جامعہ انوار العلوم فتح پور شعبہ افتاء کا پہلا سال

جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو میں شعبہ افتاء کا پہلا سال

ولی اللہ مجید قاسمی۔ موبائل :9451924242

1992ء میں دار العلوم دیوبند سے فضیلت کی سند ملی اور 94ءمیں دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد سے اختصاص فی الفقہ کے دو سالہ کورس کی تکمیل ہوئی،
اور پھر 98ء تک وہیں رہنے کا موقع ملا ، اور اللہ کے فضل و کرم اور اساتذہ کے اعتماد کے سہارے اختصاص فی الفقہ کی متعدد کتابیں مجھ سے متعلق رہیں۔
بعض خانگی حالات کی وجہ سے گھر سے قریب رہنا ضروری ہوگیا اور اس طرح سے جامعۃ الفلاح چلا آیااور تقریباً پندرہ سال وہاں رہا اورصحیح بخاری اور حدیث کی دیگر کتابوں، ہدایہ اور بدایۃ المجتہد کی تدریس کا موقع ملا۔
6جون کو ایک طالب علم نے فون کرکے مجھ سے افتاء پڑھنے کی خواہش ظاہر کی ، جس کی خاطر جامعۃ الفلاح سے رخصت لے کر انوار العلوم فتح پور چلا آیا جہاں گذشتہ تین سالوں سے ناظم تعلیمات کی ذمے داری نبھا رہا تھا ۔
اس طرح سے ایک طالب علم کے ذریعے انوار العلوم کا شعبہ افتاء قائم ہوگیا ، اتفاق سے دوسرے دن مولانا محمد عثمان معروفی( شیخ الحدیث دارالعلوم باسکنڈی آسام )پورہ معروف کے ایک بچے کو شعبہ حفظ میں داخل کرانے کے لئے جامعہ تشریف لائے اور بطور تبرک ان سے الدر المختار شروع کرانے کی درخواست کی گئی جسے انھوں نے شرف قبولیت سے نوازا۔
ایک ہفتے کے بعد پورہ معروف کے تین طلبہ شعبہ افتاء میں داخلے کے لئے حاضر ہوئے اور اس شعبے میں موجود طالب علم سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے کہا کہ یہاں اردو شروحات اور اردو فتاویٰ دیکھنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ فقہ کی عربی کتابوں سے مسئلہ تلاش کرنا ہوگا ، وہ تینوں یہ کہہ کر واپس ہوگئے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے ۔
میرے لئے یہ ایک نئی اور حیرت انگیز بات تھی ، کچھ دنوں کے بعد کوپاگنج کا ایک طالب علم اپنے بعض ساتھیوں سے ملاقات کے مقصد سے ہمارے یہاں آیا اس وقت وہ مغربی یوپی کے ایک مشہور اور بڑے مدرسے میں افتاء میں زیر تعلیم تھا میں نے اپنی حیرت کا تذکرہ اس سے کیا تو وہ برجستہ وہاں کے ایک استاد کا نام لیکر کہنے لگا کہ وہ تو ہمیں اردو فتاویٰ دیکھنے اور اس سے مشق افتاء کا سوال حل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔
میں نے کہا کہ ہمارے یہاں بھی اکابر کے فتاویٰ کو زیر مطالعہ رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ تعطیل کے دوران حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ وغیرہ کے فتاویٰ کو مکمل طور پر مطالعہ کے لئے پابند بنایا جاتا ہے لیکن مشق فتاوی کے لئے عربی کتابوں سے رجوع کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی بغیر محنت کرنے کی عادت نہیں پڑیگی اور نہ ہی خود اعتمادی پیدا ہوگی ۔
عید قرباں کے بعد یوپی کے ایک مدرسے میں جانا ہوا وہاں کے ایک استاد سے صورت حال کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ہمارے مفتی صاحب تو کہتے ہیں کہ بہشتی زیور دیکھ کر جواب لکھ دیا کرو، یہ واقعات نہایت تعجب خیز تھے ، واٹس اپ کے بعض گروپ کے مفتیوں کے غیر مربوط اور بے ڈھب جوابات کو دیکھ کر کچھ تبدیلی کا احساس ہو رہا تھا لیکن حالات اس کا قدر بدل جائیں گے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔
میرے لئے یہ ایک مشکل اور صبر آزما مرحلہ تھا معیار اور استعداد کو بھی برقرار رکھنا تھا اور ایک حد تک مقدار وتعداد کو بھی۔ اس کے لئے میں نے یہ راہ نکالی کہ سوالات کی تعداد کم رکھی جائے البتہ یہ شرط رہے کہ عربی فتاویٰ کی کتابوں ہی سے لکھنا ہوگا اور کوئی کسی سے نقل کرکے نہیں لکھے گا۔
چنانچہ شروع میں صرف ایک دو سوال دیتارہا جس کے جواب کے لئے بھی طلبہ کافی رات تک جاگتے رہتے اور اپنی محنت کو اپنے ساتھی سے شیئر نہیں کرتے تھے اور یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ دو ہفتے کی محنت کے بعد وہ راستے پر لگ گئے ہیں اور اصل مصادر ومراجع سے رجوع کرنے میں انھیں گھبراہٹ نہیں ہوتی ہے ۔
انھیں اس بات کی بھی ترغیب دی جاتی رہی کہ جو مسائل براہ راست کتاب و سنت سے مستنبط ہیں ان کے جواب میں آیتوں اور روایتوں کو نقل کرنے کا اہتمام کیا جائے اور اس کے بعد فقہی کتابوں کا حوالہ دیا جائے تاکہ بعض لوگوں کا یہ اعتراض ختم ہوجائے کہ احناف کے فتووں میں قرآن و حدیث کا حوالہ نہیں ہوتا ہے اور یہ آشکارا ہوجائے کہ فقہ حنفی کے مسائل کتاب و سنت سے ماخوذ ہیں۔
ہر ہفتے فقہ اور اصول فقہ کے موضوع پر محاضرہ کا اہتمام کیا جاتارہا۔
مشق فتاوی میں زیادہ توجہ نئے مسائل پر رکھی گئی ، اور اسی کے ساتھ ہر پندرہ دن پر کسی نئے موضوع پر مقالہ لکھنے یا کسی فقیہ کے مقالے کی تلخیص تیار کرنے کے لئے کہا جاتا ، اور ششماہی بعد کم سے کم پچاس صفحات پر مشتمل کتاب لکھنے کا پابند بنایا گیا ، چنانچہ طلبہ نے درج ذیل عناوین پر کتابیں مرتب کیں:
1-محمد مرغوب قاسمی =موبائل سے متعلق شرعی احکام و ہدایات۔
2-محمد شاد قاسمی = بچوں کے حقوق اور ان سے متعلق احکام و ہدایات۔
3-نعمت اللہ قاسمی=جانوروں کے حقوق
4-محمد طفیل =صفةوضوء النبی ﷺ۔
5=محمد دانش = چھینک اور جماہی سے متعلق احکام و آداب۔
اور امسال درج ذیل کتابیں پڑھائی گئیں:
1-التفسیرات الاحمدیہ
2-الدر المختار (مقدمہ، کتاب الطھارۃ، کتاب الصلاۃ، کتاب البیوع، کتاب الطلاق، کتاب الذبائح، کتاب الاضحیۃ، کتاب الحظر والاباحۃ)
3-الاشباہ والنظائر ( فن اول مکمل)
4-شرح عقود رسم المفتی۔
5-اصول الافتاء و آدابہ۔(مکمل ۔ صفحات :400)
6-اصول الکرخی۔
7-تاسیس النظر۔
8-سراجی۔
9-انگریزی۔
بعض بزرگوں کی خدمت میں سالانہ امتحان کے مشق افتاء کے سوالات ارسال کئے گئے تھے ، ان کی طرف سے بڑے حوصلہ افزاء پیغامات آئے اللہ تعالیٰ ان کو صحت و عافیت سے رکھے ۔ ان میں سے کچھ حضرات کے الفاظ یہ ہیں:
1-السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
امیدکہ بخیر ہوں گے
آپ کا ارسال کردہ ماڈل پرچہ باصرہ نواز ہوا۔ماشاءاللہ حوادث ونوازل سے متعلق مسائل پر توجہ دی گئی ہے،جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ افتاءکے طلبہ کو جدید مسائل سے روشناس کرانے پر زور دیا گیا ہے ،جو اس شعبے کی کامیابی اور نیک نامی کی واضح علامت ہے ۔
امیدکہ بخیر ہوں ۔

(حضرت مولانا خورشید انور صاحب اعظمی دامت برکاتہم صدر مدرس مظہر العلوم بنارس۔)

2-السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ سوالات کی نوعیت بتاتی ہے کہ ما شاء اللہ تمرین فتاویٰ میں اچھی محنت کرائی گئی ہے بارک اللہ وتقبل اللہ جہودکم۔

(حضرت مولانا عبد اللہ صاحب معروفی مد ظلہ العالی، استاذ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند۔)

3-ماشاءاللہ مبارک ہو ۔ اچھی جگہ اچھا کام شروع ہوا ہے ۔ بڑی خوشی ہوئی ۔

پرچہ سوال اچھا ہے ۔

سوالات معیاری ہیں ۔

افتاء کے طلباء ہیں ۔ اس لیے انھیں حوالہ جات کے ساتھ لکھنے کی صراحت سوال نامہ میں بھی ہو تو اچھا رہے گا ۔ اگر مسئلہ پرانا ہے تو عربی کا حوالہ اور نیا ہے تو علت یا نظیر بھی پوچھنی چاہیے ۔ بقیہ ٹھیک ہے ۔

آپ تو مادر علمی دار العلوم دیوبند کے بڑے قابل قدر فرزند ارجمند ہیں ۔

(حضرت مولانا ، مفتی، ڈاکٹر اشتیاق احمد استاذ دارالعلوم دیوبند)

4-آپ نے عصر حاضر میں پیش آمدہ مسائل کے اعتبار سے تیاری کرائی ہے۔

(مولانا عبید اللہ شمیم صاحب جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ۔)

5-آئندہ زمانے میں اس طرح کے سوالات میں تیزی سے اضافہ کا امکان ہے، اگر ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی اپنی اصلاح کی جانب متوجہ نہیں ہوئے ایک اثر کی روشنی میں ( جسکی مشاہدات و تجربات تائید کرتے ہیں) یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علماء کرام کا فساد و صلاح عوام پر اثر انداز ہوتی ہے ۔

(مولانا منصور احمد صاحب قاسمی کانپور۔)

یہ تحریر بعض لوگوں کی خدمت میں ارسال کی گئی تھی ان کے تاثرات درج ذیل ہیں۔

1-اللہ رب العزت نظرِ بد سے بچائے اور ہر طرح کی کامیابی و کامرانی اور ترقیات سے نوازتا رہے۔
(مولانا عبد المجید ۔ استاذ ریاض العلوم گورینی جونپور۔)

2-ماشاءاللہ
سبحان اللّٰہ
آں مخدوم کے زیر نگرانی شعبہ افتاء کی اس قابلِ داد اور لائقِ مبارک باد روداد کو پڑھ کر بڑی خوشی ومسرت ہوئی
اللّٰہ تعالیٰ قبول فرمائے مزید ترقیات سے نوازے۔
(مولانا انصار اللہ صاحب ۔ استاذ المعھد العالی حیدرآباد۔)
3-ماشاءاللہ ۔
شعبہ افتاء کی کارگزاری پڑھ کر بے انتہاء خوشی ہوئ، مفتی سازی کی ہوڑ میں ایک معیاری شعبہ افتاء کے قیام کی سخت ضرورت تھی جو آپ کی زیر نگرانی پوری ہونے پر دل جذبہ تشکر سے لبریز ہے ۔
اللہ تعالی شرف قبولیت سے نوازکر مرجع خلائق بنائے ۔آمین۔
(مولانا منصور احمد صاحب کانپور)
4-ماشاءاللہ بہت خوشی ہوئی آپ کی علمی خدمات سے واقف ہوکر اور شعبہ افتاء کی معیاری تعلیم وتربیت پر مطلع ہوکر اللہم زد فزد آمین
(مولانا عبد اللہ صاحب شیخ الحدیث جامعہ عائشہ حیدرآباد۔)
5-ماشاءاللہ
بہت بہت مبارک ہو
آپ نے عمدہ اور بہترین نصاب مرتب کیا ہے۔
ویسے اکثر مدارس کے اندر دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ اردو فتاوی سے مراجعت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی صلاحیت میں خاص نکھار پیدا نہیں ہوتا لیکن آپ نے عربی کتب سے مراجعت کی قید لگا کر اور پابند بنا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر انسان کسی چیز کرنے کا عزم مصمم کرلے تو اس کے لئے آگے بڑھنے سے کوئی چیز مانع نہیں بن سکتی۔
If you are fully determined to do something nothing can stop you to go ahead

اللہ تعالیٰ آپ کے اس کاوش کو شرف قبولیت بخشے۔
(مولانا محمد شاہد صاحب ، استاذ جامعہ احیاء العلوم مبارک پور)
6-ماشاءالله
اللهم زدفزدآمین.
(مفتی محمد سلمان منصورپوری صاحب صدر شعبہ افتاء دار العلوم دیوبند)
7-قابل صد آفریں
اللہ تعالی آپ کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور اسی نہج پر کام مکمل کرنے کا حوصلہ بخشیں۔
(مفتی محمد فیض صاحب کویت)
8-جزاکم اللہ خیرا
احقر کو علمی تحقیق کے زوال اور سہولت پسندی کے دور مین آپ جیسے مادر علمی کے سپوت پر فخر ہے
اللہ تعالی مزید کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
(مولانا محمود حسن قاسمی الہ آباد)
9-ماشاء اللہ بہت خوب.
اللہ آپ کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت بخشے، صحت دائمی نصیب فرمائے اور آپ کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم رکھے.
(مولانا خبیب احمد کاظمی۔ قطر)
10-ماشاءاللہ! صرف ایک سال کی قلیل مدت میں طلبہ کی جانب سے مختلف رسائل کا معرض وجود میں آنا آپ کے اخلاص اور جدوجہد کی برکت ہے۔
تقبل اللہ جھودکم ورفع الله قدركم.
(مولانا عبید اللہ شمیم جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ)
11-ماشاء اللہ۔خوشی ہوئی۔اللہ تعالیٰ آپ کی صلاحیتوں کو جِلا بخشے اور دین و ملت کی زیادہ سے زیادہ خدمت لے صحت کے ساتھ عمر میں برکت دے۔
(مولانا محمد اسماعیل فلاحی.علی گڑھ)
12-بہت بہت مبارک ہو
ماشاءاللہ تعالیٰ
دل خوش ہو گیا
جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ.
(مولانا محمد سلمان صاحب الہ آباد)
13-تعلیم افتاء کا یہ منہج واقعی معیاری ہے اس کے ذریعے استفتاء کاجواب لکھنے کی لیاقت کے ساتھ مقالہ نویسی کی استعداد بھی پیدا بھی ہوگی اور جدید پیش آمدہ مسائل کوحل کرنے کا ہنر بھی حاصل ہوگا.
(مولانا ابو المکارم استاذ ریاض العلوم گورینی جونپور)