بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(13)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
13-ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ میں علماء کی شرکت:
اللہ تبارک و تعالی نے موجودہ دور میں اپنی بات کو ایک کثیر تعداد تک پہنچانے کے ایسے ذرائع پیدا کر دیے ہیں جن کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کا استعمال وہ لوگ زیادہ کر رہے ہیں جو معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ اس میدان میں وہ لوگ بھی کثرت سے آئیں جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور شر سے منع کریں ، اس لیے اہل علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیں اور دین اسلام کی آسان اور فطری تعلیمات کو عام کریں۔
اور ذکر کیا جاچکاہے کہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور بعض دوسرے علماء کے نزدیک ٹیلی ویژن یا ڈیجیٹل کیمروں کے ذریعے جو شکلیں نظر آتی ہیں وہ شرعا تصویر کے حکم میں نہیں ہیں۔
ایک طرف تصویر کی حرمت کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف در اختلاف اور دوسری طرف دعوت و تبلیغ کی خصوصی اہمیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ اس اختلاف کی بنیاد پر اس میں وسعت برتی جائے ،چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
*وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۔وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ۔
اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف دعوت دے، اور نیک عمل کرے، اور یہ کہے کہ میں فرماں برداروں میں شامل ہوں۔اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، تم بدی کا دفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ (تمہارا) جگری دوست ہو(سورہ فصلت: 33-34)
*کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ۔
(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(سورة آل عمران: ١١٠)
*وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔(سورة آل عمران:١٠٤)
اور حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
” مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ ". (صحیح مسلم:٤٩)
تم میں سے جو کوئی کسی منکر چیز کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے کہہ کر بدلنے کی کوشش کرے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمترین درجہ ہے۔
اور حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ، وَالْوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا، وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا : لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا، وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِيعًا ". (صحیح بخاری :٢٤٩٣)
اللہ کے حدود کو قائم رکھنے والا اور اس کو توڑنے والا اس قوم کی طرح سے ہے جنہوں نے کسی کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے قرع اندازی کی۔ جس کے نتیجے میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر جگہ ملی اور بعض لوگوں کو نیچے۔ جو لوگ کشتی کے نیچے تھے جب انہیں پانی کی ضرورت پڑتی تھی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تھے۔ انہوں نے کہا اگر ہم اپنے حصے میں سوراخ کر لیں اور اوپر کے لوگوں کو تکلیف نہ دیں تو بہتر ہے۔ لیکن اگر اوپر کے لوگ ان کو ان کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے چھوڑ دیں تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیں تو خود بھی نجات پائیں گے اور دوسرے لوگ بھی۔
اور حضرت ابو بکر صدیق کہتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ } . وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ ". (ترمذی :٢١٦٨)
اے لوگو!تم یہ آیت پڑھتے ہو:اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.
حالانکہ رسول ﷲ ﷺ سے میں نے سنا ہے اگر لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑا کر اس کو ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو عذاب میں مبتلا کردے ۔
آپ ﷺ نے اس کے لئے اس زمانے میں موجود ذرائع ابلاغ کو اختیار فرمایا چنانچہ عام رواج کے مطابق کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کے لوگوں کو آواز دی نیز عکاظ وغیرہ کے میلے میں تشریف لے جاتے جہاں عام حالات میں جانا آپ کو گوارہ نہیں ہوتا ۔
اور مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
…کیونکہ دین اسلام پر دشمنان اسلام کی جو یلغار الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے منظم طریقے سے ہو رہی ہے اس سے دفاع کرنا بھی امت کی ذمہ داری ہے جس سے حتی الامکان عہدہ برآ ہونے کے لیے الیکٹرانک میڈیا/ ٹیلی ویژن کے ایسے استعمال کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جو فواحش و منکرات سے پاک ہو ۔(فتاوی عثمانی ٣٦٠/٤)
"نیز ڈیجیٹل تصویر کو جائز قرار دینے میں اگرچہ کچھ مفاسد نے جنم لیا ہے،لیکن موجودہ دور میں اس کے استعمال کو ترک کرنے میں بھی دینی اور دنیوی حرج لازم آتا ہے،کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب نہ صرف عالمی،بلکہ ملکی ذرائع ابلاغ بھی مساجد و مدارس،دین اور اہل دین کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،یورپ کی الحاد و تحریف سے بھرپور منڈیوں سے درآمد شدہ تجدد پسند اسکالرز اور ان کے ہمنوا ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر جس طرح اپنے زہریلے افکار و نظریات کا پرچار کر رہے ہیں اور دینی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں،ایسے حالات میں ان باطل پرستوں کے پروپیگنڈوں اور ان کی ریشہ دوانیوں کی بیخ کنی کے لیے وہی ہتھیار اور وسائل زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں جنہیں مخالفین کی جانب سے استعمال کیا جارہا ہے۔(دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی.فتوی نمبر :61465)
حاصل یہ ہے کہ باطل مذاھب اور تحریکات سے وابستہ افراد ان وسائل کو بروئے کار لاکر اپنے فاسد نظریات سے ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کر رہے ہیں اور آج مسلمانوں کا بھی ایک بہت بڑا طبقہ ان آلات کے ذریعے علم و آگاہی حاصل کرنے کا عادی ہوچکا ہے اور جب اس کو ان ذرائع سے صحیح علم میسر نہیں ہوتا تو اسلام کے نام پر جو غلط خیالات و نظریات اسے ملتے ہیں وہ ان کو دیکھتا اور ان سے متاثر ہوتا ہے ۔لھذا ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ میں علماء کی شرکت ایک دینی ضرورت ہے ۔