نقوش مصلح الامت
کچھ اس کتاب کے بارے میں
مصلح الامت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحبؒ حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کے ان بافیض خلفاء میں سے تھے جن سے ایک خلق کثیر نے فائدہ اٹھایا ، اور ان کی ذات سے بے شمار قلوب کی اصلاح ہوئی ، اﷲ کا خاص فضل رہا کہ آپ کے سوانحی حالات اور تعلیمات کو آپ کے اہل قلم متعلقین نے محفوظ کردیا جس کی وجہ سے بالواسطہ آج تک آپ کا فیض جاری ہے ۔ آپ کے حالات پر تین کتابیں لکھی گئیں : حیات مصلح الامت ، حالات مصلح الامت اور تذکرہ مصلح الامت ۔ جن کی مجموعی ضخامت تقریباً دو ڈھائی ہزار صفحات تک پہنچتی ہے ، آج کے اس مصروف دور میں ضخیم کتابوں سے استفادہ ایک مشکل امر بنتا جارہا ہے۔
یہ سوچ کر مولانا ولی اﷲ مجید قاسمی۔۔۔۔ جو ایک صاحب ذوق عالم ومدرس اور بہترین ادیب وقلمکار ہیں۔۔۔۔ نے مذکورہ تینوں کتاب کو سامنے رکھ کر ’’نقوش مصلح الامت ‘‘کے نام سے ایک مختصر تلخیص تیار کردی ، تاکہ کم وقت میں حضرت مصلح الامت کا ایک اجمالی تذکرہ نگاہوں کے سامنے آجائے ، اس کے بعد اگر کوئی چاہے تو پھر ’’حیات مصلح الامت‘‘، ’’تذکرہ مصلح الامت ‘‘ یا ان میں سے سب سے مفصل وضخیم سوانح ’’حالات مصلح الامت ‘‘سے اپنے ذوق وصلاحیت کے مطابق مستفید ہوسکتا ہے ۔
میں نے یہ رسالہ حرف بحرف پڑھا اور اسے مفید پایا، ہزاروں صفحات کو چالیس صفحات میں سمیٹ دینے سے تشنگی کا احساس ہونا بالکل بجا ہے ، لیکن ان شاء اﷲ یہی تشنگی بہتوں کو ان ضخیم سوانح حیات تک پہنچائے گی اور ان سے سیرابی کا سبب بنے گی۔
ضیاء الحق خیرآبادی
نقوشِ مصلح الامت ؒ
[یہ مضمون زیادہ تر استاذ محترم مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ صاحب کی کتاب حیات مصلح الامت سے ماخوذ ہے اور بعض جگہوں پر تذکرہ مصلح الامت تالیف: مولانا قمر الزماں صاحب اور حالات مصلح الامت تالیف: مولانا عبدالرحمن جامی صاحب سے مدد لی گئی ہے ۔( ولی اللہ مجید قاسمی)]
مجدد ملت ، حکیم الامت حضرت تھانویؒ ایک آفتاب عالم تاب تھے جن سے سینکڑوں لوگوں نے کسب فیض کرکے دنیا کو روشنی بخشی ، بزم اشرف کے ان روشن اور تابناک ستاروںمیں سرفہرست مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ نور اللہ مر قدہ کانام نامی اور اسم گرامی ہے جن کے ذریعے لوگوںکی زندگیوںمیں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا ، دلوں میں محبت الٰہی اور اتباع نبوی کی شمع روشن ہوئی اور سنت و شریعت کا نور دور دور تک پھیلتا گیا ۔
و ہ حکیمانہ انداز میں ارشاد و تربیت اور قلوب و اعمال کی اصلاح کرتے اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو اللہ کی راہ دکھاتے ، ایمان و یقین اور اخلاص و تقویٰ کی شمع روشن کرتے اور بدعات وخرافات اور شک و نفاق کی تاریکی دور کر تے رہے، یہی ان کا مشغلہ تھا اور یہی ان کی کمائی تھی ، ایسا لگتا تھا کہ ان کے رگ و پے میں اصلاح امت کی فکر مندی اور در د مندی کی بجلی سرایت کیے ہوئے جس نے انہیں سراپا بے چین ، مضطرب اور دردو سوز کی تصویر بنا رکھا ہے ۔
ماحول اور خاندان :
اعظم گڑ ھ سے مشرق کی طرف تقریباً چالیس کلومیٹر کی مسافت پر فتح پور تال نرجا کے نام سے مسلمانوں کی ایک بڑی بستی آباد ہے ، چونکہ یہ آبادی نرجا نامی تال (جھیل ) کے ساحل پر واقع ہے ، اس مناسبت سے اسے تال نرجا اور فتح خان کی مناسبت سے فتح پور کہاجاتا ہے ، فتح خان اس خاندان کے مورث اعلیٰ ملک دیندار کے پڑپوتے اورمصلح الامت کے سلسلۂ نسب میں بارہویں پشت پر ہیں ۔
مورث اعلیٰ کنور سنگھ کا تعلق راجستھان کے ایک راجپوت گھرانے سے ہے ، راجپوتانہ میں جس وقت اسلامی فوجیں اپنے قدم جمارہی تھیں اس زمانے میں یہ لوگ وہاں سے فرار ہوکر اعظم گڑھ کے اس علاقے میں آکر آباد ہوگئے مگر کسے معلوم تھا کہ جس دین سے فرار ہوکر انہوںنے وطن چھوڑاہے وہی ان کے دل و دماغ کو اسیر بنالے گا ، چنانچہ 834ھ میں جونپور کے فرماں روا ابراہیم شاہ شرقی کے ہاتھ پر انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ملک دیندار نام رکھا گیا ۔
’’مصلح الامت ‘‘ کے والد ماجد کانام محمد یعقوب ہے جو حافظ قرآن تھے اور علاقے کے معزز اور دیندار لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا اور والدہ ماجدہ دینداری ، خدا ترسی اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ایک مثالی خاتون تھیں ۔
پیدائش اوربچپن :
غالب گمان یہ ہے کہ آپ کی پیدائش1312ھ مطابق1895ء میں ہوئی اور بچپنے ہی سے آپ میں صلاح و تقویٰ کے آثار نمایاں تھے ، عام طور پر بچے جس طرح کے کھیل کود وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں آپ کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، والدہ محترمہ کہا کرتی تھیں کہ یہ پیدائشی اللہ والے ہیں ، ان سے کبھی مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچی ، عہد طفلی میں بھی آپ نے کبھی اپنے ہم جولیوں اور ہم سبق ساتھیوں سے نہ کبھی لڑائی کی اور نہ ہی ان کی کسی سے شکایت کی ، نہ تو استاذ سے اور نہ گھرکے لوگوں سے، اور نہ کبھی کسی کو شکایت کا موقع دیا ۔
تعلیم:
آپ نے الگ سے ناظر ہ یا مکتب کی تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ آپ کی تعلیم کی ابتدا ء حفظ کلام پاک سے ہوئی اور آپ کے استاذحافظ ولی محمد صاحب تھے جو ایک صاحب نسبت اور صاحب کشف و کرامت بزر گ تھے ، وہبی قوت یاد داشت اور محنت ولگن کی وجہ سے بہت کم مدت میں آپ نے اللہ کے کلام کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا اور دس گیارہ سال کی مدت میں حافظ قرآن ہوگئے ۔
آپ کی صالحیت اور ذہانت کو دیکھ کر خدا رسیدہ استاذ نے محسوس کر لیاتھا کہ آگے چل کر یہ بچہ آسمان رشد و ہدایت پر روشن آفتاب بن کر چمکے گا ، اس لیے انہوں نے نصیحت کی کہ دیکھو بیٹے تم عربی ہی پڑھنا مگر صورت حال یہ تھی کہ گاؤں میں اردو لکھنے پڑھنے اور حفظ قرآن سے زیادہ تعلیم کا کوئی نظم نہیں تھا اور آپ کے دو بڑے بھائی انگریزی تعلیم حاصل کرکے سرکاری عہدوں پر فائز اور بھوپال میں مقیم تھے ، اس لیے حصول علم کے مقصد سے ان کے ساتھ بھوپال چلے گئے ، آپ کی ذہانت اورتعلیم سے خصوصی دلچسپی کی وجہ سے گھر کے لوگوں کی خواہش تھی کہ آپ دنیا وی تعلیم حاصل کریں تاکہ کسی اونچے منصب اور عہد ہ پر سرفراز ہوسکیں مگر آپ دینی تعلیم کے لیے اصرار کرتے رہے ، اس کشمکش سے آپ بہت پریشان تھے اورتنہائی میں روتے اوردعا کرتے : اے اللہ ! مجھے ایسی عزت دے کہ ان لوگوں پر واضح ہوجائے کہ علم دین حاصل کرنے والا دنیا میں بھی کامیاب اور سر فراز ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ،ان کی استقامت ، ثابت قدمی اور اعتماد و خود شناسی کو دیکھ کر گھروالوں نے انہیں ان کی مرضی پر چھوڑ دیا اور وہ فتح پور واپس آگئے ۔
مولانا محمد عثمان صاحب فتح پوری اس وقت کانپور میں عربی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے ، وہ انہیں اپنے ساتھ کانپور لے گئے ، چونکہ وہ عربی کے آخری درجات میں تھے اس لیے انہوں نے آپ کو فارسی کی کچھ کتابیں پڑھائیں اور جب وہ فضیلت کیلئے دیوبند جانے لگے تو آپ بھی ان کے ساتھ ہوگئے ، مولانا موصوف نے 1328ھ(1910ء)میں دورۂ حدیث میں داخلہ لیا اور آپ نے ابتدائی درجے میں ، اس وقت آپ کی عمر چودہ پندرہ سال رہی ہوگی ۔
جس وقت آپ دارالعلوم پہنچے وہ علم و عمل اور عرفان و احسان کے اعتبار سے دارالعلوم دیوبند کا عہد زریں تھا ، آپ کے اساتذہ میں سے ہر شخص علم و فضل کا شہسوار اور زہد و تقویٰ ، اخلاص و للہیت ، امانت و دیانت ، محبت الٰہی اور اتباع نبوی میں یکتائے روزگارتھا ، علامہ انور شاہ کشمیری ، مولانا اصغر حسین دیوبندی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا حبیب الرحمن عثمانی دیوبند ی ، شیخ الادب مولانا اعزا ز علی امروہی ، جامع المنقول و المعقول علامہ ابراہیم بلیاوی ، مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمن دیوبندی جیسے آفتاب علم و ہدایت اور سلاطین رشد ومعرفت آپ کے اساتذہ میں سرفہرست ہیں ۔
آپ کے ہم سبق، مولانا،مفتی محمد شفیع صاحبؒ دوران تعلیم آپ کی کیفیت کے بارے میں رقم طراز ہیں :
’’آج سے 56 سال پہلے1331ھ(ستمبر 1913ء) میں جب احقر نے دارالعلوم دیوبند میں کافیہ و قدوری وغیرہ کے اسباق میں داخلہ لیا تو ضلع اعظم گڑھ کے رہنے والے ایک ذہین و فطین مگر سیدھے سادے طالب علم سے ہم سبق ہونے کی حیثیت سے تعلق قائم ہوا اور دار العلوم کے بہت سے اسباق میں ان کے ساتھ شرکت رہی، مگر دوران تعلیم ہی میں ان کو اصلاح اعمال کی فکر اور ذوق عبادت حق تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا ، طالب علمانہ شوخیاں ان کے پاس سے ہو کر نہیں گزریں اور اجتماعات سے الگ تھلگ رہنے کے عادی تھے ‘‘۔ (ماہنامہ البلاغ ، کراچی ، شوال.1387ھ)
غرضیکہ زمانہ طالب علمی میں طلبہ کی باہمی مجلس بازیوں اور میل جول سے کنارہ کش اور دعوت وغیرہ میں جانے سے گریزاں رہے ، وقت کی قدرکرتے اورفرصت کے لمحات کوغنیمت جانتے اور جفاکشی اور محنت کے ساتھ حصول علم میں لگے رہتے ، دلِ درد مند اورفکر ارجمند سے متصف تھے اس لیے دوران درس جب کبھی جنت و جہنم کا ذکر ہوتا ، عذاب قبر اور قیامت کی ہولناکی بیان کی جاتی ، آخرت سے متعلق آیات و روایات پڑھتے تو بہت زیادہ متاثر ہوتے اورسبق ختم ہونے کے بعد خامو ش اور غم زدہ ہوکر کمرے میں واپس آتے تو بعض طلبہ مذاق اڑاتے اور کہتے کہ ان کو دیکھو یہ صوفی ہیں اورسبق سے اثر لے کر آئے ہیں ، ان کی یہ حالت دیکھ کرآپ کڑھتے لیکن نہ تو کسی سے لڑتے اور نہ کسی کو حقیر سمجھتے ۔
دیوبند قیام کے دوران ایک مسجد میں امامت بھی کیا کرتے تھے ،اس محلے کے ایک صاحب دارالعلوم کے مہتمم حافظ احمد صاحب سے ملاقات کے لیے آئے ، انہوں نے پوچھا : کہیے ! ہم نے آپ کو کیسا امام دیا ہے ، انہوں نے کہا بہت ہی اچھے امام ہیں ، بہت پابند ، نہایت مستعد اور بالکل بے زبان اور ولی انسان ہیں ۔
دیو بند میں آپ نے آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی اور ہمیشہ اول نمبر سے کامیاب ہوتے رہے ، جس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ زہد و تقویٰ اور عبادت میں انہماک کے ساتھ حصول علم میں بھی آپ تندہی سے لگے رہے اور کسی ایک جانب مشغول ہوکر دوسرے پہلو سے غافل نہیں ہوئے ، حالانکہ عام طورپر طلبہ اس معاملے میں اعتدال پر قائم نہیں رہ پاتے ، 1328ھ(1910) میں دارالعلوم میں آپ داخل ہوئے اور شعبان 1336ھ ( مئی 1918ء ) میں علوم درس نظامی کی تکمیل کی ۔
بیعت و اِرادت :
اکابر دیوبند کا معمول تھا کہ وہ طلبہ کو دوران تعلیم بیعت نہیں کیا کرتے تھے تاکہ تعلیمی یکسوئی اور انہماک متاثر نہ ہو لیکن اگر کسی کے بارے میں اطمینان ہو جاتا کہ اس کے لیے بیعت و سلوک علمی انہماک کے لیے مضر نہیں ہے تو اسے بیعت کر لیتے ، شاہ صاحب بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جن پر مرشد کو اعتماد تھا کہ وہ حصول علم اور تزکیہ و احسان کی راہ کو ایک ساتھ طے کر سکتے ہیں ، اس لیے طالب علمی کے زمانے ہی میں شیخ الہند نے انہیں اپنے حلقہ ارادت میں شامل کر لیا اور پھر انہیں مالٹا میں مقید کیے جانے کی وجہ سے حضرت تھانوی ؒ سے بیعت ہو گئے اور تھانہ بھون آمد و رفت شروع ہوگئی اورپھر مقامات سلوک طے کر نے اور تزکیہ و احسان کے منزل پر پہنچنے کے بعد خلعت خلافت سے سر فراز کیے گئے ۔
1336ھ میں آپ رسمی تعلیم سے فارغ ہوئے اور1362ھ (جولائی 1943)میں حضرت تھانوی کی وفات ہوئی ، اس طرح سے چھبیس سال سے زیادہ مدت تک آپ کو بزم اشرف میں حاضری کاموقع ملا ، جس میں ایک طویل عرصے تک آپ نے تھانہ بھون میں قیام کیا ، اس دوران حکیم الامت اکثر انہیں اپنے مسودات کو صاف کرنے کے لیے دیتے اور علمی کاموں میں آپ سے تعاون لیتے ، حضرت تھانوی کی مشہور کتاب حیات المسلمین کے مقدمے میں وارد قرآنی آیات اوراشعار وغیرہ کا ترجمہ آپ کا کیا ہوا ہے نیز تربیت السالک کامقدمہ بھی آپ کے قلم سے ہے ، اسی طرح سے حضرت تھانوی کے ایماء پر آپ نے بیان القرآن کی تسہیل کا کام شروع کیا تھا جسے انہوں نے پسند فرمایا لیکن بعض عوارض کی وجہ سے تسہیل کاکام مکمل نہ ہوسکا ، اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ مرشد تھانوی کو علمی معاملات میں آپ پر کس قدر غیرمعمولی اعتماد تھا ، حضرت تھانویؒ کے بارے میں یہ ذہن میں رہے کہ وہ زندگی کے تما م معاملات اور خاص کر علمی مسائل میں حد درجہ محتاط تھے ، اس لیے اس درجہ احتیاطی بندشیں رکھنے والا اگر کسی کے علم و فہم پر اعتماد کر لے تو اس کے علمی کمال میں کیا شبہ ؟
درس و تدریس :
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے فوراً بعد مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری کی خواہش پر حضرت تھانویؒ نے آپ کو تدریس کے لیے احیاء العلوم مبارک پور بھیج دیا ، جہاں آپ تنخواہ کے بغیر تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اسی کے ساتھ ایک مسجد میں امامت بھی کرتے رہے ، مبارکپور میں پانچ سال تک آپ کا قیام رہا اورپھر حضرت تھانوی کے حکم پر تھانہ بھون آگئے اور مسلسل دوسال تک وہاں رہے اور خانقاہ سے وابستہ مدرسہ امدا د العلوم میں پڑھاتے اور خانقاہ کی مسجد میں امامت کرتے1343ھ(1925ء) میں فتح پور آئے اور نکاح کی سنت ادا کی اور مبارک پور والوں کی درخواست پر دوبارہ صفر 1345ھ( اگست 1926ء) میں احیاء العلوم تشریف لائے اور رجب 1345ھ(جنوری1927ء) تک وہاں رہے اور پھر مستقل طور پر فتح پور واپس آگئے ، یہاں کچھ عرصہ تک درس وتدریس کا سلسلہ منقطع رہا اور خانقاہ کا نظام مستحکم ہوجانے کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہوگیا اور بعض لوگوں کو درس نظامی کی تمام کتابیں پڑھائیں ، قاری محمد مبین صاحب ، مولانا محمد قمر الزماں صاحب ،مفتی محمد حنیف صاحب ،مولانا نور الہدیٰ صاحب ، مولانا عبدالعلیم عیسیٰ صاحب ، مولانا عمار احمد صاحب اور مولانا ارشاد احمد صاحب وغیرہ کی پوری تعلیم آپ کے یہاں ہوئی ہے ۔ ( حیات مصلح الامت/119)
ارشاد وتربیت :
ایمان و یقین اور علم و عرفان کے چشمہ آب حیات سے فیض یاب اور سیراب ہوجانے کے بعد اب وقت آگیا تھا کہ مرشد تھانوی کے ہاتھوں حق تعالیٰ کی جو امانت آپ کو سونپی گئی ہے اسے مخلوق میں عام کریں ، مر شد تھانوی کی طرف سے متعدد بار اس طرح کے اشارے مل چکے تھے کہ میر ی جانشینی کے لائق صرف ایک شخص ہے ، چنانچہ آپ نے فرمایا :
’’ہمارے احباب میں علماء و صلحاء و اتقیاء سبھی ہیں مگر جانشینی کیلئے جو فنا اور جو آداب و شرائط ہیں وہ کسی میں نہیں بجز ایک آدمی کے ، مگر وہ اس قدر گمنام ہے کہ تم لوگوں کی نگا ہ اس کی طرف نہیں جاسکتی ہے اور بس وہی ایک آدمی اس کے لائق ہے ، اس لیے معاملہ خدا کے سپر د کر تا ہوں ،جب وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ خود ہی کا م لیے لیں گے ‘‘۔
اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا اور اعتراف کرنے والوں نے اعتراف کیا کہ یقینی طور پر حضرت تھانوی کے اس جملے سے مراد مصلح الامت تھے ، آپ کے ہم سبق ، مفتی اعظم ، حضرت مولانا محمد شفیع صاحب کہتے ہیں کہ :
’’لیکن اپنے اس صحرا نورد ہم سبق دوست کے کمالات کی عظمت ہمیشہ دل میں رہی ہے ، اس وقت بھی میں یہ سمجھاکرتا تھا کہ حضرت رحمۃ اللہ کے خلفاء میں ایک خاص تعداد ایسے حضرات کی ہے جو اپنی جگہ آفتاب و ماہتا ب ہیں مگر ان کی روشنی اس آفتاب عالم تاب کے سامنے ظاہر نہیں ہوتی ہے ، حضرت کے بعد یہ حضرات ہی مرجع خلائق بنیں گے ، ان میں خصوصیت سے مولانا شاہ وصی اللہ صاحب اور حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری ثم لاہوری پر نظر جاتی تھی اور حضرت قد س سرہ کی وفات کے بعد آنکھوں نے اس کا مشاہدہ کیا کہ ان دونوں بزرگوں کی مجلس ایک کیمیائی تاثیر رکھتی تھی ، ہزاروں مسلمانوں کی زندگیوں میں ان کی صحبت وتعلیم سے عظیم دینی انقلاب آیا ، ہزاروں بہکے ہوؤں کو راستہ پر لگا دیا ‘‘۔
اور مولانا عبدالباری ندویؒ لکھتے ہیں :
’’ورنہ حضرت فتح پوری کی ذات بابرکات میں بعض باتیں تو ایسی جمع پائیں جو اپنے مرشد اعلیٰ حضرت تھانوی کے نادر الوجود کمالات کا ہو بہو نقشہ آنکھوں کے سامنے کر دیتی ہیں ‘‘۔(حیات مصلح الامت :454)
اورمولانا مناظر احسن صاحب گیلانی لکھتے ہیں :
’’مولاناعبدالباری ندوی کے واسطے سے دیکھ رہاہوں کہ قلب کا غیر معمولی رجحان جناب والا کی طرف بڑھتا چلاجاتا ہے ، حکیم الامت قدس سرہ کی صحبت کا لطف اب بھی میسر آسکتا ہے ، دل میں اس کی امید پیدا ہوگئی ہے ‘‘۔(حیات :386)
فتح پور میں قیام کے بعد آپ نے اپنے آبائی گھر میں اپنے لیے ایک خام حجرہ یا چھپر بنا لیا تاکہ یکسوئی کے ساتھ نوافل پڑھ سکیں اور اللہ کو یاد کر سکیں اور مکان سے کچھ دوری پر باہری مسجد واقع ہے ، وہیں امامت کرنے اور عصر کے بعد وعظ و نصیحت کر نے لگے ، گائوں کے نیک طبع نوجوان آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے استفادہ کرتے اور کچھ لوگ باضابطہ آپ سے بیعت ہوگئے اور کچھ دنوں کے بعد مستفیدین اور متعلقین کے قیام کے لیے مسجد کے ایک حصے میں پھوس کا چھپر ڈال دیا گیا ، گویاکہ خانقاہ کی ابتدا ہوگئی ۔
آبادی کے لوگوں کو دین کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ قرب وجوار کے علاقوں میں دعوت دین کے مقصد سے دورہ کر نے لگے اور کبھی کبھی وہاں ہفتہ ہفتہ بھر قیام بھی کرنے لگے ،خاص کر کوپاگنج کے لوگوں نے آپ سے خوب استفادہ کیا ۔
کچھ سالوں کے بعد آپ نے تال کے قریب اپنا رہائشی مکان بنالیا اور وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر موجود مسجد میں نماز ادا کرنے لگے اور قرب و جوار کے علاقوں سے متعلقین و متوسلین آنے لگے تو کچھ عرصہ تک مولانا عبدالقیوم صاحب کے بر آمدے میں ان کے قیام کا انتظام رہا اور مولانا اور ان کے گھر کے لوگ خوش دلی سے اور اپنی سعادت سمجھتے ہوئے مہمانوں کی خدمت کرتے رہے اور اسی دالان میں مدرسہ انوار العلوم چلتارہا اور پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کے لیے مستقل عمارت بنادی جائے ،چنانچہ مسجد سے پچھـم طرف چار کمرے اوردالان پر مشتمل مٹی کی خانقاہ بنا دی گئی لیکن جب دور دراز کے علاقوں سے کثرت سے لوگوں کی آمد و رفت ہونے لگی تو جگہ کی تنگی کا احساس ہونے لگا اور ایک کشادہ اور وسیع خانقاہ کی ضرورت محسوس ہونے لگی ، چنانچہ پندرہ شعبان 1372ھ(30؍ اپریل 1953ء) کی رات میں قدیم خانقاہ کی جگہ ایک نئے خانقاہ کی بنیاد رکھ دی گئی اور پندرہ دن کی مختصر مدت میں تیس شعبان کو تیرہ کمرہ اور برآمدہ پر مشتمل ایک وسیع خانقاہ کی تعمیر مکمل ہوگئی ، رمضان میں کام روک دیا گیا اور عید بعد دوبارہ تعمیری کام شروع ہوا اور دوسری منزل پر کل بارہ کمرے بنائے گئے ، دونوں منزل پر کل پچیس کمرے ہیں جو مجموعی طورپر 33دن میں تیار ہوئے ، کمرے چھوٹے چھوٹے بنائے گئے جس میں بس دو یا تین لوگوں کی گنجائش ہے تاکہ خلوت و یکسوئی میسر ہو جو کہ خانقاہ کا اصل مقصد ہے اور پھر دو سال بعد 1374ھ میں قدیم مسجد کو شہید کرکے ایک وسیع مسجد کی بنیاد رکھ دی گئی اور 1375ھ(1955ء) میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی جو اپنی سادگی کے باوجود فن تعمیر کی شاہکارہے ۔
لکھا جاچکا ہے کہ شروع میں آبادی کے چند لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت والا نہایت نرمی اور دل سوز ی سے انہیں دین کی باتیں سکھاتے ، سنت و شریعت کی عظمت دل میں بٹھاتے اور اللہ کی محبت کے نغمے سناتے اور اتباع نبوی کا جذبہ بیدار کرتے جس کا نتیجہ ہوا کہ لوگوں میں تبدیلی آنے لگی ، عبادت کا ذوق پیدا ہوا ، لباس وپوشاک بدل گئے ، چہرے پر نور بر سنے لگا اور اللہ اور اس کے بندوں سے تعلقات کی درستگی ، ظاہر و باطن کی صفائی اورمعاملات کی اصلاح کی فکر پیداہوگئی اور اسی کے ساتھ حضرت والا فتح پور سے متصل دوسری مسلم آبادیوں کا دورہ کر نے لگے اور راحت و آرام کو تج کرکے دعوت وتبلیغ اور اصلاح امت کے فریضے میں مشغول ہوگئے ، صبح میں کہیں ہوتے تو دوپہر میں کہیں اور ، رات فتح پور میں گزرتی توفجر کی نماز کوپا گنج میں ہوتی ؎
شرع محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفاں حلال، لذت ساحل حرام
غرضیکہ شمع ہدایت نے نور حق کو پھیلانے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی ، وہ خود تو گھلتی اور پگھلتی رہی لیکن لوگوں کی زندگیوں میں روشنی بکھیرتی رہی کہ ؎
پھونک کر اپنے آشیانے کو بخش دی روشنی زمانے کو
ایسا لگتا تھا کہ ملت اسلامیہ کی دینی و اخلاقی ابتری ، معاشرتی بگاڑ اورفکری آوارگی اور ناہمواری کو دیکھ کر آپ میں بجلی جیسی تڑپ اور کڑک پیدا ہوگئی تھی جو آپ کو ہر لمحہ مضطرب کیے ہوئے تھی ، آپ کے دل میں اصلاح و ہدایت کا ایک شعلہ روشن تھا جو ہر وقت آپ کو بے چین کیے رہتا تھا ، کبھی انتہائی نرمی کے ساتھ تلقین کرتے اور کبھی غیظ وغضب کے ساتھ ، غرضیکہ رحمت وغضب کی اس طرح سے آمیزش تھی کہ نہ تو کوئی مایوسی میں مبتلا ہوتا اور نہ کوئی کاہلی کا شکار ہوتا ، اگر کسی پر ناامیدی کی پرچھائیں بھی پڑجاتی توفوراً سراپا رحمت بن کر اسے ڈھارس اور تسلی دیتے اور اگر کسی میں غفلت و سستی دیکھتے تو ناراضگی کا ہاتھ نمودار ہوتا اور ساری غفلت اور کاہلی کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ۔
حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح کی فکر میں ڈوبے رہتے اور ہدایت کا جذبہ آپ کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا بلکہ مسلسل حرکت و جوش میں رکھا اور اخلاص کی برکت سے اس کے اثرات بھی نمایاں ہونے لگے ، جہالت کی تاریکی ختم ہونے لگی ،شریعت وطریقت کا نور پھیلنے لگا ،گھرگھر علم کا چرچا ہوا اور عبادتوں کا ذوق بڑھا ، آپ کی مجلس میں شریک ہونے والے کہتے ہیں کہ جب وہ وہاں سے اٹھتے تو نمایاں طور پر دل میں نورانیت ، گناہوں پر ندامت ، خشیت الٰہی میں شدت اور ایمان ویقین میں اضافہ محسوس ہوتا ۔
اور فتح پور نامی ایک چھوٹی سے آبادی میں جہاں پہنچنے کے لیے سواری کی کوئی سہولت نہیں تھی اور کچے راستے پر پیدل یا یکہ پر بیٹھ کر آنا پڑتاتھا بلکہ یکے پر بیٹھنے والے کوبھی راستے کی ناہمواری کی وجہ سے جگہ جگہ اتر کر اسے دھکا دینا پڑتا تھا ، رشد وہدایت کا چشمہ ابل پڑا اور علم و عرفان کے پیاسے راستے کی دشواری کی پرواہ کیے بغیرٹوٹے پڑ رہے تھے ، حضرت تھانوی کے خلیفہ اور مشہور فلسفی عالم ومصنف حضرت مولانا عبدالباری ندوی ایک ماہ یہاں مقیم رہے اور ’’چار ہفتہ ایک کہف میں‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو مولانا عبدالماجد دریا بادی کے زیر ادارت نکلنے والا جریدہ صدق میں شائع ہوا ۔ حضرت تھانوی کے خلیفہ خواجـہ عزیز الحسن مجذوب یہاں تشریف لائے ،مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا سید ابوالحسن ندوی جیسے اساطین علم استفاد ہ کے لیے فتح پور حاضر ہوئے ۔
نور حق کی روشنی پھیلتی رہی ، پروانے جو ق در جوق آنے لگے اور چراغ سے چراغ جلتا رہا ، لوگ مشقتیں اور پریشانیوں کو جھیل کر اس گاؤں میں آکر فروکش ہونے لگے ، طالبین و سالکین کے ذکر وفکر اور تسبیح و تلاوت کی برکت سے پوری آبادی بقعہ نور بن گئی اور ایک روحانی اور کیف آور ماحول بن گیا ، خود حضرت والا فرمایاکرتے تھے :
’’آدمی خدا کے لیے کام توکرے ، اگر اخلاص سے کوئی کام کر ے گا تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اس کے پاس بھیجیں گے ، کیونکہ سب لوگوں کی پیشانی خدا کی قبضے میں ہے ‘‘۔
مگر تاریکی کے پاسبانوں اور شیطان صفت انسانوں کو نورانیت اور روحانیت گوارا نہیں تھی اس لئے وہ اسے بجھانے اور مٹانے کیلئے مسلسل کوشاںرہے اور حضرت والا نے فتنے سے بچنے کیلئے ہجرت کے راستے کو اختیار فرمایا اور 22رمضان 1375ھ(3؍ مئی 1956ء ) کو گورکھپور چلے آئے ۔
وطن چھوڑنے کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا جامی صاحب لکھتے ہیں:
غرض جب حضرت والا گورکھپور تشریف لائے تو خود حضرت ہی نے اپنی تشریف آوری کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ میں نے دیکھا کہ اب یہاں (وطن میں)رہ کر سکون کے ساتھ اپنا کام نہ کر سکونگا یہ لوگ مجھے بھی اپنی ہی جماعت میں لے لیں گے اور مجھے دین کا کام کرنا ہے اس لئے ان دنیا داروں سے دوری اختیار کرو جب ہی کچھ کام کر سکوگے چنانچہ وطن سے چلا آیا۔(حالات مصلح الامت155/2)
قیام گورکھپور:
علم و دانش اور یقین و عرفان کی باد بہاری ایک دیہات سے منتقل ہوکر گورکھپور کے وسیع وعریض شہر میں چلنے لگی اور عاشقوں کا ہجوم بڑھنے لگا ، کیوںکہ آپ اقبال کے اس شعر کے مصدا ق تھے :
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
حضرت والا یہاں تقریباً ڈیڑھ سال تک مقیم رہے اور پھر علاج کے مقصد سے الٰہ آباد تشریف لے گئے ۔
قیام الٰہ آباد :
الٰہ آباد میں حضرت والا کے متعلقین اور مریدین کی ایک بڑی تعداد تھی ، ان کی خواہش ہوئی کہ آپ مستقل طورپر یہیں قیام کا ارادہ کرلیں ، چنانچہ آپ نے اسے منظور فرمالیا ، آپ کی بابرکت مجالس سے یہاں بھی خوشگوار اور ایمان افروز تبدیلی نظر آنے لگی اور لوگوں کے دلوں میں سنت نبوی کی اتباع کا جذبہ موجزن ہوگیا اور یکا یک زندگی کا دھارا دنیا سے مڑکر دین و آخرت کی طرف بڑھنے لگا ، کتنے چہرے نور سنت سے جگمگا اٹھے ، کتنے دل خوف آخرت سے لبریز ہوگئے اورجولوگ فرائض سے ناواقف تھے وہ سنتوں کے پابندہوگئے ، بلکہ
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے ۔
بعض اہل بدعت کی طرف سے یہاں بھی آ پ کی پرزورمخالفت ہوئی مگر آپ کے اخلاص ، جگر سوزی ، حسن اخلاق اور حسن تدبیر کے ذریعے ان کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں ناکا م ہوتی رہیں ،وہ لوگ مخالفت میں جتنی سر گرمی دکھاتے اسی قدر آپ کی شہرت ہوتی اورجو شخص ایک بار آپ کی مجلس میں شریک ہوجاتا پھر وہ دوبارہ کسی جانب رخ نہیں کرتا اور نہ کسی کے بہکاوے میں آتا ۔
آپ نے یہاں ڈھال والی مسجد کی تکمیل و توسیع فرمائی نیز اس کے اطراف میں مدرسہ کی بنیاد رکھی اور طلبہ کے لیے رہائشی کمرے بنائے گئے ۔
اسفار :
حضرت والا ایک جگہ بیٹھ کر کام کرنے کے قائل تھے ، کیوںکہ ایک جگہ جم کرکرنے سے کچھ کام ہوجاتا ہے اور ادھر ادھرمارے پھرنے سے کام میں پائیداری حاصل نہیں ہوتی ہے ، خود فرماتے تھے مجھے لوگوں کا آج یہاں کل وہاں کود کر جانا بالکل پسند نہیں ، کام کرنے والوںکو ایک جگہ جم کرکام کرنا چاہیے ،(حالات 304/1)اس لیے آپ ایک دیہات میں بیٹھ گئے اور اس یقین کے ساتھ بیٹھے کہ اگر اللہ کو مجھ سے کوئی کام لینا ہوگا تو اس کے اسباب و وسائل یہیں مہیا ہوجائیں گے ، چنانچہ دنیا نے دیکھ لیاکہ ان کا توکل سچا تھا اور تشنگان ہدایت نے دور دور سے آکر سیرابی حاصل کی مگر دنیا میں بہت سے پیاسے ایسے بھی ہوںگے جن کے لیے کنویں تک رسائی دشوار تر ہوگی ، پھر ان کی سیرابی کیسے ہوگی ؟ چنانچہ مشیت الٰہی یہ ہوئی کہ جس نے کنواں بن کر ایک جگہ رہنے کا عزم کیا تھا اسے بادل بناکر مختلف علاقوں میں بھیج کر برسایا گیا اور مردہ زمینوں میں اس کے واسطے سے زندگی کی لہر دوڑائی گئی ۔
سفر حج:
فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے 1936ء (ذی الحجہ1354)میں آپ نے حرمین شریفین کا سفر کیا،مگر اس سفر کی تفصیلات پردۂ خفا میں ہیں اور اس سفر کی یادگار کے طور پر ایک مصری عالم کی وہ تقریر ہے جسے حضرت والا اپنی مجالس میں بیان کیاکرتے تھے ۔
لکھنؤ کا سفر :
لکھنؤ کاسفر دومرتبہ ہوا ، ایک مرتبہ حضرت تھانوی کی زندگی میں پیرانی صاحـبہ کی آنکھ کی تکلیف کے علاج کے لیے اور دوسری مرتبہ 21مارچ1965ء میں جب آپ پر فالج کا حملہ ہوا اور شفاء الملک جناب حکیم شمس الدین کا علاج ہوا ، شاید آپ کے اسی سفر کے بارے میں مولانا ریاض احمد رشیدی رحمانی لکھتے ہیں کہ آپ بسبب علاج لکھنؤ تشریف لانے والے تھے تو شہر کے معززین میں خوشی کی لہر دوڑگئی تھی اور آپ کواپنے گھر لے جانے کے لیے سبھی لوگ کوشاں تھے لیکن آپ نے کسی کے گھر جانے سے انکار کر دیا اور ایک بڑے میدان میں قیام کرنے پر راضی ہوئے ، حکیموں نے کسی سے زیادہ ملنے جلنے سے پرہیز کرنے کے لیے کہا لیکن حضرت ملاقات ہونے پر عوام سے مخاطب ہوتے ، اس لیے حکیموں نے کہا کہ ملاقاتی ایک ایک منٹ ملاقات کرکے چلے جائیں ،چنانچہ آپ سے ملنے کے لیے سو سو کی لائنیں لگتی تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں معلوم نہیں کہاں کہاں سے مسلمان آکر اسی وسیع میدان میں نماز آپ کے ساتھ ادا کرتے ، اگر حضرت ایک ماہ اور وہاں ٹھہرجاتے تو وہاں مسجد ضرور تعمیر ہوجاتی (حالات مصلح الامت :291/1) گویا کہ لکھنؤ بیمار نہیں بلکہ مسیحا بن کے گئے تھے ۔
فتح پور کا سفر :
فتح پور سے گورکھپور اوروہاں سے الٰہ آباد آئے ہوئے چار سال ہوچکے تھے اوروہ جگہ جہاں کے ذرے ذرے سے اللہ کے نام کی صدا آتی تھی ،ہر طرف نور کی چادر تنی ہوئی تھی ، نورانی صورتیں جگمگارہی تھیں ، جہاں ہر روز اہل معرفت کا ایک قافلہ خیمہ زن ہوتا تھا ، اب وہ جگہ بالکل سنسان اور ویران پڑی ہوئی تھی ، خانقاہ اورمسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا تھا ، دل سے ایک سرد آہ نکلتی ، آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوجاتا اور دل رنجیدہ سے آواز آتی کہ کاش وہ روحانیت اور شادابی پھر لوٹ آتی ۔
فتنہ او رفساد برپا کرنے والوں کو اپنی غلطی اور نادانی کا احساس ہوچکا تھا ، یہاںتک کہ ان کا سرغنہ حضرت والا کے پیروں پر آکر گرگیا او ررو رو کر معافی مانگی اور فتح پور کے متعلقین و متوسلین بھی گورکھپور اور پھر الٰہ آباد آکر اپنی کوتاہی کی تلافی کرتے رہے اور کوشاں رہے کہ حضرت والا فتح پور تشریف لاکر اس اجڑے چمن کو آباد کر یں ۔
اور جب حضرت والا کو اطمینان ہوگیا کہ یہ لوگ معافی تلافی میں مخلص ہیں اور کسی طرح کے فتنے کا اندیشہ نہیں ہے تو 29شوال 1380ھ(اپریل 1961) کو فتح پور کے لیے روانہ ہوئے اور دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ جس وقت کوپا گنج سے پالکی پر بیٹھ کر فتح پور کے لیے نکلے تو کوپا گنج سے فتح پور تک راستے کے دونوں طرف فتح پو ر اور اطراف کے لوگ آپ کے استقبال کے لیے فرش راہ تھے اور قطار میں کھڑے ہوکر دیدہ ودل کو آپ کی زیارت سے شاد کام و سیراب کر رہے تھے ، عقیدت کی نگاہیں بچھی ہوئی تھیں اوردلوں میں خوشی و مسرت کا اتھاہ سمندر لہریں لے رہا تھا ، حضرت والا کی ہمرکابی میں الٰہ آباد کے جولوگ آنے والے تھے انہوں نے مقبولیت ومحبوبیت کا یہ عجیب نظارہ حیرت و مسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھا ، ان کا دل جانتا تھا کہ جو بیش قیمت سرمایہ اور انمول موتی گھر بیٹھے ان کے ہاتھ آگیا ہے اس کا یہاں کس شدت و اشتیاق کے ساتھ انتظار ہورہا ہے ۔
فتح پور میں تقریباً تین ماہ آپ کا قیام رہا اور محرم کے مہینے میں واپسی ہوئی اور اس کے بعد جب بھی موقع ملتا فتح پور اور مئو وغیرہ تشریف لاتے اور علاقے کے لوگوں کو سیراب کرتے ، چوںکہ آپ الٰہ آباد میں مستقل قیام کا ارادہ فرماچکے تھے اور اس کے اسباب مہیا ہوچکے تھے نیز یہاں سے آپ کے فیض رسانی کا دائرہ کافی وسیع ہوچکاتھا اس لیے آپ نے فتح پور میں مستقل قیام کا پروگرام نہیں بنایا اور مولانا عبدالباری ندوی کے الفاظ میں :
’’ہجرت کے بعد اخلاق کی پوری فتح کے ساتھ فتح پور میں داخلہ نے الحمدللہ سنت پوری کرادی ، الٰہ آباد کے مستقل دارالہجرت بن جانے کی بڑی مصلحت بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ ماشاء اللہ افادات و برکات کا دائرہ بہت ہی وسیع فرمادیا گیا ہے بلکہ اس وقت شہر ہی جس طرح دینی فتنوں کا مرکز بہت زیادہ ہورہے ہیں اصلاح کا مرکز بھی انہیں کو زیادہ ہونا چاہیے‘‘۔(حیات مصلح الامت :198)
ڈھاکہ کا سفر :
تقسیم ملک کے بعد لیکن پاسپورٹ کی بندش سے پہلے جب کہ مشرقی پاکستان کا سفر کھلا ہوا تھا وہاں کے لوگوں کے اصرار پر آپ نے ڈھاکہ کاسفر فرمایا اور چند روز وہاں قیام کرکے لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے ، بنگلہ دیش میں موجود آپ کے بعض متوسلین کا اصرار رہا کہ آپ وہاں کی سکونت اختیار کر لیں بلکہ ایک صاحب نے بریسال میں ایک بہت بڑا مکان آپ کے لیے خرید لیاتھا لیکن آپ نے ان کی پیشکش کو نامنظور کر دیا ، آپ نے انہیں لکھاکہ میرے احباب مغربی پاکستان میں بھی ہیں اور مشرقی پاکستان میں بھی اور میں اپنے بال بچوںکو لے کر جہاں چاہوں جاسکتا ہوں لیکن میرا تعلق ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی ہے جس میں ایک بڑی تعداد ایسے محبین کی ہے کہ وہ میری جدائی برداشت ہی نہ کرسکیں گے اور کتنے ایسے ہیں کہ رو رو کر مر جائیں گے ۔
علی گڑ ھ کا سفر :
علی گڑھ کے لوگوںکے مسلسل اصرار پر 18؍شوال1384ھ( فروری 1965) کو وہاں کا سفر فرمایا اور ایک ہفتہ وہاں قیام رہا اور صبح و شام دونوں وقت پابندی سے مجلس ہوتی رہی ، جس میں یونیورسٹی کے عمائدین ، طلبہ اور شہر کے معزز حضرات شریک ہوتے رہے ، یہاں آپ کا مخاطب تعلیم یافتہ طبقہ تھا، اس لیے حضرت والا کی طبیعت خوب کھلی اور علم و معرفت کے سوتے پھوٹ پڑے ، ایسے وجد آفریں نکتے ارشاد فرمائے کہ پوری مجلس وجد میں آگئی ، ان مجالس میں بیان کر دہ مضامین مجالس علی گڑھ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ، اسی سفر میں نواب حافظ سعید احمد خاں چھتاری آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے او ر عالم اسلام کے لیے دعا کی درخواست کی ، موصوف ایک زمانے میں یوپی کے گورنر رہ چکے ہیں اور نہایت نیک اور بزرگ صفت انسان تھے ، اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیوی دونوں دولتوں سے انہیں مالامال کیا تھا ۔
تبلیغی جماعت کے ذمہ داران نے آپ سے اجتماعی دعا کی درخواست کی ، چنانچہ وقت مقررہ مغرب سے کچھ پہلے مسجد میں تشریف لے گئے ، پوری مسجد علی گڑھ کے طلبہ سے بھری ہوئی تھی ، آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا ، خاموش دعا فرمائی لیکن اثر کا یہ عالم تھاکہ حاضرین پر ایک کیف طاری ہوگیا ، بے اختیار لوگ رونے لگے ، یہاں تک کہ بعض لوگ اپنی چیخیں ضبط کرنے پر قابو نہ پاسکے ، رونے اور گڑگڑانے کا ایک سماں بند ھ گیا ،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دلوں کو بارگاہ الٰہی میں باریابی کی اجازت مل گئی ہے اور عرض و نیاز پوری حضوری اور یکسوئی کے ساتھ ہورہا ہے ۔
سفر مانی کلاں، جونپور:
یہ سفر پیرانی صاحـبہ کی علالت کے سلسلے میں ہوا ، مانی کلاں کے ڈاکٹر جناب محمد غفران صاحب حضرت والا کے متعلقین میں سے تھے اور وہ فتح پور میں طویل قیام کرکے علاج کے لیے بخوشی آمادہ تھے لیکن حضرت والا نے سوچا کہ وہ مجھ سے فیس تو لیتے نہیں ہیں اور دوا خانہ بند ہونے کی وجہ سے ان کا مالی نقصان ہوگا نیز ان سے متعلق مریضوں کو پریشانی ہوگی ، اس لیے پیرانی صاحـبہ کے ساتھ مانی تشریف لائے ۔
مگر پیرانی صاحـبہ کا علاج تو ایک بہانہ تھا اور درحقیقت اس علاقے کے لوگوں کو آپ کا فیض پہنچانا تھا ،چنانچہ آپ یہاں پانچ چھ ماہ قیام پذیر رہے اور اطراف کے لوگوں نے آپ سے بہت کچھ دینی نفع حاصل کیا اور آج بھی وہا ں جو دینی فضا اور ماحول ہے اس میں آپ کی فیض رسانی کا بڑا دخل ہے ۔
بمبئی کا سفر :
حضرت والا 1962ء سے1967ء تک محض چار سال کے دوران چھ مرتبہ بمبئی تشریف لائے اور ایک طویل مدت تک آپ کا وہاں قیام رہا اورحضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے الفاظ میں :
’’ظاہر بیں سمجھے کہ مولانا اپنے علاج کے لیے تشریف لے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اہل بمبئی کا علاج مقصود تھا اور وہاں ایک روحانی مطب کھلنے کا قضاو قدر میں فیصلہ ہوچکاتھا ، مولانا کی دل بستگی جس کے ساتھ اہل بمبئی کی دلکشائی وابستہ تھی ، بمبئی اور اہل بمبئی سے بڑھتی گئی اوراہل بمبئی کو بھی مولاناکی ذات سے گرویدگی اور عقیدت آناً فاناً ترقی کر گئی ‘‘۔(حالات مصلح الامت :85/2)
بمبئی وہ شہر ہے جس کامزاج ہمیشہ تجارتی اور کاروباری رہا ہے ، غفلت اور کاروباری مصروفیات میں چند رسوم ورواج اور بدعات کو دین کا نام دے دیاگیاتھا اور اس طرح کی فضا میں کام کرنے کے لیے اسباب کے درجے میں جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ حضرت والا میں موجود نہیں تھی یعنی ظاہری وجاہت ،پر زورخطابت ، شان و شوکت اور پروپیگنڈہ کے اسلحے سے آپ خالی ہاتھ تھے لیکن مولانا علی میاں ندوی کے الفاظ میں :
’’لیکن قضا و قدر کے فیصلے ان میں سے کسی چیز کے بھی تابع اور پابند نہیں ہیں ، لوگوں نے جو کچھ دیکھا تمام تر قیاسات کے برخلاف تھا ، ایسا معلو م ہوتا تھا کہ کوئی غیبی قوت کام کر رہی ہے اور لوگوں کے دلوں اور روحوں کو ان کی طرف متوجہ کر رہی ہے ، میں نے ان تاجروں کو اورچوٹی کے کاروباری لوگوں کی عقیدت و رجوع کو دیکھا ہے جو اس سے پہلے کسی دینی دعوت و تحریک سے متاثر نہ ہوتے تھے اور جو علماء حق کی طرف سے شدید بد گمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا تھے ، ان کا رجوع برابر بڑھتا گیا اور تیزی سے ان میں اصلاح و تغیر آنے لگا ، دیکھتے دیکھتے ان کی سیرت و صورت میں نمایاں تبدیلیاں ہونے لگیں ……جن لوگوں کو مولانا کی مجلس میں بیٹھنے کی بالکل امید نہ تھی ان کو وہاں سر بہ زانو پایا ، حالانکہ یہاں کشش کے وہ اسباب مفقود تھے جو بمبئی کے لیے ضروری تھے ‘‘۔
اورمولانا محمد منظور نعمانی صاحب لکھتے ہیں :
’’یہ سب اللہ کی طرف سے بمبئی میں نور ہدایت پھیلنے کے لیے ایک غیبی انتظام تھا، شاید ہی اللہ کے کسی بندے سے اہل بمبئی کو اتنے وسیع پیمانے پر اس طرح کا دینی فائدہ کبھی پہنچا ہو ‘‘۔(حالات مصلح الامت: 69/2)
غرضیکہ حضرت والا نے بڑے پیمانہ پر بمبئی میں دینی کام کا آغاز کیا اور بہت جلد دیکھاگیا کہ جہاں غفلت و خدا فراموشی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا ، عریانی ، فحاشی ، گناہوں پر دیدہ دلیری اور بے دینی عروج پر تھی اوربدعات وخرافات کو دین سمجھاجارہا تھا وہاں یاد الٰہی اورفکر آخرت کے چراغ روشن ہوگئے ، دلوں میں امانت و دیانت پیوست ہوگئی ، بدعات وخرافات کی تاریکی چھٹنے لگی ، ہرطبقے کے لوگ آپ کے آستانے پر دامن پھیلاکر آئے اور دین کی سوغات لے گئے ، نقشہ کچھ اس تیزی سے بدلا کہ نگاہیں حیران رہ گئیں اور وہ شہر جس کا دروازہ اہل حق کے لیے بند تھا وہ اہل دیوبند کا گہوارہ بن گیا ۔
سفر حج او ر سفر آخرت :
جیساکہ ذکر کیاجاچکا ہے کہ حضرت والا 1936ء میں حج کا فریضہ ادا کر چکے تھے اور پھر دوبارہ 1967ء میں اپنے عزیزوں اور متعلقین و متوسلین کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے ، چونکہ تمام لوگوں کو سفر حج کی اطلاع مل چکی تھی اس لیے پورے ملک سے لوگ بمبئی پہنچ گئے تھے تاکہ آپ کی مجلسوں اور دعائوں میں شریک ہوسکیں، 19؍شعبان 1387ھ مطابق 22؍نومبر 1967ء کو پانی کے جہاز سے روانگی ہوئی ، روانگی کا منظر قابل دید تھا کہ ایک طرف پانی کا سمندر لہریں لے رہا تھا اور دوسری طرف انسانوں کا سمندر امنڈا پڑا تھا ، بندرگاہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ، علماء وصالحین کی نورانی صورتیں ہر طرف جگمگارہی تھیں ، اہل اللہ کا اتنا بڑا مجمع سمندر کے اس ساحل نے شاید بہت عرصہ کے بعد دیکھا ہو ۔
اور جہاز پرسوار ہونے اور اس کے روانہ ہونے کا منظر بھی عجیب تھا ، کوئی دل ایسا نہیں تھا جو تڑپا نہ ہو اور نہ کوئی آنکھ ایسی تھی جو اشکبار نہ ہوئی ہو ، زبانوں پر دعائیہ کلمات اور دلوں میں فراق اور جدائی کی سوزش و بے تابی موجود تھی اور کسے معلوم تھا کہ اس کے بعد پھر حضرت والا کا دیدار نصیب نہیں ہوگا اور جہاز روانہ ہوئے ابھی دوہی روز ہوئے تھے کہ 24نومبرکو بعد نماز مغرب غشی کا دورہ پڑا اورپھرچند گھنٹے کے بعد رات گیارہ بجے بیت الرب کے بجائے رب البیت سے جاملے ۔
تدفین کے لیے جنت المعلیٰ میں جگہ حاصل کر لی گئی تھی مگر جہاز راں کو بر وقت اطلاع نہ مل سکنے کی وجہ سے جہازکے قانون کے مطابق جسد خاکی کو تابوت میں رکھ کر سمندر کے حوالے کر دیاگیا ۔
دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا
دریا سے جو موتی نکلا تھا دریا ہی میں جاکے ڈوب گیا
اولاد:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیاں عنایت کی تھیں اور اولاد نرینہ کوئی نہیں تھی ، بڑی بیٹی کانکاح قاری محمد مبین صاحب سے اور دوسری کا مولانا محمد قمر الزماں صاحب سے ، تیسری کا مولانا نور الہدیٰ صاحب سے اور سب سے چھوٹی بیٹی کا نکاح مولانا ارشاد احمد صاحب سے ہوا ، یہ چاروں لوگ فتح پورسے قریب ایک گائوں کاری ساتھ کے رہنے والے تھے اور آپس میں رشتہ دار، اوران میں سے دوسری اورتیسری بیٹی کی وفات حضرت والا کی زندگی ہی میں ہوگئی تھی ۔
تالیفات :
آپ کا تصنیفی طریقہ عام مصنفوں کی طرح نہیں تھا اور آپ نے بطور خود کوئی کتاب تالیف نہیں کی بلکہ آپ کی مجلس میں کبھی ایک ہی موضوع پر مسلسل گفتگو ہوتی اوراسے قلم بندکرکے آپ کو دکھادیا جاتا اور آپ نظر ثانی کرکے طباعت و اشاعت کی اجازت دے دیتے، اس طرح سے کل باون رسالے طبع ہوئے ، یہ تمام رسالے پانچ جلدوں میں ’’مجموعہ تالیفات مصلح الامت ‘‘کے عنوان سے بھی شائع ہوئے ہیں ۔
ان کے علاوہ بھی مجالس و مواعظ کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جسے مولانا عبدالرحمن جامی صاحب مرتب کرکے ماہنامہ معرفت حق اور وصیۃ العرفان میں شائع کرتے رہے، جو بعد میں مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ کی نگرانی میں مفتی عطاء اﷲ صاحب کی ترتیب کے ساتھ مکتبہ اشرفیہ ممبئی سے’’ مجالس مصلح الامت ‘‘ کے نام سے چھ جلدوں میں شائع ہوا ۔
ان کتابوں کے مطالعے سے ایمان میں حرارت ، فکر آخرت ، عمل کا شوق ، عبادت کاذو ق اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے ۔
چند نمایاں صفات :
اللہ والا اوربزرگ وہی ہے جو ظاہر و باطن کے اعتبار سے اخلاق نبوی اور اسوۂ حسنہ کا متبع اور پیرو کار ہو ، اس کی اتباع جس درجے کی ہوگی اسی قدر اسے معرفت خداوندی حاصل ہوگی ، حضرت والا کے یہاں اسوۂ حسنہ کی اتباع کا بہت زیادہ اہتمام تھا ، اس لیے اجمالی طورپر یہ کہنا بجاہوگا کہ آپ کی پوری زندگی نبوی صفات و اعمال سے عبارت ہے جن میں سے ہر ایک کو بیان کرنا دشوار تر ہے ، اس لیے ان میں سے چند صفات کاذکر کیا جارہا ہے ۔
قرآن سے شغف :
اللہ سے محبت کالازمی تقاضا ہے کہ اس کی کتاب سے محبت اور شغف ہو ، اس کے الفاظ سے لذت اور تسلی ملے ، خود مصلح الامت کہتے ہیں:
’’جب عارف تلاوت کرتا ہے تو اس کا رواں رواں اس سے لذت حاصل کرتا ہے ، کان بھی سنتا ہے اور تمام بدن سننے لگتا ہے ، گویا تمام بدن ہی کان بن جاتا ہے اور تلاوت کلام اللہ سے اس کے رگ وریشہ میں سرایت کر جاتی ہے اورجب قرآن شریف کی لذ ت قلب میں آجاتی ہے تودنیا کی کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے ‘‘۔
یہ محض قال نہیں بلکہ خود آپ کا حال ہے ، چنانچہ نہایت ذوق وشوق اورایک خاص کیفیت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ، کلام الٰہی کی تلاوت آپ کا سب سے محبوب مشغلہ تھا ، اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے تلاوت کیاکرتے اور اسی کے ساتھ قرآن سمجھنے ، اس کے معانی پر غور و فکر کرنے اور اس کی تعلیم کو عام کرنے پر خصوصی توجہ دیتے اور لوگوں کو متوجہ کرتے ، اگر مجلس میں کسی بھی مناسبت سے قرآن کاذکر آجاتا تو پھر سلسلہ کلام اسی کی طر ف مڑجاتا اور وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ، آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی اور نہایت لطف و لذت کے ساتھ قرآن کے متعلق گفتگو فرماتے ، آپ کہا کرتے تھے :
’’قرآن مجید کا اسلوب اور طریقہ موعظت سب سے زیادہ مفید اورموثر ہے ، مگر علما ء وواعظین نے آخرت کے مضمون اورجنت و دوزخ کے تذکرے کو بالکل فراموش اورنظرانداز کر دیا ہے اور ان کو اس سے شرم آنے لگی ہے ، گویا وہ ایک خلاف فیشن بات ہے ‘‘۔(حالات مصلح الامت :81/2)
غرضیکہ آپ کے سینے میں محبت الٰہی کی جو قندیل روشن تھی اس کا روغن آپ قرآن ہی سے حاصل کیاکرتے تھے ،التذکیربالقرآن ، تلاوت قرآن اور وصیۃ التلاوۃ کے عنوان سے آپ کے تین رسالے قرآن سے متعلق ہیں ۔
رحمت عالمؐ اور ان کی سنت کے ساتھ شیفتگی :
ذات نبویؐ سے نہایت والہانہ لگاؤ تھا ، اپنی مجالس میں اتباع نبوی اور سنت رسول کی عظمت کو جس اہمیت اورکیفیت کے ساتھ بیان کرتے تھے اس سے آپؐ کی ذات سے محبت اور شیفتگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اسی کانتیجہ تھا کہ آپ ایک ایک سنت کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے اور آپ کے یہاں سنت کا مفہوم محض بعض ظاہری چیزوں تک محدود نہیں تھا بلکہ باطنی صفات جیسے زہد ، توکل ، قناعت ، صبر اور تسلیم و رضا وغیرہ تک وسیع تھااور ظاہر کے ساتھ باطن کی سنت پر بھی عمل پیرا رہے اور اپنے متعلقین کو بھی اسی طریقے پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے ۔
مشہور لیڈر جناب سید محمود نے آپ کا رسالہ تلاوت قرآن پڑھا اور اس سے متاثر ہوکر خط لکھا اور آپ کے پاس آنے کی خواہش ظاہر کی ، ان کے جواب میں آپ نے لکھا :
قرآن شریف سے متعلق آپ کے مزاج کو متحد پاکر ایک خاص قسم کی مسرت ہوئی اور اس سلسلے میں مزید کچھ کام کرنے کا شوق پیدا ہوگیا ……میری مراد اس سے آپ کے خط کا یہ مضمون ہے :
’’مجھے بھی عرصہ سے شکایت رہی ہے کہ قرآن پر زور نہیں دیاجاتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں قرآن کی تعلیم عام کی جاتی ہے اور نہ قرآن سے وعظ ونصیحت کی جاتی ہے ‘‘۔
میر ا بھی یہی خیال ہے ، باقی ا س کے علاوہ اتنی بات اور کہتا ہوں کہ آج ہم لوگوں نے قرآن سے بھی غفلت برتی ہے اور اسی کے ساتھ سنت سے بھی بے اعتنائی برتے ہوئے ہیں اوریہ حقیقت ہے کہ یہ بھی قرآن ہی سے غفلت کا نتیجہ ہے ، کیوںکہ کتاب وسنت باہم لازم و ملزوم ہیں ۔
نیز فرماتے ہیں :
’’اس لیے اتباع سنت پر زور دیا کرتا ہوں ، اس سے میرا مقصد یہی ہوتا ہے کہ جتنا حصہ بھی دین کا کسی کو حاصل ہو تو چاہیے کہ وہ اس میں مخلص ہو یعنی رسم سے نکل چکا ہو اور یہ چیز بدون اتباع سنت کے پیدا ہونا مشکل ہے ……آج دیکھتاہوں کہ لوگ مشائخ کے ملفوظات پر گرے پڑتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ کی سنت کی جانب ذرا التفات نہیں ، اسی ترک سنت کی نحوست ہے کہ باوجود ظاہر ی دین ہونے کے لوگوں میں جاذبیت نہیں رہ گئی ، جو کام کرتے ہیں وہ روح سے خالی ، جوبات کہتے ہیں وہ تاثیر سے خالی ہوتی ہے ‘‘ (حالات مصلح الامت :29/1)
قرآن وحدیث کے اس شیدائی کو یقین تھا کہ دنیاوی فساد اور معصیت و بدعت کے ظہور کا حقیقی سبب ان دونوں سرچشموں سے بے اعتنائی ہے اس لیے اس نے انہیں دونوں کو پھیلانے اوران کی عظمت ومحبت کو دلوں میں پیوست کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی ۔
سنت کے موضوع پرتمسک بالسنۃاورفسادامت ، مژدۂ جانفزا ، وصیۃ السنۃاور جلالۃ السنۃ کے عنوان سے آپ کی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔
خلوت گزینی اور ذوق عبادت :
حضرت والا کو شروع ہی سے لایعنی مشغلوں اورفضول کاموں سے نفرت تھی او ر تنہائی اورخلوت گزینی پسند تھی ، کیونکہ اس کی وجہ سے عبادت میں یکسوئی اورحضوری حاصل ہوتی ہے ، دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ آپ عجیب سی کیفیت اور سرشاری کے عالم میں نماز پڑھا کرتے تھے ، ایسا لگتا تھا کہ ہرطرف سے کٹ کر بالکل نماز کے لیے یکسو ہوگئے ہیں اور اللہ کے سامنے حضوری کی لذت کے ساتھ نماز ادا کررہے ہیں ۔
زہد و استغناء:
جب کسی دل میں آخرت کی دائمی اور بے مثال نعمتوں اور وہاں کے عذاب وعقاب کا تصور پیوست ہوجاتا ہے تو اس کی نگاہ میں دنیا وی نعمتوں اور مال ودولت کی حیثیت ایک ٹھیکرے جیسی ہوجاتی ہے اور اس کی نظر میں مالدار اور نادار دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے نہ تو دولت مند اپنی دولت کی وجہ سے عزیز ہوتا ہے اور نہ فقیر اپنی ناداری کی وجہ سے بے حیثیت اور قابل نفر ت ۔
حضرت والا زہد و استغناء کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور مالداروں کے درپہ جبہ سائی سے بہت زیادہ نفرت کرتے تھے ، اگر کسی بھی مالدار کے متعلق محسوس ہوتا کہ وہ اپنی مالداری کی وجہ سے آپ کو متاثر کرنا چاہتا ہے تو پھر آپ کے یہاں اس کی پذیرائی نہیں ہوتی اور کسی دولت مند سے محض اس کی دولت کی وجہ سے نہ خود ربط وضبط رکھتے اور نہ اپنے متعلقین کے لیے اسے پسند کر تے تھے مالداروںکے تعلق سے آپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ’’مالداری کا ایک خاص اثر ہوتا ہے اور وہ زہرہوتا ہے اور کم و بیش ہرامیر میں ہوتا ہے ، الا ماشاء اللہ ۔
(حیات مصلح الامت:185)
مولانا عبدالباری ندوی صاحب لکھتے ہیں :
’’خدمت دین وخلق کے سلسلے میں تعلق حق پر مبنی ایسا قلبی توکل و غنائے تام کہ مخلوق کے کسی جاہی و مالی دباؤ کا قلب پر اثر کیا شائبہ اثر بھی پورے ایک مہینے کی خلوت و جلوت کی حاضریوں میں یہ چشم بد بیں ڈھونڈ کر بھی نہ پاسکی ‘‘۔(حیات :454)
ایک موقع پر جب کہ ہر طرح کی فراخی آپ کو حاصل ہوچکی تھی ،بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ ایک کار لے لیاجائے تو کہیں آنے جانے میں آسانی ہوگی ، یہ سن کر حضرت والا نے فرمایا :
بھائی ! میں تو ایک طالب علم قسم کا آدمی ہوں ،میرے لیے تو مسجد کا ایک حجرہ بھی کافی ہے ، اگر بچیوں کا ساتھ نہ ہوتا تو یہ مکان وغیرہ بھی جو تم دیکھ رہے ہو ہر گز میں نہ لیتا مگر ان کے حقوق کی ادائیگی کے خیال سے لے لیا ہے ۔
مال ودولت اور زمین وجائداد سے بے نیازی کا حال یہ تھا کہ موروثی زمین میں سے اپنا حصہ نہیں لیا اور جب فتح پور سے جانا ہوا تو شاندار گھر اور خانقاہ وغیر ہ سے اس طرح ہاتھ جھاڑ کر چل دیے جیسے کہ کبھی ان سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا ۔
خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز
توکل و قناعت:
اسباب اختیار کرکے اللہ پر اعتماد اور اسباب کی تاثیر سے قطع نظر کرکے ہر کام کو اللہ کے حوالے کر دینے کانام توکل ہے اورتوکل کا تعلق صرف روزی سے نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر معاملے میں اسباب پر بھروسہ نہ کرنا اور اللہ پر اعتماد رکھنا توکل ہے ، خواہ اس کا تعلق روزی سے ہو یا صحت سے ، متعلقین و مریدین کی قلت و کثرت سے ہو یا تعلیم وتربیت کے نتائج سے ، یہاں تک کہ فہم و فراست پر بے جا اعتماد بھی توکل کے خلاف ہے ۔
توکل کے معاملے میں حضرت والا کا یہی تصور تھا ، آپ نے اللہ پر سچا بھروسہ کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے کسی بھی معاملے میں آپ کو بے یارو مددگار اور تنہا نہیں چھوڑا اور کبھی آپ اللہ کی ذات سے مایوس اور ناامید نہیں ہوئے ۔
محبت و رحمت :
مہر و محبت اور رحم ومروت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور شفقت و مودت آپ کے رگ و ریشے میں پیوست تھی ، مولانا عبدالباری ندوی صاحب لکھتے ہیں :
’’بالمومنین رؤف رحیم والی شان رافت و رحمت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ بعض وقت بے قرار ہوجاتے دیکھا ، نجی سے نجی پریشانیوںمیں بیماریوں میں دعا و دوا دونوں کی فکر و تدبر سے ایسی دست گیری کہ قریب سے قریب عزیز ، ہمدرد سے ہمد رد دوست ہی سے امید ہوسکتی ہے ‘‘۔(حیات مصلح الامت :323)
اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کہتے ہیں :
’’اور پھر ایسے دور میں اور ہمارے جوار میں حضرت مولانا سے زیادہ شفقت کرنے والا میری نظرمیں کوئی نہیں تھا ‘‘۔(حالات مصلح الامت :31/1)
اصلاح امت کی فکر :
مولانا محمدمنظور نعمانی صاحب لکھتے ہیں :
’’اس گنہ گار کو اللہ تعالیٰ نے اپنے جن خاص بندوں کو دیکھنا نصیب فرمایا ہے ان سب کو اس صفت (محبت و رحمت ) سے بھر پوردیکھا ہے لیکن حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر خاص کر حیات کے اس آخری دور میں اس صفت کا انتہائی غلبہ تھا ، جو بھی حضرت سے قریب ہوتا محسوس کرتا کہ رگ و ریشہ میں شفقت وعنایت بھری ہے ،جو طالب بن کر آتا چاہتے کہ اس کے اعمال و اخلاق کی پوری اصلاح ہوجائے اور اس کو تعلق مع اللہ کی دولت نصیب ہوجائے ، اسی کے ساتھ بہت سوں کی دنیاوی ضروریات کی بھی فکر فرماتے اوران کی تکلیف اور پریشانیوں سے سخت بے چین ہوجاتے ۔(حالات مصلح الامت72/2)
معلوم ہوا کہ اصلاح امت کا جذبہ درحقیقت امت سے محبت و رحمت کا نتیجہ ہے اوریہی جذبہ آپ کو کسی پل چین سے بیٹھنے نہیں دیتا، آپ دیکھ رہے تھے کہ امت بد اعمالیوں اور بد اخلاقیوں میں مبتلا ہوکر جہنم کا ایندھن بننے جارہی ہے اور بدعات ونفاق کی بیماری نے امت کے اجتماعی جسم کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ، اس لیے نہایت سوز اور درد کے ساتھ امت کو اس طرف متوجہ فرماتے اورکبھی بے تاب ہوکر ناراضگی ظاہرکرتے جو درحقیقت ناراضگی نہیں بلکہ اس درد اور کرب کا اظہار ہوتا ہے کہ امت کیوں ہلاکت کے گڑھے میں گرتی جارہی ہے ، مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒ کے الفاظ میں :
’’ایک اضطرابی اور سیمابی کیفیت تھی ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی کَل چین نہیں ہے ، مسلمانوں کے حالات ، اخلاق و معاملات کے بگاڑ ، صدق و اخلاص کی کمی اور نفاق کے کھلی آنکھوں مشاہدہ نے بے قرار و مضطرب بنارکھا ہے ، اصلاح حال اور دعوت فرار الی اللہ کا جذبہ قلب و دماغ و اعصاب پر مستولی ہوگیا ہے ‘‘۔
عمر کے آخری مرحلے میں جب کہ آپ مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے تھے اور ڈاکٹروںنے بولنے سے منع کردیاتھا تو آپ کہا کرتے تھے :
’’تم لوگ مجھ کو کلام کرنے سے منع کرتے ہو ، مجھ کو علمی مضامین بیان کرنے سے تعب نہیں ہوتا ہے اور نہ دل پر کوئی برا اثر پڑتا ہے ، البتہ مسلمانوں کی بے اصولی اورتباہ حالی کو دیکھ کر ضرور رنج ہوتا ہے ، اگر آج ان کے حالات درست ہوجائیں تو میں اچھا ہوجاؤں اور خود بخود قوت آجائے ‘‘۔
اصلاح اخلاق پر توجہ :
حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب کے کام اور ان کی دعوت و اصلاح کے نقطہ مرکزی کو بیان کیا جائے جس کے گر د ان کی پوری دعوتی و اصلاحی جدو جہد گردش کرتی رہی ہے تو ہمارے نزدیک اس کاعنوان ہوگا ’’ازالہ نفاق و اصلاح اخلاق ‘‘۔
(حالات مصلح الامت :12)
اور خود مصلح الامت فرماتے ہیں :
’’اس زمانے میں سب سے زیادہ ضروری چیز جو مسلمانوں کے لیے سمجھتاہوں وہ اخلاق ہے کہ جب قوم سے اخلاق ہی ختم ہوجائے توگویا قوم ہی معدوم ہوگئی ، اس لیے لوگوں سے برابر اخلاق ہی کے درست کرنے کا مطالبہ کرتاہوں ،اس طرح پر کہ گویا میں نے اپنے کا م کا دارو مدار اور مبنائے کار اخلاق کی اصلاح پر رکھ دیا ہے …میں مسلمانوں کومتفق اور متحد دیکھناچاہتاہوں اور اپنی تمام تر کوشش اسی میں صرف کرتا ہوں ، بد اخلاقی سے قوم کا شیرازہ ہی منتشر ہوجاتا ہے ، اس لیے ہر زمانے میں مصلحین امت نے اسے ناپسند کیا ہے ، دین ومذہب اور قرآن و سنت اس کی شناعت کے بیان سے پر ہے اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ آخرت کی سعادت تو اخلاق سے وابستہ ہے ہی ،دور حاضر میں تودنیا کی فلاح بلکہ قوم کی بقاء اور حیات بھی اسی اخلاق پر منحصر ہے ، اگر اخلاق درست نہ ہوئے تو قوم کاوجود ہی ختم ہوجائے گا ‘‘۔(حالات مصلح الامت :325)
نیز فرماتے تھے :
’’یہی اخلاص و نفاق کی بحث میری ساری عمر کی کمائی ہے ‘‘۔(حیات :402)
’’میں یہ نہیں دیکھتا کہ آپ نے تہجد کتنی رکعتیں پڑھی ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہتاہوں کہ رذائل نفس سے کس قدر نکلے اور لوگ ہیں کہ اپنے فضائل ہی کی اطلاع مجھے دیتے ہیں اور رذائل کے سلسلے میں ان کا خیال ہے کہ’’ جو الگ باندھ کے رکھا ہے وہ مال اچھا ہے‘‘ یعنی نفس کی خباثت ، بے اعتقادی اور نفاق ان سب باتوں اور ان حالات کا کچھ ذکر نہیں کرتے ، حالانکہ لوگوں سے مجھے یہی حال مطلوب ہے ، اس لیے کہ مجھ سے تعلق تو آپ کا اصلاحی ہے اور اصلاح ہوتی ہے رذائل کی ، لہٰذا اس کو بیان کرنا مفید ہے ‘‘۔(حالات311/1)
حضرت والا کی دلی لگن تھی کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی صورت بن جائے اور آپ کو یقین تھا کہ ایسااس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ امت سے اخلاقی بگاڑ کا خاتمہ نہ ہوجائے اور اسی دھن اور تڑپ نے آپ کو پوری عمر بے قرار رکھا ، شب و روز کا کوئی لمحہ اس فکر اور سوچ سے خالی نہیں رہتا ، مختلف عنوانات سے امت کو متوجہ کرتے اور کبھی یہ بے چینی بے اختیارانہ جوش و خروش کی شکل اختیار کر لیتی ۔
اختلاف سے گریز اوراتفاق کی کوشش :
آپ ہمیشہ نزاع و اختلاف سے دور اور اتحاد و اتفاق کے لیے کوشاں رہتے ، فتح پور کے لوگوں کے درمیان آپس میں کچھ اختلاف ہوا اور بلاوجہ آپ کو اس جھگڑے میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی توفوراً مسجد ، مدرسہ ، دومنزلہ خانقاہ اور شاندار گھرکو چھوڑکر گورکھپور چلے گئے ، آپ کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو مقابلہ کے لیے آمادہ ہوجاتا جس میں آپ کی جیت یقینی تھی کیوںکہ آپ کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ تھی اور ایک اشارہ پر جان و مال نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے تھے ۔
فتح پور سے ہجرت کا واقعہ اللہ پر بے انتہا اعتما د، دنیا سے بے تعلقی اور لڑائی جھگڑے سے دوری کی دلیل ہے کہ آپ ایک لمحے کے لیے بھی فکر مند نہیں ہوئے کہ اس طرح سے بنا بنایا ماحول ،سہولت اور آسانیاں دوسری جگہ میسر ہوسکیں گی یا نہیں ۔
اسی طرح سے الٰہ آباد میں مسجد و مدرسہ کو لے کر کچھ اختلاف ہوا تو آپ اس سے دست بردار ہوگئے اور ا س موقع پر فرمایا :
’’ہم کو مسلمانوں کے نزاع اور فساد سے چڑھ ہے ، فساد ہی سے بچنے کے لیے میں نے اپنا وطن چھوڑا ہے ، اس لیے ہم یہاں بھی اس کو کسی قیمت پر گوارا نہیں کریں گے ……اس لیے اپنے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آج سے اپنا اور اپنے لوگوں کا تعلق اس مسجد اور مدرسہ سے ختم کرتے ہیں‘‘۔
حالانکہ مسجد پہلے صرف ایک دالان پر مشتمل تھی اور پھر آپ کے ذریعہ ایک اور دالان اور دو نہایت شاندار مینار تیار ہوئے اور دیواروں پر پلاسٹر وں اور مزیک کا فرش بنا اور مسجد کے دونوں جانب طلبہ کے لیے کمرے تعمیرکیے گئے اور پھر ضرورت کے پیش نظر دوسری منزل کی تعمیر عمل میں آئی اور مسجد کے صحن میں سنگ مرمر لگایا گیا ۔
شر پسند وں کی طرف سے ندامت کے اظہار اور معافی تلافی کے بعد آپ اور آپ کے متعلقین اور طلبہ دوبارہ مسجد میں آئے ، اس موقع پر آپ نے فرمایا :
’’اگر کہو تو شہر چھوڑ کر کہیں چلاجاؤں لیکن مسلمانوں میں فساد ہو ، یہ مجھے گوارا نہیں ہے ، مجھے سب سے زیادہ ناپسند آپس کی خانہ جنگی اور آبر وریزی ہے ‘‘۔(حیات:478)
مخالفین کے ساتھ حسن سلوک :
مخالفین و معاندین کے ساتھ حسن سلوک اور ظلم وستم کرنے والوں سے در گزر بلکہ محبت و ہمدردی بھی آپ کا خاص وصف تھا ، فتح پور میں ایک درویش قسم کے سیدھے سادے میلاد خواں جناب مولوی علیم اللہ صاحب تھے ، بدعات وخرافات کے خوگروں نے انہیں اپناآلۂ کار بنالیا اور وہ بریلی کے خانصاحب کے صاحبزادے کے زیر اثر علما ء دیو بند کوکافر بنانے لگے مگر حضرت والا ہمیشہ ان کی دلجوئی کرتے رہے اور موقع بہ موقع تحفے بھیجتے رہے ، یہاں تک کہ وہ دن بھی آیا کہ حضرت والا کے یہاں آنے جانے لگے اورخانصاحب کے صاحبزادے کے منع کرنے کے باوجود اس سے باز نہ آئے اور پھراخیر تک حضرت سے ان کے تعلقا ت خوشگوار رہے اور انہوں نے آپ کے حسن اخلاق کے سامنے سپر ڈال دی ۔
ذہانت و ذکاوت :
حضرت والا جہاں آخری حد تک بالکل سیدھے سادے ، الگ تھلگ رہنے والے ، آخری حد تک نرم خو، رحمدل اور مہربان تھے وہیں انتہائی بیدار مغز ، اعلیٰ درجے کے صاحب فراست اور محتاط بھی تھے ، عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ ذہین افراد بہت تیز وطرار اور شوخ و شنگ ہوتے ہیں اور بھولے بھالے اور کم آمیز لوگ کند ذہن اور کم سمجھ ہوتے ہیں ،مگر آپ کا معاملہ جدا تھا ، انتہائی خاموش مگر بہت ذہین اور معاملہ فہم ، بہت بھولے اور نیک مگر نہایت رمز شناس اور دور اندیش ، بے حد کم آمیز مگر لوگوں کے جعل سازیوں ، حیلہ جویوں اور نفس کی خرابیوں پر گہر ی نظر، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب لوگوں سے اصلاح کے مقصد سے سابقہ پڑا تو خود بھی نقصان سے محفوظ رہے اور اپنے متعلقین کو بھی بچانے کی کوشش کرتے اور کسی کے مکرو فریب کا شکارنہ ہوئے ۔
تواضع و انکساری :
حضرت والا تواضع و انکساری کا پیکر تھے ، ہمیشہ اپنے آپ کو مٹانے اوربے نام و نشان رکھنے کی کوشش کی ، شروع ہی سے آپ کو تنہائیت محبوب تھی اور شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دو گزنشان کو بھی باقی رکھنا پسند نہیں کیا اور سمندر کے وسیع گہوارے کے حوالے کر دیے گئے ، مولانا عبدالباری ندوی صاحب کو جب آپ کے متعلق آپ کے کام کی اطلاع ملی تو اپنے بعض دوستوں سے پوچھا کہ یہ مولانا وصی اللہ صاحب کون ہیں ؟ حضرت والانے جب اسے سنا تو ہنس کے فرمایا ، بھائی ! میں تو مولانا عبدالباری صاحب کو خوب جانتا ہوں لیکن میں تو تھانہ بھون خودکو مٹانے گیا تھا نہ کہ پہچنوانے ، اس لیے وہ مجھے نہ جان سکے ۔
اور آپ کے ایک خط کے جواب میں حضرت تھانوی نے لکھا:
’’یہ سب آثار ہیں فنا کے ، دولت فنا کے حصول پر مبارک باد دیتاہوں اور دعا کرتاہوں ‘‘۔(حیات :525)
فتح پور تال نرجا میں سفر ی نام کا ایک مہتربڑا نمازی تھا جو نہا دھوکر مسجد آتا، مگر کچھ لوگ اس سے دور رہتے اور اس کے بغل میں کھڑا ہونے میں کراہیت محسوس کرتے ، ایک دن حضرت والا نے سب کے سامنے اسے بلایا اور کہا آئو بیٹھو ، ہاتھ دھولو اور ہمارے ساتھ کھانا کھائو ، چنانچہ اس کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا ، اس طرح سے اس بدخلقی کی اصلاح فرمائی اور تکبر کی دیوار منہدم کردی ۔(حالات :204/1)
رعب وجلال :
سنت نبویؐ کے اتباع میں رعب و جلال کا بھی خدادادحصہ ملا تھا ، آپ کے رعب و دبدبہ کے آگے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجاتا تھا ، آپ کی مجلس میں امیر وکبیر ، افسران ، علماء اور اہل دانش ہر طبقے کے لوگ حاضر ہوتے تھے ، مگر جو آیا سرنگوں رہا ، کسی کو ان سے آنکھ ملانے کی تو کیا سر اٹھانے کی تاب نہ تھی اور برسوں تک ساتھ رہنے والوں کو بھی آپ سے بے تکلفی کی جرأت نہیں ہوتی تھی ، مولانا ریاض احمد رشیدی اپنا مشاہد ہ بیان کرتے ہیں :
’’حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ ہمارے زمانے میں بہت بزرگ ، صاحب حال گزرے ہیں جن کی بزرگانہ جلالت شان کے سامنے زمانے کے جید علماء و حکماء اور وزرائے دولت متواضع اور جھکے رہتے تھے اور مارے ان کے رعب و جلال کے تھر تھر کانپنے لگتے تھے ، ایسے بزرگ اس ظلمت کے عہد میں بندہ نے کہیں نہیں دیکھا ، یوں تو بہت سے اللہ کے بندے اور اللہ والے ہیں لیکن میری بصیرت کے اعتبار سے نایاب ضرور ہیں ‘‘۔(آئینہ نصیحت و عبرت )
غیرت وخود داری :
شاہ صاحب کی پوری زندگی صبرو استقامت ، توکل و قناعت اور غیر ت وحمیت سے عبارت تھی کہ
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
حضرت تھانویؒ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے :
’’ایسا غیورآدمی میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ پاس تو ایک پائی نہیں ہے اور کسی سے مانگتا بھی نہیں ‘‘۔ (حیات مصلح الامت :80)
داد و دہش:
آپ کے متعلقین و متوسلین میں بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی آپ کفالت کرتے اور ان کے لیے ماہانہ وظیفے مقرر تھے ، اس کے علاوہ جسے بھی آپ ضرورت مند محسوس کرتے اس کی مدد فرماتے ، آپ کی زندگی کا یہ رخ بھی نہایت تابناک اورروشن ہے ، اس سلسلے کے بہت سے واقعات کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں اور اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعات ہوں گے لیکن حضرت والا کے یہاں تو تمام احوال پر پوشیدگی کا پردہ پڑا رہتا تھا ۔
ایثار وقربانی :
آپ کی روداد حیات ایثارو قربانی کے پر کیف اور ایمان پر ور واقعات سے بھری پڑی ہے ، زمانہ طالب علمی میں اعظم گڑھ کے ایک نادار طالب کا وظیفہ خوراکی کے بغیر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا ، آپ کو اس کی اطلاع ملی تو ان سے مل کر تسلی دی اور کہا کہ کھانے کی طرف سے آپ بالکل بے فکر رہیے ، میرا دوپہر کا پورا اورشام کا آدھا کھانا آپ کو مل جایاکرے گا اورآپ ایک سال میں اپنی علمی کمزوری دور کرلیجیے ، چنانچہ حسب وعدہ پورے سال آپ نے صرف ایک وقت کے آدھے کھانے پر اکتفا کیا۔(حالات مصلح الامت98/1)
وقت کی قدردانی :
دیوبندمیں کھانا حاصل کرنے کے لیے لائن لگانی پڑتی ہے جس میں اچھا خاصا وقت صرف ہوتا ہے ، اس لیے وقت کی حفاظت کے مقصد سے آپ نے یہ تدبیر اپنائی کہ دو روٹی اور دال یا گوشت کی جگہ صرف ایک روٹی لے لیں جسے وہ کبھی گڑ سے اور کبھی نمک سے کھاکر علمی مصروفیات میں لگ جاتے ، آٹھ سالہ تعلیمی دور آپ نے اسی طرح گزارا ، طلبہ جب ان کے لائن لگانے پر اعتراض کرتے تو طباخ کہتا بیچارے صرف ایک روٹی لے کے چلے جاتے ہیں اور اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں اس لیے ہم بھی ان کی قدر کرتے ہیں ۔
حضرت تھانویؒ اپنے مسودات کو صاف کرنے کے لیے انہیں دیاکرتے تھے ، کبھی کام کا بہت زیادہ ہجوم رہتا تو وقت بچانے کے لیے دال یا سالن کو پی جاتے اور پھر روٹی توڑ توڑکر کھاتے اور مسودہ بھی صاف کرتے ،اس طرح سے ایک ہی وقت میں دوکام آسانی سے ہوجاتا ۔
وقت کی قدر دانی اور اصول پسندی کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کم وقت میں بہت زیادہ کام لیا ۔
علمی رسوخ اور وسعت مطالعہ :
مولانا محمد منظورنعمانی صاحب لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی عام شہرت اگر چہ ایک شیخ طریقت اور صاحب ارشاد مصلح ومربی کی حیثیت سے ہے لیکن علم میں اتنا رسوخ اور استحضار تھا اورمطالعہ اتنا وسیع اور عمیق تھا کہ اس دور کے اصحاب درس و مصنّفین میں بھی اس کی مثالیں کم ہی ملیں گی ‘‘۔(حالات مصلح الامت 74/2)
گز ر چکا ہے کہ بعض لوگوں کو آپ نے درس نظامیہ کی تمام کتابیں شروع سے آخر تک بالاستیعاب پڑھائیں ، آپ کا درس نہایت محققانہ اور جامع ہوا کرتاتھا اور خانقاہ میں تشریف لانے والے علماء بھی اس میں شریک ہوتے تھے ، اسی طرح سے علاحدہ سے علما ء کو فتح الباری کا درس دیاکرتے تھے اور یہ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا ، آپ کا مطالعہ سر سری نہ ہوتا بلکہ بغور و تعمق کتابیں دیکھتے ، حافظہ اچھا تھا ، باتیں اکثر محفوظ ہوجاتیں ۔
غیر معمولی تاثیر :
آدمی سنتا نہیں آدمی کی باتوں کو
پیکر عمل بن کر غیب کی صدا ہوجا
اس کی راہ میں مٹ کر بے نیاز خلقت بن
حسن پر فدا ہوکر حسن کی ادا ہوجا
آپ سراپا حرکت و عمل تھے ، ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے اور اخلاص کے سبب آپ کا دل آئینہ کی طرح نہایت صاف و شفاف اور پاکیزہ ہوچکاتھا ،اس لیے آپ کی زبان سے جو کلمات صادر ہوتے وہ نہایت موثرہوتے ، آپ کی مجالس ومواعظ میں بجلی کی سی تاثیر ہوتی ، انتہائی سخت دل آدمی بھی موم ہوجاتا ، جو آنکھیں آنسوؤں سے کبھی آشنا نہ ہوتیں وہ اشک بار ہوجاتیں اور بسا اوقات آپ کی ایک نگاہ سے سخت گمراہ اور بے دین قسم کے لوگوں کی کایا پلٹ جاتی اور گمراہی و معصیت میں ڈوبے ہوئے لوگ بحرمعرفت کے شناور بن جاتے ۔
آپ کی مجالس میں شریک ہونے والے تمام حضرات تقریباً اس خصوصیت پر متفق ہیں کہ نفس کی کوئی خرابی ہو عموماً مواعظ میں اس پر گرفت ضرور ہوجاتی ، کسی کے دل میں کوئی سوال ہے تو اس کاجواب مل جاتا اور شریک مجلس یہ سوچ کر پریشان ہوجاتا کہ میرے دل کی بات ا ن کو کیسے معلوم ہوگئی ، حالانکہ حضرت والا بار بار یہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کیا معلوم کہ کون کیسا ہے اور اس کے دل میں کیا ہے ، یہ اور بات ہے کہ اس کے حال کے مطابق اللہ تعالیٰ مجھ سے مضامین کہلوادیتے ہیں ، مولانا عبدالماجد دریابادی الٰہ آبادمیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، مجالس میں شرکت کی اور واپس ہونے کے بعد ایک صاحب کولکھا :
’’بعد ظہر کی مجلس میں انہوں نے ایک ایسی بات فرمادی جودل میں تیر کی طرح پیوست ہوگئی، فرمایا کہ ایسے علماء بھی ہیں جو مسائل تفسیر پر توخوب گفتگو کرلیتے ہیں لیکن تلاوت قرآن سے ان کے دل کو لگاؤ نہیں ، اس لیے اس کے انوار و برکات سے محروم ہی رہتے ہیں ، یہ تو گویا اپنے کشف سے یا فراست سے میرے ہی دل کا چور پکڑلیا ‘‘۔
اور حضرت مولانا علی میاں ندوی کہتے ہیں :
’’……سب سے بڑ ا فائدہ یہاں کی حاضری میں مجھے یہ ہوتا تھا جس کی شاید آپ حضرات توقع نہ کریں گے ، وہ یہ کہ ہم یہاں بالکل عامی ہیں، گنوار ہیں ، ہمیں ان چیزوں کی ہوا بھی نہیں لگی ہے اور یہ کہ دین کی حقیقت ان ہی حضرات کے یہاں آکر معلوم ہوتی ہے ، اگر کوئی اور فائدہ نہ ہوتا سوائے اس اصولی اور کلی فائدے کے تو سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ کہیں تو آدمی کو یہ معلوم ہو کہ وہ کچھ نہیں جانتا ، کہیں تو آدمی کو معلوم ہو کہ وہ محتاج ہے ، تو سب سے بڑی چوٹ یہاں آکر دماغ پر لگتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم تو بالکل عامی اورجاہل ہیں ، ہمیں تو صرف نقوش آتے ہیں ، باقی دین کی حقیقت تو اس سے ہم بہت دورنظر آتے ہیں ، اسی کو اقبال نے کسی کے متعلق کہا ہے ؎
سردیں مارا خبر اورا نظر
او درون خانہ ما بیرون در
یعنی ہمارے لیے دین کی حقیقت سنی سنائی چیز ہے اور ان کے لیے جانچی پرکھی ، دیکھی بھالی اور چکھی ہوئی چیز ہے ، وہ گھر کے اندر ہیں اور ہم گھر کے باہر ‘‘۔
(حالات مصلح الامت :32/1)
مقبولیت و محبوبیت :
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو محبوب رکھتے ہیں اس کی محبت فرشتوں اور پھر انسانوں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں ، چنانچہ لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، دوسرے الفاظ میں بندوں کی محبت اللہ کے یہاں مقبولیت اور محبوبیت کی علامت ہے ، اللہ کے اس برگزیدہ بندے کے معاملے میں بھی یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ خلقت آپ کے دیدار اور آپ سے فیض یاب ہونے کے لیے امنڈ پڑی ، جس میں آپ کے اساتذہ بھی ہیں اور درسی ساتھی بھی ، معاصر علماء بھی ہیں اور صلحاء بھی ، یہاں تک کہ حضرت تھانویؒ کے بعض خلفا ء بھی ، درسی ساتھی کسی شخص کے بارے میں بخوبی واقفیت رکھتے ہیں بلکہ ایک طرح سے محرم راز ہوتے ہیں ، اس لیے کسی درسی ساتھی کامعتقد ہونا کسی شخص کے انتہائی باکمال ہونے کی دلیل ہے ۔
جس وقت آپ فتح پور میں مقیم تھے اور ابھی بہت زیادہ آپ کی شہرت نہیں ہوئی تھی اور فتح پورجیسے سہولیات سے محروم دیہات میں پہنچنا کس قدر دشوار تھا مگر اس کے باوجود لوگ ٹوٹے پڑتے تھے ، مولانا عبدالباری ندوی کے الفاظ میں :
’’(فتح پور ) گویا بیسویں صدی کا کہف ، لیکن مخلوق ہے کہ دور نزدیک ، چھوٹی بڑی بستیوں ہی سے نہیں دوسرے صوبوں تک سے جو ق در جوق اس کہف کی طرف بھوکی پیاسی ، روزہ رکھے ، مئی کی چلچلاتی دھوپ اور لو میں زیادہ تر پیدل یا سائیکلوں پر کھچی دوڑی چلی آتی ہے ، روزانہ رمضان بھر یہی تانتا بندھا دیکھتا ، عوام بھی ، خواص بھی ، امیربھی ، غریب بھی ، بوڑھے بھی ، نئے بھی، پرانے بھی ، ڈاکٹر بھی ، طبیب بھی ، دس دس پندرہ پندرہ تک اوسط تو خالی علماء کا ہی رہتا تھا ‘‘
اور فتح پور سے جانے کے بعد پھر گورکھپور ، الٰہ آباد ، بمبئی ، لکھنؤ ، جونپور وغیرہ میں محبوبیت ومقبولیت کا جو سماں دیکھاگیا وہ قدرت خداوندی کا شاہکارتھا ۔
علامہ ابراہیم بلیاوی شیخ الہند کے مخصوص تلامذہ میں شمار کیے جاتے اور جملہ علوم وفنون اور خاص کر معقولات میں امام تسلیم کیے جاتے تھے اور مولانا مدنی کی وفات کے بعد دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس اورناظم تعلیمات مقرر کیے گئے اور تاحیات ان عہدوں پر فائز رہے ، اس جیسا یگانہ عصر عالم اپنے شاگرد سے تربیت کا رشتہ قائم کر تا ہے اور اس کے ہاتھوں پر بیعت ہوتا ہے ، کسی استاذ کی اپنے شاگرد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی مثال تاریخ میں بہت کم ملے گی اوراس سے شاہ صاحب کی عظمت و بزرگی اور غیر معمولی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے فیض یافتہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے خلیفہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اپنے ایک خط میں آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’مولانا وصی اللہ منقطع الی اللہ ہیں، سب جھنجھٹوں کو چھوڑکر صرف باطنی اشغال اورتوجہ الی اللہ میں منہمک ہیں ، حسب قاعدہ ایک کام کی مداومت کمال پیدا کر دیتی ہے ……ان کی بارگاہ میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کو فیض ہورہا ہے ، اس لیے موقع مت گنوائیے اور ان سے استفادہ کیجیے‘‘۔
اور حضرت تھانوی کے خلفاء میں سے مولانا عبدالغنی پھولپوری فرماتے ہیں کہ ’’میں نے جب پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو مولوی وصی اللہ سے کہہ دیا تھا کہ اب ہندوستان کو آپ کے سپر د کر تا ہوں ‘‘(مکتوب مولانا ظفر احمد عثمانی، حیات: 38)اور ان کے خلفاء میں سے خواجـہ عزیزالحسن مجذوب ، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی ، مولانا مسیح اللہ صاحب جلال آبادی ، ڈاکٹر عبدالحیٔ عارفی نے آپ کے فضل و کمال کی شہادت دی اور حضرت مولانا قاری محمدطیب ، مولانا عبدالباری صاحب اور مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی نیاز مندی کے ساتھ آپ کے پاس آتے اور آپ کے یہاں کی حاضری کو اپنے لیے سرمایۂ سعاد ت سمجھتے ۔
اور معاصر اورمشہورعلماء ومشائخ میں سے قاری محمد صدیق صاحب، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ، مولانا محمد منظور نعمانی ، مولانا عبدالماجد دریابادی ، مولانا شاہ محمد احمد پر تاپ گڑھی ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ، مولانا حبیب الرحمن محدث الاعظمی ، مولانا ابو اللیث اصلاحی (امیر جماعت اسلامی ہند ) آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور کسب فیض کرتے ۔
یہ چند مثالیں علماء کے حلقے سے پیش کر دی گئی ہیں ورنہ اس وقت کون ایسا قابل ذکر عالم و فاضل تھا جس نے اس خوان کرم سے فائدہ نہیں اٹھایا ، اگرہم ان کی فہرست بنانا چاہیں تو مشکل ہوگی ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علماء کے حلقے میں ایسی مقبولیت عطا فرمائی تھی کہ باید و شاید ۔
کشف و کرامت :
ظاہر ی اور باطنی امورمیں حکم الٰہی اور سنت نبوی کی مکمل اطاعت ، حقیقی اتباع اور پابندی کانام استقامت ہے اور استقامت کی وجہ سے بطور انعام اللہ کی طرف سے اللہ کے بندوںکو جو خصوصیات عطا ہوتی ہیں ان میں سے ایک عطیہ کشف و کرامت ہے ، مگر یہ کسی کی ولایت کے لیے معیار نہیں ہے ، یعنی کسی اللہ والے سے کرامت کا ظہور نہ ہو تو یہ فیصلہ نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ان کی بزرگی میں کوئی خامی اور نقص ہے ، کیوںکہ انعام و اکرا م کی اصل جگہ آخرت ہے ، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کو دنیا ہی میں حاصل ہوجائے ۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ نبوت قطعی اور یقینی ہوتی ہے اس لیے انبیاء کے معجزات بھی یقینی ہوتے ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے مگر کسی کی ولایت اور بزرگی یقینی نہیں ہوتی ہے بلکہ بظاہر اللہ کی بندگی اورخود سپردگی کی وجہ سے اس کے بزرگ ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے اس لیے اس کی کرامت بھی یقینی نہیں کہی جاسکتی ہے کہ اسے ماننا اور اس پر ایمان لانا ضروری ہو ، البتہ اس فرق کے باوجود نہ تو معجزہ میں نبی کی قوت کا دخل ہوتا ہے اور نہ کرامت میں ولی کی طاقت اور پاور کا بلکہ دونوں چیزیں خالص اللہ کی قدرت اور مشیت سے ظہور میں آتی ہیں اور نبی اور ولی اس کے صدور میں محض واسطہ ہوتے ہیں ۔
حضرت شاہ صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس انعام سے بطور خاص حصہ عنایت فرمایا تھا ، ان کے یہاں حاضر ہونے والوں کی متواتر شہادت ہے کہ کشف و کرامت کا ظہور ان کے ذریعہ اس درجہ ہوتا کہ وہ روز مرہ کی چیزوں میں داخل ہوچکی تھیں اور کتابوں میں اس سلسلے کے متعدد واقعات ملتے ہیں ۔
اور سچ پوچھئے تو آپ کی سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ جس جگہ پہنچے وہاں کے لوگوں کی کایا پلٹ گئی ، دلوں کی دنیا بدل گئی ، ماحول میں انقلاب آگیا ، ویران مسجدیں یکایک آباد ہوگئیں ، مردہ دلوں میں دین و ایمان کی زندگی دوڑ گئی اور لوگ سنت وشریعت کے پابندہوگئے