بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(11)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

11-ڈیجیٹل تصویر:

جو لوگ کاغذی تصویر کو ناجائز کہتے ہیں ان کے درمیان ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں اختلاف ہے کہ اسے کاغذی تصویر کے حکم میں رکھا جائے گا یا اسے عکس کہا جائے گا علماء کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ وہ تصویر کے حکم میں نہیں ہے بلکہ وہ عکس اور سایہ کے حکم میں ہے اور جائز ہے چنانچہ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ٹیلی ویژن یا ڈیجیٹل کیمروں کے ذریعے جو شکلیں نظر آتی ہیں وہ شرعا تصویر کے حکم میں ہیں یا نہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ان کی شکلوں کا پرنٹ لے لیا جائے یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش کر لیا جائے تو ان پر شرعا تصویر کے احکام جاری ہوں گے۔
البتہ جب تک ان کا پرنٹ نہ لیا گیا ہو یا انہیں پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش نہ کیا گیا ہو تو ان کے بارے میں علمائے عصر کی آراء مختلف ہیں:
(١) بعض علماء انہیں بھی تصویر کے حکم میں قرار دیتے ہیں.
(٢) بعض علماء کے نزدیک ان پر تصویر کے احکام کا اطلاق نہیں ہوتا.
(٣) بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ ان کی رائے میں تصویر تو ہیں لیکن چونکہ ان کے بحکم  تصویر ہونے یا نہ ہونے میں ایک سے زائد فقہی آراء موجود ہیں اس لیے مجتہد فیہ ہونے کی بنا پر بوقت حاجت شرعی  مثلا جہاد وغیرہ کے موقع پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے.
ہمارے نزدیک اگرچہ دوسری رائے راجح ہے کہ جب تک وہ پائیدار طور پر کسی چیز پر نقش نہ ہو ان پر تصویر کے احکام کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن ایک لحاظ سے احتیاط پہلی رائے میں ہے جیسا کہ ظاہر ہے اور دوسرے لحاظ سے ہمیں احتیاط دوسری اور تیسری رائے میں معلوم ہوتی ہے کیونکہ دین اسلام پر دشمنان اسلام کی جو یلغار الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے منظم طریقے سے ہو رہی ہے اس سے دفاع کرنا بھی امت کی ذمہ داری ہے جس سے حتی الامکان عہدہ برآ ہونے کے لیے الیکٹرانک میڈیا/ ٹیلی ویژن کے ایسے استعمال کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جو فواحش و منکرات سے پاک ہو لہذا جو حضرات علماء کرام مذکورہ بالا تین آراء میں سے کسی سے متفق ہوں اور اس پر عمل کریں وہ سب قابل احترام ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہمارے نزدیک مستحق ملامت نہیں ہے۔(فتاوی عثمانی ٣٦٠/٤)
فتاویٰ عثمانی کے مرتب نے اس سے متعلق بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے جس کا حاصل یہ ہے :
ہمارے اکابر فوٹو گرافی کی تصویر کو بھی حقیقی تصویر قرار دیتے ہیں کیونکہ تصویر حقیقت میں کسی چیز کا پائیدار اور قائم نقش ہوتا ہے یعنی وہ کسی چیز پر اس طرح پائیدار اور قائم ہوتی ہے کہ وہاں اسے قرار و ثبات حاصل ہوتا ہے یہی پائیداری یا قیام ایک حقیقی تصویر کی بنیادی خصوصیت اور تصویر و عدم تصویر کے درمیان حد فاصل ہے یعنی تصویر کی یہی خصوصیت حقیقی تصویر اور مجازی تصویر مثلا عکس ،سایہ یا خیالی تصویر میں نشان امتیاز ہے کہ اگر جاندار کی شکل و صورت کسی چیز پر پائیدار و قائم ہو گئی ہو تو حقیقی تصویر ہے اور حرام تصویر کے حکم میں ہے لیکن اگر اس کی شکل و صورت  وہاں قائم و پائیدار نہیں ہوئی تو شرعی نقطہ نگاہ سے وہ حقیقی تصویر یا حرام تصویر کے حکم میں نہیں ہے کیونکہ  تصویر کی بنیادی شرط قیام و استقرار اس میں مفقود ہے ہاں اگر کوئی مجازا اس پر تصویر کا اطلاق کرے اس کی وجہ سے اس کو حرام تصویر میں داخل نہیں کیا جائے گا جیسا کہ عکس یا خیالی تصویر وغیرہ پر مجازا تصویر کا اطلاق کر لیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود شرعا ان پر حرام تصویر کا حکم نہیں لگایا جاتا۔
فوٹوگرافی کی تصویر میں چونکہ حقیقی تصویر کی بنیادی خصوصیت یعنی کسی سطح پر قائم و پائدار ہونا موجود ہوتی ہے اس لیے سادہ کیمرہ سے جاندار کی جو تصاویر بنائی جاتی ہیں وہ حرام تصویر کے حکم ہیں کیونکہ سادہ کیمرے سے بنائی جانے والی تصاویر خواہ نگیٹو میں ہوں یا کسی کاغذ وغیرہ پر بہر صورت وہ ان جاندار کی شکل و صورت میں وہاں برقرار اور قائم ہوتی ہیں اس کے برخلاف ڈیجیٹل کیمرے سے حاصل شدہ منظر جب تک کاغذ وغیرہ پر اس کا پرنٹ نہ لیا جائے تو اسکرین کی حد تک وہ کہیں بھی تصویر کی شکل میں منقش اور قائم نہیں ہوتی کیونکہ ڈیجیٹل مناظر جب سی ڈی یا چپ میں محفوظ ہوتے ہیں تو چند شعاعی اعداد و شمار کی شکل میں اس طرح محفوظ ہوتے ہیں کہ نہ کھلی آنکھوں  سے ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی خوردبین وغیرہ کے ذریعے ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ تصویر کی شکل میں وہاں موجود ہی نہیں ہوتے پھر جب سی ڈی وغیرہ سے انہیں اسکرین پر یا پردہ پر ظاہر کیا جاتا ہے تو وہ بھی روشنی کے ناپائیدار شعاعی ذرات نا پائیدار شکل میں اسکرین پر ظاہر ہو کر فورا ہی فنا ہو جاتے ہیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ ذرات اسکرین وغیرہ پر قائم و ثابت نہیں ہوتے اس لیے تصویر کی بنیادی شرط استقرار اور قیام یہاں مفقود ہے لہذا سادہ کیمرے کی تصویر بلا شبہ حرام تصویر کے حکم ہے اور ڈیجیٹل کیمرے کا منظر حرام تصویر کے حکم میں نہیں ہے ڈیجیٹل نظام کے ذریعے اسکرین پر نمودار ہونے والی شکل و صورت اور سادہ کیمرے کے ذریعے ریل میں حاصل شدہ فلم یا کاغذ وغیرہ پر پرنٹ شد تصویر کے درمیان پائے جانے والے اس فرق کو ماہرین فن نے بھی اپنی اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔(حاشیہ فتاوی عثمانی 366/4)
ڈیجیٹل مناظر کی اسی حقیقت کے پیش نظر دور حاضر کے مسائل و وسائل پر گہری نظر رکھنے والے بہت سے محقق علمائے کرام ڈیجیٹل مناظر کو تصویر کی بجائے عکس میں داخل کرتے ہیں یعنی ڈیجیٹل نظام میں اسکرین پر نمودار ہونے والے یا ٹیلی ویژن میں نشر ہونے والے مناظر  ان کے نزدیک اشبہ بالعکس (عکس کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھنے والے) یا زیادہ سے زیادہ عکس ہیں نہ کی تصاویر۔(حاشیہ فتاویٰ عثمانی 376/4)
جامعہ الرشید کراچی کا فتوا ہے :
لہذا یہ عام اجتہادی مسائل کے طرح ایک اجتہادی مسئلہ ہی ہے،اس کو قطعی قرار دینا اس کی شرعی حیثیت بدلنے کے مترادف ہے اور مجتہد فیہ مسائل میں کسی ایک جانب کو برحق اور دوسری رائے کو باطل قرار دینا اور فریق مخالف کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شرعا اور اخلاقا درست نہیں۔
اس کے بعد ہاتھ کی تصویر کے علاوہ کیمرہ سے بنائی گئی تصویر میں ایک دوسرا علمی اختلاف موجود ہے کہ یہ شکل کی ایجاد ہے،یا پہلے سے موجود شعاعوں کو مرتکز کرکے یکجا جمع کرنے کی صورت ہے،پھر اس کے بعد ڈیجیٹل تصویر میں ایک اور جہت سے بھی علمی اختلاف ہے کہ چونکہ اس کو کسی مادی چیز پر استقرار (ٹک جانے کی کیفیت)حاصل نہیں ہے تو یہ ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر کے حکم میں ہوگی یا شیشے کے عکس کے حکم میں؟
لہذا جب ڈیجیٹل تصویر کے حوالے سے تین درجات میں علمی و فقہی اختلاف موجود ہے،اس کے بعد اس کو قطعی حرام تصویر میں شامل کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔
نیز ڈیجیٹل تصویر کو جائز قرار دینے میں اگرچہ کچھ مفاسد نے جنم لیا ہے،لیکن موجودہ دور میں اس کے استعمال کو ترک کرنے میں بھی دینی اور دنیوی حرج لازم آتا ہے،کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب نہ صرف عالمی،بلکہ ملکی ذرائع ابلاغ بھی مساجد و مدارس،دین اور اہل دین کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،یورپ کی الحاد و تحریف سے بھرپور منڈیوں سے درآمد شدہ تجدد پسند اسکالرز اور ان کے ہمنوا ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جس طرح اپنے زہریلے افکار و نظریات کا پرچار کر رہے ہیں اور دینی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں،ایسے حالات میں ان باطل پرستوں کے پروپیگنڈوں اور ان کی ریشہ دوانیوں کی بیخ کنی کے لیے وہی ہتھیار اور وسائل زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں جنہیں مخالفین کی جانب سے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس تمہید کے بعد اب آپ اپنے اصل سوالات کے جوابات ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں:
۔ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں علمائے کرام کی تین آراء ہیں:
۱۔یہ ناجائز تصویر کے حکم میں داخل نہیں ،بلکہ پانی یا آئینہ میں دکھائی دینے والے عکس کی مانند ہے،لہذا جس چیز کا عکس دیکھنا جائز ہے اس کی ویڈیو یا تصویر بنانا اور دیکھنا بھی جائز ہےاور جس چیز کا عکس دیکھنا جائز نہیں اس کی ویڈیو یا تصویر بنانا اور دیکھنا بھی جائز نہیں۔
۲۔اس کا بھی وہی حکم ہے جو عام پرنٹ شدہ تصویر کا ہے ،لہذا صرف ضرورت کے وقت جائز ہے ۔
۳۔ ڈیجیٹل تصویر بھی اگرچہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے تصویر ہی ہے،البتہ اس کے تصویر ہونے یا نہ ہونے میں چونکہ ایک سے زیادہ فقہی آراء موجود ہیں،اس لیے صرف شرعی ضرورت جیساکہ جہاد اور دین کے خلاف پروپیگنڈوں سے دفاع اور صحیح دینی معلومات کی فراہمی کی خاطر یا اس کے علاوہ کسی واقعی اور معتبر دینی یا دنیوی مصلحت کی خاطر ایسی چیزوں اور مناظر کی تصویر اور ویڈیو بنانے کی گنجائش ہےجن میں تصویر ہونے کے علاوہ کوئی اور حرام پہلو مثلا عریانیت،موسیقی یا غیر محرم کی تصاویر وغیرہ نہ ہوں۔
ایسی صورت حال میں عوام کے لئے یہ حکم ہےکہ عام مسائل میں جن مفتیان کرام کے علم وتقوی پر اعتماد کرتے ہیں اس مسئلے میں بھی انہی کی رائے پر عمل کریں اور اس طرح کے مختلف فیہ مسائل کو آپس میں اختلاف و انتشار کی بنیاد بنانے سے گریز کریں،البتہ احتیاط بہر حال دوسری رائے پر عمل کرنے میں ہے،جبکہ ہمارے نزدیک تیسری رائے راجح ہے۔۔۔۔
مجيب
محمد طارق صاحب
مفتیان
مفتی سیّد عابد شاہ صاحب
مفتی محمد حسین خلیل خیل صاحب
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
فتوی نمبر :61465
تاریخ اجراء :2018-01-3

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے