بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(15)

ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242

 

15-انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم اور تقریر:

 

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ، فَيَلْعَبْنَ مَعِي.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی میری کچھ سہلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں لیکن جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آتے وہ چھپ جاتی تھیں۔ اللہ کے رسول انہیں میرے پاس بھیجتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔(صحيح بخاري:6130،صحیح: مسلم 2440)

قاضی عیاض اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے اور جن حدیثوں میں تصویروں کی ممانعت ہے گڑیوں کو اس سے خاص کر لیا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کو بچپنے ہی میں اپنی ذات کے سلسلے میں اور خانہ داری اور اولاد کی پرورش اور تربیت کے تعلق سے مشق ہو جائے گی. جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں بچیوں کے لیے گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے ۔(المنہاج حدیث: 2440)حنفیہ بھی اسی کے قائل ہیں(1)

‏‏اور حضرت عائشہ سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے:

قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ – أَوْ خَيْبَرَ – وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ، فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ ؛ لُعَبٍ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ ؟ ". قَالَتْ : بَنَاتِي. وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ ؟ ". قَالَتْ : فَرَسٌ. قَالَ : ” وَمَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ ؟ ". قَالَتْ : جَنَاحَانِ. قَالَ : ” فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ ؟ ". قَالَتْ : أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ ؟ قَالَتْ : فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ .( أبو داؤد4932)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس آئے تو میرے طاق پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہوا چلی جس نے پردے کا ایک حصہ کھول دیا۔ جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیا سامنے آگئی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: میری گڑیا ہے. اور آپ نے ان کے بیچ میں گھوڑا دیکھا جس کے اوپر کاغذ کے دو پر لگے ہوئے تھے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: گھوڑا ہے. پھر آپ نے فرمایا اس گھوڑے کے اوپر یہ کیا لگے ہوئے ہیں؟ میں نے عرض کیا دو پر ہیں . آپ نے فرمایا :گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا :کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر لگے تھے. وہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ دندان مبارک نمایاں ہوگئے ۔

جب امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش کی تربیت کی خاطر بچیوں کے لیے کاغذی تصویر بلکہ مجسمہ کی اجازت ہے تو ڈیجیٹل تصویر کی تو بدرجہ اولی اجازت ہے جس کے تصویر ہونے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔(دیکھئے الموسوعہ 113/12)

لہذا ویڈیو کیسٹ اور انٹرنیٹ کے ذریعے دینی ،اور تعلیمی پروگرام کو دیکھنا اور سننا جائز ہے گرچہ اس میں تصویریں ہوں اس لئے کہ صرف ریکارڈر کردہ پروگرام کے سننے سے نہ تو یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی خطیب یا استاذ کو دیکھنے سے جو اثر ہوتا ہے وہ پیدا ہوتا ہے نیز اس کے اشارات اور چہرے کے نقوش کو دیکھ کر بھی بہت کچھ سیکھا جاتا ہے بلکہ بعض چیزوں کو دیکھے بغیر سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔

نیز باطل مذاھب اور تحریکات سے وابستہ افراد ان وسائل کو بروئے کار لاکر اپنے فاسد نظریات سے ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کر رہے ہیں اور آج مسلمانوں کا بھی ایک بہت بڑا طبقہ ان آلات کے ذریعے علم و آگاہی حاصل کرنے کا عادی ہوچکا ہے اور جب اس کو ان ذرائع سے صحیح علم میسر نہیں ہوتا تو اسلام کے نام پر جو غلط خیالات و نظریات اسے ملتے ہیں وہ ان کو دیکھتا اور ان سے متاثر ہوتا ہے ۔

 

(1)عن ابي يوسف يجوز بيع اللعبة وان يلعب بها الصبيان… نسبته الى ابي يوسف لا تدل على ان الامام يخالفه لاحتمال ان لا يكون في المسالة قول.(الدرمع الرد٥٠٥/٧. ط: الأشرفية ديوبند )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے