نوافل پرمداومت :
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
کسی کام پر ہمیشگی اور استمرار ایک پسندیدہ چیز ہے۔ کسی بھی معاملہ کو شروع کرکے آخر تک نبھانے کی ایک اہمیت ہے۔ مستقل مزاجی ایک قابل تعریف صفت ہے۔ عبادت میں بھی اس وصف کو بطور خاص ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اور اتنی عبادت سے منع کیاگیا ہے جسے انسان نباہ نہ سکے چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میرے پاس قبیلہ بنواسد کی ایک عورت موجود تھی کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت عائشہ نے کہا فلانہ ہے جو پوری رات جاگ کر نماز پڑھتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا چپ رہو تم اتنے ہی عمل کرو جتنی کہ تمہاری طاقت ہے کیونکہ اللہ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ۔
(عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ : كَانَتْ عِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ” مَنْ هَذِهِ ؟ ” قُلْتُ : فُلَانَةُ، لَا تَنَامُ بِاللَّيْلِ، فَذُكِرَ مِنْ صَلَاتِهَا، فَقَالَ : ” مَهْ، عَلَيْكُمْ مَا تُطِيقُونَ مِنَ الْأَعْمَالِ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا ". صحيح بخاري 1151)
آپ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے :
أحب الاعمال الی اللہ الذی یداوم علیہ صاحبہ و ان قل-
اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جس کو کرنے والا ہمیشہ کرتا رہے گرچہ کم ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح بخاری 154/1)
آپ ﷺ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا‘حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :
آپﷺ عمل میں ہمیشگی برتتے تھے۔ جب کسی کام کو شروع کردیتے تو اس کو باقی رکھتے۔(عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَمِلَ عَمَلًا أَثْبَتَهُ.(صحيح مسلم :746)