اختلاف میں اعتدال
/ ولی اللہ مجید قاسمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اگر اتحاد و اتفاق کی بات کی جائے تو سب لوگ اس طرح سے گوش برآواز ہوجاتے ہیں کہ ان کے دل کی بات کہی جارہی ہو اور وہ اس کے بھوکے پیاسے ہیں اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کے لئے تیار ہیں
لیکن عملی زندگی میں کبھی کسی سے اختلاف ہوجائے یا کسی مخالف نقطہء نظر کو برداشت کرنا ہو تو ہمارا رویہ یکسر بدل جاتا ہے اور لفظی و عملی دل آرازی کے ہر تیر و نشتر کو استعمال کرنا عین ایمان بن جاتا ہے
میرے ناقص مطالعے کے مطابق یہ دیوبندی اکابر کا طریقہ نہیں رہا ہے ۔ علامہ احمد رضا خان نے ان [اکابردیوبند]کےخلاف بازاری زبان استعمال کی لیکن انھوں نے کبھی بھی ان کے لب و لہجہ میں جواب نہیں دیا جس کا اثر یہ ہے کہ آج بریلویوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو اس طرح کے الفاظ سے نالاں ہے ۔ ماہنامہ اشرفیہ مبارک پوراور جام نور دہلی کے صفحات اس کے گواہ ہیں
اور اس کے برخلاف ہم نے ان کے انداز کو اختیار کر لیا اور آج حال یہ ہے ہماری اکثریت مناظرانہ ذہنیت رکھتی ہے اور اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے اور ان کے خلاف ہر طرح کے جملے کے استعمال کو جائز سمجھتی ۔ شاید یہی سب دیکھ کر مولانا منظور نعمانی کہا کرتے تھے کہ "دیوبندیت بریلویت سے بہت قریب آچکی ہے” ۔ اس ترقی معکوس سے اللہ حفاظت فرمائے آمین
موقع کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یا د آگیا اور پہلی مرتبہ اسے اپنے سینے سے سفینے پر منتقل کر رہا ہوں ۔
مولانا ضیاء الرحمان اعظمی کے بارے میں مجھے بعض مدنی فضلاء سے جو کچھ معلوم ہوا تھا اس کے پس منظر میں ان سے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا
لیکن جب مولانا اعجاز احمد اعظمی نور اللہ مرقدہ ان سے ملاقات کر کے آئے تو انھیں ان کے بارے میں رطب اللسان پایا اور یہ بھی فرمایا کہ ان سے متعلق ایک مضمون لکھنا ہے ۔ میری خواہش تھی کہ مولانا ان کے بارے میں نہ لکھیں اس لئے عرض کیا کہ وہ کٹر اھل حدیث ہیں لیکن مولانا نے میری بات پر کوئی توجہ نہیں دی اور ان کے بارے میں لکھا اور خوب لکھا ۔ دل کھول کر رکھ دیا
یہ ہے ایک مخالف کے ساتھ ہمارے اکابر کا برتاؤ
.________________. .
. . . .