بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(7)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
7-معلمات کے ذریعے ابتدائی کے بچوں کی تعلیم:
مرد و عورت میں طبعی طور پر ایک دوسرے کے لیے کشش رکھی گئی ہے ،یہ کشش کسی ناروا مرحلے میں داخل نہ ہو اس کے لیے باہمی اختلاط سے منع کیا گیا ہے
چنانچہ مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ عورتوں سے کوئی سامان لینا ہو تو پردے کے پیچھے سے لیں ۔فرمان باری ہے:
وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ
اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔(سورہ الاحزاب:53)
اور مرد و عورت میں سے ہر ایک کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر نگاہ جھکالیں ۔چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ * وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ۔
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔(سورہ النور 30-31)
اور اگر گھر سے باہر جانا ہو تو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس طرح سے نہ چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہوجائے ۔
وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ .
مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہوجائے۔ اور اے مومنو ! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔(سورہ النور:31)
یعنی اگر پاؤں میں پازیب پہنی ہوئی ہے تو اس طرح نہ چلیں کہ پازیب کی آواز سنائی دے، یا زیوروں کے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بجنے کی آواز غیر محرم مرد سنیں۔(آسانترجمہ و تفسیر)
یہاں تک کہ غیر محرم مردوں کے سامنے نرم لہجے میں گفتگو سے منع کیا گیا ہے فرمان ربانی ہے
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا .
اے نبی کی بیویو ! اگر تم تقوی اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو۔ (سورہ الاحزاب : 32)
اور قرآن مجید میں ان دو عورتوں کے واقعہ کو بطور تعریف ذکر کیا گیا ہے جو بوقت ضرورت بھی مردوں سے اختلاط سے بچا کرتی تھیں :
وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ.
اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچے تو دیکھا کہ اس پر ایسے لوگوں کا ایک مجمع ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں، اور دیکھا کہ ان سے پہلے دو عورتیں ہیں جو اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسیٰ نے ان سے کہا : تم کیا چاہتی ہو ؟ ان دونوں نے کہا : ہم اپنے جانوروں کو اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتیں جب تک سارے چرواہے پانی پلا کر نکل نہیں جاتے، اور ہمارے والد بہت بوڑھے آدمی ہیں۔( سورة القصص:23)
مطلب یہ تھا کہ ہمارے والد بوڑھے ہونے کی وجہ سے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے نہیں آسکتے اور ہم چونکہ عورت ذات ہیں اس لئے مردوں میں گھس کر پانی نہیں پلاسکتیں، اس لئے انتظار میں ہیں کہ مرد چلے جائیں اور کنواں خالی ہوجائے تو ہم اپنے جانوروں کو لے جاکر پانی پلائیں.(آسان ترجمہ و تفسیر)
امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ففي هذه الآية بيّن جلّ وعلا أن ابنتي شيخ مدين لا تسقيان الماء حتى يصدر الرعاء لئلا يختلطا بالرجال.
اس آیت میں اللہ عز و جل نے بیان کیا ہے کہ شیخ مدین کی دونوں بیٹیاں اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلاتی تھیں جب تک کہ سارے چرواہے وہاں سے چلے نہیں جاتے تاکہ مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔( تفسیر کبیر 204/23)
اور ظاہر ہے کہ ایک جگہ رہ کر کام کرنے اور پڑھنے پڑھانے میں ان پابندیوں پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔
جماعت کے ساتھ نماز کی فضیلت و اہمیت محتاج اظہار نہیں یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ ان لوگوں کے گھروں میں آگ لگادوں جو کسی عذر کے بغیر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں مگر مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے کہ عورتوں کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ، وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ ".
اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکے البتہ ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے .(ابو داؤد: 567)
اور اگر عورتیں مسجد میں آکر نماز پڑھنا چاہیں تو ان کی صف مردوں سے پیچھے ہوگی اور اس کے باوجود عورتوں کی پہلی صف اور مردوں کی آخری صف بدترین ہے ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
” خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا ".
مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف اور سب سے بدتر صف آخری صف ہے اور عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری اور سب سے بدتر پہلی صف ہے ۔(مسلم: 440)
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا فَضَّلَ آخِر صُفُوف النِّسَاء الْحَاضِرَات مَعَ الرِّجَال؛ لِبُعْدِهِنَّ مِنْ مُخَالَطَة الرِّجَال، وَرُؤْيَتهمْ، وَتَعَلُّق الْقَلْب بِهِمْ عِنْد رُؤْيَة حَرَكَاتهمْ، وَسَمَاع كَلَامهمْ وَنَحْو ذَلِكَ، وَذَمَّ أَوَّلَ صُفُوفهنَّ لِعَكْسِ ذَلِكَ. وَاَللَّه أَعْلَم
مردوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے والی عورتوں کی آخری صف اس لیے افضل ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ اختلاط سے اور ان کو دیکھنے سے اور ان کی حرکات کو دیکھنے اور ان کی باتوں وغیرہ کو سننے سے دل ان سے متعلق ہونے سے دور ہوتی ہیں اور عورتوں کی پہلی صف کے اس کے برعکس ہونے کی بنیاد پر مذمت کی گئی ہے.(شرح نووي159/4)
اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن مسجد سے نکلتے ہوئے راستے میں مرد و عورت ایک دوسرے سے خلط ملط ہوگئے تو آپ صلّی علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
يَقُولُ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – لِلنِّسَاءِ: «اسْتَأْخِرْنَ؛ فَإِنَّهُ لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ، عَلَيْكُنَّ بِحَافَاتِ الطَّرِيقِ». فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْتَصِقُ بِالْجِدَارِ، حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِهِ.
راوی کہتا ہے کہ وہ مسجد سے باہر نکل رہا تھا ۔راستے میں مرد و عورت خلط ملط ہوگئے یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں تم پیچھے ہٹ جاؤ ،تمہیں بیچ راستے میں نہیں چلنا چاہیے بلکہ راستے کے کنارے سے چلنا چاہیے اس کے بعد عورتوں کا یہ حال ہو گیا تھا کہ وہ دیواروں سے اس درجہ چپک کر چلتی تھی کہ ان کا کپڑا دیوار سے الجھ جاتا ۔(ابو داؤد 5272)
اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کے بعد تھوڑی دیر رکے رہتے تاکہ عورتیں چلی جائیں ۔چنانچہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کہتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – إِذَا سَلَّمَ قَامَ النِّسَاءُ حِينَ يَقْضِي تَسْلِيمَهُ، وَمَكَثَ يَسِيرًا قَبْلَ أَنْ يَقُومَ۔
رسول ﷲ ﷺ جب سلام پھیر دیتے تو عورتیں اٹھ کر چلی جاتیں اور آنحضرت ﷺ تھوڑی دیر رکے رہتے۔ (بخاري: 837)
اور جب راستے میں تھوڑی دیر کے اختلاط کو گورا نہیں کیا گیا ہے تو پھر کام کی جگہوں اور تعلیم گاہوں میں ایک طویل مدت تک کے اختلاط کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے ۔حافظ ابن حجر عسقلانی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز کسی ممنوع چیز تک پہونچانے والی ہو اس سے اجتناب کیا جائے ۔نیز تہمت کی جگہوں سے بچنا چاہئے اور راہ چلتے ہوئے بھی مرد و عورت کا اختلاط مکروہ ہے اور رہائش گاہوں میں یہ اختلاط تو بدرجہ اولی مکروہ ہوگا ۔
(وَالِاحْتِيَاط فِي اِجْتِنَاب مَا قَدْ يُفْضِي إِلَى الْمَحْذُور، وَفِيهِ اِجْتِنَاب مَوَاضِع التُّهَم، وَكَرَاهَة مُخَالَطَة الرِّجَال لِلنِّسَاءِ فِي الطُّرُقَات فَضْلًا عَنْ الْبُيُوت۔ فتح الباری 236/2)
یہاں تک کہ محرم رشتہ داروں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں چنانچہ حضرت عبد الله بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ ".
جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز چھوڑنے پر انھیں مارو اور ان کے بستر کو الگ کردو۔(سنن ابو داؤد : 495مسند احمد: 6689)
اس لیے ابتدائی مرحلے میں بھی خلاف جنس کے ذریعے تعلیم جائز نہیں ہے کیونکہ اس مرحلے میں بہت سے طلبہ کی عمر دس سال ہو جاتی ہے اور اس عمر کا بچہ ایک طرح سے بالغ کے حکم میں آجاتا ہے اور عورت کی طرف اس کی جنسی رغبت بڑھ جاتی ہے۔
نیز مرد ٹیچر کی جو عظمت و ہیبت ہوتی ہے وہ عورت نہیں ہوتی ہے اور یہی چیز ہے جو اطاعت و فرمانبرداری اور نظم ضبط پر آمادہ کرتی ہے۔
اور اس مرحلے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہر بچہ اپنی ہم جنس کے ذریعے طبعی اور فطری خصوصیات و امتیازات کو حاصل کرے ،بچے میں مردانہ اخلاق کردار صبر و قوت اور رعب و دبدبہ پیدا ہو اور بچی نسوانی صفات کو حاصل کرے اور غیر جنس کی تعلیم کے ذریعے اس کی شخصیت تباہ ہو جائے گی اور وہ دوہری شخصیت کا حامل ہوگا بلکہ بسا اوقات نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو سکتا ہے ۔
جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بچہ ہم جنس سے زیادہ سیکھتا ہے اور سامنے موجود شخص کے طور طریقے کو اپناتا ہے۔ ایک لڑکی اپنی ماں اور استانی کے طریقے سے سیکھتی ہے تو ایک بچہ اپنے باپ اور استاد کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے ۔لبنان یونیورسٹی کے علم نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر کرسٹین نصار کہتے ہیں کہ بچہ اپنے قریب تر موجود شخص کی صفت اختیار کرتا ہے اور اس کے مرد یا عورت ہونے کے اعتبار سے اس کی صفات و خصوصیات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور یہی چیز اس کے مستقبل کی اہم بنیاد ثابت ہوتی ہے کہ وہ نسوانی صفات اختیار کرتا ہے یا مردانگی کے جوہر کو اپناتا ہے اور اس کی شناخت کی تعمیر ہوتی ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بچے کے سامنے جیسا نمونہ ہوگا اس کے اندر اسی کی صفات کو اپنانے کا داعیہ پیدا ہوگا۔
اور نفسیات و تربیت کے ماہرین کہتے ہیں کہ بچہ چار سال کی عمر میں اپنے سامنے موجود شخص کی نقل کرنے لگتا ہے لہذا اس عمر میں اگر کسی عورت کے ذریعے بچے کی تعلیم دی جائے گی تو وہ اس کی صفات و اخلاق کو اختیار کرے گا بلکہ اس سے بھی پہلے دو سال کی عمر سے لے کر اور تقریبا نو سال تک بچہ مکمل طور پہ اس کے طور طریقے اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بار بار اس کے سامنے آتا ہے اور جسے وہ مسلسل دیکھتا ہے اسی بنیاد پر فلپائن کے وزیر تعلیم نے اعلان کیا کہ بچوں کی تعلیم کے لیے ایک بڑی تعداد میں مرد ٹیچر بھرتی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مردانہ صفات سے آراستہ ہو سکیں نہ کہ زنانہ خصوصیات کو اپنائیں جسے وہ اپنی معلمات سے سیکھتے ہیں ۔
اور مشہورادیب علی طنطاوی کہتے ہیں جس بچے کی تعلیم وتربیت کسی عورت کے ذریعے ہو تو زندگی کے تمام مراحل میں اس تربیت کا اثر ظاہر ہوتا رہتا ہے۔(دیکھئے القضايا الفقهيةالمعاصرة .قسم الأطعمة/196)