امام ابو حنیفہ اورعلم حدیث
مولانا ولی الله مجید قاسمی
اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ کو گوناگوں خصوصیات سے نوازا تھا، وہ ایک ہمت جہت شخصیت کے مالک تھے ، ان کی زندگی کا ہر پہلو اس قدر روشن اور تابناک ہے کہ عقل و دل حیران اور پریشان ہے کہ انکی کس خوبی کو مخصوص اور نمایاں خوبی قرار دے ۔
جب وہ ان کی دیانت و امانت ، ذوق عبادت، شوقِ تلاوت، جذبہ اتباع سنت، شب بیداری، پرہیزگاری، مال و دولت سے بے رغبتی، دنیا اور اسباب دنیا سے بیزاری کو دیکھتا ہے اور اللہ پر اعتماد، تسلیم ورضا، حکومتی عہدہ اور منصب سے کنارہ کشی ، ظالم و جابر حکمرانوں کے دربار میں جرأت مندی، بے باکی، حق گوئی، اعلان حق، اظہار صداقت، شوق شہادت، اورعلم بغاوت بلند کرنے کے واقعات پڑھتا ہے تو بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ کاروان ایمان و عزیمت، اخلاص و للہیت کے پیش روؤں میں ہیں اور یہی ان کا امتیازی وصف ہے ۔
جب وہ ان کی سخاوت وایثار، فیاضی، دریا دلی ، مخلوق خدا سے ہمدردی، دکھ درد میں مبتلا کی خبر گیری ، رحمت و شفقت، مظلوم کی معاونت پر نگاہ ڈالتا ہے تو اندر سےآواز آتی ہے کہ یہی ان کی واحد اور نمایاں خصوصیت ہے ۔
لیکن جب وہ اسی ہستی کو میدان علم میں دیکھتا ہے، خدا کی کتاب کی تشریح اور وضاحت میں مصروف پاتا ہے، ان کے تفسیری نکات کو سنتا ہے تو دل کہتا ہے کہ یہی ان کا اصل جوہر ہے، ابھی وہ اسی میں محو ہے کہ اس کی نگاہ اچانک ایک دوسری خصوصیت پر پڑتی ہے، اور وہ ہے باطل فرقوں کے خلاف محاذ آرائی، لیکن دل ابھی فیصلہ نہیں کرپایا تھا کہ اسے ان کی نمایاں خصوصیت قرار دے کر اس کے سامنے ایک اور خوبی جلوہ گر ہو جاتی ہے، اور فورا یہ کہنے لگتا ہے کہ یہ ہستی زبان وادب کا بحر بیکراں اور متفقہ امام ہے، وہ فصاحت و بلاغت کے اس مقام پر ہے کہ دوسروں کی رسائی وہاں تک نہیں ہوسکتی ہے ۔
پھر جب وہ انہیں مسند درس پر فائز دیکھتا ہے ان کے ذخیرۂ احادیث کا جائزہ لیتا ہے، حدیث سے متعلق ان کے متعین کردہ روایت و درایت کے اصول کو پڑھتا ہے، اور ان کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کے حل میں انہیں مصروف پاتا ہے، علم حدیث میں ان کی گہرائی و گیرائی ان کی بیدار مغزی، معاملہ فہمی، فراست، ذکاوت، نظافت، دقت نظر، شان اجتہاد کو نگاہ کے حصار میں لانے کی کوشش کرتا ہے، تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ "امیر المومنین فی الحدیث” کا تاج زریں اسی ہستی کے سر پر زیب دیتا ہے، مملکت حدیث وفقہ کا یہ تاجدار ہے، علم و فن کا وہ سمندر ہے جس کی وسعت و گہرائی کے اندازے سے عقل ونگاه قاصر ہے ۔
غرضیکہ ایک مضمون نگار جب انکی شخصیت پر لکھنے کے لیےقلم اٹھاتا ہے تو وہ ان کی امتیازات و خصوصیات کا مقام ومرتبہ متعین کرنےمیں حیران وسرگرداں رہ جا تا ہے، اور یہ اعتراف کر کے قلم رکھ دیتا ہے کہ ان کی عظمت اور برتری تمام ظاہری و باطنی کمالات اور خصوصیات میں یکساں ہے ۔
اس مضمون میں ان کی صرف ایک خصوصیت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو کچھ لکھا گیا ہے مستند اور معتبر مآخذ سے لیا گیا ہے، الانتقاء ،عقود الجمان، الخیرات الحسان ،تبییض الصحیفہ اور سیرت النعمان کا نام قابلِ ذکر ہے ، اول ذکر کردہ چار کتابوں کے مصنف حنفی نہیں بلکہ مالکی اور شافعی ہیں اس لیے مبالغہ آمیزی کا امکان بہت کم ہے اور یہ کہ ان کتابوں کا اصل مآخذ خطیب کی تاریخ بغداد ہے، اور حنفیہ کے سلسلہ میں ان کا تعصب مشہور ہے اس لیے امام اعظم سے متعلق تعریفی الفاظ کو بہت چھان پرکھ کے بعد نقل کیا ہے ۔
کوفہ کا علمی مقام:
شہر کوفہ علم و فن کا گہوارہ تھا، وہاں کی فضا میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے شرف یاب ہونے والوں کے انفاس کی خوشبو رچی بسی تھی، وہ جدید و قدیم کا ایک حسین سنگم تھا، اس شہرمیں علم وفن کے گیسو سنوارے جاتے تھے ۔ حدیث کا وہ ایک اہم مرکز تھا اور زبان وادب کی نشونما میں بنیادی کردار ادا کرنے والا یہی علمی مرکز امام ہمام کا وطن ہے، یہیں آپ پروان چڑھے اور جوان ہوئے ۔ کوفہ شہر حضرت فاروق اعظم کے حکم سے سن 17ھ میں بسایا گیا، صحابی رسول حضرت عمار بن یاسرگورنر اور حضرت عبد الله بن مسعود دینی تعلیم و تربیت کے لیے معلم بنا کر بھیجے گئے انہیں بھیجتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا :
"میں نے عمار بن یا سر کو تمہارا امیر اور عبد اللہ بن مسعود کو معلم بناکر بھیجا ہے، یہ حضرات جنگ بدر کے شریک اور اصحاب محمد میں چنیدہ ہیں، ان کی باتیں سنو اور ان کی پیروی کرو، عبداللہ بن مسعود کی مجھے خود بھی ضرورت تھی لیکن میں تمہاری ضرورت کو ترجیح دے رہا ہوں۔
وقد آثرکم اللہ بعبد الله بن مسعود علی نفسی "(تذکرۃ الحفاظ 14/1)
حضرت عبداللہ بن مسعود اس وقت اسلام سے شرف یاب ہوئے جب کہ مسلمان انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے، اور ایسی حالت میں علم توحید کو بلند کیا جب کہ مشرکین مکہ ایسے لوگوں کے خون کے پیاسے تھے، آنحضور سے تعلق کا یہ عالم تھا کہ جلوت ہو یا خلوت بارگاہِ نبوت میں حاضر رہتے، حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ ہم جب یمن سے مدینہ آئے تو کاشانۂ نبوت میں بکثرت آمد و رفت کی وجہ سے ہم انہیں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا ایک فرد سمجھتے تھے، آنحضور صلی اللہ علی وسلم کے بستر کو بچھانا، تہہ کرنا، مسواک پیش کرنا، وضو کرانا، آپ کے ذمہ داریوں میں شامل تھا، یہاں تک کہ وہ صاحب النعل والو ساده والمطہرة (جوتے والے، تکیہ والے ، اور وضو والے) کے لقب سے جانے اور پہچانے جاتے تھے ۔
معلم انسانیت کے نزدیک ان کے علم وفہم کا کیا مقام ومرتبہ تھا؟ اس کا اندازہ بخاری شریف کی اس حدیث سے کیا جا سکتا ہے کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن چار شخصوں سے پڑھو، عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابو حذیفہ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب (تذکرۃ الحفاظ 14/1) حضرت عمر فاروق نے فرمایا : ابن مسعود علم سے لبریز ظرف ہیں( ان ام عبد کنیف ملیء علما .مشکوٰۃ 275/2) اور جلیل القدر تابعی حضرت مسروق کا بیان ہے کہ اصحاب محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے علوم کی جامع چھ ہستیاں ہیں، حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، عمر فاروق، زید بن ثابت، ابو درداء، ابی بن کعب ، اور ان چھ اشخاص کے علوم کے جامع دو ہیں حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعود (مقدمہ نصب الرایہ/30)
صحابہ میں سے جو حضرات فقہ و فتاوی اور اجتہاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے جمہور علماء کے نزدیک ان کی تعداد سات ہے حضرت عمر، علی، عائشہ ، عبد الله بن مسعود، عبد اللہ بن عباس ، زید بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن عمر، لیکن فقہ اسلامی کا موجود ذخیرہ زیادہ تر ان میں سے صرف چار کے فتاویٰ پر مبنی ہے ، حضرت حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبد اللہ بن عمر، یہ تمام ہستیاں فقیہ الامت کے لقب سے مشہور ہیں، فقہ حنفی کا زیادہ تر دارومدار ان میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود کی احادیث اور فتاوے پر ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اس نو آباد شہر کو علمی اعتبار سے کس طرح آباد کیا ؟ اس کا قدرے اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علی جب کوفہ آئے تو بے ساختہ بول پڑے، اللہ ابن مسعود کا بھلا کرے، انھوں نے اس شہر کو علم سے بھر دیا ، ان کی محنت و کاوش، جد وجہد اور لگن کا نتیجہ تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر میں چار ہزار علماء اور محدثین پیدا ہو گئے، جن میں ہر ایک اپنی جگہ مینارۂ نور تھا ، یہ تعداد صرف عبداللہ بن مسعود کے تلامذہ کی ہے ، دیگر صحابہ کے تلامذہ کا تذکرہ نہیں اور یہ تعداد ان لوگوں کے بیان کے مطابق ہے جو علمی دنیا میں قابل اعتماد اور لائق اعتبار سمجھے جاتے ہیں ۔
حضرت علی نے جب کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور یہیں اقامت گزیں ہو گئے ، تو علوم نبوی کے حاملین ہر طرف سے پروانہ وار، جوق در جوق یہاں پہونچنے لگے ،عجلی کے بیان کے مطابق تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ نے کوفہ کو وطن بنا لیا ، جس میں ستر بدری صحابہ تھے ، ان لوگوں میں حضرت سلمان فارسی، خباب بن ارت، حذیفہ بن یمان ، ابوموسیٰ اشعری، براء بن عازب، نعمان بن بشیر، مغیره بن شعبہ ، جریر بن عبد اللہ بجلی عبد اللہ بن جندب کا نام قابل ذکر ہے ۔ (دیکھیے معرفۃ علوم الحدیث / 191)
ان عالی مقام اور ممتاز صحابہ کی آمد کی وجہ سے شہر کوفہ علم کا ایک جگمگاتا ہوا نیر تاباں بن گیا۔ جہاں ہر گھر میں علمی چرچے اور علمی مجلسیں آراستہ ہو تیں ، اوران آفتاب و ماہتاب سے کسب فیض کر کے ستاروں کی ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی جو صحابہ کی موجودگی ہی میں فتویٰ دیا کرتی تھی ، علامہ کوثری نے نام و نسب کے ساتھ ایسے ۲۲/ تا بعین کا تذکرہ کیا ہے جو صحابہ کی زندگی میں منصب افتاء پر فائز تھے ۔
صحابہ کے تلامذہ سے فیضان حاصل کرنے والوں کی تعداد بے شمار ہے ، امام ابو بکر جصاص لکھتے ہیں : کہ "دیر جماجم” نامی جگہ پر عبداللہ بن اشعث کی سرکردگی میں حجاج سے جنگ کرنے کے لیے جو جماعت نکلی تھی اس میں چار ہزار تابعین علماء تھے، انس بن سیرین کا بیان ہے: کہ جب میں کوفہ پہنچا تو اس وقت وہاں چار ہزار حدیث کے طلباء اور چار سو فقہاء تھے عفان بن مسلم جو امام احمد، اسحاق اور امام بخاری کے استاذ ہیں اور جن کے متعلق علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ اگر حدیث کے کسی حرف کے بارے میں شبہ ہوجاتا تو اسے سرے سے چھوڑ دیتے۔ کہتے ہیں کہ ہم کوفہ میں چار ماہ رہے، اس دوران ایک لاکھ احادیث لکھنا چاہتے تو لکھ لیتے لیکن ہم نے صرف پچاس ہزارہ وہی احادیث لکھیں جنہیں قبول عام حاصل تھا ۔ (دیکھیے مقدمہ نصب الرایہ 1/26-29)
غور کیجیے کہ اس قدر محتاط شخص اور اس قدر کم عرصے میں ایسی پچاس ہزا ر حدیثوں کا ذخیرہ حاصل کر لیتا ہے جنہیں قبول عام حاصل تھا تو پھر حدیث کے اعتبار سے کوفہ کا مقام و مرتبہ کیا ہو گا ؟ کوفہ کی اسی علمی حیثیت کی وجہ سے لوگ دور دراز سے طلب حدیث کے لیے کوفہ آیا کرتے تھے ، خود امام بخاری فرماتے ہیں کہ طالب حدیث کے لیے میں کوفہ کتنی بار گیا اسے شمار نہیں کر سکتا ، اور یہی وجہ ہے کہ حدیث کی کتابیں کوفہ کے راویوں سے مالا مال ہیں ۔
اور محدثین اہل کوفہ کی تحقیق اور نقطۂ نظر کو حدیث کی کتابوں میں بڑے اہتمام سے ذکر کرتے ہیں ، ترمذی میں بہت کم ایسے مسائل ہوں گے جن میں اہل کوفہ کا تذکرہ نہ ہو ۔
امام ترمذی نے "اہل الکوفہ” سے کن لوگوں کو مراد لیا ہے ، اس سلسلہ میں مشہور اہل حدیث عالم دین ، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کی تحقیق یہ ہے :
صحیح یہ ہے کہ امام ترمذی کی اہل کوفہ سے مراد کوفہ کے اہل علم ہیں جیسے امام ابو حنیفہ، سفیان ثوری، ابن عینہ وغیرہ اوربعض اہل کوفہ سے مراد وہاں کے بعض اہل علم ہیں ۔ اہل کوفہ ، یا بعض "اہل کوفہ”سے صرف امام ابو حنیفہ مراد نہیں ہیں ۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ "اہل کوفہ” سے مراد امام ابوحنیفہ ہیں لیکن امام ترمذی نے تعصب کی وجہ سے ان کا نام لینا گوارا نہں کیا اور پوری کتاب میں "اہل کوفہ” اور "اہل رائے” سے یاد فرمایا، لیکن محدث مبارکپوری اس خیال کی پر زور تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قطعاً باطل ہے اور خود ترمذی کی بعض عبارتوں سے اس قول کے باطل ہونے کو ثابت کیا ہے (مقدمۃ تحفۃ الاحوزی /209 ۔ 208 جید برقی پریس دہلی) اور حقیقت بھی یہی ہے ۔
کوفہ کے بہت سے حضرات نے یہاں موجود صحابہ سے علمی پیاس بجھانے کے ساتھ مزید سیرابی کے لیے حرمین شریفین کا بھی سفر کیا اور وہاں جاکر براہ راست بہت سےصحابہ سے حدیث کی روایت لی ۔
غرضیکہ علم حدیث کے اعتبار سے کوفہ حجاز کا ہم پلہ تھا، علامہ ذہبی نے صحابہ کے بعد دوسرے اور تیسرے دور کے جن حاملین حدیث کا تذکرہ لکھا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق کوفہ سے ہے یا اس سے ملا ہوا دوسرا شہر بصرہ سے،
اور علم قرأت میں کوفہ کا کیا مقام ہے ؟ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سات مشہور قاریوں میں سے تین کا تعلق کوفہ سے ہے۔
زبان وادب کے سلسلہ میں کوفہ کا مرتبہ محتاج اظہار نہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عربی قواعد کی داغ بیل عراق کے انہیں دونوں شہر بصرہ اور کوفہ میں پڑی، یہیں نشوونما ہوئی اور یہیں سے دنیا کے ہر گوشے میں پھیلا ۔
چند مشہور تابعین:
کوفہ کے جن لوگوں نے صحابہ سے کسب فیض کیا اور ان کے علوم کے امین کہلائے ان کے سرسری تذکرہ کے لیے بھی ایک کتاب درکار ہے اس لیے یہاں ان میں سے صرف چند مشہور ہستیوں کا تذکرہ کیا جائے گا جن کے علمی سر مائہ کے ذریعہ امام ابو حنیفہ نے فقہ اسلامی کو پروان چڑھایا، اور جن سے بالواسطہ انھوں نے کسب فیض کیا ۔
1-علقمہ بن قیس نخعی (وفات 62ھ):
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ولادت ہوئی ۔ حضرت عمر ،عثمان، علی، سعد، حذیفہ، ابودرداء اور دیگر صحابہ سے حدیث حاصل کی ، حضرت عبد اللہ بن مسعود کے مخصوص شاگرد ہیں ۔ ان کے متعلق خود استاذ کی رائے یہ ہے ۔
ما اقرء شيئا ولا اعلم شيئا الا علقمۃ یعلمہ و یقرءہ (تذکرۃ الحفاظ 48/1)
حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ قرأت اور جو کچھ میں جانتا ہوں علقمہ ان تمام کے عالم ہیں ۔
صرف علم ہی نہیں بلکہ انداز ، لب و لہجہ ، چال ڈھال سب میں ابن مسعود کا عکس تھے ، ابو المثنی کا بیان ہے کہ اگر تم نے علقمہ کو دیکھ لیا تو سمجھو کہ ابن مسعود کے دیدار سے شرف یاب ہو گئے اور ابراہیم نخعی کو دیکھ لیا تو جان لو کہ علقمہ کو دیکھ لیا (تہذیب التہذیب)
واضح رہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اندازه ، لب و لہجہ اور رفتار و گفتار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت قریب تھے جیسا کہ ان کے متعلق صحابی رسول حضرت حذیفہ کی شہادت ہے (مشکوٰۃ 572/2)
اور قابوس کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ آپ اصحاب نبی کو چھوڑ کر علقمہ کے پاس کیوں جاتے ہیں ؟ انھوں نے کہا بیٹے ! میں نے خود اصحاب نبی کو ان سے مسئلہ پوچھتے ہوئے دیکھا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ 48/1)
2-اسود بن یزید بن قیس نخعی (وفات 74):
حضرت عبداللہ بن مسعود کے تلامذہ میں علقمہ کے بعد آپ ہی کا درجہ تھا حضرت عبد اللہ بن مسعود کے علاوہ حضرت عمر، علی ، حذیفہ، بلال اور دیگر صحابہ سے حدیث سنی ، بہت زیادہ عبادت گذار، شب بیدار اور روزہ دار تھے ، تقریباً اسی(80) حج وعمره سے شرف یاب ہوئے ، فقیہ ، زائد، عابد اور عالم کوفہ سے مشہور ہیں (حوالہ مذکور)
3- ابراہیم بن یزید نخعی (وفات95ھ):
علم و دیانت، تقوی اور پرہیزگاری میں یگانہ روزگار ہستی کا نام ابراہیم نخعی ہے ۔
حضرت عائشہ ، زید بن ارقم، ابوسعید خدری اور ابو جحیفہ جیسے جلیل القدر صحابہ کے دیدار سے آنکھیں روشن کیں ، حضرت علقمہ اور اسود کی صحبت میں پروان چڑھے اور ان کے علوم کے وارث ہوئے ۔
ان کے متعلق امام شعبی کہا کرتے تھے کہ ابراہیم نے فقہی گہوارہ میں آنکھ کھولی، وہیں پلے اور بڑھے پھر ہمارے ساتھ رہ کر وہ حدیثیں جو بالکل صاف اور بے غبار تھیں اپنے فقہ میں شامل کر کے لے گئے ۔ (مقدمہ نصب الرایہ 33/1) جب انہیں ابراہیم کی وفات کی خبر پہونچی تو کہا ، ایک ایک ایسا شخص دنیا سے چلا گیا جس کا کوئی ہمسر کوفہ ، بصرہ، مکہ، مدینہ اور شام میں موجود نہیں (التاریخ الکبیر 334/1۔ قال الشعبی ما خلف بعدہ مثلہ تذکرۃ الحفاظ 74/1)”
محدث اعمش کہتے ہیں کہ جب میں کوئی حدیث سنتا تو اسے ابراہیم کو جا کر سناتا اگر وہ تصدیق کر دیتے تو محفوظ کر لیتا ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی میں انہیں کوئی حدیث سناتا تو اس حدیث کے سلسلہ میں کوئی نہ کوئی بات معلوم ہوتی (مقدمہ نصب الرایہ 33/1) ابن ابی حاتم ، اسماعیل بن خالد سے نقل کرتے ہیں کہ امام شعبی، ابوالضحی ، ابراہیم اور ہمارے دوسرے رفقاء مسجد میں حدیث کا مذاکرہ کرتے ، اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آجا تا کہ اس سے متعلق ہمیں کوئی حدیث نہ ملتی تو آنکھ سے ابراہیم کی طرف اشارہ کرتے ، اور وہ اس کا حل پیش کرتے ، ابن ابی حاتم ہی کا بیان ہے کہ میں نے ابوزرعہ سے سنا کہ ابراہیم چوٹی کے علماء اور فقہاء میں سے ہیں (مقدمہ آثار السنن 90/1 بحوالہ الجرح و التعدیل 144/1)
مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر سے جب کوئی مسئلہ دریافت کرنے کے لیے جاتا تو فرماتے : تم میرے پاس آئے ہو ؟ حالاں کہ تمہارے درمیان ابراہیم موجود ہیں (تذکرۃ الحفاظ 74/1)
واضح رہے کہ امام اعظم کے مشہور استاذ حماد ، ابراہیم کے مخصوص شاگرد ہیں، اور ان کے بعد ان کے علوم کے جانشین ہوئے ، چنانچہ ابن عدی نے کامل میں یحیی بن معین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابراہیم سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے بعد ہم کس سے رجوع ہوں تو فرمایا: حماد سے ۔(مقدمہ نصب الرایہ 33/1)
4-سعید بن جبیر (وفات 82ھ):
سعید بن جبیر کا نام محتاج تعارف نہیں، حجاج جیسے ظالم و جابر اور سفاک کے دربار میں ان کی حق گوئی اور بے باکی کی داستان اور اس کے نتیجے میں شہادت کا واقعہ بہت مشہور ہے تاریخ اسلام سے معمولی سی دلچسپی رکھنے والا ان کے مقام ومرتبہ سے آگاہ ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس کے علوم کے وارث اور امین ہیں ، اوران کے علاوہ دوسرے بہت سے صحابہ سے علوم نبوی کو حاصل کیا ۔
استاذ کو اپنے شاگرد پر کس قد را عتماد اور ناز تھا کہ جب کوفہ کے لوگ زمانہ حج میں ابن عباس سے کوئی مسئلہ پوچھنے جاتے تو فرماتے ، کیا تمہارے درمیان سعید موجود نہیں ہیں ؟ تمہیں یہاں آکر پوچھنے کی کیا ضرورت ؟ میمون بن مہران ان کی وفات کے بعد کہا کرتے تھے کہ سعید اس دنیا سے چلے گئے ، حالاں کہ روئے زمین کا ہر شخص ان کے علم کا محتاج تھا ۔ ان کے مشہور تلامذہ میں ابو بشر جعفر، ایوب ، اعمش ، عطار بن سائب کا نام قابل ذکر ہے ۔ (تذکرۃ الحفاظ 77-76/1)
5-زرین بن حبیش (وفات 82ھ):
حضرت عمر ، ابی بن کعب ، علی ، حذیفہ سے حدیث سنی اور علم قرأت میں عبد اللہ بن مسعود کے جانشین ہوئے ، زبان وادب کے بڑے ماہر تھے۔ مشہور سات قاریوں میں سے امام عاصم ان کے مخصوص شاگردہیں، اور امام عاصم قرأت میں امام اعظم کے استاذ ہیں (حوالہ مذکور 57/1 و مقدمہ نصب الرایہ 31/)
6-قاضی شریح بن حارث (وفات 80ھ)
قاضیوں کے تقرر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس احتیاط اور دوراندیشی سے کام لیتے تھے وہ پوشیدہ نہیں ہے بہت کم ایسے لوگ تھے جوان کی نگاہ میں اس منصب پر فائز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اس عہدہ کوان کی دار و گیر کی وجہ سے بہت کم لوگ نبھا پاتے تھے ، لیکن قاضی شریح کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ ان کی زندگی بھر قاضی رہے حضرت علی نے بھی انہیں قاضی بنایا اور یہ منصب سونپتے ہوئے فرمایا، شریح ! اٹھو ، اور فیصلہ کرو کیوں کہ تم عرب میں سب سے بڑے قاضی ہو ، واضح رہے کہ ان الفاظ کے کہنے والے کے متعلق خود زبان نبوت کا فیصلہ ہے کہ” اقضاهم علی” (مقدمہ نصب الرایہ 32/1)
حدیث کا علم حضرت عمر ، علی ، اور عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابہ سے حاصل کیا ، شعبی، ابراہیم نخعی، اور محمد بن سیرین جیسے ممتاز علماء ان کے تلامذہ میں شامل ہیں ۔ (تذکرۃ الحفاظ 59/1)
حضرت عبدالله بن مسعود اور دیگر صحابہ کے تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے، بلکہ ان کی تعداد بے شمار ہے ، میں نے ان میں سے صرف بعض ایسے مشہور لوگوں کو تذکرہ کیا ہے جن سے امام ابو حنیفہ کا علمی رشتہ وابستہ ہے۔
حصول علم :
کوفہ جیسے علمی گہوارے میں امام اعظم نے سن 80ھ میں آنکھ کھولی متعدد صحابہ کے دیدار سے شرف یاب ہوئے (دیکھیے الخیرات الحسان 32/ اعلاء السنن 187/1) یہیں نشو و نما ہوئی، اور زندگی کا بیشتر حصہ اسی شہر میں گذرا ، شعور کی منزل پر پہونچنے کے بعد حصول علم کی طرف متوجہ ہوئے حدیث ،نحو، ادب، اور شعر سے بقدر ضرورت واقفیت حاصل کی (ابو حنیفہ لابی زہرہ مصری) آپ حافظ قرآن تھے اور قرأت امام عاصم سے سیکھی (حوالہ مذکور ۔ الخیرات الحسان 39/) اور پھر تجارت میں مشغول ہوگئے ، زیادہ تر وقت تجارتی مصروفیتوں میں گذرتا۔ علم اور علماء کی مجلسوں سے واجبی سا تعلق تھا ، بازار جاتے ہوئے ایک روز امام شعبی نے آپ کو دیکھا اور بلا کر پوچھا کہ کہاں آتے جاتے ہو ؟ جواب ملا بازار، فرمایا میرا یہ مطلب نہیں تھا علماء میں سے کس کے پاس جاتے ہو؟ کہا : علماء کی مجلسوں میں بہت کم جاتا ہوں، امام شعبی نے فرمایا کہ غفلت سے کام نہ لو، میں تمہارے اندر علمی جوہر دیکھ رہا ہوں، علماء کے یہاں آمد و رفت رکھو. امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ ان کی یہ بات میرے دل میں اثر کر گئی اور میں ہمہ تن حصول علم کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
بعض روایتوں میں ہے کہ امام صاحب نے جب حصول علم کی طرف توجہ کی تو اس وقت رائج تمام علوم مثلاً علم کلام ، ادب، نحو، شعر و شاعری، تجوید و قرأت علم تفسیر اور حدیث پر ایک نگاہ ڈالی لیکن ہرعلم میں کچھ نہ کچھ نقص نظر آیا اور حدیث کے لیے ایک مدت درکار تھی، اس کے علاوہ تکمیل کے بعد نوخیز طلباء سے سابقہ پڑتا ، قرآن کے معانی ومفہوم کو اختیار کرنا بھی بڑا دشوار معلوم ہوا، آخر فقہ کو دیکھا دین ودنیا کا فائدہ اس میں نظر آیا، اس لیے تمام علوم سے قطع نظر کر کے فقہ کی تحصیل میں مشغول ہو گئے۔
لیکن حقیقت اعتبار سے یہ روایت کسی طرح سے درست نہیں ہے ، علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق یہ روایت من گھڑت اور موضوع ہے، کیوں کہ اس کے بعض راوی ناقابل اعتبار ہیں – واحسب ان هذه الحكاية موضوعة …. ففى اسنادها من ليس بثقۃ ۔
دوسرے اس روایت کو صحیح مانے کا نتیجہ یہ معلوم ہوگا کہ آپ نے حدیث ، تجوید و قرأت قرآنی علوم وغیرہ کی طرف توجہ نہیں کی، حالاں کہ ان علوم میں امام کو جو مقام ومرتبہ ہے وہ بھری دوپہر کی طرح عیاں ہے، چناں چہ علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ پہلی صدی ہجری میں اور اس کے بعد حصول حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور خوب اس کی تلاش و جستجو اور طلب میں مشغول رہے ، (فان الامام طلب الحديث واكثرمنه في سنة مائة وبعدها )۔ اسی طرح سے انہوں نے اس واقعہ کے ہر حصے پر اعتراض کر کے اسے ناقابل اعتماد ثابت کیا ہے۔ فجزاء الله عنا خير الجزاء –
اگر روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس کی توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ حصول علم کے بعد امام نے خیال کیا ہو کہ کسی فن کو اپنا خاص فن بنا ئیں چونکہ عام طور پر لوگوں کی ضرورتیں فقہ سے وابستہ تھیں، اسی فن پر بہت کم کام ہوا تھا ، جب کہ دیگر علوم کے ماہرین موجود تھے اس لیے آپ نے فقہ کو ترجیح دی ، یہی بات طرز بیان کی رنگ آمیزیوں سے اس حد تک پہونچ گئی جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ یہ روایت باوجودیکہ قید کتابت میں آچکی تھی عقود الجمان کے مصنف نےنقل کی تو بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے ۔ (دیکھیے سیرت النعمان 24/ بحذف و تبدیلی)
شعبی کی نصیحت کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت الامام میں طلب علم کی ایک لگن اور دھن پیدا ہو جاتی ہے ، جہاں بھی علم کی روشنی نظر آتی پروانہ وار اس پر گرتے ۔اور مسلکی عصبیت اض اور سن و سال کو حجاب نہیں بننے دیا ، اس وقت رائج تمام علوم کو اچھی طرح سے سیکھا، آپ ان علوم سے اچھی باتوں کو لیتے اور نقصان دہ باتوں کو ٹھکرا دیتے ، غرضیکہ آپ کا وصول تھا کہ علم کا ظرف گرچہ میل کچیل سے آلودہ ہو لیکن یہ میل کچیل صاف شفات علم کے لیے رکاوٹ نہ بنے تو اس سے علم اخذ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
کوفہ تمام علوم اسلامی بشمول قرآن و حدیث کا ایک اہم مرکز تھا ، یہاں کے تمام ممتاز اساتذہ سے آپ نے حدیث پڑھی ، اس شہر میں کوئی ایسا قابل ذکر محدث باقی نہ رہا جس سے آپ نے حدیث نہ سنی ہو، علامہ ابن قیم امام بخاری کے شیخ یحی بن آدم کے حوالے سے لکھتے ہیں :
كان نعمان جمع حدیث بلده کلہ (اعلاء السنن 12/3)
نعمان (ابو حنیفہ) اپنے شہر کے تمام حدیثوں کے جامع تھے۔
کوفہ کا علمی گہوارہ ہی حصول علم کے لیے کافی تھا، مگرعلم کی پیاس کبھی نہیں بجھتی خاص کر کے امام کی فطرت میں جستجو اور طلب کی نعمت ودیعت کی گئی تھی ، قدرت نے انہیں جدو جہد کی سرفرازیوں سے نوازا تھا، ذہن کشادہ اور دور رس تھا ، فکر میں بے پناہ وسعت تھی ، خیالات جدت طراز تھے، لیکن شریعت پر گرفت مضبوط تھی، ذہانت و فطانت سے بڑا وافر حصہ آپ کو ملا تھا اس لیے ان کی فعال اور متحرک شخصیت انہیں شب و روز علم کی جستجو میں سرگرداں رکھتی ۔
کوفہ سے قریب ہی اسلامی علوم کا دوسرا اہم مرکز بصرہ تھا، بارہا امام کا وہاں جانا ہوا ، اور سال سال بھر قیام رہا، وہاں علمی مجلسوں میں شریک ہوئے اور اساتذہ فن سے استفادہ کرتے ۔
حرمین شریفین اسلامی علوم کے لیے دل اور دماغ ہیں ، در حقیقت انہیں دونوں شہروں کی ضیا پاشی سے دیگر شہر منور تھے ، امام ہمام تقریباً پچپن مرتبہ حج و عمرہ سے شرف یاب ہوئے (ابو حنیفہ / 35 لابی زہرہ) اس موقع پر علماء سے ملاقات کرتے، بحث و مباحث کی محفل جمتی ایک دوسرے سے افادہ واستفادہ کا سلسلہ جاری رہتا حج کے زمانے میں دنیا کے ہر خطے سے علماء یہاں آتے اور ایک دوسر سے مستفید ہوتے ، امام اوزاعی اور مکحول شامی جیسے ممتاز اور جلیل القدر محدث سے امام کی ملاقات اسی دوران ہوئی، اور ان سے حدیث حاصل کی۔
اس کے علاوہ کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ آپ لگا تار چھ سال تک مکہ میں پناہ گزیں رہے ، اموی حکمراں ابن ہبیرہ نے آپ کو منصب قضا اور خزانہ کی ذمہ داری سونپنی چاہی یہ ایک ظالم حکمراں تھا، اس لیے امام نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا، جس کی وجہ سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ، لگا تار کئی روز تک جلاد کوڑے مارتا رہا ، آخر تنگ آ کر ابن ہبیرہ سے کہا کہ وہ شخص تو ایک بے روح جسم ہے ، مار کا کوئی اثر نہیں ہے، کسی طور پر اس عہدہ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ، ابن ہبیرہ نے کہا کہ ان سے کہو کہ ہماری قسم پوری کر دیں، کیوں کہ میں نے پیشکش قبول نہ کرنے کی صورت میں زد و کوب کی قسم کھائی ہے ، جلاد نے یہ بات آپ تک پہنچائی تو فرمایا گر وہ مسجد کے دروازے شمار کرنے کا بھی حکم دے تو میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ، اس نے آکر ابن ہبیرہ سے یہ بات نقل کر دی ۔ اس وقت اسلامی قلمرو میں سخت شورش برپا تھی ، بنی عباس اکثر شہروں پر قابض ہو چکے تھے، سلطنت بنی امیہ آخری سانس لے رہی تھی ، کوفہ میں بھی بغاوت کی لہر چل رہی تھی، امام کو مقید رکھنے کی وجہ سے مزید شدت پیدا ہو جانے کا اندیشہ تھا، اس لیے ابن ہبیرہ نے اپنی عافیت اسی میں محسوس کی ان کو سوچنے اور غور کرنے کی مہلت کے بہانے رہا کر دیا جائے ، اس طرح امام رہا ہوئے ، اور چھوٹتے ہیں مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔ یہ سن 130ھ کا واقعہ ہے، اور پھر عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے زمانہ خلافت 136ھ میں مستقل طور پر واپس تشریف لائے ۔ (دیکھیے المناقب للمکی 23/1، ابو حنیفہ /36)
یہ واقعہ صداقت ودیانت ، حق گوئی و بے باکی ، بلند ہمتی اور جرأت مندی کی بے مثال داستان ہے، جاہ و منصب اور سکوں کی جھنکارنے آپ کے پائے استقامت میں لرزش پیدا کی اور نہ ہی ابتلاء و آزمائش اور قید و بند کی صعوبتیں آپ کو راہ استقامت سے ہٹا سکیں ، زود کوب کی وجہ سے جسم تار تار ہوگیا لیکن ظالم حکمراں کے سامنے سر جھکایا اور نہ ہی آنکھیں اشکبار ہوئیں، وہ خدا کا برگزیدہ بندہ اپنے رب کی خوشنوری کے نشہ سے سرشار تھا ، اور اس کی رحمت بے پایاں کا خواست گار، تیز و تند طوفانی ہواؤں میں اس مرد درویش نے حق و صداقت کی شمع کو جلائے رکھا اور صبر و ہمت کے خارزاروں سے مسکراتا ہوا گزر گیا۔ اس عزم و حوصلہ، استقامت اور ثبات قدمی ، حق گوئی کے حامل شخص نے اللہ اور اس کے رسول کے پیغام کو پہنچانے اور عام کرنے میں کسی طرح کی کو کوتاہی سے کام لیا ہوگا ؟ سوچا جا سکتا ہے۔
جس وقت امام ہمام مکہ مں قیام پذیر تھے اس دوران کا یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یاسین زیات (جو امام زہری کے تلامذہ میں سے ہیں اور اہل رائے کو سنی سنائی باتوں کی وجہ سے سنت نبوی کا مخالف خیال کرتے تھے ۔ )کی جب امام صاحب سے ملاقات ہوئی اور حقیقت حال سامنے آئی تو اس قدر گرویدہ ہوئے کہ حرم میں یہ اعلان کرنے لگے کہ
(يا ايها الناس اختلفوا إلى بی حنيفة واغتنموا مجالسه وخذوا من علمه فانکم لن يجالسوا مثله ، ولن تجدوا اعلم بالحلال والحرام منه فانہ ان فقد تموا فقدتم علما کثیرا ۔)
(لوگو ! امام ابو حنیفہ کے پاس آؤ، ان کی مجلسوں کو غنیمت جانو ، ان سے علم کو حاصل کرو، کیوں کہ اس جیسی مجلس ہرگز تمہیں نہ ملے گی ، ان سے زیادہ حلال و حرام کا جاننے والا نہ پاؤگے ۔ اگرتم نے انہیں گنوا دیا تو علم کے ایک بڑے حصے کو گنوا دو گے) (المناقب للمکی 38/2)
یہ اعلان وقت کے ایک بڑے محدث کا ہے ، کیا ان کی یہ آواز در و دیوار سے ٹکرا کر واپس آگئی؟ ان کی یہ پکار صدابصحرا ثابت ہوئی ؟ تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ ہرگز نہیں، بلکہ لوگ جوق در جوق امام کی مجلسوں میں شریک ہونے لگے جیسا کہ عمار بن محمد کا بیان ہے : "ابو حنیفہ حرم میں بیٹھے ہوئے تھے ، دنیا کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک مجمع انہیں گھیرے ہوئے تھا، اور وہ ان کے مسائل کا حل پیش کرتے اور فتوی دیتے” (حوالہ مذکور 40/2)
الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہی بات حضرت عبداللہ بن مبارک نے بھی کہی ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ آنے والے کوئی معمولی قسم کے لوگ نہ تھے، بلکہ اصحاب فکر و نظر اور ماہر علم وفن تھے ۔ "والناس یومئذ ناس” موفق مکی اس جملے کی وضاحت کرتے ہیں ۔ یعنی فقهاء الكبار و خيار الناس عنده . یعنی یہ لوگ بڑے درجے کے فقیہ اور چنیدہ و منتخب افراد تھے (حوالہ مذکور 57/2)
ممتاز محدث ابو عاصم النبیل (ان کے تعارف کے لیے دیکھیے تلامذہ کا عنوان)نے خود ہی صراحت کر دی ہے کہ آنے والے صاحبِ فکر و نظر اور محدثین ہوا کرتے تھے ، وہ فرماتے ہیں :
كنا عند ابي حنيفة بمكة فكثر عليه اصحاب الحدیث و اصحاب الرای (اعلاء السنن 200/1)
ہم امام ابوحنیفہ کے پاس مکہ میں تھے تو آپ کے یہاں اصحاب حدیث و اصحاب رائے کثیر تعداد میں آتے ۔
واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے امام کو تدبر و معاملہ فہمی، دوراندیشی ، ذہانت و فطانت قوت یاد داشت ، اجتہاد اور علم و فضل کی جن قابل رشک صلاحیتوں سے نوازا تھا ممکن نہ تھا کہ اس کی خوشبو چھپی رہتی ۔ اس لیے جہاں بھی گئے لوگوں نے انہیں آنکھوں پر بٹھایا ۔علمی محفل و مجلس کی روح اور جان بن گئے، فقہاء و محدثین اور صالحین کی مجلس کا صدرنشین بن گئے ، اور خلق خدا اس طرح ٹوٹ پڑی جیسے شمع پر پروانوں کا ہجوم ۔
حاصل یہ ہے کہ امام اپنے عہد کے تمام اسلامی علوم سے مالا مال تھے ، ابتدا میں یہ علوم بقدر ضرورت ہی حاصل کی ، پھر تجارت میں مشغول ہو گئے، اور علمی مجلسوں سے بس واجبی سا ربط با قی رہا، لیکن امام شعبی کی توجہ دہانی پر ہمہ تن حدیث کی تحصیل میں منہمک ہو گئے ، علامہ ذہبی کی صراحت کے مطابق حدیث کی طرف خصوصی توجہ کا واقعہ یہ ایک صدی ہجری اور اس کے بعد کا ہے گویا کہ اس وقت آپ عمر کی بیسویں منزل میں تھے علم حدیث کے اہم مراکز حرمین شریفین کوفہ اور بصرہ سے کسب فیض کیا ، آپ فقہاء صحابہ کے علوم کے جامع تھے ، چنانچہ خود انہیں کا بیان ہے کہ :
میں نے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت ابن عباس اور ان کے تلامذہ کا علم حاصل کیا (عقود الجمان143/1 اردو بنام تذکرۃ النعمان ، ابو حنیفہ 28/ تاریخ بغداد 334/13)
حضرت عمر کے علوم و معارف کو نافع سے حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی کے علمی ورثہ کو کوفہ کے علماء ومحد ثین سے اور حضرت عبداللہ بن عباس کے علوم کو حضرت عطاء سے لیا ۔
آغاز شباب میں مختلف باطل فرقوں سے معرکہ آرائی آپ کا خصوصی شغف تھا ۔
لیکن زندگی میں ایک موڑ ایسا بھی آیا کہ آپ اس سے بیزار ہو گئے، اور فقہ کو اپنا خاص فن بنایا ۔
ممتاز اور مشہور اساتذہ :
آپ کے اساتذہ کی تعداد بےشمارہے ، ابوحفص کبیر کی تحقیق یہ ہے کہ امام ہمام کے اساتذہ حدیث کی تعدادکم از کم چار ہزار ہے، گرچہ ہمارے لیے اس تعداد کو محدثانہ اصول پر ثابت کرنامشکل ہے، لیکن اس سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ ان کے اساتذہ حدیث کثیر تعداد میں ہیں ، اس کا اعتراف خود محدثین کو بھی ہے ، علامہ ذہبی نے آپ کے بعض اسا تذہ کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے ۔ وخلق کثیر (تذکرۃ الحفاظ 168/1)
امام سیوطی نے چوہتر (74) اساتذہ کا تذکرہ نام ونسب کے ساتھ کیا ہے، امام موفق مکی نے پندرہ صفحات میں اساتذہ کے نام لکھے ہیں جن کی کل تعداد دو سوچار ہے، علامہ ابو المحاسن شافعی نے نام بنام تین سو انیس شیوخ کا ذکر کیا ہے، علامہ شبلی نعمانی نے معتبر اور مستند رجال و تذکرہ کی کتابوں سے سرسری طور پر 77 ناموں کا انتخاب کیا ہے اور لکھا ہے کہ زیادہ چھان بین کرتے تو علامہ ابو المحاسن شافعی کی کتاب "عقود الجمان” کی فہرست کے برابر اترتے ۔ (سیرت النعمان 37/38)
یوں تو آپ کے اکثر اساتذہ درخشندہ و تابندہ ستاروں کے مانند ہیں، لیکن ہر ایک کے سرسری تذکرہ کے لیے بھی ایک ضخیم جلد در کار ہے اس لیے صرف چند مخصوص اور ممتاز اساتذہ کا مختصر تعارف قابل اعتماد اور لائق اعتبار کتابوں کی روشنی میں پیش ہے ۔
پہلے مکہ ومدینہ کے اساتذہ کا تعارف ، پھر کوفہ اور آخر میں بصرہ کے شیوخ کا ذکر ہے۔
1-عطاء بن رباح :
مکہ معظمہ میں جن اساتذہ سے آپ نے حدیث سنی ان میں عطاء بن رباح کا نام سر فہرست ہے، یہ مفتی مکہ اور محدث کے لقب سے متعارف ہیں ، حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں پیدا ہوئے (تذکرۃ الحفاظ 98/1) دو سوصحابہ کے دیدار سے آنکھیں روشن کیں ، بہت سے صحابہ کرام سے حدیث سنی، جن میں حضرت عبداللہ بن عباس، ابن عمر ابن زبیر ، اسامہ بن زید ، جابر بن عبد الله، زید بن ارقم ، ابودرداء ابوسعید خدری، ابو ہریرہ جیسے جلیل القدر اور عظیم المرتبت ہستیاں بھی شامل ہیں (تہذیب التہذیب 200/7لابن حجر عسقلانی) امام زہری ، ابو اسحاق سبعیی ، مجاہد، اعمش ، اوزاعی ، ابن جریج ، عمرو بن دینار، قتادہ ، ابو حنیفہ ، ہمام بن یحییٰ، سلیمان بن مہران اعمش جیسے اساتذہ فن ان کی شاگردی پر نازاں ہیں (تذکرۃ الحفاظ 98/1)
حضرت عبد اللہ بن عباس کے مخصوص شاگرد ہیں، اور ان کے علوم قرآن کے حامل اور وارث . کوئی ان کے پاس مسئلہ دریافت کرنے جاتا تو فرماتے میرے پاس کیوں آتے ہو جب کہ تم میں عطاء موجود ہیں ، بعینہ یہی جملہ حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی منقول ہے (تذکرۃ الحفاظ 98/1)
امام ابو حنیفہ کے قابل فخر، صاحب فضیلت اور سب سے بڑے استاذ ہیں جیسا کہ علامہ ذہبی نے لکھا ہے وھو اكبر شيخ له وافضلهم (سیر اعلام النیلاء 391/6) امام صاحب پر خصوصی توجہ دیتے اور انہیں دوران سبق اپنے سامنے بٹھائے، چناں چہ رفیق درس حارث بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ ہم حضرت عطاء کے پاس ایک دوسرے سے مل کر بیٹھے ہوتے ، اور جب ابو حنیفہ آتے توحضرت الاستاذ ان کے لیے جگہ بناتے اور اپنے سے قریب بٹھاتے (المناقب للمکی 67/2)
2-عمر و بن دینار :
حافظ حدیث ، امام، عالم حرم جیسے زریں الفاظ سے ذہبی نے آپ کے تذکرہ کی ابتدا کی ہے ، حضرت عبداللہ عباس عباس ، ابن عمر ،جابر بن عبد الله ، انس بن مالک اور دوسرے صحابہ سے حدیث سنی ۔ شعبہ ابن جریج حماد ، سفیان ثوری، ابن عیینہ، ابوحنیفہ ، ان کے مشہور شاگرد رہیں ۔
ابن عیینہ کا خیال ہے کہ عمروبن دینار سے بڑھ کر کوئی فقیہ، عالم اور حافظ حدیث نہیں ہے (تذکرۃ الحفاظ 103/1) ابن ابی نجیح نے کہا کہ ہمارے یہاں ان سے بڑا کوئی عالم اور فقیہ نہیں تھا، نہ عطاء نہ مجاہد ، نہ طاؤس (تہذیب التہذیب 28-30/8) شعبہ نے کہا حدیث کے سلسلہ میں ان سے زیادہ پختہ کسی کو نہیں پایا (تذکرۃ الحفاظ 113/1) امام زہری نے کہا کہ میں نے جید حدیث پر دسترس رکھنے والا اس شیخ کے سوا کسی کو نہیں دیکھا، ابن عیینہ اور عمرو بن جریر نے کہا کہ وہ ثقہ پختہ کثیر الحدیث اور سچےعالم تھے (تہذیب التہذیب 28-30/1)
استاذ اور شاگرد کے تعلق کی کیا نوعیت تھی ؟ اسے بھی سنتے چلیے۔ مشہور محدث حماد بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم عمرو دینار کے پاس جاتے اور جب ابو حنیفہ آتے تو وہ ہمیں چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو جاتے، ہم ابو حنیفہ سے عرض کرتے کہ ان سے حدیث بیان کرنے کے لیے درخواست کریں ، ان کے کہنے پر وہ ہم سے حدیث بیان کرتے (عقود الجمان / اعلاء السنن 203/1 الخیرات /48)
3-اوزاعی، لیث بن سعد ، ابن جریج :
ان حضرات کے علاوہ امام اوزاعی، لیث بن سعد مصری ، ابن جریج جیسے اساطین علم حدیث سے بھی آپ کی ملاقات رہی ، اور دونوں طرف سے افادہ واستفاد ه رہا، چنانچہ عبداللہ بن مبارک کا بیان ہے کہ امام ابوحنیفہ کی ملاقات امام اوزاعی سے مکہ میں ہوئی، دونوں علمی گفتگو کے لیے جمع ہوتے. میں نے اس موقع سے امام صاحب کے زور بیان اور قوت استدلال کا مشاہدہ کیا (المناقب للمکی 27/2)
جب کوئی شخص شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے، تو اس کی خوبیوں کے ساتھ حاسدین کی طرف سے پھیلائی گئی غلط فہمیاں بھی بہت دور تک پہونچ جاتی ہیں، امام اوزاعی بھی امام کے خلاف پھیلائی جانے والی ان باتوں سے متاثر تھے ، اس لیے جب عبداللہ بن مبارک ان کے پاس ملک شام پہونچے تو کہنے لگے کوفہ میں ابو حنیفہ نامی یہ کون بدعتی ہے ؟ وہ سن کر خاموش رہے اور واپس آکر ان کے پاس باریک اور اہم مسائل پر مبنی کچھ اوراق لے گئے ، امام اوزاعی ان مسائل اور اس کے قائل کی دقت نظری اور فکر کی گہرائی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے اور پوچھا ان مسائل کو تم نے نعمان بن ثابت کی طرف منسوب کر کے لکھا ہے ، یہ کون ہستی ہے ؟ کہا: ان سے میری ملاقات عراق میں ہوئی ہے، امام اوزاعی نے کہا یہ بڑے پایہ کے مشائخ میں سے ہیں جاؤ اور ان سے خوب استفادہ کرو، انھوں نے کہا یہ وہی ابوحنیفہ ہیں جنہیں آپ بدعتی کہ رہے ہیں ۔
حج کے دوران جب امام اعظم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، مسائل پر گفتگو ہوئی طریقہ استدلال معلوم ہوا ، اور سنی ہوئی بات کے برخلاف پایا تو انہیں ندامت ہوئی، اتفاق کی بات حضرت عبد اللہ بن مبارک اس موقع سے بھی موجود تھے، امام کے چلے جانے کے بعد ان سے کہا :
مجھے اس شخص کے کثرت علم اور زیرکی و دانائی پر رشک آتا ہے میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں، یقینا میں کھلی ہوئی غلط فہمی میں مبتلا تھا، حقیقت یہ ہے کہ اس ہستی کےمتعلق جو بات مجھ تک پہونچی تھی میں نے اسکے برخلاف پایا (حوالہ مذکور ، و الخیرات الحسان 46/، العقود /514)
اسی طرح مکہ کے ممتاز محدث ابن جریج اور مصر کے امام حدیث لیث بن سعد سے بھی علمی مذاکرہ کا موقع میسر آیا (المناقب للمکی 57 اور 87/2)
4-نافع العدوی:
امام بخاری کے نزدیک صحیح ترین سند مالک عن نافع عن ابن عمر – ہے (مالک نے نافع سے اور نافع نے ابن عمرسے یہ حدیث سنی)
محدثین اس سلسلہ میں اسناد کو سونے کی زنجیر کہتے ہیں، اس سے امام نافع کی عظمت شان کا ندازہ لگایا جاسکتا ہے،حضرت عبداللہ بن عمر کے غلام اور شاگرد خاص ہیں حضرت عائشہ، ابو ہریرہ ، ام سلمہ، رافع بن خدیج اور دیگر گرامی قدر صحابہ سے حدیث سنی، امام مالک ابوحنیفہ ، زہری ، لیث بن سعد مصری جیسے امام حدیث و فقہ ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ مام ذہبی نے امام اعظم کے اساتذہ کی فہرست میں حضرت عطاء کے بعد انہیں کا نام لکھا ہے دیکھیے تذکرۃ الحفاظ 199اور 168/1
5-محمدبن علی بن حسین باقر:
امام اعظم ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہیں خاندان نبوت کے چشم و چراغ حضرت امام باقر سے براہ راست حدیث سننے کا موقع ملا اور ایک عرصے تک ان کی خدمت میں رہ کر استفادہ کرتے رہے، امام باقر کا علم و فضل میں جو مرتبہ و مقام ہے اس کا تعارف کرانا سورج کو چراغ دکھانے کے مرادف ہے ، اس لیے اسے چھوڑتے ہوئے پہلی ملاقات پر ہوئی دلچسپ گفتگو کو نقل کر رہا ہوں، سلام دعا کے بعد ایک صاحب نے امام اعظم کا تعارف کرایا تو فرمایا : آپ ہی ابو حنیفہ ہیں جنھوں نے میرے نانا کے دین کو قیاس کی بنیاد پر بدل ڈالا ہے. امام صاحب نے کہا : اللہ کی پناہ ، انہوں نے فرمایا : ہاں آپ نے ایسا کیا ہے، امام ہمام نے کہا :آپ تھوڑی دیر کے لیے تشریف رکھیے تاکہ میں اپنے موقف کی وضاحت کر سکوں. امام باقر تشریف فرما ہوئے تو امام صاحب نے عرض کیا: میں آپ سے چند باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں، ان کا جواب مرحمت فرماییے ، مرد کمزور ہے یا عورت ؟ فرمایا عورت ، کہا وراثت میں مردو عورت کا کیا حصہ ہے؟ فرمایا مرد کا دو حصہ اور عورت کا ایک حصہ ۔امام صاحب نے کہا یہ آپ کے نانا کا فرمان ہے، اگر میں اس کے مقابلے میں قیاس کرتا تو کہتا کہ مرد کے لیے ایک اور عورت کے لیے دو حصہ ہے کیوں کہ وہ کمزور ہے، پھر دریافت کیا کہ نماز افضل ہے یا روزہ ؟ فرمایا: نماز. امام صاحب نے کہا یہ آپ کے نانا کا ارشاد ہے ، نیزیہ بھی فرمان ہے کہ عورت دوران ماہواری فوت شدہ نمازوں کی قضا نہ کرے اور روزہ کی قضا کرے، اگر میں اس کے مقابل قیاس سے کام لیتا تو کہتا کہ عورت پر ماہواری کے زمانہ کی نماز کی قضا لازم کیوں کہ وہ افضل ہے، نہ کہ روزے کی قضا۔ پھر دریافت کیا کہ پیشاب زیادہ ناپاک ہے یا نطفہ ؟ فرمایا پیشاب، امام نے کہا کہ اگر قیاس کرتا تو کہتا کہ پیشاب سے غسل اور نطفہ سے وضو کرنا چاہیے ۔
امام با قر اس گفتگو سے اس قدر مطمئن ہوئے کہ اٹھ کر بغل گیر ہو گئے او امام صاحب کی پیشانی چوم لی (ابو حنیفہ /71، الخیرات/76) ایک بار امام ہمام نے ان سے کچھ مسائل دریافت کیے انہوں نے جواب دیا اور ان کے چلے جانے کے بعد ہم نشینوں سے کہا کہ ابوحنیفہ کا طریقہ کتنا اچھا اور فقہ پر کس قدر زیادہ دسترس ہے ؟ (الانتفاء /124، العقود /147)
6-امام مالک:
حدیث و فقہ میں امام مالک کاجو مقام ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، امام اعظم نے حرمین کے زمانہ تعلیم میں متعدد فقہی مسائل پر ان سے تبادلہ خیال کیا، عالم اسلام کی یہ دونوں عظیم ہستیاں کبھی عشاء کے بعد علمی مذاکرہ میں مشغول ہوتیں تو صبح تک یہ سلسلہ چلتا رہتا رہتا (تبیض الصحیفہ /118)
حضرت عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک کے پاس آئے تو انہوں نے ان کی خوب تعظیم کی، پھر ان کے چلے جانے کے بعد ہم نشینوں سے کہا کہ جانتے ہو یہ کون تھے ؟ ان لوگوں نے کہا نہیں، فرمایا یہ ابوحنیفہ نعمان ہیں ، جو اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں کر سکتے ہیں، یقینا انہیں فقہ کی توفیق دی گئی ہے یہاں تک کہ وہ ان کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہے، پھر سفیان ثوری آئے تو امام مالک کی ان کی تعظیم امام ابوحنیفہ سےکم کی، پھر جب وہ چلے گے تو ان کے فقہ اور ورع کا تذکرہ کیا ، اما شافعی نے ایک بار ان سے امام ابوحنیفہ کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا : سبحان الله لم ار مثله ۔ پاکیزگی اللہ ہی کے لیے ہے، میں نے ان جیسا کسی کو نہیں پایا (الخیرات الحسان/44)
بعض حضرات نے امام مالک کو آپ کے اساتذہ میں شمار کیا ہے، لیکن اس کا ثبوت مشکل ہے (حاشیہ الانتفاء /15-12) اس کے بر خلاف ابن حجر ہیتمی نے لکھا ہےکہ امام مالک اور لیث بن سعد امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں سے ہیں (الخیرات /14) لیکن مجھے اس سے بھی اتفاق نہیں ، زیادہ سے زیادہ یہی علمی مباحثے ثابت ہیں ، اس کو وسعت دےکر بعض لوگوں نے شاگردی کے دائرے میں شامل کر لیا ہے، واللہ اعلم بالصواب ۔
7-عامر شعبی:
تذکرہ نگاروں نے عام طور پر انہیں ، علامة التابعین جیسے پرشکوہ الفاظ سے یاد کیا ہے تابعین میں ان کا بڑا اونچا مقام ہے پانچ سو صحابہ کرام کے دیدار سے مشرف ہوئے ، اور حضرت عمران بن حصین اور جریر بن عبد الله، ابو ہريرة، ابن عباس، عائشه، ابن عمر ، وغیرہ سے حدیث سنی حضرت عبد اللہ بن عمر جب انہیں غزوات کے سلسلہ میں بحث کرتے ہوئے دیکھتے تو فرماتے کہ میں ان غزوات میں شریک تھا لیکن اس سے متعلق ان کی معلومات اور یاد داشت مجھ سے زیادہ ہے (تذکرۃ الحفاظ 82/1) مکحول شامی کہتے ہیں کہ میں نے شعبی سے بڑا عالم نہیں دیکھا ، ابو بکر ہذلی سے منقول ہے کہ مجھ سے ابن سیرین نے کہا کہ شعبی کی صحبت لازم پکڑ لو، کیوں کہ میں نے انہیں اس وقت فتویٰ دیتے ہوئے دیکھا ہے جب کہ بکثرت صحابہ موجود تھے (حوالہ مذکور 81/1) عاصم احول کا کہنا ہے میں نے کوفہ و بصرہ اور حجاز میں شعبی سے بڑھ کرکسی کو عالم حدیث نہیں پایا (حوالہ مذکور 85/1)
مملکت حدیث کے اسی تاجدار اور جوہری نے پہلی ہی نظرمیں تاڑ لیا تھا کہ کوفہ کے بازاروں سے دل چسپی رکھنے والے اس نوجوان میں علمی قابلیت کے جوہر پائے جاتے ہیں، اور انہیں بلا کر اس جانب توجہ دلائی ، چونکہ رہنمائی کرنے والے یہی تھے اس لیے حضرت امام حصول حدیث کے لئے انہیں سے وابستہ ہو گئے، یہاں تک کہ ذہبی کا بیان ہے :ھو اکبر شیخ لابی حنیفہ. وہ امام ابو حنیفہ کے سب سے بڑے شیخ ہیں (حوالہ مذکور 79/1)
8-حماد بن سلیمان:
امام ہمام کے اساتذہ میں نمایاں نام حضرت حماد کا ہے ابراہیم نخعی کے ممتاز اور مخصوص تلامذہ میں سے ہیں فقہ حنفی کا حقیقی سر چشمہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے علوم و احادیث کے امین اور وارث ہیں ۔ ابراہیم نخعی سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد ہم کس سے رجوع ہوں تو فرمایا حماد سے (مقدمہ نصب الرایہ/ 33.نیز اعلام النبلاء 232/5)
صحابی رسول حضرت انس بن مالک کے جمال جہاں آراء سے عقیدت کی نگاہ روشن کی اور ان سے حدیث سنی ، جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن المسيب، سعید بن جبیر، عکرمہ، ابراہیم نخعی وغیرہ ان کے مشہور اساتذہ ہیں، عاصم احول، شعبہ، ثوری ابو حنیفہ ، مسعر بن کدام ، حکم بن عتبہ جیسے حدیث وفقہ کے آفتاب و ماہتاب انہیں کے درس سے مستفیض ہو کر اساتذہ فن کہلائے (تہذیب التہذیب 160/3، سیر اعلام النبلاء 231/5)
حافظ حدیث معمر کا بیان ہے کہ میں نے زہری ، حماد اور قتادہ سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں پایا (حوالہ مذکور) امام حدیث شعبہ نے کہا کہ میں نے حکم سے سنا کہ وہ کہ رہے ہیں کہ کوفہ میں حماد جیسا کون ہے ؟ احادیث کی وہ کتابیں جو سنن کے نام سے مشہور ہیں مثلا سنن ترمذی ، سنن ابی داؤد ، وغیرہ میں ان سے روایت موجود ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء 234/5)
9-ابو اسحاق سبیعی:
جلیل القدر تابعین مں شمار کیے جاتے ہیں، بہت سے صحابہ کے دیدار سے شرف یاب ہوئے اور حدیث سنی، جن میں حضرت عبدالله بن عباس ، ابن عمر، ابن زبیر، نعمان بن بشیر ، زید بن ارقم کا نام سر فہرست ہے ، مشہور ناقد حدیث ابوحاتم کہتے ہیں کہ وہ کثرت حدیث میں زہری کے ہمسر ہیں. ابو داؤد طیالسی کہتے ہیں کہ ہم نے حدیث چار شخصوں سے حاصل کیں ، زہری، قتادہ، ابو اسحاق ، اعمش … اور ابو اسحاق حضرت علی و ابن مسعود کی حدیثوں کو ان میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے ۔ (تذکرۃ الحفاظ 114/1)
10-اعمش:
سلیمان نام اور اعمش عرف ہے ، حافظ حدیث ، ثقہ ،شیخ الاسلام جیسے شاندار اور پر شکوہ الفاظ میں علامہ ذہبی نے خراج عقیدت پیش کی ہے (تذکرۃ الحفاظ 154/1) علی بن مدینی کا خیال ہے کہ امت محمدیہ کا علم چھ شخصوں نے محفوظ رکھا، مکہ میں عمرو بن دینار ، مدینہ میں زہری ، کوفہ میں ابو اسحاق اور اعمش ، بصرہ میں قتادہ اور یحییٰ بن کثیر. (تہذیب التہذیب 222/4) امیر المومنین فی الحدیث امام شعبہ جب ان کا تذکرہ کرتے تو فرماتے کہ وہ سچائی میں قرآن ہیں ، ابن معین کہتے ہیں کہ سب سے جید سند اعمش عن ابراہیم من علقمہ عن عبداللہ ہے (حوالہ مذکور 225/4)
فقہ ابوحنیفہ پر انھیں بڑا اعتماد تھا، جب ان کے پاس کوئی مسئلہ پو چھنے آتا تو کہتے کہ ابو حنیفہ کے حلقے میں جاؤ وہ لوگ مسئلے کی تحقیق میں خوب چھان بین کرتے ہیں .(اعلاء السنن 201/1) یعقوب بن شیبہ نے نقل کیا ہے کہ امام اعمش سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو فرمایا اس کا اور اس طرح کے ہر مسئلے کا اچھا جواب نعمان بن ثابت دے سکتے ہیں، میرا خیال ہے کہ انکے علم میں برکت دی گئی ہے (الانتقاء/126.عقود الجمان/162) اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ جب وہ حج کیلئے جانے لگے تو امام صاحب کے یہاں کہلا بھیجا کہ میرے لئے مسائل حج پرمشتمل ایک کتابچہ لکھ دیں، امام ہمام نے انکے حکم کی تعمیل میں ایک رسالہ لکھا کر بھیج دیا (اعلاء السنن 198/1.الانتقاء/126.الخیرات/43) ایک موقع پر انھوں نے امام صاحب سے چند مسائل پوچھے۔انھوں نے جواب دیا استاد نے فرمایا کہ ان مسائل کی دلیل کیا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ فلاں حدیث جو آپ نے مجھ سے بیان کی ہے ، یہ سن کر امام اعمش نے جو تاریخی جملہ کہا ہ نوٹ کرنے کے لائق ہے ،فرمایا :
يا معشر الفقهاء انتم الاطباء ونحن الصيادلة وانت يا أيها الرجل اخذت بكلا الطرفين (الخیرات/91.جامع بیان العلم 130/2)
گروہ فقہا ! تم حکیم اور ہم لوگ دوا فروش ہیں ، اور ابوحنیفہ !تمہارے اندر دونوں چیزیں موجود ہیں یعنی تمہارے پاس دوا ( حدیث ) بھی ہے اوراس کی تطبیق کا علم بھی رکھتےہو دوسرے الفاظ میں تم محدث بھی ہو اور فقیہ بھی )
11-حکم بن عتیبہ:
صحابی رسول حضرت ابو جحیفہ ، زید بن ارقم اور عبداللہ بن اوفی سےکسب فیض کرنے والوں میں ہیں ، امام اعمش، ابو اسحاق ، قتاده، مسعر ،شعبه ، ابوحنیفه ، اوزاعی وغیرہ ان کے تلامذہ ہیں، ابن عیینہ نے کہا کہ کوفہ میں ابراہیم اور شعبی کے بعد حکم اور حماد جیسا کوئی نہ تھا ، ابن سعد سے منقول ہے کہ حکم قابل اعتماد ،فقیه، عالم، بلندمقام اور بکثرت حدیث یا د رکھنے والے تھے (تہذیب التہذیب 434/2)لیث بن ابی سلیم نے کہا کہ حکم شعبی سے زیادہ فقیہ ہیں، مجاہد بن رومی کہا کرتے تھے کہ میں حکم کے علم و فضل سے واقف نہ تھا لیکن جب میں نے دیکھا کہ مسجد منی میں علماء کا ایک مجمع ان کے سامنے ان کا محتاج بنابیٹھا ہے تب مجھے ان کی فضیلت کا علم ہوا ۔ (تذکرۃ الحفاظ 117/1)
12-قتادہ بن دعامہ :
مشہور صحابی رسول حضرت انس کے دو ممتاز شاگردوں میں سے ایک قتادہ ہیں، ضبط حدیث کے سلسلہ میں ان کا حافظہ غضب کا تھا حدیث جس طرح سنتے انہیں الفاظ میں محفوظ رکھتے، معمر کہتے ہیں کہ میں نے امام زہری سے پوچھا کہ آپ کی نگاہ میں مکحول بڑے عالم ہیں یا قتادہ ؟ فرمایا قتادہ، امام احمد نے حدیث ، فقہ اور تفسیر کے سلسلہ میں ان کی بڑی تعریف کی ہے ، اور کہا کہ ان علوم میں کوئی ان کے برابر تو ہو سکتا ہے مگر ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے (تہذیب التہذیب 351/8)
13-شعبہ بن حجاج:
حجت ، حافظ حدیث ، شیخ الاسلام، امیر المومنين في الحديث شعبه بن حجاج سے کون ناواقف ہو گا ؟ اس دور میں جب کہ بڑے بڑے اساتذہ فن دو چار سو سے زیادہ حدیثیں یاد نہیں رکھتے تھے، انہیں دو ہزار حدیثیں یاد تھیں، امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر شعبہ نہ ہوتے تو عراق میں علم حدیث کا رواج نہ ہوتا (تذکرۃ الحفاظ 193/1)امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ علم رجال اور حدیث میں بصیرت کے سلسلہ میں شعبہ اس امت میں فرد یکتا ہیں (حوالہ سابق 194/1)
شعبہ کی نگاہ میں امام اعظم کا کیا مقام تھا اس کا اندازہ اس سے لگاییے کہ جب بھی امام کی غیرموجودگی میں ان کا ذکر آتا تو خوب تعریف کرتے اورکہتے کہ جس طرح آفتاب کا روشن ہونا قطعی ہے اسی طرح امام ابو حنیفہ اور علم کا ہم نشین ہونا قطعی ہے (عقود الجمان /166) خدا کی قسم ان کا فہم خوب تھا ، یاد داشت بڑی اچھی تھی، لوگوں نے انہیں ایسی چیز کے بارے میں عیب لگا یا جسے وہ خود ان سے زیادہ جانتے تھے، (امام اعظم کے اقوال کو بعض لوگ حدیث کے مخالف خیال کرتے تھے، شعبہ کا اشارہ اسی کی طرف ہے کہ امام خود حدیث کوان سے زیادہ جانے والے تھے پھر اس کی مخالفت کیونکر کرتے) خداکی قسم جلد ہی یہ لوگ اللہ کے یہاں ان سے ملیں گے (الخیرات الحسان/48)
جب امام اعظم کی وفات کی اطلاع ملی تو فرمایا ان کے ساتھ کوفہ کی فقہ بھی چلی گئی (الانتفاء /126) وہاں سے علم کی روشنی ختم ہوگئی، قیامت تک انہیں ان کی نظیر نہیں ملے گی (الخیرات الحسان/93 ۔فصل 33)
ان مذکورہ ہستیوں کے علاوہ امام صاحب کے اساتذہ میں سے محمد بن مسلم زہری ، عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج المدني ، عبد العزیز بن رفیع مکی ، مکحول شامی ، سماک بن حرب کوفی، سلمہ بن کھیل ، ہشام بن عروه ، محارب بن دثار، علقمہ بن مرثد، حافظ شیبان بصری، شداد بن عبد الرحمان بصری وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے (اساتذہ کی یہ تفصیل تذکرۃ الحفاظ 168/1 تہذیب التہذیب 449/1، تبیض الصحیفہ /65-39اور سیرت النعمان/37سے ماخوذ ہے)
غرضیکہ اس دور کے ممتاز ہستیوں میں سے کوئی ایسا شخص باقی نہ رہا جس سے امام ہمام نے استفادہ نہ کیا ہو، جن اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا وہ علم حدیث کے ستون ہیں کہ ان کے بغیر یہ عمارت نامکمل ہوگی، نیز امام صاحب کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ان کے عہد میں احادیث مدون اور مرتب ہو چکی تھیں ، اس طرح سے ان کے سامنے اکثر حدیثیں آگئیں اور انہوں نے ان میں سے صاف و شفاف اور بے غبار ا حادیث سے مایہ ناز محدثین تلامذہ کی موجودگی میں فقہ اسلامی کو مدون اور مرتب کیا۔
مایہ ناز تلامذہ:
مشہور ہے کہ درخت پھل سے پہچانا جاتا ہے ، شاگردوں کو دیکھ کر استاذ کی عظمت شان اور جلالت علمی کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ جس کے تلامذہ اس مرتبہ کے ہیں وہ خود علم کے کس مقام پر ہوگا ؟ ۔ اس لیے امام صاحب کے ان تلامذہ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو افق حدیث پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے ، جن کی ضیاء پاش کرنوں سے آج بھی دنیا روشن ہے ، جو ائمہ جرح و تعدیل کی بے مثال کسوٹی پر کھرے اترے ، اور انہوں نے اس شان سے ان کا تعارف کرایا کہ
* انگشت بدنداں ہیں زمین، چاند، ستارے *
بقول علامہ شبلی نعمانی : امام کے درس و تدریس کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ خلیفہ وقت کی حدود حکومت اس سے زیادہ وسیع نہ تھی (سیرت النعمان /183) کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک حنفی کی مبالغہ آمیزی ہے ، لیکن ابن حجر ہیتمی شافعی کا یہ بیان پڑھیے :
ان سے حدیث و فقہ کا علم حاصل کرنے والوں کا شمار دشوار ہے ، انہیں احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں، اسی لیے بعض ائمہ نے کہا ہے کہ ائمہ اسلام میں ام ابو حنیفہ سے زیادہ کسی کے تلامذہ نہیں ہیں ۔ متشابہ احادیث کی تفسیر، مسائل کا استنباط، نوآمدہ مسائل کا حل ، اور قضا جیسے تمام امور میں علماء اور عوام نے جو نفع امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ سے حاصل کیا ہے کسی اور سے نہیں کیا ہے (الخیرات الحسان/37)
حافظ ابو المحاسن شافعی نے ان تلامذہ کے ناموں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی تو اس دریاء بے پایاں سے نو سو اٹھارہ آبدار موتیوں کو ڈھونڈ نکالا جی چاہ رہا ہے کہ اس فہرست میں جن مشہور تلامذہ کا ذکر ہے زیادہ نہ سہی دوہی سطر میں ان کا تعارف کرایا جائے، مگر یہ ایک مضمون ہے ، کتاب نہیں، اس لیے اپنی اس خواہش پر عمل کرنا ممکن نہیں ، اور صرف چند ایسے تلامذہ کا تذکرہ پیش ہے جو حدیث سے خصوصی شغف رکھتے تھے، اور مدتوں امام اعظم کے دامن سے وابستہ رہے ۔
1-یحییٰ بن سعید قحطان :
علم رجال مسلمانوں کا ایک لافانی اور بے مثال شاہ کار ہے صرف اپنوں نے نہیں بلکہ غیروں اور بیگانوں نے بھی اس فن میں مسلمانوں کی سبقت اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے، یحییٰ بن سعید قطان اس مملکت کے تاجدار ہیں، انہوں نے اس کے نوک و پلک کو سنوارا، سجایا اور آراستہ کیا، اس فن میں ان کی غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر ائمہ حدیث نے یہ اصول بنا لیا کہ ، "من ترکه یحی تركناہ” حدیث کے جس راوی کو یحییٰ چھوڑ دیں ہم بھی اسے چھوڑ دیں گے ، یحی بن معین، علی بن مدینی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ فن ان کے شاگرد ہیں ۔
درس حدیث کی یہ شان تھی کہ امام احمد اور علی بن مدینی وغیرہ جلالت علمی کی وجہ سے ان کے سامنے کھڑا ہو کر حدیث سنا کرتے تھے ، لیکن اس جلالت و عظمت اور امامت کے باوجود وہ امام اعظم ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیا کرتے تھے ، چنانچہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں ۔ وكان يحيى القطان يفتى بقول ابی حنيفة ايضا (تذکرۃ الحفاظ 307/1ترجمہ وکیع)
اور ابن معین کا بیان ہے :
و کان یحی بن سعید القطان يذهب في الفتوى الى قول الكوفیین ويختار قوله من اقوالهم ويتبع رايه من بين اصحابه (تبیض الصحیفہ /105 بحوالہ خطیب)
یحی بن سعید قطان فتویٰ کے لیے کوفیوں کے قول کو لیتے تھے اور ان میں سے ابو حنیفہ کےقول کو منتخب کرتے ، اور ان کے تلامذہ کے اقوال کی بہ نسبت ان کے قول کی پیروی کرتے ۔
اور انہیں خود بھی اعتراف ہے :
لا نكذب الله ما سمعنا رایا احسن من راى ابي حنيفة وقد اخذنا باکثر اقواله (تبیض الصحیفہ/105، الخیرات الحسان/47، الانتفاء /131، سیر اعلام النبلاء 402/6)
ہم خدا کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے ہم نے ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر کسی کی رائے کو نہیں پایا اور ہم نے ان کے اکثر قوال کو اختیار کرلیا ہے۔
نیز وہ فرماتے ہیں خدا کی قسم ہم نے ابو حنیفہ کی ہم نشینی اختیار کی، ان کی باتیں سنیں جب میں ان کے چہرہ کی طرف دیکھتا تو میں یقین کر لیتا کہ یہ خوف خدا سے لرزاں اور ترساں رہنے والا چہرہ ہے (تاریخ بغداد 352/13)
2-وکیع بن الجراح:
امام احمد بن جنبل کہتے ہیں کہ جامعیت علم اور حافظہ میں وکیع سے بڑھا ہوا میں نے کس کو نہیں دیکھا (تذکرۃ الحفاظ 308/1) امام احمد ان کے شاگرد ہیں اور اس شاگردی پر انہیں بڑا ناز تھا، چنانچہ جب ان کے واسطے سے حدیث بیان کرتے تو کہتے کہ یہ حدیث ایسی ہستی سے نقل کر رہا ہوں کہ تیری نگاہوں نے ان کا مثل نہیں دیکھا (تہذیب الاسماء 45/2 للنووی) ابن عمار کا بیان ہے کہ وکیع کے عہد میں کوفہ کے اندران سے بڑا کوئی فقیہ اور حدیث کا جاننے والا نہ تھا (تذکرۃ الحفاظ 308/1)
وکیع امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں شامل ہیں ، بہت سی احادیث ان سے سنی اور انہیں کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔ و یفتی بقول ابي حنيفة (حوالہ مذکور 307/1، الانتفاء /136) اور یحیی بن معین کا بیان ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں پایا جسے وکیع پر ترجیح دوں، وہ امام ابو حنیفہ کی رائے پر فتوی دیتے تھے، اور ان سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔ وقد سمع منه حديثا کثیرا (عقود الجمان /355، اعلاء السنن 192/1) امام وکیع فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کو ابوحنیفہ سے زیادہ فقیہ اور ان سے بہتر نماز پڑھنے والا نہیں پا یا (تہذیب الاسماء 220/2) وہ امانت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، ان کا دل اللہ کی عظمت و جلالت سے معمور تھا ، اور رضاء الٰہی کو ہر چیز پرترجیح دیا کرتے تھے اگر اللہ کی راہ میں تہ تیغ ہونا پڑے تو اسے بھی گوارا کر لیتے (تاریخ بغداد 358/13)
3-عبداللہ بن مبارک:
وہ امام جس کی امامت و جلالت پر تمام علوم میں عام طور پر اتفاق ہے، جس کے تذکرے سے اللہ کی رحمت برستی ہےجس کی محبت سے مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے (تہذیب الاسماء 285/1)
جس ہستی کو امام نووی نے اس شان کے ساتھ خراج عقیدت پیش کی ہے ، وہ عبد اللہ بن مبارک کے نام سے ہمارے درمیان معروف ومشہور ہے، زہد و تقویٰ ، سرفروشی و جانبازی ، حق گوئی و بے باکی ، عبادت وریاضت اور تمام اسلامی علوم میں مہارت و جلالت جیسے عناصر کو یکجا کرنے سے جو تصویر سامنے آتی ہے وہ عبداللہ بن مبارک کی تصویر ہوگی ، ان کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ، علم حدیث میں خاص کر آپ کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ محتاج اظہار نہیں ۔
امام ابوحنیفہ کے مخصوص تلامذہ میں سے ہیں، مدتوں ان کی خدمت میں رہ کر استفادہ کیا زندگی بھر اس چشمہ حیات سے اپنی تشنگی بجھاتے رہے، خود انہیں کا بیان ہے کہ مجھے جوکچھ ملا ہے وہ ابو خنیفہ اور سفیان ثوری کا رہین منت ہے ، لولا ان الله اعاننی با حنیفہ و سفیان الثوری کنت كسائر الناس (عقود الجمان /150بحوالہ خطیب ، اعلاء السنن 189/1) (اگر اللہ نے ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری مدد نہ کی ہوتی تو میں بھی عام لوگوں کی طرح ہوتا) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب میں کوفہ آیا اور معلوم کیا کہ یہاں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو سب نے کہا کہ ابوحنیفہ (اعلاء السنن 188/1) میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ پر ہیز گار انسان نہیں دیکھا ، اس ہستی کے بارے میں کیا کہا جائے گا، جس کے سامنے دنیا اور اس کی دولت پیش کی گئی اور اس نے اسے ٹھکرا دیا، کوڑوں سے مارا گیا مگر ثابت قدم رہا ، وہ عہدے اور مناصب جن کے پیچھے لوگ بھاگتے ہیں پیشکش بلکہ قبولیت پر جبر کے با وجود قبول نہ کیا (المناقب للمذہبی /115 العقود /208) میں نے فقہ میں ان سے زیادہ اچھا کسی کو نہیں پایا ؟ اگر قرآن و حدیث میں کوئی حکم موجود نہ ہو ) اور رائے کی ضرورت پڑے تو امام مالک، سفیان ثوری اور ابو حنیفہ کی رائے اختیار کرنا چاہیے ، اور ابو حنیفہ ان میں سب سے فقیہ اور ان کی فقہ سب سے زیادہ گہرائی ، گیرائی اور عمدگی لیے ہوئے ہے (الخیرات الحسان/45) ان سے پوچھا گیا کہ امام مالک زیادہ فقہ کے جاننے والے ہیں یا ابو حنیفہ؟ تو برجستہ جواب دیا کہ ابو حنیفہ (سیر اعلام النبلاء 402/28)
دورانِ درس انہوں نے کہا کہ یہ حدیث مجھ سے نعمان بن ثابت نے بیان کی ہے کسی نے کہا کہ اس نام سے کون مراد ہے؟ فرمایا ابوحنیفہ جوعلم کی روح اور مغز ہیں، یہ سن کر بعض تلامذہ نے اس روایت کو لکھنا نہیں چاہا ، یہ دیکھ کر ابن مبارک تھوڑی دیر چپ رہے اور جب بولنا شروع کیا تو پوری فضا خاموش اور تن بگوش ہو کر ان کے کہے ہوئے زریں الفاظ کو نوٹ کرنے لگی ، انہوں نے فرمایا :
تم کس قدر بے ادب اور ائمہ کی عظمت سے کس قدر ناواقف اور جاہل ہو ؟ علم اور اہل علم کے متعلق تمہاری معرفت کسی درجہ کم تر ہے ؟ ابو حنیفہ سے بڑھ کر کوئی مقتدا بننے کے لائق نہیں وہ امام ، متقی، پاکیزہ صفات، پر ہیز گار، عالم اور فقیہ تھے ، اپنی بصیرت ، فہم و فطانت اور تقوی سے انہوں نے "علم "کو اس طرح واضح کر دیا کہ کسی نے نہ کیا ہوگا۔
اور اس کے بعد قسم کھائی کہ ایک ماہ تک حدیث بیان نہیں کروں گا (الخیرات الحسان/45 عقود الجمان /115)
امام ہمام کی وفات کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہو کر کے فرمایا۔ اللہ آپ پر حمت کی بارش نازل کرے، ابراہیم نخعی اور حماد بن سلیمان تو اپنے بعد جانشین چھوڑ کر گئے ، لیکن آپ کے بعد روئے زمین پر آپ کا کوئی جانشین نہیں۔ اتنا کہہ کر روپڑے اور آنسوؤں کے سیلاب پر بند لگانا مشکل ہو گیا (الخیرات/95)
4-یحی بن زکریا:
عرصہ دراز تک امام اعظم کی خدمت میں رہ کر علی تشنگی بجھائی یہاں تک کہ صاحب ابی حنیفہ (ابو حنیفہ والے) کے لقب سے مشہور ہوئے (تذکرۃ الحفاظ 267/1) دوران تدوین فقہ تحریر کی ذمہ داری انہیں کے سپرد تھی (اعلاء السنن 85/3بحوالہ طحاوی) بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ ہیں چناں چہ محدث ذہبی نے ان الفاظ کے ساتھ ان کے حالات کی ابتداء کی ہے۔ الحافظ الثبت المتقن، الفقيه، (حافظ حدیث ، قابل اعتماد ،مضبوط اور فقیہ) اور سفیان بن عینہ سے منقول ہے کہ ہمارے یہاں جو لوگ بھی آئے ان میں ابن مبارک اور یحی جیسا کوئی نہ تھا، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحی کے عہد میں ان پر علم کی انتہا تھی (یعنی علم میں ان سے بڑھا ہوا کوئی نہ تھا)
5-یزید بن ہارون :
حافظ حدیث، مقتدا اور شیخ الاسلام جیسے پرشکوہ اور شان دار الفاظ کے ذریعہ علامہ ذہبی نے ان کے حالات کی ابتداء کی ہے۔ امام احمد بن حنبل، علی بن مدینی ، یحیی بن معین جیسے جلیل القدر نامی گرامی محدثین ان کے تلامذہ ہیں (حوالہ مذکور 317/1) امام نووی نے لکھا ہے کہ ان کے تلامذہ کی تعداد بے شمار ہے۔ یحی بن ابی طالب کا بیان ہے کہ ایک بار میں ان کے حلقہ درس میں شریک تھا، لوگوں کا اندازہ تھا کہ حاضرین کی تعداد کم و بیش ستر ہزار ہے، کثرت حدیث میں لوگ ان کی مثال دیا کرتے تھے (سیرت النعمان بحوالہ تہذیب الاسماء) علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ کسی کو حافظ حدیث نہیں دیکھا خود ان کا بیان ہے کہ مجھے چوبیس ہزار حدیث یاد ہے ، امام احمد کہتے ہیں کہ وہ حافظ حدیث اور ثقہ تھے (تذکرۃ الحفاظ 317/1 )
اس بلند مرتبہ محدث کا خیال ہے کہ میں نے ایک ہزار لوگوں سے طلب علم کے سلسلے میں ملاقات کی ، اور ان میں سے اکثر سے میں نے حدیث لکھی ہے، لیکن پانچ ہسیتوں سے بڑھ کر کسی کو فقیہ، پر ہیز گار اور عالم نہیں دیکھا، ان میں اول ابو حنیفہ ہیں (اعلاء السنن 8/1بحوالہ جامع بیان العلم ) ان سے پوچھا گیا کہ ابوحنیفہ کی کتابوں کے دیکھنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا اگر فقیہ بننا چاہتے ہو، دین کی سمجھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو ان کی کتابوں کو دیکھو، میں نے کسی فقیہ کو نہیں دیکھا کہ ان کے قول کو ناپسند کرتا ہو (العقود /156 بحوالہ خطیب)
کسی نے ان کے سامنے امام کی شان میں نازیبا کلمات کہے تو فرمایا ابو حنیفہ متقی تھےجو عیب ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ان سے پاک تھے، دنیا کو ٹھکرانے والے، سچی زبان والے ، اپنے وقت کے سب سے بڑے حافظ حدیث تھے ، ان کے ہم عصروں میں سے جن کو بھی پایا سب کو کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہ سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں (حوالہ مذکور/157)
6-ابو عاصم النبیل:
امام بخاری کی وہ احادیث جو صرف تین واسطوں سے آنحضور تک پہونچتی ہیں اور جن کی محدثین کے یہاں بڑی وقعت ہے ان میں سے چھ احادیث ابو عاصم النبیل ہی کے واسطے سے ہیں، علم حدیث میں بڑے مرتبے اور شان کے مالک ہیں ، محدثین ان کی احادیث کو بڑی وقعت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ذہبی نے لکھا ہے کہ یہ وکیع اور ابن مبارک کے مرتبہ کے ہیں، اگران کی تاریخ وفات موخر نہ ہوتی تو میں ان کا تذکرہ انہیں کے ساتھ کرتا ، امام بخاری نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب سے میں نے سنا ہے کہ غیبت خود غیبت کرنے والے کے لیے نقصان دہ ہے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی (تذکرۃ الحفاظ 366/1)
ان سے کسی نے دریافت کیا کہ امام ابو حنیفہ بڑے فقیہ ہیں یا سفیان ثوری ؟ کہا مقابلہ تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں ، ابو حنیفہ نے فقہ کی بنیاد ڈالی، جب کہ سفیان ثوری صرف فقیہ ہیں (سیرت النعمان/188بحوالہ خطیب)
7-مکی بن ابراہیم :
امام بخاری کی وہ روایات جو صرف تین واسطوں سے آنحضور سے منقول ہیں کل بائیس ہیں، جن میں گیارہ مکی بن ابراہیم کے سند سے منقول ہیں ۔امام احمد بن حنبل ، ابن معین ، ذہلی اور امام بخاری ان کے مشہور شاگرد ہیں ۔
جامع المسانید میں امام ابوحنیفہ کی سند سے ان کی بہت سے روایات درج ہیں (اعلاء السنن /90)
ان کے حلقہ درس میں جب امام اعظم کا تذکرہ ہوتا تو فرماتے وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے (تبیض الصحیفہ/105الخیرات /47، العقود /158، بحوالہ خطیب) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں کوفہ کے بہت سے لوگوں کے ساتھ رہا لیکن کسی کو ابو حنیفہ سے بڑھ کر پرہیز گار نہیں پا یا (تاریخ بغداد 358/13)
8-حفص بن غیاث:
تم میرے اہم شاگرد میرے دل کے لیے سرمایہ نشاط اور میرے درد کا درماں ہو، میں نے فقہ کو تمہارے لیے لگام لگادی ہے اور زین کس کر تیار کر چکا ہوں ، لہذا میرے ساتھ تعاون کرو، لوگوں نے جہنم کے لیے مجھے پل بنایا ہے ، ان کے لیے تو آرام ہے لیکن سارا بوجھ میرے پشت پر ہے (اعلاء السنن 35/3)
جن تلامذہ کو مخاطب کرتے ہوئے امام اعظم نے یہ جملہ کہا تھا اور ان سے خصوصی تعلق اور لگاؤ کا اظہار فرمایا تھا ان میں حفص بن غیات بھی شامل ہیں ۔ فقہ میں ان کا جو مقام و مرتبہ ہے، اور امام فقہ کی نگاہ میں ان کی جو حیثیت اور وقعت ہے وہ مذکورہ جملے سے واضح ہے، علم حدیث میں بھی بڑے بلند مقام کے حامل تھے، بڑا غضب کا حافظہ تھا ، حدیث زبانی بیان کرتے ، کتاب و کاغذ پاس نہ رکھتے، یادداشت کی بنیاد پر جو احادیث بیان کی ان کی تعداد تین چار ہزار ہے، علامہ ذہبی نے انہیں "الامام الحافظ” کے لقب سے یاد فرمایا ہے (تذکرۃ الحفاظ 297/1)خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ حفص کثیر الحدیث حافظ حدیث اورثقہ ہیں (اعلاء السنن 89/3) امام احمد، اسحاق، علی بن مدینی، ابن معین وغیرہ کا نام ان کے تلامذہ میں سر فہرست ہے ۔
9-ابو یوسف ،یعقوب بن ابراہیم:
قاضی ابو یوسف فقہ حنفی کا ایک اہم ستون ہیں ،امام اعظم کے بعد انہیں کا نام لیا جاتا ہے غضب کے ذہین اور فطین تھے ، حافظہ بڑا قوی تھا، ایک ہی زمانہ میں حدیث ، فقہ اور مغازی کا علم حاصل کرتے، چنانچہ حافظ ابن عبد البر مالکی نے لکھا ہے کہ امام ابو یوسف جب محدثین کے یہاں آتے تو ایک ہی مجلس میں پچاس ساٹھ حدیث یاد کر لیتے ، ان کے پاس بکثرت احادیث تھیں (الانتفاء /172)
امام ہمام کی مجلس فقہ میں کسی مسئلہ پر فیصلہ ہو جاتا تو مشائخ کوفہ کے پاس حصول حدیث کے لیے جاتے ، فیصلہ شدہ مسئلہ کے متعلق حدیث پوچھتے ، بسا اوقات ایک ہی مسئلہ کے متعلق بہت سی مختلف حدیثیں معلوم ہوتیں، امام کی خدمت میں باریاب ہوتے تو وہ ان حدیثوں میں سے بعض کو قبول کرتے ، اور بعض کے بارےمیں کہتے کہ صحیح نہیں ہے ، دریافت کرتے کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا، فرماتے کہ کوفہ میں جوعلم ہے میں اس سے واقف ہوں (سیرت النعمان/191، الانتفاء/172)
حافظ ذہبی نے انہیں امام ، اور علامہ کے خطاب سے یاد فرمایا ہے، اور ابن معین کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام ابویوسف صاحب حدیث اور حامل سنت تھے۔ امام احمد نے کہا کہ وہ حدیث کے سلسلہ میں انصاف سے کام لیتے تھے ، نیز لکھا ہے کہ یحیی بن معین ، احمد بن حنبل، محمد بن حسن ، بشر بن ولید ، علی بن جعد نے ان سے حدیث روایت کی ہے (تذکرۃ الحفاظ 293/1)
خطیب بغدادی نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب مجھے حدیث پڑھنے کا خیال آیا تو سب سے پہلے امام ابو یوسف کی خدمت میں باریاب ہوا، سمعانی نے انہیں کا قول لکھا ہے کہ جب کسی مسئلہ میں امام ابو حنیفہ ، ابویوسف ، اور محمد اتفاق کر لیتے ہیں تو ان کی مخالفت نہیں سنی وہ کہتے ہیں کہ امام ابو یوسف حدیث کے سلسلہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے (اعلاء السنن 71/3)
اس عظیم المرتبت محدث کا اپنے شیخ امام اعظم کے متعلق خیال ہے کہ تفسیر حدیث میں امام ابوحنیفہ سے بڑھ کر کس کو نہیں پایا ، وہ صحیح حدیث کے متعلق مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے "وكان ابصر بالحديث الصحيح منی ” (الخیرات الحسان/29 الانتفاء /139) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بھی میں نے ان کے برخلاف نقطہ نظر کو اپنایا ، اور پھران کے قول کو غور کی نگاہ سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کا اختیار کردہ آخرت کے اعتبار سے زیادہ نجات دہ ہے ، اور میرا رجحان کبھی کسی حدیث کے ظاہری پہلو کی طرف ہوتا پھر غور کرنے پر معلوم ہوتا کہ وہ مجھ سے زیادہ حدیث کی بصیرت رکھتے ہیں (الخیرات الحسان/91، تاریخ بغداد 340/13)
10-زفر بن ہذیل
ذہانت و فطانت فکر و نظر کی گہرائی و گیرائی اور شرعی مسائل کو عقل انسانی کے ساتھ ہم آہنگ بنانے اور میزان عقل پرتولنے میں امام اعظم کے تلامذہ میں زفر بن ہزیل کا نام سر فہرست ہے، لیکن ساتھ ہی شریعت پر گرفت مضبوط تھی ، وہ حامل قرآن بھی تھے اور حافظ حدیث بھی ، وہ عالم بھی تھے اور عامل بھی، چنانچہ ابواسحاق شیرازی کہتے ہیں کہ امام زفر کا علم ہمدوش عمل تھا وہ اصحاب حدیث میں سے تھے ، اور ابن حبان کا بیان ہے کہ کان متقنا حافظا ۔
محدث وکیع بن جراح حصول علم کے لیے بہ کثرت ان کے پاس آتے رہتے تھے وہ کہتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ آپ جیسی ہستی کو امام ابو حنیفہ کا جانشین بنایا ، لیکن امام کی وفات کی حسرت اب بھی میرے دل میں ہے (پوری تفصیل ابو حنیفہ و اصحابہ سے ماخوذ ہے/104نیز دیکھیے تہذیب الاسماء)
وہ خود اپنے متعلق کہتے ہیں کہ جب تک حدیث و اثر موجود ہے ہم قیاس پرعمل نہیں کرتے ہمیں بعد میں بھی کوئی حدیث مل جاتی ہے تو قیاس کو چھوڑ دیتے ہیں (الفقیہ و المتفقہ 208/3)
11-محمد بن حسن شیبانی
علم حدیث میں امام محمد کا مقام و مرتبہ محتاج اظہار نہیں ان کی کتاب موطاء اور کتاب الآثار، معروف و مشہور ہے ، یہ بھی محتاج بیان نہیں کہ فقہ حنفی کا دار و مدار امام محمد کی مرتب کردہ کتابوں پر ہے امام محمد نے ان کتابوں کی ترتیب میں کیا ملحوظ رکھا ہے ؟ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی زبانی سنیے ۔
امام محمد نے امام ابوحنیفہ و ابو یوسف سے فقہ کا علم حاصل کیا پھر وہ مدینہ گئے، اور امام مالک سے ، موطا، پڑھی اور اس کے بعد اپنے اصحاب کے مذہب کو ، موطا سے ملانا شروع کیا، اگر موافقت ہوتی تو بہتر ہے ، بصورت دیگر وہ دیکھتے کہ اس قول کے مطابق صحابہ و تابعین میں سے کسی کا مسلک ہے یا نہیں اگر ہے تو اسے باقی رکھتے اور قیاس ضعیف کو حدیث صحیح یا اکثر علماء کے عمل کے خلاف پاتے تو اسے چھوڑ دیتے اور سلف سے منقول ایسے مسلک کو اختیار کرتے جو اس مسئلے میں راجح تر ہے (اعلاء السنن 60/1 بحوالہ حجۃ اللہ البالغہ) فقہ حنفی کے ترجمان علامہ ظفراحمد عثمانی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اس عبارت میں ان لوگوں کی مکمل تردید ہے جن کا گمان ہے کہ حنفیہ اپنے امام کے قول کے بالمقابل حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں، ہر گز ایسا نہیں، بلکہ امام کا قول حدیث کے مخالف ہو اور کسی دوسری حدیث کے موافق نہ ہو تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں، جیسا کہ امام ابویوسف و محمد نے کہا، اسی لیے ہماری کتابوں میں بہت سے ایسے فتوے ملیں گے جن میں امام ابو یوسف و محمد ، یا ان میں سے کسی ایک کے قول کو اختیار کیا گیا ہوگا، کیوں کہ یہ قول حدیث کے موافق ہے (حوالہ مذکور)
یہ در حقیقت امام ابو حنیفہ ہی کے منشاء کی تکمیل ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے متبعین کو یہ اصول دیا تھا کہ اذا صح الحدیث فھو مذھبی ، جب کوئی صحیح حدیث ہو تو وہی میرا مذہب ہے ) نیز فرمایا کہ لوگوں کی رائے سے ضعیف حدیث مجھے زیادہ پسند ہے ، اور یہ بھی کہ جب میری بات کتاب وسنت کے خلاف ہو تو دیوار پر ماردو ۔
وا قعہ یہ کہ حنفیہ امام اعظم کو خطاء سے معصوم نہیں سمجھتے ہیں ، اور نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ تمام حدیثوں کے عالم تھے ۔ بعض حدیثیں ان تک نہیں پہونچی اس لیے انہوں نے اجتہاد سے کام لیا، اور اس میں نادانستہ طور پر غلطی ہوئی اور یہ بات صرف ابو حنیفہ ہی تک محدود نہیں بلکہ صحابہ کے دور میں بھی اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں ۔
امام مالک کے دور میں حدیث مدون اور مرتب ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود ان کے ہم عصر مصری عالم لیث بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک کے ستر مسائل کو شمار کیا وہ سب رائے پر مبنی ہیں اور حدیث کے خلاف ہیں (الخیرات الحسان/99) ایسے ہی امام شافعی، احمد بن حنبل ، بلکہ امام بخاری تک اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں، اللہ کی پناہ، ان ائمہ نے دانستہ حدیث کے ہوتے ہوئے رائے اور اجتہاد سے کام نہیں لیا بلکہ اسی وقت اجتہاد کیا جب کہ ان کے سامنے کوئی حدیث نہ ہوتی ۔
12-عبد الرزاق بن ہمام :
صالح مصری کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا کہ عبد الرزاق سے بہتر بھی روایت حدیث میں کسی کوآپ نے دیکھا ہے ؟ فرمایا نہیں، معمر کہتے ہیں کہ وہ اس لائق ہیں کہ دور دراز سے حصول حدیث کے لیے ان کی طرف سفر کیا جائے (تہذیب التہذیب) محدث ذہبی نے کہا کہ وہ حدیث کے بڑے حافظ تھے (الحافظ الکبیر)( تذکرۃ الحفاظ 364/1)
حدیث میں ان کی ایک ضخیم کتاب جامع عبدالرزاق کے نام سے متعارف ہے، امام بخاری کو اعتراف ہے کہ انہوں نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے ، علامہ ذہبی نے اس کتاب کےمتعلق لکھا ہے کہ وہ علم کا خزانہ، ہے (سیرت النعمان /189بحوالہ میزان الاعتدال للذھبی )
امام احمد، سفیان بن عینیہ ، یحیی بن معین ، علی بن مدینی ان کے مشہور تلامذہ ہیں ، بخاری و مسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں ان کی روایت کردہ احادیث ہیں ۔
امام ابو حنیفہ کے متعلق ان کا تاثر ہے کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بردبار نہیں دیکھا، نیز وہ کہتے ہیں کہ میں نے مسجد حرام میں دیکھا کہ لوگ امام ابو حنیفہ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے مسئلہ دریافت کر رہے ہیں ، ایک شخص نے ان سے کہا کہ اس مسئلہ میں حسن کا یہ خیال ہے اور ابن مسعود کا قول یہ ہے امام نے فرمایا کہ حسن کا کہنا غلط ہے اور ابن مسعود کا قول درست ہے ، یہ سنتے ہی مجمع میں کھلبلی مچ گئی ، عبد الرزاق کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام ہمام کی بات ابن مسعود اور ان کے تلامذہ کے موافق ہے (الانتفاء /135)
13-قاسم بن معن مسعودی
فقہ حنفی کا حقیقی سر چشمہ عبداللہ بن مسعود کی ذات گرامی ہے قاسم بن معن کا تعلق نسبی اعتبار سے اسی ہستی سے ہے ، زبان و ادب سے خاص شغف تھا، اور ساتھ ہی حدیث و فقہ میں کمال درک رکھتے تھے، ابو حاتم کہتے ہیں کہ قاسم بن معن ثقہ ہیں، حدیث سے خوب سیراب ” ہوئے ، بہت با شعور اور زبان وادب اور فقہ سے خوب آشنا تھے، علامہ سیوطی نے نقل کیا ہے کہ عربی زبان وادب فقہ اور حدیث کے تعلق سے علماء کوفہ میں ان کا شمار تھا، وہاں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا، حنفی تھے ، روایت فقہ اور زبان دانی میں قابل اعتماد تھے ۔
طحاوی نے ابن ابی عمران کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ زبان وادب اور فقہ دونوں کے امام ہیں ان میں وسیع کون علم ہے ؟ فرمایا خدا کی قسم ابو حنیفہ کی ایک تحریر تمام فن عربیت پر بھاری ہے (دیکھیے ابو حنیفہ و اصحابہ/126-27) نیز وہ فرماتے ہیں کہ حضرت الامام ایک مرتبہ پوری رات ایک آیت بار بار پڑھتے رہے اور روتے گڑ گڑاتے رہے۔ وہ آیت یہ ہے ، بل الساعة موعد هم و الساعة ادھی وامر (تاریخ بغداد 357/13)
14-مسعر بن کدام :
امام جرح و تعدیل یحییٰ بن قطان نے کہا کہ میں نے مسعر سے بڑھ کر کسی کو قابل اعتماد (اثبت) نہیں پایا امام احمد بن حنبل نے کہا کہ ثقہ شعبہ اور مسعر جیسا ہو. وکیع نے کہا کہ مسعر کا شک اور دوسروں کا یقین برابر ہے۔ شعبہ نے کہا کہ ہم پختگی اور صدق کی وجہ سے مسعر کو قرآن کہا کرتے تھے (تذکرۃ الحفاظ 188/1) سفیان بن عینیہ ، احمد بن حنبل اور خود امام اعظم کے استاذ ہیں ۔
اس مقام ومرتبہ وجلالت علمی کے باوجود وہ امام ہمام سے ، فقہ کے سلسلہ میں استفادہ کرنے کے لیے آتے ہیں ، چنانچہ عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ میں نے مسعر کو دیکھا کہ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں ان کے سامنے بیٹھے ہوئے سوال کر رہے ہیں اور فتوی لے رہے ہیں (تبیض الصحیفہ/109بحوالہ خطیب ، الخیرات الحسان/47) امام اعظم کے متعلق وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیث ان کے ساتھ حاصل کی تو وہ ہم پر غالب آگئے، پھر ہم نے ترک دنیا کو اپنایا تو وہ اس میں بھی فوقیت لے گئے، اس کے بعد ان کے ساتھ فقہ حاصل کی تو ان کا فقہی کمال تمہارے سامنے ہی ہے (العقود /159، مناقب ذہبی /27) ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو شخص اپنے اور پروردگار کے درمیان ابو حنیفہ کو واسطہ بنالے تو مجھے امید ہے کہ اسے کوئی اندیشہ نہ ہو گا اور نہ ہی بے احتیاطی کرنے والا ہوگا (تبیض الصحیفہ/111 بحوالہ خطیب ، الخیرات/47) اللہ ان پر رحمت نازل کرے یقیناً وہ فقیہ اور عالم تھے (الانتفاء /125) کوفہ میں صرف دو ہی ہستیوں سے حسد کیا گیا، فقہ کے سلسلہ میں ابو حنیفہ سے اور زہد و ترک دنیا میں حسن بن صالح سے (تہذیب الاسماء و اللغات /219)
ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ابو حنیفہ کی رائے کو کیوں اختیار کیا ؟ فرمایا صحیح ہونے کی وجہ سے ، اس سے صحیح کوئی رائے ہو تو لے آؤ۔ تاکہ میں اسے چھوڑ دوں ۔ لصحتہ فاتوا باصح منه لارغب (الخیرات الحسان/47)
15-فضیل بن عیاض:
امام اسوہ، شیخ الاسلام، عالم ربانی، صمدانی ، کبیر الشان جیسے پرشکو الفاظ سے محدث ذہبی نے ان کے تعارف کی ابتدا کی ہے ابن مبارک، یحی بن سعید قطان، امام شافعی اور دوسرے بہت سے جلیل القدر محدثین اور فقہاء ان کے شاگرد ہیں ۔
عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ روئے زمین پر فضیل سے افضل کوئی باقی نہ رہا، ابن سعد نے کہا کہ وہ ثقہ ،نبیل، فاضل، عابد اور کثیر الحدیث تھے. شریک نے کہا کہ ہر قوم کے عہد میں ایک حجت رہا ہے اور فضیل اپنے عہد کے حجت ہیں (تذکرۃ الحفاظ/245-46)
تاجدار ورع و تقوی حضرت فضیل کی شان میں نچھاور کیے گئے گلہائے عقیدت و محبت کی یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی شان اس سے بہت اعلی اور ارفع ہے ۔
امام اعظم سے انہوں نے حدیث پڑھی۔ فقہ سیکھی اور تدوین فقہ میں شریک رہے امام ہمام کے متعلق ان کا بیان ہے :
وہ فقیہ تھے، فقہ اور ورع میں بہت مشہور تھے رات دن تعلیم و تعلم میں لگے رہتے ان کی رات بڑی اچھی ہوتی تھی (یعنی رات میں خوب عبادت کرتے) اکثر خاموش رہتے، بہت کم گفتگو کرتے مگر یہ کہ ان کے پاس حرام و حلال کا کہا کوئی مسئلہ آئے ۔جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو اس سے متعلق کوئی صحیح حدیث ہوتی تو اس کی پیروی کرتے گرچہ وہ صحابہ اور تابعین کے آثار ہی کیوں نہ ہوں ورنہ قیاس کرتے اور بہتر قیاس کرتے (تبیض الصحیفہ/109بحوالہ خطیب ، تہذیب الاسماء/219)
ان حضرات کے علاوہ دوسرے بہت سے محدثین نے امام ہمام سے کسب فیض کیا جن میں عبداللہ بن یزید مقری، ابو نعیم فضیل بن دکین، فضل بن موسی سینانی، ابراہیم بن طہمان، علی بن مسہر، جریر بن عبداللہ، محمد بن میمون مکری ، مالک بن مغول وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے (تلامذہ کی یہ فہرست تذکرۃ الحفاظ 168/1، تہذیب التہذیب 449/10، تبیض الصحیفہ/100-66 وغیرہ سے ماخوذ ہے) ۔
ان ناموں کی فہرست بھی بڑی طویل ہے، محض سرسری تذکرہ کے لیے بھی ایک دفتر چاہیے میں نے بغیر کسی انتخاب کے صرف چند لوگوں کا تذکرہ کیا ہے قلم حیران اور سر گرداں تھا کہ کس کے بارے میں لکھوں اور کسے نظر انداز کروں؟ بحر علم کے ان مواج لہروں میں سے کسے نگاہ کے حصار میں لاؤں اور کسے چھوڑ دوں ؟ سورج کے ان شعاوں کو کیسے ضبط تحریر میں لاؤں ؟ اس ابر رحمت سے عالم اسلام کا کونسا گوش محروم ہے ؟ کون سی ایسی جگہ ہے جہاں کے لوگوں نے اس سے کسب فیض نہ کیا ہو ۔
اور یہ تلامذہ بھی ایسے کہ ہرایک اپنی جگہ آفتاب اور ماہتاب ہے، ان میں سے اکثرکا تعارف محدث ذہبی نے اپنی مایہ ناز اور قابل اعتماد تصنیف "تذکرۃ الحفاظ” میں لکھا ہے جس کی ابتدا میں انہوں نے صراحت کر دی ہے کہ اس میں انہیں لوگوں کا تذکرہ ہے جو علوم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے امین اور حامل ہیں، راوی کو قابل اعتبار اور ضعیف قرار دینے صحیح اور غلط احادیث کو جانچنے میں ان کے اجتہاد پر اعتماد کیا جا تا ہے ۔
محدثین کی نگاہ میں:
دست قدرت نے امام اعظم کو بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ تقوی ، پر ہیز گاری، سخاوت وایثار، عبادت و ریاضت، علم و فضل اور خرد و عقل جیسے تمام کمالات کے جامع تھے ، آپ کی گوناگوں خصوصیتوں میں سے ایک اہم اور نمایاں خصوصیت ، فقہ دین (دین کا علم اور سمجھ) ہے ۔
دین کی سمجھ وہ اہم نعمت ہے جسے قرآن خیر کثیر سے تعبیر کرتا ہے، ارشاد رہانی ہے :
و من يوت الحكمة فقدا اوتی خيرا کثیرا .
جسے دین کی سمجھ عنایت کر دی گئی تو اسے بہت بڑی بھلائی مل گئی ۔
اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
و من يرد الله به خيرا یفقہ فی الدین (بخاری 16/1)
جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں
اور "فقہ دین” امام ہمام کا وہ امتیازی وصف جس کا اعتراف اپنے اور بیگانے سبھی کو ہے. امام ابو حنیفہ کو فقیہ اور مجتہد اعظم ساری دنیا مانتی ہے اور فقہ و اجتہاد کا اعتراف اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ قرآن حدیث اور دیگر اسلامی علوم کے ماہرین میں سے ہیں ایک بڑے محدث اعمش کا قول گزر چکا ہے کہ فقہا کی حیثیت حکیموں اور ڈاکٹروں کی سی ہے جو حدیث اور اس کے معنی و مفہوم پر عبور رکھتے ہیں اور محدثین دوا فروش کی طرح ہیں جن کے پاس دواؤں کا اسٹاک تو بہت رہتا ہے مگر اس کی خاصیت اور فائدے سے ناواقف ہوتے ہیں ۔یہی بات الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ امام ترمذی نے بھی کہی ہے چناں چہ وہ غسل میت کے مسئلے میں فرماتے ہیں :
و کذلک قال الفقھاء وھم اعلم بمعانی الحدیث
فقہاء نے اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے اور حدیث کے معنی کو یہی لوگ زیادہ جانتے ہیں (ترمذی 193/1باب ماجاء فی غسل المیت)
اور ابو المحاسن شافعی لکھتے ہیں :
یہ بات سورج کی طرح عیاں ہیں کہ مسائل فقہ کا استخراج احادیث میں ملکہ راسخہ کے بغیر ممکن نہیں ہے بلکہ امام ابو حنیفہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے دلائل کے ساتھ مسائل کا استنباط کیا ۔
محدثین نے بھی امام اعظم کی عظمت کا اعتراف زیادہ تر ایک فقیہ کی حیثیت سے کیا ہے،گرچہ دوسرے لفظوں میں یہ بھی ان کی حدیث دانی کا اعتراف ہے مگر میری کوشش رہی ہے کہ ایسے تاثرات بھی ذکر کروں جس میں صراحتا اس کا تذکرہ ہو ۔
یہ اعتراف عظمت زیادہ تر ان معاصرین کے اقوال پر مشتمل ہے جنہیں آپ کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا یا وہ آپ کے قریبی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
یہ اپنے دورہ کے مسلمہ شخصیات اور مستند و معتبر جوہری ہیں جوکسی کو معتمد اور لائق اعتبار اسی وقت قرار دیتے ہیں جب کہ ہر طرح سے جانچ اور پر کھ کر دیکھ لیا ہو ، بلکہ ان میں سے بعض تو اس معاملہ میں بہت سخت مانے جاتے ہیں ، انہوں نے وہی کہا جو ان کی آنکھوں نے دیکھا ، دماغ نے سوچا ، دل نے سمجھا اور یقین کیا، ان پر اس سلسلے میں کسی بد اعتمادی کا اظہار ذخیرہ حدیث سے اعتماد اٹھا لینے کے مترادف ہے کیوں کہ ان کے بغیر حدیث کی تاریخ نامکمل ہوگی ۔
1-سفیان ثوری وفات (س161ھ)
اللہ کی قسم ابو حنیفہ حصول علم میں بہت زیادہ مستعد اور حرام سے بچنے والے تھے ، وہی حدیث لیتے جو صحت کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو، رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کے تلاش میں رہتے، اور علماء اہل کوفہ کے مسلک کے جستجو میں رہتے ، کچھ لوگوں نے ان پر عیب لگایا، اللہ ہماری اور عیب لگانے والوں کی مغفرت فرمائے ۔ (الانتفاء /142، عقود الجمان /153) جو شخص ابو حنیفہ کی مخالفت کی جرأت رکھتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ مرتبہ میں ان سے بڑا اور علم میں ان سے بڑھا ہوا ہو، اور ایسا پایا جانا بہت بعید ہے (الخیرات الحسان/45، عقود الجمان/152) وہ روئے زمین پر سب سے بڑے فقیہ ہیں (تبیض الصحیفہ/104، الخیرات/45)
ایک بار امام ثوری کے بھائی کا انتقال ہو گیا ، تعزیت کے لیے لوگ جمع ہوئے امام صاحب بھی تشریف لائے، انہیں دیکھ کر امام ثوری کھڑے ہوگئے. تعظیم بجالائے اور اپنی نشست پر بٹھایا، اور خودامام صاحب کےسامنے بیٹھ گئے، جب تمام لوگ رخصت ہو گئے، تو ان کے تلامذہ نے کہا، آپ نے تو بڑی عجیب و غریب حرکت کی۔ یہ سن کر انہوں نے فرمایا : یہ شخص علم کے ایک مقام پر فائز ہے گر میں اس کے علم کی وجہ سے نہ اٹھتا تو اس کی عمر کی وجہ سے اٹھتا،اور عمر کی وجہ سے قیام نہ کرتا تو فقہ کی وجہ سے قیام کرتا اور فقہ کی وجہ سے نہ کھڑا ہوتا تو اس کے تورع اور پرہیزگاری کی وجہ سے کھڑا ہوتا۔ (تبیض الصحیفہ/112 بحوالہ خطیب تہذیب الاسماء/220للنوی)
زائدہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری کے پاس ایک کتاب دیکھی جس کا وہ مطالعہ کیا کرتے تھے میں نے دیکھنے کی اجازت لی، دیکھا تو وہ ابو حنیفہ کی” کتاب الرہن” نکلی میں نے کہا آپ ان کی کتاب دیکھتے ہیں؟ کہنے لگے کاش ان کی سب کتابیں میرے پاس ہوتیں اور میں ان کو دیکھتا علم کی شرح میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی لیکن ہم ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ (عقود الجمان /152، الخیرات الحسان/45)
امام ابو یوسف نے کہا کہ سفیان ثوری مجھ سے زیادہ ابو حنیفہ کی پیروی اور اتباع کرتے ہیں (الانتفاء /28- 127عقود الجمان/153)
2-سفیان بن عیینہ:
ابو حنیفہ نے مجھے محدث بنا دیا .کوفہ میں سب سے پہلے انہوں نے مجھے درس حدیث قائم کرنے کا حکم دیا. کوفہ کی جامع مسجد میں مجھے بٹھایا اور لوگوں سے کہا کہ یہ شخص عمر بن دینار کی حدیثوں کا سب سے بڑا عالم ہے یہ سن کر لوگ میرے پاس آنے لگے اور میں نے درس حدیث شروع کر دی (الانتفاء /128، اعلاء السنن 192/1غور کیجیے کہ امام حدیث جن کے بارے میں امام شافعی نے کہا ہے کہ اگر مالک اور سفیان بن عینیہ نہ ہوتے تو حجاز کا علم دنیا کو نہ ملتا (خطیب 179/9) وہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے مجھے محدث بنا دیا اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ صرف محدث ہی نہیں بلکہ محدث گر تھے وہ لوگوں کو محدث بنایا کرتے تھے.
اپنے دور کے علماء چار ہیں حضرت عبداللہ بن عباس، امام شعبی، ابو حنیفہ اور سفیان ثوری (عقود الجمان /149)میری نگاہوں نے ابو حنیفہ جیسا کسی کو نہیں دیکھا (حوالہ مذکور ) وہ صاحب مروت اور بکثرت نماز پڑھنے والے تھے (الانتفاء /130)
کسی نے ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا تو فرمایا فقیہ ابو حنیفہ اس مسئلہ میں یہ کہتے ہیں (حوالہ مذکور/129/) دوران درس کوئی مشکل مسئلہ آ جاتا تو کہتے کہ یہاں ابو حنیفہ کے تلامذہ میں سے کوئی ہے؟ کہا جاتا کہ "بشر” ہیں فرماتے ہیں کہ اس مسئلے میں کیا کہتے ہو؟ وہ جواب دیتے تو کہتے فقہا کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے ہی میں دین کی سلامتی ہے (تسلیم للفقھاء سلامۃ الدین ۔اعلاء السنن 201/1بحوالہ خطیب وغیرہ)
3-امام شافعی (وفات204 ھ)
امام شافعی کو فقہ حنفی کو بہت قریب سے دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ہے کیوں کہ فقہ حنفی کے ایک ہم ستون امام محمد آپ کے اکابر اساتذہ میں سے ہیں خود امام شافعی کو اعتراف ہے کہ میں نے امام محمد سے ایک اونٹ کے بوجھ کے بقدر علم حاصل کیا (خطیب 172/2) وہ فرماتے ہیں کہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے عیال اور محتاج ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ان سے بڑا بھی کوئی فقیہ ہے ۔جو امام ابو حنیفہ کی کتابوں کو نہ دیکھے وہ نہ تو علم میں ماہر ہو سکتا ہے اور نہ ہی فقیہ بن سکتا ہے وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ کی طرف سے فقہ کی توفیق دی گئی ہے (الخیرات الحسان/44 عقود الجمان/141) امام ابو حنیفہ اور ان کی فقہ مسلم تھی۔ (الانتفاء/135عقود الجمان /149)
واضح رہے کہ امام شافعی اور سفیان ثوری نے امام ہمام کی شخصیت کے تعارف میں فقہ کے ساتھ علم کا بھی لفظ استعمال کیا ہے، ظاہر ہے کہ یہاں علم سے مراد فقہ نہیں کیوں کہ فقہ کا تذکرہ خود موجود ہے بلکہ علم سے مراد علم قرآن و حدیث ہے جیسا کہ تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں یہی متعارف تھا چناں چہ محدث ابن جریج کہتے ہیں کہ جب حضرت عطاء مجھ سے کچھ بیان کرتے تو دریافت کرتا کہ علم ہے یا رائے اگر اثر و حدیث ہو تو کہتے کہ علم ہے اور رائے ہوتی تو کہہ دیتے کہ رائے ہے (تدوین حدیث/104بحوالہ تاریخ بغداد 345/1للخطیب) مشہور محدث معمر نے بھی حدیث کو علم سے تعبیر کیا ہے (تذکرۃ الحفاظ 190/1)
امام شافعی نے ایک بار صبح کی نماز امام صاحب کی قبر کے پاس مسجد میں پڑھی اور اپنے مسلک کے موافق دعائے قنوت نہیں پڑھی اور بسم اللہ جہر کے بجائے آہستہ سے کہا۔ عرض کیا گیا کہ آج آپ نے اپنے مسلک کے خلاف نماز پڑھی۔ فرمایا میں نے صاحب قبر کے ادب و احترام میں ایسا کیا (الخیرات /94،عقود الجمان /332)
4-امام احمد بن حنبل (وفات 241ھ)
وہ علم، پرہیزگاری دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کو ترجیح دینے میں ایسے مقام پر تھے کہ کسی کی ان تک رسائی نہیں ہو سکتی ہے، منصور کے عہد حکومت میں انہیں کوڑوں سے پیٹا گیا کہ عہدہ قضا کو قبول کرلیں لیکن انہوں نے اسے ٹھکرا دیا انھیں اللہ کی رحمت اور رضا حاصل ہو۔ (عقود الجمان /156, الخیرات الحسان/46)
5-علی بن مدینی (وفات 234 ھ)
یہ امام بخاری کے کبار اساتذہ میں سے ہیں صحیح بخاری ان کی روایتوں سے مالا مال ہے، امام بخاری کہتے ہیں کہ علی بن مدینی کے پاس میں اپنے آپ کو بہت حقیر پاتا تھا۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم تھے ان کی دقت نظر حدیث کے راویوں کی معرفت اور سنت سے واقفیت کی وجہ سے ابن عیینہ انہیں "وادی کا سانپ” کہا کرتے تھے کہ ان سے کسی راوی کی کمزوری اور عیب پوشیدہ نہیں رہتا (اعلاء السنن 197/1بحوالہ تہذیب لابن حجر 56/7-351) یہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ دین کے معاملے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنے والد کو ضعیف قرار دے کر ان سے حدیث کی روایت نہیں کی۔ کسی کو ثقہ قرار دینے میں ان کی سختی مشہور ہے (اعلاء السنن 198/1بحوالہ تہذیب 292/8ہدی الساری 156/2)
یہ امام ہمام کے متعلق کہتے ہیں کہ ان سے سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، حماد بن زید، ہشام، وکیع، عباد بن عوام اور جعفر بن میمون نے حدیث روایت کی ہے وہ ثقہ ہیں (فن حصول حدیث کے مطابق) ان میں کوئی عیب نہیں ثقۃ لا باس بہ (عقود الجمان /355 الخیرات/101)
6-یحی بن معین (وفات 233 ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے یہ جرح و تعدیل کے امام ہیں. بخاری، مسلم، ابو داؤد، احمد بن حنبل ابو حاتم رازی ابوذرعہ وغیرہ نے ان سے حدیث روایت کی ہے. ابو داؤد سے پوچھا گیا حدیث کے راویوں کے بارے میں کون زیادہ جانتا ہے علی بن مدینی یا یحییٰ بن معین ؟کہا یحیی، امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یحیٰی ہم میں سب سے زیادہ حدیث کے راویوں کے متعلق علم رکھتے ہیں، خود علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں ان کے جیسا نہیں دیکھا .عجلی کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو یحیی بن معین سے زیادہ حدیث کا پہچاننے والا پیدا نہیں کیا (اعلاء السنن 193/1 بحوالہ تہذیب 88/-280/11)
جرح و تعدیل اور حدیث کا یہ امام ابو حنیفہ اور ان کے فقہ پر اعتماد کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے :
القراءۃ عندی قراءۃ حمزۃ .الفقہ فقہ ابی حنیفۃ و علیہ ادرکت الناس (الخیرات الحسان/48عقود الجمان/163)
میرے نزدیک قرأت حمزہ کی قرأت ہے اور فقہ ابو حنیفہ کی فقہ ہے اور میں نے اسی پر لوگوں کو پایا ہے ۔
نیز وہ فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، وہی حدیث بیان کرتے ہیں جو ان کے حافظے میں ہو، جس حدیث کو ان کے ذہن نے محفوظ نہیں رکھا (گرچہ وہ کسی جگہ لکھی ہوئی ہو ) اسے بیان نہیں کرتے (اعلاء السنن /193بحوالہ تہذیب 450/10)وہ ثقہ ہیں میں نے کسی سے نہیں سنا کہ کوئی انھیں ضعیف قرار دیتا ہو، امام شعبہ ابو حنیفہ کو حکم دیتے ہیں کہ درس حدیث قائم کریں اور شعبہ کے مرتبہ کا کیا پوچھنا (الانتفاء /127عقود الجمان /164) میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اسے وکیع سے بڑھا سکوں، یہ وکیع امام ابو حنیفہ کی رائے پر فتوی دیتے تھے اور ان کی تمام حدیثوں کو یاد رکھتے تھے انہوں نے ابو حنیفہ سے بہت سی حدیثیں سنی ہیں قد سمع منہ حدیثا کثیرا (اعلام 192/1عقود الجمان /355) سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اصحاب (علمائے حدیث) ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ کے سلسلے میں زیادتی کرتے ہیں (الخیرات /101عقود الجمان / 354اعلاء /1991بحوالہ جامع العلم 148/2)
ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا ابو حنیفہ سے سفیان ثوری نے روایت لی ہے؟ تو کہا ہاں وہ حدیث و فقہ میں قابل اعتماد تھے اور اللہ کے دین کے سلسلے میں لائق اطمینان (الخیرات /48 العقود /164)
7-یحیی بن آدم (وفات 203 ھ)
امام احمد بن حنبل اور اسحاق وغیرہ نے ان سے حدیث لی ہے (تذکرۃ الحفاظ 360/1) بخاری میں بھی ان کی سند سے حدیث ہے، امام ابو حنیفہ کو قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے؛ اس لیے جب امام کے متعلق ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کچھ لوگ امام ابو حنیفہ کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں ان کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ تو فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے ایسی علمی باتیں بیان کیں جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہے اس لیے یہ لوگ ان سے حسد کرتے ہیں (الخیرات /48) انہوں نے اپنے شہر کی تمام حدیثوں کو جمع کیا اور غور کر کے دیکھا کہ ان احادیث میں آنحضور کا آخری عمل کس پر تھا (کان نعمان جمع حدیث بلدہ کلہ فنظر الی آخر ما قبض علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم . اعلاء السنن 12/3 بحوالہ اعلام الموقعین )
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو ارشاد و عمل منسوب ہے ، ان میں باہم تاریخی ترتیب کیا ہے؟ کون پہلے اور کس کا تعلق بعد کے زمانے سے ,؟ یہ جانے بغیر اسلامی قانون کو صحیح ڈھنگ سے مرتب نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اسلامی احکام میں تدریج کا لحاظ رکھا گیا ہے، پہلے بعض چیزوں کی اجازت تھی اور بعد میں اس کی ممانعت کردی گئی ۔اب اگر تاریخی ترتیب کا خیال رکھے بغیر احادیث کی روشنی میں اسلامی قانون کو مدون کیا جائے تو وہ کتنی تضادات کا حامل ہوگا ؟ سوچا نہیں جا سکتا ہے اس لیے امام ہمام اس کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ یحی بن آدم نے امام کے اسی وصف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :
فنظر الی آخر ما قبض علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
8- اسرائیل بن یونس
حافظ حدیث، حجت، نیک اور علم کا ظرف ہیں، بخاری و مسلم وغیرہ نے انہیں لائق احتجاج سمجھا ہے (تذکرۃ الحفاظ 214/1)
یہ فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ کی کیا ہی اچھے انسان ہیں فقہ و احکام سے متعلق احادیث کو سب سے زیادہ یاد رکھنے والے اور سب سے زیادہ اس کی تلاش و جستجو میں سرگرداں اور احادیث میں موجود فقہ کے سب سے بڑے عالم تھے( الخیرات الحسان/90 العقود /299)
9-معمر بن راشد (وفات 153ھ)
زہری، قتادہ، عمر بن دینار سے حدیث سنی اور سفیان ثوری ، ابن عیینہ ، ابن مبارک وغیرہ نے ان سے حدیث کی روایت کی، امام احمد بن حنبل نے کہا کہ جس سے بھی تم معمر کا موازنہ کرو گے انہیں اس سے بڑھ کر پاؤ گے. امام حدیث عبدالرزاق نے کہا کہ میں نے معمر سے دس ہزار حدیثیں لکھی ہیں (تذکرۃ الحفاظ 190/1) اس شان کا امام حدیث ابو حنیفہ کے متعلق کہتا ہے کہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو ابوحنیفہ سے بہتر فقہ کا عالم ہو، یا وہ قیاس اور حدیث کی شرح میں ان سے اچھی معرفت رکھتا ہو، اللہ کے دین میں کوئی شک کی بات داخل ہو اس کے متعلق ان سے زیادہ خوف خدا رکھنے والا مجھے کوئی نظر نہیں ایا (تبیض الصحیفہ/109، العقود /160 بحوالہ خطیب)
10- عبداللہ بن یزید المقری (وفات 213 ھ)
محدث جلیل، شیخ الاسلام بخاری و احمد بن حنبل کے استاد عبداللہ بن یزید مقری(دیکھیے تذکرۃ الحفاظ 367/1) جب امام اعظم کے واسطے سے حدیث بیان کرتے تو کہتے ہیں "حدثنا شاھان شاہ” شہنشاہ علم نے یہ حدیث ہم سے بیان کی ہے( عقود الجمان /163)
11-عیسی بن یونس (وفات 187 ھ)
مجاہد اعظم، محدث کبیر ،امام ،حافظ، قدوۃ عیسی بن یونس (دیکھیے تذکرۃ الحفاظ 279/1)کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ کے بارے میں بری بات ہرگز نہ کہو اور کبھی بھی ایسے شخص کی تصدیق نہ کرو جو ان کے سلسلے میں بدگوئی کرتا ہے، بلاشبہ خدا کی قسم میں نے ان سے زیادہ صاحب فضیلت۔ ان سے بڑا پرہیزگار اور فقیہ نہیں دیکھا ہے (الانتفاء /137، الخیرات/47 العقود /160)
12-حسن بن صالح (وفات 167ھ)
ابو نعیم نے کہا کہ میں نے آٹھ سو محدثین سے احادیث لکھی ہیں لیکن کسی کو میں نے حسن بن صالح سے افضل نہیں پایا ابو حاتم نے کہا کہ وہ قابل اعتماد اور حافظ حدیث ہیں، امام احمد بن حنبل نے کہا کہ حسن ثقہ اور معتبر ہیں، ابوذرعہ نے کہا کہ وہ فقہ و عبادت اور زہد کے جامع ہیں (دیکھیے تذکرۃ الحفاظ 17/1-216)
یہ عظیم محدث، فقیہ، عابد اور زاہد امام ابو حنیفہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : و کان النعمان بن ثابت فھما عالما متثبتا فی علمہ ، اذا صح عندہ الخبر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یعدہ الی غیرہ،
ابو حنیفہ فہم اور علم کا پیکر تھے، انہیں علم میں رسوخ حاصل تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث انہیں مل جاتی تو پھر اس کے سوا کسی اور کو اختیار نہ کرتے( الانتفاء /128) وہ بہت زیادہ پرہیزگار، حرام سے بچنے والے، بلکہ بہت سی جائز چیزوں کو شبہ کی وجہ سے چھوڑ دینے والے تھے، میں نے کسی فقیہ کو ان سے زیادہ سخت محتاط نہیں دیکھا، ان کی پوری تیاری آخرت کے لیے تھی ۔( عقود الجمان /239۔عربی)
13- ابن جریج وغیرہ
فقیہ مکہ، امام شافعی کے استاد الاساتذہ محدث شہیر ابن جریج کے پاس جب امام ابو حنیفہ کی وفات کی خبر پہنچی تو فرمایا ان کے ساتھ بہت زیادہ علم چلا گیا "قد ذھب معہ علم کثیر” (الانتفاء /135 الخیرات /93) امام حافظ حدیث سعید بن عروبہ (تذکرۃ الحفاظ 177/1)نے کہا ابو حنیفہ عراق کے عالم تھے (الانتفاء /130) شہر کوفہ سے ان کی جانب سے ہمارے پاس جو علم آ رہا ہے میں نے ویسا علم نہیں دیکھا، میں بڑا مشتاق ہوں کہ اللہ اس علم میں جو (ابو حنیفہ کے پاس ہے) مومنین کے دلوں میں منتقل کر دے یقینا اللہ نے اس آدمی کے لیے فقہ کا عجیب دروازہ کھول دیا ہے، جیسے وہ اس کے لیے پیدا کیا گیا ہو (العقود /168) امام، حافظ، علامہ (تذکرۃ الحفاظ 314/1) نضر بن شمیل کا بیان ہے کہ لوگ فقہ کے سلسلے میں غفلت میں پڑے ہوئے تھے ابو حنیفہ نے اس کا دروازہ کھول کر لوگوں کو نیند سے بیدار کیا اور فقہ کو واضح اور چھان پھٹک کر پیش کیا (العقود /159، تبیض الصحیفہ/109) امام ،سراپا علم، فقیہ عبدالعزیز بن سلمہ ماجشون (تذکرۃ الحفاظ 222/1)نے کہا کہ ابو حنیفہ مدینہ حاضر ہوئے تو ہم نے مسائل میں ان سے گفتگو کی وہ بہترین دلیلوں سے استدلال کرتے تھے، ان میں کوئی خامی اور عیب نہیں (العقود /173) سید العلماء، عابد شب بیدار، ایوب سختیانی (تذکرۃ الحفاظ 131/1)نے پیغام بھیجا کی فقیہ صالح ابو حنیفہ حج کا ارادہ کر رہے ہیں ملاقات ہو تو ان سے میرا سلام کہنا (الانتفاء /125العقود /167) حافظ حدیث، حجت، علم کا سرچشمہ (تذکرۃ الحفاظ 233/1)زہیر بن معاویہ نے اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ کہا ابو حنیفہ کے یہاں سے، فرمایا تمہارا ابو حنیفہ کی خدمت میں ایک دن رہنا میرے یہاں ایک ماہ رہنے سے زیادہ نافع ہے ( الانتفاء /134العقود /169)
امام، قدوہ ،عابد شب بیدار، حافظ حدیث عبداللہ بن داؤد خریبی (تذکرۃ الحفاظ 337/1)نے کہا ہے کہ اہل اسلام پر واجب ہے کہ اپنی نمازوں میں امام ابو حنیفہ کے لیے دعا کریں کیوں کہ انہوں نے ان کے لیے سنت و فقہ کو محفوظ کر دیا (العقود /157) ان کی عیب جوئی کرنے والے دو طرح کے ہیں حاسد، جاہل میرے نزدیک جاہل اور ناواقف حاسد سے بہتر ہے (حوالہ سابق) کیوں کہ جاہل ناواقفیت کی وجہ سے کہتا ہے اس لیے ایک گونہ اسے معذور کہا جا سکتا ہے۔
شیخ الاسلام، امام ،حافظ حدیث حماد بن سلمہ (تذکرۃ الحفاظ/202) کا بیان ہے کہ ابو حنیفہ کا فتوی دوسرے لوگوں سے اچھا ہے ۔
امام ابو داؤد (متوفی 275ھ) جن کی کتاب حدیث کے چھ مشہور اور صحیح کتابوں میں شمار کی جاتی ہے، فرماتے ہیں اللہ کی رحمت نازل ہو مالک شافعی اور ابو حنیفہ پر یہ ہستیاں منصب امامت پر فائز تھیں (الانتفاء 32، تذکرۃ الحفاظ 169/1)
امام اعظم کے متعلق بعض تاثرات اساتذہ اور تلامذہ کے ذیل میں بھی لکھا جا چکا ہے لیکن یہ صرف ایک نمونہ ہے اگر ان کے بارے میں محدثین اور ائمہ دین سے منقول تمام اقوال کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب بن جائے تاہم ایک حق شناس اور انصاف پسند کے لیے مذکورہ اقوال ہی کافی ہیں اور ضدی ہٹ دھرم کے لیے تو ایک دفتر بھی ناکافی ہے ۔
ان تاثرات کو نقل کرنے میں میں نے التزام کیا ہے کہ صرف انہی لوگوں کے اقوال کو قلم بند کروں جن کا ذکر ذہبی نے اپنی کتاب تذکرۃ الحفاظ میں کیا ہے کیونکہ اس کتاب کے شروع میں انہوں نے وضاحت کر دی ہے کہ اس میں انہیں حضرات کا تذکرہ ہے جو علوم نبوت کے حامل ہیں اور جرح و تعدیل میں ان کے اجتہاد پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ دوسرے ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جنہوں نے امام اعظم کو دیکھا اور پرکھا ہے ایک معاصر کسی کے علم و فضل کا اعتراف کرتا ہے تو وہ ایک غیر معمولی اور اہم بات ہوتی ہے اور بعض وہ ہیں جو امام کے قریبی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے بات کی جو اہمیت اور حیثیت ہوگی وہ بعد میں آنے والے کی بات کی نہیں ہو سکتی مشہور مثل ہے کہ "سنا ہوا دیکھے ہوئے کی طرح کب ہو سکتا ہے”
خطیب کی تاریخ بغداد اور دیگر کتابوں میں امام ہمام سے متعلق بعض نقطہ چینیاں بھی نقل کی گئی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن بزرگوں کی طرف وہ باتیں منسوب کی گئی ہیں، اصول کی کسوٹی پر وہ نسبت صحیح نہیں اترتی ہے، چنانچہ علامہ محمد بن یوسف شافعی لکھتے ہیں کہ :
جن باتوں کو خطیب بغدادی نے امام ابو حنیفہ کی تردید میں ذکر کی ہے، ان میں سے اکثر کی سندوں میں ایسے راوی ہیں جو یا تو مجہول ہیں یا ان کے بارے میں علماء حدیث نے کلام کیا ہے، لہذا ان روایتوں کی بنیاد پر کسی بھی صاحب ایمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے تو پھر ایسے شخص کو مطعون کرنا کیسے درست ہوگا جو امام المسلمین ہے (العقود /371)
ابن عبدالبر مالکی نے بھی "الانتفا” میں اس طرح کے کچھ خیالات نقل کیے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ جواب بھی دیتے چلے گئے ہیں، بلکہ انہوں نے یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ اگر یہ نسبت ثابت ہو تو اس کی وجہ معاصرانہ چشمک اور حسد ہے(دیکھیے الانتفاء /147، العقود /177 بحوالہ الاستغنا لابن عبد البر) . ابو المحاسن شافعی ابن عبد البر ہی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ابو حنیفہ محسود تھے ان کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کی جاتی تھیں جو ان میں نہیں ہوتیں اور ایسے ایسے امور گھڑے جاتے جو ان کی عظمت شان کے قطعا مناسب نہیں( العقود / 353 دیکھیے جامع بیان العلم/148)
نیز وہ لکھتے ہیں :
اگر ان روایتوں کو تسلیم کر لیا جائے تو دو حال سے خالی نہیں ہے، یا تو وہ راوی امام ابو حنیفہ کا معاصر نہ ہوگا اس نے نہ امام کو دیکھا ہوگا اور نہ ہی ان کے احوال کا مشاہدہ کیا ہوگا بلکہ ان اوراق کو گلے کا ہار بنا لیا ہوگا جنہیں امام ابو حنیفہ کے مخالفین نے سیاہ کیا تھا حالاں کہ وہ قابل التفات نہیں تو ایسے راوی کی طرف توجہ دینا مناسب نہیں اور اگر وہ راوی امام صاحب کا ہم عصر ہے اور میدان فضل و کمال میں ان کی ہم سری کا دعویدارہے تو بھی اس کی بات ناقابل قبول ہے کیوں کہ اس کی جرح کا سبب منافست اور چشمک ہے۔
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
"بہت سے لوگوں نے امام صاحب کو ان کے مرتبے سے گرانے کی کوشش کی اور یہ کہ ہم عصروں کے دلوں سے ان کی محبت نکال دیں لیکن وہ اس پر قادر نہ ہو سکے اور نہ ان کے کلام نے کوئی اثر کیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ ایک آسمانی فیصلہ ہے ان کے خلاف حیلہ بازی نہیں چلے گی اور اللہ جسے بلند کرے مخلوق اسے نیچا نہیں کر سکتی”
اور علامہ ذہبی کے حوالے سے یہ اصول بیان کرتے ہیں:
معاصرین کی عیب جوئی ایک دوسرے کے بارے میں قابل توجہ نہیں خاص کر اس وقت جب کہ ظاہر ہو جائے کہ یہ معاصرانہ چشمک، عداوت یا مذہبی تعصب کی وجہ سے ہے ،کیوں کہ اس کی وجہ حسد ہوا کرتا ہے جس سے کسی بھی زمانے کے لوگ نہیں بچ سکتے البتہ انبیاء اور صدیقین اس سے مستثنیٰ ہیں (العقود /372)
واقعہ یہ ہے کہ حسد اور معاصرانہ چشمک کا کمزور پہلو انسان کے اندر موجود ہے نیز غصہ اور مسرت انسانی فطرت ہے ، ان حالتوں میں خود پر قابو رکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے ، صرف ایک نبی کی شان ہے جو ان دونوں حالتوں میں بھی توازن کو برقرار رکھتا ہے اس طرح کی باتوں کو سامنے رکھ کر اگر کسی کے بارے میں یہ فیصلہ کیا جائے تو پھر شاید کوئی اس طرح کی نقطہ چینیوں سے بچ سکے، محدث ابن ابی ذئب نے امام مالک کے خلاف، ابن معین نے امام شافعی کے خلاف ، امام حارث محاسبی نے امام احمد بن حنبل کے خلاف، ایسے ہی امام احمد بن صالح اور ذہلی نے نسائی اور بخاری کے خلاف جو باتیں کہی ہیں (دیکھیے العقود / 359-573جامع بیان العلم /62- 150) اگر انہیں تسلیم کر لیا جائے تو پھر کیا احادیث کا یہ ذخیرہ قابل اعتماد رہ جائے گا ؟؟؟
اور بات صرف ائمہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ سلسلہ صحابہ تک پھیلتا چلا جائے گا۔ حافظ ابن عبدالبر نے صحابہ اور بعض تابعین کے اقوال دوسرے کے برخلاف نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
جو شخص ثقہ اور قابل اعتماد علماء اور ائمہ کے باہمی باتوں کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے صحابہ کے باہمی اقوال کو بھی قبول کرنا چاہیے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو گمراہ اور بڑے گھاٹے میں پڑ جائے گا اور ایسا نہیں کرتا ہے اور ہرگز نہیں کرنا چاہیے اور اللہ اسے ہدایت دے اور خیر کی طرف رہنمائی کرے تو وہیں آکر ٹھہر جائے۔ تو ہم نے بیان کیا کہ جس شخص کی عدالت صحت کے درجے تک پہنچی ہو اور علم کے ساتھ اس کا تعلق معلوم ہو، کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو، مروت و وقار کا پیکر ہو، اس کی اچھائیاں زیادہ اور اس کی برائیاں کم ہوں تو ایسے شخص کے بارے میں بے دلیل کوئی بات قبول نہیں کی جائے گی، یہی حق ہے اس کے سوا سب نا درست ہیں (جامع بیان العلم 162/1)
نیز وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ان خصوصیات کا حامل ہو اسے مجروح قرار دینے کے لیے شہادت اور گواہی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، نیز روایت کے ساتھ درایت کے پہلو پر بھی توجہ ہونی چاہیے، ہمارا دعوی ہے کہ اکثر مسلمانوں نے جسے دین میں امام بنا لیا ہو اس کے حق میں کسی کے عیب لگانے کا اعتبار نہ ہوگا، کیوں کہ غصہ اور غضب کی حالت میں سلف صالحین سے ایک دوسرے کے خلاف ایسی باتیں ہو گئی ہیں اور اس طرح کی باتوں کا سبب حسد بھی ہو سکتا ہے (حوالہ مذکور/152)
بعض محدثین کو امام صاحب سے غلط فہمی کی وجہ سے جن باتوں میں اختلاف تھا آئندہ صفحات میں مثبت انداز میں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
اصول درایت
امام اعظم کے عہد میں روایت اور سند کے اعتبار سے فن حدیث میں کافی ترقی ہو چکی تھی، جسے آگے بڑھانے میں امام ہمام نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس راہ میں ایسے نقوش چھوڑ گئے کہ کوچہ حدیث کا کوئی رہرو اسے نظر انداز نہیں کر سکتا ہے ۔
لیکن درایت حدیث کا گوشہ خالی پڑا تھا، اس کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں حضور کی طرف منسوب بہت سی ایسی باتیں رواج پا گئی تھیں جو اسلام کے مزاج و مذاق کے خلاف اور روح شریعت کے منافی تھیں اس لیے انہوں نے اس پہلو کی طرف بھرپور توجہ کی اور صحابہ کی تاریخ میں مسائل و واقعات کے درمیان بکھرے اصول درایت کو یکجا کیا ،یہ امام اعظم کا اتنا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی ہے ۔
یہ وہ دور تھا کہ حدیث کی صحت کے لیے صرف یہ کافی سمجھا جاتا تھا کہ روایت کرنے والے کی یادداشت ٹھیک ہے، امانت و دیانت کے پہلو سے اس میں کوئی کمزوری نہیں ہے ،لیکن کیا کسی بات کی صحت کے لیے اتنا ہی جان لینا کافی ہو سکتا ہے؟ راوی کے ثقہ اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود یہ امکان باقی نہیں رہتا کہ واقعہ کے اعتبار سے وہ بات درست نہ ہو۔اس نے آنحضور کی بات کو صحیح طور پرسمجھا نہ ہو؟ موقع اورمحل کی خصوصیتوں کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو؟ کیوں کہ حدیث کی روایت میں بہت سے لوگ آنحضور سے منقول الفاظ کے پابند نہیں رہتے تھے، بلکہ مفہوم کو اپنے الفاظ میں ادا کرتے تھے ۔
اور بسا اوقات الفاظ کے معمولی تبدیلی سے بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے، روز اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، یہ صرف امکان ہی نہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں زبان رسالت سے براہ راست حدیث نقل کرنے والوں میں بھی اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں، چنانچہ فاطمہ بنت قیس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے عدت کا نفقہ اور سکنی نہیں ہے، حضرت عمر کے سامنے جب یہ حدیث آئی تو انہوں نے فرمایا ہم کتاب اللہ کے حکم کو ایک عورت کے کہنے کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے، معلوم نہیں کہ آنحضور کی بات کو اس نے صحیح طور پر سمجھا یا نہیں (دیکھیے بیہقی 475/7) اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔
اسی لیے امام اعظم نے راوی کو جانچنے اور پرکھنے کے ساتھ ہی درایت کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا یعنی یہ دیکھنے کی کوشش کی کیا آنحضور کی طرف جس بات کی نسبت کی جا رہی ہے واقعہ کے اعتبار سے درست ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ عقل و خرد اور شریعت کے مجموعی مزاج و مذاق سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں امام صاحب نےصحابہ سے منقول واقعات کی روشنی میں جو اصول متعین کئے ہیں وہ یہ ہیں :
1- خبر واحد ۔(وہ حدیث جس کی روایت کرنے والوں کی تعداد صحابہ، تابعین یا تبع تابعین کے عہد میں متواتر کی تعداد سے کم ہو اسے خبر واحد کہتے ہیں اور متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں، جس کے روایت کرنے والے مذکورہ تینوں زمانے میں اس قدر ہوں کہ ان کے جھوٹ پر اتفاق کرنے کا گمان نہ ہو، جس حدیث کے راوی صحابہ کے عہد میں تواتر کی تعداد سے کم ہوں لیکن تابعین اور تبع تابعین کے دور میں ان کی تعداد بے شمار ہو گئی ہو یہاں تک کہ جھوٹ پر اتنے لوگوں کے اتفاق کا گمان نہ ہو تو وہ حدیث مشہور ہے ، مذکورہ تمام شرطیں خبر واحد سے متعلق ہیں) قرآن ، حدیث متواتر اور حدیث مشہور کے خلاف نہ ہو ۔
2- اجماع امت کے مخالف نہ ہو ؛اس لیے کہ پوری امت کا اتفاق اور اجماع کسی ایسی ہی بات پر ہو سکتا ہے جو کتاب و سنت سے ہم آہنگ ہو،اور اس طرح کے اجماع سے ثابت شدہ حکم بھی کتاب و سنت سے ثابت حکم کے درجے میں ہے، لہذا اگر کوئی خبر واحد اس کے مخالف ہو تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔
3- اجماعی اصول اور مسلمہ قواعد کے خلاف نہ ہو ۔
4- عقل سلیم اس حدیث کے مضمون کو ناممکن باور نہ کرے، واضح رہے کہ خلاف عقل اور ماوراء عقل میں بڑا فرق ہے، ضروری نہیں کہ جو چیز ہماری سمجھ سے بالاتر ہو وہ خلاف عقل بھی ہو (دیکھیے الموافقات 24/2، العقود /361بحوالہ الکنی لابن عبد البر، جامع بیان العلم/148)
امام اعظم نے خبر واحد کی قبولیت کے لیے جو اصول بیان کیے ہیں، یہ ان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ صحابہ کی تاریخ میں بھی درایت کے یہ اصول ملتے ہیں مگر وہ مسائل و واقعات کے درمیان اس طرح گھرے ہوئے تھے کہ عام لوگوں کی نگاہ اس پر نہیں پڑتی تھی چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضور نے فرمایا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال سے وضو کرو "الوضوء مما مستہ النار” حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ حدیث سن کر کہا "انتوضاء من الحمیم” اس طرح تو گرم پانی کے استعمال سے بھی وضو ضروری ہوگا ؟ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : برادر زادے جب اللہ کے رسول کی حدیثیں سنو تو اس پر مثالیں نہ کہو (ترمذی /24) اسی طرح سے حضرت عبداللہ بن عمر نے حدیث روایت کی کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے چلانے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، "ان المیت یعذب ببکاء اھلہ” لیکن حضرت عائشہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ یہ قرآن کے بیان کردہ اصول کے خلاف ہے کہ "ان لا تزر وازرۃ وزر اخری” ترجمہ : کسی شخص کے گناہ کا بوجھ دوسرے پر نہ لادا جائے گا ۔ (انعام /164) (دیکھیے ترمذی/195 باب ما جاء فی الرخصۃ فی البکاء علی المیت ۔)
نیز معراج میں رویت باری والی حدیث کا انکار کیا کیوں کی وہ قرآنی آیت "لا تدرکہ الابصار”کے منافی ہے، (ترجمہ : نگاہیں اللہ کا ادراک نہیں کر سکتی ہیں ،(انعام /103) دیکھیے نووی علی مسلم 97/1) ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کیا کیوں کہ کتاب اللہ کے خلاف ہے (بیہقی 475/7) اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں صحابہ کے عہد میں ملتی ہیں ۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ ان واقعات سے اصول کشید کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں نہ تھی، یہ امام کے دراک ذہن کا کمال تھا کہ ان کی رسائی ان اصول تک ہو گئی اس لیے انہوں نے ان اصولوں کی روشنی میں بعض خبر واحد کو قبول کرنے سے انکار کیا تو یہ ایک زمانہ چیخ اٹھا، ہنگامہ برپا ہو گیا، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن اور مخالف کہا گیا، لیکن یہ ایک وقتی ہنگامہ تھا، آہستہ آہستہ نگاہوں کے سامنے سے حجاب اٹھ گیا، حقیقت نکھر کر سامنے آگئی ،تمام علماء نے ان اصولوں کو قبول کیا اور ایک دور ایسا بھی آیا ہے کہ جب ابن جوزی نے یہ اصول بیان کئے :
جس حدیث کو عقل کے خلاف اور اصول کے مناقض دیکھو تو جان لو کہ وہ موضوع ہے اس کے راویوں کو جانچنے پرکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ایسے ہی وہ حدیث بھی موضوع ہے، جو حس و مشاہدہ کے اعتبار سے باطل ہو یا قرآن ، حدیث متواتر اور اجماع قطعی کے خلاف ہو اور تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو (سیرت النعمان /91 بحوالہ فتح المغیث)
تو کسی طرف سے کوئی آواز نہ آئی ۔
خبر واحد, قرآن ،حدیث متواتر و مشہور اور اجماع قطعی کے خلاف ہو تو اسے قبول نہ کرنے میں کسے کلام ہو سکتا ہے کیوں کہ جو حدیث اس طرح سے ثابت ہو اس کی نسبت آنحضور کی طرف قطعی اور یقینی نہیں ہوتی اور کسی قطعی چیز کو غیر قطعی پر یقینی طور پر ترجیح دی جائے گی ۔
ایسا ہی مسلمہ اصول و ضوابط کے مقابل خبر واحد کو نظر انداز کر دیا جائے گا کیوں کہ یہ اصول و ضوابط قرآن و حدیث کی روح اور نچوڑ ہوا کرتے ہیں، اس لیے خود محدثین بھی قوی سے قوی خبر واحد کو اس کے بالمقابل چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے مطابق ضعیف حدیث کو قبول کرتے ہیں، چنانچہ ترمذی نے نقل کیا ہے کہ حضرت زینب کے شوہر ابو العاص کافر تھے، چھ سال کے بعد اسلام سے مشرف ہوئے، اسلام لانے کے بعد نئے نکاح کے بغیر ہی آنحضور نے حضرت زینب کو ان کی زوجیت میں دے دیا (ترمذی /217 باب ما جاء فی الزوجین المشرکین اسلم احدھما ، کتاب النکاح )
یہ حدیث اس اصول کے خلاف ہے کہ بیوی کے اسلام کے بعد شوہر شرک پر قائم رہے تو نکاح باقی نہیں رہتا ہے اور جب نکاح باقی نہیں رہتا ہے ۔اور جب نکاح باقی نہیں رہا تو بعد میں کبھی شوہر کے اسلام لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت ہوگی، دوسری طرف اس اصول کے مطابق ایک ضعیف روایت ہے کہ آنحضور نے ان کو نئے نکاح اور مہر کے ساتھ ابوالعاص کی زوجیت میں دیا (ہذا حدیث فی اسنادہ مقال، ترمذی /217) چوں کہ یہ حدیث اصول کے مطابق ہے اس لیے تمام علماء نے مذکورہ صحیح حدیث کے بالمقابل اس ضعیف حدیث کو ترجیح دی ہے ۔ یہاں تک کہ امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ان کی کتاب میں دو صحیح حدیث ایسی ہیں جن پر کسی کے یہاں بھی عمل نہیں ہے ایک بےعذر دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کر کے ادا کرنے کی حدیث، دوسری چوتھی دفعہ شراب پینے پر مجرم کو قتل کر دینے کی حدیث (ترمذی 233/2،کتاب العلل)
شاید ہی کسی کو اس سے انکار ہو کہ اسلامی احکام عقل انسانی سے ہم آہنگ اور مصالح پر مبنی ہیں ،شریعت کا کوئی حکم خلاف عقل نہیں ہو سکتا ہے، اس لیے کہ کسی غیر یقینی ذریعے سے پہنچنے والی حدیث کا مضمون عقل کے خلاف ہو تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا، لیکن کسی حدیث کے خلاف عقل ہونے کا فیصلہ کرنا ہرکس و ناکس کا کام نہیں، یہ بہت نازک ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کا اہل وہی ہو سکتا ہے جو دریائے علم کا ماہر شناور ہو، کتاب اللہ اور سنت رسول پر مجتہدانہ نگاہ رکھتا ہو، شریعت کی روح اور مزاج شناس، جس کی وجہ سے اس میں ایک ایسا ذوق پیدا ہو جائے کہ جب کوئی حدیث اس کی نگاہوں کے سامنے آئے تو وہ فیصلہ کر سکے یہ اللہ کے رسول کا کلام ہو سکتا ہے یا نہیں؟ ظاہر ہے ان شرطوں کا جامع امام اعظم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے ؟
یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ "حدیث معلول” کہ ایک حدیث میں صحت کی تمام شرطیں پائی جاتی ہیں، سند کے اعتبار سے حدیث قوی ہوتی ہے مگر محدث اپنے ذوق کی بنیاد پر اسے قابل قبول نہیں سمجھتا حالاں کہ اس کے پاس حدیث کی قبول نہ کرنے کی بظاہر کوئی دلیل نہیں ہوتی ہے ، علی بن مدینی کے الفاظ میں یہ ایک طرح کا الہام ہے، حدیث کو معلول قرار دینے والے سے پوچھا جائے کہ کیوں کر اس حدیث کو رد کر دیا تو وہ کوئی دلیل نہیں دے سکتا ہے، مشہور محدث ابو حاتم سے کسی نے احادیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے ان میں سے کچھ کو صحیح کہا اور کچھ کو باطل کہہ کر رد کر دیا، سائل نے کہا آپ کو کیسے معلوم ہوا کیا راوی نے آپ کو بتلایا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، بلکہ مجھے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، اس نے کہا آپ تو علم غیب کے دعویدار ہیں، انہوں نے کہا تم دیگر ماہرین فن سے پوچھو اگر وہ میری بات سے متفق ہوں تو سمجھنا کہ میں نے غلط نہیں کہا، اس نے ابوزرعہ کے پاس جا کر انہی حدیثوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے ابو حاتم کی تائید کی، تب سائل کو اطمینان ہوا (سیرت النعمان /96بحوالہ فتح المغیث)
بعض محدثین کا قول ہے کہ وہ ایک امر ہے جو ائمہ حدیث کے دل پر وارد ہوتا ہے اور وہ اس کو رد نہیں کر سکتے ہیں اور وہ ایک ذاتی کیفیت و اثر ہے، جس سے گریز نہیں ہو سکتا ہے، محدثین کا یہ دعوی بالکل صحیح ہے، بلا شبہ فن روایت کی ممارست سے ایک ملکہ اور ذوق پیدا ہوجاتاہے جس سے بذات خود امتیاز ہوجاتا ہے کہ یہ قول رسول اللہ کا ہو سکتا ہے یا نہیں، اس طرح شریعت کے احکام اور مسائل اور ان کے اسرار و مصالح کے تتبع اور استقراء (تلاش و جستجو)سے ایسا ذوق حاصل ہو سکتا ہے کہ جس سے تمییز ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ نے یہ حکم دیا ہوگا یا نہیں، لیکن ان اسرار و مصالح کا تتبع محدث کا فرض نہیں ہے وہ مجتہد کے ساتھ مخصوص ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ان دقیق وجوہ کے لحاظ سے امام ابو حنیفہ نے بعض حدیثوں کو معلل قرار دیا تو ارباب ظاہر نے مخالفت کی اور بعضوں کو بدگمانی ہوئی کہ امام صاحب حدیث کو عقل و رائے کی بنیاد پر رد کرتے ہیں، لیکن انصاف پسند انصاف کر سکتا ہے کہ جب روایات اور ظاہر الفاظ کے استقراء سے محدثین کو ایسا مذاق پیدا ہو جاتا ہے جس سے وہ ایک حدیث کو جس میں بظاہر صحت کے تمام شرطیں پائی جاتی ہیں رد کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس شخص نے دقت نظر اور نکتہ شناسی کے ساتھ احکام شریعت کے اسرار و مصالح کا تتبع کیا ہو وہ ایسے وجدان اور ذوق سے محروم رہے (سیرت النعمان/96 )
حاصل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے بعض روایتوں کو قبول کرنے سے جو انکار کیا اس کے پس پشت کچھ اصول و ضوابط ہیں اور ان اصول میں وہ منفرد نہیں، بلکہ صحابہ کے دور میں اس کی مثالیں ملتی ہیں اور بعد کے اکثر لوگوں نے ان اصول میں ان کی پیروی کی ہے چناں چہ علامہ ابن عبدالبر مالکی لکھتے ہیں :
امام ابو حنیفہ نے بعض خبر واحد کو کسی تاویل کی وجہ سے قبول نہیں کیا اور ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ ان احادیث کو چھوڑ چکے تھے اور ان کے بعد بھی جن لوگوں نے فقہ کو میدان عمل بنایا ان کی اتباع کی. جہاں تک میرا علم ہے ہر عالم نے بعض آیتوں کی کچھ تاویل کی ، نیز حدیث قبول کرنے میں اس کا ایک مذہب اور اصول ہے جس کی بنیاد پر وہ کسی حدیث کو تاویل یا دعوی نسخ کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے ۔ (جامع بیان العلم /148)
انھوں نے محض اپنی رائے اور قیاس کی بنیاد پر حدیث کو ترک نہیں کیا ہے، خود بارہا امام ہمام نے اس کی وضاحت کردی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں : خدا کی قسم وہ شخص ہم پر جھوٹ اور بہتان باندھتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہم نص کے ہوتے ہوئے قیاس کرتے ہیں کیا نص کی موجودگی میں بھی قیاس کی ضرورت ہے ؟ ہم صرف ضرورت شدیدہ کے وقت ہی قیاس کرتے ہیں، اس طور پر کہ پہلے کسی مسئلے کو کتاب وسنت اور صحابہ کے فیصلے میں تلاش کرتے ہیں ، اگر ہم کو ان میں اس مسئلہ کا حکم نہیں ملتا تو پھر نص میں مذکور علت کی روشنی میں اس غیر مذکور مسئلے پر کوئی حکم لگاتے ہیں (المیزان الکبری 51/1)
نیز انھوں نے کہا :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث ہم تک پہونچی ہے وہ سر آنکھوں پر ،ہمیں مخالفت کی جرأت نہیں اور جو بات صحابہ سے منقول ہو تو ہم ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہیں، ہاں ان کے بعد کے لوگوں سے جو منقول ہے ہم اس کے پابند نہیں (حوالہ مذکور)
یہ صحیح ہے کہ فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں امام صاحب کی طرف یہ اصول منسوب ہے کہ غیر فقیہ کی روایت قیاس کے خلاف ہو تو قیاس کو ترجیح دی جائے گی لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے، امام کے یہاں بہر صورت حدیث کو ترجیح ہوگی چنانچہ حدیث میں ہے کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ ہیں ( جنہیں ان کتابوں میں غیر فقیہ کہا گیا ہے، حالاں کہ یہ ستم ظریفی ہے ) اور روایت خلاف قیاس ہے پھر بھی امام صاحب نے اسے قبول کیا اور کہا کہ لولا الروایۃ لقلت بالقیاس (مقدمہ فتح الملہم 11/1)
یہ اصول بعد کے کچھ حنفی فقہاء کے خیال کے مطابق ہے ، جس کے سرخیل عیسی بن ابان ہیں ، گرچہ یہ اصول بھی بالکل بے اصل نہیں ، لیکن امام کی ذات اس سے بری ہے ، اور اکثر حنفی فقہاء نے اس اصول کی پرزور مخالفت کی ہے، جن میں سر فہرست ابو الحسن کرخی جیسے امام فقہ کا نام ہے (حوالہ مذکور)
اس اصول کے ذیل میں امام ابو حنیفہ کی طرف سے بعض مسائل جو ذکر کیے جاتے ہیں ، در حقیقت انہوں نے اوپر مذکور اصول کی وجہ سے ان مسائل کو اختیار کیا اور اس کے برخلاف احادیث میں توجیہ اور تاویل سے کام لیا، نہ یہ کہ خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے ان احادیث کو قبول نہیں ۔
اس اصول کی تائید میں حدیث "مصرات” کو پیش کیا جاتا ہے یعنی اگر کوئی جانور کے تھن کے دودھ کو کچھ دن روک کر اسے فروخت کرتا ہے اور خریدار یہ سمجھ کر یہ زیادہ دودھ دینے والا جانور ہے، اسے خرید لے، بعد میں اسے دھوکہ کا علم ہوا اور اسے واپس کرنا چاہے تو جانور کی واپسی کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی بیچنے والوں کو دے، حدیث میں یہی حکم دیا گیا ہے، امام صاحب نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا اس سے بعد کے حنفی فقہ نے سمجھا کہ انہوں نے خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے اسے رد کر دیا حالاں کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ، امام نے خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے رد نہیں کیا بلکہ اس حدیث کے نسخ کا دعوی کیا ہے۔ (دیکھیے سیرت النعمان بحوالہ طحاوی/93)
تدوینِ فقہ
خلافت راشدہ کے زوال کے بعد اسلام کی قانون نظام میں بڑا خلا پیدا ہو چکا تھا ، مسائل کا ایک جنگل تھا، مگر انہیں حل کرنے کے لیے کوئی قانونی ادارہ موجود نہیں تھا، ایوان حکومت سے لے کر جھونپڑی میں رہنے والوں تک کو اس کمی کا شدید احساس تھا،ایک عجیب طرح کا قانونی انتشار برپا تھا، اندیشہ تھا کہ قرآن و حدیث سے اگر ان مسائل کا استنباط نہ کیا جائے اور مرتب شکل میں اس کی تدوین عمل میں نہ لائی جائے تو امت مسلمہ بہت بڑے آزمائش ہے دو چار ہو سکتی ہے ۔
دوسری طرف حکومت وقت اس پوزیشن میں تھی کہ اگر اس کی طرف سے اس کے لیے کوئی قانونی ادارہ قائم کیا جاتا تو شاید محل میں بھی کوئی اس ادارے کے فیصلے کو مخلصانہ طور پر قبول نہ کر سکے، کہا جاتا ہے کہ خلیفہ منصور کے سامنے کچھ لوگوں نے یہ تجویز رکھی کہ حکومت کی طرف سے ایک اکیڈمی قائم کی جائے جس میں ہر نقطہ نظر کے علماء نو آمدہ مسائل میں اپنی رائے پیش کریں پھر خلیفہ وقت جو فیصلہ کرے اسے قانونی شکل دے دی جائے (القضاء فی الاسلام /85) لیکن منصور کو اپنی حکومتی پوزیشن کا خوب علم تھا وہ جانتا تھا کہ اس طرح کے کسی فیصلے کو اس کے محل میں بھی کوئی بسر و چشم قبول نہیں کر سکتا اس لیے یہ تجویز عملی شکل اختیار نہ کر سکی ۔
امام اعظم ان حالات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنی حد تک یہ کام کرنا لازمی اور ضروری ہے ۔انہوں نے وقت کی ضرورت کو محسوس کیا، زمانے کے اس چیلنج کو قبول کیا، اور اچھوتے طرز پر تدوین فقہ کا بیڑا اٹھایا ، یقینا ایک بڑا کارنامہ ہے اور امت مسلمہ پر ایک ناقابل فراموش احسان ہے، جس نے کہا ہے بہت سچ کہا ہے کہ اہل اسلام پر فرض ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں امام ہمام کے لیے دعا کریں کیوں کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے احادیث اور فقہ کو محفوظ کر دیا ہے (یہ جملہ کہنے والے امام اعظم کے معاصر عبد اللہ بن داؤد خریبی ہیں، جو مسلم کے سوا بخاری اور ترمذی وغیرہ کے راوی ہیں (تبیض الصحیفہ/104تاریخ بغداد 344/13)
فقہ اسلامی کو مدون کرنا اور نو آمدہ مسائل کو قرآن و حدیث سے استنباط کرنا بڑی ذمہ داری کی بات ہے، اس لیے انہوں نے شخصی طور پر اس کام کو انجام دینے کے بجائے اپنے زمانے کے منتخب اور چنیدہ محدثین، فقہاء ، ائمہ لغت اور زہد و تقوی کے اعلی مقام پر فائز ہستیوں کی ایک اکیڈمی قائم کی جن میں چالیس علماء درجہ اجتہاد پر فائز پر تھے جیساکہ امام طحاوی بیان ہے (اعلاء السنن/202)
اس اکیڈمی میں ہر شخص کو قرآن، احادیث ، اقوال صحابہ اور قیاس کی روشنی میں بحث کرنے کی مکمل آزادی دی جاتی ، ناسخ و منسوخ کی تفتیش ہوتی، باہم متعارض احادیث میں تطبیق اور ترجیح کی کوشش کی جاتی ، اسناد پر بحث ہوتی ، نو آمدہ مسائل کے حل کے لیے قرآن و حدیث میں اس کے نظائر تلاش کیے جاتے، چنانچہ مشہور محدث علی بن مسہر کہتے ہیں کہ امام اعظم کی مجلس میں حدیث کی سند پر کلام ہو رہا تھا میں نے اس سے متعلق اپنے خیال کا اظہار کیا تو امام ہمام بہت خوشی ہوئے اور فرمایا احسنت یافتی (المناقب 218/2) شاباش اے جوان ۔
عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ ایک مسئلے میں علماء نے ایک حدیث پیش کی تو ابو حنیفہ نے فرمایا وہ حدیث شاذ ہے ،زید بن عیاش راوی کی وجہ سے مقبول نہیں، پھر کہا جو شخص ایسی بات کرے کیا وہ حدیث نہیں جانتا ؟؟؟ (اخبار ابی حنیفۃ للصیمری /12) اور محدث شہیر امام سلیمان اعمش کے پاس جب کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو کہتے کہ ابو حنیفہ کے حلقے میں جاؤ وہ لوگ مسئلے کی خوب چھان بین کرتے ہیں ۔
اس آزاد علمی فضا میں کھل کر گفتگو کی جاتی امام دوسروں پر اپنی رائے نہیں تھوپتے، انہوں نے اس سلسلے میں کس قدر آزادی دے رکھی تھی ، اس کا کچھ اندازہ اس واقعہ سے ہوگا کہ جرجانی کہتے ہیں کہ میں ان کی مجلس میں موجود تھا ایک نوجوان نے ان سے مسئلہ دریافت کیا انہوں نے جواب دیا یہ سن کر وہ تیز آواز میں کہنے لگا کہ غلط ہے، غلط ہے، میں اس انداز گفتگو پر حیران رہ گیا اور مجلس والوں سے کہا کہ سبحان اللہ ! کیا تمہیں شیخ کی عظمت کا خیال نہیں کہ ایک شخص بھری محفل میں انہیں غلط کہہ رہا ہے اور تم پر کوئی اثر نہیں ہے، یہ سن کر امام اعظم نے فرمایا انہیں چھوڑ دو کیوں کہ خود میں نے انہیں اس کا عادی بنایا ہے، تاکہ وہ بے جھجک آزادی کے ساتھ مباحثہ کر سکیں (الخیرات الحسان/81) سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو حنیفہ کے مجلس درس سے گزرا دیکھا کہ ان کے اردگرد شاگردوں کی جماعت بلند آواز سے مباحثہ کر رہی ہے، میں نے ان سے کہا کہ آپ انہیں شور کرنے سے کیوں نہیں روکتے تو انہوں نے کہا :
دعھم فانھم لا یتفقھون الا بھذا . (مناقب ابی حنیفۃ للذہبی /21) انہیں اسی حال پر چھوڑ دو کیوں کہ وہ اسی طرح فقہ حاصل کریں گے۔
اس مجلس میں کبھی ایک مسئلے پر کئی روز بحث ہوتی چنانچہ عبداللہ بن مبارک کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین روز تک مسلسل بحث ہوتی رہی تیسرے دن شام میں جب اللہ اکبر کی صدا آئی تو معلوم ہوا کہ مسئلہ طے ہو گیا (المناقب للمکی 54/2) کبھی سلسلہ اس سے بھی طویل ہو جاتا اور ہفتہ نہیں بلکہ مہینہ گزر جاتا تب جا کے کوئی فیصلہ ہوتا (المناقب للمکی 233/2) اور خود امام کا یہ معمول تھا کہ اہم مسائل پر سالوں غور و فکر کرتے رہتے اور جب تک مکمل تحقیق اور تنقیح نہ ہو جاتی شاگردوں کے سامنے پیش نہیں کرتے جیسا کہ ان کے مشہور ناقد خطیب بغدادی کا بیان ہے (الفقیہ المتفقہ 14/2)
پھر جب کسی بات پر اتفاق ہو جاتا ہے تو قاضی ابو یوسف سے کہا جاتا کہ اسے لکھ لیں، کسی مسئلے میں اتفاق کی صورت نہ بن پڑتی تو مختلف اقوال نقل کر لیے جاتے (المناقب للمکی 133/2)بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ لکھنے کے بعد امام اعظم کو سنا کر توثیق کر لی جاتی (حوالہ مذکور 109/2) نیز اس فیصلہ شدہ مسئلے پر نظر ثانی کی جاتی اور حذف و اضافہ ہوتا رہتا اس طرح اس مجلس علمی نے 83 ہزار فیصلے کیے ،کردری نے لکھا ہے کہ وہ مسائل چھ لاکھ تھے۔جن کا تعلق زندگی ہر گوشے سے تھا، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، خرید و فروخت، اجارہ، رہن، نکاح، طلاق، قانون شہادت ،دیوانی، فوجداری، ضابطہ عدالت، بین قوی دستور پر مشتمل تھا ۔
اس احتیاط و ذمہ داری اور بالغ نظری کے ساتھ جو فیصلہ ہوا اس میں غلطی کا امکان بہت کم تھا یہی وجہ ہے کہ مشہور امام حدیث وکیع بن جراح سے کسی نے کہا کہ ابو حنیفہ نے اس مسئلے میں غلطی کی ہے تو انہوں نے برجستہ کہا کہ ابو حنیفہ غلطی کیسے کر سکتے ہیں جب کہ ان کے ساتھ ابو یوسف و زفر جیسے قوت اجتہاد و استنباط رکھنے والے، یحیی بن ابی زائدہ ،حفص بن غیاث، حبان بن علی اور مندل بن علی جیسے حفاظ حدیث، قاسم بن معن جیسا زبان و ادب کا ماہر، فضیل بن عیاض اور داؤد طائی جیسے زہدو تقویٰ کے امام تھے، جس کے ہم نشین ایسے لوگ ہوں وہ غلطی کیسے کر سکتا ہے، اگر وہ غلطی کرے بھی تو یہ لوگ رہنمائی کریں گے (تاریخ بغداد 247/14)
یہ فیصلے کیا تھے ؟ قرآن اور احادیث صحیحہ کا افشردہ اور نچوڑ ،کتاب و سنت کی تفسیر اور توضیح ،نیز عقل انسانی اور فطرت سے قریب اور ہم آہنگ ،چنانچہ ابن مبارک کہتے ہیں کہ "لا تقولوا رای ابی حنیفۃ و لکن قولوا تفسیر الحدیث ” ابو حنیفہ کی رائے نہیں بلکہ حدیث کی تفسیر کہو (اعلاء السنن 43/3)اور خود امام اعظم نے صراحت کر دی تھی کہ” ما افتی الا بالاثر” میں حدیث ہی سے فتوی دیتا ہوں (تبیض الصحیفہ/113)
اس لیے یہ فیصلہ کروڑوں انسانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا، جو مجموعہ تیار ہوا اسے شوق کے ہاتھوں لیا گیا ،ذوق کی نگاہوں سے پڑھا گیا اور عقیدت و محبت کے دل میں بسایا گیا، وہ وقت کی ایک مانگ تھی ، مدتوں سے لوگ اس کے حاجت مند تھے خوابوں کی تعبیر اور آرزوؤں کی تکمیل تھی ، عوام و خواص یکساں طور پر اس کے محتاج تھے ، ایوان قضا کو آراستہ کرنے والا جج اور جھونپڑی کو آباد کرنے والا ایک عام انسان دونوں اس کے ضرورت مند تھے، اس لیے ہر شخص دیوانہ وار اس پر ٹوٹ پڑا ، فقیہ ہو یا محدث ہر ایک نے اس سے استفادہ کیا چناں چہ جلیل القدر محدث یحی بن آدم کہتے ہیں کہ کوفہ "فقہ” سے بھرا ہوا تھا ابن شبرمہ، ابن ابی لیلی، حسن بن صالح اور شریک جیسے بکثرت فقہا موجود تھے لیکن امام ابو حنیفہ کے مقابلے میں ان کا بازار سرد پڑ گیا، انہی کے فتاوی مختلف علاقوں میں پھیل گئے، اس پر خلفاء اور ائمہ فیصلہ کرنے لگے اور وہی مروج ہو گیا (المناقب للمکی ) اور سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دو چیزوں کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے آگے نہیں بڑھے گی مگر وہ تھوڑی ہی مدت میں اطراف عالم تک پہنچ گئی ایک حمزہ کی قرأت ، دوسرے ابو حنیفہ کی فقہ (تاریخ بغداد/347)
یہ مجموعہ ایسا تھا کہ اس وقت کے محدثین کے لیے انگلی رکھنے کی گنجائش نہ تھی ، چناں چہ امام رازی شافعی لکھتے ہیں :
ان اصحاب الرای اظہروا مذھبھم و کانت الدنیا مملوءۃ من المحدثین و رواۃ الاخبار و لم یقدر احد منھم الطعن فی اقأیل اصحاب الرای ۔
اصحاب رائے نے جس زمانے میں اپنے مذہب کا اظہار کیا اس وقت دنیا محدثین اور راویان اخبار سے بھری ہوئی تھی مگر کسی کو اصحاب الرای کے اقوال پر اعتراض کی قدرت نہ ہوئی ۔ (سیرت النعمان/ 131 بحوالہ مناقب شافعی)
یحیی بن سعید قطان اور وکیع کے متعلق گذر چکا ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے ، کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کے شاگرد تھے اس لیے ایسا کرتے تھے مگر یہ مشہور محدث سفیان ثوری ہیں وہ بڑی تدبیروں سے امام اعظم کی کتابوں کو حاصل کرکے زیرمطالعہ رکھتے ہیں چناں چہ زائدہ بن قدامہ کا بیان ہے کہ میں نے سفیان ثوری کے سراہنے ایک کتاب دیکھی جس کا وہ مطالعہ کرتے تھے میں نے دیکھنے کی اجازت طلب کی تو انھوں نے دے دیا ، وہ ابو حنیفہ کی ، کتاب الرہن، میں نے کہا آپ ان کی کتابیں دیکھتے ہیں؟ کہنے لگے کاش ان کی سب کتابیں میرے پاس ہوتیں اور میں ان کو دیکھتا ، علم کی تشریح کی کوئی انتہا انہوں نے نہیں چھوڑی لیکن ہم ان کے ساتھ انصاف نہیں کرتے (اخبار ابی حنیفۃ و مناقب للصیمری / 65، العقود 152) بلکہ امام ابو یوسف تو یہاں تک کہتے ہیں کہ "الثوری اکثر متابعہ لابی حنیفۃ منی” سفیان ثوری مجھ سے زیادہ ابو حنیفہ کی اتباع کرتے ہیں (الخیرات الحسان 45، الانتفاء 128)جسے سفیان ثوری کے اقوال سے واقفیت ہوگی اس پر امام ابو یوسف کے قول کی حقانیت اچھی طرح سے واضح ہوگی ۔
یہاں تک کہ امام مالک اور لیث بن سعد بھی امام کے فتاویٰ اور فیصلے سے بے نیاز نہ تھے ، بلکہ بعض لوگوں نے تو لیث بن سعد کو حنفی المذہب شمار کیا ہے (ابن خلقان، ملا علی قاری،اور قسطلانی شارح بخاری نے انہیں حنفی المذہب لکھا ہے ۔دیکھیے ابو حنیفہ و اصحابہ /128 اور امام شافعی نے عبد العزیز بن محمد کے حوالے سے لکھا کان مالک ینظر فی کتب ابی حنیفۃ ۔اوجز المسالک / 22، نیز دیکھیے الخیرات / 37)
اس مجموعے نے ایسی قبولیت حاصل کی کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے ، اس کی یہی خدا داد مقبولیت تھی جس کی وجہ سے یحییٰ بن معین کہہ پڑے کہ الفقه فقه ابی حنيفة وعليه ادركت الناس .
فقہ ابو حنیفہ کی فقہ ہے ، اور اسی پر میں نے لوگوں کو عمل کرتے ہوئے پایا ہے ۔ (الخیرات /48) اور یزید بن ہارون جیسے محدث نے کہا کہ ان کی کتابوں کو دیکھو میں نے کسی فقیہ کو ان کے قول کو نا پسند کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ (الخیرات/115)
غرضیکہ امام اعظم ابو حنیفہ نے فقہ کے جس پودے کی آبیاری کی تھی وہ ان کی زندگی ہی میں ایک تناور درخت بن چکا تھا، اس پاکیزہ درخت کی شاخیں چہار دانگ عالم میں پھیل چکی تھیں ، اسے پھلتے اور پھولتے ہوئے انہوں نے اپنی نگاہوں سے دیکھ لیا تھا، وہ اض روح ، مشام جاں کو معطر کرنے والی خوشبو تھی جو ہواؤں کے دوش پر ہر چہار سمت پھیل گئی ۔ حاسدوں اور دشمنوں کی طرف سے ہزار مخالفت ، حکومت وقت کی طرف سے شدید مخاصمت اور رکاوٹ کے باوجود ان کے صدق و اخلاص اور قوت دلائل کی وجہ سے حق پسند طبقوں میں اس نے اپنی جگہ بنالی ، اور مخالفین نے بھی یہ کہتے ہوئے ہتھیار ڈال دی کہ :یہ ایک آسمانی فیصلہ ہے ان کے خلاف حیلہ بازی نہیں چلے گی (العقود /372)
خلیفہ مامون کے زمانے تک یہ حالت ہو گئی تھی کہ وزیراعظم فضل بن سہل کو کسی مخالف نے مشورہ دیا کہ فقہ حنفی کا چلن بند کر دیا جائے، فضل نے معتمدین سے اس سلسلے میں رائےلی تو سب نے بیک زبان کہا کہ یہ بات ممکن نہیں ہے ، سارا ملک آپ پر ٹوٹ پڑے گا، جس نےیہ مشورہ دیا ہے وہ ناقص العقل ہے، فضل نے کہا مجھے بھی اس سے اتفاق نہیں اور امیرمومنین بھی اس سے راضی نہیں ہوں گے (المناقب للمکی 157/2)
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سلاطین عباسیہ فقہ حنفی پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے، ورنہ تو ذاتی طور پر ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی طرح سے فقہ حنفی کی مقبولیت کو ختم کر دیا جائے کیوں کہ کسی ایک مکتب فکر کے علماء کا غلبہ سیاسی اعتبار سے صحیح نہیں تھا، چنانچہ مختلف جلیل القدر علماء کو امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ کے مقابلے میں لانے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ہارون رشید نے امام مالک کو بغداد لانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا، مدینہ سے واپسی میں سفیان بن عینیہ متوفی سن198ھ سے ملا اور کہا کہ آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں مجھے عنایت کیجیے ، لیکن جب ان کتابوں کو دیکھا تو بڑا مایوس ہوا اور افسوس کے ساتھ کہنے لگا : "رحم اللہ سفیان تواطا لنا فلم ننتفع بعلمہ” سفیان پر اللہ رحم کرے وہ ہمارے ساتھ ہم آہنگی پر آمادہ ہوئے تو ہم ان کے علم سے نفع نہ حاصل کر سکے (مفتاح السعادۃ 88/2) سفیان بن عینیہ بڑے مقام و مرتبہ کے مالک ہیں، امام شافعی نے کہا ہے کہ مالک اور ابن عینیہ نہ ہوتے تو حجاز کا علم دنیا کو نہ ملتا (تاریخ بغداد 179/9)لیکن اس پایہ کے محدث کی کتابوں میں ان مسائل کا حل نہ مل سکا جو حکومت کو درپیش تھے کیوں کہ وہ تو احادیث کا ایک مجموعہ تھا، اصول و ضوابط اور قانون کی کتاب نہ تھی، جس میں حکومت کا دستور العمل بننے کی صلاحیت ہو۔
قاضی ابو یوسف کے انتقال کے بعد ایک غیر حنفی وہب نامی شخص کو قاضی القضاۃ بنایا گیا مگر وہ خود کو اس منصب کا اہل ثابت نہ کر سکا ، اس کے علاوہ بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت وقت کسی ایک مکتب فکرکے علماء کی بالادستی کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتی تھی اور ہر وقت اس فکر اور تدبیر میں رہتی کہ کس طرح سے ان کا توڑ کیا جائے مگر انہیں اس کام کے لیے کوئی موزوں عالم دین نہ ملتا جس کے علم و فضل پر امت کو اعتماد ہو اس لیے وہ مجبورا فقہ حنفی اور امام اعظم کے تلامذہ سے استفادہ کرتی تھی ۔
بعض حضرات یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کے رواج کی وجہ قاضی ابو یوسف ہیں کیوں کہ جب وہ ہارون رشید کے عہد حکومت میں قاضی القضاۃ بنائے گئے تو انہوں نے تمام شہروں میں حنفی قاضیوں کا تقرر کیا اور حکومت کے زیر سایہ یہ مذہب پروان چڑھتا رہا، یہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، تاریخ سے حد درجہ ناواقفیت کی دلیل ہے، امام اعظم کی تاریخ وفات سن 150ھ ہے اور امام یوسف سن 170ھ کے بعد قاضی القضاۃ بنائے گئے، ان دونوں تاریخوں میں بیس سال کا فرق ہے اور یہ گزر چکا ہے کہ امام اعظم کی زندگی میں ان کا مرتب کردہ مجموعہ قوانین قبول عام حاصل کر چکا تھا، بعض مستند علماء کی شہادتیں قابل اعتماد ذرائع سے اس سلسلے میں نقل کی جاچکی ہیں ۔
مجھے یہ اعتراف ہے کہ امام ابو یوسف کے قاضی بننے کی وجہ سے فقہ حنفی کو مزید ترقی ہوئی لیکن اس کا عروج ان کی کوششوں کا محتاج نہ تھا، چنانچہ امام رازی شافعی کہتے ہیں:
ثم انہ لما قوی مذھب اصحاب الرای و اشتھر و عظمت وقعتہ فی القلوب ثم اتفق اتصال ابی یوسف و محمد بخدمۃ ھارون رشید عظمت تلک القوۃ جدا لان العلم و السلطنۃ حصلا معھا ۔
جب اصحاب رائے کا مذہب قوی اور مشہور ہو گیا اور دلوں میں اس کی عظمت بیٹھ گئی تو پھر حسن اتفاق سے ابو یوسف اور محمد کی ہارون رشید کے دربار میں رسائی ہو گئی تو اس قوت میں بہت پختگی آگئی کیوں کہ علم و سلطنت دونوں جمع ہو گئے ۔
دوسرے مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ جو قانون حکومت کے بل بوتے پر نافذ کیا جاتا ہے، جس اصول اور ضابطے کے نفاذ میں جبر و دباؤ کا عنصر شامل ہوتا ہے، وہ دلوں میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتا اور حکومت کے ساتھ وہ قانون بھی ایک تاریخی چیز بن جاتا ہے، اس کے برخلاف فقہ حنفی عباسی حکومت کے بعد بھی باقی رہا اور آج تک باقی ہے اور ایسے ماحول میں اپنی جگہ بناتا رہا، جہاں کی حکومت اس کی دشمنی تھی اور آج جب کہ اس کے پشت پر کوئی حکومت نہیں، نیز اس کے مٹانے کی ہر جائز و ناجائز تدبیر اور ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں برابر رواں دواں ہے ، اس کی تازگی اور شادابی میں کوئی فرق نہیں اور وہ سدا بہار تناور درخت مخالفت کی تیز و تند آندھیوں میں چٹان بن کر کھڑا ہے اور ان شاءاللہ قیامت تک ایسے ہی رہے گا ۔
اور امام اعظم کے عہد سے جو حدیث کے مطابق بہترین زمانوں میں سے ایک تھا لے کر آج تک عوام نہیں بلکہ اساطین علم، محدثین اور فقہاء، فقہ حنفی پر عامل رہے، زہد و تقویٰ کے پیکر ہر زمانے میں فقہ حنفی کی پیروی کرتے رہے اور مخالفتوں کے طوفان کا دفاع کرتے رہے ۔
اس کی وجہ کیا ہے ؟ یہ مذہب عوام و خواص میں اس قدر مقبول کیوں ہے ؟ کیا یہ لوگ حدیث نہیں جانتے تھے ؟ ان میں آخرت کی جوابدہی کا احساس نہیں ہے ؟ ذرا سوچ کر جواب دیجیے، کیوں کہ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر احادیث کے ذخیرہ پر امت کا اعتماد باقی نہیں رہے گا کیوں کہ فقہ حنفی کو سراہنے اور قابل اعتماد بتانے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر حدیث کا دارو مدار ہے ، جیسا کہ گذشتہ تفصیل سے واضح ہو چکا ہے ۔
ابو حنیفہ کی کتابیں
اس مجلس علمی میں قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے، اسے لکھ کر محفوظ کر لیا جاتا ، کچھ لوگ اس کام کے لیے متعین اور مامور تھے ، لیکن وہ محض فیصلے ہوتے تھے ، اس کی بنیاد کس آیت ، کسی حدیث پر ہے اس کا تذکرہ نہیں کیا جاتا ، اور نہ وجوہ قیاس لکھے جاتے ، بعد میں امام ابو یوسف و محمد نے انہیں مسائل کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ لکھا اور ان سے متعلق دلائل کا اضافہ کیا جس کی وجہ سے وہ کتابیں انہیں کی طرف منسوب ہو گئیں ، آج ہمارے درمیان انہیں دونوں ہستیوں کی کتابیں موجود ہیں اور اصل کتاب نا پید ہو گئی تاہم ایک طویل زمانہ تک امام اعظم کی کتابیں موجود رہیں، چنانچہ امیر بن ماکولا نے الاکمال ، میں ابو حامد احمد بن اسمعیل متوفی سن 333ھ کے تعارف میں لکھا ہے :
وسمع كتب إبی حنیفة وابى يوسف من احمد بن نصر عن ابي سليمان الجوزجاني عن محمد وغير ذالك .
انہوں نے امام ابو حنیفہ و ابو یوسف کی کتابیں احمد بن نصر سے اور انہوں نے ابو سلیمان جو زجانی سے اور انہوں نے امام محمد سے سنی (ائمہ اربعہ/90)
اکثر ایسا ہوا ہے کہ اساتذہ کی کتابوں میں تلامذہ نے حذف و اضافہ کیا اور وہ کتابیں انہیں کے نام سے منسوب ہو گئیں اور اصل نسخہ نا پید ہو گیا، امام اعظم کے تلامذہ نے جن باتوں کو اپنے استاد کی طرف منسوب کر کے بیان کیا وہ تلامذہ خود بھی قابل اعتماد ہیں اور مستند اور معتبر ذرائع سے وہ کتابیں ہم تک پہنچی ہیں اس لیے ان پر یقین نہ کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔
اگر کسی کے مذہب اور خیال کو جاننے کے لیے اس کی ذاتی تحریر ہی ضروری ہو تو پھر اسلامی علوم کے ذخیرہ سے دست بردار ہونا پڑے گا، کیوں کہ احادیث اور دیگر علوم شرعیہ جن واسطوں سے ہم تک پہونچی ہیں ان میں سے اکثر کی تحریر موجود نہیں ہے بلکہ وہ تو ایسا دور تھا کہ اس وقت سفینے سے زیادہ سینے پر اعتماد کیا جاتا تھا ۔ لہذا جو لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ فقہ حنفی سے امام ابوحنیفہ کا کوئی تعلق نہیں ہے وہ محض دھوکہ اور فریب ہے۔
رائے اور قیاس کی حقیقت اور ضرورت:
مسائل و واقعات ان گنت ہیں ، نت نئے مسائل روز جنم لیتے رہتے ہیں ، دوسری طرف قرآن و حدیث میں صراحتا مذکورہ احکام محدود ہیں ، تمام مسائل کا احاطہ نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق کچھ بنیادی احکام مذکور ہیں اور ایسے اصول ہیں جن کے ذریعہ اللہ کی اطاعت اور عدل و توازن کو قائم رکھا جا سکے۔ اور ایسا کرنا ضروری بھی ہے کیوں کہ تمام مسائل کا احاطہ کیا جائے اور ان سے متعلق تمام تر تفصیلات ذکر کی جائیں تو کتاب خدا، کتاب موعظت و حکمت کے بجائے بے شمار مسائل کا ایک دفتر بے پایاں بن جائے گی جن سے استفادہ دشوار تر ہو جائے گا۔
لہندا ضرورت ہے کہ قرآن و حدیث میں مذکورا حکام کی وجہ اور علت معلوم کی جائے اور کسی نوآمدہ مسئلہ میں وہ علت پائی جائے تو اس پر بھی کتاب وسنت میں مذکورہ حکم کو منطبق کر دیا جائے ، اصطلاح فقہ میں اسی کا نام رائے اورقیاس ہے (دیکھیے نور الانوار/188)
جیسے قرآن نے خمر (شراب ) کوحرام قرار دیا، چناں چہ ارشاد خداوندی ہے :
انما الخمر والميسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشيطان فا جتنبوه –
شراب کو حرام قرار دینے کی علت نشہ ہے جس کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے ، اس علت کی وجہ سے شراب کے علاوہ جتنی بھی نشہ آور چیزیں ہیں وہ حرام قرار پائیں گی گرچہ صراحتا ان کا نام قرآن وحدیث میں مذکور نہ ہو جیسے بھنگ، چرس وغیره –
ظاہر ہے کہ یہ قیاس رواں ، دواں زندگی کی ایک ضرورت ہے، اس کی ضرورت دو اور دو چار کی طرح واضح ہے اس لیے قرآن وحدیث ، آثار صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال اس کے ثبوت میں پیش کیے بغیر صرف ابن تیمیہ کی ایک تحریر کے نقل پر اکتفا کرتا ہوں جس میں قیاس سے متعلق تمام گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے ، شیخ الاسلام فرماتے ہیں :
حدیث اور بعض صحابہ سے رائے اور رائے پر عمل کرنے والوں کی جو مذمت بیان کی گئی ہے تو اس سے مراد حیلہ ہے، کیوں کہ یہ محض رائے کی پیدوار ہے ، اس سے متعلق صحابہ سے کوئی اثر ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی نظیر وہ حیلہ ہے جو کسی اصل سے ثابت ہو کہ اسی پر قیاس کر لیا جائے ، اور جب کوئی حکم نہ کسی اصل سے ثابت ہو اور نہ ہی اس کی کوئی نظیر ہو تو وہ رائے محض اور باطل ہے ۔
رائے کی مذمت میں حضرت عمر، عثمان ، علی، ابن عباس ، ابن عمر اور بعض تابعین سے جو آثار منقول ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ رائےپر عمل کرنا حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنا ہے تو یقینی طور پر ان آثار سے وہ رائے مراد نہیں ہے جو کتاب وسنت اور اجماع میں اجتہاد کر کے ایسے واقعہ میں دیا گیا ہو جو کتاب وسنت اور اجماع میں موجود نہ ہو ، اور رائے کا دینے والا وہ شخص ہو جو امثال ونظائر کو جانتا ہو، معانی و احکام پر بصیرت رکھتا ہو، پھر وہ مشابہت ومماثلت کی بنیاد پر یا علت کی وجہ سے ایسا قیاس کرے جو اس سے بہتر اصل سے معارض نہ ہو، اس طرح کے قیاس کے جائز ہونے اور امام و حاکم پر واجب ہونے کے دلائل اس قدر مشہور ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں چاہے یہ قیاس خود عمل کرنے کے لیے ہو یا دوسروں کو فتوی دینے کے لیے ۔
اسلام کو منہدم کرنےوالا اورحرام کو حلال قرار دینے والا وہ قیاس اور رائے ہے جو کتاب و سنت اور سلف کے عمل کے خلاف ہو (فتاویٰ کبریٰ 227/2)
شیخ الاسلام کے مایہ ناز شاگرد علامہ ابن قیم نے بھی اپنی کتاب اعلام الموقعین میں اس طرح کے قیاس اور رائے کی حوصلہ افزائی کی ہے اور قرآن و حدیث سے اسے ثابت کیا ہے ۔
آج جو لوگ قیاس کی مخالفت کرتے ہیں یا تو وہ قیاس کی حقیقت سے واقف نہیں یا دیدہ و دانستہ آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فالی اللہ المشتکی
شرائط قیاس:
قیاس درست ہونے کے لیے بہت سی شرطیں ہیں جن میں سب سے اہم اور ضروری شرط یہ ہے کہ قیاس نص شرعی کے مقابلہ میں نہ ہو ، یعنی جس نو آمدہ مسئلہ کو قیاس کیا جا رہا ہے اس سے متعلق قرآن و حدیث اور اجماع میں صراحتا کوئی حکم مذکور نہ ہو، جیسا کہ خود امام اعظم نے صراحت کردی ہے کہ :
خداکی قسم وہ شخص ہم پر جھوٹ اور بہتان باندھتا ہے جویہ کہتا ہے کہ ہم ، نص کے مقابلہ میں قیاس کرتے ہیں، کیا نص کے ہوتے ہوئے بھی قیاس کی ضرورت ہے ؟؟ ہم صرف ضرورت شدیدہ کے وقت ہی قیاس کرتے ہیں ۔ اس طور پر کہ پہلے ہم اس کے لیے کتاب و سنت اور صحابہ کے فیصلے کو دیکھتے ہیں، اگر ہمیں کوئی دلیل نہیں ملتی تو اس وقت ، نص میں مذکور حکم پر غیرمذکور حکم کو علت میں مشترک ہونے کی بنیاد پر قیاس کرتے ہیں (اعلاء السنن 48/2بحوالہ المیزان للشعرانی)
دوسری شرط یہ ہے کہ مذکورہ حکم میں جس درجہ کی علت پائی جارہی ہے غیر مذکور اور نو آمده حکم میں اس سے زیادہ یا اسی درجہ میں پائی جائے، کسی درجہ میں کم نہ ہو ورنہ قیاس صحیح نہ ہوگا نیز وہ علت بالکل واضح ہو، کسی طرح کی پوشیدگی اس میں نہ ہو جسے اصلاح فقہ میں۔ وصف ظاہر” کہا جاتا ہے اور وہ علت منضبط بھی ہو یعنی افراد، احوال اور جگہ کے لحاظ سے بدلتا نہ ہو، جیسے نماز میں قصر کی علت سفرہے ، اور یہ ایک منضبط علت ہے ، مشقت اس کی علت نہیں ہے کیوں کہ یہ افراد، احوال کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے ۔ اور وہ علت حکم کے مناسب بھی ہو ۔
قیاس کی صحت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مذکورہ حکم کی علت تک ذہن کی رسائی ہو سکے اگر وہ ایسا حکم ہے جس کی علت تک ذہن کی رسائی نہیں ہو سکتی ہے تو اس پر دوسرے حکم کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے ، جیسے نماز کی رکعات کی تعداد، زکوة کے اموال اور مقدار نصاب وغیره ۔
قیاس کے صحیح ہونے کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت شرطیں ہیں جس کے لیے اصول کی کتابوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے ، میں نے بعض شرطیں صرف اس لیے ذکر کر دی ہیں کہ اس سلسلہ میں بعض ذہنوں میں جو تحفظات ہیں انہیں ختم کیا جاسکے اور یہ معلوم ہوسکے کہ قیاس ، زندگی کی ایک ضرورت ہے ، ایک ایسی ضرورت کہ اس کے بغیر شریعت مفلوج ہو کر رہ جائے گی، اوریہ کہ قیاس کے ذریعہ قرآن و حدیث کی مخالفت نہیں کی جاتی بلکہ اس کے ذریعہ کتاب وسنت میں مذکور حکم کو نو آمدہ مسائل پر منطبق کیا جاتا ہے، اس لیے فقہاء کہتے ہیں کہ قیاس سے کوئی حکم ثابت نہیں کیا جا تا بلکہ ظاہر کیا جاتا ہے ۔ القیاس مظهر لا مثبت
یہ قیاس، اللہ کے رسول ، صحابہ، تابعین اور ائمہ مجتہدین کا طریقہ ہے، انہیں کے اسوہ کی پیروی ہے، یہ کہنا کہ قیاس غلط ہے کیوں کہ سب سے پہلا تھا قیاس کرنے والا ابلیس ہے ۔ دھوکہ دہی اور فریب ہے ، امام اعظم سے بھی کسی نے اس طرح کی بات کہی تھی تو انہوں نے فرمایا :
تم اس کلام کو غلط جگہ پر محمول کررہے ہو، ابلیس نے اللہ کےحکم کے مقابلہ میں قیاس کیا ، جیسا کہ قرآن میں ہے اس لیے وہ کافر ہوا، اور ہمارا قیاس اللہ کے حکم کی اتباع میں ہے کیوں کہ ہم مسئلہ کو کتاب اللہ، حدیث اور اقوال صحابہ و تابعین پر پیش کرتے ہیں، تو ہماری یہ کوشش اللہ کے حکم کی پیروی ہے ، لہذا ہم ابلیس کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا مجھ سے غلطی ہوئی ہیں توبہ کرتا ہوں، اللہ آپ کے سینے کو روشن کر دے جیسا کہ آپ نے میرے دل کو منور کردیا ہے۔ (الخیرات الحسان /42)
بعض حضرات نے نقل کیا ہے کہ کہنے والے جعفر صادق، سفیان ثوری، مقاتل اور حماد بن سلمہ وغیرہ تھے، امام اعظم نے ان کے سامنے اپنے مسلک کی وضاحت فرمائی اور صبح سے دوپہر تک گفتگو جاری رہی، تمام لوگ اس وضاحت سے مطمئن ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ سید العلماء ہیں، لاعلمی میں جو کچھ آپ کو کہا ہے اسے معاف فرماییے ۔ (اعلاء السنن 47/3)
اہل رائے کا خطاب:
عقل و دانائی، معاملہ فہمی، بصیرت، ذہانت و ذکاوت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے، یہی وہ دولت ہے جس سے انسان کائنات کی دیگر مخلوقات سے ممتاز اور اعلی و اشرف قرار پاتا ہے، اللہ کے فرمانبردار بندے اس دولت گرانمایہ کے ذریعے اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں، وہ اپنی عقل و شعور کے ذریعے نامعلوم کو معلوم و مشاہد کر کے مخلوق کے سامنے پیش کرتے ہیں اور قرآن و حدیث میں غواصی کرکے گوہر مراد کو حاصل کرتے ہیں اور زندگی کے پچیدہ مسائل کو حل کرتے ہیں ان بیدار مغز اور اعلی ذہن کے افراد کو "اہل رائے” کہا جاتا ہے چناں چہ ابن اثیر جزری شافعی اپنی مشہور مستند معتمد اور مایہ ناز کتاب "نہایہ” میں لکھتے ہیں:
محدثین اصحاب قیاس کو اصحاب رائے کہتے ہیں، اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مشکل احادیث یا جس مسئلے میں کوئی حدیث اور اثر نہ ہو اسے اپنی رائے اور قیاس سے حل کرتے ہیں (نہایہ 179/2 یہی بات شہرستانی نے بھی کہی ہے، الملل 146/2)
میری دانست کی حد تک اس خطاب سے سب سے پہلے جسے نوازا گیا وہ "ربیعہ” کی شخصیت ہے، وہ اس لقب سے اتنا مشہور ہوئے کہ "رائے” ان کے نام کا ایک حصہ بن گیا، حافظ ذہبی ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
ربیعہ الرای نے صحابی رسول حضرت انس بن مالک، سائب بن یزید، حنظلہ بن قیس اور سعید ابن المسیب، قاسم بن محمد جیسے تابعین سے حدیث سنی، سفیان، مالک، اور اوزاعی ،سلیمان، اسماعیل بن جعفر، ابو حمزہ، انس بن عیاض جیسے حضرات ان کے تلامذہ ہیں، امام، حافظ حدیث، فقیہ ،مجتہد اور صاحب رائے تھے اور اسی لیے ان کو ربیعۃ الرائے کہا جاتا ہے … ماجشون کہتے ہیں کہ میں نے ربیعہ سے بڑھ کر کسی کو حافظ حدیث نہیں پایا، امام مالک کہتے ہیں کہ قاسم و سلمان کی وفات کے بعد مرجعیت کا درجہ ربیعہ کو حاصل ہے (تذکرۃ الحفاظ 58/1و 157)
نیز وہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے بعد فقہ کے چاشنی ختم ہو گئی ۔ بخاری ومسلم اور حدیث کی دیگر کتابوں میں ان کی سند سے حدیث موجود ہے ۔
اور ربیعہ کے علاوہ جن ہستیوں کا تاریخ نے رائے کے لقب سے یاد کیا ہے ان میں امام مالک، سفیان ثوری، اوزاعی، ابن ابی لیلی ، ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد بن الحسن اور زفر کا نام قابل ذکر ہے ___ امام اعظم ابو حنیفہ نے اسلامی قانون کی ترتیب اور تدوین کا ایک عظیم الشان کارنامہ انجام دیا جس کے لیے کثرت سے اجتہاد اور رائے کی ضرورت پڑی اس لیے وہ "امام اہل رائے” بھی کہے جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عقل ایک "نعمت عظمیٰ” ہے، لیکن یہ عقل اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی میں استعمال ہو تو "مصیبت عظمیٰ”بھی ہے اس بیمار عقل سے فکر و نظر رائے اور اجتہاد کا صحیح کام ممکن نہیں، اس لیے حدیث میں ایسے رائے کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور اسی قسم کی رائے کے متعلق صحابہ، تابعین اور خود امام اعظم سے بھی بڑے سخت اقوال منقول ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیوں کہ رائے محمود وہی ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اور جو رائے قرآن و حدیث کے مخالف ہو وہ مذموم ہے ۔
شرائط قیاس کے ذیل میں گذر چکا ہے کہ "نص شرعی” کے مقابلہ میں قیاس اور رائے کی گنجائش نہیں ، بلکہ حدیث مرسل حدیث ضعیف اور قول صحابی کے مقابلہ میں بھی قیاس درست نہیں ہے ، خودا امام اعظم نے اس کی صراحت کردی چناں چہ مخالفت کے باوجود علامہ ابن حزم ظاہری کو اعتراف ہے :
جميع اصحاب ابی حنيفة مجمعون على ان مذهب ابی حنيفة ان ضعيف الحديث عنده اولی من الرای .
مذہب حنفی کے تمام پیروکاروں کا اتفاق ہے کہ امام ابو حنیفہ کے مذہب میں ضعیف حدیث قیاس کے مقابلہ میں بہتر ہے (الخیرات الحسان/42 اعلاء السنن 60-59/1)
مگر بعض حاسدوں کی پھیلائی ہوئی باتوں سے متاثر ہوکر کچھ محدثین اصحاب رائے کو کتاب و سنت کا مخالف سمجھتے تھے اس لیے دینی حمیت کی بنا پر وہ ان کی مخالفت کرتے لیکن آہستہ آہستہ جب کہرا چھٹ گیا ، مخالفت کا طوفان تھم گیا، درمیان کی دیوار گر گئی ، فاصلے سمٹ گئے ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تو وہ اپنے سابقہ نظریئے پر باقی نہ رہے، چنانچہ امام حدیث وفقہ احمد بن حنبل کا بیان ہے :
ما زلنا نلعن اهل الراى ويلعنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بیننا.
ہم اہل رائے پر اور وہ ہم پر لعنت کرتے رہے یہاں تک کہ امام شافعی آئے اور ہمارے درمیان کی دیوار گرادی ۔
قاضی عیاض اس جملے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
يريد انه تمسك بصحيح الآثار و استعملها ثم اراهم ان من الراى ما يحتاج اليه وتبنى احكام الشرع عليه وانه قياس على اصولها ، منتزع منها، واراهم كيفية انتزاعها و التعلق بعللها وتنبيهاتها فعلم اصحاب الحديث ان صحيح الراے فرع للاصل –
امام احمد کی مراد یہ ہے کہ امام شافعی نے صحیح حدیث کو قبول کرتے ہوئے اور اس پر عمل کرتے ہوئے یہ بتلایا کہ "رائے” کی بھی ضرورت ہے اور اس پر احکام شرع کی بنیاد ہے ، اور یہ کہ رائے کا سر چشمہ احادیث اور ان سے مستنبط اصول ہیں۔ انہیں احادیث و آثار پر قیاس کرنے کا طریقہ، اس سے علت کے تعلق کی وضاحت فرمائی جس سے اصحاب حدیث نے یہ جان لیا کہ صحیح رائے کتاب و سنت کی شاخ ہے۔
اس کے بعد اصحاب رائے ، اور اصحاب حدیث کے درمیان دوری ختم ہو گئی مگر کتابوں میں مخالفت کے وہ الفاظ باقی رہ گئے ، آج کچھ لوگ منفی ذہن لے کر اٹھتے ہیں اور انہیں مخالفانہ بیانات کو چن کر امت کے درمیان انتشار اور افتراق پیدا کرتے ہیں، وہ دانستہ یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان بیانات کا پس منظر کیا ہے؟ اس کے اسباب کیا تھے ؟ کیا وہ اسباب اب بھی باقی ہیں ؟
کسے خبر تھی کہ لیکر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
حرف آخر :
اس طویل بحث کے ذریعہ قارئین کو جس فطری نتیجے تک میں نے پہونچانا چاہا تھا وہ بھری دوپہر کی طرح عیاں ہو چکا ہے آپ نے پڑھا کہ امام ابوحنیفہ کی نشو نما ایک ایسے شہرمیں ہوئی تھی جو علم حدیث کا گہوارہ اور ایک ہم مرکز تھا. شاید ہی حرمین کے سوا کسی اور جگہ اتنی کثرت سے صحابہ کرام اقامت پذیر ہوں۔ ان کے تلامذہ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر امام اعظم کے گردوپیش اشاعت علم حدیث میں مشغول ہے، ابر رحمت کی گھٹا چھائی ہوئ ہے ، امام ہمام نے ان میں سے بیشتر کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ، اور صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ بصرہ جیسے علمی مرکز سے بھی کسب فیض کیا ۔ حرمین شریفین میں طویل مدت تک قیام کر کے علمی پیاس بجھائی ۔
ان کے اساتذہ فقہ میں اگر حماد کا نام نمایاں ہے تو اساتذہ حدیث میں شعبی اور عطاء کا نام سر فہرست ہے ، ان اساتذہ کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ سرسری تذکرہ سے اندازہ ہوا ہوگا کہ ان میں ہر شخص اپنی جگہ علم حدیث کا پہاڑ ہے ۔ اور احادیث صحیحہ کا دارو مدار جن لوگوں پر ہے ان میں سے اکثر امام اعظم کے استاد ہیں چنانچہ ذہبی نے علی بن مدینی کا قول نقل کیا ہے کہ اکثر صحیح احادیث کے سندوں کا مدار ابن شہاب، عمرو بن دینار ، قتادہ یحی بن کثیر اور اعمش پر ہے ۔
علم وفن کے یہ امام اپنے مایہ ناز شاگرد پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، دوران درس اپنے سامنے بٹھاتے ہیں ، ان کی آمد پر سبق موقوف کر کے ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ کا طریقہ کتنا اچھا ہے ؟ انہیں فقہ پر کس قدر دسترس ہے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہ ! ہم لوگ دوا فروش اور تم طبیب ہو بلکہ تم میں دونوں وصف ہیں، تمہارے پاس حدیث بھی ہے اور تم ان کے مواقع استعمال کو بھی جانتے ہو، مسائل کا بہتر جواب تم ہی دے سکتے ہو، میرا خیال ہے کہ تمہارے علم میں برکت دی گئی ہے، جس طرح آفتاب کا روشن ہونا یقینی ہے اسی طرح سے ابو حنیفہ اور علم کا ہمنشیں ہونا یقینی ہے ، ان کی یاد داشت بہت عمدہ تھی، ان کی وفات کی وجہ سے کوفہ سے علم کی روشنی ختم ہو گئی وغیرہ ۔
ایک نظر ان ہستیوں پر بھی ڈال لیجیے جو فقہ کی ترتیب اور تدوین میں ان کے ساتھ رہے جنہیں ان کی شاگردی پر فخر ہے، یہ کون لوگ ہیں؟ اساطین علم حدیث ، ان میں سے ہر شخص آفتاب و ماہتاب ہے ، ان کی روایتوں سے شاید ہی حدیث کی کوئی کتاب خالی ہو، امام بخاری ومسلم وغیره بلا واسطہ یا بالواسطہ ان کے شاگر رہیں، ان میں سے بیشتر کا علامہ ذہبی جیسے یگانہ روزگار اور بے مثال ناقد نے اپنی مایہ ناز کتاب تذکرة الحفاظ میں حالات لکھے ہیں، جس کتاب کے متعلق انہوں نے خود ہی صراحت کر دی ہے کہ اس میں انہیں لوگوں کا تعارف ہے جو علوم نبوی کے حامل اور امین ہیں، راوی کو قابل اعتماد اور ضعیف قرار دینے اور صحیح اور من گھڑت احادیث کو جانچنے کے لیے ان کی اجتہاد پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔
ان شاگردوں میں وہ ہستیاں بھی ہیں جو مملکت حدیث کے مسلم تاجدار ، زہد و تقوی میں یگانۂ روزگار اور حدیث اور راوی حدیث کی جانچ اور پرکھ میں بے مثال اور زبان و ادب کے مسلم امام ہیں ۔
یہ حضرات مدتوں امام اعظم کی خدمت میں رہے، قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا، فقہ حنفی کی تدوین اور ترتیب میں شریک رہے ، اسی کے مطابق فتوئے دیتے رہے ، اس کی تائید اور توثیق کرتے رہے ، اور برملا اس کا اظہار کرتے رہے کہ ہمیں جو کچھ حاصل ہے، وہ ابو حنیفہ کا رہین منت ہے ، قرآن و حدیث کی فہم میں ان سے بڑھا ہوا کوئی نہ تھا، ان سے زیادہ متقی اور پر ہیز گار کسی کو نہ پایا ، ان سے بڑھ کر کوئی مقتدا اور پیشوا بننے کے لائق نہیں ، اپنی بصیرت ، فہم ، فطانت اور تقویٰ سے انہوں نے قرآن و حدیث کی جو تشریح فرمائی وہ کسی اور سے نہ ہو سکا ، وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے حافظ حدیث تھے ، ان کے زمانے میں ان سے بڑا کوئی عالم نہیں تھا۔ حدیث کی تفسیر اور توضیح میں وہ بے مثال تھے ، زبان وادب میں ان کا وہ مقام تھا کہ قاسم بن معن جیسے امام فن کہتے ہیں کہ ان کی ایک تحریر تمام فن عربیت پر بھاری ہے ، اور عبداللہ بن یزید مقری جیسے محدث جلیل نے کہا کہ وہ مملکت حدیث کے شہنشاہ تھے ۔
یہ سچ ہے کہ معاصرت خوبیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے ، اس لیے معاصر کسی ہم عصر کی برائی کرے تو وہ ایک عام بات ہوگی لیکن اگر وہ اس کے علم وفضل کا اعتراف کرے تو وہ ایک غیرمعمولی اور ایک اہم بات ہوگی ۔ امام اعظم کے معاصرین اور ان سے قریبی زمانے کے تعلق رکھنے والے جلیل القدر ائمہ فن حدیث نے جن تاثرات کا اظہار کیا ہے آپ نے اسے بھی پڑھا جس کا حاصل یہ ہے کہ :
امام ابوحنیفہ حصول علم میں بہت زیادہ مستعد اور حرام سے بچنے والے تھے۔ وہی حدیث قبول کرتے جو صحیح سند کے ساتھ منقول ہو ، وہ روئے زمین پر سب سے بڑے فقیہ تھے ، وہ محدث گر تھے ، میری نگاہوں نے ان جیسا کسی کو نہیں دیکھا ، تمام لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے عیال اور محتاج ہیں، جو ان کی کتابوں کو نہ دیکھے وہ نہ تو علم میں ماہر ہو سکتا ہے اور نہ ہی فقیہ بن سکتا ہے ، انہیں اللہ کی طرف سے فقہ کی توفیق دی گئی ہے ۔ ان کی شخصیت اور فقہ مسلم ہے، وہ علم، پر ہیز گاری ، دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کو ترجیح دینے میں ایسے مقام پر تھے کہ کسی کی ان تک رسائی نہیں ہو سکتی ہے ۔ سفیان ثوری ، عبداللہ بن مبارک، حماد بن زید ، ہشام ، وکیع ، عباد بن عوام، اور جعفربن میمون نے ان سے حدیث روایت کی ہے، وہ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، وکیع اور حماد نے ان سے بہت سی احادیث سنی ہے (روی حماد بن زید عن ابی حنیفۃ احادیث کثیرۃ الانتفاء /130 و روی عنہ خلد الواسطی احادیث کثیرۃ الانتفاء/136) فقہ تو ابو حنیفہ ہی کی فقہ ہے ، وہ اپنے شہر کی تمام حدیثوں کو جانتے تھے، فقہ و احکام سے متعلق احادیث کو سب سے زیادہ یاد رکھنے والے تھے، اور اس طرح کی احادت کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتے ، ان سے بہتر فقہ جانے والا اور حدیث کی شرح کرنے والا دیکھا نہیں گیا، وہ فہم اور علم کے پیکر تھے، انھیں علم میں رسوخ حاصل تھا ، لوگ فقہ کے سلسلہ میں غفلت میں پڑے ہوئے تھے، ابو حنیفہ نے انہیں بیدار کیا ،مسلمانوں پر واجب ہے کہ نمازوں میں ان کے لیے دعا کریں کیوں کہ انہوں نے حدیث وفقہ کو محفوظ کر دیا ہے وغیره وغیره –
حدیث کے راویوں کے سلسلہ میں ان کے اقوال کو محدثین بڑے اہتمام سے ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ امام ترمذی نے کتاب العلل میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ : "ما رأيت اكذب من جابر الجعفي ولا افضل من عطاء بن ابی رباح” میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا اور عطاء بن رباح سے افضل کسی کو نہیں پایا ۔ (تہذیب التہذیب 451/10)
تمام محدثین نے جابر کے سلسلہ میں کہے گئے توثیقی کلمات سے صرف نظر کرتے ہوئے امام ہمام کے اس جرح کو قبول کیا ہے اور اس کی تمام حدیثوں کو مردود قرار دیا ہے۔
ان کے معاصرین روایت حدیث کے سلسلہ میں ان سے مشورہ کرتے ہیں کہ کس سے حدیث لی جائے اور کس سے نہیں ؟ کون قابل اعتماد ہے اور کون نا قابل اعتبار ؟ جیسا کہ امام بیہقی نے نقل کیا ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ سفیان ثوری سے حدیث لی جائے یا نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ان کی احادیث لکھو سوائے ان احادیث کے جو انہوں نے ابو اسحاق کے واسطے سے جابر جعفی سے نقل کی ہے (الخیرات الحسان/39) روایت و درایت سے متعلق ان کے متعین کردہ اصول وضوابط کو محتاط اور محققین علماء نے اپنایا ہے اور سراہا ہے ۔
ان کے مرتب کردہ فقہی مجموعے کو اس دور کے اکثر علماء نے شوق کے ہاتھوں لیا۔
یحی بن سعید القطان جیسا جلیل القدر محدث اورام جرح و تعدیل ، وکیع اور ابن مبارک جیسے عظیم محدث ان کے قول پر فتویٰ دیتے ہیں اور یحییٰ بن معین جیسا امام فن جن کے متعلق امام احمد بن حنبل نے کہا کہ جس حدیث کو ابن معین نہ جانتے ہو وہ حدیث ہی نہیں ہے (تہذیب التہذیب 290/11) نہ صرف فقہ حنفی پر عمل پیراہیں بلکہ یہ بھی خبر دیتے ہیں کہ ان کے عہد میں عام طور پر فقہ حنفی ہی پر عمل کیا جا تا ہے (تاریخ بغداد 341/13) اس وقت دنیا محدثین سے بھری ہوئی تھی مگر امام رازی شافعی بتلاتے ہیں کہ کسی محدث کو اس مجموعے پراعتراض کی قدرت نہ ہوئی ۔
لیکن آج اسی فقہ کو کہا جا رہا ہے کہ وہ حدیث کے خلاف ہے اور اس کے مدون اور مرتب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ حدیث جانتے ہی نہیں تھے فالی اللہ المشتکی ۔
اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی خوبیاں نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہوں، ان کے تذکرے سے تاریخ کے صفحات خالی ہوں ، ان کے حالات کے بیان سے تذکرہ نگار خاموش ہوں ، ان کے علمی ماخذ کا کچھ پتہ نہ ہو بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام ہمام کے مناقب پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کسی اور امام پر نہیں، اور اس سلسلہ میں سر فہرست ان لوگوں کا نام ہے جنہیں امام اعظم سے فکری اختلاف ہے ۔
علامہ ابن عبد البر مالکی (وفات463ھ) نے الانتفاء ” نامی کتاب میں تفصیلی تعارف لکھا ، حدیث ، فقہ ، زہد و تقوی وغیرہ میں ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے ؟ اسے نمایاں کرنے کی کوشش کی ، حاسدین اور ناواقفین کے مشہور کیے گئے خلاف واقعہ باتوں کی تردید کی ۔
امام غزالی شافعی (وفات 505) کی بلند و بالا شخصیت سے کون ناواقف ہوگا، وہ اپنی مایہ ناز اور شہرۂ آفاق کتاب احیاء علوم الدین میں لکھتے ہیں کہ منصب قیادت اور امامت پر فائز فقہار پانچ ہیں ، شافعی ، مالک ، احمد بن حنبل ، ابوحنیفہ ، سفیان ثوری ، ان میں سے ہر ایک عابد و زاہد، اخروی علوم کا عالم اور دنیا میں مخلوق خداوندی کی مصلحتوں سے ہم آشنا تھا (احیاء علوم الدین /31)
ابن اثیر جزری شافعی (وفات 606ھ) کی شخصیت بھی محتاج تعارف نہیں ، کوچۂ حدیث کا کون رہگذر ان کے نام سے نا آشنا ہو گا ، وہ فرماتے ہیں :
كان اما ما في علوم الشرعية مرضیا – (اعلاء السنن 19/3)
امام نووی شافعی (وفات 676ء ) نے اپنی کتاب ، "تہذیب الاسماء و اللغات” میں تفصیل سے بڑا عقیدت مندانہ تعارف لکھا ہے ، وہ ان کے تذکرے کی ابتداء "الامام البارع” جیسے پر شکوہ الفاظ سے کرتے ہیں (تہذیب الاسماء و اللغات 216/2) اس کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں کو بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ وہ کس انداز سے امام اعظم اور فقہ حنفی کا تذکرہ کرتے ہیں؟
مشہور مؤرخ ابن خلکان وفات (681ھ) نے اپنی کتاب – "وفیات الاعیان” میں امام ہمام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
كان عالما، عاملا، زاهدا
عابدا، ورعا تقياء كثير الخضوع
دائم التفرع الى الله – (وفیات الاعیان 406/5)
امام خطیب ولی الدین تبریزی شافعی ( وفات740ھ ) حدیث کی مشہور کتاب مشکوۃ المصابیح کے مرتب اور مؤلف ہیں ، ان کی ثقاہت اور فضیلت کے لیے مذکورہ کتاب ہی کافی ہے، مشکاۃ کے ہندوستانی ایڈیشن میں ان کی ایک دوسری کتاب الاکمال – منسلک ہے ، جو حدیث کے راویوں کے حالات پر مشتمل ہے ، اس میں انہوں نے لکھا ہے :
فانه كان عالماً، عاملا، زاهدا، ورعا. عابدا . اماما في العلوم الشرعية (الاکمال /625)
امام ابو حنیفہ عالم با عمل، دنیا سے بے رغبت، پرہیزگار عبادت گزار اور دینی علوم امام تھے ۔
امام ذہبی (وفات 748 ھ) نے ان کے تذکرہ پر مشتمل ایک مکمل کتاب لکھی اور حفاظ حدیث اور جرح و تعدیل کے ائمہ کے حالات پر مشتمل کتاب تذکرة الحفاظ میں بڑے ہی شان سے امام ہمام کے حالات لکھے ہیں، وہ فرماتے ہیں :
ابو حنیفۃ الامام الاعظم فقيه
العراق … وكان اماما، ورعا، عالما، عاملا، متعبدا الكبير الشان لا يقبل جوائز السلطان (تذکرۃ الحفاظ 168/1)
اور سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں :
ابو حنیفہ، امام اور فقیہ ملت ہیں … طلب حدیث کے لیے انہوں نے خصوصی توجہ کی اور اس سلسلہ میں شہروں کے لیے رخت سفر باندھا ، فقہ اور رائے میں دقیقہ رسی اور گہرائی ان پر ختم ہے تمام لوگ اس سلسلہ میں ان کے محتاج ہیں (سیر اعلام النبلاء 390-92/6)
مفسر قرآن ، حافظ حدیث، ابن کثیر دمشقی شافعی (وفات 774ھ ) کا بیان که ابو حنیفہ ائمہ اسلام، سر کردہ اور چوٹی کے لوگوں اور اساطین علماء میں سے تھے (البدایہ و النہایہ 107/10)
اور فلسفہ تاریخ کے بانی ،مورخ شہیر علامہ ابن خلدون (وفات 808ھ ) نے لکھا ہے کہ بعض ہٹ دھرم دشمنوں نے گھڑ لیا ہے کہ ان ائمہ (ابوحنیفہ ، مالک ، شافعی وغیرہ ) میں سے بعض کے پاس حدیث کی پونجی بہت کم تھی ، اس لیے ان سے منقول روایتیں کم ہیں ، حالانکہ ائمہ کبار کے متعلق اس خیال کے لیے کوئی راہ نہیں ہے، کیوں کہ شریعت کا ماخذ قرآن و حدیث ہے، پس جو شخص حدیث میں کم مایہ ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ محنت اور کوشش کرے تاکہ وہ دین صحیح اصول سے اخذ کر سکے ۔
امام ابو حنیفہ سے منقول روایتوں کی تعداد کم کیوں ہے ، اس سلسلہ میں ان کا خیال ہے کہ انہوں نے قبولیت حدیث کے لیے سخت شرائط لگائے ہیں انما قلت روايته لما شدد في شروط الرواية والتحمل – (مقدمہ ابن خلدون/444)
امام ابو حنیفہ نے قبولیت حدیث کے لیے جو شرطیں لگائی ہیں، وہ اس ماحول اور معاشرہ کے عین مطابق تھیں ، یہی وجہ ہے کہ ان شرطوں میں ان کے معاصر امام مالک ان کے ساتھ نظر آتے ہیں ، یہ صحیح ہے کہ ان شرطوں کی وجہ سے حدیث کا دائرہ قدرے تنگ ہو جاتا ہے ، لیکن اہل فکرو نظر یہ بتلا سکتے ہیں کہ احتیاط ضروری ہے یا روایت کی وسعت ؟ بخاری شریف کو امت کے درمیان قبول عام حاصل ہونے کی وجہ حزم و احتیاط اور سخت شرائط ہی ہیں حالاں کہ وہ شرطیں ایسی تھیں کہ اس دور کے بہت سے محدثین چیخ اٹھے ، اور اس کی وجہ سے ایک لاکھ صحیح احادیث میں سے صرف دو ہزار اور کچھ زائد حدیثیں اس کتاب میں آسکیں، جیسا کہ خود امام بخاری نے صراحت کر دی ہے کہ میں نے ایک لاکھ صحیح احادیث میں سے اس کتاب کی احادیث کو منتخب کیا ہے ، لہذا سخت شرائط کے ذریعہ روایت حدیث کے غلط دائرہ کو تنگ کرنا اور قبولیت حدیث میں حزم واحتیاط سے کام لینا کوئی غلط بات ہے تو امام ابو حنیفہ اس میں تنہا نہیں ہیں بلکہ امام مالک ، شافعی اور بخاری بھی ان کے ساتھ ہیں ۔
قلت روایت کی وجہ بیان کرنے کے بعد مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں: امام ابوحنیفہ کا علم حدیث میں کبار مجتہدین میں ہونا اس سے ثابت ہے کہ محدثین کے درمیان ان کے مذہب پر اعتماد اور رجوع نیز رد و قبول میں اس پر بھروسہ کیا جاتا ہے ۔ (مقدمہ ابن خلدون/445)
رہا ابن خلدون کا یہ کہنا کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جو حدیث بیان کی ہے ان کی تعداد سترہ ہے ۔ یقال انه بلغت روايته الى سبعة عشر، تو خود ان کی صراحت کے بعد یہ بات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے ، دوسرے یہ کہ اس کے لیے "یقال” کا لفظ استعمال کیا ہے جو ضعف اور عدم اعتماد پر دلالت کرتا ہے، نیز واقعہ کے بھی خلاف ہے کیوں کہ حدیث کی بعض موجودہ کتابوں میں امام ہمام سے منقول احادیث کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے ، کتاب الآثار، موطاء امام محمد، مسند و کیع، مصف ابن ابی شیبه ، مصنف عبد الرزاق، مستدرک حاکم ، معاجم طبرانی ، سنن کبریٰ، دار قطنی اور امام ابو یوسف و ابن المبارک وغیرہ کی کتابوں میں ان سے منقول احادیث کو علیحدہ کر کے مرتب کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہو جائے (دیکھیے اعلاء السنن 193/1)
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی، شارح بخاری وفات (852ھ) نے بھی امام عظم کا تفصیلی تذکرہ لکھا ہے اور آخر میں یہ کہہ کر قلم روک دیا ۔ "و مناقب ابی حنيفة كثيرة جدا” امام ابو حنیفہ کی خوبیاں اور اچھائیاں بہت زیادہ ہیں ۔ (تہذیب التہذیب 452/10)
امام سیوطی شافعی (وفات 911ھ) محمد بن یوسف دمشقی، شافعی (وفات 942ھ) ابن حجر مکی شافعی (وفات 974ھ) نے امام اعظم کے حالات پر مشتمل مکمل کتابیں لکھی ہیں، محمد بن یوسف دمشقی نے تفصیل سے لکھا ہے کہ علم حدیث میں ان کا کیا مقام ومرتبہ تھا، چناں چہ انہوں نے اپنی کتاب میں عنوان قائم کیا ہے کہ "الباب الثالث و العشرون في بيان كثرة حديثه وكونه من اعيان الحفاظ المحدثين”
تییسواں باب اس بات کے بیان میں کہ امام ابوحنیفہ کثیر الحدیث اور چوٹی کے محدثین میں تھے ، نیز وہ کہتے ہیں کہ
كان ابو حنيفة من كبار حفاظ
الحديث واعيانھم ولولا كثرة
اعتنائه بالحديث ما تھیالہ
استنباط مسائل الفقه – (عقود الجمان)
علامہ دمشقی نے جویہ لکھا ہے وہ ایک فطری بات ہے اور دو، دو چار کی طرح واضح ہے، کیوں کہ امام ابو حنیفہ کا مجتہد ہونا ایک ایسی کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ آج تک کسی کو اس سے انکار کی جرأت نہیں ہوئی، اور ظاہر ہے کہ جو شخص مجتہد ہوگا وہ ماخذ قانون قرآن ، حدیث ، مذاہب سلف ، لغت اور قیاس سے بہ خوبی واقف ہوگا کہ اس کے بغیر وہ مجتہد ہو ہی نہیں سکتا ہے ، اس کے اندر مسائل کے استنباط کی صلاحیت پیدا ہو ہی نہیں سکتی ہے ، چہ جائیکہ وہ فقہ اسلامی کا اتنا بڑا ذخیرہ تیار کر دے ۔
ابن حجر ہیثمی کہتے ہیں کہ :
ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ امام بوحنیفہ فقہ کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے، اللہ کی پناہ، وہ تو علوم شرعیہ،تفسیر حدیث ، زبان وادب ، قیاس ، حکمت ومصلحت میں ایک بحر بے پایاں اور شک و شبہ سے بالا تر امام تھے، رہا ان کے بعض مخالفین کا اس کے برخلاف کہنا تو اس کی وجہ حسد اور ہم عصر پر برائی کا اظہار ہے ۔ (الخیرات الحسان/39)
امام اعظم سے منقول احادیث کی تعداد کم کیوں ہے ؟ اس سلسلہ میں ان حضرات کا رجحان یہ ہے کہ الفاظ حدیث بہت حد تک محفوظ ہو چکے تھے، ہزاروں محدثین جمع و ترتیب میں مشغول تھے، لیکن معانی و مفہوم کا گوشہ بہت حد تک خالی پڑا ہوا تھا ، یہ اندیشہ تھا کہ حدیث سے مسائل کا استنباط نہ کیا جائے اور انہیں مدون نہ کیا جائےتو امت ایک بڑی آزمائش سے دوچار ہو سکتی ہے۔ امام ہمام نے اپنی پوری توجہ اس گوشہ پر مبذول کردی جس کی وجہ سے انہیں حدیث کا درس دینے کا موقع نہیں ملا ، بلکہ جس نے بھی اس کوچہ میں قدم رکھا اس کی روایت حدیث کم ہے، امام مالک نے حدیث کی کتاب "موطا ” – تو لکھی لیکن اس میں منقول احادیث کی تعداد دیگر کتابوں کی بہ نسبت بہت کم ہے، نیز اسے وہ مقام ، بھی نہ مل سکا جو حدیث کی چھ مشہور کتابوں کو حاصل ہے، امام شافعی کی سند سے بھی بہت کم حدیث منقول ہے، بلکہ ان کا شمار بھی "قلیل الحدیث” راویوں میں ہے، چنانچہ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے کہ ابو قدامہ سے امام شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق اور ابوعبید کے متعلق دریافت کیاگیا تو انہوں نے کہا، امام شافعی ان میں سب سے زیادہ فہم رکھنے والے ہیں مگروہ "قلیل الحدیث” ہیں ، احمد بن حنبل ان میں سب سے زیادہ پرہیز گار، اسحاق سب سے زیادہ حدیث یاد رکھنے والے اور ابو عبید سب سے بڑھ کر لغت عرب کو جاننے والے ہیں ۔ (اعلاء السنن 236/1 بحوالہ تہذیب التہذیب)
بات صرف ائمہ تک محدود نہیں بلکہ نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھیے ، خلفاء راشدین سے کتنی حدیث منقول ہے ؟ امام شافعی کو حضرت ابو بکر کے واسطے سے صرف سترہ حدیث اور حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی سے پچاس حدیث پہونچی تھی (دیکھیے الخیرات الحسان/90وغیرہ) اگرچہ حدیث کی موجودہ کتابوں میں خلفاء راشدین سے منقول حدیثوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے مگر پھر بھی اس قدر نہیں کہ اسے کثیر کیا جاسکے۔
یہ خلوت و جلوت کے ہمنشین کیا اسی قدر احادیث جانتے تھے ؟ کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے ؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ مصالح مسلمین میں مصروفیت کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو روایت حدیث کے لیے فارغ نہیں کر پاتے ۔ ایسے ہی یہ ائمہ ، احادیث سے تو بہ خوبی شغف رکھتے تھے مگر استنباط مسائل جیسے اہم اور ضروری کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے انہوں نے علیحدہ سے حدیث کے لیے کوئی درس گاہ قائم نہیں کی جس کی وجہ سے ان سے منقول احادیث کی تعداد کم ہوگئی ۔ (تقصار جیود الاحرار /93)
اور مسلک اہلحدیث کے ترجمان نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں :
امام اعظم کوفی وے چنانچه در علم دین
امامت دارد و ہمچناں در زہد و عبادت
امام سالکان است (تاریخ اہلحدیث 271/1)
اور جماعت اہلحدیث کے امام علامہ ابراہیم سیالکوٹی تاریخ الحدیث میں لکھتے ہیں :
علماء متقدمین کی تحقیق جو دیانت وادب ہر دو امر کو ملحوظ رکھ کر ہے یہ ہے کہ امام صاحب اہلسنت اور اہلحدیث کے پیشوا تھے ، جیسا کہ باب اول کے ضمیمہ فصل سوم میں آپ کے خصوصی حالات میں ائمہ اہل حدیث، امام ذہبی ، حافظ ابن حجر، امام ابن تیمیہ کے اقوال گذر چکے ہیں ۔
غرضیکہ کوئی ایسا دور نہیں آیا جس میں محققین اور انصاف پسند علماء نے امام اعظم کو خراج عقیدت پیش نہ کی ہو ،ان کے علم و فقہ پر اعتماد کا اظہار نہ کیا ہو علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے سامنے سر نہ جھکایا ہو ۔
علم و فضل کے اعتراف پر مشتمل اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ہر انصاف پسند کہہ پڑے گا کہ واقعی امام ابو حنیفہ علم حدیث میں بھی امام اعظم تھے، لیکن ذہن کے کسی گوشہ سے یہ آواز آرہی ہوگی کہ حدیث میں جب ان کا یہ مقام ہے تو پھر بخاری و مسلم وغیرہ میں ان کی سند سے کوئی روایت کیوں نہیں ہے ؟ اس سلسلہ میں یہ کہنا ہے کہ ان مصنفین کا ایک مخصوص مذاق و مزاج رہا ہے ، جس کی ایک طویل تاریخ ہے، اس پس منظر میں انہوں نے ان کی سند سے منقول حدیث کو نقل نہیں کیا، اور اس میں بھی وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ امام شافعی بھی ان کے ساتھ ہیں، چنانچہ بخاری و مسلم میں امام شافعی کی سند سے کوئی حدیث موجود نہیں ہے ، ایسے ہی ترمذی ، نسائی ، ابو داؤد وغیرہ میں بھی ان سے منقول روایتوں کی تعداد حد درجہ کم ہے ۔امام شافعی کا علم حدیث میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ محتاج تعارف نہیں ہے، ائمہ فن مثلاً مام احمد بن حنبل، اسحاق راهویه، ابوثور، حمیدی، ابو زرعہ، ابوحاتم وغیرہ انہیں حدیث کا سر چشمہ اور مخزن تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ صحیح مسلم میں امام بخاری کی کوئی روایت نہیں ہے حالاں کہ امام بخاری ان کے مایہ ناز اور قابل فخر اساتذہ ہیں ۔یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ امام بخاری نے بہت سے مسائل میں فقہ حنفی کی موافقت کی ہے ایسے مسائل کی تعداد اس سے کم نہیں جتنی فقہ شافعی کی موافقت میں ہیں۔ نیز امام اعظم کے شاگردوں وکیع اور ابن المبارک کی کتابوں کے وہ حافظ تھے چنانچہ وہ خود کہتے ہیں کہ جب میری عمر سولہ سال ہوئی تومیں نے ابن المبارک اور وکیع کی کتابوں کو یاد کیا اور اصحاب رائے کی باتوں کی شناخت حاصل کی) ( مقدمہ فتح الباری / 470)
حاصل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نہ صر ف میں امام اعظم تھے بلک حدیث میں بھی وہ امام فن تھے ۔ وہ اس مملکت کے تاجدار اور اس دریا کے عظیم شناور تھے، حدیث شریف کے اہم مراکز حرمین شریفین، کوفہ اور بصرہ کے اساطین علم حدیث سے کسب فیض نے انہیں محدث اعظم بنادیا تھا ۔یہ بات محض عقیدت مندانہ نہیں بلکہ تحقیق کی کسوٹی پر ثابت شدہ ہے ، اس سے انکار واقعہ اور حقیقت کا انکار ہے ، ضد ، ہٹ دھرمی اور عصبیت پرستی اور جہالت و نادانی ہے ۔ حدیث اور تاریخ حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔
شائع شدہ مجلہ ترجمان الاسلام بنارس ۔اپریل-ستمبر۔1998ء