بسم اللہ الرحمن الرحیم
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع کا
تعارف۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
جہالت ایک طرح کی تاریکی ہے جو اپنے ساتھ ہزاروں خرابیاں لے کر آتی ہے جس میں سے ہر ایک برائی سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایک طویل مدت درکار ہے، پھر بھی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں، علاج صرف ایک ہے،علم کی شمع جلائی جائے ، روشنی ہوتے ہی جہالت کی تمام برائیاں رفو چکر ہوجائیں گی ، یہی وجہ ہے کہ جب مکہ میں اسلام کا آفتاب عالم تاب طلوع ہوا تو سب سے پہلے پڑھنے اور لکھنے کا تذکرہ کیا گیا۔
اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الانسان من علق اقرأ وربك الأكرم الذي علم بالقلم)
حالانکہ اس وقت عربوں میں بہت سی ایسی خرابیاں تھیں جنہیں ختم کرنے کی سب سے پہلے ضرورت تھی، پوری قوم اختلاف و انتشار کی شکار تھی، شرک و بت پرستی اپنی انتہاء کو پہونچی ہوئی تھی، ظلم و جور کی حکمرانی تھی، حیوانیت و درندگی اپنے عروج پر تھی ، بے حیائی اور بے شرمی کا چلن تھا ،
غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلی وحی میں ان سب برائیوں میں سے کسی کا ذکر نہیں، بلکہ اس کی جگہ پڑھنے لکھنے کا تذکرہ ہے۔ ایسا اس لیے کہ جہالت کی کوکھ سے تمام شرور و فتن جنم لیتے ہیں اور علم ہی وہ سرچشمہ ہے جہاں سے تمام اچھائیاں پھوٹتی ہیں؛ اس لیے سب سے پہلے علم کی ضرورت ہے کہ کسی سماج میں جب علم کا سورج طلوع ہوگا تو وہ جہالت کو اور اس سے پنپنے والی تمام خرابیوں کو جلا کر خاکستر کر دے گا .
کسی بھی سماج اور معاشرہ کی تشکیل میں تعلیم کا بنیادی کردار ہوتا ہے کیوں کی تعلیم حاصل کرنے والے کمزور اور نا سمجھ بچے بیس سال کی مدت میں کمزور ترین اور بے اثر سطح سے نکل کر معاشرہ کے مؤثر ترین سطح پر آجاتے ہیں اور سماج کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔
اس وقت تعلیم و تربیت کے حوالہ سے مسلمانوں کو دو طرح کی یلغار کا سامنا ہے، ایک یہ کہ ذرائع ابلاغ اور وسائل تعلیم کے ذریعے ننگے پن ، فحاشی ، مذہب بے زاری اور مفاد پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے اور اپنی روشن تاریخ اور بے مثال تہذیب و تمدن سے نا واقف مسلمان بچے نادانی کی وجہ سے اس کا شکار ہور ہے ہیں اور اسلامی افکار و اقدار کے تئیں احساس کمتری میں گرفتار ہو رہے ہیں۔
دوسرے یہ کہ حکومت مشرکانہ رسوم و رواج کو پورے ملک پر مسلط کرنے کے خبط میں بری طرح مبتلا ہے اور ہندو میتھالوجی کو برتر اور بہتر قرار دینے کیلئے کوشاں ہے، ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں بھی وہی کتابیں داخل نصاب ہیں جن میں اسلام دشمنی اثرات نمایاں ہیں۔
اکبر مرحوم نے بڑے کرب وحسرت کے ساتھ کہا تھا:
ہم سمجھتے تھے کہ لائیگی فراغت تعلیم ۔ کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
لیکن اب تعلیم کے ساتھ الحاد کے آنے کی خبر بالکل عام ہو چکی ہے ، اس لئے ضرورت ہے کہ والدین اپنے بچوں کی دینی تعلیم پر بھر پور توجہ دیں اور اسی مقصد کے تحت ہمارے بزرگوں نے دینی مکاتب و مدارس قائم کئے ہیں جن میں سے ایک نمایاں نام‘‘ مدرسہ انوار العلوم’’فتح پورتال نرجا کا ہے جس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے ، جسے حضرت مولانا عبد القیوم صاحب فتح پوری مجاز صحبت حضرت تھانوی اور مجاز بیعت حضرت مصلح الامت ) نے قائم کیا تھا۔
حضرت مولانا اعجاز صاحب اعظمی علیہ الرحمہ اس مدرسہ کے قیام کے بارے میں رقم طراز ہیں:
حضرت مولانا عبد القیوم صاحب نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دس بارہ سال بارہ بنکی میں خدمت کی، پھر اللہ کو منظور ہوا کہ فیض کے اس سر چشمہ سے وطن اور قرب و جوار کے لوگ مستفید ہوں ، حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ مولانا کو گھر پر ٹھہرنا ضروری ہو گیا ، اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم سے حضرت مصلح الامت نے جب فتح پور میں کام کرنے اور قیام کرنے کا ارادہ کیا تو تھانہ بھون سے حضرت بارہ بنکی تشریف لائے اور حضرت مولانا عبد القیوم صاحب سے فرمایا کہ میرا ارادہ فتح پور میں کام کرنے اور رہنے کا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی ساتھ چلیں ، آپ وہاں مدرسہ چلا ئیں اور میں اپنا کام کروں گا ، حضرت مولانا عبد القیوم صاحب بے تامل اور بغیر عذر کے آمادہ ہو گئے ۔ (تذکرہ حضرت مولاناعبدالقیوم صاحبؒ؍25)
اس طرح سے 1350ھ (1931ء)میں مدرسہ انوار العلوم کا قیام وجود میں آیا ۔
ترجمان مصلح الامت حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جامی لکھتے ہیں:
”اس میں تعلیمی خدمت مولوی عبد القیوم صاحب مدظلہ نے اپنے ذمہ لیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑھانے کا حق ادا کردیا۔ بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ تعلیم کے کام میں مشغول رہے”۔(حالات مصلح الامت رحمۃ اللہ علیہ 145/1-146.ناشر :دائرۃ الاشاعت ۔خانقاہ مصلح الامت ۔بخشی بازار الہ آباد ۔سن طباعت :1995)
یہ مدرسہ حضرت مولانا عبد القیوم صاحب فتح پوری (مجاز صحبت حضرت تھانوی اور مجاز بیعت حضرت مصلح الامت ) کے گھر کے ایک حصے اور خانقاہ میں چلتا رہا اور حضرت مصلح الامت کے الہ آباد منتقل ہوجانے کے بعد بھی وہ پوری زندگی اس کی آبیاری کرتے رہے ۔
1994ء میں ان کے صاحبزادے عالی قدر حضرت مولانا قاری شاہ ولی اللہ صاحب برداللہ مضجعه ( خلیفہ مرشد الامت حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب ) کے ذریعے اس کی نشأۃ ثانیہ ہوئی جنہوں نے اسے تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک الگ شناخت دی اور قرب و جوار میں حفظ کی تعلیم کے تعلق سے ایک بہترین مرکز کی حیثیت سے معروف ہوا، اور اب شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ دینی و عصری تعلیم کے سلسلہ میں بھی وہ اپنا مطلوبہ کردار ادا کرے کیوں کہ اس وقت قرب و جوار میں موجود مدارس سرکاری امداد یافتہ ہیں اور تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ان کی جو حالت ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ، چنانچہ روضتہ الاطفال اور پرائمری کے ساتھ عالمیت کی تعلیم بھی شروع کر دی گئی ہے جس میں دینیات کے ساتھ عصری علوم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
شعبہ افتاء کا قیام:
اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے 2021ء میں افتاء کا شعبہ قائم کیا گیا جو متنوع خصوصیات امتیازات کی بناء پر قلیل مدت کے اندر علمی حلقوں میں کافی معروف ومشہور ہوا اور دیار مشرق میں اہل علم کی توجہ کا مرکز اور اولین ترجیح بن گیا۔
شعبہ تکمیل حدیث کا قیام:
بروز شنبہ 16/شعبان 1446ھ مطابق 15/فروری 2025ءکو محدث جلیل ،فقیہ ملت ،داعی کبیر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے دست مبارک سے تکمیل حدیث کا ایک سالہ کورس شروع کیا گیا ہے اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ شعبہ افتاء کی طرح سے یہ شعبہ بھی دین و ملت کی خدمت و ضرورت کی تکمیل میں ایک نمایاں مقام حاصل کرے گا ۔
جامعہ کے اغراض و مقاصد:
جامعہ کے قیام کا مقصد ایسے افراد کی تیاری ہے جو
*کتاب وسنت کا گہرا علم اور دینی بصیرت رکھتے ہوں.
* اسلامی اخلاق وکردار کے حامل اور اسلامی طرز معاشرت کے پابند ہوں .
* احیاء دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے جذبے سے سرشار ، ملی مسائل سے واقف اور وقت کے چیلنج سے آگاہ ہوں۔
ضروریات اور منصوبے:
1-دار التحفیظ کی تعمیر.
2- دار الاقامہ کی توسیع.
3- زمینوں کی احاطہ بندی.
4- مسجد کی تزئین.
5- دار الاقامہ اور درسگاہوں کی تزئین .
6- دینی اور علمی کتابوں کی فراہمی .
تعلیمی وتربیتی شعبے:
شعبہ تکمیل حدیث ،شعبہ افتاء ،شعبه عالمیت، شعبه حفظ القرآن، شعبه تجوید وقراءة ، روضۃالاطفال، شعبہ ابتدائی، شعبه دعوت و تبلیغ ، شعبہ نشر و اشاعت۔
تعاون کی صورتیں:
1-حفظ کے ایک درسگاہ کی تعمیر: 500000. 2-ایک رہائشی کمرے کی تعمیر :335000 . 3-ایک مدرس کی سالا نہ تنخواہ : 120000
4- ایک طالب علم پر سالانہ خرچ : 24000. (۵) ایک حافظ قرآن کا پورا خرچ : 72000. (1) ایک یتیم کا سالانہ مکمل خرچ: 30000.