خالی ہاتھ جانا ناممکن تھا، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جاڑے کے موسم میں ایک سائل ان کے گھر آیا اور اس کے جسم پر ٹھنڈک سے بچاؤ کا کوئی گرم کپڑا نہ تھا، وہ اس وقت ایک نئی، عمدہ اورقیمتی شیروانی نما بدیسی جاکٹ پہنے ہوئے تھے، اسے اتارا اورسائل کے حوالے کردیا، وہ حیران و پریشان نا، نا کرتا رہا اور کہتا رہا کہ اسے آپ پہنے رہئے اور مجھے پھٹی، پرانی چادر یا کمبل دے دیجئے، مگر انھوں نے اسے پہنا کر ہی دم لیا، وہ اس سلسلے میں اپنے اور بیگانے کی تفریق کے روا دار نہیں تھے، اورمسلم و غیر مسلم ہر ایک ان کے در سے فیض یاب ہوتا تھا، ان کے پاس جو کچھ تھا وہ دوسروں کے لیے وقف تھا ، جسے وہ ان پر صرف کردیا کرتے اور کچھ بچا کر نہیں رکھتے، بے کسوں کی دست گیری اور ناداروں کی حاجت روائی ہی ان کے کسب معاش کا مقصود تھا۔
شفقت و محبت:
ان کی شفقت و محبت اورخدمت خلق بڑی مشہورتھی، اس سلسلے کے بہت سے واقعات خود ہمارے سامنے پیش آئے، اور یہ خصلت صرف انسانوں تک محدود نہ تھی، بلکہ اس کا دائرہ چرند و پرند، بلکہ درندوں تک پھیلا ہواتھا، ایک مرتبہ انھوں نے دیکھا کہ ایک کتے کے سر پر زخم ہے اور اس میں کیڑے پڑگئے ہیں اور شدت تکلیف کی وجہ سے اسے کسی پل سکون نہیں ہے، جس کی وجہ سے ادھر اُدھر چکر لگا رہا ہے، کسی طرح سے انھوں نے اسے قابو میں لیا، گھر لائے، دوا علاج کیا اور اس وقت تک اپنے پاس رکھاجب تک وہ ٹھیک نہیں ہوگیا۔
اس طرح کے قصے اورکہانیوں کو ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا، لیکن سر کی آنکھوں سے پہلی بار دیکھا اور اس طرح کے نا معلوم کتنے واقعات ان کی ذات سے وابستہ ہیں، جن میں سے کچھ نگاہوں کے سامنے آگئے اور زیادہ تر اس ہستی کے خزانۂ علم میں محفوظ ہیں، جس سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
وہ اس سلسلے میں اس حدیث پر عمل پیرا تھے، جس میں کہاگیا ہے کہ ’’الخلق عیال اللہ واحبہم الی اللہ من احسن الی عیالہ‘‘ تمام مخلوقات اللہ کا کنبہ ہیں اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔’’ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء‘‘ زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کریگا، وہ اس شعر کو بکثرت پڑھا کرتے تھے ؎
کرو مہربانی تم اہل زمین پر ٭ خدا مہر باں ہوگا عرش بریں پر.
غرضیکہ ان کا سب سے بڑا اورنمایاں وصف مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی اورخدمت خلق تھا۔
علم دوستی :
علماء اور صلحا کی ان کے یہاں بڑی قدر و منزلت تھی اور ان سے بڑا گہرا ربط تھا، جس کی وجہ سے ان کے اعزاز و اکرام میں بڑا مبالغہ کیا کرتے تھے، اس سلسلے کے بعض واقعات خود میرے ساتھ پیش آئے، سبیل السلام حیدر آباد سے تخصص فی الفقہ کے بعد سن 1994ء میں چار ماہ کے لیے گورکھپور میں میرا قیام رہا، اس دوران وہ متعدد بار مولانا افضال الحقؒ سے ملاقات کے لیے وہاں حاضر ہوئے، اسی زمانے میں دعا اور تعویذ کے عنوان سے میں نے ایک کتاب مرتب کی تھی، جسے میں نے ان کی خدمت میں پیش کی، دیکھنے کے بعد انھوں نے بعض مفید مشورے دیئے، جس پر عمل کرتے ہوئے حذف و اضافہ کردیاگیا اور فرمایا کہ اس کی طباعت کا خرچ میرے ذمے ہے، اور فوراً اس کی پوری رقم میرے حوالے کردی، اس کتاب کا انتساب ان کے نام کرتے ہوئے لکھا گیا تھا۔
’’ اس عظیم شخصیت کے نام جس کے التفات و کرم کا ہمیشہ ممنون و مشکور رہوں گا‘‘
انداز درس:
ان سے مجھے بوستاں اور نور الایضاح پڑھنے کا شرف حاصل ہے، ان کے پڑھانے کا انداز بڑا شگفتہ شستہ، نرالا اور البیلا تھا، سبق کے دوران اشعار، لطیفے اورکہانیاں اس انداز سے سناتے کہ پوری محفل زعفران زار بن جاتی اور بوریت کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ذہن ادھر ادھر بھٹکتا ، بلکہ پوری یکسوئی ہوتی ، جس کی وجہ سے کسی طرح کا بوجھ محسوس کئے ہوئے پورا سبق ذہن کے خانے میں محفوظ ہوجاتا، ان سے سنے ہوئے بہت سے قصے اوراشعار آج بھی یاد ہیں، جو ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
بیماری اور وفات:
2012ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں وہ مستقل صاحب فراش ہوگئے تھے اور ؍اکتوبر2018ء کو وہ آفتاب علم اور ماہتاب عمل غروب ہوگیا، جومسلسل 35؍ سال تک علم و ادب کی روشنی بکھیرتا رہا اور 1978ء سے 2012ء تک مسند درس کے لیے باعث زینت تھا اور اس دربار میں جا پہنچا ، جہاں کے قصے وہ بکثرت سنایا کرتا تھا،اور جہاں کے تذکرے ہر وقت اس کی زبان پر رہا کرتے تھے، اور امید ہے کہ مالک حقیقی اور سب سے زیادہ رحیم و کریم ہستی ان کے ساتھ مہربانی اور کرم کا معاملہ کرے گی۔
یقینا وہ اللہ کے ان نیک بندوں میں سے تھے، جو وفات کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں، ان کے وجود کو محسوس کیا جاتا ہے، مجلسوں میں ان کے چرچے ہوتے ہیں اور ان کی خوبیاں زبان زد ہوتی ہیں، ان کی یادوں سے دل آباد رہتے ہیں، اور ان کے کمالات نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں، بلا شبہ وہ اپنے اخلاق و کردار اور ایثار و قربانی کی وجہ سے
ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔