بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(23)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
23-ناقص تصویر :
تصویر درحقیقت سر کا نام ہے اس لیے سر کاٹ دیا جائے تو تصویر باقی نہیں رہتی ہے لہذا اس کا استعمال جائز ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:
اسْتَأْذَنَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” ادْخُلْ ". فَقَالَ : كَيْفَ أَدْخُلُ وَفِي بَيْتِكَ سِتْرٌ فِيهِ تَصَاوِيرُ، فَإِمَّا أَنْ تُقْطَعَ رُءُوسُهَا، أَوْ تُجْعَلَ بِسَاطًا يُوطَأُ ؛ فَإِنَّا مَعْشَرَ الْمَلَائِكَةِ لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ تَصَاوِيرُ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے لیے جبرائیل علیہ السلام نے اجازت طلب کی، آپ نے فرمایا اندر آجاؤ۔ انہوں نے کہا :میں آپ کے گھر کیسے آسکتا ہوں جب کہ پردے میں تصویر بنی ہوئی ہے؟ یا تو اس کا سر کاٹ دیا جائے یا اسے بچھونا بنا لیا جائے جسے روندا جائے کیونکہ فرشتوں کی جماعت ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتی ہے جس میں تصویریں ہوں۔(نسائي:5365)
انھیں سے منقول ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں ہے:
اتاني جبريل فقال إني كنت اتيتك البارحة فلم يمنعني ان اكون دخلت عليك البيت الذي كنت فيه الا انه كان في باب البيت تمثال الرجال وكان في البيت قرام ستر فيه تماثيل وكان في البيت كلب فمر برأس التمثال الذي بالباب فليقطع فليصر كهيئة الشجرة ومر بالستر فليقطع ويجعل منه وسادتين منتبذتين يوطان ومر بالكلب فيخرج.(ترمذي ٢٨٠٦،أبوداؤد ٤١٥٨)
جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا کل گزشتہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا مگر آپ کے کمرے میں اس لیے داخل نہیں ہوا کہ دروازے پر مردوں کی تصویریں تھیں اور گھر میں تصویر دار پردہ اور کتا تھا ،دروازے کی تصویر کے بارے میں حکم دیجیے کہ اس کے سر کو کاٹ دیا جائے تاکہ وہ درخت کی طرح ہو جائے اور پردے کو پھاڑ کر اس سے دو تکیے بنا لیے جائیں جو زمین پر پڑے ہوں اور لوگ اسے روندیں اور کتے کو باہر نکال دیا جائے ۔
اور حضرت ابو ہریرہ کا فتوی ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:
الصورة الراس فكل شيء ليس له راس فليس بصورة.
تصویر درحقیقت سر کا نام ہے لہذا جس چیز میں سر نہ ہو تو وہ تصویر نہیں ہے۔(شرح معانی الآثار 366/2)
اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمت اللہ علیہ لکھتے ہیں:
” خلاصہ یہ ہے کہ وہ ناقص تصویر جس میں سر نہ ہو اس کا بنانا جائز ہے خواہ ہاتھ پاؤں یا تنہا آنکھ ،ناک وغیرہ اعضا کی تصویر یا علاوہ سر کے اور باقی سب بدن کی تصویر ہو۔”
"خلاصہ کلام دربارہ تصویر کشی یہ ہے کہ چہرے کے سوا باقی اعضاء بدن، ہاتھ، پیر ،آنکھ ،ناک وغیرہ کی تصویر بنانا جائز ہے اور محض سر کی یا نصف اعلی کی تصویر بنانا حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے ۔البتہ پاسپورٹ وغیرہ کی شدید ضرورت کے لیے اس کے کھنچوانے کی گنجائش ہے”
ناقص تصویریں جن میں چہرہ نہ ہو خواہ باقی بدن تمام موجود ہو اس کا استعمال اور گھر میں رکھنا بھی جائز ہے۔۔۔لیکن اگر ناقص تصویر میں چہرہ موجود ہو خواہ باقی بدن نہ ہو ایسی تصویر کا استعمال اکثر فقہاء کے نزدیک جائز نہیں ہے مگر بعض حضرات حنفیہ اور اکثر مالکیہ اس کے استعمال کو بھی جائز فرماتے ہیں۔۔۔(جواہر الفقہ 7/ 253،257،261)
اس لئے کہ اس معاملے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر تصویر کا سر کاٹ دیا جائے یا اس پر سیاہی وغیرہ پھیر دی جائے تو وہ تصویر نہیں رہتی اسی طرح سے اگر جسم کے اس حصے کو کاٹ دیا جائے جس کے بغیر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا ہے جیسے کہ سینہ ، پیٹ یا گردن تو وہ بھی ممنوع تصویر کے دائرے میں باقی نہیں رہتی ۔مالکیہ ، حنابلہ اور بعض حنفیہ اسی کے قائل ہیں ، چنانچہ فقہ حنبلی کی ترجمانی کرتے ہوئے علامہ ابن قدامہ رقم طراز ہیں:
اگر سر کاٹ دیا جائے تو کراہت ختم ہو جائے گی اس لیے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا کہ تصویر تو سر کا نام ہے لہذا اگر سر کاٹ دیا جائے تو وہ تصویر نہیں ہے۔۔۔اور اگر جسم کے اس حصے کو کاٹ دیا جائے جس کے بغیر کوئی جاندار زندہ باقی نہیں رہ سکتا جیسے سینہ یا پیٹ ۔یا سر موجود ہو لیکن اسے بدن سے الگ کر دیا جائے تو وہ ممانعت میں داخل نہیں اس لئے کہ اس حصے کے ختم ہوجانےکے بعد تصویر باقی نہیں رہتی ہے لہذا یہ سر کاٹ دینے کے حکم ہے۔اور اگر اس کے ختم ہوجانےکے بعد بھی زندگی ممکن ہو جیسے کہ آنکھ ،ہاتھ اور پیر تو وہ تصویر ہے اور ممانعت میں داخل ہے اور اگر شروع ہی میں سر کے بغیر جسم، یا جسم کے بغیر سر بنایا گیا ہے یا سر جاندار کا اور جسم غیر جاندار کا بنایا گیا ہے تو وہ ممانعت میں شامل نہیں کیونکہ وہ جاندار کی تصویر نہیں ہے۔ (المغنی 7/7)
مالکیہ کے یہاں بے سایہ تصویر جائز ہے اور سایہ دار تصویر یعنی مجسمہ ان کے یہاں اسی وقت ناجائز ہے جب کہ جسم کے وہ تمام اعضاء موجود ہوں جس کے بغیر زندگی ممکن نہ ہو جیسے کہ سر کٹا ہوا ہو یا پیٹ یا سینہ چاک ہو ۔(الموسوعہ101/12)