نکاح مسیار
ولی اللہ مجید قاسمی
اسلام میں نکاح ایک عبادت کا درجہ رکھتا ہے ، اور اسی کے ساتھ اس میں معاملہ اور معاہدہ کا پہلو بھی ہے . مرد و عورت فریق کے بجائے رفیق کی حیثیت سے پوری زندگی ایک ساتھ رہنے کا ایک خوبصورت ، مضبوط اور پاکیزہ عہد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے لیے حلال لباس بن جاتے ہیں اور اس کے سبب مرد پر مہر ، نان ونفقہ اور رہائش کا نظم کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔
اور اس کے ذریعے ایک اجتماعی نظام اور خاندان وجود میں آتا ہے اور کسی بھی اجتماعی نظام میں ایک سربراہ کا ہونا ضروری ہے ورنہ تو نظم برقرار نہیں رہ پائے گا ، مرد کی بعض امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اسے خاندانی نظام کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے ، اور اسے پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اس سسٹم کی حفاظت و رعایت اور تربیت و نگرانی اور مالی ضرورتیں پوری کرے ۔
موجودہ دور میں مسیار کے نام سے نکاح کی ایک ایسی شکل وجود میں آگئی ہے جس سے خاندانی نظام ایک حیثیت سے متأثر ہوتاہے ۔
نکاح مسیار کی حقیقت
‘‘ مِسیار ’’ مفعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے بمعنی بہت زیادہ چلنے والا ، اور یہ لفظ ‘‘ سیر’’ سے بنایا گیا ہے جس کے معنی چلنے کے ہیں ، [دیکھئے المفردات لاصفہانی ۲۴۷] چونکہ نکاح کے اس قسم میں بیوی کے ساتھ رہنے کے لیے کوئی متعین وقت نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہر کو جب موقع ملتا ہے اس کے پاس چلا جاتا ہے اس لیے اس کو نکاح مسیار کہاجاتا ہے ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نجد کے علاقے میں یہ لفظ دن میں کسی کے پاس جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور اس نکاح میں بھی عام طور پر شوہر دن ک وقت بیوی کے پاس جاتا ہے ، اس لیے اسے نکاح مسیار کہاجانے لگا ۔[لسان العرب۲/۲۵۲]
علامہ یوسف قرضاوی کہتے ہیں کہ یہ عوامی لفظ ہے جس سے مراد کسی کے پاس سے گزرنا اور تھوڑی دیر کے لیے رکنا ہوتا ہے ۔[معجم علوم اللغۃ/۳۶۱ محمد الاشقر]
اصطلاحی اعتبار سے نکاح مسیار کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں عقد نکاح کی تمام مطلوبہ شرطیں اور ارکان پائے جاتے ہیں ،البتہ میاں بیوی دونوں یا ان میں سے کوئی ایک نکاح کی وجہ سے عائد بعض ذمہ داریوں یا حقوق سے دست بردار ہونے کی شرط لگادیتا ہے ، مثلاً شوہر کی طرف سے شرط ہو کہ وہ اس کے پاس رات گزارنے یا اس کا نفقہ ادا کرنے کا پابند نہیں ہوگا یا بیوی یہ شرط عائد کردے کہ اسے میکے میں رہنے دیا جائے گا ۔
نکاح مسیار کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص حصول علم یا ملازمت کے لیے اپنے وطن سے دور ہے اور وہ وہاں اپنےاہل و عیال کو رکھنے کے موقف میں نہیں ہے،لیکن نگاہ و شرمگاہ کی حفاظت کی خاطر وہ کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے ، جس میں نکاح کی تمام شرطوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے ، البتہ عام طور پر گھر والوں کو اس کی اطلاع نہیں دی جاتی بلکہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے نیز ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ حصول علم یا ملازمت کی مدت ختم ہونے کے بعد وطن واپس ہوتے ہوئے اس رشتہ کو ختم کردیا جائے گا ۔
فقہی کتابوں میں نکاح مسیار کا تذکرہ :
نکاح مسیار نکاح کی ایک نئی قسم ہے اس لیے فقہی کتابوں میں اس نام سے کسی نکاح کاتذکرہ نہیں ملتا ہے ، البتہ اسی سے ملتی جلتی ایک شکل کو بیان کیا گیا ہے ، جسے زواج لیلیات یا نہاریات کہا جاتا تھا اور اس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
عقد علی شرط ان لا تاتیہ او یاتیھا الا لیلا او نہارا او بعض ذالک .[الشرح الکبیر علی حاشیۃ الدسوقی۲/۲۳۷]
اس شرط پر عقد کرنا کہ عورت اس کے پاس صرف رات یا دن یا کسی وقت تھوڑی دیر ک لیے آئے گی ، یا اس طرح کی شرط مرد کی طرف سے ہو ۔
اور علامہ ابن نجیم حنفی کہتے ہیں کہ نکاح نہاریات میں کوئی حرج نہیں ہے ، جس کی شکل یہ ہے کہ اس شرط پر کوئی نکاح کرے کہ وہ بیوی کے پاس صرف دن کے وقت آئے گا ، رات کے وقت نہیں ، اور مناسب ہے کہ اس طرح کی شرط لازم نہ ہو اور عورت کو اس بات کا حق حاصل ہوکہ وہ اس کے پاس رات گزارنے کا تقاضا کرے ۔[قالوا لاباس بتزوج النھاریات وھو ان یتزوجھا لیقدع معھا نھاراً دون اللیل وینبعی ان لا یکون ھذا الشرط لازما علیھا ولھا ان تطلب المبیت عندھا لیلا ، البحر الرائق ۳/۱۱۶، نیز دیکھیئے تبیین الحقائق ۲/۱۱۶، فتح القدیر ۳/۲۴۹]
اور مالکیہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی شرط فاسد ہے ، اور صحبت سے پہلے اس طرح سے منعقد ہونے والے عقد کو فسخ کردیا جائے گا اور صحبت کے بعد نکاح کو باقی رکھا جائے گا اور شرط غیر معتبر ہوگی اور عورت کو مہر مثل ملے گا ۔ومن العقود وما یفسخ تبل الدخول فقط ان وقع علی شرط ان لاتاتیہ او یاتیھا الا لیلا او نھاراً او بعض ذالک و یثبت بعد الدخول و یسقط الشرط ولھا مھرالمثل ،[الشرح الکبیرللدردیر۲/ ۲۳۷] وقول مالک فی النھاریۃ وھی التی تتزوج علی ان لاتاتیہ او یاتیھا الا نھاراً او لاتاتیہ الا لیلاً لاخیر فیہ۔ قال ابن القاسم ویفسخ مالم یدخل فان دخل ثبت صداق المثل ویسقط الشرط ان یاتیھا لیلاً و نھاراً [التاج الاکلیل ۳/۴۴۴]
اور شافعیہ کہتے ہیں کہ یہ ان شرائط فاسدہ میں سے ہے جو نکاح کے مقاصد کے خلاف ہیں لیکن اس کی وجہ سے عقد باطل نہیں ہوگا خصوصاً جب کہ شوہر کی طرف سے شرط لگائی گئی ہو ، کیوں کہ وہ شب باشی اور جماع کے حق کا مالک ہوتا ہے لہذا وہ ایسی شرط لگا سکتا ہے ، لیکن اگر عورت کی طرف سے اس طرح کی شرط ہو تو نکاح باطل ہے ، کیوں کہ وہ شوہر کو اس کے حق سے روک رہی ہے۔[زواج المسیار،۱۰۸ ،لعبداللہ بن یوسف المطلق]
حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ فاسد شرطوں میں شامل ہے جو غیر معتبر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے عقد کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :
اثرم نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص عقد نکاح میں یہ شرط لگادے کہ وہ بیوی کے پاس چند دن رہے گا تو یہ شرط جائز ہے ، البتہ عورت اس شرط سے رجوع کرسکتی ہے ، اسی طرح سے اگر شوہر یہ شرط لگا دے کہ بیوی اسے ہر ماہ پانچ یا دس درہم دیا کرے گی تو نکاح جائز ہے اور عورت کو اس شرط سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا ، لیکن ان میں سے بعض شرطوں کے سلسلے میں امام احمد سے ایسی رائے بھی منقول ہے جس سے عقد کے باطل ہونے کا احتمال معلوم ہوتا ہے چنانچہ مروزی نے نہاریات اور لیلیات کے بارے میں ان سے نقل کیا ہے کہ یہ اہل اسلام کے نکاح میں سے نہیں ہے ۔
زواج نہاریات کو حماد ابن ابی سلیمان اور ابن شبرمہ نے بھی مکروہ قرار دیا ہے اور ثوری کہتے ہیں کہ شرط باطل ہے ، اور اہل رائے کہتے ہیں کہ جب بیوی باری کے سلسلے میں عدل کا مطالبہ کرے تو شوہر کو عدل کرنا ہوگا ، اور حسن بصری اور عطاء کے نزدیک زواج نہاریات میں کوئی حرج نہیں ہے ، یعنی کوئی اس شرط کے ساتھ نکاح کرے کہ وہ مہینے میں چند گنے چنے دن ہی بیوی کو دے سکے گا ۔
اور شاید جن لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے ان کی مراد یہ ہے کہ شرط باطل ہے ، اور جن لوگوں نے جائز قرار دیا ہے ان کا مقصد یہ ہے کہ نکاح اصلاً درست ہے ، غرضیکہ سب لوگ اس پر متفق ہیں کہ نکاح صحیح ہے اور شرط باطل ہے ۔[المغنی۵۵۱/۶]
دوسرے یہ کہ نکاح مسیار میں بعض حقوق سے دست برداری کی شرط لگائی جاتی ہے اور عقد نکاح میں لگائی جانے والی شرطوں کے سلسلے میں فقہاء نے بہت تفصیل لکھا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے :
عقد نکاح میں لگائی جانے والی شرطوں کی تین قسمیں ہیں :
(۱)وہ حقوق اور ذمہ داریاں جو عقد نکاح کی وجہ سے عائد ہورہی تھیں انہیں کو شرط کی شکل میں ذکر کردیا جائے مثلاً عورت کی طرف سے یہ شرط ہو کہ شوہر اس کے نفقے کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرے گا ، اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے گا ، یا شوہر کی طرف سے شرط ہو کہ وہ اس کی نافرمانی نہیں کرے گی اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جائے گی۔
اس طرح کی شرائط بہ اتفاق معتبر ہیں ، اور میاں بیوی میں سے ہر ایک پر ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کیوں کہ یہ چیزیں خود شریعت کی طرف سے واجب ہیں ۔[فتح الباری۲۷۲/۹]
(۲)وہ شرائط جن کا مقصد نکاح کے حقوق اور فرائض سے فرار ہو ، جیسے کہ شوہر کی طرف سے یہ شرط ہو کہ وہ بیوی کے نفقے کا ذمہ دار نہ ہوگا یا عورت کی طرف سے یہ شرط ہو کہ شوہر اس سے صحبت نہیں کرے گا یا پہلی بیوی کی بہ نسبت اس کے پاس زیادہ وقت دے گا ۔[فتح الملک المعبود۳۲/۳، المعنی ۵۵۰/۶ ، ارشاد الساری ۱۴۳/۶]
اس طرح کی شرط بہ اتفاق غیر معتبر ہے ، لیکن کیا اس کی وجہ سے نکاح فاسدہوگا؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ حنفیہ کے نزدیک شرط فاسد کی وجہ سے نکاح فاسد نہیں ہوتا ہے اگر چہ عقد کے ساتھ شرط کو ذکر کیا گیا ہو۔مالکہ کہتے ہیں کہ شرط فاسد کی وجہ سے نکاح فاسد ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر ہم بستری ہوجائے تو نکاح صحیح اور شرط باطل ہے ، شافعیہ اور حنابلہ بعض شرطوں کی وجہ سے نکاح کو فاسد کہتے ہیں اور بعض فاسد شرطوں کے باوجود نکاح کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔[الفقہ الاسلامی و ادلۃ۵۳/۷]
(۳)وہ شرطیں جو مذکورہ دونوں قسموں میں شامل نہیں ہیں بلکہ مباح اور جائز ہیں لیکن اس کی وجہ سے ایک فریق پر ایسی پابندی عائد ہوجاتی ہے جو غیر مشروط نکاح کی صورت میں عائد نہیں ہوتی گویا کہ ان شرائط کی وجہ سے ایک فریق اپنے بعض حقوق سے دست بردار ہوجاتا ہے جس سے دست برداری کا اسے اختیار حاصل ہے جیسے عورت کی طرف سے یہ شرط ہو کہ اس کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح نہیں کرے گا یا یہ کہ اسے میکے میں رہنے دے گا [المغنی۵۵۰/۶] اس قسم کے شرائط کے سلسلے میں اس پر تو اتفاق ہے کہ نکاح منعقد ہوجائے گا اور کسی طرح کا فساد لازم نہیں آئے گا، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ان شرطوں کو پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ امام ابوحنیفہ ، مالک اور شافعی کے نزدیک ان شرطوں پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ، اور عدم تعمیل کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں، اس کے برخلاف امام احمد بن حنبل کے نزدیک شرط کی تعمیل واجب ہے، اور اس کے مطابق عمل نہ کرنے کی صورت میں عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے ۔[فتح الباری۲۷۳/۹، عمدۃ القاری،۱۲۰/۲۰، الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۶۰/۷]
دیکھا جائے تو نکاح مسیار میں انہیں میں سے کوئی شرط لگائی جاتی ہے اور یہ گزر چکا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک شرط فاسد کی وجہ سے نکاح فاسد نہیں ہوتا ہے ۔[الھدایۃ ۵۱/۳،باب نکاح اھل الذمۃ] اور امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص اس شرط کے ساتھ نکاح کرے کہ عورت کا نفقہ اس کے ذمہ نہیں ہوگا تو نکاح جائز ہے اور شرط باطل ہے چاہے اس کے ساتھ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور عورت کو رائج نفقہ ملے گا[قال ابو حنیفۃ فی الرجل ینکح المرأۃ و یشترط علیھا ان لا نفقۃ لھا علیہ ان ھذا النکاح جائز والشرط باطل دخل ام لم یدخل بھا ولھا نفقۃ مثلھا بالمعروف ،کتاب الحجۃ علی اھل المدینۃ۳۱۲/۳] اور مالکیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ شرط لگادے کہ شب باشی کے لیے اس کی باری متعین نہیں ہوگی یا اسے نفقہ نہیں دے گا تو نکاح فسخ کردیا جائے گا البتہ اگر ہمبستری ہوجائے تو نکاح باقی رکھا جائے گا اور شرط غیر معتبر ہوگی ۔[الفواکہ الدوانی ۳۶/۲، القوانین الفقہیۃ /۳۶۰]
اور شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر یہ شرط ہو کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کرے گا یا اس کے لیے نفقہ نہیں ہوگا یا اسے اس کے میکے میں رہنے دےگا تو شرط فاسد ہے البتہ نکاح صحیح ہے ، کیوں کہ مقصود اصلی یعنی جماع میں اس سے کوئی خلل نہیں پڑتا ہے ، البتہ اگر عورت یہ شرط لگادے کہ وہ اس سے جماع نہیں کرے گا یا مہینے یا سال میں صرف ایک مرتبہ اس سے صحبت کرے گا یا صرف رات میں یا صرف دن میں صحبت کرے گا تو اس شرط کی وجہ سے عقد باطل ہوجائے گا کیوں کہ یہ عقد نکاح کے مقصد کے خلاف ہے ۔ البتہ اگر اس طرح کی شرط شوہر کی طرف سے ہو مثلاً وہ کہے کہ وہ صرف رات کے وقت اس کے ساتھ رہے گا تو عقد باطل نہیں ہوگا ، کیوں کہ شوہررات و دن میں کسی بھی وقت وطی کا مالک ہے ، لہذا وہ ان میں سے کسی ایک وقت میں اپنے حق سے دست بردار ہوسکتا ہے ۔ اس طرح سے اگر یہ شرط ہو کہ بیوی شوہر کا یا شوہر بیوی کا وارث نہیں ہوگا ، یا کہ نفقہ کا ذمہ دار شوہر کے علاوہ کوئی اور شخص ہوگا تو بھی عقدباطل ہوجائے گا ۔[مغنی المحتاج۲۹۹/۳، الفقہ علی المذاہب ۹۱/۴]
اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر یہ شرط ہو کہ شوہر اسے نفقہ نہیں دے گا ،یا اسے مہر نہیں ملے گا ، یا شوہر کا نفقہ بیوی کے ذمے ہوگا ، یا یہ کہ اس کی باری صرف دن میں ہوگی یا ہفتہ میں صرف ایک مرتبہ ہوگی تو ان تمام صورتیں میں شرط باطل ہے کیوں کہ عقد کے تقاضے کے خلاف ہے ، البتہ نکاح صحیح ہے ۔[الکافی ۵۵/۳،لابن قدامہ]
حاصل یہ ہے کہ نکاح مسیار میں اگر نفقہ نہ دینے یا بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے کی شرط ہوتو نکاح صحیح ہے اور شرط باطل ہے ، حنفیہ ،شافعیہ اور حنابلہ اسی کے قائل ہیں ، اور مالکیہ کے نزدیک شرط باطل ہے اور عقد کو فسخ کردیا جائے گا لیکن اگر ہم بستری ہوچکی ہو تو عقد کو باقی رکھا جائے گا ۔ البتہ اگر نکاح کے بعد عورت اپنے طور پر اپنے ان حقوق سے دست بردار ہوجائے تو صحیح ہے ، لیکن اسے معاہدہ شمار نہیں کیا جائے گا اس لیے اس کی پابندی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس کی خلاف ورزی پر وہ گنہ گار ہوگی بلکہ وہ جب چاہے ساقط کردہ حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہے ، چنانچہ مختصر القدوری میں ہے :
و ان رضیت احدی الزوجات بترک قسمھا لصاحبتھا جاز ولھا ان ترجع فی ذالک۔
البتہ اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیےکہ عورت حالات سے مجبور ہوکر اور طلاق سے ڈر کر اپنے حقوق سے دست بردار ہورہی ہے یا اسے اس کی ضرورت نہیں ہے ، اس لیے اللہ عز وجل کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اس معاملے کا فیصلہ کرنا چاہیے ۔
وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًۭا (سورۃ النساء:۱)
اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے) ڈرو، یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کررہا ہے ۔
نکاح مسیار کے اسباب و محرکات:
مرد وعورت میں کسی ایک یا دونوں کے یا سماجی حالات و ضروریات کی بنیاد پر نکاح مسیار کا وجود ہوتا ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں :
۱)عرب ممالک میں خطیر مہر اور دوسرے مطالبات کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہوجاتی ہے جس کے سبب وہ جوانی کی سرحد سے آگی بڑھ جاتی ہیں اور پھر رشتہ ملنا دشوار ہوجاتا ہے ، یا طلاق و وفات کی وجہ سے دوسری شادی نہیں ہوپارہی ہے ۔
۲)عورتیں عام طور پر تعدد ازدواج کو گوارا نہیں کرتیں ہیں ، اور بعض حالات کی وجہ سے ان کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوتی ہے ، یہاں تک کہ غیر شادی شدہ مناسب مرد کی تلاش میں ان کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے ۔
۳)بعض عورتیں اپنے مسائل کی وجہ سے میکے میں رہنا چاہتی ہیں،مثلاً والدین کی خدمت اور دیکھ ریکھ کے لیے کوئی موجود نہیں ہے ،یا پہلے شوہر سے بچے ہیں جن کے ساتھ شوہر کے گھر منتقل ہونا دشوار ہے ، نیز اگر وہ مکمل طور پرشوہر کے لیے یکسو ہوجائیں تو بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہوگی ۔
۴)بعض عورتیں نابینائی یا جسمانی نقص کی وجہ سے گھر کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی ہیں اور ان کے سرپرست پاکیزہ زندگی کزارنے اور اولاد کی نعمت کے حصول کے لیے ان کا نکاح کرنا اور شوہر کو کسی چیز کا پابند نہیں بنانا چاہتے ہیں ۔
۵)بعض عورتوں کے پاس کمائی کے ذرائع موجود ہیں ، مثلاً وہ ٹیچر ، ڈاکٹر یا کسی دوسرے پیشہ سے وابستہ ہیں ، اس لیے انہیں نفقہ و رہائش کی ضرورت نہیں ہے۔
۶)بعض لوگ دوسرے نکاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن وہ اسے پہلی بیوی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ اس کی وجہ سے تعلقات خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔
۷)بہت سے لوگ دوسری بیوی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کیوں کہ پہلی بیوی کے مریض یا عمر دراز ہونے کی وجہ سے وہ جنسی سکون حاصل نہیں کرپاتے اور دوسری طرف وہ دوسری بیوی کے اخراجات و مصارف کا متحمل نہیں ہیں ۔
۸)بعض لوگ ازدواجی زندگی کے مصارف برداشت نہیں کرسکتے ،دوسری طرف بعض خواتین دولت و ثروت کی مالک ہوتی ہیں ، انہیں شوہر کی طرف سے نفقہ و مکان کی ضرورت نہیں ہے تاہم عصمت و عفت کی حفاظت اور اولاد کی چاہت میں وہ نکاح کرنا چاہتی ہیں ۔
۹)بہت سے لوگ تجارت یا دوسرے مقاصد کے تحت کسی جگہ جاکر ایک طویل مدت تک قیام کرتے ہیں اور بیوی کو ساتھ لے کر جانا مشکل ہوتا ہے اس لیے نگاہ و شرمگاہ کی حفاظت کے لیے وہ کسی مقامی خاتون سے نکاح کرلیتے ہیں ۔
۱۰)سماج میں تعدد ازدواج کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے اس لیے کچھ لوگ اپنی ضرورت کے پیش نظر دوسری شادی کرلیتے ہیں لیکن اسے ظاہر نہیں کرتے ۔
ان حالات و اسباب کی وجہ سے بعض مرد و عورت اپنے حقوق سے دست بردار ہوکر نکاح کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں ۔
نکاح مسیار سے متعلق مختلف نظریات:
نکاح مسیار کے سلسلے میں عرب علماء کی رایوں میں اختلاف ہے ، بن باز ، بن جبرین اور طنطاوی وغیرہ اسے کسی کراہت کے بغیر جائز قرار دیتے ہیں ، فقہ اکیڈمی جدہ کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔ اس نقطہ نظر کے دلائل یہ ہیں :
۱)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَإِنِ ٱمْرَأَةٌ خَافَتْ مِنۢ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًۭا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًۭا ۚ وَٱلصُّلْحُ خَيْرٌ[سورۃ النساء: ۱۲۸]
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بیزاری کا اندیشہ ہو تو ان میاں بیوی کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ آپس کے اتفاق سے کسی قسم کی صلح کر لیں اور صلح کر لینا بہتر ہے۔
اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں حضرت عائشہ کہتی ہیں
ھی المرأۃ تکون عند الرجل لا یستکثر منھا فیرید طلاقھا ویتزوج غیرھا تقول لہ امسکنی ولاتطلقنی ثم تزوج غیری فانت فی حل من النفقۃ علی والقسمۃ لی[صحیح بخاری:۵۲۰۶] وفی روایۃ فلا باس اذا تراضیا[صحیح بخاری:۲۶۹۴] وفی روایۃ و تکون لھا صحبۃ وولد فتکرہ ان یفارقھا فتقول لہ انت فی حل من شانی[صحیح مسلم: ۳۰۲۱]
کوئی شخص کسی وجہ سے اپنی بیوی سے بہت زیادہ ربط ، ضبط نہیں رکھتا ہے اور اسے طلاق دیکر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے ،اور عورت اس سے کہے کہ تم مجھے اپنے ساتھ رہنے دو اور طلاق مت دو البتہ دوسری شادی کر سکتے ہو اور میرا نفقہ اور میری باری معاف ہے اور ایک روایت میں ہے کہ باہمی رضامندی سے نفقہ اور باری وغیرہ معاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور امام مسلم نے نقل کیا ہے کہ کسی عورت نے اس کے ساتھ لمبی عمر گذاری ہو اور اس سے اس کے بچے ہوں لہذا اسے شوہر سے علاحدہ ہونا گوارا نہیں ہے اس لیے وہ کہتی ہے کہ میں تمہیں اپنے حقوق سے بری قرار دیتی ہوں۔
۲۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں
وکان یقسم لکل امرأۃ منھن یومھا ولیلتھا غیر ان سودۃ بنت زمعۃ وھبت یومھا و لیلتھا لعائشۃ زوج النبیﷺ تبتغی بذالک رضا رسول اللہ ﷺ[صحیح بخاری: ۲۵۹۳]
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک دن اور رات مقرر کر رکھا تھا البتہ حضرت سودہ نے أپ ﷺ کو خوش کرنے کے لیے اپنی باری حضرت عائشہ کے حوالے کر دی تھی۔
۳۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
احق ما اوفیتم من الشروط ان توفو بہ ما استحللتم بہ الفروج[صحیح بخاری: ۵۱۵۱، صحیح مسلم۱۴۱۸]
وہ شرطیں سب سے زیادہ اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ انہیں پورا کیاجائے جن کے ذریعہ تم نے عصمتوں کو حلال کیا ہے۔
۴۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
المسلمون علی شروطھم[سنن ابوداؤد ۳۵۹۴]
مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہوں گے۔
۵۔ عقود شرعیہ جیسے نکاح وغیرہ میں اصل اباحت ہے لہذا جس عقد میں مطلوبہ شرعی احکام و شرائط پائے جائیں وہ صحیح اور جائز ہوگاجب تک کہ اسے حرام کے لیے ذریعہ اور پل نہ بنا لیا جائے ،جیسے کہ نکاح موقت وغیرہ اور نکاح مسیار کسی حرام کے ارتکاب کا ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی حرام کاری مقصود ہے۔
۶۔ اس عقد میں نکاح کی تمام شرطیں موجود ہیں لہذا اس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور میاں بیوی میں سے کوئی باہمی رضامندی سے کسی شرط پر اتفاق کر لے اور اپنی مصلحت کے پیش نظر کوئی معاہدہ کر لے تو اس کی وجہ سے عقد نکاح پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا، اور شرعی دائرے میں رہے ہوئے شرط و معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر وہبہ زحیلی اور یوسف قرضاوی [زواج المسیار حقیقتہ و حکمہ۲۱۰، زواج المسیار دراسۃ فقہیۃ اجتماعیۃ نقدیۃ۱۱۶] وغیرہ نکاح مسیار کو کراہت کے ساتھ جائز قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس عقد میں نکاح کے تمام شرائط موجود ہیں اس لیے جائز ہے لیکن نکاح کے مقاصد جیسے کہ الفت و محبت ، عفت کی حفاظت اور اولاد کی تربیت کے لیے نکاح کا رائج طریقہ مطلوب ہے کہ اس کے بغیر ان مقاصد کو کامل و مضبوط شکل میں حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لیے اس میں کراہت ہے۔
شیخ ناصرالدین البانی ، محمد زحیلی ، عمر سلیمان اشقر وغیرہ[زواج المسیار حقیقۃ و حکمہ۲۱۰] کے نزدیک نکاح مسیار باطل ہے، اس نقطہ نظر کے دلائل یہ ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٰجًۭا لِّتَسْكُنُوٓا۟ إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةًۭ وَرَحْمَةً ۚ [سورۃ الروم:۲۱]
اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیئے۔
اس آیت میں سکون و راحت اور الفت و محبت کو نکاح کا مقصد قرار دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جس نکاح کا مقصد خواہش نفس کی تسکین اور محض طبعی تقاضے کی تکمیل ہو اس سے مطلوبہ مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتاہے،اس نکاح کی حیثیت و یٹنگ روم جیسی ہے جہاں تھوڑی دیر کے لیے انسان آتا ہے اور اپنی ضرورت پوری کر کے آگے روانہ ہو جاتا ہے۔
۲۔ اس نکاح میں مرد کی قوامیت مجروح ہوتی ہے کہ نفقہ و رہائش کی ذمہ داری نہ لینے کی وجہ سے عورت پر اسے بالادستی حاصل نہیں ہوتی ہے اور وہ اسے اپنا نگراں اور ذمہ دار نہیں سمجھتی ہے جس کی وجہ سے شوہر کی اطاعت کا لحاظ نہیں رکھتی اور نہ اس کے حقوق کی طرف توجہ دیتی ہے، اور انہیں چیزوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے اور اس کی بنیاد نفقہ کو قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ وَبِمَآ أَنفَقُوا۟ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ [سورۃ النساء:۳۴]
مرد عورتوں کے نگراں ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔
۳۔ اس میں عورت کی اہانت ہے کہ اسے محض سامان تسکین سمجھ لیا گیاہے اور اس کی تذلیل ہے کہ اس نکاح کا مقصد اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل ہے اور پھر اس کے بعد مرد کو اس سے کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے اسے کن چیزوں کی ضرورت ہے اور اس کی طبعی تقاضے کیا ہیں؟ گویا کہ وہ ٹشو پیپر ہے جسے استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔
۴۔ اس سے نکاح کے بنیادی مقاصد پورے نہیں ہوتے ہیں یعنی سکون و الفت، نسل انسانی کی افزائش و تربیت اور اہل و عیال کی نگہداشت وغیرہ جس کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہوجاتا ہے اور بچوں کی تربیت و اخلاق پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
۵۔ نکاح مسیار کو عام طور پر پوشیدہ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ بدکاری کا ذریعہ بن سکتا ہے کہ کسی کے ساتھ زن و شوہرکے تعلقات واضح ہونے اور سیہ کاری کے آشکارا ہونے پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے درمیان نکاح مسیار کا رشتہ ہے اور جو چیز حرام تک پہونچانے والی ہوتی ہے وہ حرام ہوتی ہے۔
۶۔ شوہر کی طرف سے نفقہ ، رہائش کی عدم فراہمی اور بیویوں کے درمیان شب گزاری میں عدم مساوات کی شرط یا عورت کی طرف سے یہ شرط کہ وہ صرف طے شدہ وقت میں اس کے پاس آسکتا ہے عقد نکاح کے تقاضے کے خلاف ہے اور ان میں س کچھ شرطوں کی وجہ سے بعض اماموں کے نزدیک نکاح فاسد ہو جاتا ہے۔
نیزعورت محض اپنی مجبوری اور ضرورت کی وجہ سے صحبت و نفقہ وغیرہ کے حق سے دست برداری اختیار کرتی ہے اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے۔
دلائل پر ایک نظر
جو لوگ نکاح مسیار کے ناجائز ہونے کے قائل ہیں ان کی سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نکاح کے مقاصد پورے نہیں ہوتے ہیں ، مرد اپنی بیوی اور بچوں کو بہت کم وقت دیتا ہے جس کی وجہ سے عورت کی عفت و عصمت داؤ پر لگی ہوتی ہے اور بچوں کی اچھی تربیت نہیں ہو پاتی۔
یہ صحیح ہے کہ نکاح مسیار میں مقاصد نکاح کی ایک حد تک خلاف ورزی ضرور پائی جاتی ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ بعض حالات میں اگر ان مقاصد کو پورے طور پر حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے تو کیا عورت غیر شادی شدہ زندگی گزارے گی جس میں اس کی عصمت و عفت کو شدید خطرہ ہو یا اس کی شادی ایسے شخص سے کردی جائے گی جو اسے کچھ وقت دے سکے۔
عمومی نکاح میں بھی بہت سے لوگ تجارت اور کسب معاش کے لیے اہل و عیال سے دور رہتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے عقد کو غلط نہیں کہا جا تا ہے، اصل یہ ہے کہ یہ نکاح ضرورت کی پیداوار ہے اور بسا اوقات اس کے بغیر پاکیزہ زندگی گزارنا دشوار ہوتاہے اور عصمت و عفت کی حفاظت ہی نکاح کا اصل مقصود ہے اس لیے اس کی حصول کی خاطر بعض دوسرے مقاصد کی عدم تکمیل گوارا کی جا سکتی ہے۔
یہ دلیل بھی قابل توجہ ہے کہ اس سے مرد کی قوامیت متاثر ہوتی ہے لیکن یہ خیال بھی رہنا چاہیے کہ قوامیت کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
(الف) قوامیت اور سیادت کے بار گراں کے لیے جس صبر و برداشت کی ضرورت ہے وہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے۔ بمافضل اللہ بعضھم علی بعض۔
(ب) نکاح کے لیے مرد اپنا مال خرچ کرتا ہے بماانفقوا من اموالھم۔
اور مرد نے مہر وغیرہ کی شکل میں ایک خطیر مال خرچ کیا ہے لہذا قوامیت کی دونوں وجہیں نکاح مسیار میں بھی موجود ہیں، لہذا اگر عورت حالات و ضرورت کی وجہ سے اپنے حقوق سے دست بردار ہو جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ مرد اپنی قوامیت کو بالائے طاق رکھ دے۔
یہ دلیل بھی صحیح ہے کہ اس میں عورت کی ایک طرح سے اہانت ہے کہ وہ اپنے حقوق سے دست بردار ہو کر اپنے گھر میں رہے اور مرد محض اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے پاس آئے لیکن خود اس نے اپنی حالت کے پیش نظر اس طرح کی شرطوں کو گوارا کیا ہے، اور فاسد شرطوں کی وجہ سے نکاح کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لہذا اس کی وجہ سے عقد کو باطل نہیں کہا جا سکتا ہے۔
نکاح میں گواہوں کی موجودگی شرط ہے اور جب گواہ موجود ہیں تو اسے پوشیدہ نہیں کہا جا سکتا ہے، امام کرخی کہتے ہیں پوشیدہ نکاح وہ ہے جس میں گواہ موجود نہ ہوں اور جب گواہ موجود ہوں تو وہ علانیہ نکاح ہے[نکاح السرمالمیحضرہشھودفاذاحضروہفقد اعلن، فتح القدیر۲/۲ ۳۵] اور شافعیہ کہتے ہیں کہ گواہی میں اعلان موجود ہے اور گواہی کے ساتھ پوشیدگی نہیں ہوتی ہے[حاشیۃالعروض المربع۶/۲۷۷] اور حنابلہ کہتے ہیں کہ نکاح کا اعلان مستحب ہے اور اگر پوشیدہ رکھا جائے تو کراہت کے ساتھ نکاح صحیح ہےیستحب اعلان النکاحواذاکتم کرہ ذالکوصحالنکاح [الکافی ۳/۳۳ لابنقدامہ] امام مالک کے نزدیک اعلان شرط ہے لیکن خود بعض مالکی علماء نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا ہے، چنانچہ علامہ ابن عربی کہتے ہیں کہ
ان اللہ تعالیٰ جعل الاشھادغایۃالاعلام[القبس ۲/۷۰۵]
اللہ تعالیٰ نے گواہی کو اعلان کی انتہاء قرار دیا ہے
یہاں تک کہ اگر گواہوں کو نکاح کے بارے میں کسی کو نہ بتانے کی تاکید کر دی جائے تو بھی امام ابو حنیفہ، شافعی اور احمد کے نزدیک نکاح فاسد نہیں ہوگا[دیکھیے: بدایۃالمجتھد ۴/۲۳۲، العروض المربع ۳/۷۶]
علاوہ ازیں نکاح مسیار کی بعض صورتوں میں اگرکچھ پوشیدگی پائی جاتی ہے تو وہ محض پہلی بیوی اور اس کے گھر والوں تک محدود رہتی ہے اور دوسرے لوگ اس سے واقف ہوتے ہیں، لہذا پوشیدہ نکاح کہنا اور بدکاری کا ذریعہ قرار دینا اور سد ذریعہ کے طور پر ممنوع کہنا درست نہیں ہے۔ شب گزاری نکاح کا اصل مقصد ہے، لیکن کوئی عورت اپنی خوشی سے ساقط کرنا چاہے تو کر سکتی ہے جیسے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اپنے اس حق سے حضرت عائشہ کے حق میں دست بردار ہو گئی تھیں اور جب کوئی عورت شب گزاری سے درست بردار ہو سکتی ہے تو حق نفقہ کو بدرجۂ اولیٰ ساقط کر سکتی ہے، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ نکاح کے بعد اپنے حقوق سے دستبردار ہو یا نکاح سے پہلے ، اور دونوں صورتوں میں وہ جب چاہے اپنے حق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ مانعین کے پاس ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس نکاح کو غیر صحیح کہا جا سکے، جہاں تک مجوزین کے دلائل کا تعلق ہے تو وہ بالکل واضح ہیں جن سے نکاح مسیار کا جواز معلوم ہوتاہے البتہ اس کی بعض شرطیں عقد کے تقاضے کے خلاف ہیں نیز اس میں کچھ حد تک مقاصد نکاح کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے، اس لیے اس کو پسندیدہ نہیں کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس نکاح کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور صرف مخصوص حالت میں انفرادی طور پر اس کی اجازت دی جانی چاہیے۔
نکاح مسیار کے مثبت اور منفی اثرات و نتائج
مثبت اثرات و خصوصیات:
۱۔ مطلقہ، بیوہ اور عمر دراز عورتوں کے لیے پاکیزہ زندگی گزارنے اور اولاد کی نعمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے، اس طرح سے بعض مردوں کے لئے بھی پاکدامنی کا سبب ہے اور عصمت و عفت کے ساتھ زندگی گزارنے کی اسلام میں بڑی اہمیت دی گئی ہے، اور اس کے لیے ہر ممکن آسانی فراہم کی گئی ہے، مرد عورت کے جنسی ملاپ کو اسلام گندگی یا ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے بلکہ اسے ایک فطری اور طبعی ضرورت قرار دیتا ہے اور کار ثواب سمجھتا ہے اور اس تک پہونچانے کے راستے کو آسان سے آسان تر بنانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ بدکاری کی طرف قدم نہ اٹھیں۔
۲۔ جسمانی اعتبار سے معذور خواتین یا والدین کی دیکھ ریکھ یا بچوں کی تربیت کے لیے میکے میں رہنے پر مجبور خواتین کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
۳۔ بیوہ یا مطلقہ عورت صاحب اولاد ہے تو ان کی تربیت میں اس سے مدد ملتی ہے کیونکہ بچوں کو اگر کسی سرپرست کے وجود کا احساس ہو تو ان کی روش پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور بہت سے لوگ ان بچوں کے جذبات کا بھی لحاظ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں یتیمی کا احساس نہیں ہوتا۔
۴۔ نکاح مسیار سے ان نوجوانوں کا بھی تعاون ہوتا ہے جنہیں نکاح کی ضرورت ہے اور زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے مگر وہ نکاح کے خرچ کا متحمل نہیں ہیں، یا بیوی موجود ہے لیکن کسی سبب سے اس سے جنسی ضرورت پوری نہیں ہوتی ہے اور دوسری شادی کی وجہ سے تعلقات میں بگاڑ کا اندیشہ ہے یا وہ دوسری بیوی کے خرچ کا متحمل نہیں ہے۔
۵۔ نکاح مسیار کبھی عمومی نکاح کا ذریعہ بن جاتا ہے اس طور پر کہ پہلی بیوی کو اس کے بارے میں معلوم ہو جائے اور وہ اس پر راضی اور اس کے ساتھ رہنے اور باری وغیرہ کے سلسلے میں اس کے ساتھ عدل کرنے پر آمادہ ہو جائے۔
۶۔ اس کا بھی امکان ہے کہ دونوں کے درمیان محض جنسی تعلق نہ رہے بلکہ الفت و محبت کے جذبات پید ا ہو جائیں یا بچے پیدا ہو جائیں جس کے نتیجے میں شوہر اس کے ان حقوق کو ادا کرنے لگے جن سے وہ دست بردار ہو گئی ہے۔
۷۔ شادی نہ ہونے کی وجہ سے عورتیں نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کی خود اعتمادی مجروح ہو جاتی ہے، نکاح مسیار اس طرح کے مسائل سے دوچار عورتوں کے لیے ایک متبادل طریقہ ہے۔
۸۔ تعداد ازدواج کو معاشرہ میں برا سمجھا جانے لگا ہے، نکاح مسیار اس غلط تصور کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
منفی اثرات و نتائج:
۱۔ عورت اپنی اہانت اور ذلت محسوس کرتی ہے کہ اسے محض سامان تسکین اور شہوت کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے خصوصاً جب کہ مرد اس کے جذبات و احساسات کا لحاظ نہ کرے اور محض مطلب کے لئے اس کے پاس آئے۔
۲۔ بعض عورتوں کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی شادی ادھوری ہے اور وہ مکمل طور پر شادی شدہ نہیں ہیں، یہاں تک کہ اگر وہ اپنے حقوق اور بیویوں کے درمیان عدل کا تقاضا کریں تو طلاق کا خطرہ رہتا ہے۔
۳۔ اس طرح کے نکاح میں مہر کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور مرد کسی بھی طرح سے زیر بار نہیں ہوتا ہے اس لیے اس میں طلاق کے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں، بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے اس کی حیثیت نکاح متعہ جیسی ہو جاتی کہ چند دنوں تک ایک عورت سے فائدہ اٹھاتے رہے اور پھر اسے چھوڑ کر دوسری کی تلاش میں نکل گئے۔
۴۔ نکاح کی ذمہ داریوں سے فرار کا ذریعہ بنتا ہے جس کی وجہ سے رائج نکاح کے سلسلے میں لوگوں کی رغبت کم ہو جاتی ہے۔
۵۔ عورت کے مال کو ہڑپنے کا ایک ذریعہ ہے کہ مرد اس کے مال کو ادھرادھر اڑاتا رہتا ہے اور اعتراض کرنے پر طلاق کی دھمکی دیتا ہے۔
۶۔ نکاح کا مقصد الفت و محبت ، نسل انسانی کی افزائش و تربیت اور ایک اچھے خاندان کی تشکیل ہے، نکاح مسیار سے اس مقصد کی تکمیل مشکل ہے کیونکہ مرد اپنے اہل و عیال کو مطلوبہ وقت نہیں دیتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بڑے خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں اور عورت کی عصمت و عفت کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔
نکاح مسیار کی دوسری شکل
نکاح مسیار کی دوسری شکل یہ ہے کہ بہت سے لوگ حصول علم یا تجارت وغیرہ کے مقصد سے مغربی ملکوں میں جاتے ہیں اور طویل عرصے تک وہاں قیام کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہاں کا سماج ایک حیا باختہ سماج ہے جس کی وجہ سے جوان شخص کے لیے بیوی کے بغیر زندگی گذارنا دشوار ہوتا ہے، ان حالات میں وہ وہاں نکاح کر لیتے ہیں جو ان کے لیے پاکدامنی کا ذریعہ ہوتا ہے اور خاندانی زندگی کی سہولتیں بھی حاصل ہو جاتی ہیں، اور عام طور پر ان کے ذہن میں رہتا ہے کہ جب تک یہاں رہیں گے اس رشتے کو باقی رکھیں گے اور جب مستقل طور پر وطن واپس آنے کا ارادہ ہوگا تو طلاق دے کر رشتے کو ختم کریں گے تاکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لئے دوسرے نکاح میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ کیا اس طرح نے نکاح کو نکاح متعہ یا نکاح موقت میں شامل مانا جائےگا یا نہیں؟
اس کے جواب سے پہلے ضروری ہے کہ نکاح متعہ یا نکاح موقت کی حقیقت بیان کردیجائے
نکاح متعہ
کسی عورت سے متعین رقم کے عوض ایک مدت تک کے لیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے، اس نکاح میں گواہ کی موجودگی شرط نہیں ہے، اور نہ طلاق ہوتی ہے بلکہ مقررہ مدت کے بعد طلاق کے بغیر علاحدگی ہو جاتی ہے نیز نکاح کے دوسرے حقوق اور ذمہ داریاں بھی کسی پر عائد نہیں ہوتی ہیں، مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے کہے کہ میں تم سے ایک دن ،ایک ماہ یا ایک سال کے لیے متعہ کرتا ہوں یا میں تمھیں اتنی رقم دوں گا اس شرط کے ساتھ کہ جب تک اس شہر میں میرا قیام رہے گا میں تم سے فائدہ حاصل کرتا رہوں گا ۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں
نکاح المتعۃ باطل و ھو ان یقول للمرأۃ التمتع بک کذا مدۃ بکذا من المال[الہدایۃ ۳/۳۸]
نکاح متعہ باطل ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی عورت سے کہے کہ میں اتنی مدت کے لیے اتنے مال کے عوض تم سے متعہ کر رہا ہوں۔
نکاح موقت
نکاح موقت کی تعریف کرتے ہوئے علامہ مرغینانی لکھتے ہیں
نکاح الموقت باطل مثل ان یتوزج بامرأۃبشہادۃ شاہدین الی عشرۃ ایام[الہدایہ ۳/۳۸]
نکاح موقت باطل ہے ، جیسے کہ کوئی دو گواہوں کی موجودگی میں کسی عورت سے دس دن کے لیے نکاح کرے۔
نکاح متعہ اور موقت کے درمیان فرق
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ متعہ اور موقت میں دو حیثیت سے فرق ہے ایک کہ متعہ میں م ت ع کا مادہ استعمال کیاجاتا ہے اور موقت میں نکاح یا زواج کا لفظ استعمال ہوتا ہے دوسرے یہ کہ متعہ میں نہ گواہوں کی موجودگی کی شرط ہوتی ہے اورنہ مدت متعین ہوتی ہے ، اس کے برخلاف نکاح موقت میں گواہوں کی موجودگی مشروط ہے اور مدت کی تعیین ضروری ہے[رد المختار ۴/۱۴۸]
نکاح متعہ اور موقت کا حکم
چاروں اماموں کے نزدیک حکم کے اعتبار سے نکاح متعہ اور موقت میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح سے نکاح متعہ باطل ہے اسی طرح سے نکاح موقت بھی باطل ہے، اور باطل ہونے کی وجہ مدت کا ذکر کرنا ہے کیونکہ نکاح میں دوام اور ہمیشگی مطلوب ہے اور ایک مدت کے لیے نکاح کرنے میں اس کی خلاف ورزی ہے، اور متعہ کی حرمت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اور موقت بھی متعہ کی ایک شکل ہے [فیکون من افراد المتعۃوان عقد بلفظالتزویج و احضرالشھود، البحرالرائق ۳/۱۹۰] صرف امام زفر اس بات کے قائل ہیں کہ نکاح موقت صحیح ہے اور مدت کی تعیین باطل ہے، علامہ مرغینانی لکھتے ہیں
وقال زفرھو صحیح لازم لان النکاح لا یبطل بالشروطالفاسدۃولناانہ اتی معنی المتعۃوالعبرۃ فی العقود للمعانی[الھدایۃ ۳/۲۸]
اور محیط نامی کتاب میں ہے
کل نکاح موقت متعۃ و قال زفر لا تکون المتعۃالابلفظھا [الموسوعۃ ۴۱/۳۴۲]
مدت کی نیت
حنفیہ ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ میں سے ابن قدامہ اس بات کے قائل ہیں کہ نکاح متعہ یا موقت اسی وقت ہوگا جب کہ لفظوں میں مدت کا تذکرہ کیا جائے اس لیے اگر کوئی عمومی الفاظ میں نکاح کرے البتہ اس کے دل میں ہے کہ چند دنوں یا ایک ماہ یا ایک سال کے بعد طلاق دے دوں گا تو نکاح صحیح ہے خواہ عورت یا اس کے سرپرست کو اس کی نیت کے بارے میں معلوم ہو یا نہ ہو ،اور صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عقد میں نکاح کو فاسد کرنے والی کوئی شرط موجود نہیں ہے اور محض نیت کی وجہ سے عقد فاسد نہیں ہوگا اس لئے کہ انسان کبھی ارادہ کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اور کبھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کا ارادہ نہیں ہوتا اور اس لیے بھی کہ مدت کے پائے جانے کے لیے لفظ کا ہونا ضروری ہے۔
اور حنابلہ کے نزدیک صحیح اور راجح یہ ہے کہ نکاح باطل ہے، کیونکہ یہ بھی متعہ کی ایک شکل ہے ، امام اوزاعی بھی اسی کے قائل ہیں اور بہرام مالکی کا بھی یہی نقطہ نظر بشرطیکہ عورت مرد کے مقصد کو سمجھ جائے[الموسوعۃالفقہیۃ ۴۱/۳۴۴]
اور امام مالک جواز کے قول کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں:
لیس ھذا من اخلاق الناس [المنہاج۵/۳۰۲]
انسانی اخلاق کے اعتبار سے گری ہوئی بات ہے
اسی طرح سے شافعیہ نے بھی اسے مکروہ کہا ہے، کیونکہ بعض لوگوں نے اسے باطل قرار دیا ہے اور اختلاف سے بچنے کیلیے اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے، نیز جن چیزوں کی صراحت کی وجہ سے عقد باطل ہو جاتا ہے اگر انہیں دل میں پوشیدہ رکھا جائے تو اس کی وجہ سےعقد مکروہ ہوتا ہے[الموسوعۃالفقہیۃ ۴۱/۳۴۴]
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ نکاح مسیار کی دوسری شکل نکاح موقت کے حکم میں داخل نہیں ہے اور بظاہر اس میں نکاح کی تمام شرطیں موجود ہیں اس لیے وہ صحیح ہے البتہ چونکہ رشتہ نکاح میں دوام اور ہمیشگی مطلوب ہے اور اس میں ایک طرح سے اس کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے اس لیے کراہت سے خالی نہیں ہے، چنانچہ مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں :
عقد کرنے والوں میں سے دونوں یا ان میں کوئی ایک یہ ارادہ رکھے کہ ایک مدت کے بعد اس رشتہ کو ختم کر دے گا تو اس سے نکاح کی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا، البتہ شریعت کی نگاہ میں نکاح ایک دائمی عقد ہے ، اس لیے میاں بیوی سے مطلوب ہے کہ وہ اس رشتے کو برقرار رکھیں اور شدید مجبوری ہی میں اسے ختم کریں اور نکاح کے شروع ہی میں دل میں علاحدگی کا ارادہ رکھنا اس مقصد کے خلاف ہے، لہذا دیانتاً یہ کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لیے اس طرح کے نکاح کو اسی وقت اختیار کیا جائے جب کہ شہوت کا غلبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو[بحوث فی قضایا فقہیۃ۱/۳۲۸]
البتہ نکاح مسیار کی اس صورت کے بارے میں اس پر غور کرنا چاہیے کہ وقتی ازدواجی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعلیم و تربیت کیسے ہوگی اور وہ کس کے زیر سایہ نشو و نما پائیں گے ، نیز وراثت سے متعلق مسائل کیسے حل ہوں گے؟ کیونکہ شوہر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس چلا جائے گا اور وہاں خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرے گا۔
مشورے اور تجاویز
۱۔ مناسب ہے کہ نکاح کے وقت نفقہ اور بیویوں کے درمیان مساوات سے دست برداری کی شرط نہ لگائی جائے تاکہ بہ اتفاق نکاح صحیح ہو سکے اور نکاح کے بعد عورت چاہے تو ان سے دست بردار ہو جائے۔
۲۔ گواہوں کو نکاح پوشیدہ رکھنے کے لیے نہ کہا جائے تاکہ فقہ مالکی کے اعتبار سے نکاح فاسد نہ ہو اور اگر اس کی وجہ سے پہلی بیوی کی طرف سے مخالفت کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو گواہ بنایا جائے جو اس تک اطلاع نہ پہونچائیں ۔
۳۔ عورت کے گھر اور خاندان کی حد تک نکاح کا اعلان ضرور کیا جائے تاکہ کسی تہمت کا اندیشہ نہ رہے۔
۴۔ ممکن حد تک مقاصد نکاح کا لحاظ رکھنا چاہیے اگر شوہر وقت نہیں دے پا رہا ہے تو فون وغیرہ کے ذریعہ اس کی خبر گیری کرنی چاہیے اور اس کے پاس تحفہ لے کے آئے تاکہ کسی حد تک نفقہ کی تلافی ہو سکے اور اگر وہ نفقہ دینے پر قادر رہے تو اسے نفقہ ادا کرنا چاہئے۔
۵۔ کسی شرعی عذر کے بغیر ضبط ولادت کی تدبیروں پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
۶۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کی نگہداشت و حفاظت اور اولاد کی تربیت کے فریضے سے غفلت نہ کرے اور اپنی قوامیت کا لحاظ رکھے۔
۷۔ نکاح کے دستاویز بنا لینا چاہیے تاکہ عورت اور اس کے بچوں کے حقوق ضائع نہ ہوں، اور شوہر کے ساتھ کسی حادثہ کے پیش آنے کی صورت میں وہ اس کی وراثت سے محروم نہ ہوں۔
نکاح ایک نہایت پاکیزہ رشتہ اور ایک مقدس بندھن ہے جس میں مرد عورت ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ،وفادار اور ہمیشہ وابستہ رہنے کا عہد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَكَيۡفَ تَأۡخُذُونَهُۥ وَقَدۡ أَفۡضَىٰ بَعۡضُكُمۡ إِلَىٰ بَعۡضٖ وَأَخَذۡنَ مِنكُم مِّيثَٰقًا غَلِيظٗا [سورۃالنساء: ۲۱]
"اور آخر تم کیسے وہ مہر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے تنے قریب ہو چکے تھے اور انہوں نے تم سے بڑا بھاری عہد لیا تھا”
حضرت عبد اللہ بن عباس ، مجاہد اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میثاق غلیظ (بھاری عہد و پیماں) سے مراد خود عقد نکاح ہے[تفسیر ابن کثیر۱/۴۴۳] جس کے ذریعہ دونوں ایک دوسرے سے دائمی وابستگی اور حسن سلوک کا عہد کرتے ہیں۔
اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
فالتقو اللہ فی النساءفانکماخذتموھنبامان اللہ و استحللتمفروجوھنبکلمۃ اللہ[صحیح مسلم:۱۲۱۸ کتاب الحج]
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو تم نے اللہ کے امان کے ذریعے سے انہیں حاصل کیا ہے اور اللہ کی طرف سے مباح قرار دینے کی وجہ سے ان کی عصمت تمہارے لیے حلال ہوئی ہے۔
وہ پاکیزہ زندگی گذارنے کا ذریعہ اور گناہ سے بچنے کا سبب ہے لہذا اس کا مقصد نگاہ وشرمگاہ کی حفاظت ، نسل انسانی کی بقا اور تربیت ہونا چاہیے نہ کہ محض نفسانی خواہشات کی تکمیل۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ[سورۃ المائدہ:۵]
جب کہ تم نے ان کو نکاح کی حفاظت میں لانے کے لیے ان کے مہر دے دیئے ہوں نہ تو (بغیر نکاح کے) صرف ہوس نکالنا مقصود ہو اور نہ خفیہ آشنائی پیدا کرنا
اور اسی بنیاد پر عارضی شادی جیسے کہ متعہ یا موقت کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس سے مقصد محض ہوس رانی ہے۔ اور حلالہ کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے حالانکہ اس میں بھی بہ صراحت وقت کی تحدید نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق دینے کی صرف نیت ہوتی ہے۔
علامہ ابن حمام لکھتے ہیں:
نکاح متعہ کا مشہور مفہوم یہ ہے کہ کسی عورت سے نکاح تو کیا جائے لیکن اس میں مقاصد نکاح کا حصول مطلوب نہ ہو یعنی بچے کی پیدائش اور اس کی تربیت کیلیے رشتے کو برقرار رکھنا مقصود نہ ہو[فتح القدیر۳/۲۴۶]
اور "عنایہ "میں ہے
مقاصد نکاح کےحصول کےبغیر کسی عورت سے فائدہ اٹھانے کا نام متعہ ہے اور نکاح موقت میں بھی یہ چیز موجود ہے کیونکہ قلیل مدت میں ان مقاصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے[العنایۃ ۴/۳۹۴]
اور مقاصد نکاح کی تکمیل اور ایک مثالی خاندان کی تشکیل اور نسل انسانی کی تربیت و تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ عورت کے تمام مصارف کو مرد برداشت کرے اور سے شوہر کی محبت اور بھرپور توجہ حاصل ہو تاکہ یکسوئی کے ساتھ وہ اپنے فریضے کو ادا کر سکے۔
اور نکاح مسیار کے دونوں شکلوں میں یہ چیزیں موجود نہیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عورت اپنی زندگی میں ایک خلا بلکہ اہانت محسوس کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں اولاد کی تعلیم و تربیت پر بڑے خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے شدید ضرورت کے بغیر نکاح مسیار سے بچنا چاہیے اور اللہ سے عہد و پیماں کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہے۔