نکاح مسفار:

"مسفار” عربی لفظ "سفر” سے بنایا گیا ہے ۔بعض ممالک کے لوگ گرمی وغیرہ کی چھٹی گزارنے کے لئے مختلف ملکوں کا سفر کرتے ہیں اور وہاں قیام کے دوران نکاح کرلیتے ہیں اور وطن واپسی پر طلاق دے دیتے ہیں اس لئے اسے نکاح مسفار کہا جاتا ہے ۔

اس کی متعدد صورتیں ہیں:

1-عقد میں اس بات کی صراحت ہو کہ ایک متعین مدت تک کے لئے نکاح کیا جارہا ہے تو یہ متعہ اور حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ۔اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ۔فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ۔(سورۃ المؤمنون 5-6-7)

اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(یعنی اس بات سے حفاظت کرتے ہیں کہ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے۔) سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں۔(اس سے مراد وہ کنیزیں ہیں جو شرعی احکام کے مطابق کسی کی ملکیت میں آئی ہوں لیکن آج کل ایسی کنیزوں کا کوئی وجود نہیں رہا) کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں۔ہاں جو اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔(یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے۔)

اس آیت میں کہا گیا ہے کہ انسان صرف اپنی بیوی یا باندی سے جنسی خواہش پوری کرسکتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور ذریعے سے جنسی خواہش کی تسکین حد سے تجاوز ہے اور ظاہر ہے کہ جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے وہ بیوی شمار نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے بیوی کے حقوق حاصل ہوتے ہیں اس لئے وہ جنسی خواہش کی تکمیل کے شرعی ذریعے میں داخل نہیں ہے۔

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ أَكْلِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ .

رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے اور گدھے کے گوشت کو کھانے سے منع فرمایا ۔(صحیح بخاری:4216.صحیح مسلم:1407)

2-عقد میں متعین مدت کے لئے نکاح کرنے کا تذکرہ نہ ہو لیکن دل میں پختہ ارادہ ہے کہ سفر کی مدت ختم ہونے کے بعد طلاق دے دیگا۔

اس صورت کا حکم وہی ہے جو نکاح بہ نیت طلاق کا ہے ۔

لیکن یہاں یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اس طرح کا نکاح متعہ کا چور دروازہ بن گیا ہے اور مقصد عصمت و عفت کی حفاظت نہیں بلکہ لذت چشی ہوتا ہے ۔مالدار لوگ محض جنسی آوارگی کے لئے دور دراز کے علاقوں اور غریب ملکوں کا سفر کرتے ہیں اور غریب گھرانے کی لڑکیوں کو ایک طرح سے خرید کر کے کچھ دنوں تک ان سے کھیلتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں اور نکاح کے ذریعے عائد ہونے والی کسی ذمہ داری اور شرعی حقوق کے پابند نہیں ہوتے ۔

نکاح کے ارکان و شرائط کے پائے جانے کی وجہ سے گرچہ فقہاء اسے درست قرار دیتے ہیں یعنی دنیاوی اعتبار سے اس پر زنا کے احکام نافذ نہیں ہوتے ہیں مگر مقصد پر نگاہ کرتے ہوئے اخروی اعتبار سے زنا شمار ہوگا کیونکہ

نکاح ایک نہایت پاکیزہ رشتہ اور ایک مقدس بندھن ہے جس میں مرد عورت ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ، وفادار اور ہمیشہ وابستہ رہنے کا عہد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَكَيۡفَ تَأۡخُذُونَهُۥ وَقَدۡ أَفۡضَىٰ بَعۡضُكُمۡ إِلَىٰ بَعۡضٖ وَأَخَذۡنَ مِنكُم مِّيثَٰقًا غَلِيظٗا [سورۃالنساء: 21]

"اور آخر تم کیسے وہ مہر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو چکے تھے اور انہوں نے تم سے بڑا بھاری عہد لیا تھا”

حضرت عبد اللہ بن عباس ، مجاہد اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میثاق غلیظ (بھاری عہد و پیماں) سے مراد خود عقد نکاح ہے[تفسیر ابن کثیر443/1] جس کے ذریعہ دونوں ایک دوسرے سے دائمی وابستگی اور حسن سلوک کا عہد کرتے ہیں۔

اور عہد و پیماں کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہیں۔

اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

فاتقو اللہ فی النساءفانکم اخذتموھن بامان اللہ و استحللتم فروجوھن بکلمۃ اللہ[صحیح مسلم:1218 کتاب الحج]

عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو تم نے اللہ کے امان کے ذریعے سے انہیں حاصل کیا ہے اور اللہ کی طرف سے مباح قرار دینے کی وجہ سے ان کی عصمت تمہارے لیے حلال ہوئی ہے۔

وہ پاکیزہ زندگی گذارنے کا ذریعہ اور گناہ سے بچنے کا سبب ہے لہذا اس کا مقصد نگاہ و شرمگاہ کی حفاظت ، نسل انسانی کی بقا اور تربیت ہونا چاہیے نہ کہ محض نفسانی خواہشات کی تکمیل۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ[سورۃ المائدہ:5]

جب کہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیئے ہوں نہ تو (بغیر نکاح کے) صرف ہوس نکالنا مقصود ہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا ۔

اور اسی بنیاد پر عارضی شادی جیسے کہ متعہ یا موقت کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس سے مقصد محض ہوس رانی ہے۔ اور حلالہ کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے حالانکہ اس میں بھی بہ صراحت وقت کی تحدید نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق دینے کی صرف نیت ہوتی ہے۔

علامہ ابن حمام لکھتے ہیں:

نکاح متعہ کا مشہور مفہوم یہ ہے کہ کسی عورت سے نکاح تو کیا جائے لیکن اس میں مقاصد نکاح کا حصول مطلوب نہ ہو یعنی بچے کی پیدائش اور اس کی تربیت کیلیے رشتے کو برقرار رکھنا مقصود نہ ہو[فتح القدیر246/2]

اور "عنایہ "میں ہے:

مقاصد نکاح کےحصول کےبغیر کسی عورت سے فائدہ اٹھانے کا نام متعہ ہے اور نکاح موقت میں بھی یہ چیز موجود ہے کیونکہ قلیل مدت میں ان مقاصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے[العنایۃ 394/4

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے