اسلام اور امن عالم ۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
اسلام امن و آشتی اور صلح و سلامتی کا مذہب ہے ، قرآن مجید میں ایسے خدا کا تصور پیش کیا گیا ہے جو رحمان و رحیم اور رؤف و کریم ہے ، اور آخری پیغمبر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور اسلام کی تمام تعلیمات شفقت و محبت پر مبنی ہیں ۔ اس نے نہ صرف اپنوں سے محبت سکھائی ہے بلکہ دشمنوں سے بھی الفت اور حسن سلوک کی تعلیم دی ہے ۔
اس دین میں عدل و انصاف سے سب سے زیادہ محبوب و مطلوب اور ظلم و ستم اور فتنہ و فساد سب سے زیادہ مذموم اور ناپسندیدہ ہے ، یہاں انسانی زندگی کی اس قدر اہمیت ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اورمذہبی و نسلی تفریق کے بغیر ہرشخص کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ بہت سی غیرمسلم اقلیتیں (جیسے اسپین میں یہودی )مسلمان حکومتوں کے زیر سایہ زندگی گزارنے میں عافیت محسوس کرتی تھیں ۔
فلسطین میں غاصبانہ طور پر یہودی حکومت کے قیام اور عیسائی دنیا میں عملاً یہودیوں کے تسلط کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی تحریک شروع ہوئی جو بیک وقت سیاسی بھی ہے ، فکری بھی اور کشور کشائی اور قبضہ گیری بھی ، اور مظلوم کو ظالم ثابت کرنے اور ہر سطح پر انہیں ذلیل و رسوا کرنے کی سازش بھی ، چنانچہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مغربی ممالک پہلے تو مسلمانوں اور بالواسطہ امن پسند اور صلح جو مذہب اسلام پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں اور پھر باری باری مختلف مسلم ملکوں پر اسی بہانے حملہ کرتے ہیں اور دفاع اور آزادی کے لیے کوشش کرنے والوں پر دہشت گردی کا لیبل چپکا دیتے ہیں ۔
مسلمان خواہ کتنے بھی مشکل ترین حالات سے نبرد آزما ہوں ، بہر حال ان کی حیثیت خیر امت اور انسانیت کے لیے رہبر و رہنما کی ہے ، اس لیے انہیں ایک طرف مغرب کے پروپیگنڈے کا جواب بھی دینا ہے ، اور دوسری طرف اسلام کی حقیقی تعلیمات کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا بھی ہے ، نیز مشکل اور صبر آزما حالات میں بھی اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات پر ثابت قدم رکھنا ہے ۔
اسی پس منظر میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے چودہویں فقہی سیمینار کے موضوعات میں ایک اہم موضوع ’’اسلام اور امن عالم ‘‘رکھا گیا تھا ، جس میں اسلامی نقطہ نظرسے دہشت گردی کی حقیقت ، ریاستی اور عوامی دہشت گردی ، رد عمل اور احتجاج کے سلسلے میں شرعی حدود ، مدافعت کا حکم اور اس سلسلے میں شرعی اصول ، نیز دہشت گردی کے تدارک کے لیے اسلامی تعلیمات جیسے اہم مسائل پر اہل علم کو بحث کی دعوت دی گئی تھی جس کے جواب میں علماء اور ارباب افتاء کے چون مقالات آئے ، جس کی تلخیص پیش خدمت ہے ۔جس میں سب سے پہلے اکیڈمی کی طرف سے کیے گئے سوال کو اور اس کے بعد اکیڈمی میں پاس کردہ قرار داد کو بہ شکل جواب لکھا گیا ہے اور پھر جواب کی روشنی میں مقالات کی تلخیص ذکر کی گئی ہے ۔
سوال : اسلامی نقطہ نظر سے دہشت گردی کی تعریف اور اس کی حقیقت کیاہے ؟
جواب : ’’تشدد کا ہر وہ عمل جس کے ذریعہ کسی فرد یا جماعت کو کسی شرعی جواز کے بغیر خوف و ہراس میں مبتلا کیاجائے یا اس کی جان و مال ، عزت و آبرو ، وطن و دین اور عقیدے کو خطرے سے دوچار کیاجائے ، دہشت گردی ہے ۔ خواہ یہ عمل فرد کی طرف سے ہو یا جماعت و حکومت کی طرف سے ‘‘۔
تشریح :
ظلم اور فتنہ و فساد کی ہر شکل کا نام دہشت گردی ہے ، خواہ اس کا شکار کوئی مسلم ہو یا غیرمسلم ، اس لیے کہ اللہ کی نگاہ میں ہرانسان لائق تکریم ہے اور اس کی جان و مال ، دین و مذہب اور عزت و آبرو کا احترام ضروری ہے ، اور مذہب کی تفریق کے بغیر کسی بھی انسان پر ظلم و زیادتی حرام ہے ۔
اور اس سلسلہ میں غیر مسلم ممالک کا رویہ تعصب اور جانب داری پر مبنی ہے ، وہ ہرچیز کو اپنے مفاد کی روشنی میں دیکھنے کے عادی ہیں اور ان کی ہر پالیسی جغرافیائی اور نسلی امتیازات اور سیاسی مفادات کا آئینہ دار ہو تی ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ خود ان میں آج تک دہشت گردی کی کسی تعریف پراتفاق پیدا نہ ہوسکا ، اقوام متحد ہ نے اپنے اجلاس مورخہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۷۲ء سے لے کر۷؍ستمبر ۱۹۸۷ء تک اس کی تعریف میں گزارے ہیں ، مگر ’’ہے یہ وہ لفظ جو شرمندۂ معنی نہ ہوا ‘‘۔
اگر ان کے مفادات کے مطابق ہو تو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور آزادی کا خوبصورت نام دے دیاجاتا ہے اور اگر ان کے مفادات کے خلاف ہو تو حقیقی آزادی کے لیے جد و جہد اور غصب شدہ حق کے حصول کے لیے کوشش کو دہشت گردی قرار دیا جاتاہے ، کہیں ملوکیت کے سر پرہاتھ رکھا جاتا ہے تو کہیں جمہوریت کے نام پر منتخب جمہوری حکومتوں کو پامال کیا جا تا ہے ۔
ارہاب اور جہاد :
دہشت گردی کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے عربی لفظ ارہاب کا استعمال درست نہیں ہے ،کیونکہ ’’ارہاب‘‘ایک عسکری حکمت عملی ، دفاعی پوزیشن اور دشمن کو جارحیت سے باز رکھنے سے عبارت ہے اور جہاد و مقاومت میں شامل ہے ، جس کے ذریعہ ظلم اور فتنہ و فساد کے دروازے کو بند کیا جا تا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ‘‘۔
’’ تم ان کے مقابلہ کے لیے بھر پور قوت کی تیاری کرو ،اور گھوڑے بھی تیار رکھو کہ اس کے ذریعہ تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زد ہ رکھ سکو گے ‘‘۔(سورۃ الانفال:60)
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حفاظت و مدافعت کے لیے اپنی پوزیشن کو اتنا مضبوط بناؤ کہ امن و چین اور انسانیت کے دشمن کسی شر انگیزی کی ہمت نہ کر سکیں کہ مفسدانہ کاموں کی وجہ سے معاشرہ میں بگاڑ اور لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے اور سماج میں امن و سکون اور فکر و عمل کی آزادی کے لیے جد و جہد کرنے کا نام ہی جہاد ہے ۔
اسلام نے یہ تصور دیا ہے کہ انسان اپنی فکر اور عمل میں آزاد ہے ، یہ آزادی اور اختیار انسان کو اللہ کی طرف سے ملا ہے ، کسی قوم یا کسی فرد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو اپنا غلام بنائے اور ان کی آزادی کو چھیننے کی کوشش کرے ، یہاں تک کہ رسو لؐ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاگیا ہے :
’’ اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
’’ کیا تم لوگوں سے زبر دستی کروگے یہاں تک کہ وہ ایمان قبول کرلیں‘‘۔(سورہ یونس:99)
فکری ، عملی اور اقتصادی اعتبار سے انسانوں کو آزادی دلانے کے لیے کوشش کرنے کانام ہی جہاد ہے ، جس کے لئے زبان و قلم سے بھی کام لیا جاسکتا ہے اور کبھی ہتھیار اٹھانے کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے جس کے لیے سب سے اہم شرط یہ ہے کہ وہ حکومت کے زیرقیادت ہو ، انفرادی طور پر یا مختلف گروہوں کے ہتھیار اٹھا لینے کا نام جہاد نہیں ہے ۔
دہشت گردی کی قسمیں:
دہشت گردی اور بالفاظ دیگر جارحانہ حملہ، ظلم و ستم اور فتنہ وفساد کی کاروائی کسی ایک فرد کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور کسی جماعت کی طرف سے بھی ، یہاں تک کہ حکمراں طبقہ بھی اس میں ملوث ہوسکتا ہے ، اسی طرح یہ فکری بھی ہوتی ہے اور اقتصادی بھی ، مسلکی اور علمی بھی ، دہشت گردی کی ان قسموں میں فکری دہشت گردی سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے ، اور ریاستی دہشت گردی سب سے زیادہ پیچیدہ اور نازک ہے ، ریاستی دہشت گردی سے مراد ہر وہ دہشت گردانہ عمل ہے جس کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ کوئی ادارہ یا حکومت انجام دے ، خواہ اس کو بروئے کار لانے والی اس ملک کی فوج اور پولیس ہو یا انفرادی عناصر، جس میں اپنے ہی ملک کے باشندوں کے ساتھ مذہبی ، لسانی اور نسلی بنیاد پر ظلم و جور ، درندگی و سفاکی کا معاملہ کیا جاتا ہے ، انہیں دستوری حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ، ان کی رائے ، ضمیر اور عقیدہ و مذہب پر پابندی عائد کی جاتی ہے ، جیسے بھارت میں حکومتی سر پرستی میں ہونے والے فسادات اور ملازمتوں میں مسلمانوں کی برائے نام شمولیت اور ان کے حقوق کی پامالی ۔
دہشت گردی اور اسلام :
اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے ، ظلم و جور ، فتنہ و فساد ، دہشت گردی اور تخریب کاری کا سخت مخالف ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
’’ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا‘‘۔
’’کہ جس نے جان کے بدلے کے بغیر کسی جان کو قتل کیا یا روئے زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا ، اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا کہ اس نے سارے انسانوں کی جان بچائی ‘‘۔(سورۃ المائدہ:32)
اور فتنہ و فساد برپا کرنے والوں اور دہشت گردوں کے لیے اسلام میں بڑی سخت سزا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کاارشاد ہے :
’’ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْتُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ‘‘۔
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کریں اور زمین میں فساد پھیلاتے رہیں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی پر لٹکا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلاوطن کردیا جائے‘‘۔(سورۃ المائدہ:33)
نیز ارشاد ربانی ہے :
’’ وَلَاتَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِط اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ‘‘۔
’’روئے زمیں میں فساد نہ پھیلاؤ ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ‘‘۔(سورۃ القصص:77)
بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ فتنہ و فساد پھیلانا قتل سے بھی سنگین ہے :
’’ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ‘‘(سورۃ البقرۃ:191)
غرضیکہ دہشت گردی اور تشدد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اس کا مرتکب دنیا و آخرت میں سخت سزا کا حقدار ہے ، اسلامی تعلیمات میں جنگ برائے جنگ یا ہوس ملک گیری یا اقتصادی اور فکر ی اعتبار سے کسی کو غلام بنانے کے لیے جنگ کا کوئی تصور نہیں ہے ۔
حکومتوں کا ظالمانہ رویہ :
سوال : یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات حکومتیں اپنے ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے ساتھ عدل و مساوات کا سلوک نہیں کرتیں بلکہ بعض طبقات کے ساتھ سیاسی و معاشی ناانصافی روا رکھی جاتی ہے اورانہیں جانی و مالی نقصان سے دو چار کیا جاتا ہے، کیا حکومتوں کے اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ رویہ پر بھی دہشت گردی کااطلاق ہو گا ؟
جواب: ’’کسی بھی حکومت یا ریاست کی طرف سے ایسی تدبیریں اختیار کرنا جن سے کسی فرد اور جماعت کو اس کے واجبی حقوق سے محروم کیاجائے یا ان کو کسی طرح کا نقصان پہنچایا جائے ، دہشت گردی میں داخل ہے ‘‘۔
تشریح:
ظلم و زیادتی انفرادی ہو یا ریاستی ، بہرحال دہشت گردی ہے ، حکمراں طبقہ کی یہ ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ وہ کسی تفریق کے بغیر لوگوں کے سماجی ، معاشی اور سیاسی حقوق ادا کریں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
*’’ وَلَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِ لُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی‘‘۔
’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں خلاف انصاف پر آمادہ نہ کرے ، انصاف کیا کرو ، جو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ‘‘۔(سورۃ المائدۃ:8)
*’’ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ‘‘۔
’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ادا کردو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تم عدل سے کام لو ‘‘۔(سورۃ النساء:58)
*’’ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور رشتہ داروں کو نوازنے کاحکم دیتے ہیں اور بے حیائی کے کاموں اور ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتے ہیں ، وہ تمہیں نصیحت کر رہے ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ‘‘۔(سورۃ النحل:90)
اور جب اہل حکومت رعایا کے درمیان تفریق برتیں اور انہیں قصداً ان کے حقوق سے محروم رکھیں تو یقینی طو ر پر وہ ظالم اور دہشت گرد قرار پائیں گے ، البتہ اس طرح کی ظالمانہ کارروائی کے جواب میں ہتھیار اٹھانا اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا باعث فتنہ ہے ، جس سے بچنا ضروری ہے ۔
ظلم پر احتجاج:
سوال : اگر کسی طبقہ یا گروہ کے ساتھ ناانصافی روا رکھی جاتی ہے تو کیا اس پر احتجاج اور ردعمل کا اظہار درست ہے ؟اور کیا مظلوم کا ظلم کے خلاف کھڑا ہونا بھی دہشت گردی ہے ؟‘‘
جواب :’’ کسی بھی طرح کی ناانصافی کے خلاف مناسب اور مؤثر طریقہ پر آواز بلند کرنا مظلوم کا ایک حق ہے ، نیز مظلوم کی طرف سے ظلم کا دفاع دہشت گردی نہیں ہے ‘‘۔
تشریح:
ظلم و نا انصافی ایک مذموم حرکت ہے ، دنیاکے کسی بھی مذہب میں اس کی اجازت نہیں ہے ، اس کے خلاف مناسب اور مؤثر طریقے پر آواز بلند کرنا مظلوم کا حق ہے ، اس لیے کہ ظلم پر خاموش رہنے سے بھی ظلم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے مومنین کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ :
’’ وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ”۔
’’ اور جب ان پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں ‘‘۔ (سورۃ الشوریٰ:39)
نیز فرمایا گیاہے :
’’ لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ‘‘۔
’’ برائی کے اظہار اور بیان کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے ہیں ، سوائے اس کے کہ کسی پر ظلم کیاگیا ہو ‘‘۔(سورۃ النساء:148)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ اور قتادہ کہتے ہیں ، ایسی بات کا برملا اظہار کرنا جس سے دوسرے کو تکلیف ہواللہ کو پسند نہیں ہے ، ہاں مظلوم کے لیے اجازت ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بد دعا کرے ، حضرت اصم کہتے ہیں کہ پوشیدہ امور کو ظاہر کرنا درست نہیں ہے ، البتہ مظلوم کے لیے اجازت ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا تذکرہ لوگوں سے کرے، بایں طور کہ وہ بیان کرتا پھرے کہ فلاں نے میرا مال چوری کرلیا ہے یا مجھ سے چھین لیا ہے ۔(التفسیر الکبیر للرازی:91/11،تفسیر قرطبی:6/1)
سید رشید رضا مصری لکھتے ہیں کہ اگر مظلوم شخص ظالم کے ظلم کو حکام کے سامنے یا ایسے لوگوں سے بیان کرے جن سے ظلم کے خلاف مدد اور تعاون کی امید ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(تفسیرالمنار:6/5)
غرضیکہ ظلم کا چرچا کرنا ، احتجاج کرنا ، ظالم کے لیے بد دعا کرنا جائز اور درست ہے اور موجودہ زمانے میں احتجاجی جلسہ ، اخباروں میں مذمتی بیان ، احتجاجی جلوس وغیرہ صحیح ہے بشرطیکہ اعتدال ملحوظ رہے ۔
اور اللہ کے آخری فرستادے کا اعلان اور فرمان ہے :
’’ من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان‘‘ ۔
’’ تم میں سے جوکوئی کسی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ، اگر ہاتھ سے نہ کرسکے تو زبان سے ، اور اگر زبان سے بھی نہ ہوسکے تو دل میں برا جانے ، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے ‘‘۔(صحیح مسلم:49،جامع ترمذی:218)
’’ ان الناس اذا رأو الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ اوشک ان یعمھم اللّٰہ بعقاب منہ‘‘ ۔
’’ جب لوگ کسی کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو عمومی طور پر سزا دے ‘‘۔(سنن ابو داؤد،حدیث:4338)
یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم ظلم پر سر اپا احتجاج بن جائیں اور حسب استطاعت اسے ختم کرنے کی کوشش کریں ، انسانی سماج کو ظلم و ناانصافی سے پاک کرنا اور معاشرہ کے محروم طبقات کو ان کے حقوق دلانا ہر فرد کی ذمہ داری ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں اسے بہترین جہاد کہا گیا ہے ،’’افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘۔(رواہ ابوداؤد، واللفظ لہ والترمذی وابن ماجہ الترغیب للمنذری:886/2)
ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا معاشرہ اور سماج کی زندگی کی دلیل ہے ، چنانچہ بعض روایتوں میں ہے :
’’رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا ، آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنا سامان راستہ میں ڈال دو ، اس نے ایسا ہی کیا ، لوگ وہاں سے گزرتے اور یہ منظر دیکھ کر اس پڑوسی پر لعن طعن کرتے ، وہ پڑوسی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ لوگ مجھے تکلیف پہنچا رہے ہیں ، اللہ کے رسولؐ نے پوچھا کیا کر رہے ہیں ؟ کہنے لگا کہ مجھ پر لعنت بھیج رہے ہیں ، آپؐ نے فرمایا کہ لوگوں سے پہلے تو اللہ نے تم پر لعنت کی ہے ، اس نے کہا کہ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، اتنے میں شکایت کرنے والے بھی آگئے ، آپؐ نے کہا اپنا سامان اٹھا لو ، مقصد پورا ہوگیا ‘‘۔(مجمع الزوائد:170/8)
مکہ کے مشرکانہ ماحول میں آپؐ کو منصب نبوت پر سرفراز کیے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ قبیلہ زبید کا ایک شخص سامان تجارت لے کر مکہ آیا ، قریش کے ایک سردار عاص بن وائل نے سارا سامان خرید لیا اور قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگا ، اس نے سردارانِ قریش سے مدد چاہی لیکن عاص بن وائل کی حیثیت اور وجاہت کی وجہ سے انہوں نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ،اب اس نے حرم میں جاکر ہر باحوصلہ، صاحب ہمت اور حق و انصاف کے حامی سے فریاد کی ، لوگوں کو غیرت آئی اور اس طرح کی صفات کے لوگ عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور انہوں نے یہ معاہدہ کیا کہ ہم سب ظالم کا مقابلہ اور مظلوم کی حمایت کریں گے اور صاحب حق کو اس کا حق دلائیں گے اور زبیدی کا حق دلایا ، اللہ کے رسول ﷺ بھی اس معاہدہ میں شریک تھے اور بعثت کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اسلام کے بعد بھی کوئی مجھے اس طرح کے معاہدہ کے لیے بلائے تو میں ضرور حاضر ہوں گا ۔(سیرت ابن کثیر:258/1)
غرضیکہ مظلوم کا ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور ظالم کو بے نقاب کرنا ایک پسندیدہ امر ہے اور جو لوگ براہ راست اس کے شکار نہیں ہیں انہیں بھی محض تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ ظلم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور ظالم و جابر شخص کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور قانون کے شکنجے میں کسنے کے لیے پوری طاقت لگا دینا چاہیے ، معروف فقیہ علامہ داماد آفندی لکھتے ہیں :
’’جو شخص اپنے قول و فعل کے ذریعہ لوگوں کو پریشان کرتا ہو تو اس کے ظلم کا تذکرہ غیبت میں داخل نہیں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایاکہ فاسق و فاجر کی برائیوں کو بیان کرو تاکہ لوگ اس سے دور رہیں ، اور ظالم کو اہل حکومت تک پہنچائے تاکہ وہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کریں اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ بھی ظلم سے روکنے اور منکر سے منع کرنے میں شامل ہے ‘‘(مجمع الانھر:552/2 کتاب الکراھیۃ، فصل فی المتفرقات)
لیکن ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس میں کسی طرح کے تشدد اور زیادتی کی آمیزش نہ ہو ، اس لیے کہ یہ خلاف شریعت ہے ،شیخ بدران لکھتے ہیں :
’’ہر و ہ چیز جو ممنوع تک لے جائے وہ بھی ممنوع ہوگی ‘‘۔(اصول الفقہ الاسلامی:342)
نیز یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ظلم کے خلاف رد عمل کے اظہار میں مرتب ہونے والے نتائج کہیں اس سے زیادہ شدید نہ ہوں ، اس طرح کی چیزوں میں حد درجہ حکمت مطلوب ہے اور جان کو ہلاکت میں ڈالنا صحیح نہیں ہے ۔
بے قصور لوگوں سے بدلہ لینا :
سوال : ’’اگر ایک طبقہ کی طرف سے ظلم و زیاد تی ہو ، جس میں اس طبقہ کے کچھ افراد شریک ہوں تو کیا مظلوموں کو ظلم کرنے والے گروہ کے ان لوگوں سے بدلہ لینا جائز ہے جو بے قصور ہوں اور جو خود اس ظلم میں شامل نہ ہوں ‘‘۔
جواب : ’’ظلم کرنے والوں کا تعلق جس طبقہ اور گروہ سے ہو ، اس کے بے قصور افراد سے بدلہ لینا جائز نہیں ہے ‘‘۔
تشریح:
اسلام ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دیتا ہے مگر یہ بدلہ صرف ان لوگوں سے لیاجائے گا جنہو نے ظلم و جور کا ارتکاب کیا ہے ، وہ لوگ جن کا ظالم کے مذہب ، نسل ، وطن یا خاندان سے تعلق ہے مگر وہ اس ظلم میں شریک نہیں ہیں ،یعنی نہ وہ جسمانی طور پر شریک ہیں نہ اس کی مالی مدد کی ہے اور نہ ہی منصوبہ سازی اور پلاننگ میں شریک رہے ہیں تو ایسے بے قصور افراد سے صرف اس بنیاد پر بدلہ لینا کہ وہ ظالم سے کسی طرح کا تعلق رکھتے ہیں ، اسلامی اصول و قوانین کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
*’’ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃ’‘ وِّزْرَ اُخْرٰی‘‘۔
’’ اور کوئی کسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا ‘‘۔(سنن ابو داؤد،حدیث:4338)
*’’وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلاَ یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا‘‘۔
’’اور جو شخص ظلماً قتل کر دیاجائے تو ہم نے اس کے وارث کو قاتل پر قابو دے رکھا ہے ، پس اسے چاہیے کہ وہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کرے ، بلاشبہ مقتول کے وارث کی مدد کی گئی ہے ‘‘۔(سورۃ الاسراء:33)
یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق حاصل ہے کہ حاکم وقت کے فیصلے کے بعد قصاص میں قاتل کو قتل کر دیں یا اس سے خوں بہا لے لیں یا معاف کردیں ، اور اگر وہ قصاص ہی لینا چاہیں تو اس میں ظلم و زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو کو ماردیں اور مقتول کے وارثوں کو اس بات کے لیے شکر گزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لیے حاکموں کو تاکید کی ہے ، لہٰذا وہ زیادتی کا ارتکاب کرکے ناشکری نہ کریں ۔
*’’ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ‘‘۔
’’اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور ظلم و زیادتی مت کرو ، اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ‘‘۔(سورۃ البقرۃ:190)
اس آیت میں ’’ظلم و زیادتی نہ کرو ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ تمہاری طرف سے جنگ کی شروعات نہیں ہونی چاہیے ، اور نہ ایسے لوگوں سے جنگ کرنا چاہیے جن سے جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے ، جیسے عورتیں ، بچے ، گرجوں اور عبادت خانوں میں رہنے والے ۔(تیسیرالرحمن:106/1)
*’’فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ‘‘۔
’’اور جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی طرح کی زیادتی کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہیں ‘‘۔(سورۃ البقرۃ:194)
*’’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَخَیْر’‘ لِّلصّٰبِرِیْنَ ‘‘
’’ اور اگر بدلہ بھی لو تو بالکل اتنا ہی جتنا تمہیں صدمہ پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بے شک صبر کرنے والوں ہی کے لیے یہی بہتر ہے ‘‘۔(سورۃ النحل:126)
حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں ہے کہ ان کے سگے بھائی کے پاس سے چوری کا سامان برآمد ہوا جس کی سزا قید تھی ، ان کے دوسرے بھائیوں نے حضرت یوسفؑ سے درخواست کی بنیامین کے والد بہت بوڑھے ہیں ، وہ ان کی جدائی برداشت نہیں کرپائیں گے ، ان کے بدلے ہم میں سے کسی کو قید کرلیجیے توانہوں نے فرمایا کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ظلم کریں گے ۔(سورہ یوسف:78)
اللہ کے رسول ﷺ جب فوجیوں کو روانہ کرتے تو بطور خاص تاکید فرماتے کہ بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کریں ،(صحیح بخاری:2316/2مع الفتح الکتاب الجہاد سنن ابوداؤد مع العون:1137،کتاب الجہاد بیت الافکارالدولیۃ)ایک موقع پر جنگ کے میدان میں عورت کی لاش دیکھ کر آپؐ نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : یہ تو جنگ میں شریک نہیں تھی ’’ماکانت ھذہ تقاتل ‘‘اور حضرت خالدؓ کو کہلا بھیجا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کریں۔(صحیح مسلم:742،کتاب الجہاد وغیرہ، ابوداؤد مع العون واللفظ لہ :1137)
آپ ﷺ کے بعد خلفاء راشدین کا یہی طرز عمل رہا ، حضرت ابوبکرؓ نے لشکر اسامہؓ کو روانہ کرتے ہوئے فرمایا :
’’ خیانت اور عہد شکنی نہ کرنا، مقتولین کے چہرے کو مت بگاڑنا ، بچے ، بوڑھے اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ………تمہارا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت گاہوں تک محدود کرلیا ہے ، ان سے چھیڑ چھاڑ مت کرنا ‘‘۔ (تیسیرالرحمن:106/1،الھدایۃ:562/2، مجمع الانھرا:636)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’ نزل نبی من الانبیاء تحت شجرۃ فلدغتہ نملۃ فامر بجھازہ فاخرج من تحتھا وامر بھا فاحرقت بالنار فاوحی اللّٰہ الیہ فھلا نملۃ واحدۃ‘‘۔
’’ایک نبی کسی درخت کے نیچے آرام کر رہے تھے ، ایک چیونٹی نے انہیں کاٹ لیا، اس پر انہوں نے تمام چیونٹیوں کو جلا ڈالا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ صرف ایک چیونٹی کو کیوں نہیں مارا ، ا س کی وجہ سے تمام کو کیوں جلا ڈالا ‘‘۔(صحیح مسلم: 236)
علامہ نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’صرف اسی چیونٹی کو سزا کیوں نہیں دی جس نے جرم کیا تھا ، دوسروں کو کیوں سزا دی گئی ، ان کا تو کوئی جرم نہیں تھا ‘‘۔(المنھاج:1397 حدیث:2241)
ایک موقع پر حکومت کی طرف سے ایسے لوگوں کو بھی جلاوطن کردیا گیا جو مجرم نہ تھے ، امام اوزاعی نے علاقے کے صوبیدار کے نام خط لکھاکہ چند خاص لوگوں کے جرم کی وجہ سے تمہیں کیا حق تھا کہ جر م میں جو شریک نہ تھے ان کو بھی سزا میں شریک کر دو ، قرآن کا حکم یہ ہے کہ ’’ان لاَ تَزِرُ وَازِرَۃ’‘ وِّزْرَ اُخْرٰی‘‘۔(فتوح البلدان للبلاذری)
ہدایہ میں یہ ضابطہ بیان کیاگیاہے کہ’’المظلوم لایظلم غیرہ‘‘(الھدایۃ/مرغینانی)
مظلوم ظالم کے علاوہ کسی اور سے ظلم کا بدلہ نہیں لے سکتا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ ظلم کا بدلہ ایسے لوگوں سے لینا صحیح نہیں ہے جو کسی بھی طور سے اس ظلم میں شریک نہ ہوں ، لیکن اگر کوئی شخص براہ راست ظلم میں شریک نہ ہو لیکن بالواسطہ ظالموں کے ساتھ ہو ، یا اس کا تعلق کسی ایسی پارٹی سے ہو جو قتل و غارت گری میں ملوث ہو تو اس پارٹی کے جو بھی افراد ظلم اور بلوہ میں شریک ہوں ان سے تو انتقام لیا ہی جائے گا اور اس پارٹی کے دیگر افراد بھی اس جر م میں درجہ اور مرتبہ کے اعتبار سے شریک مانے جائیں گے ، چنانچہ در مختار اور ر د المحتار میں ہے کہ :
’’ مذکورہ احکام ان تمام افراد پر لاگو ہوں گے ، خواہ انہوں نے براہ راست قتل کیا ہو اور اسے پکڑا ہویا اسے دھمکی دی ہو ، اس لیے کہ یہ "محاربہ” کی سزا ہے اور یہ صادق ہے ہر اس شخص پر جو اس کے لیے معین اور مدد گار ہو ‘‘۔(رد المحتار:115/4)
اور علامہ داماد آفندی لکھتے ہیں :
’’ اللہ کے رسول ﷺ نے جنگ میں عورت اور غیر مکلف کو قتل کر نے سے منع فرمایا ہے ، لیکن اگر ان میں سے کوئی جنگ میں رائے ، مشورہ اور مال سے شریک ہو بایں طور کہ وہ مشورہ اور تدبیر کے ذریعہ اور مالی مدد سے کافروں کو جنگ کے لیے آمادہ کررہا ہو یا یہ کہ بادشاہ ہو تواسے قتل کیاجائے گا ، اس لیے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو نقصان پہنچے گا ‘‘۔(مجمع الانھر:636/1)
ظالم سے ظلم کا بدلہ لینے کے سلسلہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ ظالم یا اس کے گروہ سے انتقام لینے کا حق اسلا م میں کسی مظلوم کو نہیں دیاگیا ہے ، اس لیے کہ مجرموں کو ان کے جرائم کی سزا خود مظلوم افراد دینا شروع کردیں تو پورے ملک میں لا قانونیت پھیل جائے گی ، قانون ، حکومت اور عدالتی نظام بے معنی ہوجائے گا ، اور کبھی اصل مجرم چھوٹ جائے گا اور بے قصور زد میں آجائے گا ، مجرم کی شناخت اور جرم کی تعیین اور نوعیت وغیرہ کا تعلق حکومت اور عدالتی نظام سے ہے ، جرائم کی سزا کے لیے حاکم اور حکمراں طبقہ مقرر کیاگیا ہے ، لہٰذا ازخود ظالم سے انتقام لینا شرعی اعتبار سے ناروا اور غلط ہے ۔
دہشت گردی کے اسباب و محرکات اور ان کا تدارک :
سوال : ’’دہشت گردی کے پیدا ہونے کے کچھ بنیادی اسباب و محرکات ہوتے ہیں ، جیسے کسی گروہ کے ساتھ معاشی یا سیاسی ناانصافی ، یاکسی گروہ کے اندر طاقت و قوت کے ذریعہ حکومت اور معاشی وسائل پر تسلط حاصل کرنے کی خواہش ، ان اسباب کے تدارک کے لیے اسلام کیا ہدایات دیتا ہے ‘‘؟
جواب : ’’دہشت گردی کے سد باب کی صورت یہ ہے کہ تمام لوگوں کو مساوی طریقے پر عدل و انصاف فراہم کیاجائے ، انسانی حقوق کامکمل احترام ،جان و مال اور آبرو کا مکمل تحفظ کیا جائے ، نسلی ، قبائلی ، مذہبی اور لسانی امتیازات کا لحاظ کیے بغیر تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے ‘‘۔
تشریح:
مختلف ممالک میں دہشت گردی کے اسباب الگ الگ ہوسکتے ہیں ، لیکن کچھ اسباب مشترک بھی ہوسکتے ہیں ، ان میں سے بعض یہ ہیں :
1۔ مذہبی تنگ نظری اور عدم رواداری ۔
2۔ اپنے مذہب اور تہذیب میں دوسروں کو ضم کرنے کی کوشش ۔
3۔ ملک گیری کی ہوس ۔
4- دوسرے ممالک کے قدرتی وسائل پر غاصبانہ نظر ۔
5۔ پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری اور برتری قائم کرنے کی کوشش ۔
6- حق و انصاف سے انحراف۔
7۔ احساس محرومی ۔
8۔ قانونی راستے سے حقوق حاصل کرنے اور ناانصافیوں کو دور کرنے میں رکاوٹ ۔
9۔ معاشی محرومی یعنی کسی خاص قوم کو پس ماندہ بنادینے کی نادانستہ کوشش ۔
10۔ فرقہ وارانہ فساد سے چشم پوشی ، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ۔
دہشت گردی کے سد باب کا واحد ذریعہ ، اسلام کا عطا کردہ عادلانہ نظام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
*’’ اِعْدِلُوْا قف ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی‘‘۔
’’عدل کرو ، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ‘‘۔(سورۃ المائدۃ: 8)
*’’وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ‘‘۔
’’جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کیا کرو ، اللہ تمہیں کتنی اچھی نصیحت کرر ہا ہے ‘‘۔(سورۃ النساء: 58)
*’’ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْاقَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ۔ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا ‘‘
’’ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے قائم رہو او ر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جائو ، گرچہ وہ خود تمہارے ، تمہارے ماں باپ یا رشتہ داروں کے خلاف ہو ، اگر وہ شخص امیر یا فقیر ہے تو ان دونوں کی بہ نسبت اللہ تم سے زیادہ قریب ہے ‘‘۔(شوہر النساء: 135)
ہر شخص کو اس کا حق دیاجائے ، ہر طرح کے ظلم و جور کو مٹایا جائے ، لوگوں کی گردنیں جبر سے آزاد ہوں اور ان کی زبانیں حق کہنے کے لیے تیار ، خود ساختہ تفوق و برتری سے بچا جائے ، اور انسانیت کا احترام کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
*’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ‘‘۔
’’ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت عطا کی ہے ‘‘۔(سورۃ بنی اسرائیل: 69)
*’’ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ‘‘۔
’’لوگو! ہم نے تمہیں ایک مردو عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ، بلاشبہہ اللہ کی نگاہ میں تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ‘‘۔(سورۃ الحجرات:13)
حکومتوں کا یہ فریضہ اور ذمہ داری ہے کہ وہ نسلی ، قبائلی اور مذہبی امتیازات کا لحاظ کیے بغیر تمام باشندوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع دیں اور عقائد و افکار اور تہذیب و تمدن کو بزور مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
*’’ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ‘‘۔
’’دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے ، ہدایت اور ضلالت واضح ہوچکی ہے ‘‘۔(سورۃ البقرۃ: 256)
*’’ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُر ْلا اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا لا اَحَاطَ بِھِمْ سُرَادِقُھَا‘‘
’’ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ظالموں کے لیے ہم نے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے ،جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی ‘‘۔(سورۃ الکہف: 29)
مفاہمت اور رواداری کو فروغ دیاجائے ، مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات اور بامعنی گفتگو کی راہ ہموار کی جائے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی محبت و عظمت پیدا کی جائے ، آخرت کا استحضار اور مرنے کے بعد کی زندگی کا یقین ہو ، اور دنیا کی بے ثباتی،ناپائیداری اور بے وقعتی ذہنوں میں تازہ ہو ، اس لیے کہ دہشت گردی کی ایک اہم وجہ دنیا کی ہوسناکی بھی ہے ، ان سب کے باوجود کچھ شر انگیز سر اٹھائیں تو ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے ۔
دفاع کاحکم :
سوال : ’’اگر کسی گروہ یا فرد کی جان و مال یا عزت و آبرو پر حملہ کیاجائے تو اس کے دفاع کی شرعی حیثیت کیاہے ـ‘‘؟
جواب :’’کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو پر حملے کی صور ت میں اس کو مدافعت کا پورا حق حاصل ہے ‘‘۔
تشریح:
دفاع مظلوم کا ایک فطری حق ہے ، اور ظلم کی مدافعت ،شریعت میں مطلوب اور پسندیدہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
*’’ وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا‘‘۔
’’پھر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کرو ، ان کمزور مردو عورت اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جو اللہ سے فریاد کر رہے ہیں کہ اے رب! ہمیں ان ظالموں کی بستی سے نجات دلا ۔‘‘(سورۃ النساء: 75)
*’’ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ‘‘۔
’’جن مسلمانوں سے کافر جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔‘‘(سورۃ الحج: 39)
اس آیت میں جہاد کا مقصد مظلومیت کاخاتمہ بتلایا گیا ہے ، اس لیے کہ اگر مظلوموں کو دفاع کی اجازت نہ دی جائے اور ان کی مدد نہ کی جائے تو پھر ظلم کا بول بالا ہوگا ، زمین فساد سے بھر جائے گی اور شریف لوگوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا ۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
* ’’ من قتل دون مالہ فھو شھید ومن قتل دون دمہ فھو شھید ومن قتل دون دینہ فھو شھید ومن قتل دون اھلہ فھوشھید‘‘
’’جوکوئی مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے ،جو اپنی جان کی حفاظت میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے ،اور جوکوئی اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے ،اورجس کی جان اہل و عیال کی حفاظت میں چلی جائے وہ شہید ہے ‘‘۔(جامع ترمذی:261/1وغیرہ)
* ’’ جاء رجل الی رسول اللّٰہﷺ فقال یارسول اللّٰہ! أرأیت ان جاء رجل یرید أخذ مالی قال فلا تعطہ مالک، قال أرأیت ان قاتلنی قال فاقتلہ قال أرأیت ان قتلنی قال فانت شھید قال أرأیت ان قتلتہ قال ھو فی النار‘‘ ۔
’’ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ آپؐ کیا کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص میرے پاس سے میرا مال چھیننا چاہے ، آپؐ نے فرمایا کہ اسے مت دو ، کہنے لگا کہ اگر وہ اس کے لیے مجھ سے جنگ کرے تو کیا کروں ، آپؐ نے فرمایا تم بھی اس سے مقابلہ کرو ، کہنے لگا اگر وہ مجھے قتل کر دے تو کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا کہ تم شہید ہوگے ، انہوں نے پوچھا کہ اگر میں اسے قتل کردوں تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہوگا ‘‘۔(صحیح مسلم: 77کتاب الایمان)
ابو المخارق اپنے والد سے نقل کرتے ہیں :
’’ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرا مال لینے کے لیے میرے پاس آئے تو میں کیا کروں ؟ آپؐ نے فرمایا کہ اسے اللہ کی سزا یاد دلاؤ ، انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو ، آپؐ نے فرمایا کہ اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد مانگو ، انہوں نے دریافت کیا کہ اگر میرے پاس پڑوس میں مسلمان نہ ہوں تو ؟ آپؐ نے فرمایا کہ حکومت سے مدد مانگو ، کہا کہ اگر وہ بھی مجھ سے دور ہو تو ؟ آپؐ نے فرمایا کہ اپنے مال کی حفاظت میں جنگ کرو یہاں تک کہ شہادت کا مرتبہ حاصل کر لو ، یا اپنے مال کو بچا لو ‘‘۔(فتح الملھم: 284/1)
حاصل یہ ہے کہ اسلام نے فرد کو اپنی جان ، مال ، عزت و آبرو اور دین کی حفاظت کا حکم دیا ہے ، ان پر حملہ ہو تو ہرشخص کو ان کی مدافعت کا پورا حق حاصل ہے ، بلکہ جنگ کی مشروعیت کی حکمت بھی یہی ہے ، کیونکہ اسلام نے صرف دو حالتوں میں جنگ کی اجازت دی ہے ، ایک یہ کہ کسی کی جان ، مال ، عزت اور وطن خطرے میں ہو ، دوسرے یہ کہ مذہبی آزادی حاصل نہ ہو ،(فقہ السنۃ:91/2)گویا کہ جہاد صرف جبر و استبداد کے خلاف ہے اور جس کا مقصد جارح کو ظلم اور جارحیت سے باز رکھنا ہے ۔
مدافعت کے حدود :
اسلام میں ہر چیز کے لیے حدود اور ضابطے مقرر ہیں ، جن کا لحاظ ضروری ہے ، مدافعت کے لیے شریعت نے درج ذیل اصول اور طریقے متعین کیے ہیں :
1۔ اپنی طرف سے قتل و قتال کی ابتدا نہ کر ے ، جیساکہ گزشتہ حدیث میں اس کی صراحت ہے ۔
2۔ جس حملہ سے دفاع کر رہا ہو ، وہ شرعاً ظلم و عدوان کی حد میں آتا ہو ۔
3۔ حملہ کا بالفعل وقوع ہو ، ایسا نہ ہو کہ صرف دھمکی کی بنیاد پر ہی دفاعی طرز عمل اختیار کرکے قتل و قتال شروع کردے ۔
4۔ دفاع کرتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس میں کم از کم تشدد ہو ، جیسے حملہ آور شور مچانے سے بھاگ جائے تو اسے مارنا درست نہیں ۔
5۔ دفاع کے علاوہ کوئی اور راستہ ممکن نہ ہو ، یعنی جنگ کی اجازت آخری تدبیر کے طورپر کر ے ۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ :754/5)چنانچہ ملک العلماء علامہ کاسانی لکھتے ہیں :
’’اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ جس نے کسی ایسے شخص کو جان سے مار ڈالنا چاہا جس کا خون حلال نہیں ہے تو دیکھاجائے گا کہ جس شخص پر کوئی تلوار لے کر حملہ آور ہوا ہے ، کیا وہ اپنا بچاؤ اسے قتل کیے بغیر کرسکتا ہے ، اگر وہ ایسا کرسکتا ہو تو پھر حملہ آور کو قتل کرنا درست نہیں ، اور اگر اس کے بغیر دفاع ممکن نہیں ہے تو پھر قتل کی اجازت ہے ، اس لیے کہ یہ مدافعت کے لیے ضروری ہے اور اگر کوئی شخص اس پر تلوار تان دے تو اس کے لیے قتل کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ دفاع صرف قتل ہی کے ذریعہ ممکن ہے ، کیونکہ اگر وہ لوگوں سے مدد طلب کرے گا تو مدد آنے سے پہلے ہی حملہ آور اس کا کام تمام کردے گا ‘‘۔(بدائع الصنائع: 92/7)
اور موسوعہ فقہیہ میں ہے کہ :
’’دفا ع کرنے والا جہاں تک ممکن ہوسکے آسان سے آسان تر طریقہ اختیار کرے ، اگر صرف زبان سے یا لوگوں سے مدد مانگنے سے کام چل جائے تو مارنا حرام ہے ، اور اگر ہاتھ کے ذریعہ دفا ع ممکن ہو تو پھر کوڑا استعمال کرنا حرام ہے ، اور اگر کوڑے سے دفاع ممکن ہو تو لاٹھی کا استعمال حرام ہے ، اگر جسم کے کسی حصے کو کاٹ کر دفاع ممکن ہو تو قتل ممنوع ہے ،اور اگر آخری درجے میں قتل تک نوبت پہنچ جائے تو یہ بھی جائز ہے ، کیونکہ یہ ایک دفاعی ضرورت ہے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقھیۃ: 106/28)
6۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور دفاع کرنے میں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں اس سے بڑے شر میں مبتلا نہ ہوجائے ۔