(1)
نمازمیں قرآن دیکھ کر پڑھنا
ولی اللہ مجید قاسمی
نماز ایک عبادت ہے ،اور عبادات کے سلسلے میں اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ کتاب و سنت سے جس طریقے اور جس کیفیت کے ساتھ ثابت ہے اسی طرح سے اسے ادا کیا جائے،اور عقل و قیاس کے ذریعے اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے ۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صلوا كما رأيتموني اصلي (بخاری :631وغیرہ).
اسی طرح سے نماز پڑھو جس طرح سے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے کبھی نماز کے دوران قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت کسی صحابی کو دی ہو ، حالانکہ اس عہد میں کثرت سے لوگ اسلام قبول کر رہے تھے اور ان میں بہت سے ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے یا بہت کم وقت میں قرآن پڑھنا سیکھ سکتے تھے ، لیکن ضرورت کے باوجود کسی صحابی کو اس کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ہمیشہ تلقین کی جاتی رہی کہ جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کرے ،يؤم القوم اقرءهم لكتاب الله (مسلم :673وغیرہ ) یہاں تک کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ چند روز کے لئے بھی آتے تو واپسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے کہ تم میں سے جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کرے ، وليؤمكم اكثركم قرآنا (بخاری: 4302وغیرہ ).
حالانکہ کہ اس طرح کے مواقع پر اس سہولت کی بھی ضرورت تھی قرآن مجید کی چند سورتیں لکھوادی جاتیں اور کہا جاتا کہ جو پڑھنا جانتا ہو وہ اس میں سے دیکھ کر امامت کرے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین ایک لمبی مدت تک رہے اور لوگ جوق در جوق مسلمان ہوتے رہے اور پڑھنے لکھنے کا عام رواج ہوچکا تھا لیکن اس دور میں بھی ضرورت کے باوجود کسی کو اس کی اجازت نہیں دی گئی ۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اور آپ اس کا جواب دیتے حالانکہ اس وقت آپ نماز میں ہوتے لیکن جب ہم حبشہ سے واپس آئے اور سلام کیا تو آپ نے جواب نہیں دیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا:
ان في الصلاة شغلا(بخاری 1199وغیرہ ،)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی مشغولیت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے جس کے جائزے ہونے کی صراحت کتاب و سنت میں نہ ہو۔ اور ظاہر کے نماز میں قرآن مجید دیکھ کر تلاوت کرنے میں توجہ دوسری طرف مبذول ہوجاتی اور نماز کی مشغولیت بٹ جاتی ہے اور نمازی ایک ایسے عمل میں مصروف ہوجاتاہے جس کی اجازت قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
نماز میں خشوع و خضوع مطلوب و مقصود ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وقوموا لله قانتين .
اللہ کے سامنے باادب فرمانبردار بن کر کھڑے رہو ۔
اور مومنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے:
الذين هم في صلاتهم خاشعون .
جو اپنی نماز میں دل سے جھکنے والے ہیں۔
اور اسی وجہ سے حدیث میں نماز کے اندر ادھر ادھر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے (دیکھئے بخاری: 751وغیرہ)اور سجدے کی جگہ پر نگاہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قاضی شریک کہتے ہیں کہ قیام کی حالت میں سجدے کی جگہ پر نظر رکھے کیونکہ اس سے خشوع و خضوع حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور حدیث میں یہی مذکور ہے ( تفسیر ابن کثیر 184/1)
شاید ابن کثیر کی مراد وہ روایت ہے جس میں کہا گیاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يا انس ! إجعل بصرك حيث تسجد.
انس ! اپنی نگاہ سجدے کی جگہ پر رکھو ۔
اس حدیث کے راویوں پر کلام کیا گیا ہے مگر ابن حجر مکی کہتے ہیں کہ اس طرح کی روایت متعدد سندوں سے مذکور ہے جس کا تقاضا ہے کہ حدیث کو حسن قرار دیا جائے ( اصل صفۃ صلاۃ النبی للالبانی 232/1) قولی حدیث ثابت ہو یا نہ ہو فعلی حدیث بہرحال ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنی نگاہ زمین کی طرف رکھتے تھے ( اصل صفۃ صلاۃ النبی للالبانی 230/1) اور نماز کے دوران قرآن مجید دیکھ کر تلاوت کرنے میں اس سنت پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔
حدیث میں حفظ قرآن کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے اور قرآن کو یا د کرنے اور یاد رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعاهدوا القرآن فوالذي نفس محمد بيده لهو أشد تفلتا من الابل في عقلها (مسلم: 792 بخاري :5033).
قرآن کو یاد رکھنے میں خصوصی توجہ دو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اونٹ کے رسی چھڑا کر چلے جانے سے زیادہ تیزی سے قرآن لوگوں کے دلوں سے نکل جاتا ہے ۔
اگر تراویح وغیرہ میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو قرآن یاد کرنے اور اسے یاد رکھنے کے رجحان میں نہایت کمی واقع ہوگی جیسا کہ عرب ممالک میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور پھر نوبت یہ آجائے گی کہ عام طور پر مسجدوں میں قرآن دیکھ کر تراویح پڑھی جائیگی ، حالانکہ یہ یہود و نصارٰی کا طریقہ ہے کہ ان کے یہاں اپنی مذہبی کتاب کو یاد کرنے کا رواج اور اہتمام نہیں ہے ، اور رسوم و عبادت کے موقع پر کتاب دیکھ کر پڑھ دیا جاتا ہے ، اور اسی کے پیش نظر صحابہ کرام اور تابعین عظام نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے سے منع کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہے کہ: وہ رمضان کے مہینے میں قرآن دیکھ کر امامت کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے کیونکہ یہ اہل کتاب کا طریقہ ہے ( تاریخ بغداد 120/9)
اور مشہور فقیہ ، محدث اور جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ وہ لوگ (یعنی صحابہ کرام) قرآن دیکھ کر امامت کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے تاکہ اہل کتاب کے ساتھ مشابہت نہ ہو ۔ اور ان سے منقول بعض روایات میں ہے کہ وہ لوگ اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سے اس عمل کو شدید ناپسند کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ابراہیم نخعی اس عمل کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تم لوگ اہل کتاب سے مشابہت اختیار کر تے ہو ، مذکورہ تمام روایتوں کی سندیں صحیح ہیں ( دیکھئے کتاب المصاحف /653) اسی طرح سے ابن عباس کے مشہور شاگرد اور مفسر قرآن امام مجاہد کے متعلق منقول ہے کہ وہ قرآن دیکھ کر امامت کرنے کو اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سے مکروہ سمجھتے تھے (مصنف عبدالرزاق 419/2 کتاب المصاحف/653)اور حضرت حسن بصری کے بارے میں ہے کہ وہ قرآن دیکھ کر امامت کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس طرح تو نصرانی کرتے ہیں (کتاب المصاحف/656،)یاد رہے کہ حضرت حسن بصری سے ایک قول جواز کا منقول ہے جس سے بظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے لیکن انھیں سے منقول ایک روایت میں اس کی تفصیل موجود ہے جس سے تضاد ختم ہوجاتا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن دیکھ کر امامت کرنے میں اس وقت کوئی حرج نہیں ہے جبکہ زبانی پڑھنے والا کوئی نہ ہو ((مصنف ابن أبی شیبۃ 338/2) غرضیکہ اجازت بدرجہ مجبوری ہے جب کہ قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہ ، نیز وہ کہتے ہیں :اگر تمہیں قرآن میں سے کچھ یاد ہو تو رمضان کی نماز میں اسی کو بار بار پڑھو اور قرآن میں سے دیکھ کر مت پڑھو (کتاب المصاحف/651)اور یہی بات حضرت سعید بن مسیب بھی کہتے ہیں کہ اگر قرآن میں سے کچھ بھی یاد ہوتو اسی کو رات کی نماز میں دہراتے رہو اور قرآن دیکھ کر مت پڑھو ( مصنف ابن ابی شیبہ 339/2,کتاب المصاحف/651،)۔
صحابی رسول حضرت سعید بن حنظلہ (ابوحاتم رازی ، ابن حبان ، ذھبی اور ابن حجر عسقلانی نے انھیں صحابہ میں شمار کیا ہے )کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قرآن میں سے دیکھ کر امامت کر رہا ہے تو انھیں ناگوار گزرا اور قرآن کو وہاں سے ہٹادیا ، یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا اور ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے امام کو پیر سے مارا ( کتاب المصاحف/655)
واضح رہے کہ حضرت عمر فاروق سے بھی اس عمل کی ممانعت منقول ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے ، (کتاب المصاحف /651)
اور تابعین میں سے مذکورہ حضرات کے علاوہ حماد بن سلمہ، قتادہ بن دعامہ ،شعبی ،اور ابو عبد الرحمن سلمی سے اس کی ممانعت ثابت ہے (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 338/2, کتاب المصاحف/651,المحلی لابن حزم 46/4)
اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس عمل کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی ، ابن حزم ظاہری کی بھی یہی رائے ہے اور انھوں نے نقل کیا ہے کہ امام شافعی بھی اسی کے قائل ہیں (المحلی 46/4)اور امام ابویوسف و محمد کے نزدیک ایسا کرنامکروہ ہے ، اور امام مالک کہتے ہیں کہ مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت ہوگی، چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی رمضان میں قرآن دیکھ کر امامت کرسکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ مجبوری کی حالت میں کوئی بات نہیں ہے (کتاب المصاحف/661) اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول یہی ہے (المغنی 575/1) مجبوری کی حالت سے مراد یہ ہے کہ اسے قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہ جسے وہ تراویح میں پڑھ سکے اور اگر نماز جائز ہونے کے بقدر قرآن یاد ہے تو اسے مجبور نہیں کہا جائے گا بلکہ اسے اسی کو زبانی بار بار پڑھنا ہوگا۔
اس کے برخلاف ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے اس کی اجازت منقول ہے (مصنف ابن ابی شیبہ 338/2)اور صحابی رسول حضرت انس کے متعلق منقول ہے کہ وہ نماز پڑھاکرتے تھے اور ان کا ایک خادم ان کے پیچھے قرآن لئے رہتا اور اگر وہ کہیں بھول جاتے تو وہ انھیں لقمہ دیتا (مصنف ابن ابی شیبہ 338/2)اور تابعین میں سے حضرت عطاء ، ابن سیرین، یحییٰ بن سعید،اور حکم بن عتیبہ سے اس کا جواز منقول ہے (دیکھئے مصنف ابن أبی شیبۃ 337/2,کتاب المصاحف/660)اور امام زہری سے قرآن مجید دیکھ کر امامت کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : اسلام کے شروعاتی دور سے لوگ ایسا کرتے رہے ہیں (کتاب المصاحف/660)لیکن سند ضعیف ہونے کی وجہ سے روایت ناقابل استدلال ہے ۔اور شافعیہ و حنابلہ کا یہی مسلک ہے (الموسوعہ الفقھیۃ 57/33)
حضرت عائشہ صدیقہ رض وغیرہ سے منقول عمل کی یہ تأویل کی جاسکتی ہے کہ ان کے غلام ذکوان وغیرہ نے قرآن کو اپنے قریب میں رکھا ہو اور زبانی پڑھتے ہوئے بھول جانے کی صورت میں اس میں دیکھ لیتے ہوں اور اسی کو قرآن سے دیکھ کر پڑھنا کہہ دیا گیا ہو ، چنانچہ یونس کہتے ہیں کہ وہ محمد بن سیرین کے پاس گئے دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں اور قرآن دیکھ کر تلاوت کر رہے ہیں وهو يصلي قاعدا وهو يقرء في مصحف ( کتاب المصاحف/ 662)مگر ہشام اور جریر بن حازم وغیرہ کہتے ہیں کہ ابن سیرین بیٹھ کر نماز پڑھتےتھے اور قرآن ان کے پہلو میں ہوتا ،اگر کسی موقع پر ان کو شک ہوتا تو اس میں سے دیکھ لیتے ، یہی بات ایوب سختیانی نے نقل کی ہے ( دیکھئے مصنف عبدالرزاق 420/2, کتاب المصاحف/662) غرضیکہ جس مقام سے تلاوت کرنا مقصود ہوتا اسے کھول کر بغل میں رکھ لیتے اور زبانی پڑھتے رہتے اور بھول جانے کی حالت میں اسے دیکھ لیتے اسی کو بعض لوگوں نے ان الفاظ میں نقل کردیا کہ وہ نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رض سے منقول روایت کے بارے میں علامہ البانی کہتے ہیں کہ یہ روایت سلف کے عمومی منہج کی عکاسی نہیں کرتی بلکہ حضرت عائشہ کا انفرادی عمل بیان کرتی ہے جو ان کے ساتھ خاص ہے اور اسے عام کرنا اور مسجد کے اماموں کے لئے عمومی طریقہ بیان کرنا سنت اور سلف کے طریقے کے خلاف ہے ۔