بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(9)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

 

11- وزن اٹھانا:

 

وزن برداری کی مشق سے ہڈیاں اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اس لئے یہ کھیل بھی جائز ہے۔

متعدد روایات کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں اس کھیل کا رواج تھا ۔نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور کوئی نکیر نہیں فرمائی جو اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے ۔

(مر النبي صلى الله عليه وسلم بقوم يربعون حجرا يعني يرفعون ليعرفوا الاشد منهم فلم ينكر عليهم.المغني 602/8.الموسوعة 125/24)

اس سلسلے میں منقول بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں :

النبيَّ ﷺ مرَّ بقومٍ يرفعون حجرًا فقال ما يصنعُ هؤلاءِ فقالوا يرفعون حجرًا يريدون الشِّدَّةَ فقال النبيُّ ﷺ أفلا أَدُلُّكم على ما هو أشدُّ منه أو كلمةً نحوَها الذي يملكُ نفسَه عند الغضبِ (مجمع الزوائد 71/8.الصحیحہ للالبانی 869/7.اسنادہ حسن)

حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ

کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو پتھر اٹھا رہے تھے ۔دریافت کیا :یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ۔عرض کیا گیا: پتھر اٹھا رہے ہیں تاکہ جان سکیں کہ ان میں زیادہ طاقت ور کون ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو اس سے زیادہ طاقتور ہے ؟۔وہ شخص جو غصہ کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے ۔

اس طرح کی روایت حضرت عامر بن سعد اور حضرت مجاہد اور عبد الرحمن بن عجلان سے منقول ہے لیکن یہ لوگ تابعی ہیں اور صحابی کے واسطے کے بغیر حدیث نقل کر رہے ہیں اس اعتبار سے حدیث مرسل ہے ۔ (دیکھئے:مسند البزار: 474/13.7270۔شعب الإيمان: 8276. 306/6.مصنف ابن ابي شيبة 385/8۔ کتاب الزھد لابن مبارک: 748)

البتہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے ایک قول سے بظاہر ناگواری کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ محدث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے :

مر ابن عباس وقد ذهب بصره بقوم يرفعون حجرا فقال ما شأنهم؟ فقيل له يرفعون حجرا ينظرون أيهم أقوى. فقال ابن عباس: عمال الله أقوى من هؤلاء.(مصنف عبدالرزاق:20960. 11/ 444 )

حضرت عبداللہ بن عباس کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو پتھر اٹھا رہے تھے ،اس وقت ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی ۔انھوں پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ پتھر اٹھا رہے ہیں تاکہ معلوم ہو کون زیادہ طاقتور کون ہے ۔انھوں نے فرمایا: اللہ کے مزدور ان سے زیادہ قوی ہیں۔

موجودہ دور میں ویٹ لفٹنگ کا کھیل ورزش سے زیادہ نمائش اور بزنس بن گیا ہے جس کے لئے ایک خاص قسم کی غذا دی جاتی ہے اور بلاوجہ پٹھوں اور سینے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مقصد ورزش نہیں بلکہ جذبہ خود ستائی اور خود نمائی کی تسکین مطمح نظر اور کھیل برائے کھیل ہے۔

یہ سب فضول خرچی میں شامل اور وقت کا ضیاع ہے اور نہ اس سے جہاد اور میدان جنگ میں کوئی مدد مل سکتی ہے اور نہ قوت مزاحمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے مٹی کے شیر میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں ۔

 

12- شکار کرنا:

 

شکار کھیلنا بھی تفریح اور ورزش کا ایک ذریعہ بلکہ غذا کی فراہمی کا ایک سبب ہے ،جس کی وجہ سے کتاب وسنت میں اس سے متعلق تفصیلی احکام مذکور ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

اُحِلَّ لَکُمۡ صَیۡدُ الۡبَحۡرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ صَیۡدُ الۡبَرِّ مَا دُمۡتُمۡ حُرُمًا ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ۔

تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے، تاکہ وہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنے، لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب کو جمع کر کے لے جایا جائے گا۔ (سورہ المآئدۃ : 96)

البتہ بلاضرورت شوقیہ شکار کرنا اور اس کے بعد جانور کو ضائع کردینا جائز نہیں ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ما من انسان يقتل عصفورا فما فوقها بغير حقها الا يساله الله عنها قيل يا رسول الله وما حقها قال: ان يذبحها وياكلها ولا يقطع راسها ويرمي بها .(مستدرك حاكم:7574. مسند احمد بن حنبل: 6551.6550)

جو شخص کسی گوریا یا اس چھوٹے جانور کو ناحق مار دے تو اللہ تعالیٰ اس سے باز پرس کریں گے ۔دریافت کیا گیا: اللہ کے رسول!اس کا حق کیا ہے ؟ فرمایا:اسے ذبح کر کے کھا جائے اور گردن کاٹ کر پھینک نہ دے ۔

اور حضرت شرید بن سوید سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَن قتَل عصفورًا عبَثًا عجَّ إلى اللهِ يومَ القيامةِ يقولُ: يا ربِّ إنَّ فلانًا قتَلني عبَثًا ولم يقتُلْني منفعةً۔(نسائی :4446.مسند احمد:19470.صحیح ابن حبان: 5894)

اسی طرح سے اگر شکار کے ذریعے لوگوں کو پریشان کیا جارہا ہے اور ان کی کھیتی وغیرہ کو نقصان ہو رہا ہے تو پھر اس کی اجازت نہیں ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے