بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(6)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242
6-اپریل فول:
مغرب کی واہیات و خرافات اور بد تہذیبی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یکم اپریل کو ہنسی مذاق اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کا دن مقرر کیاگیا ہے ۔ یہ بے ہودہ مذاق، گناہ کبیرہ ، سنگین معصیت اور خطرناک مفاسد پر مشتمل ہے۔
1-جھوٹ بولنا:
ہنسنے ہنسانے کے لئے جھوٹ بولا جاتا ہے بلکہ جھوٹ بول کر بے وقوف بنانے کو جائز سمجھا جاتا ہے اور کسی معصیت کو جائز سمجھنا کفر ہے اور گناہ سمجھتے ہوۓ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے :
فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ .
لہذا بتوں کی گندگی اور جھوٹٰ بات سے اس طرح بچ کر رہو.(سورہ الحج :30)
اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟ ". قُلْنَا : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ ". وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ : ” أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ "۔۔۔۔
کیا میں تمھیں سب بڑے کبیرہ گناہوں کے بارے میں باخبر نہ کروں ؟صحابہ کرام نے عرض کیا :ضرور بتائیے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن یہ کہہ کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا:سنو!جھوٹی بات بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ سنو ! جھوٹی بات بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ۔۔۔۔(صحيح بخاري:5976 صحيح مسلم: 87)
اور حضرت معاویہ بن حیدہ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ويلٌ لمن يحدِّثُ فيَكذبُ ليُضحِك بِه القومَ ويلٌ لَه ويلٌ لَه۔(أبو داود :4990. ترمذي:2315، السنن الكبرى للنسائی :11123، وأحمد :20046)
اس شخص کے لئے بربادی ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ،اس شخص کے لئے بربادی ہے ۔اس شخص کے لئے بربادی ہے ۔
اور حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
لا يؤمِنُ العبدُ الإيمانَ كلَّه حتّى يترُكَ الكذبَ في المِزاحةِ والمِراء وإن كان صادقًا.
( أحمد :8630، وابن أبي الدنيا في مكارم الأخلاق:138، والطبراني في المعجم الأوسط :5103.الترغیب للمنذری35/4 )
بندہ اس وقت تک مؤمن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ کو ترک نہ کرے اور بحث و تکرار کو نہ چھوڑے دے گرچہ وہ سچا ہو۔
اور حضرت سفیان بن اسید کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
كبُرتْ خيانةً أن تُحدِّثَ أخاك حديثًا وهو لك مُصدِّقٌ، وأنت له به كاذبٌ.
( أبو داود :4971، البيهقي: 21367 الترغيب والترهيب 54/4)
بڑی خیانت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو اور وہ تمہای بات سچ سمجھ رہا ہے حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔
2-دھوکہ دینا :
اس میں جھوٹ کے ساتھ دھوکہ دہی بھی شامل ہے ،حالانکہ دھوکہ دینا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن حَمَلَ عليْنا السِّلاحَ فليسَ مِنّا، ومَن غَشَّنا فليسَ مِنّا.
(الراوي: أبو هريرة • صحيح مسلم :101)
جو ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ،اور جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
اور حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
المؤمنون بعضُهم لبعضٍ نصَحةٌ وادُّون وإن بعُدت منازلُهم وأبدانُهم والفجَرةُ بعضُهم لبعضٍ غشَشةٌ مُتخاوِنون وإن اقتربت منازِلُهم وأبدانُهم.
(أخرجه أبو الشيخ في التوبيخ والتنبيه ۔ص:21 واللفظ له، والبيهقي في شعب الإيمان: 7648. الترغيب والترهيب 34/3)
مؤمنین ایک دوسرے کے خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے مکانات اور جسم ایک دوسرے سے دور ہوں اور کافر و فاجر ایک دوسرے کودھوکہ دینے والے اور خیانت کرنے والے ہوتے ہیں، اگرچہ ان کے گھر اور جسم قریب قریب ہوں۔
3-ستانا اور پریشان کرنا:
بے ہودہ مذاق کی وجہ سے بہت سے لوگ شدید پریشانی میں مبتلا ہوجاتے بلکہ بعض لوگ جھوٹی خبر کو سچ جان کر شدت غم کی وجہ سے مرجاتے ہیں ۔اور مومنین کو پریشانکرنا در حقیقت غضب الٰہی کو دعوت دینا ہے چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ بِغَیۡرِ مَا اکۡتَسَبُوۡا فَقَدِ احۡتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا .
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، انہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے۔( سورہ الاحزاب : 58)
اور حدیث میں ہے :
المسلم من سلم المسلمين من لسانه ويده .(صحيح بخاري)
مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ملعونٌ من ضارَّ مسلمًا أو مكرَ به
(أخرجه الترمذي :1941 واللفظ له، والبزار: 43، وأبو يعلى:96)
وہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے جو کسی مؤمن کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ چال بازی کرے۔
اورحضرت عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے مذاق میں دوسرے شخص کی چپل کو غائب کردیا ۔رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ آیا تو آپ نے فرمایا:
لا تُروِّعوا المسلمَ فإنَّ روعةَ المسلمِ ظلمٌ عظيمٌ.
(الترغيب والترهيب 403/3)
کسی مسلمان کو خوف میں مبتلا نہ کرو ؛کیونکہ مسلمان کو خوف میں مبتلا کرنا بہت بڑا ظلم ہے ۔
4-شرکیہ پس منظر:
اپریل فول کا پس منظر شرکیہ ہے چنانچہ بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس (venus) کی طرف منسوب کر کے مقدس سمجھا کرتے تھے اس لیے بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی تھی اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا اس لیے اس دن کو لوگ جشن مسرت منایا کرتے تھے اور اسی جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کر کے اپریل فول کی شکل اختیار کر گیا.
برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کر کے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے لہذا لوگوں نے اس زمانے میں ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا شروع کر دیا۔(دیکھئے :ذکر و فکر /67 از مفتی محمّد تقی عثمانی)
5-ایک نبی کی اہانت کی یادگار:
ایک تیسری وجہ انیسویں صدی عیسوی کی معروف انسائیکلوپیڈیا لاروس نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے، جو یہ ہے کہ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا ۔
اگر یہ بات درست ہے تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی اور اس کا منشا حضرت عیسی علیہ السلام کی تضحیک ہوگی لیکن یہ بات حیرت ناک ہے کہ جو رسم یہودیوں نے( معاذ اللہ )حضرت عیسی علیہ السلام کی ہنسی اڑانے کے لیے جاری کی اسے عیسائیوں نے کس طرح ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف قبول کر لیا بلکہ خود بھی اسے منانے اور رواج دینے میں شریک ہو گئے.(حوالہ مذکور)
6- اپنی بربادی کا جشن:
کہا جاتا ہے کہ جب اسپین پر نصرانیوں نے قبضہ کرکے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو بہت سے مسلمان جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش ہوگئے، انہیں باہر نکالنے کے لئے اعلان کیا گیا کہ جو لوگ یہاں سے جانا چاہتے ہیں ان کے لئے ایک سمندری جہاز کا انتظام کردیا گیا ہے، یہ سن کر بہت سے لوگ آکر ایک جہاز میں سوار ہوگئے اور پھر اسے بیچ سمندر میں لے جاکر ڈبو دیا اس دن یکم اپریل کی تاریخ تھی اور نصرانیوں نے مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر جشن منایا۔