اخلاق نبوی کے چند پہلو
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
خالق کائنات نے انسان کو خلاصہ کائنات بنایا ، اسے خوبصورت ترین جسم اوربہترین پیرہن سے نوازا، عقل و شعور کی دولت بخشی، غوروفکر کی صلاحیت عطاکی، احساسات و جذبات کا سرمایہ دیا اور دنیاکی تمام چیزوں پردسترس حاصل کرنے کی قوت دی اور اس میں تصرف کرنے کا اختیار عنایت کیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ اخلاق و کردار اور عمل کے اعتبار سے کون بہترہے۔
اور خیرو شر کی تمییز کے لیے نبیوں اور رسولوں کاسلسلہ جاری فرمایاتاکہ علم کے ساتھ اس کا عملی نمونہ بھی لوگوں کے سامنے رہے اور سب سے آخرمیں رہتی دنیا تک کے لیے محمدﷺ کو مبعوث فرمایاجوپوری کائنات کے لیے پیکر رحم و کرم بناکربھیجے گئے۔ چنانچہ تمام جہانوں کے رحمان و رحیم، رب کی طرف سے اعلان کیاگیاکہ
وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین
ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجاہے۔
اور جن کے متعلق خود اس نے گواہی دی کہ
انک لعلیٰ خلق عظیم
تم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو۔
نیز ارشاد فرمایاکہ:
لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤوف رحیم۔
تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک پیامبر آئے جن پر تمہاری پریشانیاں نہایت گراں گذرتی ہیں اور جو تمہاری اچھائی اور بھلائی کے خواہش مندرہتے ہیں اور اہل ایمان پر نہایت نرم اور مہربان ہیں۔
رحم وکرم کی متعدد شکلیں اور مختلف درجے ہیں۔ پیاسے کو پانی پلانا، بھوکے کو کھانا کھلانا، بے لباسوں کو کپڑا پہنانا، مہمان نوازی کرنا، ٹھنڈک میں غریبوں کے لیے گرم کپڑے اور لحاف کا نظم کرنا، اجنبی مسافر کو راستہ بتانا، ناداروں اور کمزوروں کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرنا، بچوں، ضعیفوں، غلاموں اور ماتحتوں پر ترس کھانا، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، مصیبت اور حادثات میں لوگوں کی مدد کرنا، ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہونا۔ یہ سب رحم کی صورتیں ہیں، اور اسی جذبے کے تحت والدین اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، اور ڈوبنے یا جل کر مرنے والوں کو اپنی جان پر کھیل کر لوگ بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب رحمت کی ظاہری شکلیں ہیں، حقیقی رحمت یہ ہے کہ انسانیت کو ہلاکت وتباہی کے جہنم میں گرنے سے بچا لیا جائے، اور زخمی روح کی شفایابی کی کوشش کی جائے، اور اسے اخلاق وکردار کا پیکر بنا کر دنیا اور آخرت کی سعادت سے ہمکنار کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ کی زندگی اور تعلیمات میں رحمت کی یہ دونوں شکلیں بہت نمایاں ہیں۔
آپ کی تعلیمات کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے جوکچھ کہاسب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا، آپ کی پوری زندگی قول و فعل کے تضادسے خالی تھی، آپ کی زندگی اللہ کی رضا سے عبارت تھی۔ عبادت، معاشرت، اخلاق، معاملات، محبت و نفرت، ہرچیز اللہ کی رضا کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی ، جس طرح سے آپ کی نماز اور روزہ عبادت ہوتی تھی، اسی طرح سے آپ ہنسی اور خندہ پیشانی اورخوش خلقی کو بھی عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔
قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین، لاشریک لہ وبذالک أمرت وأنا أول المسلمین۔
تم کہہ دو کہ میری نماز ، میری عبادت اور میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کاپروردگار ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں فرمانبرداروں میں سب سے پہلافرمانبردارہوں۔
آپ کو خود دست قدرت نے سجایا اور سنواراتھااور رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ اور آئیڈیل بنایاجیساکہ قرآن گواہی دیتاہے کہ
لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ
تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات ایک بہترین نمونہ ہے۔
اس لیے کہ آپ کا پیکر قرآن کے سانچے میں ڈھلاہواتھا، قرآن میں جوکچھ بھی ہے اس کے سب سے پہلے مخاطب اور سب سے زیادہ پابند آپ تھے، بیوی سے بڑھ کر رازدار کون ہوسکتاہے، آپ کی اہلیہ حضرت عائشہؓ آپ کے اخلاق کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
کان خلقہ القرآن۔
آپ سراپا قرآن تھے۔(مسنداحمد6/91)
حسن سلوک
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
وأحسنوا ان اللّٰہ یحب المحسنین۔
اوراچھی روش اختیار کرو، اللہ تعالیٰ اچھی روش اختیار کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
اور نبی ﷺ نے فرمایاکہ
ان اللہ کتب الاحسان علی کل شیء۔(رواہ مسلم، ریاض الصالحین/248، باب الحلم والرفق)
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ اچھے برتاؤکوضروری قرار دیاہے۔
آنحضور کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلوحسن سلوک ہے جس میں دوست اور دشمن، اپنے اور بے گانے،طاقتور اور کمزور، مالدار یانادار کی کوئی تفریق نہ تھی، بلکہ ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک روارکھتے تھے ، جو سراپا رحم دلی اور انسانیت نوازی سے عبارت تھی۔ کسی کی دل شکنی اور بے عزتی گوارا نہ تھی ، کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے یہ برداشت نہ تھا۔
غیرمسلموں کے ساتھ آپ کا برتاؤ
اپنوں ، دوستوں اور مالداروں کے ساتھ اچھابرتاؤتو بہت آسان ہے لیکن غیروں، دشمنوں اور کمزوروں اور ناداروں کے ساتھ حسن سلوک بڑادشوار ہے لیکن یہی حسن اخلاق کے جانچنے کا سب سے بڑا معیار ہے اور اللہ کے رسول کی زندگی میں یہ کٹھن مرحلہ بڑا آسان نظر آتا ہے، اس لیے کہ آپ کی ذات، پوری انسانیت کے لیے پیکررحم و کرم تھی، اس لیے آپ ﷺ سخت غصہ کی حالت میں اور شدید ترین دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہاکرتے تھے۔
مکہ کے مشرکوں نے آپ پر ظلم و ستم کے ترکش کے تمام تیر استعمال کرڈالے، ستم رانی کا کون سا ایساطریقہ تھاجوآپ پر آزمایانہ گیاہولیکن ان سب کے باوجود جب غزوۂ بدر میں یہ لوگ مارے گئے تو آپ نے ان کی لاشوں کوچیل کوے، کتے اور جنگلی جانوروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی تدفین کا انتظام کیا اور اس جنگ میں جولوگ قیدی بنائے گئے تھے ، ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرنے کی تاکیدفرمائی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرام خود بھوکے رہ کر انھیں پیٹ بھرکھلایاکرتے تھے اور جب یہ لوگ قید سے رہاہوئے تو انھیں نیا جوڑا عنایت کرکے عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔
عکرمہ بن ابوجہل آپ کا جانی دشمن تھا، فتح مکہ کے بعدبھاگ کر یمن چلاگیا، ان کی بیوی نے ان کی جان کی امان چاہی، آپ نے بخوشی امان مرحمت فرمایا، وہ انھیں لے کر آپ کی خدمت میں حاضرہوئیں، فرطِ مسرت کی وجہ سے آپ کھڑے ہوگئے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔
مرحبا بالراکب المھاجر
ہجرت کرنے والے سوار! خوش آمدید۔(السیرۃ النبویہ للصلابی 2/618)
ایک شخص جو جنگ کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہاکرتاتھا اور آپ کی جان لینے کے لیے موقع کی تلاش میں تھالیکن جب اس کی جان پر بن آئی تو بھاگ کھڑاہوا، ایسے شخص کا اس قدر شان دار استقبال، اور بھگوڑاکہنے کے بجائے ’’مہاجر‘‘ کے لفظ کا استعمال ؟کیااس کی کہیں اور کوئی مثال مل سکتی ہے؟؟
صفوان بن امیہ نے عمیر بن وھب کو آپ کے قتل پر اکسایاتھا، جنھوں نے مدینہ پہنچ کر آپ کے حسن سلوک سے متاثرہوکر اسلام قبول کرلیا اور صفوان شرک پر قائم رہا اور فتح مکہ کے بعد جدہ بھاگ گیا۔ حضرت عمیر نے اس کی طرف سے امان چاہا، آپ نے امان دے دیا اور بطور نشانی اپنا عمامہ عنایت فرمایاجسے لے کر وہ صفوان کے پاس گئے، اس نے آتے ہی فوراً پوچھا کہ عمیر کہتے ہیں کہ میری جان کو امان ہے ، کیایہ سچ ہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں، اس نے کہاکہ مجھے دو ماہ کی مہلت مطلوب ہے ، آپ نے فرمایاکہ چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے ۔ صفوان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میری نگاہ میں ناپسندیدہ ترین لوگوں میں تھے، لیکن آپ مجھے ہمیشہ نوازتے تھے، یہاں تک کہ آپ کی ہستی میرے نزدیک محبوب ترین ہوگئی۔(صحیح مسلم /2313)
یہودیوں کا آپ کے ساتھ جو رویہ تھا وہ محتاج بیان نہیں ہے ، مشرکوں کے ساتھ جولڑائیاں ہوئیں، زیادہ تر ان ہی کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھیں، لیکن ان سب کے باوجود کبھی بھی آپ ان کے ساتھ غلط اور اہانت آمیزسلوک روانہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ جب ایک یہودی کا جنازہ آپ کے پاس سے گذرا توا حترام انسانیت کے تقاضے کے پیش نظر کھڑے ہوگئے ، لوگوں نے کہاکہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے ، آپ نے فرمایاکہ وہ بھی تو انسان ہے۔
فتح خیبرکے بعد ایک یہودی خاتون نے آپ کی دعوت کی، آپ نے دلجوئی کے مقصد سے اس کی دعوت قبول فرمالی، اس نے زہرآلود کھانا آپ کو کھلادیا، لیکن اس قدر شدیدجرم کو بھی آپ نے معاف کردیا، آنحضورؐ زندگی کے آخری مرحلے میں کہاکرتے تھے کہ اس زہر کے اثر کی وجہ سے میری شہہ رگ کٹی جارہی ہے۔
نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ آیا، آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کااستقبال کیا، نہایت اعزاز و اکرام کامعاملہ فرمایا اور انھیں مسجدمیں ٹھہرایا اور اپنے طریقے پر مسجدنبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔(زادالمعاد3/633)
ابن ابی،منافقوں کا سردار اور آپ کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھالیکن جب وہ مرض موت میں مبتلاہواتو آپ نے اس کی عیادت فرمائی اور کفن، دفن میں شریک رہے بلکہ ان کے بیٹے کی درخواست پر کفن میں رکھنے کے لیے اپنا پیرہن عنایت فرمایا۔
ان واقعات سے انداہ لگایاجاسکتاہے کہ دشمنوں کے لیے بھی آپ کا سینہ کس درجہ کشادہ تھا اور آپ کی محبت و رحمت کا ابرکرم صرف دوستوں تک محدود نہ تھابلکہ آپ پوری انسانیت کے لیے پیکر رحم و کرم تھے اور مومنوں کو آپ نے یہ تعلیم دی کہ
لایؤمن أحدکم حتی یحب للناس ما یحب لنفسہ۔
تم میں سے کوئی اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے بھی وہی سلوک اور رویہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔
یعنی مسلموں اور غیرمسلموں کی تفریق کے بغیر ہر ایک کے ساتھ اچھے برتاؤکے بغیر کوئی مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔
کمزوروں اور ناداروں کے ساتھ آپ کا طرز عمل
آپ کی نگاہ میں کمزور اور نادار سب سے زیادہ توجہ اور لطف و مہربانی کا مستحق تھا، آپ نے یہ تصوردیا کہ کمزوروں اور ناداروں ہی کی وجہ سے روزی ملتی ہے اور سرفرازی اور کامیابی نصیب ہوتی ہے ۔
ھل تنصرون وترزقون الا بضعفاء کم (ریاض الصالحین/130)
حضرت خدیجہؓ آپ ؐ کی دن بھر کی مصروفیات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، آپ رشتہ داری کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مشکل گھڑی میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
معاشرہ کے دبے کچلے اور دھتکارے ہوئے لوگ آپ کے یہا ں لائق استقبال تھے اور عزت واحترام کے لائق۔ آپ کی شفقت و عنایت ایسے لوگوں پر سب سے زیادہ تھی،آپ اپنی دعاؤں میں کہاکرتے تھے کہ اے اللہ!میری زندگی مسکینوں جیسی ہو اور موت بھی ان کی طرح سے آئے اور مسکینوں کے ساتھ میراحشر ہو، آپ نے فرمایاکہ کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامراد واپس مت کرو، گرچہ چھوہارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، عائشہؓ ! غریبوں سے محبت رکھو، ان کو اپنے سے قریب کروتو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی قربت عطاکرے گا۔(مشکات2/438)
ایک مرتبہ آنحضورصحابہ کرام کے ساتھ مسجدمیں بیٹھے ہوئے تھے ، دیکھاکہ قبیلہ مضر کے کچھ لوگ اس حال میں چلے آرہے ہیں کہ بدن پر قاعدے کا کوئی کپڑانہیں، سترچھپانے کے لیے چیتھڑے لپیٹ رکھے ہیں، ان کی فاقہ مستی، بے لباسی اور پرمشقت زندگی کو دیکھ کر آپ کے چہرے کارنگ بدل گیا ۔وہاں سے اٹھ کر گھرتشریف لے گئے کہ انھیں دینے کے لیے کچھ مل جائے، لیکن کچھ نہیں ملا۔ دوسرے گھرمیں گئے وہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا، شدت اضطراب اور سخت پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر جاتے رہے، یہاں تک کہ ظہرکاوقت ہوگیا، اذان دی گئی، نمازہوئی اور اس کے بعد آپ نے ان کی امداد اور اعانت کے لیے تقریرفرمائی،جسے سن کر کے جس کے پاس جوکچھ تھا لالاکر مسجد نبوی میں جمع کرناشروع کردیا۔ یہاں تک کہ کپڑے اور کھانے کے سامان کا بڑا ذخیرہ ہوگیاجسے دیکھ کر آپ کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا۔(صحیح مسلم کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ)
حضرت زاہردیہات کے رہنے والے تھے ، وہاں سے آپ کے لیے گھی اور پنیر وغیرہ لایاکرتے تھے اور جب رخصت ہوتے تو نبی ﷺ کھجوروغیرہ انھیں عنایت کرتے، ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے ، آپ گھرپہ موجودنہ تھے، وہ بازار کی طرف چلے گئے، اللہ کے رسول جب تشریف لائے تو آپ کو ا ن کی آمد کی اطلاع دی گئی ، آپ فوراً ان کی تلاش میں بازار روانہ ہوگئے، دیکھاکہ وہ وہاں اپناسامان بیچنے میں مشغول ہیں، آپ نے پیچھے کی طرف سے جاکر انھیں پکڑلیا اور فرمایاکہ کون اس غلام کو خریدے گا پہلے تووہ گھبرا گئے، لیکن جب احساس ہواکہ یہ صدا لگانے والے اللہ کے رسول ہیں تو وہ آپ کے سینے سے لگ گئے اور کہنے لگے اللہ کے رسولؐ! مجھے خرید کر کون گھاٹے کا سوداکرے گا ، میں تو ایک کھوٹے سکے کی طرح ہوں، آپ نے فرمایا کہ لیکن تم اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہو۔(ترمذی فی الشمائل)
سوچنے کی بات ہے کہ حضرت زاہر ایک عام صحابی تھے، اگریہ واقعہ پیش نہ آتاتو شاید کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتا، اگرکوئی اور ہوتاتو خیال کرتاکہ اس طرح کے لوگ آتے ہی رہتے ہیں، دوبارہ آجائیں گے، نمازمیںیاکسی وقت ملاقات ہوجائے گی، لیکن رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں کوئی عام اور خاص نہیں بلکہ ہرایک محبوب تھا، آپ نے ان کو اتنی اہمیت دی کہ ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور بکری اور اونٹ کے چرواہے کو جوگردوغبار سے اٹاہوا اور پسینہ میں شرابورتھاایک ایسی ہستی نے اپنے سینے سے چمٹالیاجوسراپا معطر اور روئے زمین پر سب سے زیادہ پاک بازتھا۔ آپ نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ان کا لباس میلا اور ان کے پسینے سے بدبوآرہی ہے۔
حسن معاشرت
خواتین کے بارے میں دنیاہمیشہ نہایت عجیب افراط و تفریط کاشکار رہی ہے ، مندروں میں وہ دیوی کی حیثیت سے براجمان رہتی ہے اور لائق پرستش ہے، لیکن گھرمیں اس کی وقعت داسی سے بھی بدترہے، فکروفلسفہ کے اعتبار سے وہ مردکے ہمدوش بلکہ کبھی اس سے برتربھی خیال کی جاتی ہے لیکن عملی دنیامیں اس کی زندگی آج بھی قابل ترس ہے،عیارذہنوں نے اسے گھر کی محفوظ چہاردیواری سے نکال کر بازارمیں سامان تجارت اور متاع ہوس بنارکھاہے اور اس کے نازک کاندھوں پردوہری ذمہ داری کا بوجھ لادرکھاہے۔
اسلام دنیا کا پہلامذہب ہے جس نے عورتوں کو ان کا جائز مقام عطاکیا، ان کی عزت نفس ،شرافت اور خودداری کا لحاظ رکھا اور انھیں صرف وہی ذمہ داری دی جو ان کی فطرت اور طبیعت سے مناسب ترہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔
ولھن مثل الذی علیھن۔
اور ان کے لیے بھی اسی طرح سے کچھ حقوق ہیں جیسے کہ ان پر ہیں۔
اوریہ حکم دیاگیاہے کہ
وعاشروھن بالمعروف۔
عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤکرو۔
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے:
سب سے کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہتروہ ہے جواپنی عورتوں کے ساتھ سب سے اچھابرتاؤکرے۔(ترمذی وقال حسن صحیح ، ریاض الصالحین/132)
اور ایک روایت میں ہے کہ
بہتراخلاق رکھنے والا وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھاسلوک کرے اور میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب سے بہتربرتاؤکرتاہوں۔(زادالمعاد1/152)
اورحجۃالوداع کے موقع پر آپ نے فرمایاکہ عورتوں کے ساتھ بہترسلوک کرو، وہ تمہارے پاس اللہ کی امانتیں ہیں، تمہارے کچھ حقوق ان پر ہیں اوران کے حقوق تمہارے اوپرہیں۔(ریاض الصالحین /132)
اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایاکہ
عورتوں کے ساتھ اچھابرتاؤکرو، اس لیے کہ عورت پسلی سے پیداہوئی ہے اور سب سے زیادہ کجی پسلی کے اوپری حصے میں ہوتی ہے، اگرتم اسے سیدھاکرنے چلوگے تو اسے توڑدوگے اور اگر اسی طرح رہنے دوگے تو کجی باقی رہے گی، لہٰذا ان کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔(متفق علیہ، ریاض الصالحین/131)
ازواج مطہرات کے ساتھ اللہ کے رسول کے طرزعمل سے متعلق متعدد واقعات حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں،جن سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی بھی درجے میں ان کی تحقیر اور حوصلہ شکنی گوارہ نہ تھی، ایک مرتبہ رمضان میں ازواج مطہرات میں سے کسی نے آپ سے اعتکاف کی اجازت چاہی، اجازت ملنے پران کے لیے مسجدمیں خیمہ لگادیاگیا، ان کو دیکھ کر دوسری بیویوں نے بھی اعتکاف کے لیے اپنا خیمہ لگالیا، پوری مسجد خیموں سے بھرگئی، دو شکل تھی یا تو تمام بیویوں کے خیمے اٹھوادئے جاتے،ایسی صورت میں ان کی دل شکنی ہوتی یا جنھوں نے اجازت لی تھی ان کو باقی رکھاجاتااور دوسروں کو منع کردیاجاتا اس حالت میں انھیں شکایت ہوتی، جس کی وجہ سے آپ نے ایک تیسری راہ اپنائی، خودآپ نے اس سال اعتکاف کا ارادہ ترک کردیا،جس کی وجہ سے تمام ازواج مطہرات نے از خود اپنے خیمہ ہٹالئے۔
خواتین کے تعلق سے اس درجہ حساس وہی ہستی ہوسکتی ہے جو ا ن کے ساتھ بھلے برتاؤ کواسی طرح سے عبادت سمجھتی ہو جیسے کہ نماز اور روزہ کو۔
حضرت عائشہؓ نے عید کے موقع پرحبشیوں کے کھیل کو دیکھنے کی خواہش کی،آپ نے انھیں نہ صرف اس کی اجازت دی بلکہ اپنا کندھاپیش کردیا،وہ آپ کے کندھے پر ٹیک لگاکر ان کا کھیل دیکھتی رہیں اورجب تک کہ وہ خود سے نہیں ہٹ گئیںآپ وہاں سے ہلے نہیں۔
حضرت اسودبن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھاکہ اللہ کے رسولؐ گھرجاکرکیاکرتے ہیں، انھیں امیدتھی کہ جواب ملے گا کہ ہمہ وقت ذکروتلاوت کرتے ہیں، نمازمیں مشغول رہتے ہیں وغیرہ، لیکن خلاف توقع انھیں جواب ملاکہ
یکون فی مھنۃ أھلہ، فاذا حضرت الصلاۃ یتوضأ ویخرج الی الصلاۃ۔
گھرکے کام کاج میں ہماری مددکیاکرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتاتو وضوکرتے اور نماز کے لیے چلے جاتے۔
انھیں سے منقول ہے کہ آپ نے کبھی کسی غلام، باندی ، عورت یا جانور کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، آپ جب گھرمیں تشریف لے آتے تو ہنستے اور مسکراتے ہوتے، ازواج مطہرات کے ساتھ انتہائی خوش مزاجی سے پیش آتے ، کسی بات پر ناگواری کا اظہار نہ کرتے۔
زمانہ جاہلیت میں اور آج بھی بچیوں کی پیدائش باعث ننگ و عار اور ان کی کفالت اور پرورش کو بوجھ سمجھاجاتاہے، آپ نے اپنے قول و عمل کے ذریعہ اس تصورکوختم کیا،جس کے نتیجے میں فتح مکہ کے بعدحضرت حمزہ کی صاحب زادی کی پرورش کے لیے تین تین دعویدار نکل آئے، حضرت علیؓ کہنے لگے کہ میں اس کی پرورش کروں گااس لیے کہ میرے چچاکی لڑکی ہے ، حضرت جعفرؓ کاکہناتھاکہ یہ میرے یہاں رہے گی اس لیے کہ اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے، حضرت زیدؓ کاخیال تھاکہ میں اس پر زیادہ حق رکھتاہوں اس لیے کہ میرے اسلامی بھائی کی لڑکی ہے۔
خودآنحضورﷺ نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ جس محبت و شفقت کا معاملہ فرمایاہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
آپ نے ما ں کی حیثیت سے عورت کو جو عزت ووقار دیا اس سے بڑھ کر کسی عزت و احترام کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے،آپ نے فرمایاکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، ایک صحابی نے دریافت کیاکہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ فرمایا:تمہاری ماں، انھوں نے تین مرتبہ اس سوال کو دہرایا اورہر بار آپ کا جواب تھاتمہاری ماں۔
بچوں اور یتیموں پر شفقت
آپ سے پہلے یتیموں کے حق پر دست درازی ایک عام بات تھی، ان کے ساتھ نہایت ناروا اور اہانت آمیز سلوک روارکھاجاتاتھا، خود قرآن میں جگہ جگہ ان کے ساتھ لوگوں کے غلط رویہ کا ذکر ہے ، آپ نے ان تمام زیادتیوں کاسدباب فرمایا، آپ کا ارشاد ہے کہ سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کی کفالت کی جائے اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے(رواہ ابن ماجہ، الترغیب2/961)، نیز یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں مجھ سے اس درجہ قریب ہوگاجیسے کہ بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی ہے۔(متفق علیہ، الترغیب2/961)
بچوں کے ساتھ آپ کو اس درجہ انس اور تعلق تھاکہ کسی سفرسے واپسی پر راستے میں جوبھی بچے ملتے ان میں سے کسی ایک کو اپنی سواری پر بٹھالیتے، آپ کا معمول تھاکہ جب نیاپھل آپ کی خدمت میں لایاجاتاتو کسی بچے کو بلاکراسے سب سے پہلے کھلاتے، بچوں کو چومتے اور ان سے پیار کرتے، ایک مرتبہ آپ کو ایساکرتے ہوئے دیکھ کر اقرع بن حابس نے کہاکہ میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی کو پیار نہیں کیا، آپ نے فرمایاکہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا۔(متفق علیہ، الترغیب 2/872)
حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ لیٹے ہوئے تھے، حضرت حسن و حسین میں سے کوئی آئے اور آپ کے پیٹ پر بیٹھ گئے، آنحضور انھیں گدگدانے لگے جس کی وجہ سے وہ ہنسنے لگے اور ان کے ساتھ آپ بھی ہنستے رہے اور اسی دوران انھوں نے پیشاب کرنا شروع کردیا حضرت انس تیزی سے لپکے تاکہ انھیں آپ کے اوپر سے ہٹادیں، آپ نے فرمایا کہ نہیں رہنے دو میرے بچے کو گھبراہٹ میں مبتلانہ کرو اور جب وہ اس سے فارغ ہوگئے، آپ نے انھیں ایک طرف بٹھادیا اور پیشاب کو دھل دیا۔(رواہ البیہقی)
محبت و شفقت کی یہ پھوار صرف مسلمان بچوں پر نہیں برستی تھی بلکہ غیرمسلم بچے بھی اس سے اسی طرح مستفید ہوتے تھے، ایک جنگ میں آپ کو مشرکین کے بچوں کے مارے جانے کی اطلاع ملی، آپ کو شدید تکلیف ہوئی، کسی نے کہاکہ یہ مشرکین کے بچے تھے، آپ نے فرمایاکہ مشرکین کے بچے بھی تم سے بہترہیں، سن لو بچوں کو ہرگزقتل نہ کرو، سن لو انھیں ہرگز نہ مارو، ہرجان اللہ کی فطرت پر پیداہوتی ہے۔(مسنداحمد3/435)
غلاموں اور خادموں کے ساتھ آپ کا رویہ
دنیامیں اس وقت سب سے زیادہ مظلوم طبقہ غلاموں کا طبقہ تھا، جس کا کوئی حق نہیں تھا روم و ایران کے مہذب قوموں کا یہ حال تھا کہ وہ غلاموں کا درندوں سے مقابلہ کرایاکرتے تھے اور ان کی بے رحمانہ ہلاکت کاتماشا دیکھاکرتے تھے اور اس انسانیت سوزتماشا کے لیے یورپ میں بڑے بڑے اسٹیڈیم بنے ہوئے تھے، آنحضورﷺ نے انھیں سماج میں سراٹھاکرجینے کا حق عطاکیا، انھیں ایسے الفاظ میں پکارنے سے منع فرمایاجس سے ان کی تذلیل ہوتی ہو،جس کا نتیجہ تھاکہ حضرت بلال جیسے حبشی غلام کو اکابرصحابہ ہمارے آقا اور سردارکہہ کر پکارتے تھے اور شرفاء عرب کی لڑکیوں سے ان کا نکاح ہوا۔
فتح مکہ کے بعد ابوسفیان، حضرت سلمان فارسی، صہیب رومی اور حضرت بلال حبشی کے پاس سے گذرے، انھیں دیکھ کر ان لوگوں نے کہاکہ اللہ کے دشمنوں کے سلسلہ میں ابھی اللہ کی تلوار کا حق ادا نہیں ہواہے، یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے کہاکہ تم لوگ سردار قریش سے اس طرح کی بات کہہ رہے ہو، پھر انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی اطلاع دی، آپ نے فرمایاکہ شاید تم نے ان لوگوں کو ناراض کردیاہے، اگر وہ لوگ خفاہوگئے تو تم سے تمہارا رب ناراض ہوجائے گا، حضرت ابوبکرؓ بھاگ کر ان کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میرے بھائیو! کیا تم ناراض ہوگئے ہو، ان لوگوں نے کہاکہ نہیں، اللہ آپ کو معاف کرے۔(رواہ مسلم ، ریاض الصالحین /128)
غلاموں کے بارے میں آپ نے فرمایاکہ یہ بھی تمہارے بھائی ہیں جنھیں اللہ نے تمہارے قبضہ میں دے دیا ہے ، لہٰذاجوتم کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو تم پہنو ان کو بھی پہناؤ(متفق علیہ، الترغیب 2/878) ، یہاں تک کہ دنیاسے رخصت ہوتے ہوئے آپ کو انھیں کی فکر تھی آپؐ کی آخری وصیت یہ تھی کہ غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔(ابوداؤد2/218، کتاب الادب، الترغیب 2/880)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نوسال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی ، لیکن میرے کسی کام پر آپ نے یہ نہیں فرمایاکہ ایساکیوں کیا اور نہ کسی کام میں عیب نکالا اور نہ ہی کبھی اف کہا(متفق علیہ، ریاض الصالحین /243)، ایک صحابی نے عرض کیاکہ میرا خادم میرے ساتھ برا برتاؤ کرتاہے، مجھ پر ظلم کرتاہے ؟ کیامیں اسے مارسکتاہوں، آپ نے فرمایاکہ ہر روز اسے ستربار معاف کردیاکرو۔(ابویعلیٰ ، الترغیب 2/881)
جانوروں پر رحم اور مہربانی
آپ سراپا رحمت اور پوری کائنات کے لیے رحمت بن کے آئے تھے ، اس لیے اس ابررحمت سے پوری دنیا سیراب ہوئی، آپ بے زبان جانوروں کے لیے بھی رحم و کرم اور لطف و ہمدردی کا پیام لے کر آئے، آپ نے جانوروں کو بھوکارکھنے پر سخت وعیدبیان فرمائی، ایک انصاری کے بھوکے اونٹ کو دیکھ کر فرمایاکہ اس جانور کے معاملہ میں اللہ سے نہیں ڈرتے ہو؟ (حوالہ مذکورکتاب الجہاد 1/345، الترغیب 2/874)، آپ نے فرمایاکہ ایک عورت صرف اس لئے جہنم کا لقمہ بن گئی کہ وہ بلی کو بھوکارکھتی تھی(بخاری وغیرہ، الترغیب2/876) اور ایک بدکردار عورت کے لیے کتے کو پانی پلانا جنت میں جانے کا ذریعہ بن گیا۔
پہلے اور آج بھی لوگ جانوروں کو باہم لڑاکر ان کا تماشا دیکھتے ہیں، آپ نے اس درندگی کی سختی سے ممانعت فرمائی(ابوداؤدوترمذی، الترغیب 2/877)، سخت دلی کی انتہاء یہ تھی کہ کسی جانوروکو باندھ کر اس پر تیر اندازی کی مشق کیاکرتے تھے، آپ نے شدت کے ساتھ اس سے منع فرمایا۔(متفق علیہ، الترغیب 2/873)
ایک شخص کو دیکھاکہ وہ جانور کو لٹاکر چھری تیز کررہاہے، آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ کیاتم اسے دوبار مارنا چاہتے ہو، لٹانے سے پہلے تم نے چھری تیز کیوں نہیں کرلی؟ (الترغیب2/877)
ایک سفرکے دوران کسی صحابیؓ نے پرندے کے بچوں کو ان کے گھونسلے سے اٹھالیا، ان کی ماں اس کے سرپر منڈلانے لگی ، آپ نے فرمایاکہ اس پرندے کو کس نے پریشان کررکھاہے، اس کے بچے واپس کردو۔(ابوداؤد، الترغیب 2/874)
حسن معاملہ
عام طور پر چند عبادات کی ظاہری اہتمام سے ادائیگی دین داری سمجھی جاتی ہے، یعنی معاملات کا کھوٹااور بدعنوان بھی پختہ مسلمان ہوسکتاہے بس اتنا کافی ہے کہ اس کی ظاہری ہیئت ٹھیک ہو اور نماز ، روزہ کاپابند ہو، حالانکہ معاملات کی صفائی اور امانت اور سچائی پراس دین کی بنیاد ہے،معاملات میں امانت و دیانت نبی آخرالزماں کا نمایاں وصف ہے، نبوت سے پہلے آپ صادق اورامین کے لقب سے پکارے جاتے تھے، عرب کے مشہور تاجر حضرت سائب کہتے ہیں کہ آپﷺ تجارت میں میرے شریک تھے اور آپ نے ہمیشہ معاملہ صاف رکھا۔ (ابوداؤد2/190، کتاب الادب باب کراہیۃ المراء)
حضرت خدیجہؓ نے آپ کے اسی وصف سے متاثر ہوکر آپ سے نکاح کا پیغام بھیجا۔
حضرت خولہ کہتی ہیں کہ بنی ساعدہ کے ایک آدمی سے آپ ﷺنے کچھ کھجوریں قرض لی تھیں،کچھ دنوں کے بعد وہ اسے مانگنے آئے،آپ نے ایک انصاری صحابی کو اس کی ادائیگی کا حکم دیالیکن انھوں نے جو کھجوریں دیں وہ ان کے کھجوروں سے کمترتھیں، انھوں نے اسے لینے سے انکار کردیا، انصاری نے کہاکہ تم اللہ کے رسول ؐ کی دی ہوئی کھجوریں واپس کررہے ہو، انھوں نے کہا ہاں،جب اللہ کے رسول کے یہاں انصا ف نہیں ملے گا تو پھر کہاں ملے گا، یہ سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسوآگئے اور فرمایاکہ صحیح ہے ، مجھ سے بڑھ کر انصاف کرنے والاکون ہوگا؟ اور اسے عمدہ کھجوریں دینے کا حکم دیا۔(الترغیب 2/732)
محدث ابن ماجہ نے نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی آپ کے پاس اپنے قرض کے تقاضے کے لیے آیا اور بڑے سخت لہجے میں آپ سے گفتگو کی ، صحابہ کرام نے اسے ڈانٹا، تیرا ستیاناس ہو، تجھے معلوم ہے کہ تو کس سے بات کررہاہے؟ اس نے کہاکہ میں اپنا حق مانگ رہاہوں، آنحضورؐ نے فرمایاکہ تم لوگوں کو میری طرف داری کے بجائے حق والے کا ساتھ دیناچاہئے، پھر آپؐ نے اس کا قرضہ واپس کیا اور کھلاپلاکررخصت کیا۔(الترغیب 2/733)
آپ کی امانت و دیانت کا یہ حال تھا کہ آپ کے جانی دشمن بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھاکرتے تھے، جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو اہل مکہ کی بہت ساری امانتیں آپ کے پاس تھیں جن کی دائیگی کے لیے آپ نے حضرت علیؓ کو مکہ میں رہنے کا حکم فرمایا۔
عہد اور وعدہ کی پابندی
آپ ﷺ نے بعثت سے پہلے عبداللہ بن ابی حمساء سے خریدوفروخت کا کوئی معاملہ کیا تھا، ان کے ذمے کچھ ادائیگی باقی تھی، انھوں نے کہاکہ آپ یہیں رہئے میں ابھی گھر سے لے کر آتاہوں، وہ گھرجاکر اپناوعدہ بھول گئے،تین دن کے بعدانھیں یاد آیا، اس جگہ پہنچے تو دیکھاکہ آپﷺان کے انتظارمیں کھڑے ہیں، انھیں دیکھ آپ ؐنے فرمایا:نوجوان!تم نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا، میں تین روز سے تمہارایہاں انتظارکررہاہوں۔(رواہ ابوداؤد،الترغیب 3/1100)
غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی عددی قوت بہت کم تھی ، کافروں کے مقابلہ میں ان کی تعداد ایک تہائی بھی نہیں تھی ، اس لیے ایک ایک آدمی کی بڑی اہمیت تھی اور مسلمانوں کو افرادی مدد کی بڑی ضرورت تھی لیکن آپ نے میدا ن جنگ میں بھی وعدہ کی پاسداری اور بلندترین اخلاقی معیار کو برقرار رکھا، حضرت حذیفہ اور ان کے والد یمان آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا کہ ہم مکہ سے آرہے تھے، راستے میں مشرکوں نے ہمیں گرفتار کرلیا اور اس شرط کے ساتھ رہاکیا کہ جنگ میں ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے مگر یہ مجبوری کا عہدتھاہم ان کے خلاف ضرور لڑیں گے مگرہادئ عالم ﷺ نے فرمایاکہ نہیں تم دونوں میدان جنگ سے ہٹ جاؤ، ہم ہرحال میں ان سے کیے گئے وعدہ کو پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ سے مدد چاہیں گے۔(صحیح مسلم 3/159، 1787)
عہد اور وعدہ کی پابندی آپ کی ایسی نمایاں خصوصیات تھی کہ دشمنوں کو بھی اس کے اعتراف کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ، چنانچہ قیصرنے ابوسفیان سے آپ کے متعلق جوسوالات کیے تھے ان میں ایک سوال یہ تھاکہ وہ بدعہدی کرتے ہیں، ابوسفیان نے جواب دیا کہ نہیں۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی کوئی تقریر فرماتے تو یہ ضرورکہتے:
لا ایمان لمن لا أمانۃ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ۔
اس کے پاس ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں ہے اور اس شخص کا کوئی دین نہیں ہے جس میں عہد کی پاسداری نہیں ہے ۔(رواہ احمدوالبزار ، الترغیب 3/1102)
خوش کلامی اور راست گوئی
نضربن حارث مکہ کے سرداروں میں بڑاتجربہ کار اور جہاندیدہ سمجھاجاتاتھا، جب مشرکوں نے آپ کو جادوگراور مجنوں وغیرہ کہناشروع کیاتو اس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا
قریش کے لوگو! تم پر جو یہ نئی مصیبت آپڑی ہے ، تم اب تک اس کا کوئی حل نہیں ڈھونڈسکے، محمدتمہارے سامنے پیدا ہوا، پلابڑھا اور جوان ہوا، تمہارے درمیان وہ سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب تھا، بات کا سچا اوروعدے کا پکا، سب سے زیادہ امانت دار اور جب اس کی جوانی ڈھلنے لگی اور اس نے تمہارے سامنے یہ باتیں پیش کیں توتم کہتے ہو کہ وہ جادوگرہے، اللہ کی قسم وہ جادوگرنہیں ہے۔ (سیرت ابن ہشام 2/38)
ابوجہل جیساآپ کا دشمن بھی آپ کی بعثت کے بعد آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہتاہے:
انا لا نکذبک ولکن نکذب بما جئت بہ۔
میں تمہیں جھوٹانہیں کہتا، البتہ تم جو کچھ لے کے آئے ہو اسے سچ نہیں سمجھتا۔ (ترمذی 5/46،3075)
خودابوسفیان نے قیصرروم ہرقل کے یہ پوچھنے پر کہ کیا تم نے کبھی ان کو جھوٹ بولتے ہوئے سناہے، تو اس کا جواب تھاکہ نہیں،اور حضرت ابوجعفرنے شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ ہمیں سچائی اور پاکدامنی کا حکم دیتے ہیں، ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ سے دریافت کیاگیاکہ کیا مومن بزدل ہوسکتاہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں، کہاگیا کہ کیا بخیل ہوسکتاہے؟ فرمایاکہ ہاں، آپ سے پوچھاگیا کہ کیا جھوٹا ہوسکتاہے؟ فرمایا کہ نہیں۔ (موطا امام مالک ،کتاب الکلام باب ما جاء فی الصدق الکذب)
بظاہر سچائی صرف ایک خوبی ہے لیکن درحقیقت یہ بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے، سچا شخص ایماندار بھی ہوگا اور عہد اور وعدہ کا پابند بھی، اس کی ہمت اور سوچ بلندہوگی اور منافقانہ روش اور ریاکاری سے پاک و صاف ہوگا، وہ بہادر اور نڈرہوگا، اور فکر و عمل کا آزاد۔
سچائی کا یہ مفہوم ہرگزنہیں ہے کہ انسان کسی سے سخت کلامی کرے بلکہ سچائی میں بھی سلیقہ اور حسن مطلوب ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ
قولوا للناس حسناً
لوگوں سے اچھی گفتگو کرو۔
اور حضرت موسیٰؑ و ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے حکم دیاگیاکہ
قولا لہ قولا لینا
تم دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرو۔
رسول اللہ ﷺ رحمت عالم بن کر آئے تھے اور اخلاق کی بلند ترین سطح پر فائز تھے ، اس لیے اس صفت میں بھی آپ بے مثال تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن عمرو کہتے ہیں:
لم یکن رسول اللہ ﷺ فاحشاً ولا متفحشاً وکان یقول ان من خیارکم أحسنکم أخلاقاً (متفق علیہ، ریاض الصالحین/244)
اور حضرت ابودرداء سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایاکہ
ما من شیء أثقل فی میزان المؤمن یوم القیامۃ من حسن الخلق وان اللہ یبغض الفاحش البذی۔ (رواہ الترمذی، ریاض الصالحین/244)
نہایت سخت اور مشکل اور جذبات کو برانگیختہ کردینے والے حالات اور غصہ کے وقت بھی آپ کے لب ولہجہ کی مٹھاس برقرار رہتی، نرم اور میٹھی گفتگو آپ کی فطرت میں شامل تھی، آپ کبھی سخت اور کڑوی کسیلی بات نہیں کہتے تھے، بلکہ بدگوئی کے جواب میں بھی شیریں گفتگو کیا کرتے تھے، اس لیے کہ خود آپ کا ارشادتھاکہ نرم گفتگو بھی عبادت ہے۔
الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ۔ (متفق علیہ، ریاض الصالحین/264)
ایک مرتبہ مشرکین مکہ نے عقبہ بن ابی معیط کو آپ کے پاس بھیجاکہ وہ آپ کو سمجھائے کہ توحید کی دعوت سے باز آجائیں، اس نے آتے ہی طیش دلانے والی گفتگو شروع کی، کہنے لگاتم نے ہماری جماعت میں انتشار برپاکررکھاہے، ہماری اجتماعیت اور اتحاد کو پارہ پارہ کردیا، پوری قوم بکھرگئی،باپ بیٹے کا دشمن بن گیا، میاں بیوی میں جدائیگی ہوگئی، یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہورہاہے، میں تمہیں چارباتوں میں سے کسی ایک کا اختیار دے رہاہوں، اگرتمہیں مال و دولت کی خواہش ہے تو ہم تمہارے قدموں میں لاکر اس کا ڈھیر لگادیں گے،یہاں تک کہ تم عرب کے امیرترین شخص ہوجاؤگے، اگر حکومت کی چاہت اور لالچ ہے تو ہم تمہیں اپناحکمراں بنالیں گے، خوبصورت ترین عورت سے شادی کے خواہش مندہوتو اس کا انتظام ہوجائے گا اور اگر تمہاری عقل میں کچھ خلل ہے تو ہم اس کے علاج کا بار بھی اٹھانے کوتیار ہیں۔
گفتگو کا طریقہ کس قدر تہذیب و شائستگی سے گراہوا اور گھٹیا ہے ، ایک ایسی ہستی کو پاگل، عورتوں کا رسیا، حکومت ودولت کا حریص کہاجارہاہے، جوروئے زمین پر سب سے زیادہ عقلمند اور باشعورہے،جوسب سے زیادہ پاکدامن اور خواہش نفسانی سے دور ہے، جودولت و ثروت کی ذخیرہ اندوزی سے نفور اور حکومتی نشہ سے کوسوں دور ہے۔
آپ نے نہایت اطمینان اور پرسکون اندازمیں اس کی گفتگو سنی اور جب وہ اپنی بات کہہ چکاتو فرمایا: ابوولید آپ کی بات پوری ہوگئی، عربوں میں کنیت کے ساتھ پکارنا اعزاز اور اکرام کی دلیل ہے اور آنحضورﷺ کی طرف سے اکرام و احترام کا یہ معاملہ ایسے شخص کے ساتھ کیاجارہاہے جو ابھی آپ کو سخت سست کہہ چکا ہے ، آپ پر طرح طرح کے الزامات لگارہاہے۔
حضرت معاویہ بن حکم دیہات کے رہنے والے تھے، ایک دن وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے ، آنحضورﷺ اور صحابہ کرام اس وقت نماز پڑھ رہے تھے ، یہ بھی اس میں شامل ہوگئے ، دوران نماز کسی کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کہا، انھوں نے سن رکھاتھا کہ اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا چاہئے، چنانچہ انھوں نے بلند آواز سے یرحمک اللہ کہا، لوگ پریشان ہوگئے اور خشمگیں نگاہوں سے انھیں دیکھنے لگے، وہ نمازہی میں کہنے لگے کہ تم لوگ کیوں مجھے دیکھ رہے ہو ، صحابہ کرام ران پر ہاتھ مار کر انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کرنے لگے، وہ چپ ہوگئے۔ نماز ختم ہونے کے بعد آپ نے پوچھاکہ کون بات کررہاتھا، حضرت معاویہ گھبراگئے، سوچا کہ میں نے لوگوں کی نماز خراب کی ہے اس لیے ڈانٹ پڑے گی، ڈرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچے لیکن وہاں تو رحمت و شفقت کی بارش ہورہی تھی، چنانچہ وہ خودکہتے ہیں کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر معلم نہیں دیکھا، اللہ کی قسم آپ نے نہ تو اپنا چہرہ بگاڑا ، نہ ڈانٹا، نہ مارا ، نہ برابھلاکہا، صرف یہ فرمایاکہ معاویہ !نمازمیں انسانی کلام کی گنجائش نہیں ہے ۔ (مسلم و ابوداؤد)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضورؐ سے حاضری کی اجازت مانگی، آپ نے فرمایاکہ یہ شخص اپنے خاندان کا سب سے براآدمی ہے اور پھر اسے اندر آنے کی اجازت دے دی، اس کے آنے پر اس سے نہایت نرمی سے بات چیت کی ، جب وہ چلاگیا تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیاکہ آپ نے ابھی اس کے متعلق اس طرح کی بات کی تھی لیکن اس کے حاضر ہونے پر آپ نے بڑی عمدگی سے بات کی ، آپ نے فرمایا: عائشہؓ!وہ لوگوں میں سب سے بدترہے جسے لوگ اس کی بدکلامی کی وجہ سے چھوڑدیں۔(ترمذی3/401،2003)
زندگی میں بارہا اس طرح کے مواقع آتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے ملنا پڑتاہے، جنھیں وہ پسند نہیں کرتا اس طرح کے موقع پر لوگ دو طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں، کچھ لوگ کتراکر نکل جاتے ہیں اور بعض لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں اور سامنے والے کے احساس و جذبات اور عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے۔جبکہ اس طرح کے لوگوں سے ملتے ہوئے صحیح طریقہ وہ ہے جورسول اللہ ﷺ نے اپنا یا کہ دوسرے شخص میں جو خامی ہے اس سلسلہ میں اپنے نقطۂ نظر پر قائم رہتے ہوئے اس کے احساس و جذبات کا لحاظ رکھاجائے اور اس بات کی ضرور کوشش کی جائے کہ وہ کوئی برا تاثر لے کر نہ جائے اور ایسے شخص کے ساتھ بھی بدکلامی کی گنجائش نہیں ہے۔
کشادہ قلبی اور نرم دلی
قرآن حکیم آپ کے متعلق گواہی دیتاہے:
ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک۔
اوراگرتم تندخواور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے ہٹ جاتے۔(آل عمران/159)
اور حضرت مالک بن حویرث آپ کی صفت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نرم مزاج اور رحم دل تھے۔ (مسلم1/377، 674)
اور خود آپﷺ نے اس کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
جس چیز میں نرمی شامل ہوجائے وہ اسے سنوار دیتی ہے اور جس چیز میں سختی داخل ہوجائے اسے بگاڑدیتی ہے۔(مسلم4/183، 2594)
نیز آپؐ نے فرمایاکہ
اس شخص پر آگ حرام ہے جو نرم اور آسان ہو، لوگوں سے قریب ہو۔(ریاض الصالحین/248)
حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ کچھ یہودی آپ کے پاس سے گذرے اور السلام علیکم کی جگہ السام علیکم (تم پرموت ہو)کہا، رسول اللہ ﷺ نے اس اشتعال انگیزی کے جواب میں بس اتنا کہاعلیکم(بلکہ تم پر)لیکن حضرت عائشہؓ سے برداشت نہ ہوسکا اور اس کے جواب میں کہاکہ
بلکہ تم کو موت آئے، اللہ کی پھٹکار پڑے اور اس کی غیظ و غضب کا شکار ہوجاؤ۔
یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا:
عائشہؓ خاموش ہوجاؤ، نری اختیار کرو، شدت و سختی اور بدکلامی سے بچو۔
انھوں نے عرض کیایارسول اللہؐ!انھوں نے جوکچھ کہاکیا آپ نے اسے نہیں سنا، آپ نے فرمایاکہ میں نے سنا بھی اور جواب بھی دے دیا، میں نے ’’علیکم‘‘کہہ کر ان کی بات ان پر لوٹادی۔(بخاری)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہاکہ بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام اس حالت میں کرو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کدورت اور کھوٹ نہ ہو اور میں خود بھی ایسا ہی کرتاہوں۔(الترغیب3/1065، ترمذی/603،2678، باب ماجاء فی الاخذبالسنۃ)
حسن ظن اور مثبت پہلو پر نظر
ایک آدمی شراب کا عادی تھا، شراب پینے پر اسے باربار سزادی جاتی تھی لیکن وہ باز نہیں آتاتھا، اس کی اس حالت کو دیکھ کر ایک صحابی نے کہاکہ
لعنہ اللہ ما اکثر ما یوتی بہ۔
اللہ کی پھٹکارپڑے، کتنی مرتبہ اسے یہاں لایاجاتاہے۔
یہ لعنت کسی نمازی اورپرہیزگاراور عابد و زاہد پر نہیں کی جارہی ہے بلکہ ایک عادی شرابی پر بھیجی جارہی ہے لیکن آنحضورﷺ نے اسے گوارا نہیں کیا اور فرمایا:
لا تلعنہ لأنہ یحب اللہ ورسولہ۔
اس پر لعنت مت کرو، کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے۔
ایک مرتبہ آپ مدینہ کے ایک محلے میں تشریف لے گئے، وہاں کے سب لوگ آپ سے ملنے کے لیے آئے، حاضرین میں سے کسی نے کہاکہ مالک بن دخشن نظرآرہے ہیں، ایک صاحب نے کہاکہ وہ منافق ہوگیاہے، آپ ﷺ نے فرمایاایسانہ کہو وہ لاالہٰ اللہ کہتے ہیں۔ (بخاری کتاب الصلاۃ باب المساجد فی البیوت)
اور آپﷺ نے فرمایاہے کہ
بدگمانی سے بچوکیونکہ وہ سب سے جھوٹی بات ہے ، ٹوہ میں مت رہو اور لوگوں کے عیب معلوم کرنے کے درپے نہ رہو، باہم حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو۔ (بخاری ، ریاض الصالحین/489)
عفو و درگذر
حضرت جابرؓ وغیرہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے حسن اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
خذ العفو وامر بالعرف واعرض عن الجاھلین۔(المغنی مع الاحیاء3/54)
محمدبن جعفرکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی کو اچھے اخلاق کا حکم دیا ہے اور حسن اخلاق کے سلسلہ میں قرآن کے اندر اس سے زیادہ جامع کوئی آیت نہیں ہے۔ (مدارج السالکین/58)
اللہ کے رسول ﷺ کی پوری زندگی صبروتحمل اور عفو و درگذر سے عبارت ہے ، آپ نے ہر طرح کے ظلم و ستم کو برداشت کیا اور بدلہ لینے پر قدرت کے باوجود معافی کو اپنا شیوہ بنائے رکھا، دوست و دشمن اور اپنے اور پرائے سب کو آپ معاف کردیاکرتے تھے، آپ نے کبھی اپنے ذاتی معاملہ میں کسی سے بدلہ اور انتقام نہیں لیا۔(صحیح مسلم، ریاض الصالحین/249)
حضرت عائشہؓ سے آپؐکے اخلاق کے بارے میں پوچھاگیا تو انھوں نے کہاکہ کبھی کسی سے بدکلامی نہیں کرتے اور نہ بازارمیں شوروہنگامہ مچاتے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے بلکہ معاف اور درگذرکردیتے۔(جامع ترمذی/456)
مکہ کے لوگوں نے آپ کو ہرطرح کی تکلیفیں پہنچائیں لیکن فتح مکہ کے بعد آپ نے عام معافی کااعلان فرمایااور بدلہ لیناتو درکنار کسی سے کسی طرح کی بازپرس اور لعن طعن بھی نہیں کی۔
طائف کے لوگوں نے آپ کے ساتھ جس طرح کی بدسلوکی کی تھی کہ آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ میری زندگی میں اس سے زیادہ تکلیف دہ کوئی دوسرا واقعہ نہیں ہے ، یہاں تک کہ احد کا حادثہ بھی اس کے سامنے ہیچ ہے جس میں چہرہ انور زخمی ہوگیاتھااور بہت سے صحابہ کرام کی شہادت کی وجہ سے آپ شدید دل گرفتہ تھے لیکن جب طائف کے لوگوں نے مجبوراً ہتھیار ڈال کر 9 ھ میں مدینہ کا رخ کیاتو آپ نے ان کے ساتھ نہایت اعزازواکرام کا معاملہ فرمایا۔
ایک یہودیہ نے زہر خورانی کے ذریعہ آپ کو مارنے کی کوشش کی ۔ آپ کو اس کی اطلاع مل گئی لیکن آپ نے اس سے درگذرکامعاملہ فرمایا۔ ایک یہودی جاد وکے ذریعہ درپے آزار ہوالیکن آپ نے اس سے کوئی بازپرس نہیں کی۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کہیں جارہاتھا، آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کا کنارہ موٹا اور کھردراتھا، ایک بدودوڑتے ہوئے آیا اور آپ کی چادر کو اتنے زور سے کھینچاکہ گردن پر اس کے نشانات پڑگئے اور کہنے لگاکہ محمد!اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم کرو، آنحضورؐ اس کی طرف رخ کرکے مسکرانے لگے اور اسے نوازنے کا حکم دیا۔(متفق علیہ، ریاض الصالحین/250)
غورکامقام ہے کہ ایک معمولی شخص آپ کے ساتھ بدکلامی کرتاہے ، نہایت غلط طریقہ سے پیش آتاہے لیکن آپ کے چہرے پر کوئی شکن نہیں، ڈانٹ اور پھٹکار اور غصہ کے اظہار کے بجائے، خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال اور طیش دلانے والے طرزعمل پر مسکراہٹ ، قربان جاؤں اس اخلاق وکردار پر۔
بدلہ اور انتقام تو بہت دور کی بات ہے ، کسی دشمن کے لیے بددعا کرنا بھی آپ کو گوارا نہ تھا، ایک مرتبہ بعض صحابہ کرام نے مشرکین کے لیے بددعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ میں رحمت بناکر بھیجاگیا ہوں، لعنت کرنے کے لیے نہیں۔(صحیح مسلم، المغنی/394)
تواضع اور سادگی
آپ ﷺ مقام نبوت و رسالت پر فائز ہیں، پورا جزیرۃ العرب آ پ کے قدموں میں ہے لیکن آپ کی سادگی اور تواضع کا یہ حال تھا کہ کپڑوں میں پیوند لگاتے، گھرمیں خودہی جھاڑو لگالیتے ، بازار سے سوداسلف لاتے، جوتی پھٹ جاتی تو اسے خود ہی سی لیتے، اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھاتے اور فرماتے کہ جس طرح غلام کھانا کھاتاہے میں بھی اسی طرح کھاتاہوں اور بیٹھتاہوں، لوگ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے تو منع کردیتے۔
اگرکوئی نوکرانی بھی سرراہ اپنے کام کے لیے آپ کو روکتی تو رک جاتے، بچے ملتے تو انھیں پہلے خودسلام کرتے، صحابہ کرام کے ساتھ اس طرح سے گھلے ملے رہتے کہ نووارد کو آپ کو پہچاننے میں دشواری ہوتی۔(دیکھئے احیاء العلوم 2/412)
بستربچھاہوا ملا تو بھی ٹھیک ہے اور بسترنہیں ہے تو زمین پر لیٹنے میں بھی کوئی عار نہیں ہے۔(حوالہ مذکور 2/395)، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے میں تکلف کو پسند نہیں فرماتے تھے، بلکہ جوملاکھالیا اور جو میسر ہوا اسے پہن لیا۔
تواضع ہی کا ایک پہلو یہ تھاکہ آپ اپنے لیے جائز تعظیمی الفاظ بھی پسند نہیں کرتے تھے ایک مرتبہ ایک صاحب نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ ہم میں سب سے بہتر ہیں اور سب سے اچھے شخص کے فرزند ہیں، آپ نے فرمایاکہ لوگو!پرہیزگاری اختیار کرو، کہیں ایسانہ ہوکہ شیطان تمہیں پھسلادے، میں عبداللہ کا بیٹا اور اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے جو مرتبہ بخشاہے مجھے پسند نہیں ہے کہ تم مجھے اس سے زیادہ بڑھاؤ۔(مسنداحمد3/153)
ایک مرتبہ آپ نماز کے لیے کھڑے ہوچکے تھے کہ ایک بدو آیا اور آپ کا دامن جھٹک کر بولا کہ میرا ایک کام رہ گیا ہے ، کہیں ایسانہ ہو کہ میں اسے بھول جاؤں،پہلے اسے کرکے پھر نماز پڑھو۔آپ فوراً اس کے ساتھ مسجد سے نکل کر آگئے اور اس کا کام پورا کردیا۔(ابوداؤد،کتاب الادب)
اورحضرت عبداللہ بن ابی اوفی کہتے ہیں کہ بیوہ اور مسکین کے ساتھ جاکر ان کا کام کردینے میں آپ کو کوئی عار نہ تھا۔(سنن دارمی)
ایثار و قربانی
ایثار و قربانی بھی آنحضورﷺ کی ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ خود بھوکے رہتے لیکن دوسروں کو آسودہ رکھنے کی کوشش کردیتے،خودتکلیف اٹھاتے اور دوسروں کو راحت پہنچاتے، ایک مرتبہ ایک صحابی نے شادی کی ، ولیمہ کے لیے گھرمیں کچھ نہ تھا ، اللہ کے رسول کو معلوم ہوا فرمایاکہ جاؤعائشہؓ سے آٹامانگ لاؤ، وہ گئے اور آٹالے آئے۔ راوی کابیان ہے کہ کاشانۂ نبوت میں اس دن اس آٹے کے علاوہ شام کے کھانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔(مسنداحمد4/655،16141)
ایک بار حضرت علیؓ نے درخواست کی کہ حضرت فاطمہ کے ہاتھ میں چکی پیسنے کی وجہ سے چھالے پڑگئے ہیں اور باہر سے پانی لانیکی وجہ سے کندھے پر گھٹے ہوگئے ہیں،مال غنیمت میں کچھ باندیاں ہاتھ آئیں ہیں اگران میں سے دوایک مل جائیں تونوازش ہوگی۔ آپ نے فرمایاکہ
اللہ کی قسم میں تمہیں نہیں دے سکتا، میں تمہیں کیسے دوں، حالانکہ صفہ کے لوگ بھوکے بیٹھے ہیں، میرے پاس ان پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، میں ان غلام اور باندیوں کو فروخت کرکے ان کے خرچ کا بندوبست کروں گا۔ (مسنداحمد1/171،840)
آپ نے انعام کے موقع پر خود اور اپنے گھروالوں کوہمیشہ دوررکھا، یہاں تک کہ ان کے لیے صدقہ و خیرات کوحرام قرار دیا،لیکن جب جان دینے اور قربانی کی بات آئی تو خود آگے بڑھتے اور اپنے گھراور خاندان والوں کو آگے بڑھاتے۔
سخاوت و فیاضی
حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی فیاضی اور بڑھ جا تی تھی (متفق علیہ)۔ اور حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ آپؐ کا ہاتھ سب سے زیادہ فیاض، آپ کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا، زبان کے اعتبار سے سب سے زیادہ سچے اور عہد کے سب سے زیادہ پابندتھے۔(ترمذی، المغنی 2/410)
آپ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کیا(متفق علیہ، المغنی2/410)، ایک مرتبہ کسی نے آپ سے درخواست کی۔ آپ نے فرمایاکہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، البتہ میرے نام سے خریدکراپنی ضرورت پوری کرلو، جب ہمارے پاس کہیں سے آجائے گا تو اسے ادا کردیں گے، حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا مکلف نہیں بنایاہے جوآپ کے بس میں نہ ہو، ان کی بات آپ کو پسندنہیں آئی،ایک دوسرے صحابی نے عرض کیاکہ یارسول اللہ!خرچ کیجئے اور عرش والے سے تنگ دستی کا اندیشہ نہ کیجئے، یہ سن کر آپ مسکرانے لگے اور آپ کاچہرہ کھل اٹھا۔ (ترمذی فی الشمائل ، المغنی /411)
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایاکہ ابوذر!اگرمیرے لئے ’’احد‘‘پہاڑ سونا بن جائے تومیں کبھی یہ گوارانہیں کروں گاکہ تین دن تک میرے گھرمیں ایک دینار بھی بچ جائے۔ (بخاری کتاب الاستقراض باب اداء الدیون)
غزوۂ حنین سے واپسی کے موقع پربدؤں کی بھیڑلگ گئی،جوآپ سے مال غنیمت مانگ رہے تھے، آپ نے ان کی بھیڑسے الگ ہوکرایک درخت کے سائے میں جانے کی کوشش کی، انھوں نے آپ کی چادر پکڑلی،آپ نے فرمایاکہ میری چادر واپس کردو، اللہ کی قسم اگران جنگلی درختوں کے بقدر بھی میرے پاس اونٹ ہوتے تو میں سب تمہیں دے دیتااور تم مجھے بخیل ، جھوٹا اور بزدل نہ پاتے۔(بخاری، باب الشجاعۃ فی الحرب)
شجاعت
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول سے زیادہ کسی کو نڈر، سخی، بہادر، روشن اور صاف ستھرا نہیں دیکھا۔(سنن دارمی1/44،59)
آپ ﷺ کی شجاعت بھی آپ کی سخاوت کی طرح پورے عرب میں تسلیم شدہ تھی، کبھی بھی دشمن کا خوف آپ کے دل میں جاگزیں نہیں ہوا، مکہ میں جہاں ہر طرف خطرہ ہی خطرہ تھا، آپ رات کے اندھیرے میں بھی بلاخوف و خطر باہرنکلتے تھے اور ہجرت کے موقع پر تمام لوگوں کے رخصت ہوجانے کے بعد رخت سفرباندھا اور جب مشرکین آپ کو تلاش کرتے ہوئے غار کے دہانے پرآگئے اس وقت بھی آپ ذرہ برابرخائف نہیں ہوئے۔
غزوات میں آپﷺ سب سے آگے رہاکرتے تھے، حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر جب جنگ زوروں پرتھی تو ہم نے آپ کے سایہ میںآکرپناہ لی، مشرکین کی صف سے اس دن آپ سے زیادہ قریب کوئی اور نہ تھا، اس موقع پر آپ نے سب سے زیادہ سخت لڑائی کا مظاہرہ کیا۔(رواہ ابوالشیخ باسناد جید، المغنی2/41)
اسی طرح سے جنگ احد میں جب ساری فوج دشمنوں کے نرغے میں آچکی تھی، آپ نے حددرجہ شجاعت اور بہادری سے آواز دے کر سب کو یکجاکیا۔
غزوۂ حنین میں تیراندازی کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک تعداد پیچھے ہٹ گئی لیکن آپ برابر آگے بڑھتے رہے، چنانچہ حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ اس موقع پر دوسرے لوگوں نے پسپائی اختیار کی تھی لیکن میں گواہی دیتاہوں کہ نبی ﷺ نے پشت نہیں پھیری،جب میدان کارزار گرم ہوتاتوہم آپﷺ کے پہلومیں پناہ لیتے اور ہم میں سب سے بہادر وہ سمجھاجاتا جوجنگ کے موقع پر آپ کے آس پاس رہتاکیونکہ آپ دشمن کے بالکل قریب رہتے، اس لیے آپ کے ساتھ رہنے والے کو بھی دشمن کے قریب رہنا پڑتا۔(صحیح مسلم و نسائی،المغنی2/411)
حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ سب سے زیادہ بہادر تھے ، ایک مرتبہ مدینہ میں شورہواکہ دشمن آگئے،لوگ مقابلے کے لیے تیار ی کرنے لگے مگرسب سے پہلے آنحضورﷺ نکلے اور گشت لگاکرواپس آگئے اور لوگوں کو تسلی دی کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں ہے۔(بخاری کتاب الجہاد)
حرف آخر
فضائل سے آراستہ ہونے اور رذائل سے بیزار رہنے کا نام حسن اخلاق ہے، خوبیوں کو اختیار کرنے اور خامیوں سے دوررہنے میں اس طرح سے رسوخ حاصل ہوجائے کہ خودبخود اس سے اچھے افعال سرزدہوں اور وہ برے افعال سے کنارہ کش رہے تو ایسے شخص کو خوب سیرت اور بااخلاق کہاجائے گا، محض وقتی اور ہنگامی طورپرکسی اچھائی کے کرگزرنے کا نام حسن اخلاق نہیں ہے۔(دیکھئے احیاء علوم الدین3/58)حسن اخلاق کی اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن حکیم کی اس آیت پر غورکرنا چاہئے کہ
انک لعلی خلق عظیم
بلاشبہ تم اخلاق کے بلندترین سطح پر فائز ہو۔
یعنی آپﷺ کے اخلاق محض ہنگامی اور عارضی نہیں تھے، یا کسی جوش اور جذبے کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ یہ آپ کی فطرت اور عادت بن چکی تھی، یہ آپ کی مستقل اوردائمی کیفیت تھی، اور کوئی ایسی اخلاقی خوبی نہ تھی جس پر آپ سختی کے ساتھ کاربندنہ ہوں، شمار کرنے والا انھیں کہاں تک شمار کرے، اخلاق کی پاکیزگی، نزول قرآن کا بنیادی مقصداور مخصوص موضوع ہے اور خود آپ کی بعثت بھی اسی غرض کے لیے ہوئی تھی، اس لیے آپ کے اخلاق کے تعارف میں اس سے بہترکوئی بات نہیں ہوسکتی ہے کہ آپ مجسم قرآن تھے۔