احکام شرعیہ پر ناواقفیت کا اثر۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
اسلام کا دوسرا نام علم ہے۔ اس لیے اسلام سے پہلے کے دور کو جاہلیت کا زمانہ کہاجاتاہے۔لہٰذا وہ ہر طرح کی جہالت کو مٹانا اور انسانیت کو زیور علم سے آراستہ کرنا چاہتاہے۔ اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ اس روشنی سے محروم نہ رہے۔ وہ یہ تصور دیتاہے کہ ناواقفیت ایک عارضی چیز ہے، کوئی مستقل اور دائمی صفت نہیں ہے اور اسے ختم کرنا ہرشخص کی قوت واختیار میں ہے۔
لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بہت سے لوگ حالات اور ماحول کی وجہ سے علم حاصل نہیں کرپاتے۔ وہ ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں حصول ِ علم کے اسباب اور ذرائع میسر نہیں، یا ذمہ داریوں اور مصروفیات کی وجہ سے انہیں اس کی فرصت نہ مل سکی۔ ظاہر ہے کہ اگر اس میں ان کی سستی اور کوتاہی کو دخل نہ ہو تو انہیں معذور قرار دینا چاہیے۔ کیوں کہ اس کے باوجود مواخذہ کا مطلب ہوگا کہ انہیں ایک ایسے فعل پر سزا دی جارہی ہے جس کے کرنے میں ان کے قصد واختیار کو دخل نہیں اور یہ اسلام کے تصور عدل کے خلاف ہوگا۔ اس لیے قرآن حکیم میں بہ صراحت یہ ضابطہ بیان کیاگیاہے:
لاَّ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِیَ أَیْْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا کَسَبَتْ قُلُوبُکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ حَلِیْمٌ (البقرۃ:225)
’’اللہ تعالیٰ لغو قسم میں تمہاری پکڑ نہیں کرے گا، لیکن تمہارے دلوں نے جس کا ارادہ کیا ہو اس میں گرفت کرے گا، اور اللہ بہت درگزر کرنے والے اور بردبار ہے۔‘‘
اس آیت میں کہاگیاہے کہ لغوقسم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اور لغوقسم کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص لاعلمی کی وجہ سے کسی بات پر قسم کھالے، حالاں کہ وہ واقعہ اور حقیقت کے برخلاف ہو تو اس کی ناواقفیت کی وجہ سے اسے معذور سمجھاجائے گا اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔چناںچہ امام مالکؒ کہتے ہیں:
’’لغو کی تفسیر کے سلسلے میں سب سے بہتر بات میں نے یہ سنی ہے کہ انسان کسی بات پر قسم کھالے اور اسے یقین ہوکہ وہ بات اس کی قسم کے مطابق ہے لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہوتو اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔‘‘(تفسیر قرطبی 18/4)
انسان کی کم زوری او ربشری تقاضے کو دیکھتے ہوئے خود اللہ تعالی نے اس دعاکی تلقین فرمائی ہے:
رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْْنَا إِصْراً کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہِ (البقرۃ:286)
(ہمارے رب! اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے تو ہماری پکڑ نہ کر، ہمارے رب! ہم پر (سخت احکام)کا بوجھ نہ رکھ، جیسا کہ تونے ہم سے پہلی امتوں پر رکھا تھا، ہمارے رب!ہم پر ایسا بار نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہیں۔)
اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اس دعاکو قبول بھی فرمالیاہے۔ چنانچہ علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
(أو أخطانا) أی الصواب فی العمل جھلاً منا بوجہ الشرع وقد تقدّم فی صحیح مسلم من حدیث أبی ھریرۃ: قال اللہ نعم، ولحدیث إبن عباس ،قال اللہ تعالی: فعلت۔
اے رب! ہماری غلطیوں پر ہماری پکڑ نہ فرما،یعنی شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے عمل کرنے میں جو غلطی ہوگئی ہو، اسے درگزر فرما اور حضرت ابوہریرہ ؓکے حوالے سے صحیح مسلم کی روایت گزرچکی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہاں میں نے معاف کردیا اورحضرت ابن عباسؓ سے منقول حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں میں نے ایسا ہی کیا۔(تفسیر ابن کثیر387/1)
ایک حدیث میں ہے:
” قَالَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ : فَإِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ، وَاذْرُوا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ، وَنِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لَا يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ. فَأَمَرَ اللَّهُ الْبَحْرَ، فَجَمَعَ مَا فِيهِ، وَأَمَرَ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ : لِمَ فَعَلْتَ ؟ قَالَ : مِنْ خَشْيَتِكَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ. فَغَفَرَ لَهُ ".
ایک شخص نے، جس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیاتھا اپنے گھروالوں سے کہا کہ جب وہ مرجائے تو وہ اسے جلادیں اور پھر اس کے آدھے حصے کو خشکی میں اور آدھے کو سمندر میں بہادیں۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالی اس پر قابو پاگیا تو اسے ایسی سزادے گا کہ دنیا میں اس طرح کی سزا کسی کو بھی نہیں دی گئی ہوگی ۔ اس کے گھر والوں نے اس کے حکم پر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے خشکی و تری کو حکم دیاکہ اس کی راکھ کو اکٹھاکریں۔پھر اسے زندہ کھڑاکیا اور پوچھا:تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا: ’’ تیرے ڈر کی وجہ سے اورتو اس سے بہ خوبی واقف ہے۔‘‘ یہ سن کر اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔‘‘(صحیح بخاری :7506.صحیح مسلم:2756)
علامہ ابن تیمیہؒ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اس شخص کو اللہ کی قدرت اوراس کو جلاکر اس کی راکھ کو بکھیردینے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے میں شک تھا،بلکہ اس کا اعتقاد تھا کہ ایساکرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ نہیں کیاجائے گا اور اس طرح کا عقیدہ رکھنا بہ اتفاق کفر ہے، لیکن وہ جاہل تھا، اسے اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ البتہ صاحب ایمان تھا اور اللہ کی پکڑ اور سزا سے خوف زدہ تھا، اس لیے اسے معاف کردیاگیا۔‘‘ (مجموع الفتاوی 231/3)
اور علامہ ابن حزمؒ کہتے ہیں:
’’یہ شخص اس بات سے ناواقف تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی راکھ کو جمع کرکے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے، اس کے اعتراف، خوف اور ناواقفیت کی وجہ سے اسے معاف کردیاگیا۔‘‘( الفصل 252/3)
اورعلامہ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:
’’وہ دوبارہ زندہ کیے جانے کا منکر نہیں تھا، البتہ جہالت کی وجہ سے یہ گمان کربیٹھا کہ اگر اسے جلاکر اس کی راکھ کو اڑادیاجائے تو اسے دوبارہ زندہ نہیں کیاجائے گا اور عذاب نہیں دیاجائے گا۔ اس کا صاحب ِایمان ہونا اس کے اس اعتراف سے ظاہر ہوچکاہے کہ اس نے ایسا اللہ کے خوف کی وجہ سے کیاہے.اور ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ صفات باری تعالیٰ کے سلسلے میں بعض مسلمان غلطی کر جاتے ہیں تو اس کی وجہ سے انھیں کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔۔۔یا وہ اس بات کا قائل تھا کہ اس کا کوئی خالق و مالک ہے لیکن فترت کے زمانے میں تھا اس لئے ایمان کی شرطیں اس تک نہیں پہونچ سکیں‘‘ (فتح الباری 290/13)
حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” يَدْرُسُ الْإِسْلَامُ كَمَا يَدْرُسُ وَشْيُ الثَّوْبِ، حَتَّى لَا يُدْرَى مَا صِيَامٌ، وَلَا صَلَاةٌ، وَلَا نُسُكٌ، وَلَا صَدَقَةٌ، وَلَيُسْرَى عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ، فَلَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ مِنْهُ آيَةٌ، وَتَبْقَى طَوَائِفُ مِنَ النَّاسِ ؛ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ يَقُولُونَ : أَدْرَكْنَا آبَاءَنَا عَلَى هَذِهِ الْكَلِمَةِ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَنَحْنُ نَقُولُهَا ". فَقَالَ لَهُ صِلَةُ : مَا تُغْنِي عَنْهُمْ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَهُمْ لَا يَدْرُونَ مَا صَلَاةٌ، وَلَا صِيَامٌ، وَلَا نُسُكٌ، وَلَا صَدَقَةٌ ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ، ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَالَ : يَا صِلَةُ، تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ. ثَلَاثًا”
’’ اسلام اس طرح مٹ جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مٹ جاتے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ روزہ ، نماز، قربانی اور صدقہ کیا ہوتا ہے؟ ایک رات میں قرآن کو اٹھا لیا جائے گا اور اس کی ایک آیت بھی نہیں بچے گی۔ لوگوں( بوڑھے مردوں اور عورتوں) کے ایسے گروہ ہوں گے جو کہیں گے کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو یہ کلمہ(لا الٰہ الا اللہ) کہتے ہوئے پایا ہے، اس لیے ہم بھی کہتے ہیں۔ صلہ نے دریافت کیا: کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انہیں کچھ فائدہ ہوگا؟ جب کہ وہ نہ جانتے ہوں گے کہ نماز، روزہ ،قربانی اور صدقہ کیا ہے؟ حضرت حذیفہ ؓ نے منھ پھیر لیا۔ صلہ نے تین بار یہی سوال دہرایا۔ تیسری بار حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: ’’ اے صلہ! یہ کلمہ انہیں جہنم سے بچائے گا۔‘‘ یہ جملہ انہوں نے تین بار دہرایا۔‘‘(ابن ماجہ 4049۔فی الزوائد اسنادہ صحیح ۔وقال الحاکم صحیح علی شرط مسلم)
علامہ ابن تیمیہؒ اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بہت سے لوگ ایسے زمانے اور ایسے علاقے میں پیداہوتے ہیں جہاں شرعی علوم کی روشنی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ ایسے حالات میں وہاں کے لوگوں کو کافر قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اسی لیے تمام اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی دور دراز کے علاقے میں رہتاہو ،جہاں علم وایمان کی بات نہ پہنچی ہو اور وہ شریعت کے واضح اور قطعی احکام کا انکار کردے، جو تواتر کے ساتھ منقول ہیں تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، یہاں تک کہ اسے اسلامی احکام سے آگاہ کردیاجائے۔‘‘ (مجموع الفتاوی 408/11)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں :
ان النبي صلى الله عليه وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا، فَلَاجَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ، فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَكُمْ كَذَا وَكَذَا ". فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ : ” لَكُمْ كَذَا وَكَذَا ". فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ : ” لَكُمْ كَذَا وَكَذَا ". فَرَضُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنِّي خَاطِبٌ الْعَشِيَّةَ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ ". فَقَالُوا : نَعَمْ. فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ” إِنَّ هَؤُلَاءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا، أَرَضِيتُمْ ؟ ” قَالُوا : لَا. فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا عَنْهُمْ، فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ فَقَالَ : ” أَرَضِيتُمْ ؟ ". فَقَالُوا : نَعَمْ. قَالَ : ” إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ ". قَالُوا : نَعَمْ. فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ” أَرَضِيتُمْ ؟ ". قَالُوا : نَعَمْ.
’’نبی ﷺ نے ابوجہم بن حذیفہؓ کوصدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، جہاں ایک آدمی سے ان کی لڑائی ہوگئی اور انہوں نے اسے زخمی کردیا۔ وہاں کے لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کا مطالبہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس کے بدلے میں تمہیں اتنا اتنا دوں گا، کیا تم لوگ قصاص کے مطالبے سے دست بردار ہونے کے لیے راضی ہو۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: پہلے سے بھی زیادہ عطاکروں گا تو وہ لوگ راضی ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور اس میں کہوں گا کہ تم لوگ راضی ہوگئے ہو۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ آں حضور ﷺ نے صحابہ کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : قبیلۂ لیث کے لوگ قصاص کا مطالبہ لے کر آئے تھے، لیکن میں نے کچھ دے کر انھیں صلح کے لیے راضی کرلیاہے۔ کیاتم لوگ راضی ہو؟قبیلہ کے لوگ کہنے لگے: نہیں۔ یہ دیکھ کر مہاجرین ناراض ہوگئے۔ آپؐ نے انہیں کسی طرح کے اقدام سے باز رہنے کا حکم دیا اور پھر قبیلہ کے لوگوں کو بلایا اور سابقہ عطیہ پر اضافہ کرکے پوچھا کہ اب خوش ہو؟ان لوگوں نے کہا: ہاں۔آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میں لوگوں کے سامنے تمہاری رضامندی کو بیان کروں گا۔ انہوں نے کہا:بہتر ہے۔ آں حضور ﷺ نے دوبارہ خطاب کرکے ان کی رضامندی کی اطلاع دی اور پوچھا: کیاتم لوگ راضی ہو؟ انہوں نے سب کے سامنے کہا: ہاں۔‘‘( ابوداؤد: 4534.نسائی:4778.ابن ماجہ:2638)
اس حدیث میں کہاگیا ہے کہ دیہاتیوں نے سب لوگوں کے سامنے اللہ کے رسول ﷺ کو جھوٹا قرار دیا،لیکن اس کے باوجود انہیں مسلمان سمجھاگیا ،حالاں کہ نبی کی تکذیب کفر ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں:
’’ بعض اجڈ دیہاتیوں کی طرف سے جو سلوک کیاگیا وہ اس ضابطے کے خلاف نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کفر ہے۔ا گرچہ انہوں نے ایک طرح سے تکذیب کا ارتکاب کیا ،لیکن نو مسلم ہونے کی وجہ سے انہیں معذور سمجھاگیا۔‘‘(الاعلام بقواطع الاسلام لابن حجر/23)
اور علامہ ابن حزمؒ کہتے ہیں:
’’اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جاہل کو معذور سمجھاجائے گا اور اسے اسلام سے خارج قرار نہیں دیاجائے گا ،لیکن اگر اس طرح کی حرکت کسی عالم سے سرزدہوجائے گا تو وہ کافر ہوگا۔ اس لیے کہ قبیلۂ لیث سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں نے نبی ﷺ کو جھوٹاقرار دیا اور نبی کی تکذیب بالاتفاق کفر ہے، لیکن ان کی جہالت کی وجہ سے انہیں معذور سمجھاگیا۔‘‘ ( المحلی 41/10)
اور جمہور کے یہاں یہ فقہی ضابطہ ہے:
انّ من شروط صحۃ التکلیف ان یکون المکلّف عالماً بما کلّف۔(القواعد لابن اللحام /93)
(شرعی احکام کا پابندہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ مکلف کو معلوم ہو کہ اسے کن چیزوں کا پابند بنایاگیاہے۔)
ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک خاتون سے کہاگیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہود ونصاری کو عذاب دے گا۔اس نے کہا :اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا، کیوں کہ وہ بھی اس کے بندے ہیں۔ امام محمد ؒسے اس کے بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے کہا: اسے کافر قرار نہیں دیاجائے گا، کیوں کہ وہ ناواقف ہے۔ پھر لوگوں نے اسے اس مسئلہ کی حقیقت سے آگاہ کیا اور وہ سمجھ گئی۔ محقق بزازی نے لکھاہے کہ اگر کوئی جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر کفریہ بات کہے تو یقینی طورپر وہ کافر ہے، لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو کہ کفر یہ جملہ ہے، البتہ اپنے ارادہ واختیار سے اسے اداکرے تو بیش تر علما کے نزدیک اسے کافر قرار دیاجائے گا اور جہالت کی وجہ سے معذور نہیں سمجھاجائے گا، جب کہ بعض علماء کے یہاں اسے کافر قرار نہیں دیاجائے گا، کیوں کہ ناواقفیت ایک عذر ہے اور اسی پر فتوا ہے، اس لیے کہ مفتی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس قول کو اختیار کرے جس سے کفر ثابت نہ ہو اور اگر ناواقفیت کو عذر قرار نہ دیاجائے تو تمام جاہلوں کو کافر شمار کرنا ہوگا، کیوں کہ وہ کفریہ الفاظ نہیں جانتے اور اگر جانتے تو اپنی زبان پر ہرگز نہ لے آتے۔(غمز عیون البصائر 304/3)
علم کے ذرائع:
دینی امور اور شرعی معاملے کو جاننے کا ذریعہ صرف وحی الٰہی اور شریعت ہے یا عقل کا بھی اس میں کچھ عمل دخل ہے؟معتزلہ کا خیال ہے کہ جس معاملے میں شریعت موجود نہ ہو اس میں عقل کے ذریعے بھی رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے، اس لیے اگر کوئی جنگل ، صحرا، پہاڑ کی چوٹی یادور افتادہ جزیرہ میں رہتاہو ،جہاں اسلام کی دعوت نہ پہنچ سکی ہوتو اسے ناواقفیت کی وجہ سے معذور نہیں سمجھاجائے گا، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقل کو استعمال کرکے اللہ کی وحدانیت اور آخرت وغیرہ پر ایمان لے آئے اور شرک وکفر سے اجتناب کرے اور اگر اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ غفلت کی حالت میں زندگی گزاردی یاشرک وکفر میں مبتلا ہوگیا تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگا۔ ان کے دلائل یہ ہیں:
1۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے پیغمبری ملنے سے پہلے اپنے والد کو مخاطب کرکے فرمایا:
إِنِّیْ أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ(الانعام:74)
(تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گم راہی میں مبتلا دیکھ رہاہوں۔)
انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے پاس وحی آئی ہے، بلکہ کہا کہ میراخیال ہے کہ تم اور تمہاری قوم کھلی گم راہی میں مبتلا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے یہ بات نبی بنائے جانے سے پہلے فرمائی ہے۔نیز اگر عقل کو دلیل قرار نہ دیاجائے تو پھر انہیں کھلی گم راہی میں مبتلا قرار دینا درست نہ ہوگا، کیوں کہ شریعت کی رہ نمائی موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ معذور تھے۔
2۔حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے واقعہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ انہوں نے سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھ کر اللہ کی معرفت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس غور وفکر کی تعریف کی اور اسے ان کی قوم کے خلاف دلیل قرار دیا:
وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ آتَیْْنٰہَا إِبْرٰہِیْمَ عَلَی قَوْمِہِ ۔(الانعام:83)
(اور یہ ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی تھی۔)
3۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر کافروں کو اس بات پر سرزنش کی ہے کہ وہ کیوں نہیں روئے زمین پر چل پھر کر دیکھتے کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا انجام ہوا اور کہا کہ غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے ان کے دل اندھے ہوگئے ہیں، تو اگر وہ معذور ہوتے تو غور وفکر کے ترک پر ان کی سرزنش نہ کی جاتی۔
4- اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
سَنُرِیْہِمْ آیٰتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (فصلت:53)
(ہم جلدہی ان کو دنیا کے اطراف میں اور خود ان کی ذات میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ قرآن برحق ہے۔)
5-أَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا فِیْ أَنفُسِہِمْ (الروم:8)
(کیا انہوں نے اپنے دلوں میں غور نہیں کیا۔)
6- أَوَلَمْ یَنظُرُواْ فِیْ مَلَکُوتِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ مِن شَیْْء ٍ (الاعراف:185)
(کیا انھوں نے آسمانوں میں اور زمین اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیاہے اس میں غور نہیں کیا۔)
7-وفي الأرض آيات للموقنين.و في انفسكم افلا تبصرون.(الذاريات 20-21)
(اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بہی ۔کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا)
ان آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کی معرفت کے لیے وحی ضروری نہیں ہے، بلکہ عقل بھی ایک دلیل ہے جس کے ذریعے رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔اور عاقل و باشعور انسان کو معذور نہیں سمجھاجائے گا۔(کشف الاسرار 326/4)
بعض تفصیلات میں فرق کے ساتھ معتزلہ کی طرح سے ماتریدیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ علم ومعرفت کا ایک ذریعہ عقل بھی ہے اور اس کے ذریعے سے بعض احکام کا ادراک کیاجاسکتاہے ،جیسے کہ اللہ پر ایمان کا وجوب اور کفر کی حرمت وغیرہ۔ اس لیے کسی جزیرے میں الگ تھلگ رہنے والے کے پاس اگر اسلام کی دعوت نہ پہنچ سکے اور کفر وشرک اختیار کیے بغیر انتقال کرجائے تو وہ معذور ہوگا، لیکن اگر غوروفکر کی مہلت میسرہوگئی، لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہ لاسکا تووہ کافر سمجھاجائے گا اور ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگا، کیوں کہ غور وفکر کا موقع رسولوں کی دعوت کی طرح ہے، جو عقل اور دل کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ کیوں کہ ہر شخص کسی عمارت کو دیکھ کر یہ جان سکتاہے کہ یہ خود بخود نہیں بن گئی ہے ،بلکہ کوئی اس کا بنانے والا ہے، لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ کائنات میں غور وفکر کرکے اپنے خالق ومالک کو پہچانے اور اگر اس کا موقع ملنے کے باوجود وہ ایسا نہ کرسکا تو وہ معذور نہیں ہوگا۔ اسی بنیاد پر امام ابوحنیفہؒ کہاکرتے تھے:
لاعذر لأحد في الجھل بالخالق لما یری في العالم من آثار الخلق۔(کشف الاسرار 331/4)
(خالق سے ناواقفیت کسی کے لیے عذر نہیں ہے، کیوں کہ وہ دنیا میں تخلیق کی بہت سی نشانیاں دیکھتارہتاہے۔)
اس کے برخلاف اشاعرہ کہتے ہیں کہ شرعی احکام کے جاننے میں عقل کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص ایسی جگہ رہتاہو جہاں تک اسلام کی دعوت نہ پہنچ سکی ہوتو وہ معذور سمجھاجائے گا گرچہ وہ شرک وکفر میں مبتلا رہے، مگر جہالت اور ناواقفیت کی وجہ سے وہ عذاب کا مستحق نہیں ہوگا۔ متاخرین ماتریدیہ اور جمہور حنفیہ اسی کے قائل ہیں۔ اور علامہ ابن ہمام نے اسی کو راجح قرار دیاہے اور شافعیہ ، حنابلہ،اور ظاہریہ کا مسلک بھی یہی ہے۔(دیکھئے اصول الفقہ للزحیلی 127/1.التقریر و التحبیر 90/2.فواتح الرحموت 26/1.کتاب القواعد لتقی الدین الشافعی 286/2شرح الکوکب المنیر لابن نجار308/1الفروع 185/6.الاحکام لابن حزم 60/1)
ان کے دلائل یہ ہیں:
1۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولاً۔(الاسراء:15)
علامہ ابن عطیہؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’جمہور کہتے ہیں کہ اس آیت میں دنیاوی حکم کا بیان ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کسی بھی قوم کو اسی وقت عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کرتے ہیں جب کہ ان کے پاس رسولوں کی دعوت پہنچ چکی ہوتی ہے اور حجت تمام کردی جاتی ہے اور گرچہ اس میں دنیاوی حکم کا بیان ہے مگر قرآن حکیم کی متعدد آیاتوں سے بظاہر معلوم ہوتاہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کا عذاب بھی رسولوں کے بھیجنے کے بعد ہی دیں گے، جیسے کہ ایک آیت میں ہے:
کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیْرٌ قَالُوا بَلیٰ (الملک:8-9)
’’جب کوئی گروہ اس میں ڈالاجائے گا تو دوزخ کا داروغہ پوچھے گا کہ کیاتمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟‘‘
اس آیت میں’ کلما ‘کا لفظ استعمال کیاگیاہے، جو حصر کا تقاضا کرتاہے اور جس سے معلوم ہوتاہے کہ ہر قوم میں ڈرانے والا بھیجا گیاہے اور رسولوں کے بھیجنے کے بعد ہی عذاب دیاجاتاہے ۔‘‘ (المحرر الوجیز 172/7)
اور علامہ ابن کثیرؒ کہتے ہیں:
’’مذکورہ آیت میں اللہ کے عدل کو بیان کیاگیاہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب میں مبتلا اسی وقت کرتے ہیں جب رسولوں کو بھیج کرکے ان پر حجت تمام کردی جاتی ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر135/3)
2۔ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ۔(النساء:165)
(تاکہ لوگوں کے لیے پیغمبروں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہے۔)
یعنی رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں رہ جائے گا کہ ہمارے پاس نہ کوئی رسول آیا اور نہ کوئی کتاب نازل ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسولوں کی آمد سے پہلے لوگوں کے لیے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ ہمارے پاس اسلام کی دعوت نہیں پہنچی، اس لیے کفر کرنے میں ہم معذور تھے۔ اگر عقل بھی شرعی دلیل ہوتی تو رسولوں کے بغیر بھی ان پر حجت تام ہوجاتی۔ علامہ قرطبیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وفی ھذا کلّہ دلیل واضح أنّہُ لایجب شیء من ناحیۃ العقل۔(تفسیر قرطبی 226/7)
(یہ تمام اس بات کی دلیل ہیں کہ عقل کی وجہ سے کوئی چیز واجب نہیں ہے۔)
3۔ وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ ۔(الانعام:19)
(مجھ پر یہ قرآن اتارا گیا ہے، تاکہ میں اس کے ذریعہ تم کو اور جس جس کو قرآن پہنچے، ان سب کو ڈراؤں۔)
علامہ قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس قرآن کی تعلیمات نہ پہنچی ہوں تواس کے بارے میں کوئی حکم نہیں لگایاجائے گا۔نیز شریعت کو یہ حق ہے کہ وہ جوچاہے فیصلہ کرے، اور یہ کہ عقل کے ذریعہ کسی چیز کے واجب ہونے یانہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا ہے۔ عقل کا کام تو صرف یہ ہے کہ شریعت کی روشنی میں شرعی معاملات کو اس کی حقیقی شکل میں دیکھ لے۔‘‘(تفسیر قرطبی 378/1)
اور علامہ ابن حزمؒ کہتے ہیں:
’’صحیح یہ ہے کہ ڈرانااور تنبیہ کرنا اس وقت پایاجائے گا جب کہ اس تک شریعت پہنچ جائے اور کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بنایاجاتا ہے اور غیب کو جان لینا کسی کے بس میں نہیں ہے، یعنی شریعت پہنچنے سے پہلے ہی اس کے بارے میں جان لینا‘‘۔(الاحکام60/1)
دارالحرب اور دارالاسلام:
گزرچکاہے کہ شرعی امور کوجاننے کا ذریعہ صرف وحی الٰہی ہے اور جہاں پر اسلامی احکام وتعلیمات کی روشنی نہ پہنچی ہو وہاں کے لوگ معذور سمجھے جائیں گے۔دارالحرب بھی ایک طرح سے انہی علاقوں میں شامل ہے، کیوں کہ وہاں حکومت غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جنہیں مسلمانوں کا وجود بھی گوارا نہیں ہوتا اور پورا سماج اسلام دشمن اور ماحول الحاد پرور ہوتاہے اور اسلامی احکام سے واقفیت کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں کے رہنے والوں کے لیے عمومی احکام اور ضروریات دین سے ناواقفیت عذر ہے۔ بابرتیؒ نے لکھا ہے:
’’اس لیے کہ دلیل کی تلاش میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور ناواقفیت کی وجہ خود دلیل کی پوشیدگی ہے کہ دارالحرب میں عام اور مشہور نہیں ہوسکی، کیوں کہ وہاں کے لوگوں کے لیے دعوت وتبلیغ کے راستے بند ہیں۔‘‘ ( التقریر للبابرتی 168/8)
اس لیے دارالحرب میں قیام کی وجہ سے نماز روزہ وغیرہ کی فرضیت کا علم نہ ہوسکا تو بعد میں معلوم ہونے پر اس کے ذمے قضا نہیں ہے۔(غمز عیون البصائر 304/3)
اور علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں:
’’جو شخص کسی ایسی چیز کی حرمت سے ناواقف رہاجس کا تعلق عام لوگوں سے ہے تو اس کے بارے میں جہالت کے دعوے کو قبول نہیں کیاجائے گا ،مگر یہ کہ وہ جلد ہی مسلمان ہواہو، یاکسی دور دراز کے علاقے میں پلابڑھاہو،جہاں پر اس طرح کی چیزیں پوشیدہ رہ سکتی ہیں، جیسے زنا،قتل، چوری اور شراب کی حرمت اور نماز میں گفتگو اور روزہ میں کھانے کی ممانعت۔‘‘(الاشباہ /200)
اور فقہ شافعی کی کتاب مغنی المحتاج میں ہے:
’’اس شخص کو کافر قرار دیاجائے گا جو پوری امت کو گم راہ یا صحابۂ کرام کو کافر قرار دے، یا قرآن کے اعجاز کا انکار کردے، یا اس میں کوئی تبدیلی کرے، یامردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرے، یا جنت وجہنم اور عذاب ثواب کو نہ مانے، یہ حکم اس وقت ہے جب کہ جان بوجھ کر ایسا کہے، لیکن اگر ناواقفیت کی وجہ سے ایسا کہہ رہاہے، اس طورپر کہ ابھی جلد ہی مسلمان ہواہے، یامسلمانوں سے الگ تھلگ دوردراز کے علاقے میں رہتاہے تو معذور ہونے کی وجہ سے اسے کافر نہیں کہاجائے گا۔‘‘(مغنی المحتاج 136/4)
اس کے برخلاف دارلاسلام میں اسلامی تعلیمات رائج اور لوگوں کی زندگیوں شامل ہوتی ہیں اور شرعی احکام سے واقفیت کے تمام راستے کھلے ہوئے اور آسان ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر شخص اپنی ضرورت کے بہ قدر مسائل سے آگاہ ہوتاہے۔ اگر اس کے باوجود لاعلم ہے تواس میں اس کی کوتاہی کا دخل ہے۔کشف الاسرار میں ہے:
’’جب دارالاسلام میں اسلامی احکام پھیل جائیں تو شریعت کی طرف سے تبلیغ مکمل ہوگئی، کیوں کہ ہر شخص تک براہ راست پیغام پہنچانا ممکن نہیں ہے، بلکہ ممکن صرف اشاعت ہے۔ کیاتم نہیں دیکھتے ہو کہ نبی ﷺ نے بادشاہوں تک خطوط اور قاصدوں کو بھیج کر خود کو پیغام پہنچادینے والا قرار دیا۔ یہاں تک کہ آپ ؐ فرمایا کرتے تھے: کیا میں نے پیغام پہنچادیا؟اے اللہ ! اس پر گواہ رہ۔ معلوم ہوا کہ شرعی حکم کے عام اور مشہور ہوجانے کی وجہ سے تبلیغ کا حق اداہوجائے گا۔(کشف الاسرار 481/4)
اس لیے مسلم مملکت میں رہنے والا غیر مسلم اگر اسلام قبول کرلے، مگر ایک مدت تک اسے نماز کی فرضیت کا علم نہ ہوسکے ،جس کی وجہ سے وہ نماز سے غافل رہے تو معلوم ہونے کے بعد اس کے ذمے گذشتہ نمازوں کی قضا بھی ہے، کیوں کہ وہ ایک ایسی جگہ پر ہے جہاں اسلامی تعلیمات کا رواج ہے، وہ لوگوں کو مسجدوں میں آتے جاتے دیکھ رہاہے اور اس کے لیے احکام ومسائل کے بارے میں لوگوں سے دریافت کرناممکن ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ معلومات حاصل نہ کرسکا تواس میں اس کی غلطی اور کوتاہی کو دخل ہے، لہٰذا اسے معذور قرار نہیں دیاجائے گا۔یہ شخص ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی شخص آبادی میں رہتے ہوئے یہ خیال کرے کہ پانی موجود نہیں ہے، کسی شخص سے پانی نہ مانگے اور تیمم کرکے نماز پڑھ لے، حالاں کہ پانی موجود ہے تواس کی نماز نہیں ہوگی، کیوں کہ اس نے ایسی جگہ پر پانی طلب کرنے میں کوتاہی کی ہے جہاں عام طورپر پانی دست یاب ہوتاہے۔(کشف الاسرار 481/4)
علامہ علاء الدین حنبلیؒ کہتے ہیں:
’’جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ناواقف معذور ہوگا تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ علم حاصل کرنے میں کوتاہی نہ کرے اور اگر اس میں کوتاہی کرے تو یقینی طورپر وہ معذور نہیں ہوگا۔‘‘(القواعد و الفوائد الاصولیہ/52)
ابن رجب حنبلیؒ لکھتے ہیں:
’’جب دارالاسلام میں نشوونما پانے والا زنا کاارتکاب کرے اور اس کی حرمت سے ناواقفیت کا دعویٰ کرے تواس کی بات نہیں مانی جائے گی۔ اس لیے کہ ظاہر حال سے اس کی تردید ہورہی ہے۔ا گرچہ حقیقت کے اعتبار سے وہ ناواقف ہو۔‘‘(القواعد لابن رجب /323)
عمومی اور خصوصی علم
امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ علم کی دو قسمیں ہیں: علم عام اور علم خاص۔ کسی کے لیے علم عام سے ناواقفیت کی گنجائش نہیں ہے، جیسے پانچ وقت کی نمازوں اور روزہ وغیرہ کی فرضیت اور زنا، قتل اور چوری وغیرہ کی حرمت اور علم خاص جیسے فرائض سے متعلق فروع کا علم، جس کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ اگر اس کے تعلق سے کوئی روایت موجود ہے تو اس کی حیثیت خبر واحد کی ہے، خبر متواتر کی نہیں۔(الرسالہ/357)
بعض لوگوں نے اسی حقیقت کو ضروریاتِ دین یا اصول دین اور فروع دین کے لفظ سے اور بعض لوگوں نے مسائل ظاہرہ اور مسائل خفیہ کے لفظ سے بیان کیاہے۔
مسائل ظاہرہ یا ضروریات ِدین میں درج ذیل چیزیں داخل ہوں گی:
(الف) وہ تواتر کے ذریعہ منقول ہو۔
(ب) اس کے دلائل بالکل واضح ہوں اور اشتباہ اور تاویل کی گنجائش نہ ہو۔
(ج) کوئی اجماعی مسئلہ ہو، جس کی پشت پر کتاب وسنت کی صراحت ہو اور تواتر کے ساتھ ایک نسل نے دوسری نسل سے نقل کیاہو، جس میں غلطی، خلط ملط اور تاویل کی گنجائش نہ ہو۔
(د) وہ ایسے بنیادی مسائل ہوں جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مکلف کو دشواری نہ ہو۔
دارالاسلام میں مسائل ظاہرہ سے ناواقفیت عذر نہیں ہے اور اس کا منکر کافر ہوگا۔ اس سے توبہ کرنے کے لیے کہاجائے گا اور اگر دارالحرب وغیرہ میں رہنے کی وجہ سے ناواقف رہاتو اس کے سامنے کتاب وسنت کے دلائل بیان کردیے جائیں گے اور قیام حجت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ دلائل اس کی سمجھ میں آجائیں ،بلکہ اس کے بغیر بھی حجت پوری ہوسکتی ہے اور ہر واقف شخص یہ کام کرسکتاہے۔
مسائل خفیہ یا فروعِ دین میں درج ذیل صورتیں شامل ہوں گی:
(الف) وہ تواتر کے ذریعہ منقول نہ ہو۔
(ب) ناواقفیت کی وجہ کوئی اشتباہ ہو، جس کی وجہ کتاب وسنت میں موجود ہو، جیسے معتزلہ وغیرہ کے بعض عقائد۔
(ج) مکلف کے لیے اس مسئلے کی اصل حقیقت کو معلوم کرنا دشوار ہو، کیوں کہ اس کے دلائل غیر واضح اور خود اہل سنت کے درمیان اس میں اختلاف ہو۔
(د) وہ فروعی مسائل جو عوام کے درمیان مشہور نہ ہوں، جیسے کسی عورت کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی خالہ سے نکاح کرلینا۔
اس طرح کے مسائل سے ناواقفیت دارالاسلام میں بھی عذر شمار ہوگا اور اس کے منکر کو کافر نہیں کہاجائے گا،بلکہ اتمام حجت کے لیے کتاب وسنت کے دلائل ذکر کیے جائیں۔ ان کی اس طرح سے وضاحت کی جائے کہ مخاطب اسے سمجھ جائے اور اس کے جو شبہات ہیں انھیں دورکرنے کی کوشش کی جائے۔ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی ماہر عالم دین ہی کرسکتاہے۔جیسے کہ کسی خاتون نے کہا کہ اللہ تعالیٰ یہود و نصارٰی کو عذاب نہیں دیں گے کیونکہ وہ بھی اس کے بندے ہیں۔امام محمد سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا وہ ناواقف ہے اس لئے اسے کافر نہیں کہا جاسکتا ہے پھر لوگوں نے اسے مسئلے کی حقیقت سے اگاہ کیا اور وہ اسے اچھی طرح سے سمجھ گئی (غمز عیون البصائر 304/3)
ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:
’’قاضی عیاض کہتے ہیں : جو شخص ظالمانہ قتل کو، برضا ورغبت شراب پینے کو اور زنا کرنے کو حلال سمجھے تواس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ کافر ہے۔ یہی حکم سود، ریاکاری اور دیگر حرام کردہ چیز وں کا بھی ہے۔ بشرطے کہ اسے اس کی حرمت کا علم ہو۔ اس جملے سے معلوم ہوتاہے کہ ناواقفیت عذر ہے۔ شاید یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو نومسلم ہواور جلدہی بالغ ہواہو، کیوں کہ ضروریاتِ دین کا انکار اجماعی طورپر کفر ہے۔‘‘(شرح الشفاء 429/2)
علامہ قرافی مالکیؒ کہتے ہیں:
ولذلک لم یعذرہ بالجھل في أصول الدین اجماعاً۔شرح تنقیح الفصول/439
( اسی لیے اصول دین میں ناواقفیت کی وجہ سے اسے معذورنہیں قرار دیاجائے گا۔ اس پر اجماع ہے۔)
امام نووی شافعیؒ لکھتے ہیں:
’’اور یہی معاملہ ان تمام چیزوں کا بھی ہے جن پر امت کا اتفاق اور اجماع ہو اور ان کے بارے میں عام طورپر لوگوں کو معلوم ہو، پھر بھی کوئی ان کا انکار کردے، جیسے کہ پانچ وقت کی نمازیں، رمضان کے مہینے کاروزہ، غسل جنابت، زنا اورشراب کی حرمت، محرم عورتوں سے نکاح کا حرام ہونااور اس جیسے دوسرے مسائل، البتہ اگر کوئی جلدی مسلمان ہواہو اور شرعی احکام سے ناواقف ہو اور نادانی کی وجہ سے کسی چیز کا انکار کردے تو اسے کافر قرار نہیں دیاجائے گا۔
رہے وہ اجماعی مسائل جن کا علم مخصوص لوگوں کو ہو اور عام لوگوں میں اس کی شہرت نہ ہو، جیسے کہ کسی عورت اور اس کی خالہ یا پھوپھی کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت اور اس بات کا علم کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والا وارث نہیں ہوتاہے اور ترکہ میں سے دادی کو چھٹا حصہ ملتاہے اور اس جیسے دوسرے احکام تو ان کے انکار کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیاجائے گا، بلکہ معذور سمجھاجائے گا، کیوں کہ اس طرح کے مسائل کی معلومات عام نہیں ہیں۔(شرح مسلم للنووی 205/1)
علامہ ابن رجب حنبلیؒ لکھتے ہیں:
’’حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حلال وحرام کی وضاحت کردی ہے، البتہ ان میں سے بعض دوسرے سے زیادہ واضح ہیں۔ اس لیے اگر کسی مسئلے کی وضاحت عام اور مشہور ہو اور اس کا تعلق ضروریاتِ دین سے ہو اور اس میں کسی طرح کا شک نہ ہوتو پھر کسی کو اس سے ناواقفیت کی وجہ سے معذور نہیں سمجھاجائے گا، جب کہ وہ ایسے شہر میں ہو جہاں اسلامی احکام کا ظہور ہو۔اگر کسی حکم کی وضاحت اس سے کم ہے تو اس میں سے بعض تو علماء کے درمیان مشہور ہیں اور وہ اس کی حلّت وحرمت سے واقف ہیں، البتہ غیر علماء سے وہ پوشیدہ ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ خود علماء کے درمیان مشہور نہیں ہیں، اس لیے ان کی حلت وحرمت میں اختلاف ہواہے۔‘‘جامع العلوم والحکم/167
حاصل یہ ہے کہ دارالحرب میں ضروریاتِ دین اور مسائلِ ظاہرہ سے ناواقفیت بھی عذر ہے اور جہالت و لاعلمی کی وجہ سے وہاں کے باشندوں پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور پہلے ان کے سامنے اتمام حجت کیاجائے گا، یعنی کتاب وسنت کے واضح دلائل ان کے سامنے رکھ دیے جائیں گے اور اس کے بعد نہ ماننے پر کوئی حکم لگایاجائے گا۔ دارالاسلام میں ضروریات دین کے سلسلے میں لا علمی عذر نہیں ہے۔ اس کا منکر کافر ہوگا اور اس سے توبہ کرنے کے لیے کہاجائے گا ۔ فروعی احکام اور مسائل غیر ظاہرہ میں دارالاسلام کے اندر بھی جہالت عذر ہے اور لاعلمی کی وجہ سے کسی چیز کے ارتکاب پر مواخذہ نہیں ہوگا، بلکہ پہلے اسے بتانا اور سمجھانا ضروری ہوگا۔
کسی جگہ جہالت کے عذر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے لیے تعلیم کے مواقع میسر نہ ہوں۔ کسی جگہ تعلیم کے مواقع اور امکانات موجودہوں ، اس کے باوجود کوئی شخص غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کرسکاتو یہ اس کے لیے عذر نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ علاء الدین سمرقندیؒ لکھتے ہیں:
کون المأمور بہ معلوماً للمامور أو ممکن العلم بہ باعتبار سبب قیام العلم شرط لصحۃ التکلیف، وفي الحاصل حقیقۃ العلم لیس بشرط، ولکن التمکّن من العلم باعتبارہ سبب کاف۔میزان الاصول /171
(جس چیز کا حکم دیاجارہاہے اس کے بارے میں مکلف کو معلوم ہونا ضروری ہے ،یا وہ ان چیزوں میں سے ہو جس کے بارے میں معلوم کرنا ممکن ہو،کیوں کہ کسی حکم کا مکلف ہونے کے لیے اس کے بارے میں معلوم ہونا شرط ہے اور الحاصل میں ہے کہ حقیقت میں معلوم ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ اس کے علم پر قادر ہونا کافی ہے۔)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّہِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرۃ:22)
(جانتے بوجھتے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو۔)
اس آیت کی تفسیر میں علامہ بیضاویؒ لکھتے ہیں:
وعلی ھذا فالمقصود منہ التوبیخ والتثریب لاتقیید الحکم وقصرہ فان العالم والجاھل المتمکّن من العلم سواء في التکلیف۔(تفسیر بیضاوی 47/1)
(مذکورہ آیت کا مقصد زجر وتوبیخ ہے، شرک نہ کرنے کے حکم کو علم کے ساتھ مقید اور محدود کرنا مقصود نہیں ہے۔ کیوں کہ شرعی احکام کا پابند ہونے میں عالم اورغیر عالم میں کوئی فرق نہیں ہے، جسے معلوم کرنے پر قدرت حاصل ہو۔ )
شیخ مقری مالکیؒ لکھتے ہیں :
أمر اللّٰہ العلماء أن یبیّنوا ومن لا یعلم یسأل، فلا عذر بالجھل ما أمکن التعلم۔(القواعد 402/2)
(اللہ تعالیٰ نے علماء کو حکم دیاہے کہ وہ شرعی احکام بیان کریں اور ناواقفوں کو پابند بنایاہے کہ وہ ان سے سوال کریں، لہٰذا اگر کسی کو علم حاصل کرنے پر قدرت ہے تو اسے ناواقفیت کی وجہ سے معذور نہیں سمجھاجائے گا۔)
علامہ علاء الدین حنبلیؒ کہتے ہیں:
فاذا قلنا: یعذر فانما محلّہ اذا لم یقصّر ویفرّط في تعلّم العلم، أما اذا قصّر وفرّط فلا یعذر جزماً۔(القواعد الفوائد الاصولیہ/52)
(اگر ہم کہتے ہیں کہ ناواقف معذور ہوگا تو یہ اس وقت ہے جب وہ حصول علم میں کوتاہی نہ کرے ۔اگر کوتاہی کرتاہے تو یقینی طور پر معذور نہیں ہوگا۔)
ہندوستان جیسے ملکوں کو دارالاسلام کے زمرے میں رکھاجائے گا، کیوں کہ یہاں علم کے مواقع اور امکانات کسی بھی طرح سے دارالاسلام سے کم نہیں ہیں، بلکہ بہت سے مسلمان ممالک سے زیادہ ہیں اور علماء اور دینی ادارے وافر مقدار میں موجود ہیں، البتہ بعض علاقوں کو اس سے مستثنیٰ کیاجاسکتاہے، جہاں کے لوگ آج بھی شرعی احکام سے ناواقف ہیں اور وہاں دینی علم کا سیکھنا بہ سہولت ممکن نہیں ہے۔
فروعی احکام سے ناواقفیت کو دارالاسلام میں بھی عذر شمار کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نکاح وطلاق کے بعض مسائل سے بے خبری ایک عام بات ہے جیسے کہ حرمت مصاہرت کے بعض مسائل و جزئیات مثلا شہوت کے ذریعے دیکھنے اور چھونے کی وجہ سے حرمت مصاہرت کا ثابت ہونا یا طلاق کے بارے میں یہ تصویر بالکل عام ہے کہ تین طلاق دیئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی ہے اور لوگوں کو عام طور پر طلاق سنت کا طریقہ معلوم نہیں ہے، اس لئے جو لوگ حرمت مصاہرت کے مسائل سے بالکل بے خبر ہوں تو ان کے حق میں ناواقفیت کی وجہ سے حرمت کا حکم ثابت نہیں ہونا چاہئے ، اسی طرح سے جو لوگ طلاق کے طریقے سے واقف نہیں ہیں ان کے لئے بے خبری اور لا علمی کو عذرمان کر تین طلاق کو ایک مانا جا سکتا ہے.
ناواقفیت سے متعلق بعض اصول وضوابط:
جہالت کے عذر ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے فقہائے حنفیہ نے اس کی درج ذیل صورتیں بیان کی ہیں:
1۔واضح دلائل اور صریح ثبوت کے باوجود محض ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ ماننا، جیسے توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ کا انکار۔ اس طرح کے امور میں جہالت کو عذر شمار نہیں کیاجائے گا،کیوں کہ اللہ کی وحدانیت اور کمالِ قدرت کے دلائل بالکل واضح ہیں۔ یہی حکم رسالت و آخرت کا ہے۔ اس لیے ان سے متعلق دلائل کو جان لینے کے باجود انکار اور کفر کو عذر شمار نہیں کیاجائے گا۔
2۔وہ جہالت جو کتاب سنت میں کسی غلط تاویل کی وجہ سے پیداہو، جیسے بدعتی فرقوں کے بعض عقائد۔ یہ جہالت عذر نہیں کہی جائے گی، کیوں کہ ان کی تاویل بالکل باطل ہے اور اس کے برخلاف واضح اور صریح دلائل موجود ہیں۔
3۔باغی کا جہل، یعنی کوئی شخص کسی فاسد تاویل کے ذریعہ یہ خیال کرکے کہ حکم راں باطل پرست ہے، اس کے خلاف بغاوت کردے، حالاں کہ حکم راں عادل اور دین دار ہے، تو اس کی فاسد تاویل کا کوئی اعتبار نہیں کیاجائے گا۔ کیوں کہ اس پر اجماع ہے کہ عادل حکم راں کے خلاف بغاوت جائز نہیں ہے، اس لیے اگر وہ بغاوت کے دوران کسی کے مال کو ضائع کردے تو اس سے اس کا تاوان لیاجائے گا۔
4۔وہ اجتہاد جو واضح آیات وروایات اور اجماع قطعی کے خلاف ہو اسے بھی عذر شمار نہیں کیاجائے گا۔جیسے کوئی شخص یہ فتویٰ دے دے کہ تین طلاق کے بعد دوسرے مرد سے محض نکاح کرلینے کی وجہ سے عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔
5۔وہ اجتہاد جو صحیح شرعی دلیل پر مبنی ہو اور کتاب وسنت اور اجماع کے خلاف نہ ہو، جیسے کوئی شخص روزہ کی حالت میں پچھنا لگائے اور پھر اسے خیال ہوا کہ اس کی وجہ سے میرا روزہ ٹوٹ گیا اور وہ کھاپی لے تو اس پر صرف قضا ہے، کفارہ نہیں۔ کیوں کہ ایک حدیث میں ہے:
أفطر الحاجم والمحجوم۔(ترمذی:774.و قال حسن صحیح)
(پچھنا لگانے والے اور جسے لگایاگیا، دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔)
اس حدیث کی بنیاد پر امام اوزاعیؒ پچھنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کے قائل ہیں۔ جمہور علما ء دوسری احادیث کی وجہ سے، جن میں اس عمل کی وجہ سے روزہ نہ ٹوٹنا مذکور ہے، اس کی تاویل کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی کو یہ حدیث معلوم ہو اور اس کی تاویل کا علم نہ ہو اور ا س کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے وہ کھاپی لے تو اس کے ذمہ کفارہ نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کی لاعلمی ایک صحیح اجتہاد کی وجہ سے ہے، جس کی وجہ سے وہ معذور شمار ہوگا اور شبہ کا فائدہ دے کر کفارہ کو ساقط کردیاجائے گا، کیوں کہ کفارہ شبہ کی وجہ سے ساقط ہوجاتاہے۔
6۔وہ ناواقفیت جو کسی اشتباہ اور غلطی کی وجہ سے ہو، جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کی باندی کو اپنے لیے حلال سمجھ کر اس سے صحبت کرلے تو اس پر زنا کی حد نہیں لگائی جائے گی، کیوں کہ میاں بیوی عام طورپر ایک دوسرے کی ملکیت کی چیز کو استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی بیوی کی باندی کو اپنی ملکیت سمجھ لے تو اس کی گنجائش ہے اور اس کی وجہ سے شبہ کا فائدہ دے کر اس پر سے حد ساقط کردی جائے گی۔ جیسے کسی کو لاعلمی میں شراب پلادی جائے تو اسے شراب پینے کی سزا نہیں دی جائے گی، یا شادی کے موقع پر دلہن بدل جائے اور کوئی شخص دوسرے کی بیوی کو اپنی بیوی سمجھ کر اس سے صحبت کرلے تو اسے زنا کی سزا نہیں دی جائے گی۔
7۔دارالحرب میں رہنے کی وجہ سے ناواقفیت بھی عذر ہے۔ اس لیے اگر کوئی وہاں رہنے کی وجہ سے نماز وغیرہ کی فرضیت سے واقف نہ ہوسکا تو وہ معذورشمار ہوگا اور واقف ہونے کے بعد قضا لازم نہ ہوگی۔
8۔کسی پر کوئی چیز لازم کی جارہی ہے تو اسے معلوم ہونا ضروری ہے۔ اس کے علم کے بغیر لزوم ثابت نہیں ہوگا، جیسے کسی شخص کو کسی معاملے میں وکیل بنایاجارہاہو، یا کسی کو وکالت سے معزول کیاجارہاہو تو اسے اس کے متعلق معلوم ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ تو وہ وکیل بن سکتاہے اور نہ وکالت سے معزول ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سرپرست نے کسی کنواری لڑکی کا نکاح اس کے علم و اطلاع کے بغیر کردیا اور لاعلمی کی وجہ سے وہ خاموش رہی تو یہ خاموشی رضامندی کی دلیل نہیں ہوگی، بلکہ ناواقفیت عذر شمار ہوگی اور معلوم ہونے کے بعد اسے نکاح قبول نہ کرنے کا اختیار ہوگا۔(کشف الاسرار 457/4.التقریر157/8.فواتح الرحموت129/1)
شافعیہ کہتے ہیں کہ ناواقفیت کی وجہ سے کسی تفصیل کے بغیر اس فعل پر مرتب ہونے والا گناہ معاف ہوجاتاہے۔ان کے یہاں لاعلمی کی وجہ سے دی گئی سہولت یا عدم سہولت کی متعدد صورتیں ہیں، جن کا حاصل یہ ہے:
1۔ناواقفیت کی وجہ سے شریعت کا کوئی حکم چھوٹ جائے تو وہ معاف نہیں ہوگا، بلکہ اس کی قضا ضروری ہے، جیسے کوئی شخص بے خبری میں ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لے جس میں اتنی نجاست لگی ہوئی ہے جسے شریعت نے نظر انداز نہیں کیاہے تو معلوم ہونے پر اس کی قضا ضروری ہے اور حکم کی تعمیل نہ کرنے کی وجہ سے پہلی نماز پر کوئی ثواب نہیں ہے۔
2۔ناواقفیت کی وجہ سے ممنوعات کے ارتکاب کی وجہ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، بشرطے کہ اس کی وجہ سے دوسرے کا کوئی حق ضائع نہ ہو، جیسے کوئی شخص بے خبری میں شراب پی لے تو اس پر حدنافذ نہیں کی جائے گی، یا عبادت کو فاسدکرنے والی کوئی حرکت کر بیٹھے تو اس کی وجہ سے عبادت فاسد نہیں ہوگی، جیسے کہ روزہ کی حالت میں جماع یا نماز کے دوران گفتگو۔جیسے کہ معاویہ بن حکم ؓسے روایت ہے :
بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ : يَرْحَمُكَ اللَّهُ. فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ. فَقُلْتُ : وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهْ ! مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ ؟! فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي، لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللَّهِ مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي ؛ قَالَ : ” إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ ” –
’’رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میں نماز پڑھ رہاتھا کہ اچانک ایک شخص کو چھینک آگئی۔ میں نے کہا :یرحمک اللہ۔ یہ سن کر لوگ مجھے گھورگھور کر دیکھنے لگے۔ میں نے کہا: ہائے افسوس!کیابات ہے کہ تم لوگ مجھے تیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہو۔ وہ لوگ مجھے خاموش کرانے کے لیے اپنی ران پر ہاتھ مارنے لگے۔میں چپ ہوگیا اور نماز ختم ہوگئی۔میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم کو نہیں دیکھا ۔نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا، نہ برابھلاکہا بلکہ صرف یہ فرمایا: نماز میں گفتگو درست نہیں ہے، بلکہ اس میں تو سبحان اللہ، الحمد للہ کہاجاتاہے اور قرآن پڑھاجاتاہے۔‘‘(صحیح مسلم:537)
چوں کہ حضرت معاویہ بن حکم ؓنماز کے دوران بات چیت کی ممانعت سے ناواقف تھے، اس لیے انہیں معذور سمجھ کر دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
حضرت یعلیٰ بن امیہؓ سے روایت ہے :
، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ وَعَلَيْهِ أَثَرُ الْخَلُوقِ – أَوْ قَالَ : صُفْرَةٌ – فَقَالَ : كَيْفَ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي عُمْرَتِي؟….قال: اخْلَعْ عَنْكَ الْجُبَّةَ، وَاغْسِلْ أَثَرَ الْخَلُوقِ عَنْكَ، وَأَنْقِ الصُّفْرَةَ، وَاصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ ".
’’نبی ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا ۔ اس وقت آپؐ جعرانہ میں تھے۔ وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، جس پر زرد رنگ کی خوشبو لگی ہوئی تھی۔ اس نے کہا: عمرہ کے دوران میں کیاکروں؟ آپؐ نے فرمایا: جبہ اتاردو ، تمہارے جسم پر خوشبو کا جو اثر ہے اسے دھو دو، زرد رنگ کو صاف کردو اور پھر عمرہ میں وہ کام کرو جو تم حج میں کیاکرتے ہو۔‘‘(صحیح بخاری:1789)
یہی روایت جامع ترمذی میں ان الفاظ کے ساتھ ہے:
رأی النبی ﷺ اعرابیاً قد أحرم وعلیہ جبّۃ فأمرہ أن ینزعھا۔/ترمذی :835)
(نبی ﷺ نے ایک دیہاتی کو دیکھا جو حالت احرام میں جبہ پہنے ہوئے تھا تو آپؐ نے اسے اتارنے کا حکم دیا۔)
مذکورہ صحابی ممنوعات احرام سے ناواقف تھے، اس لیے انہیں فدیہ اداکرنے کا حکم نہیں دیاگیا۔ غرضیکہ مامورات میں ناوقفیت عذر نہیں، جب کہ منہیات میں عذر ہے۔ اس فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ زرکشیؒ لکھتے ہیں:
’’شریعت نے بعض کاموں کے کرنے کا جو حکم دیاہے اس کا مقصد مصلحتوں اور خوبیوں کا حصول ہے اور یہ اس وقت حاصل ہوگا جب اس پر عمل کیاجائے اور بعض چیزوں سے رکنے کا حکم اس لیے دیاگیاہے کہ اس میں فساد اور بگاڑ ہے اور مکلف کی آزمائش بھی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے ارادہ اور جان بوجھ کرکرنا ضروری ہے۔ ناواقفیت اور بھول کی حالت میں مکلف ممنوع چیز کے ارتکاب کا قصد نہیں کرتاہے اس لیے وہ معذور ہے۔‘‘(المنثور فی القواعد 19/2)
3۔ممنوعات کے ارتکاب کی وجہ سے کسی چیز کا اتلاف ہو تو اس کا تاوان واجب ہوگا، جیسے کوئی شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے حالت احرام میں کسی شکار کو مار دے تو ناواقفیت کی وجہ سے فدیہ ساقط نہیں ہوگا، بلکہ اس شکار کا تاوان دینا ہوگا۔
4۔کسی ایسی ممنوع چیز کے ارتکاب میں، جس میں شریعت کی طر ف سے سزا مقرر ہے، ناواقفیت کو عذر ماناجائے گا اور اس کی وجہ سے شبہ کا فائدہ دے کر سزاکو ساقط کردیاجائے گا، جیسے کوئی شخص کسی عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر اس سے صحبت کرلے تو اسے زنا کی سزا نہیں دی جائے گی، البتہ مہر مثل واجب ہوگا۔
5۔کسی چیز کی حرمت وممانعت کا علم ہونا اور اس پر مرتب ہونے والے حکم اور سزا سے لاعلم ہونا عذر شمار نہیں ہوگا اور اس کا حکم نافذ ہوگا۔ جیسے کسی کو معلوم ہے کہ زنا اور شراب حرام ہے، مگر اس کی سزا سے ناواقف ہے تو اس کے ارتکاب پر مقررہ سزادی جائے گی، یاکسی کو علم ہے کہ نماز میں بات چیت کرنا حرام ہے، البتہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی تو اس لاعلمی کے باوجود گفتگو کرلینے سے نماز فاسد ہوجائے گی۔
6۔وہ دینی امور جو عام طورپر لوگوں کے درمیان معروف ومشہور ہوتے ہیں اور عام لوگ بھی جن سے واقف ہوتے ہیں، ان میں لاعلمی کا اعتبار نہیں ہوگا، الّا یہ کہ کوئی جلد ہی مسلمان ہواہو یا کسی دور دراز علاقے میں رہتاہو، جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کی فرضیت اور قتل وزنا اور چوری وغیرہ کی حرمت کا علم۔
7۔کسی لفظ کے معنیٰ سے ناواقفیت عذر شمار ہوگا اور بے سمجھے بوجھے کسی اجنبی زبان کے لفظ کو استعمال کرنے سے کوئی حکم مرتب نہ ہوگا، جیسے کسی کو خلع کا مفہوم معلوم نہ ہو اور وہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو خلع دے دیا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اسی طرح کسی ایسی زبان میں کلمۂ کفر اداکردے جس سے وہ ناواقف ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔(الاشباہ للسیوطی/188.المنثور فی القواعد للزرکشی12/2۔کتاب القواعد لتقی الدین الشافعی 286/2)
مالکیہ اور حنابلہ کے یہاں اصولی طورپر اس موضوع سے متعلق بڑا اختصار پایاجاتاہے۔ امام قرانیؒ وغیرہ نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھاہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
ناواقفیت کی دو قسمیں ہیں:
1۔وہ ناواقفیت جسے شریعت نے معاف قرار دیاہے، اس کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے احتراز دشوار ہو،تو وہ معاف ہے، جیسے کوئی ناپاک کھانے یا پانی کو پاک سمجھ کر استعمال کرلے، یا شراب کو سرکہ سمجھ کر پی لے۔
2۔وہ جہالت جسے شریعت نے معاف قرار نہیں دیاہے، اس کے سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے احتراز دشوار نہ ہو، وہ معاف نہیں۔ اس کے دائرے میں دین کی بنیادی اور ضروری چیزیں داخل ہیں، جن سے ناواقفیت عذر نہیں ہے، کیوں کہ شریعت نے عقائد کے معاملے میں بہت سختی برتی ہے اس لیے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے جاننے کے لیے اپنی پوری کوشش اور طاقت صرف کردے۔(الفروق 149/2.القواعد السنیہ علی ہامش الفروق 163/2)
علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
’’ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی طرف سے دی گئی کسی خبر یا حکم کو قبول نہ کرے وہ کافر ہے، خواہ وہ کوئی چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا۔ لیکن کبھی اس لیے معاف کردیاجاتاہے کہ اس کے جاننے کے راستے پوشیدہ ہوتے ہیں اور اس کا تعلق کسی فروعی مسئلے سے ہوتاہے۔ رہے دین سے متعلق بنیادی امور جو بالکل عام اور ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے بارے میں ناواقفیت معاف نہیں ہے۔(البیان الاظہر /10 لعبد اللہ بن عبد الرحمن ،ابوبطین۔)