لباس اور زینت سے متعلق نئے مسائل:

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

6-چمڑے کی جیکٹ:

چمڑے کی جیکٹ پہننا جائز ہے کیونکہ کسی جانور کی کھال کو دباغت دے دی جائے یا اسے شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا ہو تو اس کی کھال پاک ہو جاتی ہے ،صرف خنزیر اور انسان کی کھال اس سے مستثنی ہے –

کہ خنزیر کی کھال دباغت اور ذبح شرعی کے باوجود پاک نہیں ہوتی ہے؛ کیوں کہ کی وہ مکمل طور پر ناپاک ہے ۔اور انسان کو اللہ نے معزز اور مکرم بنایا ہے اور اس کی کھال کو یا اس کے جسم کے کسی حصے کو استعمال کرنے میں اس کی اہانت ہے۔

اور درندے جانور کی کھال بھی دباغت یا ذبح شرعی کی وجہ سے پاک ہو جاتی ہے چنانچہ حدیث میں ہے :

أيُّما إهابٍ دُبِغ فقد طَهُرَ.

جس کھال کو بھی دباغت دے دی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے۔

(الراوي: عبدالله بن عباس • أخرجه الترمذي (1728)، والنسائي (4241) واللفظ لهما، وأخرجه مسلم (366) باختلاف يسير)

اور امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:

”وقد روى عطاء عن ابن عباس وأبو الزبير عن جابر ومطرف عن عمار إباحة الانتفاع بجلود السباع وعن علي بن حسين والحسن وإبراهيم والضحاك وابن سيرين لا بأس بلبس جلود السباع “

حضرت عطاء نے حضرت ابن عباس سے ،ابو زبیر نے حضرت جابر سے،مطرف نے حضرت عمار رضی اللہ عنہم سے درندوں کی کھال سے فائدہ اٹھانے کے مباح ہونے کو نقل کیا ہے اور حضرت علی بن حسین اور حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم اور حضرت ضحاک اور ابن سیرین سے منقول ہے کہ درندوں کی کھال پہننےمیں کوئی حرج نہیں ۔ (احکام القرآن 151/1)

بعض احادیث میں اس کے پہننے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ حضرت مقدام نے حضرت معاویہ سے پوچھا:

*هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟ قَالَ نَعَمْ(سنن ابو داود: 4131)

کیا اپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندے جانوروں کی کھال کو پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں۔

اور حضرت اسامہ سے منقول ہے :

*ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن جلود السباع (سنن ابو داود:4132؛ ترمذى:1770؛ نسائى 4253)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال سے منع فرمایا ہے.

شارحین حدیث نے ان روایتوں کی تشریح میں لکھا ہے :

۔۔۔يحتمل أن النهي عما لم يدبغ منها لأجل النجاسة ، أو أن النهي لأجل أنها مراكب أهل السرف والخيلاء . (تحفہ الاحوذی)

احتمال یہ ہے کہ اس چمڑے سے منع کیا گیا ہے جسے دباغت نہ دی گئی ہو یا ممانعت اس لئے ہے کہ وہ متکبروں اور فضول خرچوں کی سواریوں کی زین ہے ۔

اور علامہ عینی لکھتے ہیں:

والأولى هنا هو الأخذ بالحديثين جميعا وهو أن يحمل المنع على ما قبل الدباغ والأخبار بالطهارة بعده “

بہتر یہ ہےکہ دونوں طرح کی حدیثوں پر عمل کیا جائےاور ممانعت کو دباغت سے پہلے کے استعمال پر اور طہارت کو دباغت کے بعد استعمال پر محمول کیا جائے ۔

(عمدۃ القاری 574/6)

اور ملا علی قاری لکھتے ہیں:

” فإن لبس جلود السباع والركوب عليها من دأب الجبابرة وعمل المترفين فلا يليق بأهل الصلاح وزاد ابن الملك وقال إن فيه تكبرا وزينة“

درندوں کی کھال پہننااور اس پر سوار ہونا متکبرین کا طریقہ اورعیش پرستوں کا کام ہے ،لہذا یہ نیک لوگوں کے لائق نہیں ہے اور ابن ملک نے مزید کہا ہے کہ اس میں تکبر بھی ہے اور زینت بھی۔ (مرقاۃ المفاتیح 73/2)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں:

علماء نے اس کی ممانعت کی علت یہ بیان کی ہے کہ یہ جابر اور متکبر لوگوں کی عادت ہے ۔اس اعتبار سے یہ نہی تنزیہی ہے ۔ (اشعۃ اللمعات 697/1)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے