(2)

*آن لائن امامت*

ولی اللہ مجید قاسمی ‌۔

اللہ تعالی نے کچھ چیزوں کو اپنی عظمت و برتری کی علامت اور نشان قرار دیا ہے جنھیں "شعائر اللہ” کہا گیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے: 

ومن يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب (سورة الحج :32)

 اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے۔ 

فرض نماز بھی اللہ کے شعائر میں سے ہے اس لئے اسے جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے  تاکہ اس اہم علامت کا عمومی اظہار اور اشاعت ہو اور کسی کے لئے لاعلمی ،سستی اور غفلت کا موقع نہ رہے اور لوگ اس کے ذریعے ایک دوسرے  کی خبر گیری اور دین کا علم حاصل کر سکیں ۔

عمومی اظہار  کے  دو طریقے ہیں : ایک محلے کی سطح پر رائج کرنا اور دوسرے پورے شہر میں رواج دینا ۔ دن میں پانچ مرتبہ محلے کے لوگوں کو جمع کرنا آسان ہے ، اور پورے شہر کے لوگوں کو جمع کرنا کبھی کبھار ہی ممکن ہے ۔

اور ظاہر ہے کہ جماعت اور اجتماعیت  اسی وقت پائی جائے گی  جب کہ امام و مقتدی دونوں کسی جگہ پر جسمانی اعتبار سے  اکھٹے ہوجائیں ، اس لئے مسجد کے پڑوسی یا محلے کے لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے براہ راست یا لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے امام کی آواز سن کر اس کی اقتداء کرلیں تو انھیں جماعت میں شامل نہیں مانا جائے گا کیونکہ اجتماعیت نہیں پائی گئی ،

رسول صلی علیہ وسلم کے عہد مبارک میں  بہت سے لوگوں کا گھر بلکل مسجد سے لگا ہوا تھا یہاں تک کہ بعض صحابہ کرام کا دروازہ مسجد میں تھا لیکن اس کےباوجود کسی کے بارے میں منقول نہیں ہےکہ وہ اپنے گھر سے اقتداء کرتےہوں ۔بلکہ کسی فرق کے بغیر ہر ایک کو مسجد میں آکر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے منقول ہے  :

  مَن سَرَّه أنْ يَلقى اللهَ غدًا مُسلمًا، فلْيُحافِظْ على هؤلاء الصَّلَواتِ الخَمسِ حيث يُنادى بهنَّ؛ فإنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ شَرَعَ سُنَنَ الهُدى لِنَبيِّه، وإنَّهنَّ مِن سُنَنِ الهُدى، وإنِّي لا أحسَبُ منكم أحدًا إلّا له مَسجدٌ يُصلِّي فيه في بَيتِه، فلو صَلَّيْتم في بُيوتِكم وتَرَكْتم مساجدَكم، لَتَرَكْتم سُنَّةَ نبيِّكم ﷺ، ولو تَرَكْتم سُنَّةَ نبيِّكم لَضَلَلْتم.

شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج المسند ٤٣٥٥  •  إسناده صحيح  •  أخرجه مسلم (٦٥٤)، وأبو داود (٥٥٠)، والنسائي (٨٤٩)، وابن ماجه (٧٧٧) مطولاً، وأحمد (٤٣٥٥) واللفظ له

جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ تعالی سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملاقات کرے تو وہ پابندی کے ساتھ ان پانچ نمازوں کو وہیں ادا کرے جہاں سے ان کے لئے ندا دی جاتی ہے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لئے ہدایت کے طریقے مشروع کئے ہیں اور یہ نمازیں بھی انھیں میں سے ہیں ، اور میرے خیال میں تم میں سے ہر ایک کے گھر میں نماز پڑھنے کے لئے ایک مخصوص جگہ ہے، اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو اور مسجدوں کو چھوڑ دو تو اپنے نبی کے طریقے کو چھوڑ نے والے ہوجاؤ گے، اور اگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دوگے تو گمراہ ہو جاؤ گے ۔

اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے: 

 من سمع النداءَ فلم يُجِبْ فلا صلاةَ لهُ إلا لعذرٍ

البيهقي (ت ٤٥٨)، السنن الكبرى للبيهقي ٣‏/٥٧  •  روي مرفوعاً ومسنداً وموقوفاً والموقوف أصح  •  أخرجه أبو داود (٥٥١) مطولاً، وابن ماجه (٧٩٣) باختلاف يسير.

جو کوئی اذان کی آواز سنے اور پھر وہ مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوگی الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔

بلکہ مسجد کے پڑوس میں رہنے والوں کے متعلق بطور خاص کہا گیا ہے کہ ان کی نماز مسجد کے بغیر درست نہیں ہوگی چنانچہ حضرت علی فرماتے ہیں:

  لا صلاةَ لجارِ المسجدِ إلّا في المسجدِ.

ابن كثير (ت ٧٧٤)، إرشاد الفقيه ١٦٧‏/١  •  لا يثبت، والصحيح أنه من كلام علي رضي الله عنه۔

مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد ہی میں ہوگی۔

اور ظاہر ہے کہ یہی حکم آن لائن  اقتداء کا بھی ہے  کیونکہ جماعت کے لئے امام اور مقتدی کی جگہ میں یگانگت ضروری ہے ۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رض کہتے ہیں :

من صلی بصلاۃ الامام و بینھما طریق او جدار او نہر فلا یاتم بہ۔

اگر کوئی کسی کی امامت میں نماز پڑھنا چاہتا ہے مگر اس کے اور امام کےدرمیان کوئی راستہ ، دیوار یا نھر حائل ہے تو وہ اس کی اقتداء نہ کرے ۔

اور حضرت ابو ھریرہ رض کہتے ہیں:

لا جمعۃ لمن صلی فی رحبۃ المسجد۔

اس شخص کی نماز جمعہ نہیں ہوگی جو مسجد کے پاس کے میدان میں نماز پڑھے ۔

اور حضرت ابو بکرہ رض کے متعلق منقول ہے کہ:

انه راى قوما يصلون في رحبة المسجد يوم الجمعة فقال لا جمعة لهم . قلت :لم؟قال: لانهم يقدرون على ان يدخلوا فلا يفعلون .

انھوں نے کچھ لوگوں کو مسجد کے میدان میں جمعہ کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ان کی نماز نہیں ہوئی ۔ میں نے پوچھا کیوں؟ فرمایا: وہ مسجد میں آنے  پر قادر ہیں اس کے باوجود وہ  نہیں آۓ ۔(تینوں آثار کے لئے دیکھئے: المحلی لابن حزم 288/3)

اجتماعیت اور صفوں میں اتصال کا اس درجہ خیال رکھا گیا کہ ستونوں کے درمیان صف لگانے سے منع کیا گیا کہ اس سے صفوں کا اتصال اور اتحاد متاثر ہوتا ہے ۔ چنانچہ حضرت معاویہ بن قرۃ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں:

كنا ننهى ان نصف بين السواري على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم و نطرد عنهاطردا .(ابن ماجه، حاكم و صححه هو والذهبي ، ابن خزيمة . اعلاء السنن 383/4)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ستونوں کے درمیان صف لگانے سے ہمیں منع کیا جاتا تھا اور ہمیں وہاں سے بھگا دیا جاتا تھا۔

غرضیکہ اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ امام اور مقتدی کی جگہ ایک ہو  اور اسی طرح سے جماعت بنائی جاۓ  جس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین عظام اور فقہ و حدیث کے اماموں کے عہد میں بنائی جاتی تھی اور جو تسلسل کے ساتھ آج تک جاری ہے اور اس میں عقل و قیاس کے ذریعے کسی طرح کی تبدیلی نہ کی جائے کیونکہ عبادات میں اصل یہ ہےکہ وہ جس طرح سے ثابت ہے اس کو اسی طرح سے باقی رکھا جائے  اور سنت کی پیروی کی جائے ۔ اور یہی وجہ ہےکہ اس شرط پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے ۔ (دیکھئے الموسوعہ الفقہیہ 25/6)

اسی طرح سے اس پر بھی  اتفاق ہے کہ جگہ ایک ہونے کے ساتھ امام اور مقتدی کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہو :

یشترط لصحۃ الاقتداء ان لا یکون بین الامام و المقتدی فاصل کبیر ، و ھذا الشرط محل اتفاق بین فقہاء المذاھب فی الجملہ (الموسوعہ الفقہیہ 23/6)

اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو اور اس شرط پر فی الجملہ تمام فقہاء کا اتفاق ہے ۔

کم اور زیادہ فاصلے کے سلسلے میں مالکیہ کے یہاں معیار یہ ہے کہ اگر امام یا مقتدی کی آواز کو سننا یا ان میں سے کسی ایک کی نقل و حرکت کو دیکھنا ممکن ہو تو اقتداء درست ہے، اور دونوں کے درمیان موجود فاصلے کو کم سمجھا جائے گا اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کے درمیان موجود فاصلے کو زیادہ سمجھا جائے گا اور اقتداء درست نہیں ہے ، اور اس معاملے میں مسجد یا مسجد کے باہر میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

اس کے برخلاف حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر امام و مقتدی دونوں مسجد میں ہوں تو پوری مسجد ایک جگہ کی طرح سمجھی جائے گی اور مسجد کے کسی بھی حصے سے اقتداء درست ہے بشرطیکہ اقتداء کرنے والا امام یا اس کے مقتدیوں کو دیکھ رہا ہو یا ان میں سے کسی کی تکبیر سن رہا ہو ۔

اور اگر اقتداء کرنے والا مسجد سے باہر ہوتو حنفیہ کے نزدیک اگر آخری صف اور مسجد کے باہر سے اقتداء کرنے والے کے درمیان دوصف کے بقدر فاصلہ ہو تو اقتداء درست نہیں ہے ۔

 اور شافعیہ کے نزدیک اگر دونوں کے درمیان تین سو ہاتھ سے زیادہ فاصلہ ہے تو اقتداء درست نہیں ، اور اگر اس سے کم فاصلہ ہے تو درست ہے۔ 

اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر امام یا اس کی اقتداء کرنے والے نظر آرہے ہوں تو اس امام کے پیچھے نماز صحیح ہے، خواہ کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو ، اور اگر دونوں میں سے کوئی دکھائی نہیں دے رہا ہے تو اب اس کی امامت میں نماز صحیح نہیں ہے گرچہ آواز سنائی دے ۔

اگر امام اور مقتدی کے درمیان بڑی نہر یا راستہ ہو تو بھی بہ اتفاق اقتداء درست نہیں ہے ، گرچہ اس کی تفصیل میں کچھ اختلاف ہے ۔

مالکیہ کے یہاں اس مسئلے میں بھی معیار یہی ہے کہ راستے یا نہر کے باوجود امام یا مقتدی کی تکبیر کو سننا یا ان میں سے کسی ایک کی نقل و حرکت کو دیکھنا ممکن ہو تو اسے چھوٹی نہر یا چھوٹا راستہ سمجھا جائے گا اور اقتداء درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اسے بڑی نہر اور بڑا راستہ سمجھا جائے گا اور اقتداء جائز نہیں ہے ۔

اور شافعیہ کہتے ہیں کہ چھوٹی نہر وہ ہے جسے پھلانگ کر اور تیراکی کے بغیر پار کیا جاسکتا ہو ۔ اور حنفیہ و حنابلہ کہتے ہیں کہ چھوٹی نہر وہ ہے جس میں کشتی نہ چلتی ہو ۔

راستے کے معاملے میں مالکیہ کی طرح سے شافعیہ بھی کہتے ہیں کہ اگر امام یا کسی مقتدی کی تکبیر کا سننا یا ان میں سے کسی ایک  کی نقل و حرکت دیکھنا ممکن ہو تو وہ چھوٹی گزر گاہ ہے اور اقتداء جائز ہے ۔

اس کے برخلاف حنفیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر اس سے بیل گاڑی گزرسکتی ہو تو وہ بڑا راستہ ہے ورنہ چھوٹی گزرگاہ ہے ۔

حاصل یہ ہے کہ مذکورہ معیار کے مطابق اگر چھوٹی نہر یا گزرگاہ حائل ہو تو اقتداء صحیح ہے اور اگر بڑی نہر یا بڑا راستہ حائل ہوتو اقتداء درست نہیں ہے۔ (دیکھئے : الموسوعہ الفقہیہ 23/6 ، الدرر فی شرح المختصر للدمیری المالکی 370/1)

جیساکہ گزرچکا ہے کہ مالکیہ کے یہاں نہر یا گزرگاہ کے حائل ہونے کے باوجود اقتداء درست ہے ، اس پر قیاس کرکے کچھ لوگ آن لائن اقتداء کو درست قرار دے رہے ہیں ،لیکن ان کا یہ خیال کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے ، کیونکہ دیگر فقہاء کی طرح مالکیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اقتداء کے لئے امام اور مقتدی کی جگہ کا ایک ہونا ضروری ہے اور دونوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہئے ۔البتہ اس کے لئے انھوں نے اگر امام یا کسی مقتدی کی نقل و حرکت کا علم ہوجائے تو فاصلہ کم ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو فاصلہ زیادہ ہے اور اس کی امامت میں نماز جائز نہیں ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے ان کی نقل و حرکت کو دیکھے یا اپنے کانوں سے امام یا مکبر کی تکبیر سنے ۔ اور اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوئے اسکرین پر امام کی نقل و حرکت دیکھ کر اس کی اقتداء میں نماز شروع کردے کیونکہ اس میں نہ تو اجتماعیت پائی جارہی ہے اور نہ اتحاد مکان ۔ حالانکہ اس شرط پہ تمام لوگوں کا اتفاق ہے اور یہی حدیث سے ثابت ہے اور صحابہ کرام کے فتاوے سے اسی کی تائید ہوتی ہے ۔

علاوہ ازیں اس شرط پر بھی تمام فقہاء کا اتفاق ہےکہ اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے امام کی نقل و حرکت کا علم ہونا ضروری ہے ، خواہ وہ  خود امام کو دیکھ رہا ہو یا اس کی آواز کو سن رہا ہو یا اس کی اقتداء کرنے والوں میں سے کسی کو دیکھ رہا ہو یا اس کی تکبیر کی آواز کو سن رہا ہو لہذا اگر مقتدی کو امام کی نقل و حرکت کے بارے میں پتہ نہ چلے یا اسے اشتباہ ہو جائے تو اقتداء صحیح نہیں ہے ، اس لئے کہ اقتداء نام ہے اتباع کا ، اور ناواقفیت یا اشتباہ کے ساتھ متابعت ممکن نہیں ہے ۔اور ٹکنالوجی خواہ کتنی بھی ترقی کرجاۓ اس کے معطل ہوجانے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور  اس حالت میں امام کا تعلق مقتدیوں سے ختم ہو جائے گا اور متابعت ممکن نہیں ہوگی ۔

آن لائن اقتداء کو جائز قرار دینے میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیں گے ۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے