بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(5)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

 

6-گھوڑدوڑ:

 

    گھوڑے کو سدھانا اور دوڑانا ایک پسندیدہ اور محبوب کھیل ہے ، اس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود اللہ کے رسول اللہ ﷺ اس میں شریک رہا کرتے تھے(1)۔اور فرماتے تھے کہ گھوڑے کی پیشانی سے قيامت تك خیر و برکت بندھی ہوئی ہے ۔(الخيل معقود بنواصيها الخير الى يوم القيامة. صحيح مسلم : 1872. نسائي:3572.مسند احمد:19196)

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ تیر اندازی اور گھڑ سواری کیا کرو۔ (ارْمُوا وَارْكَبُوا، وَلَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا. ترمذي:1637ابوداؤد:2513)

اور ایک حدیث میں ہے :

كل شيء ليس من ذكر الله فهو لهو او سهو الا اربع خصال مشي الرجل بين الغرضين و تاديبه لفرسه وملاعبته اهله وتعليم السباحة.

جس چیز کا تعلق اللہ کے ذکر سے نہ ہو وہ کھیل تماشا یا غفلت ہے سوائے چار چیزوں کے

دو نشانوں کے درمیان چلنا، (تیر اندازی کرنا) گھوڑے کو سدھانا، اہل خانہ کے ساتھ کھیلنا اور تیراکی سیکھنا.

 ( أخرجه النسائي في السنن الكبرى:8891. والبيهقي:19771. إسناده جيد.).

 حضرت انسؓ سے دریافت کیاگیا کہ آپ لوگ آنحضرت ﷺ کے عہد مسعود میں گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کیاکرتے تھے؟ اور آپ ﷺ اس میں شرکت فرماتے تھے؟ حضرت انسؓ نے فرمایا: ہاں، آنحضور اس میں شریک ہواکرتے تھے، بخدا آپﷺ نے ایک گھوڑے پر بازی لگائی جس کا نام ’’سبحہ‘‘ تھا ، وہ مقابلہ میں دوسرے گھوڑوں سے آگے بڑھ گیا ، یہ دیکھ کر آپﷺ خوشی و مسرت سے کھل اٹھے۔(مسند احمد:13689.سنن دارمی:2474)

    نیز آپ ﷺ نے ہمت افزائی کے لیے جیتنے والے کو انعام سے بھی نوازا ، حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں:

    سبق رسول اللہ ﷺ بین الخیل و اعطی  السابق۔(مسند احمد:5656)

    اللہ کے رسول ﷺ نے گھوڑ دوڑ کامقابلہ کروایا اور جیتنے  والے کو انعام سے نوازا۔

    لیکن یہ فضیلت و اہمیت اسی وقت ہے جبکہ اس میں جوئے کا عنصر شامل نہ ہو، جو گھوڑا جوا کے لیے استعمال ہو، حدیث میں اسے شیطانی گھوڑا کہا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں:رحمانی، شیطانی اور انسانی ۔ رحمانی گھوڑا وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے استعمال کیاجائے، اس گھوڑے کا چارہ اور لید، پیشاب سب قیامت کے دن وزن کیے جائیں گے

(اور اس کے بقدر اس کے مالک کو ثواب دیاجائے گا) اور شیطانی گھوڑا  وہ ہے جو جوا کے لیے استعمال کیاجائے اور انسانی گھوڑا وہ ہے جسے  انسان افزائش نسل کے لیے پالتا ہے اور وہ اس کی محتاجی دورکرنے کا ذریعہ بن جاتاہے۔(دیکھئے نسائی 120/2، ابن ماجہ/200، مسند احمد395/1، عن ابن مسعود)

    گھوڑ دوڑ کی مروجہ صورت-جس میں تمام شرکاء ایک متعین فیس ادا کرتے ہیں اور انعامی رقم صرف جیتنے والے کو ملتی ہے-جوا ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے کیونکہ فیس کے نام پر شرکاء جو رقم ادا کرتے ہیں وہ انعام نہ ملنے کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے ، لوگ اس امید پر یہ رقم اداکرتے ہیں کہ جیت جانے پر ایک بڑی رقم ہاتھ آئے گی اور ہار جانے کی صورت میں بہت معمولی رقم ڈوبے گی ، گویا اس معمولی رقم کو بازی پر لگاتے ہیں اور انجام غیریقینی ہے اور اسی کا نام ’’جوا‘‘ ہے ، علاوہ ازیں گھوڑ دوڑ کا مقصد-جسمانی قوت، جہاد کے لیے ٹریننگ- اس سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ بازی لگانے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ، وہ تو محض شوقیہ نام و نمود اور قسمت آزمائی کے لیے ایسا کرتے ہیں، اگر جوا شامل نہ بھی ہو جب بھی کراہت سے خالی نہیں ، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:

    اما اذا قصد التلھی او الفخر والشجاعۃ فالظاھر الکراہۃ۔

    اگر محض کھلواڑ، خودنمائی اور بہادری مقصود ہو تو مکروہ ہے۔(رد المحتار 258/5)

 

(1)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ، وَكَانَ أَمَدُهَا مِنَ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ سَابَقَ بِهَا.(صحيح بخاري: 2869)

 

7- اونٹ دوڑانا:

   رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اونٹ دوڑانے میں بھی مقابلہ کا رواج تھا ،حدیث گزر چکی ہے کہ انعامی مقابلہ نہیں ہےمگر تیر اندازی ،اور اونٹ اور گھوڑے کی دوڑ میں ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عام طور پر گھوڑے اور اونٹ کو دوڑانے اور پیدل دوڑنے میں مقابلہ کیا کرتے تھے۔ (كانوا يسابقون على الخيل  والركاب وعلى اقدامهم . مصنف ابن ابي شيبه508/12)

   اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضباء نام کی ایک اونٹنی تھی جو  مقابلہ میں کبھی شکست نہیں کھاتی تھی ،ایک مرتبہ ایک اعرابی اپنا نوجوان اونٹ لے کے ایا اور اس نے دوڑ میں عضباء کو ہرا دیا ۔اس کی شکست مسلمانوں پر بہت گراں گزری۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھے تو فرمایا: اللہ  کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا کی جب بھی کوئی چیز بلند ہوتی ہے تو پھر وہ پست کردی جاتی ہے ۔یعنی دنیا کی کسی بھی چیز پر غرور نہیں کرنا چاہئے ،یہاں کی ہر چیز وقتی اور عارضی ہے اور عروج کے بعد زوال لازمی ہے ۔اس لئے اصل چیز آخرت کی سبقت ہے اور وہی دائمی کامیابی ہے۔اور اسی کے لئے کوشش ہونی چاہئے اور دنیا کے کسی معاملے میں پیچھے رہ جانے پر افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةٌ تُسَمَّى : الْعَضْبَاءَ، لَا تُسْبَقُ. قَالَ حُمَيْدٌ : أَوْ لَا تَكَادُ تُسْبَقُ. فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ فَسَبَقَهَا، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، حَتَّى عَرَفَهُ فَقَالَ : ” حَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يَرْتَفِعَ شَيْءٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ۔ (صحیح بخاری: 2872)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے