بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
مسئلہ ایمان و کفر
ولی ﷲ مجید قاسمی ۔
ایمان سب سے قیمتی دولت اور بیش بہا
نعمت ہے ۔رائی کے دانہ کے بقدر معمولی سا ایمان بھی باعث دخول جنت ہے ۔
اور کفر فطرت سے بغاوت کا دوسرا نام ہے ۔کافر اپنے اندر طبعی طور موجود وحدانیت کے اعتراف کے جذبے کو چھپاتا ہے اور بے جا تاویل و تحریف کی گندگی میں حق کو دبا دیتا ہے اور اپنے دل و دماغ اور عقل و دانائی پر پردہ ڈال دیتا ہے اور حقیقت سے آنکھ بند کرکے اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے ۔
لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ .
ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔(سورہ الاعراف : 179)
دین اسلام میں ایمان و کفر کا معاملہ سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اس لئے قرآن پاک کی سب سے پہلی سورہ میں سیدھے راستے پر چلنے اور غلط راہ سے بچنے کی دعا مانگی گئی ہے اور دوسری سورہ کے شروع ہی میں سیدھ راستے یعنی ایمان کی وضاحت اور کفر و نفاق کی حقیقت بیان کی گئی ہے اور پھر اس سورہ کے آخر میں بھی ایمانیات کا تذکرہ کیا گیا ۔تاکہ ایک دوسرے کو خلط ملط نہ کیا جاسکے کیونکہ کسی وفادار کو غداروں کی صف میں داخل کردینا نہایت سنگین جرم ہے اور اس بھی زیادہ سنگین جرم یہ ہے کہ کسی غدار کو وفاداروں کی فہرست میں شامل کرلیا جائے ۔فرمان باری تعالی ہے:
* یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ فَتَبَیَّنُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۔
ٍاے ایمان والو ! جب تم اللہ کے راستے میں سفر کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو، اور جو شخص تم کو سلام کرے تو دنیوی زندگی کا سامان حاصل کرنے کی خواہش میں اس کو یہ نہ کہو کہ : تم مومن نہیں ہو۔ کیونکہ اللہ کے پاس مال غنیمت کے بڑے ذخیرے ہیں۔ تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے۔ پھر اللہ نے تم پر فضل کیا۔ لہذا تحقیق سے کام لو، بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب سے پوری طرح باخبر ہے۔(سورہ النسآء : 94)
تفسیر:
اللہ کے راستے میں سفر کرنے سے مراد جہاد کے لئے سفر کرنا ہے، ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا کہ ایک جہاد کے دوران کچھ غیر مسلموں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے لئے صحابہ کرام کو سلام کیا، وہ صحابہ یہ سمجھے کہ ان لوگوں نے صرف اپنی جان بچانے کے لئے سلام کیا ہے اور حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہوئے، چنانچہ انہوں نے ایسے لوگوں کو قتل کردیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ اصول بیان کردیا گیا کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے اسلام لائے اور اسلام کے تمام ضروری عقائد کا اقرار کرلے تو ہم اسے مسلمان ہی سمجھیں گے اور اس کے دل کا حال اللہ پر چھوڑیں گے، لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آیت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کھلے کھلے کفریہ عقائد رکھتا ہو تو صرف السلام علیکم کہہ دینے کی بنا پر اسے مسلمان سمجھا جائے گا۔ شروع میں تم بھی غیر مسلم ہی تھے، اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تم مسلمان ہوئے، مگر تمہارے زبانی اقرار کے سوا تمہارے سچا مسلمان ہونے کی کوئی دلیل نہیں تھی، تمہارے ظاہری اقرار ہی کی بنا پر تمہیں مسلمان مانا گیا۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
* یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۔
اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔(سورہ الحجرات :11)
تفسیر:
معاشرے میں جن باتوں سے لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، ان آیتوں میں ان باتوں کو نہایت جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ کسی دوسرے کا کوئی ایسا برا نام رکھ دیا جائے جو اسے ناگوار ہو۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ایسا کرنا گناہ ہے، اور اس سے خود تم گنہگار ہو گے، اور خود تم پر گنہگار ہونے کا نام لگے گا، اور کسی مسلمان پر یہ نام لگنا کہ وہ گنہگار ہے، ایمان لانے کے بعد بہت بری بات ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی دوسرے پر برا نام لگا رہے تھے، اور اس عمل سے خود تم پر برا نام لگ گیا۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
علامہ ابن عبدالبر مالکی کہتے ہیں کہ برے القاب سے مراد کسی مسلمان کو کافر و فاسق بنانا ہے اور یہ مفہوم مذکورہ بالا حدیث کے موافق ہے اور قرآن و حدیث میں کسی مسلمان کو کافر یا فاسق بنانے کی نہایت وضاحت کے ساتھ ممانعت آئی ہے۔(التمہید 21/17)
اور رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا۔
اگر کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہ تو وہ کفر یقینا ان دونوں میں سے کسی ایک پر لوٹ آتا ہے (صحیح بخاری:6103۔صحیح مسلم:60.)
اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا، إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ ".
جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو وہ ان میں سے ایک پر لوٹ کے آئے گا اگر وہ واقعتا کافر ہے تو ٹھیک ہے ورنہ تو کہنے والے پر لوٹ کے آئے گا۔(صحیح مسلم:60)
حضرت ابوذر غفاری سے منقول ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا:
” لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ، إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ، إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ ".
تم میں سے کوئی کسی پر فسق اور کفر کی تہمت نہ لگائے ورنہ تو اسی پر لوٹ کر آئے گا اگر جس کو کہا گیا ہے وہ ایسا نہ ہو۔
(صحیح بخاری 6045.مسلم 61)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جسے کافر کہا گیا ہے اگر وہ حقیقتاً کافر نہیں ہے تو کہنے والے کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ اس گناہ کے وبال کے نتیجے میں کفر میں مبتلا ہو جائے (1)
اور مفتی شفیع صاحب "مختصر مشکل الآثار” وغیرہ کے حوالے سے اس حدیث کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
کسی کو کافر کہنے سے اس جگہ یہ مراد ہے کہ اس کے عقائد و خیالات کفر ہیں اگر فی الواقع اس کے عقائد میں کوئی چیز کفر کی نہیں بلکہ سب عقائد ایمان کے ہیں تو گویا ایمان کو کفر کہنا لازم آئے گا اور ایمان کو کفر کہنا بلاشبہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب ہے قران کا ارشاد ہے:
من يكفر بالايمان فقد حبط عمله.
جو شخص ایمان سے انکار کرے اس کے عمل ضائع ہو گئے۔
حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے عقائد میں کوئی چیز کفر کی نہیں خواہ اعمال اس کے کتنے ہی خراب ہوں اس کو کافر کہنا جائز نہیں بلکہ ایسے شخص کو کافر کہنے سے خود کہنے والے کا ایمان خطرہ میں پڑ جاتا ہے کیونکہ اس کو کافر کہنے کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ گویا ایمان کو کفر کہہ رہا ہے۔
اس تقریر سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ جس شخص کے عقائد میں کوئی عقیدہ کفریہ ہے اس کی وجہ سے اگر کسی نے اس کو کافر کہہ دیا تو کہنے والا باتفاق کافر نہیں ہوگا کیونکہ اس نے ایمان کو کفر قرار نہیں دیا۔ اگرچہ حضرات فقہاء اور علمائے محققین نے ایسی حالت میں بھی اس کو کافر کہنے میں جلد بازی کرنے سے سختی سے منع کیا ہے جب تک کہ اس کے عقیدہ کفریہ یا کلمہ کفریہ کی کوئی جائز تاویل ہو سکتی ہے اس کو کافر کہنا جائز نہیں سمجھا۔ تاہم اگر کسی کے عقیدہ یا کلمہ کفر کو سن کر جلد بازی میں کافر کہہ دیا تو کہنے والا باجماع فقہاء کافر نہیں ہوگا۔
اسی طرح اگر کسی شخص کو کسی کے متعلق غلط خبر یا غلط فہمی یا کسی اور وجہ سے کسی عقیدہ کفریہ کا دھوکہ اور مغالطہ ہوا مثلا اس کو خیال ہوا کہ فلاں آدمی نے معاذ اللہ کسی نبی کی توہین کی ہے یا اللہ کی شان میں گستاخی کی ہے ایسی صورت میں لازم تو یہ تھا وہ اس خیال کی تحقیق کرتا اور خلاف واقعہ پاکر بدگمانی سے باز آجاتا لیکن اس نے بے احتیاطی سے محض اپنے خیال کی بنا پر اس کو کافر کہہ دیا اس صورت میں بھی کہنے والے نے چونکہ ایمان کو کفر نہیں کہا اس لیے کہنے والا کافر نہیں ہوگا۔ یہ دوسری بات ہے کہ بے احتیاطی کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔
حضرات فقہاء نے اس معاملے میں اس درجہ احتیاط کا حکم دیا ہے کہ اگر کسی شخص سے کوئی مشتبہ کلام سرزد ہو جائے جس میں سو احتمال میں سے ننانوے احتمالات مضمون کفر ہونے کے ہوں اور صرف ایک احتمال عبارت میں اس کا بھی ہو اس کے کوئی صحیح اور جائز معنی بن سکتے ہیں تو مفتی پر لازم ہے کہ ننانوے احتمالات کو چھوڑ کر اسی ایک احتمال کی طرف مائل ہو اور اس کو کافر کہنے سے باز رہے بشرطیکہ وہ خود اپنے کسی قول و فعل سے اس کی تصریح نہ کر دے کہ اس کی مراد وہی معنی ہے جن سے کفر عائد ہوتا ہے۔(جواہر الفقہ 183/1)
حضرت ثابت ضحاک سے منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَمَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا، فَهُوَ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ، فَهُوَ كَقَتْلِهِ ".
جو کوئی کسی مسلمان پر لعنت کرے تو وہ اس کو قتل کرنے کی طرح ہے ۔اور جو کوئی کسی مسلمان پر کفر کی تہمت لگائے تو وہ بھی اس کو قتل کرنے کی طرح ہے۔(صحیح بخاری 6047)
اسی طرح سے کسی غیرمسلم کو مسلمانوں کی صف میں شامل کرنے کی بھی سخت ممانعت ہے ۔ارشاد ربانی ہے :
* اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا .
کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ایسے شخص کو ہدایت پر لاؤ جسے اللہ (اس کی خواہش کے مطابق) گمراہی میں مبتلا کرچکا ؟ اور جسے اللہ گمراہی میں مبتلا کردے، اس کے لیے تم ہرگز کبھی کوئی بھلائی کا راستہ نہیں پاسکتے۔
(سورہ النساء:88)
صاحب جلالین نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے :
اي تعدوهم من جملة المهتدين.والاستفہام للموضعین للانکار۔
یعنی کیا تم کافروں کو اہل ہدایت میں سے شمار کرنا چاہتے ہو ۔(تفسیر جلالین/ 76)
* وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ۔
اور (اے پیغمبر) ان (منافقین) میں سے جو کوئی مرجائے، تو تم اس پر کبھی نماز (جنازہ) مت پڑھنا، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔ یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا، اور اس حالت میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے۔(سورہ التوبہ :84)۔
امام الحرمین کہتے ہیں:
ادخال كافر في الملة الاسلامية او اخراج مسلم عنها عظيم في الدين.
کسی کافر کو اسلام میں داخل سمجھنا یا کسی مسلمان کو اسلام سے خارج کرنا دونوں دینی اعتبار سے سنگین جرم ہیں ۔(شرح الشفاء لملا علی قاری500/2).
اور مفتی محمّد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
جس طرح فروعی اختلافات کی وجہ سے یا کسی محتمل اور مبہم کلام کی وجہ سے یا کسی ایسے عقیدہ و کلمہ کی وجہ سے جس کے کفر ہونے میں علماء کا اختلاف ہو کسی مسلمان کو کافر کہنا سخت بے احتیاطی اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے کیونکہ اس صورت میں ایمان کو کفر کہنا لازم اتا ہے ٹھیک اسی طرح کسی یقینی کافر کو مسلمان ٹھہرانا بھی نہایت خطرناک جرم اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے کیونکہ اس سے کفر کو ایمان قرار دینا لازم اتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ایمان کو کفر یا کفر کو ایمان قرار دینا اگر اپنے اختیار و ارادہ سے ہو تو بلاشبہ کفر ہے ورنہ کفر کے خطرے سے تو خالی نہیں۔
علاوہ ازیں کسی کافر کو مسلمان کہہ دینا محض ایک لفظی سخاوت نہیں بلکہ پوری ملت اور اسلامی معاشرہ پر ظلم عظیم ہے کیونکہ اس سے پوری ملت کا معاشرہ متاثر ہوتا ہے نکاح ،نسب ،میراث ،ذبیحہ، امامت، نماز اور اجتماعی اور سیاسی حقوق سبھی پر اثر پڑتا ہے۔ اس لیے کفر کی وہ صورت جس کو حسب تقریر مذکور اصطلاح شرع میں زندقہ اور الحاد کہا جاتا ہے جس میں ایک شخص خدا اور رسول کے ماننے کا دل سے اور زبان سے معترف بھی ہے اور نماز، روزہ، حج زکوۃ وغیرہ شعائر اسلام کا پابند بھی ہے مگر اس کے ساتھ کچھ عقائد کفریہ رکھتا ہے یا ضروریات دین میں تاویل باطل کر کے احکام دین کی تحریف کرتا ہے اس کا معاملہ نہایت خطرناک مزلۃ الاقدام ہے. اس میں ذرا سی بے احتیاطی ایک حقیقی مسلمان کو اسلام سے خارج بھی کر سکتی ہے اور ایک دشمن اسلام کافر کو اسلامی برادری کا مار آستین بھی بنا سکتی ہے اور یہ دونوں خطرے ملت کے لیے بڑے عظیم اور ان کے عواقب و نتائج نہایت دور رس ہیں۔(جواہر الفقہ 105/1)
ایمان و کفر کی حقیقت:
کفر ایمان کی ضد ہے اس لئے کفر کی حقیقت جاننے سے پہلے ایمان کی تعریف جاننے کی ضرورت ہے ۔
ایمان و اسلام کی تعریف:
ضروریات دین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قلبی تصدیق کا نام ایمان ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ اطاعت کا اقرار بھی ہو۔
اور رسول ﷲ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کا اقرار کا نام اسلام ہے بشرطیکہ کہ اس کے ساتھ قلبی تصدیق ہو۔(2)
ضروریات دین:
"جو چیزیں ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بذریعہ تواتر اس درجہ شہرت و بداہت کے ساتھ ثابت ہوں کہ ہر خاص و عام اس سے باخبر ہو ان کو فقہا اور متکلمین کی اصطلاح میں ضروریات دین (معلوم من الدين بالضرورة) کہا جاتا ہے”۔(جواہر الفقہ 61/1)
نبی ﷺ سے منقول احکام کی ثبوت اور دلالت کے اعتبار سے متعدد قسمیں ہیں جن میں سے ایک قطعی الثبوت والدلالہ ہے ۔اور اسی طرح کے احکام کے انکار وغیرہ کا نام کفر ہے ۔
قطعی الثبوت کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن مجید یا ایسی حدیث میں مذکور ہو جس کی روایت کرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ہر زمانہ اور ہر صدی میں مختلف طبقات اور مختلف شہروں کے لوگ اس کثرت سے رہے ہوں کہ ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق کر لینا محال سمجھا جائے اسی کو اصطلاح میں تواتر اور ایسی احادیث کو احادیث متواترہ کہتے ہیں۔
اور قطعی الدلالہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قران مجید یا حدیث متواتر سے ثابت شدہ حکم اپنے مفہوم و مراد کو صاف صاف ظاہر کرتی ہو اس میں کسی قسم کی الجھن یا ابہام نہ ہو کہ جس میں کسی کی تاویل چل سکے۔
پھر اس قسم کے احکام قطعیہ اگر مسلمانوں کے ہر طبقہ خاص و عام میں اس طرح مشہور و معروف ہو جائیں کہ ان کا حاصل کرنا کسی خاص اہتمام اور تعلیم و تعلم پر موقوف نہ رہے بلکہ عام طور پر مسلمانوں کو وراثتا وہ باتیں معلوم ہو جاتی ہوں جیسے نماز، روزہ ،حج اور زکوۃ کا فرض ہونا ۔چوری، شراب خوری وغیرہ کا گناہ ہونا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا وغیرہ تو ایسے احکام قطعیہ کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور جو اس درجہ مشہور نہ ہوں وہ صرف قطعیات کہلاتے ہیں ضروریات نہیں۔(دیکھیے :جواہر الفقہ113/1)
غرضیکہ صحابہ کرام کے لیے ہر اس بات کو ماننا ضروری تھا جس کو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنیں اس لئے کہ ان کے حق میں وہ ثابت شدہ تھااور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں تھی کہ نبی ﷺ براہ راست انھیں حکم دے رہے ہیں اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں نہیں نہ رہے اور دینی احکام بالواسطہ ہمیں معلوم ہوئے تو پھر ان باتوں کا ماننا شرط ہوا جو ایسے قطعی اور یقینی ذریعے سے وضاحت کے ساتھ ثابت ہوں جن کے بارے میں کسی شک کو شبہے کی گنجائش نہ جیسے کہ قرآنی آیتیں اور متواتر روایتیں یا عملی تواتر سے ثابت شدہ چیزیں ہیں جیسے نمازوں کی تعداد۔ تعداد رکعت، زکوۃ کی تفصیلات حج وغیرہ کے احکام۔
حاصل یہ ہے کہ ایمان درحقیقت ان غیبی حقیقتوں کے ماننے کا نام ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام نے بتائی ہیں اور زبان سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کے اعتراف کا نام اسلام ہے ۔اور رسولوں کی بات کو نہ ماننے اور جھٹلانے کا نام کفر ہے ۔(3)
کفر کی حقیقت:
قطعی اور یقینی ذریعے سے ثابت اور معلوم شدہ دین کے کسی بھی واضح حکم کے انکار و تکذیب کا نام کفر ہے ۔نیز کفر ایسے عمل کو بھی کہا جاتا ہے جس کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ کفر ہے جیسے قرآن مجید کو گندگی میں پھینک دینا یا بت کو سجدہ کرنا وغیرہ (4)
واضح رہے کہ ایمان متعدد چیزوں کی تصدیق و تسلیم کا نام ہے اور کفر کے لئے ان تمام کی تکذیب و انکار ضروری نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کا انکار ،اعراض ،شک اور استہزاء کافی ہے ۔
لغوی اعتبار سے کفر کے معنی ہیں ڈھانپنا ،چھپانا ،پردہ پوشی کرنا اور اسی اعتبار سے تاریک رات ۔سمندر ، اور زرہ کو کافر کہا جاتا ہے کہ یہ سب اپنے اندر کی چیزوں کو چھپا لیتے ہیں ۔کسان اور کاشت کار بھی کافر کہا جاتا ہے کہ وہ دانے کو مٹی میں چھپا دیتا ہے اور اسی مناسبت سے کفارہ گناہ کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔اور کافر اصطلاحی بھی بیجا تاویل اور تحریفات کے ذریعے حق کو چھپا لیتا ہے ۔
اور لغوی مفہوم کے اعتبار سے کفر کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ کفر اکبر اور کفر اصغر۔
کفر اکبر سے مراد اصطلاحی کفر اور کفر اصغر سے مراد گناہ کبیرہ۔
قران و حدیث میں عام طور پر کفر کا لفظ کفر اکبر ہی کے لیے استعمال کیا گیا ہے لیکن بعض جگہوں پر کفر کا لفظ کفر اصغر کے لئے بھی آیا ہے ۔اور اسی کو کفر نعمت ،کفر حقوق۔کفر مجازی اور کفر دون کفر بھی کہا جاتا ہے ۔
کفر کی قسمیں:
1-کفر انکار و جحود:
دل میں وحدانیت و رسالت وغیرہ کا یقین ہولیکن زبان سے انکار کرے ۔جیسے کہ فرعون اور اس کی قوم کا انکار قرآن پاک میں ہے :
وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسۡتَیۡقَنَتۡہَاۤ اَنۡفُسُہُمۡ ظُلۡمًا وَّ عُلُوًّا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ۔
اور اگرچہ ان کے دلوں کو ان (کی سچائی) کا یقین ہوچکا تھا، مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کیا۔ اب دیکھ لو ان فساد مچانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟ (سورہ النمل :14)
آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں موجود یہودی بھی اسی زمرے میں شامل ہیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۔
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی (یعنی قرآن) جو اس (تورات) کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے (تو ان کا طرز عمل دیکھو) باوجودیکہ یہ خود شروع میں کافروں (یعنی بت پرستوں) کے خلاف (اس کتاب کے حوالے سے) اللہ سے فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ مگر جب وہ چیز ان کے پاس آگئی جسے انہوں نے پہچان بھی لیا، تو اس کا انکار کر بیٹھے۔ پس پھٹکار ہے اللہ کی ایسے کافروں پر۔(سورہ البقرۃ آیت نمبر 89)
تفسیر:
جب یہودیوں کی بت پرستوں سے جنگ ہوتی یا بحث و مباحثہ ہوتا تو وہ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ ! آپ نے تورات میں جس آخری نبی کی خبر دی ہے اسے جلدی بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر بت پرستوں پر فتح حاصل کریں، مگر جب وہ نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے تو وہ حسد میں مبتلا ہوگئے کہ انہیں بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں بھیجا گیا ؟ چنانچہ یہ جان لینے کے باوجود کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہ ساری علامتیں صادق آتی ہیں جو تورات میں نبی آخرالزماں کی بیان کی گئی ہیں انہوں نے آپ کو ماننے سے سے انکار کردیا۔( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
2-کفر عناد و استکبار :
دل و زبان سے وحدانیت و رسالت وغیرہ کا اقرار کرنا مگر بحیثیت دین اسے اختیار نہ کرنا۔
اور اس کا سبب حسد و نخوت اور تکبر ہوتا ہے جیسے کہ ابوطالب بے جا قومی نخوت و غیرت اور ابوجہل وغیرہ حسد کی وجہ سے ایمان سے محروم رہے اور ابلیس تکبر کی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ۔
3-کفر نفاق و زندقہ :
زبان سے اقرار اور دل سے انکار کا نام نفاق ہے ۔بصیرت اور عزیمت کی کمزوری نفاق کی بنیاد ہے اور جھوٹ اور دکھاوا اس کی بیساکھی ہے یہ چاروں چیزوں اکھٹی ہوجائیں تو نفاق مکمل ہوجاتا ہے ۔
(دیکھئے مدارج السالکین 337/1-358)
دل کا حال صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اس لئے دل میں چھپے ہوۓ کفر و نفاق کے جاننے کا کوئی قطعی ذریعے باقی نہیں رہا ۔البتہ نفاق کی ایک قسم الحاد و زندقہ کا پتہ لگایا جاسکتا ہے جو عام نفاق سے زیادہ خطرناک ہے ۔کیونکہ وہ اسلام کا دعوی کرتا ہے اور اسلامی شعائر و عبادات پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اور انکار نہیں بلکہ تاویل کرتا ہے اور فقہاء کا اتفاق ہےکہ تاویل کے ساتھ انکار کفر نہیں ہے مگر الحادی تاویل اس سے الگ ہے کہ درحقیقت وہ تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے ۔اس لئے ان کی تکفیر کی جائے گی۔علامہ ابن تیمیہ قرامطہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ تاویل کرنے والے تھے تو ان کی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں تھی بلکہ خوارج اور زکاۃ دینے سے انکار کرنے والوں کی تاویل ان سے بہتر تھی چنانچہ عہد صدیقی میں جن لوگوں زکاۃ کا انکار کیا وہ نماز و روزہ کے پابند تھے اور زکاۃ کی فرضیت کے قائل تھے البتہ وہ یہ تاویل کرتے تھے کہ قرآن میں نبی کریم ﷺ کو زکاۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔خذ من اموالهم صدقة. اس لئے غیر نبی کو زکاۃ دینا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے اس لئے وہ حضرت ابوبکر کو زکاۃ ادا نہیں کرتے تھے اور صحابہ کرام نے اس کی وجہ سے مرتد ہوجانے کی بنیاد پر ان سے جنگ کی ۔(دیکھئے:فتاوی ابن تیمیہ 297/4.جواہر الفقہ 83/1-75)
الحاد و زندقہ کی حقیقت:
الحاد و زندقہ یہ ہے کہ کوئی زبانی طور پر رسول کی ہدایات و تعلیمات کو تسلیم کرے لیکن اس کی خود ساختہ ایسی تاویل کرے جو اجماعی مفہوم کے خلاف ہو ۔چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں :
جو ظاہری طور پر دین کا اقرار کرے لیکن دین کی بعض ان چیزوں کی جو قطعی طور پر ثابت ہیں ایسی تفسیر بیان کرے جو صحابہ، تابعین اور اجماع امت کے خلاف ہو تو وہ زندیق ہے مثلا یہ اقرار کرے کہ قرآن حق ہے اور جو اس میں جنت و دوزخ کا ذکر ہے وہ بھی صحیح ہے لیکن جنت سے مراد وہ خوشی و فرحت ہے جو اچھے اخلاق سے پیدا ہوتی ہے اور دوزخ سے مراد وہ ندامت ہے جو برے اخلاق کے سبب حاصل ہوتی ہے اور خارج میں نہ کوئی جنت ہے نہ دوزخ پس یہ شخص زندیق ہے(5)۔(دیکھئے جواہر الفقہ64/1)
نیز وہ لکھتے ہیں:
پھر تاویل کی دو قسمیں ہیں ایک تاویل تو وہ ہے جو کتاب و سنت اور اجماع امت کے کسی قطعی بات کے مخالف نہیں ہیں اور ایک تاویل وہ ہے جو ان مذکورہ چیزوں سے ثابت شدہ کسی حکم قطعی کے خلاف ہو یہ دوسری شکل زندقہ ہے۔۔۔۔۔۔جیسے کوئی کہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبوہ ہیں لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کسی شخص کا نام نبی رکھنا جائز نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اور مصداق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے اماموں میں موجود ہیں یعنی اللہ تعالی کی طرف سے کسی انسان کا مخلوق کی طرف مبعوث ہونا اس طور پر کہ اس کی اطاعت فرض ہو اور وہ گناہوں سے معصوم ہو اور اس کی رائے میں کوئی غلطی ہو تو اس پر باقی نہیں رکھا جاتا ہے تو وہ زندیق ہے ۔(دیکھئےجواہر الفقہ 66/1)
نفاق کی اس قسم کو قران میں الحاد کہا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخۡفَوۡنَ عَلَیۡنَا ؕ اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ ۙ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ۔
جو لوگ ہماری آیتوں کے بارے میں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے چھپ نہیں سکتے۔ بھلا بتاؤ کہ جس شخص کو آگ میں ڈال دیا جائے، وہ بہتر ہے، یا وہ شخص جو قیامت کے دن بےخوف و خطر آئے گا (اچھا) جو چاہو کرلو یقین جانو کہ وہ تمہارے ہر کام کو خوب دیکھ رہا ہے۔(سورہ فصلت : 40)
تفسیر:
ٹیڑھا راستہ اختیار کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان آیتوں کو ماننے سے انکار کیا جائے، اور یہ بھی کہ انہیں غلط سلط معنی پہنائے جائیں۔ آیت کی وعید دونوں صورتوں کو شامل ہے۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور حدیث میں اسے زندقہ کہا گیا ہے ۔حضرت نافع بیان کرتے ہیں:
بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قُعُودًا، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ : إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ – لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ – فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : بَلَغَنِي أَنَّهُ أَحْدَثَ حَدَثًا ، فَإِنْ كَانَ كَذَلِكَ فَلَا تَقْرَأَنَّ عَلَيْهِ مِنِّي السَّلَامَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي مَسْخٌ وَقَذْفٌ، وَهُوَ فِي الزِّنْدِيقِيَّةِ، وَالْقَدَرِيَّةِ ".
ہم حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ شام کے فلاں شخص نے آپ کو سلام کہا ہے حضرت عبداللہ نے کہا مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ اس نے کوئی نئی بات ایجاد کی ہے اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو میری طرف سے اسے ہرگز سلام مت کہنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میری امت میں کچھ لوگوں کو مسخ کر دیا جائے گا اور ان پر پتھر برسائے جائیں گے اور یہ معاملہ زندیق اور قدریہ کے ساتھ کیا جائے گا۔
(مسند احمد6208. )قال الهيثمي رجاله رجال الصحيح.(مجمع الزوائد 206/7)
قال السيوطي : اسناده صحيح.( الخصائص الكبرى 148/2)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
المنافق في عہد رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الزنديق اليوم ۔
آج کے زندیق رسول ﷲ ﷺ کے عہد کے منافق ہیں۔(تفسير ابن كثير66/1۔تفسیر فی قلوبھم مرض ۔سورہ البقرۃ)
اگر مطلقاً تاویل کسی کو کفر سے بچانے کے لئے کافی ہو تو پھر شیطان بھی کافر نہیں رہیگا کہ وہ بھی اپنے فعل کی تاویل پیش کررہا تھا :
خلقتني من نار وخلقته من طين.
اس نے نہ تو اللہ کا انکار کیا اور نہ اس کی علم قدرت کا اور نہ کسی اور صفت کا اور نہ ربوبیت سے سرتابی کی بلکہ اس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کا سجدہ کرنے سے انکار کیا وہ کہہ سکتا تھا کہ میں سب سے زیادہ توحید کا قائل ہوں۔
بلکہ کوئی بت پرست کافر نہیں رہ جائے گا کہ وہ بھی کچھ نہ کچھ تاویل رکھتے ہیں بلکہ ان کی بعض تاویلیں تو خود قرآن میں مذکور ہیں مثلاََ:
ما نعبدهم الا ليقربونا الى الله زلفى.
لہذا وہ تاویل جو ضروریات دین کے خلاف کی جائے وہ تاویل نہیں بلکہ تحریف اور الحاد ہے اور باجماع امت کفر ہے.
(دیکھیے جواہر الفقہ 82/1)
4-کفر اعراض :
کفر اعراض یہ ہے کہ کوئی شخص نبی و رسول کی صراحتا تصدیق و تکذیب سے اعراض کرے ،نہ ان کی بات کو مانے اور نہ مخالفت کرے ،درج ذیل آیت میں کفر کی اسی قسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :
مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَمَّاۤ اُنۡذِرُوۡا مُعۡرِضُوۡنَ ۔
ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کسی برحق مقصد کے بغیر اور کسی متعین میعاد کے بغیر پیدا نہیں کردیا۔ اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ اس چیز سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے انہیں خبردار کیا گیا ہے۔(سورہ الاحقاف : 3)
5-کفر شک :
جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہو ان میں سے کسی کے بارے میں شک کرنا گرچہ وہ اجمالی طور پر وحدانیت ، رسالت اور آخرت وغیرہ پر ایمان رکھتا ہو ۔چنانچہ سورہ کہف میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا ہے جو قیامت کے بارے میں شک میں مبتلا تھا اور قرآن میں اسے کفر کہا گیا ۔
وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا ۔قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰٮکَ رَجُلًا ۔
اور میرا خیال یہ ہے کہ قیامت کبھی نہیں آئے گی، اور اگر کبھی مجھے اپنے رب کے پاس واپس بھیجا بھی گیا، تب بھی مجھے یقین ہے کہ مجھے اس سے بھی اچھی جگہ ملے گی۔ اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا : کیا تم اس ذات کے ساتھ کفر کا معاملہ کر رہے رہو جس نے تمہیں مٹی سے، اور پھر نطفے سے پیدا کیا، پھر تمہیں ایک بھلا چنگا انسان بنا دیا ؟(سورہ الکہف : 36-37)
حاصل یہ ہے کہ قطعی اور یقینی ذریعے سے ثابت اور معلوم شدہ کسی واضح اور صریح عقیدے یا حکم سے انکار و اعراض کرنا،اجماعی مفہوم کے خلاف تاویل کرنا یا ان کے بارے میں شک میں مبتلا ہونا کفر ہے ۔
انکار و اعراض وغیرہ خواہ دل کے ذریعے ہو مثلاً نبی کی صداقت و حقانیت میں دل میں شک کرے یا انھیں جھوٹا سمجھے یا ان کی تعلیمات کو جھٹلائے یا حرام کاموں کو دل سے اچھا سمجھے ۔
یا زبان کے ذریعے ہو مثلاً زبان سے کفریہ بات کہے،اللہ تعالیٰ یا نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرے ۔یا ان کے کسی حکم کا مذاق اڑائے۔
یا عمل کے ذریعے ہو مثلاً بت کو سجدہ کرے یا کلام پاک کی بے حرمتی کرے ۔
کفر و ارتداد :
کفر کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کوئی اسلام قبول ہی نہ کرے اور اپنے باپ دادا کے مذھب پر قائم رہے ۔اسلامی حکومت میں رہنے والے اس طرح کے کافروں پر اسلام قبول کرنے کے لئے کسی طرح کا جبر و دباؤ کا معاملہ نہیں کیا جائے گا بلکہ انھیں اپنے مذھب پر چلنے کی آزادی دی جائے گی ۔
اور دوسری شکل یہ ہے دین اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرے اسے ارتداد کہا جاتا ہے،جیسا کہ قرآن میں ہے:
ؕ وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ .
اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دے، اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوجائیں گے، ایسے لوگ دوزخ والے ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔(سورہ البقرۃ 217)
مرتد کو سمجھانے کی کوشش کی جائے گی اور اگر اس کے باوجود وہ باز نہ آئے تو اسلامی حکومت اس پر قتل کی شرعی سزا نافذ کرے گی۔
کافر قرار دینا:
کسی کو کافر قرار دینے کی دو شکل ہے ۔
1-کسی قول و عمل یا عقیدہ کو کفریہ قرار دیا جائے اور کہا جائے کہ جو ایسا کہے یا کرے یا اعتقاد رکھے وہ کافر ہے یا کسی خاص گروہ کو کافر کہا جائے اسے تکفیر مطللق یا تکفیر عام کہا جاتا ہے ۔مثلا قرآن حکیم میں کہا گیا ہے :
* اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۵۰﴾ۙاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا .
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے اور کہتے ہیں کہ کچھ (رسولوں) پر تو ہم ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں، اور (اس طرح) وہ چاہتے ہیں کہ) کفر اور ایمان کے درمیان) ایک بیچ کی راہ نکال لیں۔ ایسے لوگ صحیح معنی میں کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔(سورہ النسآء :-150 151)۔
* کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوۡدَا۠ کَفَرُوۡا رَبَّہُمۡ ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّثَمُوۡدَ ۔
جیسے کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے۔ یاد رکھو کہ ثمود نے اپنے رب کے ساتھ کفر کا معاملہ کیا تھا، یاد رکھو کہ بربادی ثمود ہی کی ہوئی۔(سورہ ھود : 68)
2-کسی متعین شخص کو کافر کہا جائے ،اسے تکفیر معین کہا جاتا ہے ۔جیسے کہ قرآن میں ہے :
وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ۔
اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہوگیا،(سورہ البقرۃ آیت نمبر: 34)
کسی متعین شخص کو کافر قرار دینے کے لئے درج ذیل شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے :
1-وہ شخص عاقل و بالغ ہو اس لیے کہ نابالغ یا پاگل شرعی احکام کے مکلف نہیں ہوتا ہے اس لیے اگر کوئی بچہ یا پاگل کافرانہ باتیں کہے تو اس کی وجہ سے اسے مرتد قرار نہیں دیا جائے گا.
2-اس نے بقصد و ارادہ مجبوری کے بغیر کفر کیا ہو ۔لہذا اگر زور و زبردستی کی وجہ سے جان بچانے کے لئے کسی نے کفر کیا ہو یا بلا ارادہ و بے اختیارِ کسی کی زبان سے کلمہ کفر نکل جائے یا کفریہ حرکت سرزد ہو جائے تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا چنانچہ قران پاک میں ہے:
مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ۔
جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے، وہ نہیں جسے زبردستی (کفر کا کلمہ کہنے پر) مجبور کردیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو۔ تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا، اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔(سورہ النحل : 106)
تفسیر:
یعنی کسی شخص کو جان کا خوف ہو کہ اگر زبان سے کفر کا کلمہ نہیں کہے گا تو جان چلی جائے گی، تو ایسا شخص معذور ہے، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، لیکن اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہوگا جو اپنے اختیار کی وجہ سے کفر کی باتیں کرے۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے جان بچ جانے کی وجہ سے فرط خوشی میں کہہ دیا اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔
ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ : اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ. أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ ". (صحیح مسلم 2747)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قصد ارادہ کے بغیر بے اختیار غلطی سے کلمہ کفر زبان سے نکل جائے تو اس پر مواخذہ نہیں ہوگا۔
3-اسلام کی حقانیت کے دلائل اس کے پاس پہنچ گئے ہوں اس کے باوجود کفر پر قائم رہے. لہذا کسی شخص پر کفر کی وجہ سے اس وقت تک کے عذاب نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے سامنے اسلام کی حقانیت واضح نہ کر دی جائے جس کو اصطلاح میں اتمام حجت یا قیام حجت کہا جاتا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
* مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ؕ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا .
جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے تو وہ خود اپنے فائدے کے لیے چلتا ہے، اور جو گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی نقصان کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور ہم کبھی کسی کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے جب تک کوئی پیغمبر (اس کے پاس) نہ بھیج دیں۔(سورہ الاسراء : 15)
* رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ۔
یہ سب رسول وہ تھے جو (ثواب کی) خوشخبری سنانے اور (دوزخ سے) ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے، تاکہ ان رسولوں کے آجانے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہے، اور اللہ کا اقتدار بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔(سورہ النسآء : 165)
4-کفر کسی تاویل کی بنیاد پر نہ ہو لہذا اگر کوئی شخص تاویل کرکے کفریہ لفظ کہے تو اسے کافر نہیں کہا جائیگا گرچہ وہ تاویل غلط ہو البتہ یہ ضروری ہے کہ لغت اور زبان وادب کے اعتبار سے اس تاویل کی گنجائش ہو(6) اور کسی لفظ کی اجماعی مفہوم کے خلاف نہ ہو ۔
حاصل یہ ہے کسی کفریہ کلمہ یا حرکت کو مطلقا کفر کہا جاسکتا ہے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مرتکب کافر ہے لیکن متعین طور خصوصا کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں مذکورہ شرطیں پائی جائیں اور کوئی مانع موجود نہ ہو ۔چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً شراب پینے والے پر لعنت بھیجی ہے . حضرت انس کہتے ہیں:
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشَرَةً : عَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَشَارِبَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَآكِلَ ثَمَنِهَا، وَالْمُشْتَرِي لَهَا، وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سے متعلق دس لوگوں پر لعنت کی ہے اس کے نچوڑنے والے پر، جس کے لیے نچوڑا جائے اس پر، پینے والے پر، اٹھا کر لے جانے والے پر ،جس کے لیے اٹھا کر لے جائے اس پر ،پلانے والے پر بیچنے والے پر، اس کا عوض کھانے والے پر،اس کے خریدار پر اور جس کے لئے خریدا جائے اس پر۔(ترمذی :1295.ابن ماجہ:3381.مسند احمد:2892)
لیکن ایک شخص کے کثرت سے شراب نوشی کے باوجود اس پر اس پر لعنت کرنے سے منع فرمایا کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ اسْمُهُ عَبْدَ اللَّهِ، وَكَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا، وَكَانَ يُضْحِكُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَلَدَهُ فِي الشَّرَابِ، فَأُتِيَ بِهِ يَوْمًا، فَأَمَرَ بِهِ فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص کا نام عبداللہ اور لقب گدھا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مرتبہ شراب پینے کے سلسلے میں کوڑے مارے۔ شراب پینے کے معاملے میں دوبارہ لایا گیا اور اسے کوڑے مارے گئے۔ ایک ادمی نے کہا اے اللہ! اس پہ لعنت کر کتنی کثرت سے یہاں لایا جاتا ہے .نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت مت کرو اللہ کی قسم میرے علم کے مطابق وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے.(صحیح بخاری 6780)
معلوم ہوا کہ ایک شخص لعنت کے سبب میں مبتلا تھا لیکن آپ نے متعین طور پر مانع کی وجہ سے اس پر لعنت بھیجنے سے منع فرمایا اس سے واضح ہوتا ہے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب پر کسی تعین کے بغیر لعنت بھیجنے سے یہ لازم نہیں اتا ہے اس کا ہر مرتکب مستحق لعنت ہو،یہی حکم کفریہ چیزوں کا بھی ہے کے مطلقا کسی چیز کے کفر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ اس کے ہر مرتکب کو کافر قرار دیا جائے۔
اسی طرح سے اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا کفر ہے لیکن جب ایک صحابی ناواقفیت میں آنحضرت ﷺ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے تو آپ نے انھیں سمجھایا لیکن ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا ۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ : لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنَ الشَّامِ سَجَدَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” مَا هَذَا يَا مُعَاذُ ؟ ” قَالَ : أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ، فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا۔(ابن ماجہ: 1853.مسند احمد 19403)
اسی طرح سے علماء نے قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کو کفر کہا لیکن متعین طور پر اس کے قائل کا کافر نہیں کہا کیونکہ اس عقیدہ میں تاویل کی گنجائش ہے ۔
اور علامہ ابن تیمیہ رح جہمیہ وغیرہ کو مخاطب کر کے کہتے تھے کہ اگر میں تمہاری بات مان لوں تو میں کافر ہوجاؤں گا کیونکہ میرے اعتبار سے تمہارا نظریہ کفر ہے لیکن تم لوگ میرے نزدیک کافر نہیں ہو کیونکہ تم نادان ہو (الرد علی البکری494/2)۔
اور مفتی محمّد شفیع عثمانی لکھتے ہیں:
لیکن اس جگہ ایک دوسری بے احتیاطی کا خطرہ ہے یہ مسلمانوں میں باہمی تکفیر کا دروازہ کھل سکتا ہے جو ان کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ اور ایک زمانے سے یہ خطرہ صرف خطرہ ہی نہیں رہا بلکہ ایک واقعہ بن گیا ہے کہ حقائق دین سے ناواقف کچھ نام کے علماء نے یہ پیشہ بنا لیا کہ ذرا ذرا سی بات پر مسلمانوں کو کافر قرار دینے لگے باہمی کفر کے فتوے چلنے لگے اس میں ان لوگوں کو کتب فقہ کے ان مسائل سے بھی دھوکہ لگا جو کلمات کفریہ کے نام سے بیان کیے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں باتیں کلمہ کفر ہیں جن کا حاصل اس کے سوا نہیں کہ جس کلمہ سے قطعیات اسلام میں سے کسی چیز کا انکار نکلتا ہے اس کو کلمہ کفر قرار دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی حضرات فقہاء نے اس کی بھی تشریح فرما دی ہے کہ ان کلمات کے کلمات کفر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جس شخص کی زبان سے یہ کلمات نکلیں اس کو بے سوچے سمجھے اور بدون تحقیق مراد کے کافر کہہ دیا جائے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس کی مراد وہی معنی اور مفہوم ہیں جو کافرانہ عقیدہ یا کسی ضروری اسلام کا انکار ہے۔
لیکن حقیقت حال سے ناواقف لوگوں نے ان کلمات ہی کو فیصلے کا مدار بنا لیا اور تکفیر بازی شروع کر دی جس کی ایک بھاری مضرت تو یہ ہوئی ایک مسلمان کو کافر کہنا بڑا سخت معاملہ ہے جس کے اثرات پورے اسلامی معاشرے پر پڑتے ہیں اس کے علاوہ اس میں اپنے ایمان کا خطرہ ہوتا ہے جس کا بیان گزر چکا ہے ۔دوسری طرف اس تکفیر بازی سے یہ شدید نقصان پہنچا کی فتوائے کفر ایک معمولی چیز ہو کر رہ گئی ۔جو مدعی اسلام درحقیقت کافر ہیں ان کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ لوگ تو ایک دوسرے کو کافر کہا ہی کرتے ہیں ہم بھی اس تکفیر بازی کا کہ شکار ہیں۔
اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ اس جگہ کو بھی واضح کر دیا جائے کہ کسی ایسے شخص کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے کافر قرار دینے میں انتہائی احتیاط لازم ہے معمولی باتوں پر یا کسی محتمل اور مبہم کلام پر بغیر تحقیق مراد کے ایسا فتوی دینے میں اپنے ایمان کا خطرہ ہے۔(جواہر الفقہ 100/1)
لازمی مفہوم کی وجہ سے تکفیر:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک قول وفعل کا ظاہری مفہوم قابل تاویل ہوتا ہے لیکن اس کا لازمی مفہوم کفر صریح ہوتا ہے مگر وہ اس لازم کا قائل نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا منکر ہوتا ہے یا اس سے ناواقف ہوتا ہے،ایسی صورت میں ظاہری مفہوم کی رعایت کرتے ہوئے اس کے قائل پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا اور لازمی مفہوم سے صرف نظر کرلیا جائے گا ۔چنانچہ ابن حجر مکی کہتے ہیں:
علمائے سلف و خلف میں سے اکثر لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ اہل ہوا اور اہل بدعت کو کفر صریح کے بغیر کافر نہیں کہا جائے گا اور کفر لازمی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ کسی کے مذھب کا لازم مذہب نہیں ہوتا ہے۔(تحفة الاحوذي302/6)
مثلاً کوئی شخص کسی بدعت کو کار ثواب قرار دے تو اس کا لازمی مفہوم یہ ہوگا کہ نبی ﷺ نے تبلیغ کا حق ادا نہیں کیا اور ثواب کے ایک کام کو واضح نہیں کرسکے چنانچہ امام مالک سے منقول ہے :
من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة فقد زعم أن محمداً – صلى الله عليه وآله وسلم – خان الرسالة لأن الله يقول: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ} [المائدة: ٣] فما لم يكن يومئذ ديناً فلا يكون اليوم ديناً۔
جو کوئی اسلام میں بدعت ایجاد کرے اور اسے اچھا سمجھے تو اس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی ہے اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں: آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے . تو جو چیز اس دن دین نہیں تھی وہ آج بھی دین نہیں ہوگی۔(كتاب الاعتصام 54/1)
۔۔یا جیسے معتزلہ کہتے ہیں کہ اہل سنّت کے بعض عقائد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف ظلم کی نسبت کرنا یا اس کو مخلوق کے مشابہ قرار دینا لازم آتا ہے یا اہل سنت ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے بعض عقائد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف عجز و جہل کی نسبت کرنا لازم آتا ہے مگر ان میں سے کوئی اس لزوم کا قائل نہیں ہے ۔
اہل قبلہ کی تکفیر:
ْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا، فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ، وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ ".
حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ہماری نماز پڑھے ،ہمارے قبلے کا استقبال کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری میں ہے۔لہذا اللہ کی ذمہ داری کو مت توڑو۔(صحیح بخاری: 391)
واضح کیا جاچکا ہے کہ انبیاء کرام سے ثابت شدہ ہدایات کو ماننے کا نام ایمان ہے اور ان میں سے کسی کا انکار و اہانت کفر ہے اس لئے
مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی دین کے شعار اور ظاہر پر عمل کرتا ہے تو اسے مسلمان سمجھا جائے گا اور دل کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور اس کے بارے میں بدگمانی مت کرو کہ وہ صرف ظاہری طور پر مسلمان ہے ۔(7)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ محض ان تین کاموں کے بعد کسی کو مسلمان سمجھا جائے گا خواہ وہ اسلام کی دوسری تعلیمات و ہدایات کا انکار و اہانت کرے اور ان کا مذاق اڑائے۔
عہد صدیقی میں زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والے اور مسیلمہ کذاب کو نبی ماننے والے بھی مذکورہ تینوں چیزوں پر عمل پیرا تھے مگر باتفاق صحابہ کرام انہیں کافر و مرتد قرار دے کر ان سے جنگ کی گئی ۔(دیکھیے جواہر الفقہ 75/1)
چنانچہ حضرت انس سے منقول ایک دوسری حدیث میں اس کی صراحت ہے :
” أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَذَبَحُوا ذَبِيحَتَنَا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ ".
مجھے حکم دیا گیا ہے لوگوں سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ لیں ۔جب وہ لا الہ الا اللہ کہہ لیں اور ہماری نماز پڑھیں، ہمارے قبلے کا استقبال کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں تو ہمارے لیے ناحق ان کا خون اور ان کا مال حرام ہے اور ان کے باطن کے حساب اللہ کے حوالے ہے ۔(صحیح بخاری: 392)
نیز کفر کے علاوہ کسی اور گناہ کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا جائے گا ۔
حضرت انس بن مالک سے منقول ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِيمَانِ : الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا نُكَفِّرُهُ بِذَنْبٍ، وَلَا نُخْرِجُهُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ،….
تین چیزیں اسلام کی بنیاد میں سے ہیں۔ اس شخص سے جنگ کرنے سے رک جانا جو لا الہ الا اللہ کہے اور ہم کسی گناہ کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے ہیں اور نہ برے عمل کی وجہ سے کسی کو اسلام سے خارج کرتے ہیں۔
(ابوداؤد 2532. كتاب الجهاد. باب في الغزو مع ائمة الجور.)
عقائد وغیرہ کی کتابوں میں مذکور کلمہ گو یا اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ ضروریات دین کا قائل ہو اور ان میں کوئی تاویل نہ کرتا ہو(دیکھئے جواہر الفقہ 89/1)
حاصل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو کافر قرار دینے کا معاملہ نہایت پر خطر اور بے حد سنگین ہے کسی قطعی شرعی دلیل کی بنیاد پر ہی متعین طور پر کسی کو کافر کہا جاسکتا ہے ۔قیاس و اجتہاد اور عقل و بصیرت ذریعے کسی کو کافر کہنے کی گنجائش نہیں ہے ۔
اسی طرح سے کسی کافر کو دائرہ اسلام میں داخل کرنا بھی سنگین جرم ہے ۔لیکن عام طور پر دونوں کی سنگینی اور خطرناکی کا احساس نہیں ۔مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
ایک جماعت ہے جس نے تکفیر بازی کو ہی مشغلہ بنا رکھا ہے ذرا سی خلاف شرع بلکہ خلاف طبع کوئی بات سرزد ہوئی اور ان کی طرف سے کفر کا فتوی لگا ۔ادنی ادنی فرعی باتوں پر مسلمانوں کو اسلام سے خارج کہنے لگتے ہیں ۔ادھر ان کے مقابل دوسری جماعت ہے جن کے نزدیک اسلام و ایمان کی کوئی حقیقت محصلہ نہیں رہتی بلکہ وہ ہر اس شخص کو مسلمان کہتے ہیں جو مسلمان ہونے کا دعوی کرے خواہ تمام قرآن و حدیث اور احکام اسلامیہ کا انکار اور توہین کرتا رہے۔ ان کے نزدیک اسلام کے مفہوم میں ہر قسم کا کفر کھپ سکتا ہے ۔انہوں نے ہندوؤں اور دوسرے مذاہب باطلہ کی طرح اسلام کو بھی محض ایک قومی لقب بنا دیا ہے کہ عقائد جو چاہے رکھے اقوال و اعمال میں جس طرح چاہے آزاد رہے وہ بہرحال مسلمان ہے اس کو اپنے نزدیک وسعت خیال اور وسعت حوصلہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
لیکن اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس کجروی اور افراط و تفریط کے دونوں پہلوؤں سے سخت بیزار ہیں ۔اسلام نے اپنے پیرؤوں کے لیے ایک اسمانی قانون پیش کیا ہے۔ جو شخص اس کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کرے اور کوئی تنگی اپنے دل میں اس کے ماننے سے محسوس نہ کرے وہ مسلمان ہے اور جو اس قانون الہی کے کسی قطعی حکم کا انکار کر بیٹھے وہ بلا شبہ و بلا تردد دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس کے دائرہ اسلام میں داخل رکھنے سے اسلام بیزار ہے۔ اور اس کے ذریعے اسلامی برادری کی مردم شماری بڑھانے سے اسلام اور مسلمانوں کو غیرت ہے۔ اور ان چند لوگوں کے داخل اسلام ماننے سے ہزاروں مسلمانوں کے خارج از اسلام ہو جانے کا قوی اندیشہ ہے جیسا کہ بہت دفعہ اس کا تجربہ اور مشاہدہ ہو چکا ہے۔(جواہر الفقہ 109/1).
نیز وہ کہتے ہیں:
کسی مسلمان کو کافر کہنے کے معاملے میں اج کل ایک عجیب افراط و تفریط رونما ہے ایک جماعت ہے کہ جس نے مشغلہ یہی اختیار کر لیا ہے کہ ادنی معاملات میں مسلمانوں پر تکفیر کا حکم لگا دیتے ہیں اور جہاں ذرا سی کوئی خلاف شرع حرکت کسی سے دیکھتے ہیں تو اسلام سے خارج کہنے لگتے ہیں ۔اور دوسری طرف نو تعلیم یافتہ آزاد خیال جماعت ہے اس کے نزدیک کوئی قول و فعل خواہ کتنا ہی شدید اور عقائد اسلامیہ کا صریح مقابل ہو کفر کہلانے کا مستحق نہیں۔ وہ ہر مدعی اسلام کو مسلمان کہنا فرض سمجھتے ہیں اگرچہ اس کا کوئی عقیدہ اور عمل اسلام کے موافق نہ ہو اور ضروریات دین کا انکار کرتا ہو اور جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا ایک سخت پرخطر معاملہ ہے اسی طرح کافر کو مسلمان کہنا بھی اس سے کم نہیں کیونکہ حدود کفر و اسلام میں التباس بہر دو صورت لازم اتا ہے۔(جواہر الفقہ 144/1).
(1)والتحقيق: أن الحديث سيق لزجر المسلم عن أن يقول ذلك لأخيه المسلم، وذلك قبل وجود فرقة الخوارج وغيرهم، وقيل: معناه: رجعت عليه نقيصته لأخيه ومعصية تكفيره، وهذا لا بأس به، وقيل: يخشى عليه أن يئول به ذلك إلى الكفر كما قيل: المعاصي بريد الكفر، فيخاف على من أدامها وأصر عليها سوء الخاتمة، وأرجح من الجميع أن من قال ذلك لمن يعرف منه الإسلام ولم يقم له شبهة في زعمه أنه كافر فإنه يكفر بذلك كما سيأتي تقريره، فمعنى الحديث: فقد رجع عليه تكفيره، فالراجع: التكفير لا الكفر، فكأنه كفر نفسه لكونه كفر من هو مثله، ومن لا يكفره إلا كافر يعتقد بطلان دين الإسلام، ويؤيده أن في بعض طرقه: ” وجب الكفر على أحدهما "، (فتح الباری حدیث: 6045)
(2)علامہ سبکی کہتے ہیں: الاسلام موضوع للانقياد الظاهر مشروطا فيه الايمان والايمان موضوع للتصديق الباطن مشروطا فيه القول عند الامكان. (فتح الملهم 151/1. نیز دیکھیے: جواہر الفقہ59/1)
(3) الكفر جحد ما علم ان الرسول جاء به سواء كان من المسائل التي يسمونها علمية او عملية فمن جحد ما جاء به الرسول بعد معرفته بانه جاء به فهو كافر في دق الدين وجله.(مختصر الصواعق لابن القيم /620)
(4) جحد شيء مما اتى به رسول الله صلى الله عليه وسلم مما صح عند جاحده بنقل الكافه او عمل شيء قام البرهان بان العمل به كفر.( الفصل في الملل والاهواء والنحل لابن حزم253/3.)
ويكون الكفر بالفعل كرمي المصحف في القاذورات او السجود للصنم او التردد للكنائس في اعيادهم بزي النصارى ومباشرة احوالهم او جحد ما علم من الدين بالضرورة. (الفروق للقرافي 1277/4)
(5) وان اعترف به ظاهرا ولكن يفسر بعض ما ثبت من الدين ضرورة بخلاف ما فسره الصحابه والتابعون واجمعت عليه الامة فهو الزنديق كما اذا اعترف بان القرآن حق وما فيه من ذكر الجنة والنارحق لكن المراد بالجنة الابتهاج الذي يحصل بسبب الملكات المحمودة والمراد بالنار هي الندامة التي تحصل بسبب الملكات المذمومة وليس في الخارج جنة ولا نار فهو زنديق .(المسوي 130/2)
(6) قال العلماء كل متأول معذور بتاويله ليس بآثم اذا كان تاويله سائغا في لسان العرب وكان له وجه في العلم. (فتح الباري 304/12)
(7) وفيه أن أمور الناس محمولة على الظاهر، فمن أظهر شعار الدين أجريت عليه أحكام أهله ما لم يظهر منه خلاف ذلك.(فتح الباری حدیث: 391 كتاب الصلاه .باب فضل استقبال القبلة)
10-9-2024ء